قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا اے بی این نیوز کے پروگرام سوال سے آگے میں علینہ شگری کو خصوصی انٹرویو
25 اپریل 2025
السلام علیکم ناظرین پہلگام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے یک طرفہ اقدامات لینے کے بعد پاکستان کی جانب سے ایک ٹھوس رد عمل آیا ہے گزشتہ روز اور آج دیگر سیاسی جماعتیں اس پر اپنا رد عمل بھی اس کا اظہار کر رہی ہیں کس حد تک وہ تائید کرتی ہیں موجودہ فیصلوں کے حوالے سے بھارت کے خلاف کیونکہ بھارت کی جو جارحیت ہے اور ان کے جانب سے ان کی وزیراعظم کے جانب سے جو بیانات کا سلسلہ ہے وہ تا حال جاری ہے، ملک میں ایسے وقت میں سیاسی اتحاد کی بھی بڑی اشد ضرورت ہے ایک جو نیشنل یونٹی ہے اس کی اشد ضرورت ہے وہ کیسے ممکن بنایا جائے اور دیگر جو اپوزیشن کے اتحاد کی جہاں پر بات آتی ہے جہاں پر سیاسی جماعتیں بہت تگ و دو کر رہی ہیں کہ ایک جماعت جس کی بڑی سیاسی پاور ہے بڑی سٹریٹ پاور رکھتی ہے اس جماعت کو کس طرح سے ان کے سربراہ کو کس طرح سے کنونس کیا جائے ان کو منایا جائے گفتگو اس پر بھی ہوگی اور ملکی جو موجودہ عدالتی نظام ہے اور جو حالیہ کچھ فیصلے ایسے جس نے ان پر بڑا ڈیپلی ایک امپیکٹ ان کا ایک اثر نظر آتا ہے اس موجودہ صورتحال میں ان معاملات کو کیا ایسے چلایا جا سکتا ہے یا کوئی ایک چینج کوئی تبدیلی ایکسپیکٹڈ نظر آتی ہے، میں مشکور ہوں آج اس وقت اس سپیشل پروگرام میں سپیشل انٹریو میں ہمیں جوائن کریں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ پی ڈی ایم کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمان صاحب۔
علینہ شگری: مولانا صاحب السلام علیکم
مولانا صاحب: وعلیکم السلام
علینہ شگری: مولانا صاحب بہت شکریہ پروگرام میں وقت دینے کے لئے
مولانا صاحب: بہت مہربانی
علینہ شگری: سب سے پہلے تو گفتگو کا آغاز پہلگام حملے کے بعد جس طرح میں نے کہا یک طرفہ فیصلہ کیا گیا بھارت کی جانب سے اقدامات کیا گیا اور ہم نے گزشتہ روز بڑے سارے اقدامات کیے جس سے بھارت کی جانب سے ردعمل کا سلسلہ مزید اب تیز ہوگیا ہے، آپ نے کشمیر کمیٹی کی بڑی طویل عرصے تک اس کی سربراہی کی آپ کی جماعت اور آپ خود مطمئن ہیں جو فیصلے ہم نے کئے یا مزید اس میں کوئی سخت فیصلے کئے جا سکتے ہیں؟
مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلگام میں جو وقوعہ ہوا ہے پاکستان نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ہم سب سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے جو واقعے حادثات کوئی کرتا ہے وہ قابل تحسین نہیں ہوا کرتے لیکن اس معاملے کو گھمبیر بنایا ہے انڈین گورنمنٹ یا ان کے پرائم منسٹر مودی انہوں نے اس کو گھمبیر بنا دیا ہے اور انہوں نے اس کا ردعمل کچھ اس طرح سے دیا ہے جیسے کہ پانچ منٹ کے اندر اندر انہوں نے پاکستان کو بھی نامزد کر دیا پانچ منٹ کے اندر اندر انہوں نے حملہ آوروں کو بھی نامزد کر دیا اور پانچ دس منٹ کے اندر اندر ایف آئی آر بھی۔۔۔۔۔ اس نے خود انڈیا کی پوزیشن انتہائی مشکوک بنا دی ہے اور جس انداز سے انہوں نے اقدامات کیے ظاہر ہے کہ پاکستان کو اس کا جواب دینا تھا، یہاں پر اگر ہماری فوج ہے ہمارے سولجرز کھڑے ہیں سرحدات پر کھڑے ہیں اور ہماری قوم ہے عام آدمی ہے اس کے مورال کو انچا کرنے کیلئے ظاہر ہے کہ ہمیں ترکی با ترکی ہی جواب دینا تھا اور ہمارے اندر یہ جواب دینے کی پوری صلاحیت بھی ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم بالکل گئے گزرے لوگ ہیں، تو جو کل ہماری پاکستان کے سیکورٹی کمیٹی نے جو رد عمل دیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے اس جارحانہ رویے کے مقابلے میں پوری پاکستانی قوم ایک صف ہے اور حکومت ہو اپوزیشن ہو فوج ہو تمام ادارے ہوں وہ ایک قوم بن کر اپنے وطن عزیز اور اس کے سرزمین کی دفاع کیلئے تیار ہیں، تو وہ کسی طریقے سے بھی اور پھر آپ جانتی ہیں کہ مودی بذات خود جب یہ وزیراعلیٰ تھا گجرات کا تو اس وقت بھی انہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور مجرم گجرات متعارف ہوا اس نے فرقہ واریت کی بنیاد پر وہاں سیاست کی، ہندو مسلمان کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کرنے کی اور آج ایک بار پھر وہ اپنے اس ذہنیت کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ کسی طریقے سے وہ ہندو مسلم فسادات کروا کے اور پاکستان انڈیا کے مسئلے سے وہ ہندو مسلم کا فائدہ اٹھا کے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کی کوشش کر رہا ہے، میں حیران ہوں اس بات پر کہ ملک کا ایک وزیراعظم جس کے اوپر اتنا بار امانت پڑا ہو اور قوم نے اس کو ایک مینڈیٹ دیا ہو لیکن وہ ہندوستان پاکستان خطے میں آگ لگانے پر تلا ہوا ہے جس سے کہ نہ ہندوستان کا کوئی فائدہ ہوگا نہ پاکستان کو کوئی۔۔۔ جنگ میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا جی
علینہ شگری: لیکن مولانا صاحب اس عرصے میں مودی کو آپ نہیں سمجھتے کہ اس کا حوصلہ پھر بہت بڑا ہے کہ وہ بغیر ثبوت کے پاکستان پر تواتر کے ساتھ اور اب تو پاکستان اور یہ دہشتگرد کہہ کہہ کے ہم پہ الزام لگا لگا کے یہ کہتے ہیں کہ ہم صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے جبکہ پاکستان جس کے پاس تمام ان کی دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں، ہم آپ کو لگتا ہے کہ یا اپنا کیس اس طرح سے انٹرنیشنل فورم پہ نہیں پریزینٹ کر پائے؟
مولانا صاحب: نہیں انٹرنیشنل فورم پہ جانے سے پہلی ہی ہندوستان جو ہے وہ اپنا موقف ہار چکا ہے اور دو دن کے اندر اندر وہ ایسا ایکسپوز ہوا ہے کہ نہ بین الاقوامی برادری اس حد تک ان کے ساتھ جانے کو تیار ہے اور نہ ہی آج کے دور میں ایک دم کسی ملک کے اوپر حملہ کرنے کے گنجائش ہے کیونکہ بین الاقوامی ادارے ہیں ان کے قوانین ہیں ان کے ضابطے ہیں اور اگر وہ اس طرح جنگ چھیڑتے ہیں تو جنگوں سے تو پہلی بھی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اب پاکستان کی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہے، دفاعی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہے تو پاکستان ان کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوا اور اس نے واضح طور پر جو اس کی جارحانہ گفتگو کے جواب میں یا ان کے اقدامات کے جواب میں جو اقدامات اٹھائے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اسی نے ہی ہندوستان کو پسپا کر دیا ہے۔
علینہ شگری: مولانا صاحب جو اس وقت ایک قومی اتحاد کی اور سیاسی اتفاق کے رائے کی ضرورت ہے آپ وزیراعظم صاحب کو اور چونکہ ہم بھارت میں دیکھ رہے تھے کہ گزشتہ روز انہوں نے آل پارٹیز میٹنگ کانفرنس بلائی تھی آپ وزیراعظم کو تجویز کریں گے کہ وہ بھی یہاں پر سیاسی اتفاق کے رائے کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں۔
مولانا صاحب: بہتر تو یہ ہی ہے کہ ہم پاکستان میں ہیں باقاعدہ یعنی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورے پارلیمنٹ کو بلائے پارلیمنٹ کے تمام قیادت کو بلائے پارٹیز کو بلائیں ان کے سربراہوں کو بلائیں اور وہ ایک قوم کے طور پر بیٹھ کر اس کا ایک باقاعدہ جواب دے تاکہ دنیا میں بھی میسج جائے ہندوستان کو بھی معلوم ہو کہ ہم بھی یہاں پر اپنے داخلی اختلافات کو معطل کر کے ایک قوم بن کر آپ کے اس جارحانہ عمل کے مقابلے میں ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کھڑے ہیں۔
علینہ شگری: مولانا صاحب میں نے یہ سوال گزشتہ روز اپنے پروگرام میں وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب سے کیا اور میں نے کہا کہ آپ تمام پارٹیز کو بلانا چاہیں گے تو انہوں نے کہا عمران خان صاحب سے متعلق بلکل یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ان کو نہیں بلایا جائے گا آپ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اس وقت جو اس وقت ایک سٹینڈنگ رکھتی ہے اور آپ نے جس طرح کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو بھی بلانا چاہیے عمران خان کو بلانا چاہیے اور آن بورڈ لینا چاہیے اس وقت ملکی بات ہے۔
مولانا صاحب: دیکھئے میں ایک گزارش کروں گا ہمیں کسی شخصیت میں نہیں پھونکنا چاہیے اور اگر عمران خان صاحب کو وہ رہا کرتے ہیں آتے ہیں سر آنکھوں پہ ہمیں کوئی کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اگر وہاں کوئی پرابلم ہے وہاں کوئی مسئلہ ہے تو پارٹی تو ہے باہر ان کی ان کے لوگ تو ہیں پارلیمنٹ میں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کی نمائندگی کر سکتے ہیں تو اس حوالے سے ان کو اعتماد میں لینا چاہیے اور نہ حکومت کو یہ مسئلہ اٹھانا چاہیے کہ ہم عمران خان کو نہیں بلائیں گے نہ ہی پی ٹی آئی کو یہ موقف لینا چاہیے کہ اس کے بغیر ہم شرکت نہیں کریں گے، یہ وقت ایسا ہے کہ جہاں ہمیں بہت سی چیزوں کو نظر انداز کر کے ایک قومی سطح کے فیصلہ لینے ہوں گے۔
علینہ شگری: مولانا صاحب آپ کو یاد ہوگا کہ جب قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کا جب اجلاس بلایا گیا تھا تو پاکستان تحریک انصاف نے اس وقت بھی یہ بات اٹھائی تھی کہ ہمارے لیڈر سے ہمارے سربراہ سے ملاقات کرنے دی جائیں جو کہ ملاقات تاحال نہیں ہو سکی تو ان کے لیے معاملات مشکل ہیں ان کو مشاورت کرنے دیا جاتا نہیں ہے تاکہ یہ آن بورڈ آ جائیں۔
مولانا صاحب: یہ دیکھئے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے رائے دوں ایک یہ کہ سٹیٹ نے جو ایک پوزیشن لی ہوئی ہے تو اب ظاہر ہے کوئی پارٹی اگر ایک پوزیشن لے لیتی ہے یا سٹیٹ ایک پوزیشن لے لیتی ہے یا گورنمنٹ ایک پوزیشن لے لیتی ہے تو اس پوزیشن کو چھوڑنا وہاں سے سرکنا اس سے تھوڑا سا نرمی اختیار کرنا ظاہر ہے یہ تو ان سے پوچھنا پڑے گا کہ آپ اپنی اس پوزیشن کو چینج کرنے کے یہ تیار ہیں یا نہیں ہے تیار، اگر بالفرض کوئی اپنی پوزیشن لینے کو تیار نہیں ہے تاکہ ہم نے تو سیاسی لوگ ہیں ہم نے تو سیاسی رویوں کی اپنانا ہے۔
علینہ شگری: مولانا صاحب نہروں کے معاملے پہ گزشتہ روز جو ڈیویلپمنٹ سامنے آئی ہے آپ کی بھی نظر سے گزری ہوگی وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے بظاہر ایسا لگ رہا ہے بلاول صاحب کو منا لیا ہے، آپ کی بھی ایک سٹیٹڈ پوزیشن اس نہروں کے معاملے پہ سامنے آئی ہے آپ نے کہا کہ مسترد کرتے ہیں، یہ بھی وقتی طور پہ آپ کو لگتا ہے کہ اس کو روک دیا گیا ہے کیونکہ قومی مفادات کونسل کے اجلاس 2 مئی کو بلائے جائے گا اس کے بعد پھر یہ کچھ فیصلہ ہوگا۔
مولانا صاحب: سوال یہ ہے کہ جس مسئلے کا تعلق چاروں صوبوں سے ہو یا ایک صوبے اور دوسرے صوبے کے مفادات کا مسئلہ اس سے وابستہ ہو تو اس پر مفادات کونسل جو ہے اس کو بلا کر ان سے منظوری لینے پڑتی ہے یہ کیا مطلب کہ تنازعہ پیدا ہو گیا تو آپ اس کے بعد پھر اجلاس بلا رہے ہیں کہ آپ ان سے پوچھیں یہ تو پہلے بلانا چاہیے تھا تو اس قسم کے جو بے احتیاطیاں ہوتی ہیں مثال کے طور پر جو مائنز اینڈ مِنرل بل ہے وہ بھی اسی طرح متنازعہ ہیں اس میں بھی دو صوبوں کے عوام جو ہے وہ اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اس طرح سے جی۔۔۔
علینہ شگری: اور بلوچستان میں آپ کی لوگوں کے حوالے سے بھی جو سوال اب پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے ان کو توڑ لیا۔
مولانا صاحب: وہ اس پر میں ابھی اس لئے تبصرہ نہیں کروں گا کہ ہم ان کے نام پر شوکاز جاری کر چکے ہیں جب جواب آئے گا تو ہم اس پر تبصرہ کریں گے جب تک اگر ہم نوٹس نہ دے چکے ہوتے ہم نے ان کو جواب کیلئے آمادہ نہیں کرنا تھا تب تو شاید میں کوئی تبصرہ کر لیتا لیکن چونکہ یہ پارٹی کا اب اندرونی معاملہ ہے اور ہم ان کو شوکاز جاری کر چکے ہیں صوبائی جماعت نے تو جب جواب آئے گا اس کے بعد ہی پھر بات ہو جائے گی۔
علینہ شگری: مولانا صاحب آپ چونکہ تواتر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے اور یہ عوامی مسائل حل کرنے میں بھی جو ناکامی ہے وہ موجودہ حکومت کو ہی آپ نے اس کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے سو آپ جہاں پر مطالبہ کرتے ہیں نئے الیکشنز کا وہ الیکشنز کروائے گا کون؟
مولانا صاحب: دیکھیے الیکشن کروانے کیلئے ادارے موجود ہیں لیکن اداروں کو کام کرنے دیا جائے، ادارے کو با اختیار بنایا جائے، الیکشن کمیشن کو با اختیار ہونا چاہیے، ایک ڈمی الیکشن کمیشن صرف بیان دیتا ہے کہ ہم خود مختار ہیں اور سارے فیصلے جو ہے ٹھیک ہوئے ہیں اس پر لوگ راضی کر دیتے ہیں حقائق لوگ جانتے ہیں، پولنگ سیشن پر میں بیٹھا ہوا ہوں پولنگ بوت پر میں بیٹھا ہوا ہوں مقامی طور پہ مشاہدات میں کر رہا ہوں ہر جگہ پر میرے ایجنٹس الیکشن کے میرے پارٹی کے کارکن ہر پولنگ سیشن پر موجود ہوتے ہیں ساری صورتحال کا آنکھوں دیکھا وہ مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں جی، جس وقت ڈسٹرک ہیڈکوارٹر میں ووٹ جمع ہوتے ہیں وہاں جو گنتیاں ہوتی ہیں اس گنتیاں پولنگ سیشن گنتیاں میں فرق آتے ہیں یہ سارے چیزیں ہمارے لوگ مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں، یہ کیسے یہاں اسلام آباد سے میری رائے کو رد کر سکتے ہیں یہاں بیٹھ ہوئے ہیں بند کمروں کے اندر اور سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں، سو وہ کچھ نہیں دیکھ رہے اور ہم سب کچھ آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوتے ہیں لہٰذا یہ صورتحال میں جب آپ سے اس وقت گفتگو کر رہا ہوں مجھے پوری طرح اس بات کا احساس ہے کہ ہندوستان کے جارحانہ رویے کے اس ماحول میں ہمیں اندرون کے مسائل ابھی فالحال چند دن کے لئے چھوڑ ہی دینے چاہیئے تھی لیکن آپ پوچھ رہی ہیں تو ہمارا موقف وہی ہے جو ہم نے پہلے دن سے اختیار کیا ہوا ہے اور ایک پوزیشن ہم نے لے لی ہے سو اگر میں نے ایک پوزیشن لی ہے اور میری پارٹی نے پوزیشن لی ہے اور ہم پوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس پر کوئی تبدیل تو مشکل ہوگی پھر۔
علینہ شگری: اور آپ نے جس الیکشن کمیشن کا بھی ذکر کیا مولانا صاحب ان کے چیف الیکشن کمیشنر وہ بھی آج کو مدت مکمل ہونے کے باوجود بھی اپنی عہدے پر بیٹھے ہیں
مولانا صاحب: نہیں وہ تو دیکھئے ایک قانون میں جو گنجائش رکھ دی گئی ہے اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اگر یہ کچھ بھی ضمیر کے لوگ ہوتے تو وہ مستعفی ہو جاتے کہ ہم نہیں کرتے ہماری مدت تو پوری ہو چکی ہے، اب قانون اگر اجازت دے بھی رہا ہے تو بھی ان کو یہ اختیار تو ہے کہ استعفیٰ دیدیں ہم نہیں کر رہے ہیں، حکومت مجبور ہوگی نئے لوگوں کو لینے کیلئے اور نئے لوگوں کے لینے کیلئے یہ بھی کوئی ایسا طریقہ کار جس میں اپوزیشن بھی مطمئن ہوں اس بات پر چاروں صوبے بھی مطمئن ہوں اس بات پر ایک طرفہ طور پر لوگوں کو جیسے نوکری دی جاتی ہے وہ نہیں ہونا چاہیے۔
علینہ شگری: مولانا صاحب چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بھی آپ کے بیانات جو ہیں اور آپ کا جو ایک موقف تھا ایک اصولی موقف وہ بھی سب کے سامنے ہیں جہاں پر آپ نے سب کو یاد ہے کہ پریس کانفرنس جب کی تھی اس کے پاس ہونے سے قبل اور آپ نے کہا تھا ہم نے کالے ناگ کا سر کٹ دیا ہے بس باقی کچھ زہر رہ گیا ہے لیکن یہ جو سر کٹا ناگ ہے مولانا صاحب یہ پورے عدالتی نظام کو کمزور کر گیا ہے اور جس قسم کی صورتحال اس کے بعد نظر آ رہی ہے جس میں ایک جماعت اس وقت بہرحال نشانے پر تو ضرور نظر آتی ہے لیکن آگے جا کے اور بھی دیگر سیاسی جماعتیں ہوں گی جو کہ ان کے خلاف یہ قانون جو ہے وہ حرکت میں آئے گا۔
مولانا صاحب: ممکن ہے یہ سوال بنتا ہو لیکن یہ الفاظ کے حد تک تو سوال ہے لیکن سیاستدان۔۔۔ آپ کچھ بھی کریں آپ نیا گھر بھی بنا رہے ہیں اچھا گھر بناتے ہیں آپ اچھا کھیت بناتے ہیں زمین پر ایک فارم بناتے ہیں، بناتے وقت خامیاں اس میں نکلیں گی پتہ چلے گا کہ یہ خامی ہے اب اس سے آپ پورے گھر کی نفی کرو گے گھر ہی غلط بن گیا یا گھر کے اندر کی اس کمزوری کو آپ دور کریں گے، آپ پورے زمینوں کو اور اپنے فارم کو جو ہے برباد کریں گے جلا دیں گے اس لیے کہ چھوٹے چھوٹے خرابی ہیں اگر ہمارے ملک کے اندر کہی پر اس کا کوئی منفی اثر ہوا ہے، دیکھیے ہم نے تو صرف جمعیت علماء اسلام نے اس پر کام نہیں کیا پورے اپوزیشن نے یہاں اسی کمرے میں بیٹھے ہوتی تھی اور ایک ایک پوائنٹ پر اگر ہماری بات ہوتی تو ہم نے کانسٹیٹیوشنل کورٹ کی بات کی تھی جو کہ میثاق جمہوریت کا حصہ ہے لیکن اپنی ہی اپوزیشن کی بڑی پارٹی کی تجویز پر ہم نے بینچ کا فیصلہ کیا جی، یہ جو ہائی کورٹس کی ججوں کی تبادلوں کا اس میں گنجائش رکھی گئی تھی یہ ہم نے نکالی وہاں سے جی اور ان کی اتفاق رائے کے ساتھ نکالی ہے اور اگر ہم نے چھپن کلازز پر مشتمل ایک آئینی ترمیم سے چونتیس کلازز سے گورنمنٹ کو دستبردار کیا ہے تو یہ باہمی مشاورت سے ہوتا رہا جی، یعنی ٹھیک ہے کہ مذاکرات میں براہ راست ہم بیٹھے تھے لیکن ہم نے ایک لمحے کیلئے بھی اپوزیشن کے دوسری پارٹیوں کو دور نہیں رکھا، پی ٹی آئی کے لوگ یہاں پر موجود ہوتے تھے ان کی قیادت موجود ہوتی تھی اور یہی سے اتفاق رائے کر کہ ہم اٹھے اور باہر پریس کانفرنس میں ہم نے اپنی بات کی ہم نے ان کی تائید کی ان نے ہماری تائید کی۔
علینہ شگری: لیکن آپ کے لئے سرپرائز تھا یہ جو باہر بیریسٹر گوہر صاحب نے کہا کہ ہم اس پر بالکل حمایت ہم نہیں دیں گے اور کوئی ووٹ نہیں کرے گا ہماری پارٹی اس سے دستبردار رہے گی، آپ کے لئے یہ سرپرائز تھا کیونکہ جس مشاورتی عمل آپ کا گفتگو کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں۔
مولانا صاحب: لگتا ہے آپ کو کچھ پتہ لگ گیا ہے کیونکہ یہ تجویز میں نے دی تھی کہ آپ کی جو پوزیشن ہے اس وقت ملک کے اندر پولٹیکل پوزیشن جو آپ نے لی ہوئی ہے آپ کی قیادت جیل میں ہے آپ کے کارکن جیل میں آپ کو جلسوں کی اجازت نہیں آپ پر لاٹھی چارج آپ پر گولیاں چل رہی ہیں آپ پر آنسو گیس چل رہے ہیں تو اس ماحول میں بطور ایک سیاسی کارکن کہ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ ووٹ نہ کریں، میں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ ووٹ نہ کریں میں اس کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور یہ لوگ یہاں بیٹھے ہوئے تھے تو ان کی پوزیشن کا احترام رکھتے ہوئے میں نے از خود ان کو مشورہ دیا لیکن میں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم بھی ووٹ نہ دیں تو آپ کے صفوں سے انہوں نے نمبر پورے کر لیے ہیں اگر انہوں نے ان نمبر کے ساتھ چھبیسویں ترمیم پاس کی تو اوریجنل ڈرافٹ پاس ہوگا اور یہ جو ہمارے ایک مہینے کے پوری محنت ہے یہ پوری محنت جو ہے یہ ضائع ہو جائے گی اور وہ تو پھر آئین و قانون کا قتل عام ہے، تو ہم نے بہت سے چیزوں کو بچایا اور خوبصورتی کے ساتھ بچایا ہے تو اب ہمیں اس پوزیشن کا احترام کرنا چاہیے پوزیشنیں تبدیل نہیں کرنی چاہیے اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اب میں یہ بات کروں گا کہ ہم نے تو ووٹ نہیں دیا اور جےیوآئی نے دیا تو میں نے اگر ووٹ دیا ہے تو آپ کے رضا مندی سے دیا ہے اور اگر آپ نے نہیں دیا تو میرے رضا مندی سے نہیں دیا ہے۔
علینہ شگری: مولانا صاحب پی ٹی آئی چونکہ بڑی تگ و دو میں ہے کہ جو گرینڈ اپوزیشن آلائنس ہے اور تحریک تحفظ آئین پاکستان جس کی سربراہی محمود اچکزئی صاحب کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس چھتری تلے آپ بھی آئیں۔
مولانا صاحب: دیکھیے میں تو زندہ تھا میری پارٹی بھی زندہ تھی اپوزیشن بنچوں پہ ہم بیٹھے ہوئے تھے اور اتحاد کا اعلان ہو گیا، یعنی سرے سے ایک پارٹی ہے وہاں پر اس کو آپ پوچھ ہی نہیں رہے اور سب کچھ کرنے کے بعد پھر آپ کہتے ہیں آپ اس اتحاد میں آ جائیں، تو ظاہر ہے تحفظات تو پیدا ہو جاتی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ ہم پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے ہمیں اختلاف ہے لیکن ہمیں دشمنی نہیں ہے، مسلم لیگ سے ہمیں اختلاف ہے ہماری دشمنی نہیں ہے، عوامی نیشنل پارٹی سے ہمیں اختلاف ہے ہماری دشمنی نہیں ہے، بلوچ قوم پرست جماعتیں ہیں ان سے ہمارے اختلافات ہیں لیکن دشمنیاں نہیں ہیں، پالیٹیشنز ہم ایک دوسرے کا کولیگ بھی سمجھتے ہیں ایک دوسرے کا احترام بھی کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کے ساتھ جو ماضی میں کچھ تلخ قسم کے ایک تاریخ بن گئی ہماری تو ہم اس کو دوبارہ ایک معمول کے اختلاف پر لانا چاہتے ہیں اور اختلاف رائے ہوتا رہے گا اختلاف ہونا بھی چاہیے تاکہ لوگوں کے سامنے ایک رائے دو رائے تین رائے آتے ہیں تو اس پر وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کونسی رائے اور کونسی دلیل صحیح ہے، یہ سیاسی ماحول ہمارا مقصود ہے اور اس کی طرف ہم بڑھ بھی رہے ہیں اور ایک سال میں ہم نے اس ماحول کو بہت مثبت بنایا ہے۔
علینہ شگری: مثبت بنایا ہے اور ابھی جس طرح سے کچھ جے یو آئی کیمپس سے جس طرح سے باتیں آتی ہیں کہ جو ان کی اسٹیبلشمنٹ سے بیک چینل رابطے ہیں کیا اس عنصر کو بھی شکوک و شبہات کی نظر سے ہی دیکھا جا رہا ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے آپ کی اور آپ کے جماعت کو تحفظات ہیں۔
مولانا صاحب: دیکھیے ایک تو لیڈرشپ اندر ہے ابھی تک یعنی ایک سوا سال پورا ہونے پر جا رہا ہے، یعنی ابھی ہم تک کوئی ایسی بات نہیں پہنچی کہ وہاں کیا سوچا جا رہا ہے اور یہاں باہر یکسوئی نہیں ہے، مختلف شخصیات ہیں ہمارے لئے قابل احترام ہیں لیکن ایک گفتگو کرتا ہے دوسرا ذرا اس سے مختلف گفتگو ہمارے سامنے کرتا ہے تیسرا اس سے مختلف کرتا ہے چوتھا اس سے مختلف کرتا ہے ہم کس پہ رسپانڈ کریں جی کس پہ جواب دیں تو اس لئے ہم انہیں یہی کہہ رہے ہیں کہ سنجیدہ انداز کے ساتھ صرف میٹنگ کافی نہیں ہے بلکہ وہ ماحول بھی اس کیلئے ضروری ہے اور وہ پوزیشن لینا بھی ضروری ہے کہ جہاں ہم سمجھیں کہ یہ ایک یکسوئی کے ساتھ اب کام کر رہے ہیں اور آپ کے لوگ جو ہیں وہ ایک ہی میز پر بیٹھ کر ایک ہی بات کر رہے ہیں تو چونکہ اس حوالے سے تھوڑا سا کام کرنے کی ابھی مزید ضرورت ہے اس لئے جمعیت علماء اسلام نے فالحال یہی فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا جدوجہد ہے وہ اپنے پلیٹ فارم سے کریں گے اور یہ جمہوری دنیا میں ہوتا ہے۔ دیکھیے حکومتی سائیڈ پر جتنے لوگ بھی بیٹھے ہونگے وہ صرف اتحادی کہلائیں گے لیکن اپوزیشن کے سائیڈ پر جتنے لوگ بیٹھے ہوں گے وہ اتحادی نہیں کہلاتے جو گورنمنٹ میں نہیں بیٹھتا وہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتا ہے جو گورنمنٹ میں نہیں بیٹھتا وہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتا ہے تو بغیر کسی اتحاد کی ایک کمٹمنٹ کر کے بیٹھتے ہیں اپوزیشن سیٹوں پہ جاکے، پھر وہ اپنی سٹریٹیجی بعد میں بناتے ہیں کہ ہم نے ڈے ٹو ڈے معاملات پر کیا کرنا ہے، جو بھی ایکٹ سامنے آئے اس پر ہم نے کیسا رد عمل دینا ہے،
علینہ شگری: 2022 میں مولانا صاحب پی ڈی ایم اپوزیشن میں رہ کے اتحاد۔۔۔۔۔
مولانا صاحب: دیکھیے پیپلز پارٹی بھی تھی، اے آر ڈی بھی تھی اور ایم ایم اے بھی تھا اور دونوں اپوزیشن میں بھی تھے دونوں کے ذریعے اختلاف رائے بعض دفعہ آ جاتا تھا مسائل پہ باقی باہر دنیا میں بھی ایسے ہوتا ہے جی کہ دو اپوزیشن اتحادیں ہوتی ہیں وہ بعض معاملات پر رابطے میں رہتے ہیں بعض معاملات پر اپنے اپنے موقف پھر اپنے پلٹ فارم سے دیتے ہیں تو یہ کوئی اچھنبے والی بات نہیں ہے یہ معمول کا ایک سیاست ہے جو پورے دنیا میں رائج ہے اور اس پر کسی کو پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن چونکہ جےیوآئی ایک عوامی قوت ہے اور پاکستان کے عوام کی بہت بڑی سپورٹ اس کو حاصل ہے پھر ایک مذہبی ذہن جو ہے ملک بھر کا اس کے پشت پہ ہے تو اس حوالے سے ہم فیصلے جب کریں تو ذمہدارانہ احساس کے ساتھ۔
علینہ شگری: مولانا صاحب موجودہ وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے متعلق جس قسم کی جو ایک تاثر پایا جاتا ہے اور ایسے میں بڑے کالمز بھی لکھ کے بتایا جا رہا ہے کہ جو مقتدرہ ہیں وہ ان کی بڑی سپورٹ حاصل ہے وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو جو یہ ہائیبرڈ ریجیم ہے یہ آگے کنٹینیو کرے گی کیونکہ ان کو شہباز شریف صاحب ایک بڑے ایک آئیڈیل کینڈیڈیٹ ہیں اور ایک بڑی بیسٹ پوسیبل چوئیس ہیں تو آپ کو یہ آپ اپوزیشن میں رہ کے کیسے جس پارلمنٹ کو آپ جعلی کہتے ہیں ان کا کیسے ان پر ایک دباؤ آ سکے گا؟
مولانا صاحب: دیکھیے ایک بات واضح ہے کہ میں پی ڈی ایم کا سربراہ ہوں بلکہ تھا تو میں نے اگر 2018 کے الیکشن کے نتائج پر اعتراض کیا ہے تو دو ہزار چوبیس 2024 میں بھی میں نے کمپرومائز نہیں کیا کیونکہ حقائق سامنے نظر آ رہے تھے جی تو اس اعتبار سے ان کو بھی چاہیے تھا کہ وہ حکومت بناتے پہلے میرے پاس آ کر پی ڈی ایم کو بلا کے ان کے مشاورت کے ساتھ ہم فیصلے کرتے، انہوں نے کس کے ساتھ بیٹھ کر فیصلے کیے اور کیوں وہاں جا کر فیصلے کیے اپنے پلیٹ فارم پر آنے کی کیوں ضرورت نہیں پڑے ان لوگوں کو، تو یہ چیزیں ہوتی ہیں کہ جو سیاست میں پھر تاریخ کا حصہ بنتی ہیں کہ کس نے وقتی مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے اور کون اپنے اصول پر ڈٹا رہا اور الحمدللہ ہم نے اپنے اصول کو اپنایا ہے اور اصولی سیاست کو اپنایا ہے اور قوم میں اس کو پذیرائی ملی ہے۔
علینہ شگری: مولانا صاحب دو ہزار بائیس 2022 کا کیونکہ عوام اس پہ ایک تو رکھتے ہیں کہ دو ہزار بائیس میں جو اپوزیشن جماعتیں تھیں اور آپ کا برملا ایک سٹیٹمنٹ بھی موجود ہے جنرل باجوا صاحب کے بھی اس رول سے متعلق وہ تمام چیزیں سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول تھی جو ووٹ آف نو کانفیڈنس کے ذریعے لیکن آپ نے اس میں کلیدی کردار رہا۔۔۔
مولانا صاحب: اس پر بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو حالات تھے گزر گئے جی وہ تو گزر گئے جی، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ عدم اعتماد نہ لاؤ کیونکہ عدم اعتماد کیلئے ہمیں گورنمنٹ سائیڈ سے بندے خریدنے ہوں گے، سیاست میں یہ جو عنصر ہے یہ ناپسندیدہ ہے تو یہ کام نہ کریں جی، پھر جب یہ کام انہوں نے کر لیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی ایک پیج پہ آگئے تو ہمارے پاس کوئی تیس سے زیادہ پی ٹی آئی کے لوگ آئے، ایم کیو ایم آیا، باپ پارٹی آئی کچھ اور بھی آزاد ارکین تھے وہ آئے تو میں نے انکار کیا کہ جس پارٹی کو میں نے کہا ہے کہ یہ دھاندلی والے ہیں ہم اس کا ووٹ نہیں لیں گے جی اور پی ٹی آئی کا ووٹ اس وقت لینا ہم نے انکار کیا تھا، ہمارا موقف یہ تھا کہ تحریک بہت کامیاب ہیں عوام ایک پارٹی کے آواز پہ جو ہے وہ دور دور تک پبلک آ رہی ہے اگر ہم سب مل کر اپنے کارکنوں کو اور عوام کو بلائیں گے تحریک کی قوت سے دو دن کے اندر حکومت ختم ہو جائے گی اور پھر جب حکومت انہوں نے بنا ہی لی عدم اعتماد کے ذریعے سے تب بھی میرا موقف یہ تھا کہ فوراً الیکشن کو اناؤنس کرو کیونکہ اس وقت آپ کا ایک مورال اونچا ہے اور قبولیت آپ کی آواز کو حاصل ہے، یہ دنیا چینج ہوتی رہتی ہے چھوٹے موٹے واقعات سے معاملات خراب ہو جائیں گے آپ سے، آپ ملک کو اٹھا نہیں سکیں گے تو آپ فوراً الیکشن شیڈول دے دیں اور اگر آپ کو کچھ وقت چاہیے کچھ اصلاحات کیلئے تو دو تین مہینے لے لو اس میں جی تاکہ پبلک کو پتہ ہو کہ فلاں مہینے میں الیکشن ہو رہے ہیں جی۔
علینہ شگری: اور آپ کا یہ مشورہ نہ ماننے کا ان کو نقصان ہوا ہے؟
مولانا صاحب: نقصان تو ہوا یہ یہ جو ابھی دوبارہ دھاندلیوں کے ذریعے سے حکومت بنائی گئی تو اسی وجہ سے بنائی گئی ہے نا۔
علینہ شگری: تو عوامی پذیرائی انہوں نے کھو دی؟
مولانا صاحب: تو یہی مسئلہ ہے کہ اس میں عوام کی تائید عوام کا منڈیٹ کا نام لینا ان کیلئے مشکل ہو گیا ہے، ہمارے لئے آسان ہے کہ ہم کہیں کہ یہ عوامی منڈیٹ نہیں ہیں لیکن ان کیلئے یہ کہنا کہ ہم عوامی منڈیٹ سے آئے ہیں یہ کہنا مشکل ہے۔
علینہ شگری: پر عوام اب ہماری جو الیکٹریٹ ہے مولانا صاحب وہ بڑا aware ہے وہ اپنے جو سیاسی جو حقوق ہیں اور جو شعور ہے عوام میں وہ بہت زیادہ بیدار عوام ہو چکے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ اگلے الیکشن کی طرف جب بھی ماحول گئے اور آپ جتنا بھی پریشر جتنے جلدی کریئٹ کر سکے، ان کی سٹینڈنگ آپ کو کیا نظر آ رہی ہے عوام میں، عوام ان کی طرف کوئی مائل ہوں گے یہ جو بہت معاشی اشاریوں کا بھی ہمیں بتایا جاتا ہے۔
مولانا صاحب: میرے خیال میں جی ہم رواداری عزاداری سے کام لے رہے ہیں اور ہم سیاسی جماعتوں کے نام لیتے ہیں ہم پبلک کا نام لیتے ہیں ہم عوام میں پذیرائی کا نام لیتے ہیں ہم عوام کے ووٹ کا نام لیتے ہیں یہ الفاظ ہیں اور یہ ہوا میں بس تیر رہے ہیں اور زمین پر اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی لہٰذا جو قوتیں اس ملک میں منیج کرتی ہیں نظام کو تو جب تک وہ اپنی اس ضد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس گرفت کو وہ اعتراف نہ کریں کہ یہ غلط گرفت ہے صورتحال پر تو تب تک میں نہیں سمجھتا کہ ہم پاکستان میں عوام کے نمائندہ کوئی نظام قائم کر سکیں گے، ہم تو روز روز اپنے اپنے مقدمے ہار رہے ہیں۔
علینہ شگری: اچھا مولانا صاحب یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ اب ایسا لگ رہا ہے موجودہ حکومت کے اس دور میں یہ تو گرفت بہت مضبوط ہو رہی ہے اور جو سول اتھارٹی ہے اس میں سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اب تو آنے والی ہر سولین حکومت جو ہے وہ کوئی بھی کام کرنے کے لیے تیار کیا نظر آئے گی؟
مولانا صاحب: پی ڈی ایم کے اکابرین سب جانتے ہیں میں نے کتنی مرتبہ ان کے اجلاسوں میں یہ بات کہی ہے کہ میں ایک سیاسی کارکن ہوں جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے میں نے اسٹیبلیشمنٹ کا مقابلہ کیا ہے میں جیلوں میں رہا ہوں آپ لوگ بھی جیلوں میں رہے ہیں، آج آکر تجزیہ تو کریں ذرا کہ ہماری اس جدوجہد کے نتیجے میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے یا آمرانہ قوتیں مضبوط ہوئی ہے! ہماری جمہوری نظام پر ان کا قبضہ آ گیا ہے، کس کی غلطی ہے یہ؟ یہ سوال میں خود اٹھاتا تھا اور میں اس کا جواب دے رہا ہوں آپ کو کہ غلطی سیاستدانوں کی ہے کہ انہوں نے ہر زمانے میں کمپرومائز کیا ہے، جب ہم کمپرومائز کی طرف جائیں گے اور کبھی ضیاء الحق کے ساتھ ہم چلے جاتے ہیں تو کبھی مشرف کے ساتھ چلے جاتے ہیں تو ہم سیاستدان ہی ہوتے ہیں نا جی ہمارے صفوں سے لوگ آتے ہیں نا، تو اس لیے اگر ہم اسٹیبلیشمنٹ کا سہارہ لیے بغیر ایسا ماحول بنا دیں، آخر انڈیا میں بھی تو الیکشن ہوتے ہیں وہاں کیوں یہ صورتحال نہیں اٹھتا کہ دھاندلی ہوگئی ہے؟ برطانیہ میں بھی الیکشن ہوتے ہیں وہاں کبھی یہ سوال نہیں پیدا ہوا۔ بنگلادیش میں ہو جاتے ہیں، انڈونیشیا میں، ملائشیا میں، امریکہ میں، لیکن کوئی نہیں کہتا کہ دھاندلی ہو گئی، دھاندلی ہو گئی، دھاندلی ہو گئی، یہ ایک پاکستان کیوں ہے کہ جہاں پر ہر الیکشن کے نتیجے میں کہ دھاندلی ہو گئی ہے دھاندلی ہو گئی ہے یا وہ عوام کا نمائندہ نہیں ہے، یہ چیزیں ختم ہونے چاہیئے یہاں سے۔
علینہ شگری: اور جبکہ مولانا صاحب ہم پانچ سال میں ایک بار الیکشنز کروارہے ہوتے ہیں، بھارت میں تو مسلسل ہر وقت ہی الیکشنز ہوتے ہیں۔
مولانا صاحب: تو یہ ہماری بدقسمتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ ہم تب ایک قوم بن سکیں گے جب قوم کو ہم اختیار تو دیں کہ آپ قوم ہیں فیصلے آپ نے کرنے ہیں تو تب جا کر قوم بنیں گی نا۔
علینہ شگری: اور آپ کو لگتا ہے کہ اس وقت قوم مایوس ہے؟
مولانا صاحب: نہیں مایوس تو ہم ہونے بھی نہیں دیں گے، ہم قوم کے فرد ہیں نا ہم قوم کے اندر ہیں اور جس موضوع پر بھی ہم نے پبلک کو بلایا ہے الحمدللہ تا حد نظر انسانیت نے اس پر لبیک کہا ہے۔
علینہ شگری: مولانا صاحب بلوچستان کے حوالے سے آپ کا چونکہ وہ بیان بڑا خوفناک بیان تھا کہ جہاں پر وہ جب چاہیں وہ لوگ وہاں کے جو کی سٹیک ہولڈرز جو وہاں کے ہیں وہ جب چاہیں وہ الگ ریاست کا اعلان کر سکتے لیکن ہمیں تو پھر بتایا جاتا ہے کہ وہ چند ہی کوئی پندرہ سو مٹھی بھر لوگ ہیں۔
مولانا صاحب: نہیں سیاستدان اور صحافیوں میں فرق ہے، انکر اور سیاستدان میں فرق ہوتا ہے، سیاستدان ایک بات ایک دفعہ کہتا ہے اور وہ دنیا کے نوٹس میں ایک نظریہ دے دیتا ہے پھر آپ لوگ ہوتے ہیں جو ہر انٹرویو میں اس کو دہراتے رہتے ہیں اور دہرانا اچھا نہیں ہوتا، بات کرو اور اس پر اصرار اور بار بار دہرانا وہ بھی شاید کوئی ملک کو فائدے کا باعث نہیں بنتا لیکن ایک بات ہم نے کی ہے وہ ریکارڈ پر ہے ہم نے کوئی تردید تو نہیں کی اپنی بات کی وہ اپنی جگہ پر ہماری بات آج بھی صحیح ہے لیکن سب کو سوچنا چاہیے ہم نے متوجہ تو کیا ہے نا لوگوں کو سیاسی پارٹیوں کو تو متوجہ کیا اسٹیبلیشمنٹ کو تو متوجہ کیا بیوروکریسی کو متوجہ کیا پارلمنٹ کو متوجہ کیا تو اس طرف اس خطرے سے نمٹنے کیلئے توجہ دلانا یہ کوئی الزام کیلئے نہیں کیا کہ ہم کسی پر الزام لگا رہے ہیں بلکہ ایک قومی المیہ جو ہمیں نظر آ رہا ہے اس کی نشاندہی کر کے ہم نے قوم کو اور ہر پارٹی کو اور ہر طبقے کو الرٹ کر دیا۔
علینہ شگری : اور آپ کے خیال میں بلوچستان کے اس مسئلے کا کیونکہ ابھی اختر منگل صاحب چند دنوں قبل تک وہ دھرنا کافی عرصے تک دیا ہوئے تھے اس کا حل آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مشاورت ہی سے یہ حل ہونا چاہیے یا پھر اس کا ملٹری سلوشن کوئی ہے؟
مولانا صاحب: سلوشن تو ایسی کوئی چیز دنیا میں نہیں ہے کہ ہم اس کو حل کرنے میں بیٹھے اور نہ کرسکے، اللہ نے صلاحیت دی ہے انسان کو اور ہم ملک ہیں ہمارے ادارے ہیں ہم آج بھی اگر اس نیت سے بیٹھ جائیں کہ ہم نے چاروں صوبوں کو مطمئن رکھنا ہے ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے لیکن اگر آپ کبھی نہروں کا مسئلہ اٹھا لیتے ہیں جو صوبوں کے درمیان تنازعے کا سبب بن جائے، کبھی مائنز اور منرلز ایکٹ لے آتے ہیں اس سے پھر دوبارہ جو ہے صوبوں اور مملکت کے درمیان ایک تناؤں پیدا ہو جاتا ہے، کہیں پہ سندھ لڑ رہا ہے تو کہیں بلوجستان اور کے پی لڑ رہے ہیں، تو کس طرح سے جب آپ وفاق، پنجاب، دوسرے صوبے ان کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہوگی تو یہ ملک کس طرح ہم بیٹھ کر مسائل کا حل کریں گے، اختلاف اور تناؤں اور تصادم کی صورت سے حل نہیں ہوتے یہ تو مسائل اور پیدا ہوں گے، تو ہم یہ سوچتے ہیں کہ ایسے فیصلے لینے سے پہلے ہمیں مشاورت کر لینی چاہیے اور ورنہ پھر یہی ہوگا کہ کچھ مخصوص مفادات جس سے یا باہر کی دنیا وابستہ ہے یا ہمارے ملک کے اندر کی قوتیں اس سے وابستہ ہیں اور وہ اسی ایجنڈے کو سامنے رکھ کر الیکشن کو مینیج کرتے ہیں تاکہ آنے والی اسمبلیوں سے ہم فائدہ اٹھا سکیں۔
علینہ شگری: اور مولانا صاحب آخر میں افغان مسئلے کے حوالے سے بھی ضرور آپ کا موقف جاننا چاہیں گے جو کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں افغان مسئلے پر اور جس طرح سے ان کی ایک واپسی کا عمل طے کیا گیا ہے اور جس طرح سے کیا جا رہا ہے ایک ریزولیشن وہاں پر قرارداد پاس کی گئی ہے آپ موقف سے اگری کرتے ہیں حکومت کے کہ جس طرح سے ان کو بھیجا جا رہا ہے وہ درست ہے؟
مولانا صاحب: یہی اختلاف رائے ہے افغانستان افغانوں کا ہے اگر پاکستان میں چالیس سال پہلے یا بیس سال پہلے وہاں کے حالات سے مجبور ہو کر وہ پاکستان میں آئے یہاں پر انہوں نے پناہ لی اور ہم نے ان کو پناہ دی تو تیس لاکھ لوگ اگر ہمارے پاس آئے ہیں تو تیس لاکھ لوگ ایران میں بھی تو گئے ہیں، مہاجرین کا ایشو اور یہ مسئلہ ایران کے لئے کیوں پرابلم نہیں پیدا کر رہا اور ہمارے لئے کیوں پرابلم پیدا کیے ہوئے ہیں؟ تو ہم نے اپنے پس منظر میں جا کر اپنے تضادات کو ڈھونڈنا ہے کہ کہاں کہاں پر مہاجرین کے حوالے سے ہم سے تضادات ہوئے ہیں، اب جس انداز سے ان کو نکالا جا رہا ہے آپ ایک مہینہ بھی گھر میں ایک مہمان کو رکھیں اور نکالتے وقت ان کو ایک تھپڑ مار کر آپ گھر سے نکال دے تو ساری مہمان داری تو گئی! لہٰذا یہ معاملہ پھر دونوں ملکوں کا بن جاتا ہے دونوں ملک مل کر اس کے لئے ایک حکمت عملی بناتے ہیں اگر کوئی افغان اپنے ملک میں واپس جانا چاہتا ہے تو جائے لیکن ہم نے یہاں پر ایک تجویز دی تھی میان نواز شریف صاحب یا مسلم لیگ ن کی حکومت میں اور بالخصوص جب شاہد خاقان عباسی کا دور تھا تو ہم نے اس میں تجویز دی تھی کہ آپ کٹیگریز طے کریں، جو افغان پاکستان میں رہ کر یہاں پر انویسٹمنٹ کر رہا ہے یا انویسٹ کر چکا ہے یا بہت سے ایسے بینکس ہوں گے کہ جن بینکوں سے اگر وہ پیسہ نکال لیں تو دیوالیہ ہو سکتے ہیں تو یہ اپنے مفاد کو اقتصادی مفاد پر کلہاڑا مارنے والی بات یہ کون سی عقل کی بات ہے، دوسرا یہ ہے کہ جو لوگ یہاں سے گریجویشن کر چکے ہیں وہ ہمارا سکِل ہے اور یہاں ڈاکٹر بنا یہاں انجنئیر بنا مختلف شعبوں میں اس نے مہارت حاصل کی ان کی صلاحیت سے پاکستان کیوں فائدہ نہ اٹھائے، کیوں ہم دھکیل رہے ہیں اپنے ہی سکِل کو دوسری ملک کی طرف اور اس کو تحفظ نہیں دیے رہے، تیسری بات یہ ہے کہ سٹوڈنٹس ہیں اب اگر ایک شخص دسویں میں پڑھ رہا ہے بارھویں میں پڑھ رہا ہے آپ نے اس کو دھکیل دیا وہاں نصاب اور ہے یہاں وہ پڑھ چکا ہے آپ اس کے انسانی حق کو مار رہے ہیں جو تعلیم کا بنیادی حق ہے اس کو آپ کیسے تحفظ دیں، اس کے بعد پھر عام مہاجرین کیمپس ہو گئے اس کو آپ پھر سلیقے طریقے کے ساتھ ان کو اعتماد میں لے کر کہ جی آپ ہمارے ملک کے لئے مشکلات ہیں اگر آپ اپنے وطن میں چلے جائیں اور وہاں پر امن ہے تو ایک زمانے میں تو اس وقت ہم نے دھکیلا تھا ان کو جب وہاں امن بھی نہیں تھا تو اس ساری صورتِ حال میں پھر یہ بات کیبنیٹ میں جا چکی تھی کیبنیٹ نے اس کی منظوری دی دی تھی آج کس نے منظوری دی ہے اس نئی پالیسی کی کہ ہم زبردستی اٹھا اٹھا کر جیلوں سے بھی نکال رہے ہیں اور کیمپس سے بھی نکال رہے ہیں اور بسیں بھر بھر کے ہم ان کو ٹرکوں پر سوار کرکے بھیج رہے ہیں یہ ہمارے ملک کے اندر اگر ایک ایگزیکیٹیو سائیڈ پر کیبینٹ لیول پر ان تمام کیٹیگریز کو جو ہم نے تجویز کی تھی اس زمانے میں قبول کر لی گئی تھی آج کس بنیاد پر اس کی نفی کی جا رہی ہے مجھے سمجھ میں نہیں آرہا، کون حکومت کر رہا ہے پاکستان پر؟ لہٰذا جو کچھ راستے جو ہم نے۔۔۔۔۔ ہم افغانستان سے ناراض ہو جاتے ہیں ناراضگی ہماری کابل سے ہوتی ہے ہم زور نکالتے ہیں مہاجرین سے، بہرحال افغانستان میں اگر کوئی حکومت ہے تو وہ ذہنی طور پر پرو پاکستانی گورنمنٹ ہے اور ہم رفتہ رفتہ اس کو ایک دوبارہ پرو انڈین کی طرف لے کے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، ادھر ہندوستان ہمارے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے ایک سرحد اور دوسری سرحد اور دونوں جو ہے وہ بارود کی ڈیر ہیں تو ہمیں اپنی ملک کو اپنے قوم کو آمن دینا ہے، پڑوس کے ممالک سے ہم نے تعلقات کو معمول پر لانا ہے لیکن اب بہرحال انڈیا نے جو جارحانہ انداز اختیار کیا ہے اب ایک پرابلم ہے دیکھتے ہیں ابھی تو دو دن کے اندر انڈیا کو شکست ہو رہی ہے، اپنا موقف جو ہے ان کا ایکسپوز ہو رہا ہے اور غلط طریقے سے انہوں نے ہینڈل کیا ہے۔
علینہ شگری: لیکن مولانا صاحب آپ نے جس طرح کہا کہ یہاں پر یہ جو اس قسم کے فیصلے کیے جا رہے ہیں جس سے ہمیں نقصان بہرحال ہو رہا ہے وہ فیصلے کر کون رہا ہے، موجودہ جو وزیراعظم ہیں آپ کو لگتا ہے کہ ان کے پاس یہ اختیار ہے، خودساختہ فیصلے۔۔۔
مولانا صاحب: یہ پرانا سوال ہو گیا ہے یہ بہت پرانا ہو گیا ہے جی۔
علینہ شگری: اچھا مولانا صاحب عمران خان کے متعلق صرف ایک سوال ضرور یہ کرنا چاہوں گی کیونکہ جو عوامی رائے بھی ہیں وہ ابھی بھی یہ شو کرتی ہے کہ مقبولیت بہرحال ایک سیاسی جماعت کی ہے جو اس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آ رہی ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جی ان کے کیسز نہیں لگائے جا رہے ہیں کورٹس میں بھی، آپ کے خیال میں یہ جو کچھ ہو رہے ہیں وہ صحیح ہے اور ان کو باہر آنا چاہیے؟
مولانا صاحب: ایک یہ ہے کہ میری خواہش ہو میں نے تو الیکشن سے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اب عمران خان کے خلاف بیان اس لئے نہیں دوں گا کہ وہ اندر ہے میں باہر ہوں تو برابر پوزیشن میں ہونا چاہیے اور آج بھی میں سوچتا ہوں کہ میری خواہش ہے کہ سیاست دان کیوں جیل میں ہو میں نواز شریف کی جیل میں بھی خلاف تھا میں مریم نواز کی جیل میں بھی خلاف تھا میں فریال تالپور کی جیل میں بھی خلاف تھا میں زرداری صاحب کی جیل میں بھی خلاف تھا، سیاست دان کو کیوں جیل میں بھی بلاوجہ رکھا جاتا ہے اور پھر کیسز بھی ایسے بنائے جاتے ہیں کہ جس وقت حالات بدل جاتے ہیں یا ایک چھوٹا سا مسئلہ پہاڑ بن جاتا ہے یا ایک بہت بڑا پہاڑ رائی بن جاتا ہے، ایک لمحے کے اندر ساری چیزیں ختم ہو جاتی ہیں ضمانتیں ہو جاتی ہیں اور بڑے ٹھاٹھ پاٹھ سے وہ سیاست کر رہے ہوتے ہیں، تو یہ چیزیں اب لوگ انڈرسٹینڈ کر رہے ہیں ان چیزوں کو کہ ہمیں اس طرح کی پولیٹکس سے ہمیں نکلنا ہوگا، اب یہ ہے کہ اس وقت جو آپس میں مدد مقابل ہیں انہوں نے جو پوزیشن لی ہوئی ہیں قانون کی پوزیشن جو لی ہوئی ہے عدلیہ میں جو انہوں نے پوزیشن لی ہوئی ہیں، کیسز کیا ہے اس سے تو میرا کوئی تعلق نہیں ہے، تو میں اپنی خواہش آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔
علینہ شگری: جی بلکل آپ ایک اصولی موقف رہا ہے سیاست دانوں کو جس طرح سے جیل میں بھیجا گیا اور موجودہ ایک سابق وزیراعظم جو اس وقت جیل میں ہے اس کے حوالے سے بھی سیاسی مقدمات آپ کے خیال میں بنائے گئے ہیں۔
مولانا صاحب: میں یہ کہہ رہا ہوں کہ بھئی ہمیں بریف تو نہیں کیا جا رہا ہے کہ آپ کے خلاف کیا ہے آپ کے خلاف نہیں ہے اس لیے اپنی پارٹی نے ڈیفینڈ کرنا ہوتا ہے وکیلوں نے ڈیفینڈ کرنا ہوتا ہے تو وہ ان کو پورا حق حاصل ہے اس حوالے سے لیکن اگر میں اپنے جذبات کی بات کروں اپنے احساسات کی بات کروں تو میں بھی جیل میں رہا ہوں اور ضیاء الحق کے زمانے میں کوئی ساڑھے تین سال تک میں جیل میں رہا تو مجھے معلوم ہے کہ جیل میں کسی کو رکھنا یہ زیب نہیں دیتا ملک کے اندر سیاسی آزادیوں پہ ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے تو وہ سوالیہ نشان اس کو تھوڑا نظر کرنا چاہیے۔
علینہ شگری: بہت شکریہ مولانا صاحب بہت شکریہ آپ کا
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1
#teamJUIswat
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا اے بی این نیوز کو خصوصی انٹرویوقائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا اے بی این نیوز کو خصوصی انٹرویو
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, April 25, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں