اعلامیہ جمعیت علماء اسلام بلوچستان
جمعیتہ علماء اسلام سمجھتی ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے بلوچستان کے حوالے سے مسلسل سرد مہری، بے حسی اور غیر سنجیدگی نے یہاں کے عوام کو شدید مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ "ملک کی سیاسی صورتحال معمول پر آچکی ہے" دراصل بلوچستان کے حالات سے غفلت غیر سنجیدگی اور عوام کی استحصال کے مترادف ہے۔ جمعیت علماء اسلام اس طرزِ عمل کو شدید تشویش کی نظر سے دیکھتی ہے ، اور یہ سمجھتی ہے کہ اگر وقت پر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے، تو اس کے مستقبل میں اچھے نتائج مرتب نہیں ہونگے۔
جمعیت علماء اسلام روز اول سے اس بحرانی کیفیت میں بالغ نظری، مصالحت اور سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ہم نے سیاسی اختلافات کے باوجود صوبے کے تمام طبقات سے رابطے رکھے، قومی فورمز پر سنجیدہ تجاویز دیں اور ہر سطح پر یہ پیغام دیا کہ بلوچستان مزید کسی "نئے تجربے" کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی قیادت کو پارلیمان سے باہر رکھ کر ان عناصر کو تقویت دی گئی جو یہ مؤقف رکھتے تھے کہ پارلیمان ملک کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ آج جب پارلیمان بے اختیار اور نمائندگی سے محروم ہے، تو شدت پسند بیانیے کو جواز مل چکا ہے۔
حقیقی سیاسی قیادت کو ماضی میں جن مخالفتوں، دباؤ اور مشکلات کا سامنا رہا ہے، اس کا اندازہ صرف وہی قیادت کر سکتی ہے جو اس صوبے سے جڑی ہوئی ہو، عوام سے جڑی ہو، اور جس نے قربانیاں دے کر میدانِ سیاست میں مقام حاصل کیا ہو۔ ان قیادتوں کو دیوار سے لگانا صرف ایک جماعت یا فرد کو نہیں بلکہ جمہوریت، ریاست اور استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں صوبے میں بار بار وزیر اعلیٰ کی تبدیلی، عوامی مینڈیٹ کے خلاف "نو کانفیڈنس" کی آڑ میں حکومتوں کا گرایا جانا، اور مصنوعی قیادتوں کو مسلط کرنا ایسے اقدامات ہیں جنہوں نے نہ صرف سیاسی عمل کو مجروح کیا بلکہ سیکیورٹی کی فضا کو بھی خراب کیا۔ سی پیک جیسے میگا پراجیکٹس میں بلوچستان کو نظر انداز کر کے مقامی نوجوانوں کو احساس محرومی میں مبتلا کیا گیا، اور یہی خلا بیرونی دشمنوں کے لیے Proxies کھڑی کرنے کا موقع بن گیا۔ جو انکے جذبات کو بڑھکانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔
صورتحال سے نکلنے کے لیے وفاقی حکومت کو فوری اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ وفاق اور صوبے کے در میان اعتماد کا ایک مضبوط پل تعمیر ہو سکے۔ وفاقی حکومت کو اس ضمن میں اولین قدم اٹھاتے ہوئے صوبے کو اس کے تمام آئینی حقوق دینے کے لیے ایک پائیدار اور جامع پالیسی مرتب کرنی چاہیے، جس میں صوبے کی حقیقی عوامی نمائندہ قیادت کی مشاورت شامل ہو، تاکہ تمام فیصلے عوام کے حقیقی مفاد میں ہوں اور صوبے کی ترقی کے راستے ہموار ہوں۔
صوبے کے عوام کو احساس محرومی سے نکالنے کے لیے، وفاقی حکومت کو دوسرے صوبوں کی طرح یہاں بھی فوری طور پر میگا پروجیکٹس کا اعلان کرنا چا چاہیے۔ ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فوری اور موثر احکامات جاری کیے جائیں تاکہ صوبے کی معیشت میں انقلاب برپا ہو سکے اور عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ صوبے کے حقیقی عوامی نمائندوں کو اس عمل کا حصہ بنایا جائے، تاکہ ان کی قیادت میں صوبے کے حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس کے لیے صوبے کے حقیقی عوامی سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو مضبوط مذاکراتی مینڈیٹ دینا چاہیے تاکہ تمام فریقین کے تحفظات کو دور کیا جا سکے اور ایک ایسا لائحہ عمل تیار کیا جا سکے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ مذاکرات اور بات چیت کا یہ عمل نہ صرف صوبے کی ترقی کے لیے ضروری ہے، بلکہ وفاق اور صوبے کے درمیان ایک نئے تعلق کی بنیاد رکھے گا۔ جمعیت علماء اسلام نے اس نازک ترین مرحلے پر بھی ریاست کو مفاہمت کا راستہ دکھایا، یہ تلخ حقیقت سب کو تسلیم کرنا ہوگی کہ سب سے زیادہ ناانصافیاں، سب سے زیادہ دہشتگردی، اور سب سے زیادہ قربانیاں جمعیت علماء اسلام نے برداشت کی ہیں۔ ہمارے کندھوں نے شہداء کے جنازے اٹھائے ہیں، ہمارے دل آج بھی نوحہ کناں ہیں، ہر کارکن کے سینے میں ایک داستان غم دفن ہے، لیکن پھر بھی ہم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، اور برداشت کی چادر کو تار تار نہیں ہونے دیا۔
کارکنوں کو اشتعال سے روکا، احتجاجی جلسے جلوسوں سے اجتناب برتا، اور ایک بار پھر صبر و حکمت کو ترجیح دی۔ مگر اب یہ بات واضح ہے کہ صبر کو کمزوری سمجھنا ریاستی مفاد میں نہیں۔ ہماری جماعت نے ریاستی جبر، سیاسی انتظام اور کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ کا سامنا کیا، مگر پھر بھی قومی مفاد کو مقدم رکھا۔ لیکن اگر حالات نہ بدلے گئے تو جمعیت علماء اسلام اپنے آئینی اور جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے بھر پور احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
وفاقی و ریاستی ادارے اب بھی اگر سنجیدگی، تدبر اور حقائق پر مبنی پالیسی نہ اپنائیں، تو ممکنہ نتائج کا بوجھ صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پوری ریاست کو اٹھانا پڑے گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ بلوچستان کے عوام ان کی قیادت، ان کے مسائل، اور ان کے احساسات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ جمعیت علماء اسلام بجھتی ہے کہ حقیقی استحکام صرف اس وقت آئے گا جب بلوچستان کے عوام کو یہ احساس ہو کہ وہ اس ریاست کے برابر کے شہری ہیں، ان کی آواز سنی جاتی ہے، اور ان کی شرکت فیصلہ سازی میں شامل ہے۔
جمعیت علماء اسلام بلوچستان کی موجودہ ماحول میں خواہ وہ صوبائی حکومت کے درمیان ہو یا بلوچستان کے موجودہ سیاسی صورتحال کے درمیان ہو
بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے لوگوں کے ہر قسم کی آئینی قانونی سیاسی اور معاشی حقوق کے لیے ہر سطح کی مزاکرات یا ثالثی کیلئے تیار ہوگا ۔
جاری کرده: دلاور خان کاکڑ
ترجمان جمعیت علماء اسلام بلوچستان
سید محمود شاه
سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام بلوچستان
![]() |
ایک تبصرہ شائع کریں