امام اہلسنت و استحکام پاکستان کانفرنس تونسہ میں کی گئی قائد ملت اسلامیہ کی تقریر کے اہم نکات
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
مولانا فضل الرحمن صاحب کا تونسہ میں امام اہلسنت و استحکام پاکستان کانفرنس میں خطاب ایک نہایت اہم اور گہری بصیرت سے لبریز پیغام تھا، جو صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک روشن رہنمائی کی مانند تھا۔ مولانا صاحب نے جس انداز میں امت مسلمہ کی حالت زار کو بیان کیا اور مغربی سامراج کی طاقتوں کی زیر اثر آ کر ہمارے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے پر پڑنے والے اثرات کو اجاگر کیا، وہ قابلِ تحسین تھا۔
مولانا صاحب نے بے خوفی سے کہا کہ "غلامی سے بغاوت ہماری شناخت ہے"، یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر مسلمان کے دل میں ایک طوفان کی مانند گونجتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اسلامی شریعت کے اصولوں پر ثابت قدم رہیں گے تو نہ صرف ہم بیرونی تسلط سے آزاد ہو سکتے ہیں، بلکہ ہمیں داخلی اصلاحات کرنی ھوں گی تاکہ ہمارے معاشی اور سماجی نظام کو اسلامی روایات کے مطابق ڈھالا جا سکے مولانا صاحب کا یہ پیغام کہ مغربی ثقافت کی تقلید کے بجائے اپنی تاریخ، تہذیب اور اسلامی اقدار کو اپنانا ضروری ہے، ایک سنجیدہ چیلنج ہے جو ہمارے معاشرے کو درپیش ہے۔
مولانا صاحب نے فلسطین کے مسئلے پر بھی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی آزادی مسلمانوں کی عالمی ذمہ داری ہے اور ہمیں اس مسئلے پر یک آواز ہو کر عالمی سطح پر اپنی بات منوانی ہوگی انہوں نے نیتن یاہو کے جارحانہ اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا نیتن یا ہو جنگی جرائم کا مرتکب ھوا ھے اور اسرائیل کا ظلم مسلمان حکمرانوں کی غیرت و حمیت کا امتحان ھے، عام مسلمانوں کو اسرائیلی مظالم خلاف اپنی آواز بلند کرنا ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، تو ہم اپنے دین، اپنے حقوق، اور اپنی تاریخ کے دشمن بن جائیں گے۔
ان کا موقف کہ پاکستان کو سودی نظام سے پاک کرنا اور اسلامی معیشت کی طرف قدم بڑھانا ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے ان کا عزم یہ ہے کہ 2028 تک پاکستان میں سودی نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا، جو ملک کے معاشی استحکام کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں نہ صرف عالمی سطح پر مسلمانوں کی سیاسی پوزیشن پر بات کی بلکہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھی ایک طاقتور پیغام دیا کہ ہم اپنی خودمختاری، آزادی اور شریعت کی پاسداری کے لیے ہر صورت میں متحد رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی طاقتوں کی آلہ کار بننے کی بجائے ہمیں اپنے حقیقی اصولوں اور تاریخ سے جڑنا ہوگا تاکہ ہم ایک مضبوط اور باعزت قوم کے طور پر دنیا میں اپنا مقام حاصل کر سکیں۔
مولانا صاحب کا یہ خطاب ایک عہد تھا، ایک تحریک تھی، جو ہمیں اپنے حقوق، آزادی اور شریعت کے لیے جدوجہد کی ترغیب دیتا ہے یہ پیغام مسلمانوں کو اپنے اسلامی تشخص، اتحاد اور وقار کے لیے آگے بڑھنے کی دعوت دیتا ہے یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے لیے ایک بہتر اور روشن مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں