قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کو خصوصی انٹرویو
26 اپریل 2025
سلیم صافی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام علیکم ناظرین آج کے جرگے میں ہمارے ساتھ عنایت کی ہے حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب نے وہ ہمارے مہمان ہیں اور ان سے ہم جو پاکستان اور انڈیا کی تازہ ترین صورتحال ہے اس پہ فلسطین پہ اور اگر وقت نے مہلت دی تو پاکستان کے داخلی سیاست پہ بھی بات کریں گے، مولانا صاحب بہت شکریہ ہمیں وقت دینے کے لئے۔
مولانا صاحب: آپ کا بہت شکریہ جی۔
سلیم صافی: اور پہلے یہ جاننا چاہتا ہوں آپ فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں اور ویسے بھی آپ کو ایک صاحب بصیرت سیاستدان سمجھا جاتا ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ معاملہ کچھ تھم جائے گا یا کہ پاکستان اور انڈیا جنگ کی طرف جا سکتے ہیں؟
مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وصل اللہ علی النبی الکریم وعلی آلہ وصحبہ۔ ہندوستان پاکستان کے تعلقات کی نوعیت اور تاریخی اعتبار سے اس کے اندر نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ یہ تو ہمارے گزشتہ ستتر (77) اٹھہتر (78) سالوں کی ایک کہانی ہے اور دنیا ایک چیز کو ضرور دیکھتی ہے کہ جو واقعہ ہو جاتا ہے چاہے جس طرف سے بھی ہو تو اس پر رد عمل دیکھا جاتا ہے کہ کیا وہ رد عمل اس وقوعے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے یا نہیں، اس وقت جو پہلگام میں واقعہ ہوا ہے اس حوالے سے جو انڈین گورنمنٹ ہے یا نرندر مودی ہے انہوں نے جو رد عمل اس انداز کے ساتھ دیا دنیا نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور ہرچند کہ غیر مسلح لوگوں کے اوپر سیاحوں کے اوپر حملہ کرنا کوئی دنیا کا ایک مہذب انسان اس طرح کے وقوعے کی نہ حمایت کر سکتا ہے نہ اس کو سپورٹ کر سکتا ہے نہ اس کی تائید کر سکتا ہے اور یہ واقعات پہلے بھی ہوئے ہیں اور اس وقت بھی یعنی دنیا صورتحال کو دیکھ کر رد عمل دیتی رہی ہے، جتنا رد عمل مودی جی نے دیا ہے نہ اس کو امریکہ سپورٹ کر رہا ہے اس حد تک، نہ اس کو یورپ سپورٹ کر رہا ہے، نہ اس کو یورپی یونین یا ناٹو سپورٹ کر رہے ہیں، عالمی سطح پر تو اس وقت وہ اس تائید سے محروم ہے کہ جس انداز سے اس نے پاکستان کے خلاف ایک اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، لگتا یہ ہے کہ مودی صاحب کو ہندوستان کے اندر کچھ اپنی سیاسی مشکلات ہے اور اس حوالے سے وہ کچھ کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں مسلمان دشمنی تو اس کی زندگی کا حصہ ہے، کیونکہ میں نے دو ہزار تین (2003) میں واجپائی جی کو بھی دیکھا تھا میرے ان سے میٹنگ بھی ہوئی تھی، کشمیر کے حوالے سے مسئلہ کے حل کے بارے میں ان کی گفتگو بھی سنی تھی اور پاک و ہند تعلقات کے حوالے سے ان کا جو معتدل ایک انداز تھا وہ سارا میں نے براہ راست اس کا مشاہدہ کیا تھا، آج ایک سو اسی ڈگری پر بی جے پی جا رہی ہے اس کے بالکل مدد مقابل، تو اس حوالے سے چونکہ انہوں نے ہندوتوا کارڈ استعمال کیا پچھلے الیکشن میں بھی اور دوسرے الیکشن میں بھی انہوں نے یہی رویہ اختیار کیا لیکن وہاں جو مسلمان آبادی ہے کوئی پچیس تیس کروڑ تک اس وقت وہاں پر مسلمان ہیں اور وہ جس طرف جائے گا ظاہر ہے کہ انتخابی نتائج جو ہے وہ اس کو پلٹ کر دے گی، چنانچہ اس کو دو نقصانات ہوئے ہیں ایک ہندوستان بھر میں وہ اکثریت جو اس کو پچھلی حکومت میں حاصل تھی وہ حاصل نہ ہو سکی اور کچھ اتحادیوں کے سہارے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، دوسری بات یہ کہ آرٹیکل تین سو ستر (370) کو ختم کر کے کشمیر کے اسپیشل جو اس کا سٹیٹس تھا اس کو ختم کر کے اس نے وہاں پر ایک ڈیموگرافی چینج کرنے کی جو کوشش کی اور خیال کیا کہ ہم یہاں پر ہندو کو آباد کریں گے اور ہندو مسلم سوال پیدا ہوگا کشمیر کے اندر اور پھر اگر پروٹیسٹ بھی ہوتا ہے تو پھر دیکھا جائے گا تو اس حوالے سے اس نے جو سٹیٹس تبدیل کیا اور اپنے سیاسی مقاصد کیلئے کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر میں جب الیکشن ہوا تو مودی کو مسترد کر دیا لوگوں نے جی، اب وہ اس واقعے سے ہندوستان کے اندر کی کچھ سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بے تکے اس نے یک دم سے اس کا پورا ملبہ پاکستان پر ڈال کر ہندوستان کے اندر ایک رد عمل پاکستان کے خلاف مسلمانوں کے خلاف اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن دو دن سے تین دن سے میں خود جو واچ کر رہا ہوں یا آپ دوستوں سے جس طرح حال احوال معلوم ہوتا ہے میرے خیال میں وہ فیل ہو گیا ہے جی اور اس کو کامیابی نہیں ملی ہے اور پاکستان نے جو رد عمل دیا ہے ان کی اقدامات کے مقابلے میں ان کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں اس نے بھی پاکستانی قوم کو حوصلہ دیا ہے اپنے سپاہی کو حوصلہ دیا ہے۔
سلیم صافی: آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا رد عمل ٹھیک تھا؟
مولانا صاحب: ٹھیک تھا، اس لیے کہ ہم جنگ تو نہیں چاہتے لیکن اس کا یہ معنی بھی تو نہیں ہے کہ ہم بلکل سر جھکا کے ان کے ساتھ بات کریں گے ہم ایک ملک ہیں ہماری ایک فوج ہے اور دفاع وطن کیلئے صرف فوج ہی نہیں پاکستان کا ہر شہری تیار ہے جی۔
سلیم صافی: تو جو فائدہ مودی نے domestic front پہ اس سے لینا چاہا اور وہ تو اس نے یا حاصل کر لیا یا نہیں کیا لیکن جنگی فضاء انہوں نے بنائی ہے تو وہ تو مودی کو مجبور نہیں کرے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کچھ اور بھی چھیڑخانی کرے اور معاملہ اس جنگ کی طرف چلا جائے۔
مولانا صاحب: میں خود چونکہ کچھ واقعات کا مشاہدہ کر چکا ہوں، دو ہزار تین (2003) میں جب واجپائی کی حکومت تھی وہاں پہ اور یہاں پر جنرل مشرف کی حکومت تھی تو اس وقت بھی دونوں ملکوں کے درمیان بہت سخت ٹینشن تھی یعنی ہماری ریل آپس میں زمینی رابطہ بس کا زمینی رابطہ فضائی رابطہ ہماری فضائیں ان کی فضائیں یہاں تک کہ دونوں ممالک کے جو ہائی کمیشنز تھے وہ سٹینوگرافک لیول پہ کام کر رہے تھے وہ کمل بند ہو گئے تھے، تو ان حالات میں میں اپنے دو تین پارلیمنٹیرین دوستوں کو لے کے انڈیا گیا تھا اس وقت جی اور اس سے سخت ٹینشن تھی اس وقت جی لیکن وہاں پر اچھا رسپانس ہمیں ملا بہت ہی پذیرائی ہمارے اس سفر کو ملی میڈیا کی دنیا میں بھی پالیٹیشنز کی دنیا میں بھی چاہے وہ لیفٹیسٹ ہیں چاہے وہ رائٹیسٹ ہیں چاہے وہ سینٹرلسٹ چاہے وہ انتہا پسند ہیں چاہے وہ اعتدال پسند ہیں سب کے ساتھ ہم نے کوئی دس دن لگائے وہاں پر اور بات چیت کی اور اس گرمی کو کم کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے اور پھر آپ کو یاد ہوگا کہ اس زمانے میں پھر انڈیا کا وفد آیا لالو پرشاد کی قیادت میں اور یہاں پر ان کو پذیرائی ملی جنرل مشرف نے خود ان سے ملاقات کی، چھے مہینے کے بعد تک صورتحال بحال ہو گئی، سو اب بھی خطے کی ضرورت تو یہی ہے کہ معاملہ اس حد تک نہ جائے اور ہندوستان کو بھی ایک ذمہ دار ریاست اور ایک ذمہ دار یونین کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن جہاں پر انسان کے اندر نظریات کے حوالے سے خیالات کے حوالے سے اعتدال نہیں ہے تو اس کی انتہا پسندی جو ہے وہ مملکت کے مفادات پر بھی پڑتی ہے اور وہ ہندوستان کے مفادات پر بری طرح منفی اثرات ڈال رہے ہیں جو انہوں نے اب کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں اپوزیشن جو ہے اس نے ان کے برخلاف ایک واضح موقف لیا ہے اور ان کے اس ایٹیچیوٹ کو انہوں نے پسند نہیں کیا اور جو میٹنگ کے اندر کی خبریں آ رہی ہیں وہ خبریں تو ایسی ہیں کہ اپوزیشن نے ٹھیک ٹھاک ان کو سنائی ہیں لیکن یہاں پاکستان میں یکجہتی پائی جا رہی ہے دونوں کی صورتحال ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور میرے خیال میں وہاں کی اپوزیشن جو ہے وہ زمینی حقیقت کو دیکھتے ہوئے بات کر رہے ہیں اور وہ ہندوستان پاکستان کے درمیان اس ٹینشن کو چاہتے نہیں ہیں لیکن مودی جی جو ہے وہ اپنی مزاج کے مطابق جو اس کے اندر چھپا ہوا رستم ہے وہ شاید جاگ رہا ہے۔
سلیم صافی: پاکستان میں تو اس معاملے پہ یکجہتی پائی جاتی ہے لیکن پاکستان کی اقتصادی جو مشکلات ہیں اور جو باقی صورتحال ہے تو اس میں اگر خدا نخواستہ جنگ چھڑی تو پاکستان جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے لیکن انڈین میڈیا بار بار یہی طعنہ دے رہا ہے کہ تم لوگوں کی تو یہ حالت ہے تم تو بھکاری ہو تم تو فلاں ہو فلاں ہو تو پاکستان کیا مقابلے کی طاقت رکھتا ہے سکت رکھتا ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیے صرف یہ نہیں ہے کہ ہماری معیشت کا مسئلہ ہے یقیناً معیشت کا مسئلہ ہے اور ہم اپنے ملک کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ہم ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ میرا غریب جو ہے اس کو صبح و شام کچھ کھانے کو ملے، میرے انپڑھ کو تعلیم کیلئے کچھ ملے، میرے بیمار کو صحت کیلئے کچھ ملے اور وہ ایک خوشحال زندگی گزار سکے، اس سفر میں میں جا رہا ہوں میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں جو بوجوہ یعنی ابھی تک ہمیں کامیابی نہیں مل رہی ہے اب ایسی صورتحال میں یقیناً ایک مشکل مرحلہ تو ہے لیکن اگر ہم دفاع پہ مجبور ہو جاتے ہیں اور ایک طاقت میں وہ جارحیت کا انتخاب کرتا ہے تو پھر تو "مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی"۔
سلیم صافی: ابھی نندن اگر آیا تو دوبارہ چائے پینی پڑے گی؟
مولانا صاحب: ابھی نندن والا واقعہ تو ظاہرہ ہے جی کہ ہم بھی جانتے ہیں آپ بھی جانتے ہیں کن کی مداخلت سے وہ ریزائن ہوا کس کی مداخلت سے وہ چلا گیا وہ کچھ چیزیں ہوتی ہیں حادثاتی طور پر آ جاتی ہیں تو اس پر ذمہ دار ممالک اسی طرح رسپانڈ کرتے ہیں اور پھر کوئی لمبہ چوڑا مسئلہ پھر نہیں بناتے تو ابھی نندن کا واقعہ بھی تو اسی نوعیت کی ایک غلطی تھی ان کی، کی انہوں نے لیکن پھر بہرحال ان کو احساس بھی ہوا۔
سلیم صافی: اچھا سندھ طاس معاہدے کو انہوں نے جو معطل کرنے کی کوشش تو کیا ان کے پاس یہ اختیار ہے اور کیا پاکستان اس سے روک سکے گا ان کو؟
مولانا صاحب: دیکھئے ایک ہے ٹریٹی تو ٹریٹی تو بہرحال دو ممالک کے درمیان ایک معاہدے کا نام تھا جس میں ہندوستان کو یہ خیال تھا کہ ہمارا سارا پانی جو ہے وہ پاکستان کی طرف جا رہا ہے اور پاکستان کو یہ خطرہ تھا کہ چونکہ ان کا منبع جو ہے وہ انڈیا ہے تو وہاں پانی ہمارا نہ روک دیا جائے تو اس لئے ایک ٹریٹی کی ضرورت پڑی جس میں ورلڈ بینک جو ہے وہ ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، تو اس سے پہلی بھی ہندوستان نے ہمارے دریاؤں کا پانی ناجائز طور پر روکنے کی کوشش کی اس پر ڈیم بنانے کی کوشش کی، اس اعتبار سے ہندوستان نے معاہدے کے خلاف ورزی کی ہے صرف پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے اور ہمیں بھی ردعمل میں پھر شملہ معاہدہ جو ہے معطل کرنے کا جواب دینا پڑ رہا ہے لیکن دونوں معاہدات ہیں اور سٹیٹس جو ہیں وہ بین الاقوامی فورم پر پابند ہوتے ہیں اس قسم کے جو ٹریٹریز ہوتی ہیں، تو اگر آج کوئی ایک ملک بھی ایک ایسا معاہدہ جس کا بین الاقوامی برادری کے ساتھ بھی تعلق ہو اور وہ بھی اس میں انوال ہو اس کو معطل کرتا ہے یا اس کو توڑتا ہے تو یہ ایک ریتھ چل پڑے گی اور اس کا دنیا جو ہے جگہ جگہ پر غلط فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، تو یہ وہی ان کی غیر سیاسی اور جذباتی روش ہے جو انہوں نے اختیار کی ہے اور اس جذباتی روش میں وہ قدم قدم پر غلطی کرتے چلے جا رہے ہیں۔
سلیم صافی: آج جہلم میں انہوں نے پانی چھوڑا ہے اور اس سے پاکستان کے بعض علاقوں میں سیلاب کا بھی خطرہ ہے اس کو آپ کس کیٹیگری میں۔۔۔ یہ آبی دہشتگردی نہیں ہے؟
مولانا صاحب: حضرت میں نے ایک ہی جملے میں بات مکمل کر لی کہ سارے فیصلے اس کے بلکل جذباتی اور غیر سنجیدہ اور کسی طرح بھی ہندوستان کے جو حجم ہے اور یا جو خطے میں جو اس کی حیثیت ہے اس کو زیب نہیں دیتا جی۔
سلیم صافی: فلسطین کے محاذ پہ آپ لوگ کافی عرصے سے لگے ہوئے ہیں احتجاج کر رہے ہیں تو کیا اس احتجاج کا فلسطینیوں کو کچھ فائدہ بھی ہو رہا ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیے ایک ہے وہاں جو گراؤنڈ کی صورتحال ہے جہاں پر دونوں کی فوجی قوتیں مجاہدین اور صہیونی قوتیں آمنے سامنے ہیں، وہاں پر جو صورتحال سامنے آئی ہے اسرائیل نے مجاہدین سے جنگ نہیں لڑی ہے اسرائیل نے جہاز اڑا کر عام شہریوں پر بمباری کی ہے جو جنگ کا حصہ نہیں ہوتے عام طور پر، اب اس میں اگر پچاس ہزار اور ساٹھ ہزار کے درمیان فلسطینی شہید ہوا ہے جس میں بہت بڑی تعداد چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہے خواتین کی ہے بوڑھوں کی ہے اور انہوں نے فلسطین کے شہروں کو غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے یہ ایسا کوئی قدم نہیں ہے جس پر کوئی اسے شاباش دے گا بلکہ یہی ثبوت پیش کرے گا کہ یہ ایک جنگی مجرم ہے، پھر اس جنگی مجرم کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آ چکا ہے اس کے قبضے کو غلط کہا ہے اس کو گرفتاری کا حکم دیا ہے نیتن یاہو کے اور دنیا جو ہے اس کا نوٹس نہیں لے رہی، اب اگر اسرائیل ظلم کرتا ہے اور امریکہ اور یورپ اس کو سپورٹ کرتا ہے وہ نسل کشی کر رہا ہے مسلمانوں کی قتل عام کر رہا ہے جنگی مجرم بن رہا ہے اور عالمی قوتیں اس کو اس پر سپورٹ کر رہی ہیں یہ عالمِ انسانیت کو کیا پیغام دے رہے ہیں، صدام حسین نے اگر سو دو سو لوگ جھگڑے میں مارے ہیں ان کو تو پھانسی چڑھا دیا گیا، انسانی حقوق کے مسئلے پر قذافی کے خلاف تحریک شروع کر دی، تو یہاں پر جو انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے صرف حقوق کی بات نہیں ہے ان کی زندگیاں ختم کر دی گئی ہیں لیکن میں ایک بات آپ سے عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ایک ہے وہاں پر جو مجاہدین جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنی دفاع کیلئے میدان میں ہیں وہ اب بھی کوئی غیر مؤثر نہیں ہے ہاں پبلک کا نقصان یقیناً اس میں ہوا ہے اب اس کے حق میں آواز بھی اُٹھنے چاہیے ایک مسلمان پر ظلم ہو رہا ہے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں المسلم اخو المسلم، لا يظلمه ولا يسلمه ولا يخضله ولا يحقرہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو کسی دوسری کے ظلم کے حوالے کرتا ہے نہ اس کو رسوا کرتا ہے نہ اس کی بے توقیری کرتا ہے، اب ایسے حالات میں مسلم دنیا منقسم ہے ہمارے سامنے کئی ممالک کے سرحدات جو ہیں وہ حائل ہیں تو براہ راست وہاں پر جہاد میں شریک ہونا وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ مورچے میں بیٹھنا وہاں تک رسائی تو شاید ممکن نہ ہو لیکن پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی جغرافیائی ساخت دی ہے اور ملک کے اندر کا جو نظام دیا ہے جس پر پبلک نکل سکتا ہے اور آواز بن سکتا ہے، سو آواز بننا کسی کو دور سے بھی آواز دے دیں کہ شاباش تھگڑے رہو تو یہ چیزیں یہ حوصلہ مہیا کرتی ہے اور پاکستان کے فضاء نے دنیا میں بیداری پیدا کی ہے چاہے آپ ایشیا میں جائیں چاہے آپ عرب ممالک میں جائیں چاہے آپ افریقی دنیا میں جائیں پاکستان کی آواز نے دنیا کو اٹھایا ہے اور اس وقت پوری دنیا کا مسلم حکمران وہ تنہا ہے ایک سائیڈ پہ ہے اور امت مسلمہ دوسری طرف ہے۔
سلیم صافی: یہ جو ان کے پڑوسی مسلمان ممالک ہیں اور عرب ممالک ہیں آپ کے کئی کے ساتھ اچھے تعلقات بھی ہیں تو عرب دنیا کے کردار کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں اور ان کے حکمرانوں کو؟
مولانا صاحب: میں تو ان کے کردار کو مایوس کن دیکھ رہا ہوں مجھے افسوس ہے کہ ہمارے عرب بھائی جو ہیں اگر وہ متحد ہو کر بھی فلسطین کی دفاع کیلئے آمادہ ہوتے لیکن وہ بہت سے چیزوں کو دیکھ رہے ہیں وہ جس طرح ہمارے پشتو میں ہے کہ ایک دیہاتی کا اور ایک وکیل کا جھگڑا ہو گیا تو وکیل سوچتا تھا یہاں ماروں گا تو یہ قانون لگے گا یہاں ماروں گا تو یہ قانون لگے گا یہاں اتنے میں وہ دیہاتی نے چار پانچ لگا دیے اس کو، تو ہمارے حضرات جو ہیں وہ اپنے فائدے نقصان یہ ہو جائے گا تو وہ ہو جائے گا تو یہ قانونی حیثیت ہے تو یہ غیر قانونی حیثیت ہے تو پچھلے جو ان کے سلسلے چل رہے تھے دنیا کے ساتھ ازسر نو تعلقات قائم کرنے کا تجارتی روابط قائم کرنے کا نئے سفارتی ویلیوز جو ہے وہ طے کرنے کا وہ سب جو ہیں وہ معطل ہو گئے ہیں اب مخمصے میں ہیں کہ ہم کدھر جائیں پیچھے کی طرف جائیں یا آگے کی طرف جائیں، تو وہاں پر مشکلات یقیناً اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو ہیں لیکن امت مسلمہ کے جذبات ایک ہیں اور ان کو امت مسلمہ کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔
سلیم صافی: پاکستانی حکومت کے فلسطین کے حوالے سے ابھی تک جو کردار ہے اس کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
مولانا صاحب: انتہائی مایوس کن جی، یعنی سوائے ایک کے کہ ایوان صدر میں ایک جلاس ہوا جس میں پارٹی سربراہان کو بلایا گیا اور میں جب تک بیٹھا رہا کم از کم کسی ایک کا بھی تبصرہ وہ فلسطین کے مسئلے کو مجھے اندازہ رہا کہ سمجھے بھی نہیں ہیں اور نہ حق ادا کر رہے ہیں جی بس وہ ایک ہی میٹنگ ہوئی ہے لیکن اس حوالے سے بہرحال اسلامی دنیا کو اور پاکستان قیادت کر سکتا ہے جی، پاکستان ہو سعودی عرب ہو مصر ہو انڈونیشیا ہو ملائشیا ہو ترکی ہو یہ اسلامی دنیا کی قیادت کرنے والے ممالک ہیں اور ان کو ایک باہمی گروپ بنا کر اس حوالے سے بیٹھنا چاہیے اور اسلامی دنیا کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔
سلیم صافی: اس وقت آپ نے خود کہا ہے درمیان میں باؤنڈریز حائل ہے اور پاکستان کے اپنے بھی معاملات ہیں، پاکستان نے تو ہر فورم پر مذمت کی ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے اس سے سوا کچھ کر سکتا ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیے جس طریقے سے انڈیا نے فوری طور پر اسرائیل کی حمایت میں فیصلہ کیا اور یہ بھی اسی ذہنیت کی عکاس تھی کہ ان لیوا اس نے سیدھا کہہ دیا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں اس طرح ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا نہیں کہہ سکے اس وقت جی، تو لمحے لمحے ہوتے ہیں اور اس لمحے میں اگر فیصلہ کیا جاتا ہے تو بعض دانشور کہتے ہیں کہ فیصلے کا ایک وقت ہوتا ہے اور جب فیصلے کا وقت آ جاتا ہے تو پھر سورج کے شعاؤں سے بھی تیز رفتار کے ساتھ فیصلہ کرنا پڑتا ہے، تاخیر ہوتی ہے تو پھر غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔
سلیم صافی: اس وقت پاکستان کی جو پوزیشن رہی ہے مختلف فورم پہ وہ تو رہی ہے لیکن پاکستان کے اندر عوام کو یکجا کرنے کیلئے اور یہ قیاس کرنے کیلئے آپ جیسے لوگوں نے کیا کیا۔
مولانا صاحب: دیکھیے آپ کو یاد ہوگا کہ جب 7 اکتوبر 2023 کو جنگ چھیڑی تو 14 اکتوبر کو پشاور میں مفتی محمود کانفرنس تھی جو پہلے سے طے تھی ہم نے فوری طور پر اس کو طوفان اقصی کا عنوان دیا اور اس میں فلسطین کا نمائندہ باقاعدہ شریک ہوا اور پھر اس کے بعد اس تسلسل کو ہم نے برقرار رکھا، ہم نے پشین میں جلسہ کیا ہم نے کراچی میں جلسہ کیا پھر پنجاب میں آئے اور بڑے بڑے جلسوں سے عوامی اجتماعات سے یہ سلسلہ چلتا رہا پھر ملک کے اندر اور باقاعدہ طوفان اقصی کے نام سے غزہ کے نام سے بھرپور طور پر یہاں پر کسی قسم کا کوئی اس میں تحفظات نہیں تھی کھل کر ہم نے اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیا جی، اب سوال بنیادی یہ ہے کہ آئیں نا کسی فورم پر بیٹھیں نا کہ فلسطین کا حق کیا بنتا ہے، صہیونیوں کو قبضہ کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں ہے، اقوام متحدہ نے سن ستتر کے جنگ کے بعد کے علاقوں کو آج تک متنازع کہا ہے اس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کیا ہے جی، اس موجود صورتحال میں بھی عالمی عدالت انصاف نے ان کے خلاف فیصلے دئیے ہیں اور جو فلسطینیوں کا اپنی سر زمین پر رہنے کا حق ہے اس کو چھینا گیا ہے، آپ عجیب عجیب لوگ باتیں کرتے ہیں سمجھ میں بات نہیں آتی یعنی اگر آپ 1917 تک جائیں جہاں دالفورم معاہدہ ہوا تو اس وقت اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا صرف فلسطین ہی فلسطین تھا جی، 1937 کے سکے بھی اس وقت ریکارڈ پر ہیں آج بھی موجود ہیں کیونکہ وہ فلسطین کے نام سے جو ہے وہ چھپتے تھے اور بنتے تھے تو اس وقت پورے فلسطین کی سر زمین کے صرف دو فیصد حصہ پر صہیونی آباد تھا لوگ کہتے ہیں انہوں نے زمینیں بیچی ہیں کہاں بیچیں ہیں، پھر سن سینتالیس پہ آجائیں جو آخری یعنی پھر اڑتالیس میں پھر اسرائیل بنتا ہے اس وقت چھ اعشاریہ Something یہ اس علاقے پہ وہ آباد تھے اس سے زیادہ فلسطین ان کے ہاتھ میں نہیں تھا جی، تو کس کی قوت سے انہوں نے اسرائیل بنایا، کس کی قوت سے انہوں نے یہاں پر قبضہ کیا اور امریکہ پشت پناہی کرے یورپ پشت پناہی کرے اس کو قبضہ ہی کہا جاتا ہے، پھر اس کے بعد آپ خود دیکھیں کہ اس زمانے میں یعنی ایک صدی پہلے اسرائیل نام کی کوئی ریاست تو نہیں تھی لیکن جب جنگ عظیم اول میں یہودی پیٹا گیا مارا گیا یورپ میں جی تو در بدر ہو گیا، اس وقت اقوام متحدہ بھی نہیں بنا تھا لیگ آف نیشنز تھا اس نے کمیٹی بنائی اس کمیٹی نے جو اصول طے کیے ان کے دوبارہ بسانے کے لئے بنیادی بات یہ تھی کہ اس کو ایک بین الاقوامی ذمہ داری قرار دے دیا گیا international responsibility، اب پوری دنیا جو ہے اس کی responsibility تھی کہ یہودیوں کی بحالی کرے، لائے گئے فلسطین، یہاں تک اس میں کہا گیا ہے کہ نہ کسی یہودی کو مجبور کیا جائے گا کہ تم وہاں آباد ہو اور نہ کسی حکومت کو مجبور کیا جائے گا کہ تم نے اپنی ملک میں ان کو بسانا ہے جی، پھر کیوں صہیونیوں کو مجبور کیا گیا فلسطین میں آباد کرنے کا اور کیوں فلسطینیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان کو قبول کریں جی، پھر اس کے بعد یہ بھی دیکھا گیا کہ فلسطین over populated area ہے جی تو جب وہ ضرورت سے زیادہ آبادی ہے اپنی زمین سے زیادہ گنجان ہے وہ تو وہاں یہ نہ آباد کیا جائے، پھر یہ بھی کہا گیا کہ فلسطین کی اقتصاد کمزور ہے تو وہاں نہ آباد کیا جائے، پھر بھی فلسطین میں آباد کر دیا گیا، تو یہ جو تاریخ میں ناانصافیاں ہوئی ہے جو لیگ آف نیشنز کے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات تھے اس کے برعکس کیا گیا تو آج اسی تسلسل میں آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا اسرائیل کا وجود جو ہے وہ جائز ہے یا ناجائز اور سن اڑتالیس میں پاکستان نے کہہ دیا کہ یہ ناجائز ہے۔
سلیم صافی: نہیں وہ تو ناجائز ہے اور ہر ذی شعور آدمی ان کو ناجائز ریاست کہتا ہے لیکن نا امریکہ اور نہ ان کے اتحادی جو کہ سب اسرائیل کے ان مظالم میں ان کے ساتھ شریک ہے اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ پہل تو حماس نے کی تھی حملہ کرکے تو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
مولانا صاحب: دیکھیں ایک ہے حملہ کی دن کہ وہ کب وقوعہ ہوا، ایک ہے دونوں کی پوزیشن، میرے خیال میں مسلسل فلسطینی اور اسرائیلی وہ حالت جنگ میں رہے ہیں، جب آپ دونوں حالت جنگ میں ہوتے ہیں تو پھر کوئی گارنٹی نہیں ہوتی اس بات کی کہ کون کس وقت حملہ کرتا ہے جی، فلسطین کا بچہ بچہ جوان ہوتا ہے تو اس کے لئے فوجی بننا لازم ہے جی، کہتے ہیں جی کہ عام شہریوں کو انہوں نے مارا ہے جی، عام شہری کوئی فوجی ہوتا ہے جی! مرد ہو عورت ہو جنگجو ہوتا ہے جی! اور وہ جنگ میں باقاعدہ حصہ لیتا ہے اس کے لئے لازم ہوتا ہے جبکہ فلسطین میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے نہ کوئی ایسا جبر ہے تو اس اعتبار سے ہم نے بلکل حالات نہیں تھے خاموشی تھی کارگل پہ حملہ نہیں کیا تھا، کیوں؟ انڈیا ہم حالت جنگ میں تھے، اب اگر کوئی ہمیں کہے کہ جی پاکستان نے کیوں پہل کی تو پاکستان حالت جنگ میں تھا، ہماری ایک ضرورت تھی اس کا کشمیر کی طرف جانے کا راستہ روکنا تھا ہم نے کامیاب ہوئے ناکام ہوئے اپنی جگہ پر ہے لیکن ایک سوچ تو تھی اور کس اصول کی بنیاد پر تھی وہی اصول وہاں پر اپلائی ہو سکتا ہے۔
سلیم صافی: اچھا اب ابھی کل آپ لوگ لاہور میں جو مظاہرہ کر رہے ہیں یہ صرف جے یو آئی کا مظاہرہ ہوگا یا دیگر جماعتیں بھی شریک ہونگے؟
مولانا صاحب: اس میں تمام مکاتب فکر شامل ہو رہے ہیں، تنظیمات اتحاد مدارس دینیہ بھی اور اس کے بعد سیاسی ونگز ہیں مذہبی جماعتوں کی انہوں نے ایک عنوان دیا ہے مجلس اتحاد امت کے نام سے جی تو اس کا ایک اجتماع ہے اور اس اجتماع میں ان شاءاللہ العزیز پورا پنجاب آرہا ہے، باہر سے بھی شاید لوگ آئیں گے ایک بہت بڑا مظاہرہ مینار پاکستان پر فلسطینیوں کے حق میں کیا جائے گا۔
سلیم صافی: مولانا صاحب یہ جو آپ لوگوں نے ابھی اتحاد بنایا ہے یہ صرف فلسطین کی کاز کے لئے ہے یا کہ جماعت اسلامی وغیرہ کے ساتھ یا یہ مستقل ایک اتحاد ہے؟
مولانا صاحب: یہ بہرحال اب تو فالحال تو ایک معروضی عنوان کے ساتھ ہے اور وہی ہمارے مد نظر ہے لیکن ہم نے ایک بات پر اتفاق کیا ہے اور ہم مزید بھی اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ ایک ڈھیلا ڈھالا ایسا فورم بن جائے ایک ایسی بیٹھک ہو ہماری کہ جہاں پر ہم ملک کے مسائل اور خاص طور پر شہری مسائل اس پر بھی ایک ہم آہنگی پیدا کر کے قوم کی رہنمائی کر سکیں اور پر ایک موقف لے سکیں تو اگرچہ ابتدائی طور پر اس کے لئے جو سبب بنا ہے وہ فلسطین کا مسئلہ ہے لیکن جب ایک دفعہ ہم اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ایک ماحول بن جاتا ہے اور اس ماحول سے ہم ملک کے اندر کے بھی ملکی مفاد میں بہت سے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔
سلیم صافی: اس میں جماعت اسلامی کے علاوہ کون کونسی جماعتیں ہیں؟
مولانا صاحب: اس میں مفتی منیب الرحمان صاحب ہوں گے اور پھر علامہ ساجد میر صاحب ہوں گے اس میں جمعیت علماء اسلام ہوگی وفاق المدارس العربیہ ہوگی اور اس طریقے سے مختلف۔۔۔ یہ کوئی ایسا باقاعدہ تنظیموں کے نام لے کر نہیں بنایا گیا بلکہ اس میں شخصیات کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔۔۔
سلیم صافی: مستقبل میں جاکے یہ ایک مکمل اتحاد میں بدل سکتا ہے؟
مولانا صاحب: ابھی نہیں کہا جا سکتا ابھی نہ کوئی اس کے رکن سازی ہے نہ کوئی تنظیم سازی ہے ایک فورم ہے بس۔
سلیم صافی: پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کی کیا صورتحال ہے؟
مولانا صاحب: اس بارے میں ہم نے ان سے یہ کہا تھا کہ جمعیت علماء اسلام کی جو مرکزی مجلس عمومی ہے یعنی جنرل کونسل ہے وہی پالیسی طے کرتا ہے اور ہم یہ سارا معاملہ ان کے سامنے پیش کریں گے، تو وہاں دو دن بحث ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات بہتر رکھیں، اپوزیشن کے ساتھ ہمارے رابطے ہونے چاہیے اور مختلف معاملات پر ہم ایک موقف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، جہاں تک سیاسی جدوجہد کا تعلق ہے تو وہ جمعیت علماء اسلام اپنے پلیٹ فارم سے جارے رکھے۔
سلیم صافی: تو کیوں نہیں مل جاتے ابھی تو اتنے عرصے دوستی کے بھی ہو گئے تو پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کیوں نہیں کرتے آپ؟ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے۔۔۔
مولانا صاحب: نہیں مقصد تو خیر اپنی جگہ پر ہے چونکہ ہمارے اور پی ٹی آئی کے درمیان اتفاق رائے کے لیے سوائے معروضی وجوہ کے اور کوئی وجوہ نہیں ہے نظریاتی وجوہ نہیں ہے، تو اتحاد ہوتے ہیں نظریاتی وجوہ کی بنیاد پر، لیکن جو معروضی وجوہات ہیں وہ بہرحال ہمارے مدنظر ہیں وہ بھی اپوزیشن میں ہے ہم بھی اپوزیشن میں ہیں اور دوبارہ الیکشن کا مطالبہ ان کا بھی ہے اور ہمارا بھی ہے سو اس اعتبار سے جہاں تک ہم اس کو نبھا سکتے ہیں ہم نے وہاں تک فیصلہ کیا ہے، زیادہ ضرورت سے آگے جاتے ہیں کیونکہ خدا نخواستہ کوئی مشکلات پیدا ہو تو وہ بھی دھیرے دھیرے ہم قریب ہوتے جارہے ہیں، وہ سفر میرے خیال میں زیادہ فائدہ مند ہوگا۔
سلیم صافی: لیکن اس کا امکان ہے کسی سٹیج پہ پی ٹی آئی کے ساتھ مکمل اتحاد کا؟
مولانا صاحب: میں ابھی فالحال تو اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن سیاسی دنیا میں حالات بدلتے ہیں اور اگر کوئی ایسی صورتحال آ جاتی ہے کہ جس طرح اب اگر آپ مزید سوالات نہ کریں تو ایک بات ایک لفظ میں جواب دے دیتا ہوں کہ جمعیت جو ہے وہ ایک نظریاتی جماعت ہے اور ہمارے ان کے درمیان جو اختلافات ماضی میں رہے ہیں تو وہ اس نوعیت کے نہیں ہیں کہ ہم صرف ایک وقتی ضرورت کے لیے ایک پہاڑ جو ہے وہ پھلانگ کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں کچھ تحفظات ہوتی ہیں جس کو ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی بطور پارٹی بیٹھ کر طے کرنا ہے اور ہم نے بطور پارٹی بیٹھ کر طے کرنا ہے۔
سلیم صافی: اچھا دریائے سندھ کے پانی کو تو مودی ادھر سے بند کرنا چاہتا ہے لیکن ادھر ہم نے اس پہ لڑائی شروع کر دی ہے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کی جو منصوبہ تھا اس کے بارے میں آپ کا کیا نقطہ نظر ہے؟
مولانا صاحب: میں خود ہم حیران ہوں اپنے حکمرانوں کے بارے میں یا جو فیصلہ کن قوتیں ہیں ان کے بارے میں کہ کالاباغ ڈیم کا تجربہ ان کے سامنے ہے کہ صوبوں کے درمیان جب تنازعہ ہو تو نہیں بن سکا اور ایک بار پھر ہم نے دو طرح کے تنازعے بیک وقت چھیڑ دیے ایک مائنز اینڈ مِنرل بل کے حوالے سے جس کے اوپر ہمارے صوبہ خیبر پختونخوا کا رد عمل آ رہا ہے اور یہ مزید منظم ہوگا اور دوسرا جو ہے وہ جو چولستان میں نئے نہریں ان کو دی جا رہی ہے تو اس حوالے سے میں تو حیران ہوا پرسوں میں کوئی ایک شخصیت تھی جس نے کہ اس حوالے سے سفارشات مرتب کی تھی اور حکومت کے کہنے پہ مرتب کی تھی انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے جو رپورٹس ہیں اس کے بالکل برعکس کیا گیا ہے اور ہمارے کسی رپورٹ پہ عمل نہیں کیا گیا اب اس طریقے سے جب آپ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں پیدا کرنا چاہتے جبکہ چاروں صوبوں کے درمیان رابطے کا نظام موجود ہے وزارت موجود ہے ساری چیزیں موجود ہیں مشترکہ مفادات کونسل موجود ہے اور آپ سب کو نظر انداز کر کے فیصلے کرتے ہیں تو پھر اس قسم کے اعتراضات تو آئیں گے تو قومی یکجہتی کو ہمیشہ یہاں سے نقصان پہنچا ہے کہ ہم طاقت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔
سلیم صافی: آپ کیا کہتے ہیں کہ سرے سے نکالنا ہی نہیں چاہیے یا کہ اس پہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے؟
مولانا صاحب: اتفاق رائے ہونا چاہیے اگر نکالیں اور نقصان ہو یا اس کا کوئی متباد ہو تلاش کیا جائے، امینڈمنٹ بل پہ آپ لوگوں کا کیا اعتراض ہے؟
مولانا صاحب: ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اٹھارویں ترمیم کی نفی ہے یہ خطہ جو ہے یہ بہرحال یہ ایک صوبے سے وابستہ ہے اور اس کا اختیار صوبے کو ہے صوبے کے عوام کو ہے صوبے کی پبلک کو ہے یہ ان کی ملکیت ہے اور اس طریقے سے کہ آپ ان کو اعتماد میں لیے بغیر سیدھا جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں جی وہ ایک سٹریٹیجک مقاصد کے لیے، تو سیدھی بات یہ ہے کہ اس میں پھر اس کی اس لفظ کے پیچھے کون ہو سکتے ہیں، تو اس میں بین الاقوامی دنیا کو سرمایہ کاری کے لیے ایسے راستہ دینا کہ جس میں صوبے کو پتہ ہی نہ ہو تو ہمارا صوبہ جو ہے وہ بھی اس وقت اپنے صوبے کے حقوق کو ڈیفینڈ نہیں کر سکتا اس کی صلاحیت سے محروم ہے اور ہونا یہ چاہیے کہ اگر باہر کی دنیا آتی ہے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اس کے اوپر کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر وفاق یا کوئی دوسرا صوبہ ایک دوسرے کے صوبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اس اصول پر کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن جس صوبے میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہو معاملہ اس کے ساتھ طے کر رنا ہوگا اس کے ساتھ حساب کتاب کرنا ہوگا اس کے ساتھ منافع کو تقسیم کرنا ہوگا کوئی آپ کے ساتھ سرمایہ کاری کر رہے ہیں اس میں کیا آمدن ہوگی اس کا حصہ دار کون ہوگا کتنا ہوگا یہ ساری چیزیں۔۔۔ اس صوبے کو نظر انداز کر کے ہم ایک قانون بنائیں گے اور ادھر سے 18ویں ترمیم کے تحت ہم کہتے ہیں کہ صبح خود مختار ہیں اور اپنے وسائل کے خود مالک ہیں اس کی نفی ہو تو اس طرح کی پھر کام چلتے نہیں ہیں خراب ہو جاتے ہیں۔
سلیم صافی: لیکن یہ معدنیات ہماری زمین کے اندر پڑی ہوئی ہے اور ہماری اپنی تو یہ استعداد نہیں ہے کہ ہم ان کو نکال سکیں تو کب تک ہم اس۔۔۔۔۔
مولانا صاحب: حضرت میں پاکستان سے بات نہیں کر رہا ہوں میں پوری دنیا سے بھی بات کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہمارے پاس وسائل ہیں ریسورسز ہیں اور آپ کے پاس ٹیکنالوجی ہے تو آئیں اس کے شراکتداری کے ساتھ تو اس پہ کام کرتے ہیں، نہ قران اس کی نفی کرتا ہے نہ حدیث اس کی نفی کرتی ہے نہ کوئی فقہ اس کی نفی کرتا ہے نہ کوئی بین الاقوامی قانون نفی کرتا ہے نہ کوئی ہماری معروضی ضرورتیں ہے اس کی نفی کرتی ہیں جب میدان موجود ہے اور ایک سلیقے کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کیے جا سکتے ہیں زبردستی سے کام کیوں کئیں جاتے ہیں۔
سلیم صافی: یعنی اس میں بھی آپ کو اعتراض یہ ہے کہ صوبے کے اتفاق سے کیا جائے۔
مولانا صاحب: صوبے کے اتفاق کے ساتھ نہیں صوبے کی مرضی کے ساتھ کیا جائے کیونکہ صوبہ کی ملکیت ہے اور سرمایہ کاری کے ہم خلاف نہیں ہے تو امریکہ جیسے ملک بھی سرمایہ کاری جو ہے اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا چائنا نہیں ہو سکتا رشیا نہیں ہو سکتا تو بین الاقوامی سرمایہ کاری تو پوری دنیا میں چلتی رہتی ہے لیکن اس کی کوئی ضابطے کوئی اصول کہ بھئی اس چیز کا مالک تو آپ ہیں میں آپ کے گاؤں میں آپ کی زمین میں کچھ چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہوں اور میں آپ سے پوچھوں ہی نہیں، آپ کی رضامندی ہی نہیں ہے، آپ کی حصہ داری نہیں ہے اس میں تو یہ ساری چیزیں پہلے ٹھیک کرنی چاہیے پھر یہ ملک ہم سب کا ہے اس میں ہم سب نے مل کر چلنا ہے میں نے آپ کو راضی رکھنا ہے آپ نے مجھے راضی رکھنا ہے ہم دشمن تو نہیں ہے کسی کے۔
سلیم صافی: اچھا آخری سوال آپ ہی کے پروگرام میں حضرت مفتی عثمانی صاحب نے ایک فتویٰ دیا کہ فلسطین کا جہاد سب پہ فرض ہو چکا ہے تو اب ظاہری بات ہے درمیان میں اتنے ملک کے جہاد میں کیسے حصہ۔۔۔۔۔
مولانا صاحب: یہ ساری باتیں انہوں نے کی تھی الاقرب فالاقرب کا لفظ استعمال کیا تھا انہوں نے کہ جو ملک کے اندر ہیں ان کے لیے حکم اور ہوگا جو پڑوس میں ہے اس کے لیے حکم اور ہوگا جو اس سے پیچھے ہیں اس کے لیے حکم اور ہوگا اگر کوئی براہ راست نہیں جا سکتا اس کے لیے مشکلات ہیں تو ہم بین الاقوامی قانون تو نہیں توڑ سکتے جی تو پھر آپ اس کے لیے اگر مالیاتی تعاؤن کر سکتے ہیں سیاسی تعاؤن کر سکتے ہیں اخلاقی تعاؤن کر سکتے ہیں یہ سب اس ایک جہاد کے زمرے میں ہی آئے گا جی۔
سلیم صافی: بہت شکریہ جناب مولانا فضل الرحمن صاحب ہمیں وقت دینے اور ہم سے بات کرنے کے لیے۔
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن1
#teamJUIswat
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا خصوصی انٹرویو سلیم صافی کے ساتھقائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا خصوصی انٹرویو سلیم صافی کے ساتھ
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Saturday, April 26, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں