مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کراچی میں اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا کراچی میں اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب

13 اپریل 2025

سُبْحَٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِۦ لَيْلًا مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْأَقْصَا ٱلَّذِى بَٰرَكْنَا حَوْلَهُ والحمد لله الذي هدانا لهذا وما كنا لنهتدي لولا ان هدانا الله والصلاة والسلام على سيدنا محمد وعلى اله وصحبه ومن والاه اما بعد 

جناب صدر محترم، اکابر علمائے کرام، زعمائے ملت، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو، آپ نے جمعیت علماء اسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کراچی میں انسانی تاریخ کا ایک عظیم الشان اور فقید المثال اجتماع منعقد کر کے عالمِ اسلام کو حوصلہ دیا ہے، عالمِ عرب کو حوصلہ دیا ہے، اہل فلسطین کو حوصلہ دیا ہے، اہل غزہ کو پیغام دیا ہے کہ آپ پر ہونے والے مظالم میں آپ تنہا نہیں ہیں، پاکستان کے عوام اور جمعیت علماء اسلام کے کارکن شانہ بشانہ آپ کے ساتھ ہے اور خون کے آخری قطرے تک آپ کے قدم بقدم شانہ بشانہ آپ کے ساتھ رہیں گے۔ 

یہ اجتماع اسلامی حکمرانوں کو پیغام دے رہا ہے کہ کچھ تو ذرا اپنی حمیت کا مظاہرہ کرو، تمہاری غیرت اسلامی کہاں گئی کہ آج کراچی میں ایک ملین عوام جمع ہو کر آپ کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہی ہے، یہاں کے عوام آپ کو یہ احساس دلانا چاہتی ہے کہ اپنا فرض منصبی پورا کرے، اپنا فرض شرعی پورا کرے لیکن میرے بھائیو اگر غزہ کے 60 ہزار مسلمانوں کی شہادت، اگر وہاں پر بیس ہزار سے زیادہ بچوں کی شہادت، اگر وہاں پر بیس ہزار خواتین کی شہادت ان حکمرانوں کو نہیں جگا سکی تو کیا ہمارا یہ اجتماع ان کو جگا سکے گا، نہیں جگائے گا، یہ غیرت و حمیت اسلامی سے محروم ہو چکے ہیں، اسلامی دنیا کے حکمران مفادات کے غلام بن چکے ہیں، اسلامی دنیا کے حکمران امریکہ کے کٹھ پتلی بن چکے ہیں، ہم اسلامی دنیا کے غلام آج امریکہ تو کیا ایک چھوٹے سے اسرائیل کی غلامی کے لیے تیار ہیں لہٰذا حکمرانوں کی پرواہ کیے بغیر عوام کو مسلمانوں کو امت مسلمہ کو اپنی غیرت و حمیت کے تحت اٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور اسرائیل کے خلاف ایک سیلاب بن کر اس کے خلاف اُمڈ آنا ہوگا تاکہ اس اسرائیل کو ہم تنکے کی طرح اس سیلاب میں بہا سکیں۔ 

میرے محترم دوستو، اسرائیل کوئی ملک نہیں ہے، اسرائیل نے عرب سرزمین پر قبضہ کیا ہے، اسرائیل عربوں کی پیٹ میں ایک خنجر ہے جو گھونپا گیا ہے، 77 سال ہو گئے عالمی قوتیں ایک ایسے عمل میں اسرائیل کو حمایت اور تائید دے رہے ہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جس کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں، جس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں محض جبر اور ظلم کی بنیاد پر امریکہ نے اپنا موقف لیا ہوا ہے، یورپ نے اپنا موقف لیا ہوا ہے۔ ایک صدی پہلے تک کرہ ارض پر اسرائیل نامی کسی مملکت کا وجود تک نہیں تھا۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب ابھی اقوام متحدہ وجود میں نہیں آیا تھا اور ایک ادارہ عالمی سطح پر لیگ آف نیشنز کے نام سے بنایا گیا تھا اس وقت جب یورپ میں یہودی مارے گئے پیٹے گئے دربدر ہو گئے تو سوال پیدا ہوا کہ ان یہودیوں کو کہاں بسایا جائے، لیگ آف نیشنز نے کمیٹی بنائی اس کمیٹی نے سفارشات مرتب کئیں جس میں کہا گیا کہ ان دربدر یہودیوں کو بسانے کی ذمہ داری یہ بین الاقوامی ذمہ داری ہے جو ذمہ داری اقوام عالم کی ذمہ داری ٹھہری وہاں یہودیوں کو صرف فلسطین میں کیوں بسایا گیا؟ اس کمیٹی کی سفارشات میں یہ بات بھی کہی گئی کہ کسی بھی ملک میں جبری طور پر کسی کو آباد نہیں کیا جائے گا، نہیں اب مجبور کیا گیا اور فلسطین میں بسانے پر یہودیوں کو کیوں مجبور کیا گیا اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کو فلسطین میں آباد نہ کیا جائے اس لیے کہ فلسطین کی اپنی آبادی زیادہ ہے وہاں مزید کسی کو آباد کرنے کی گنجائش نہیں ہے پھر انہیں کیوں فلسطین میں لا کر آباد کیا گیا؟ اس کمیٹی کی سفارشات میں لکھا ہے کہ فلسطین اقتصادی طور پر کمزور ملک ہے، کمزور اقتصادی ملک میں یہودیوں کو آباد نہ کیا جائے پھر کیوں فلسطین میں آباد کیا گیا؟ جب کوئی وجہ ان کو نہیں مل رہی اپنے اس جرم کی، 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ دار فور آتا ہے اور وہ اسرائیل کے مملکت کا اعلان کرتا ہے اور پھر پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ فلسطینیوں نے تو اپنی سرزمین خود بیچی تھی، اور فلسطینیوں کی اپنی بیچی ہوئی زمینوں پر یہودی آباد ہوئے تھے، ذرا ریکارڈ دیکھیے 1917 میں جنگ عظیم اول کے بعد پورے ارض فلسطین کے صرف دو فیصد علاقے پر یہودی آباد تھے، 98 فیصد فلسطین کی سرزمین فلسطینیوں کے ہاتھ میں تھی، کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ زمین تو فلسطینوں نے بیچی تھی، اور جب 1947 میں دوبارہ سروے کیا گیا تو پورے ارض فلسطین پر صرف چھ فیصد یا کچھ اعشاریہ اس کے اوپر تھا اس خطے پر یہودی آباد تھا 94 فیصد پر فلسطینی آباد تھا اور 1948 میں آپ نے اسرائیل کو بنا دیا۔ کوئی قانونی وجہ اس ملک کی نہیں ہے، برطانیہ کی عادت رہی ہے کہ جب ہندوستان سے گیا تو کشمیر کو خطے میں متنازعہ بنا کر گیا، برصغیر کے مسلمان اور ہندو باہمی مفاہمت کے ساتھ دو الگ ریاستوں پہ راضی ہوئے لیکن اس کے باوجود قضیہ کشمیر کو متنازعہ چھوڑ دیا تاکہ یہاں لوگ لڑتے رہے اور ہماری مداخلت کے لیے جواز اور راستے پیدا ہوتے رہے، اسی طرح جب خلافت عثمانیہ کے خاتمہ ہوا اور عرب نیشنلزم کا نعرہ لگا کر بہت سے عرب ریاستیں وجود میں آئی تو برطانیہ نے وہاں اسرائیل کا تنازعہ کھڑا کردیا اور دنیا کو لڑانے کا ان کا جو فلسفہ ہے جس طرح برصغیر میں تنازعات چھوڑے اسی طرح عرب دنیا میں اسرائیل کی صورت میں اس نے ایسا تنازعہ چھوڑا آج بھی عرب دنیا کا خون ان کے جسم سے بہہ رہا ہے لیکن جھگڑا ختم نہیں ہورہا اور آج امریکہ ہے اور یورپ جب بات کرتے ہیں انسانی حقوق کی اگر سعودی عرب میں یا افغانستان میں کسی کا قصاص لے لیا جاتا ہے تو سزائے موت پر احتجاج کرتے ہیں، کوئی سزائے موت نہیں ہونا چاہیے وہ انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں اور 60 ہزار انسانوں کو لقمہ اجل بنا کر بھی ابھی امریکیوں کے اندر کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوسکی، یورپ کے اندر کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو سکی اور مزید فلسطینیوں کو شہید کیا جارہا ہے روزمرہ کے حساب سے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں امریکہ سے ان کے نظر میں مسلمان کا خون اتنا سستا کیوں ہے؟ اور امریکہ اور یورپ کے اس رویے کے نتیجے میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ امریکہ کو دنیا کی قیادت کا حق نہیں حاصل رہا، جس کے ہاتھوں سے انسانی خون ٹپک رہا ہو اسے انسانیت کی قیادت کرنے کا کوئی حق حاصل ہے اور ہم اس لیے ان کو طاقتور نہیں مانتے، اس لیے بڑی قوت نہیں مانتے کہ کل پرسوں کی بات ہے افغانستان سے بیس سال جنگ لڑ لڑ کر دُم دبا کے بھاگا ہے۔

آج دنیا بدل رہی ہے، دنیا کی معیشت انگڑائی لے رہی ہے، ایشیا کی معیشت پر قبضہ کر کے ایشیا کو لوٹ کر یہاں کے وسائل اور ذخائر کو لے کر یورپ نے دنیا کی معیشت پہ قبضہ کیا لیکن آج پھر حالات بدل رہے ہیں دنیا کروٹ دے رہی ہے معاشی کروٹ لے رہی ہے اور پھر ایک بار عالمی معیشت ان شاءاللہ ایشیا کے ہاتھ میں آئے گی اور امریکہ معاشی طور پر دنیا کا طاقتور ملک نہیں کہلائے گا۔ اس کے لیے اب صدیوں کی ضرورت نہیں دس بیس سال ان کا انتظار کیجیے حالات بدل رہے ہیں، اس لیے ہم امریکہ کو واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ بس اب بہت ہو گیا تم نے عرب دنیا میں ہمارے مسلمان بھائیوں کا بہت خون کر دیا اگر آپ افغانستان سے سبق حاصل نہیں کرتے تو پھر وقت آئے گا امریکہ بھی تتر بتر ہو جائے گا اور اپنی معاشی اور دفاعی قوت کھو بیٹھے گا۔

میرے محترم دوستو، آج یہاں جمعیت علماء کے زیر اہتمام ایک بڑا عظیم الشان تاریخی اجتماع ہو رہا ہے، یہیں کراچی میں ہم نے جلسہ کیا تھا اور آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ جمعیت علماء روز اول سے فلسطین کے موقف کی حمایت کرتی ہے، اسی کے تسلسل میں جب 7 اکتوبر 2023 کو حملہ ہوا تو پشاور میں مفتی محمود کانفرنس ہورہی تھی ہم نے مفتی محمود کانفرنس کا عنوان طوفانِ اقصیٰ میں تبدیل کیا اور تاحد نظر انسانوں نے اہل غزہ کے حق میں اپنا موقف دیا، بلوچستان میں اجتماع ہوا، یہاں کراچی میں اجتماع ہوا اور آپ کو یاد ہوگا ہمارے اجتماعات میں اسماعیل ہنیہ نے بھی وہاں سے خطاب کیا، خطیب مفتی فلسطین نے بھی خطاب کیا، مفتی لبنان نے بھی خطاب کیا تھا، لاڑکانہ میں جلسے ہوئے، پنجاب میں جلسے ہوئے، پورے ملک میں جمعیت علماء نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں ہے، مسئلہ صرف مسجد اقصیٰ کا نہیں ہے، ہمیں اسرائیلی عزائم کو سمجھنا چاہیے وہ حرمین تک آنا چاہتے ہیں! اور ہمارے یہ اجتماعات جہاں مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے ہو رہے ہیں ہمارے اجتماعات حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھی ہو رہے ہیں۔

میرے محترم دوستو، جب ابھی پاکستان نہیں بنا تھا، 1940 کی قرارداد پاکستان جب لاہور میں پاس ہو رہی تھی اس وقت یہودی بستیاں قائم کی جا رہی تھی، تو بانی پاکستان نے اس بات کو قرارداد کا حصہ بنایا تھا کہ فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیوں کو ہم قبول نہیں کریں گے اور ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ رہینگے۔ جب اسرائیل 1948 میں بنا تو بانی پاکستان نے اسرائیل کو برطانیہ کا ناجائز بچہ کہا، اور اس کے جواب میں اسرائیل کے پہلے صدر نے اپنی پہلی خارجہ پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خارجہ پالیسی کے بنیادوں میں سب سے اولین ترجیح یہ ہوگی کہ دنیا کے نقشے پر ایک نو زائدہ اسلامی ملک کا خاتمہ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیح ہوگی۔ سو پاکستان کا نظریہ اسرائیل کے حوالے سے غیر مبہم رہا ہے اور اسرائیل کا نظریہ پاکستان کے بارے میں غیر مبہم رہا ہے، آج اگر کوئی جماعت یا کوئی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہی ہے ان سے بہتر تعلقات میں سوچ رہی ہے تو میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ پاکستان کے اساس کے ساتھ غداری ہے! قیام پاکستان کے اساسی مقاصد کے ساتھ غداری ہے، اور وہ تو سن 48 کی بات تھی ابھی چند دن ہوئے نیتن یاہو نے انٹرویو دیا ہے اور جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کے لیے سب سے بڑی مشکل کیا ہے تو اس نے کہا کہ مسلح مزاحمت وہ ہمارے لیے سب سے بڑا پرابلم ہے اور مسلح مزاحمت میں ہمیں سب سے بڑا خطرہ پاکستان سے ہے، یہ ابھی چند دن ہوئے۔ پاکستانیو تمہارے اجتماعات تمہارے یہ مظاہرے تمہاری یہ آواز تمہارا یہ تکبیر کا نعرہ آج بھی اس سے صہیونی قوتیں لرز رہی ہے، وہ خوفزدہ ہیں آپ کے ان اجتماعات کے رعب اور دبدبے سے۔ میں ان قوتوں کو بتانا چاہتا ہوں ان لابیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا یا اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانا یا اسرائیل کے ساتھ معاشی تعلقات بنانا یہ آپ کے لیے آسان نہیں ہوگا اور کبھی تمہارا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ جمعیت علمائے اسلام نے اس فکر کے ساتھ اس نظریے کے ساتھ جنگ لڑی ہے جو نظریہ اسرائیل کے لئے اس کو تسلیم کرنے کے لئے فضا بناتا تھا جو ٹیلی ویژن پر آتا تھا فلسفہ بھگارتا تھا ہم نے ان کی زبانیں خاموش کر دیئے اور اتنا آسان نہیں نہ تم اسرائیل کو تسلیم کرا سکو گے اور نہ تم دوبارہ قادیانیوں کو مسلمانوں کی شناخت دے سکو گے، یہ ملک مسلمانوں کا ہے یہ مسلمانوں کے نعرے پہ بنا ہے اسلام کے نعرے پہ بنا ہے، ہماری بیوروکریسی ہو ہماری اسٹیبلشمنٹ ہو ہمارے کوئی سیاستدان ہو ہمارے کوئی جاگیردار ہو ہمارے کوئی صنعتکار ہو کوئی مفاداتی طبقہ ہو ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ اگر تم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف قدم بڑھایا زبان کھولی ہم وہ ٹانگیں توڑ دیں گے ہم وہ زبان کھینچ لیں گے۔ اتنا آسان نہیں ہے کہ تم اتنے بڑے عوامی سیلاب کو نگل سکو گے، مجھے پتہ ہے یہاں کونسی قوتیں ہیں کہ جو عوام کی قوت کا احترام نہیں کرتے، جو عوام کی خواہشات کا احترام نہیں کرتے، یہاں اسمبلیاں بک جاتی ہیں، یہاں ایوان بک جاتے ہیں لیکن ایوان بک جانا اب ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے اب ایوان نہیں میدان ہمارے ہاتھ میں ہے۔ 

میں مقتدر قوتوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں، میں سیول بیوروکریسی کو بھی بتانا چاہتا ہوں، میں یہاں کے جاگیردار اور صنعتکار کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یورپ کی غلامی امریکہ کی غلامی اسرائیل کی غلامی اس سے اب کام نہیں چلے گا اور آپ کو عوام کے جذبات کا احترام کرنا ہوگا اور یہ جو کچھ مومبتیے ہمارے مقابلے میں اور ہمارے موقف کے جواب میں چوں چوں کر رہے ہیں یہ وہ قوت ہے جس نے تمہارے آقاؤں کے زبانیں روک دی ہے، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ، کیا تمہارا چوں چوں، کیا اس کی حیثیت۔ جمعیت علماء اسلام آج پاکستان کی عوامی قوت ہے، تم دھاندلی کر کے ایوان سے تو ہمیں باہر رکھ سکتے ہو لیکن تم دھاندلی کر کے ہمارے اجتماعات سے عوام کو نہیں رہ سکو گے۔  ان شاءاللہ آج ہم نے آغاز کر لیا ہے اور ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے اور یہ بھی بتا دوں کہ قوموں کو مارنا بچوں کو مارنا عورتوں کو مارنا بوڑھوں کو مارنا غیر مسلح لوگوں کو مارنا یہ ہے کون سا کمال، یہ تو ایک جنگی جرم ہے! اگر تم صدام حسین کو صرف چند سو لوگوں کے قتل کرنے پر جنگی مجرم کہہ سکتے ہو انسانوں کا مجرم کہہ سکتے ہو اور تم ان کو پھانسی چڑھا سکتے ہو تو پھر نیتن یاہو کے بارے میں عالمی عدالت انصاف فیصلہ دے چکا ہے کہ یہ مجرم ہے اور اس کو گرفتار کیا جائے، وہاں تمہارا انصاف کہاں چلا جاتا ہے! یہ اس وقت جنگی مجرم ہیں اور جنگی مجرم کا ساتھ دینے والا بھی جنگی مجرم ہوا کرتا ہے، تو میں ٹرمپ کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں اور ان کے پیروکاروں کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ تم سب فلسطین کے قاتل ہو، تم سب فلسطینیوں کے قاتل ہو، اور ہم مسلمان ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اگر امریکی وزیر خارجہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں یہودی ہو کر اسرائیل کے ساتھ ہوں تو پھر مجھے بھی فخر کے ساتھ کہنا چاہیے کہ میں ایک مسلمان ہو کر فلسطینی اور حماس کے ساتھ ہوں! تم نے افغانوں کو دہشت گرد کہا تم نے امارت اسلامیہ کو دہشت گرد کہا آج اس کی حکومت ہے تمہاری دہشت گردی کہاں گئی؟ کہاں چلی گئی! کہتے رہو کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے، ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ حماس مجاہد تنظیم ہے اگر دہشت گرد ہے تو امریکہ ہے اور یورپ ہے اور ہم اسرائیل کو دہشتگرد کرتے ہیں۔ ریاستی دہشت گردیاں نہیں چلے گی اب آگے بڑھنا ہوگا آگے بڑھنا ہوگا عوام کی تائید سے، آپ کے مظاہروں سے آپ کے فتووں سے بنگلہ دیش جاگ چکا ہے، آپ کے فتووں سے ملائشیا اور انڈونیشیا جاگ چکے ہیں، آپ کے نعروں سے اور آواز سے ہندوستان جاگ اٹھا ہے اور ان شاءاللہ عالم عرب جاگ اٹھا ہے اور حکمرانوں کو بھی جاگنا پڑے گا اس خواب خرگوش میں ہم حکمرانوں کو آرام کی نیند سونے نہیں دینگے۔ 

 میرے دوستو، بمبار کر کے تم آبادیوں کو تو تباہ کر سکتے ہو لیکن اسرائیل کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ مجاہدین کی طرف سے آج بھی زبردست دفاع کی جنگ لڑی جا رہی ہے اور ان شاءاللہ وہ اسرائیل کی تباہی پر مبنی ہوگا۔ 

میرے محترم دوستو مختلف مکاتب فکر کے اکابرین نے مجلس اتحاد امت کے نام سے اکٹھ کا اظہار کیا، اور میں آج اعلان کرتا ہوں کہ اس جلسے کے بعد 27 اپریل کو لاہور کے مینار پاکستان میں ملین مارچ ہوگا، عوام کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر جمع ہوگا اور فلسطین کے مقدمے کو لے کر آگے بڑھے گا اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے عوام کا سمندر آگے بڑھے گا اور ان شاءاللہ پنجاب کا عوام اور پاکستان کا عوام لاہور میں اکٹھا ہو کر اپنے موقف کو ببانگ دہل انسانیت کے ساتھ دیگا۔ تو پنجاب پہ چھوڑو گے یا آپ بھی جائیں گے؟ ان شاءاللہ پورے عالم اسلام میں بیداری آئے گی اور ان شاءاللہ ہم اپنے حکمرانوں کو جگا کر رکھیں گے ان کو دوسرا راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مستقبل میں کامیابیوں سے سرفراز فرمائے اور اہل فلسطین اور اہل غزہ کی مدد فرمائے اور فلسطینی مجاہدین کو فتح و کامرانی نصیب فرمائے، مسجد اقصیٰ کو اللہ آزاد فرمائے اور حرمین شریفین کو اللہ تعالیٰ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین 

ضبط تحریر: #محمدریاض 

ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1 

#teamJUIswat


LIVE

LIVE KARACHI | JUI Million March from Sharah-e-Quaideen

Posted by Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan on Sunday, April 13, 2025

0/Post a Comment/Comments