دور حاضر کی مؤثر جنگ۔ حافظ علی گل سندھی

دور حاضر کی مؤثر جنگ

 حافظ علی گل سندھی

دنیا میں مختلف طرح کی جنگوں کا تصور موجود ہے۔ زمانہء قدیم میں جنگیں ہتھیاروں کی محتاج ہوا کرتی تھیں، اور اس وقت مؤثر ہتھیار تلوار، تیر،خنجر اور نیزے ہوا کرتے تھے۔ اس وقت فتح و شکست کا فیصلہ یہ دیکھ کر کیا جاتا تھا کہ فریقِ مخالف کے کتنے بندے مارے گئے اور اس کے کتنے علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور اس کا لشکر میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔

لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ جنگوں کی نوعیت بھی بدل گئی، آلاتِ حرب بھی بدل گئے، تیر کی جگہ گولی نے لے لی، محاصرہ کرکے انتظار کرنے کی جگہ بموں نے لے لی، گھوڑوں اور اونٹوں کی جگہ تیز رفتار گاڑیوں نے لے لی۔ 

اور یوں لمبے عرصے تک اس نوعیت کی جنگیں لڑی جاتی رہیں۔ فتوحات اور شکستیں ہوتی رہیں ممالک پر قبضہ کیا جاتا رہا اور خطرناک ترین ایٹم بم گراکر ملکوں کو تباہ و برباد کیا جاتا رہا جن میں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے جیسے ہیروشیما اور ناگاساکی وغیرہ۔۔۔ 

پھر پرانے دور سے ہم جدت کی طرف آگئے۔ پھر زمانے نے کروٹ بدلی، آقا و غلام بھی بدل گئے، طاقتور بکھر گئے اور بکھرے ہوئے آقا بن کر حکمرانی کرنے لگے، روم کی جگہ روس اور فارس کی جگہ امریکہ نے لے لی اور یوں نئے انداز میں دنیا پر حکمرانی کا آغاز ہوگیا۔ 

آج کے جدید دور میں جو جنگیں لڑی جارہی ہیں وہ بجائے تیر و تلوار یا بم و بارود کے معاشی لحاظ سے ملکوں کو کمزور کرکے حکمرانی کی جارہی ہے اور اس کیلئے پالیسی یہ اپنائی جارہی ہے کہ کمزور اور غریب ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کرو، پھر اپنے ایجنٹوں کو اس ملک میں متحرک کرکے تخریبی کارروائیاں کرواؤ اور پھر دہشتگردی کے خاتمے کا نعرہ مستانہ لگا کر اس ملک میں کود جاؤ اور قبضہ کرکے وہاں کے حقیقی حکمرانوں کو جیل اور گولی سے خاموش کرکے ملک کے اقتدار پر اپنے زرخرید غلام بٹھاؤ۔

آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں یہ وہ زمانہ ہے کہ ہم آزاد ملک ہوتے ہوئے بھی معاشی لحاظ سے اس قدر کمزور ہیں کہ چند ڈالروں کی خاطر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ترلے کرنے پڑتے ہیں اور پھر انکی عائد کردہ پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں، یوں عملی طور پر ہم غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

دورِ حاضر میں پوری دنیا کی معیشت پر چند لاکھ نفوس پر مشتمل افراد (یہودیوں) قبضہ کیے ہوئے ہیں، اپنے آپ کو سپر پاور کہلانے والا امریکہ کو بھی اپنی پالیسیوں میں یہودی سرمایہ کاروں کی رعایت رکھنی پڑتی ہے۔ اسلیے کہ امریکہ کی معیشت بھی دراصل یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے۔

اب امریکہ و اسرائیل نے پوری دنیا بالعموم اور مسلم ممالک بالخصوص کیلئے یہ پالیسی بنائی ہوئی ہے کہ جو مسلم یا غیر مسلم ملک اپنے ملکی وسائل پر ہمارا ناجائز حق (بھتہ خوری) قبول کرے گا اسکو امداد بھی ملے گی، اس ملک میں ظاہری طور پر امن و امان بھی ہوگا اور اس کی معیشت بھی بہتر رہے گی۔

یعنی یوں سمجھ لیں کہ اس ملک کی معیشت ہو یا امن و امان کا مسئلہ امریکہ و یہودیوں کی مرہونِ منت ہوگا۔

اور جو اس کے برعکس چلے گا وہ اس کی سزا بھگتے گا جس طرح عراق کے صدر صدام حسین نے یا لیبیا کے کرنل قذافی یا دیگر نے بھگتی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی و معدنی وسائل سے مالامال کر رکھا ہے جس نعمت سے غیر مسلم ممالک محروم ہیں اور یہ بزور بازو ہر قیمت پر ان وسائل پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں، اور یہ خدمات وہ مسلم حکمرانوں سے ڈرا دھمکا کر یا اقتدار کی لالچ دے کر وصول کررہے ہیں اور یہ حضرات خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ہمیں حکمرانی مل گئی لیکن:

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

   جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

اب چونکہ غیر مسلم ممالک قدرتی وسائل سے تو محروم ہیں، ان کی معیشت کا سارا دارومدار اپنی مصنوعات پر ہوتا ہے، اور وہ مختلف ممالک سے معاہدات کرکے اپنی کمپنیاں ان ملکوں میں بناتے ہیں اور یوں ان کو گھر بیٹھے ڈالر مل رہے ہوتے ہیں۔

اگر ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرلیں تو ان کی ساری معیشت دھڑلے سے زمین بوس ہو جائے گی اور یہ ناک رگڑتے ہوئے قریش مکہ کی طرح مسلمانوں کے سامنے پیش ہونگے کہ اپنے ناکردہ جرائم بھی تسلیم کریں گے۔

(تحریر کے طوالت کے پیش نظر مثالیں پیش نہیں کر رہا ورنہ دور قدیم سے لیکر آج تک ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں)

اسرائیل پوری دنیا میں ایک نامی گرامی دہشتگرد کا روپ دھار چکا ہے اور اس نے پوری امت مسلمہ کے سینے پر خنجر گھونپ کر مسجد اقصیٰ پر قبضہ کیا، دھونس دھاندلی اور ظلم و جبر کی بنیاد پر فلسطینی زمینوں پر قبضہ کیا اور گزشتہ ڈیڑھ سال سے جس طرح وہ غزہ کی پٹی پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہا ہے اس نے اس ملعون و مطعون قوم کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے اور پوری دنیا میں یہ آوازیں لگنا شروع ہوگئی ہیں کہ:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

 نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

اسلیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں کی کچھ مدد کرسکیں تو سب سے پہلے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جو دکاندار اس ظلم عظیم کی داستان قائم ہونے کے بعد بھی اسرائیلی مصنوعات کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے تو اس کا بھی بائیکاٹ کریں اور جب تک وہ اس عمل سے تائب نہیں ہوتا اس کا ہر محاذ پر بائیکاٹ برقرار رکھیں اور یہ بائیکاٹ وقتی طور پر نہیں ہونا چاہیئے بلکہ جب تک یہ دہشت گرد گروہ اپنے بد انجام تک نہیں پہنچتا اس کو جاری رکھیں، اگر آپ کے عزائم اس طرح زندہ و تابندہ رہے تو وہ دن دور نہیں جب اسرائیل فنا ہو جائے گا اور فلسطین ایک آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا نظر آئے گا۔

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو

 طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے


0/Post a Comment/Comments