قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا مفتی محمود مرکز پشاور میں موجودہ صورتحال پر پریس کانفرنس
16 اپریل 2025
بسم
اللہ الرحمن الرحیم۔ ہمارے پشاور میں گزشتہ ایام میں کچھ ساتھیوں کو درندگی اور
سفاکی کا نشانہ بنایا گیا اور جس کے نتیجے میں وہ شہادت کے بلند مرتبے پر فائز
ہوئے لیکن بہرحال انسانی حادثہ المناک ہوتا ہے، دردناک ہوتا ہے، اسی طرح پورے صوبے
میں مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی ٹارگٹ کیے گئے اور انہوں نے شہادت پائی، بلوچستان
میں گزشتہ رمضان شریف میں بھی اور اس کے بعد بھی ہمارے ساتھی مسلسل شہادتوں کا
سامنا کر رہے ہیں، تو اس وقت بھی ہمارے پاس مولانا قاری شاہد صاحب، قاری اعجاز
صاحب، حاجی محمد زاہد صاحب، قاضی ظہور صاحب شہداء ہیں یہ، ان کے لواحقین یہاں
تشریف فرما ہیں اور ہم سب تمام شہداء کے لیے دعا کر لیں (اجتماعی دعا)۔ اللہ تعالی
ان کو شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز فرمائے۔
میں آپ تمام
حضرات کا شکر گزار ہوں کہ آپ ہمارے دعوت پر بڑے مختصر وقت میں تشریف لائے اور جس
طرح ہمیشہ آپ نے بڑی انتہائی دلچسپی کے ساتھ ہماری گفتگو سنی اور قوم تک پہنچائی
اور آج ایک بار پھر کچھ ضروری موضوعات پر آپ سے بات کرنا چاہوں گا۔
سب سے جو اس
وقت حساس معاملہ ہے وہ جو ہمارے معدنی وسائل ہیں اور وفاقی حکومت نے میفا کے نام
سے مینرل انویسٹمنٹ فزیلیٹیشن اتھارٹی کہ قیام کا فیصلہ کیا ہے تو اس بِل کے جو
مندرجات ہیں اس کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ صوبے کے وسائل پر وفاق یک طرفہ
قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ اٹھارویں ترمیم کی بھی نفی ہے صوبے کے عوام کے
حقوق پر بھی ایک حملہ ہے اور جمعیت علماء اسلام اس حوالے سے ماضی میں تمام صوبوں
کے اندر آل پارٹیز کانفرنسز بھی کر چکی ہے اور اس پر ایک اتفاق رائے بھی حاصل ہوا
ہے تمام پارٹیز کی طرف سے کہ اٹھارویں ترمیم میں کسی قسم کی تبدیلی یا صوبوں کے
اختیارات میں کسی قسم کی تبدیلی اور رد و بدل اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا جی۔
تو آج وہ موقع آگیا ہے جب ہم اس کو ایک حساس نوعیت کا مسئلہ تصور کریں اور کسی قسم
کا ایسا بِل صوبائی اسمبلی سے کہ جو ہمارے صوبے کے اختیارات پر زک پڑتی ہو ہمارے
لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔ اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ اگر یہ ہوش کے ناخن نہیں لیتے
تو پھر ہمیں عوام میں جانا ہوگا اور عوام براہ راست اپنے حق کے تحفظ کے لیے میدان
میں نکلیں گے۔
تو اس حوالے سے
وفاق کو خود بھی یہ سوچنا چاہیے کہ آخر قومی اسمبلی نے اور سینٹ نے اٹھارویں ترمیم
پاس کی ہے اور وہ آئین کا حصہ ہے اور اس کے منافی اس کو کسی قسم کا بل جو ہے وہ
اسمبلیوں میں نہیں لانا چاہیے۔ میں تو حیران اس بات پر ہوں کہ ابھی جب 26 ویں
ترمیم پاس ہوئی تو 56 کلازز میں سے 34 کلازز سے ان کو دستبردار ہونا پڑا اور جب وہ
اپنے من کے ترامیم اسمبلی سے یا پارلیمنٹ سے پاس نہیں کرا سکے تو پھر وہ کام قانون
سازی کے ذریعے انہوں نے کیے، سوچنا چاہیے کہ آئین محترم ہے آئینی ترمیم پاس ہو چکی
ہے اور اس کی حرمت کا تقاضہ ہے کہ اب کوئی قانون سازی اس کے خلاف نہ ہو۔ اس کی روح
کی نفی نہ کرے۔ لیکن یہاں پر اپنے مضموم مقاصد کے لیے وفاقی حکومت یہاں تک بھی گئی
کہ انہوں نے ایسے قوانین کے ذریعے وہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی کہ جس کے اثرات
عدلیہ پر بھی پڑے اور اس پر کچھ تنقیدیں بھی سامنے آئیں۔
تو اس حوالے سے
آج پھر ایک ایسا قانون صوبوں سے پاس کرایا جا رہا ہے کہ جن صوبوں کے پاس معدنی
ذخائر ہیں، قیمتی پتھر ہیں اور انہیں اس کی مائننگ کے لیے اور پھر ان کو استعمال
میں لانے کے لیے اتھارٹیز بنائی جا رہی ہیں، وفاق کی سطح پہ بنائی جا رہی ہیں اور
اس میں کسی ایک سنگل بِٹ کو بھی قبول کیا جائے گا باہر سے، تو یہ ساری چیزیں وہ
فساد ہیں کہ جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وفاق ہی ہمارے صوبے کے وسائل پر قابض
نہیں ہو رہا بلکہ بین الاقوامی قوتوں کو بھی اور طاقتور قوتوں کو بھی ہمارے وسائل
پر قبضہ کرنے کی راہ دی جا رہی ہے، ہم نہ بین الاقوامی قوتوں کو اپنے وسائل کا
مالک بنائیں گے اور نہ ہی وفاقی حکومت کو اس کا مالک بنائیں گے، طریقہ کار ہوتا ہے
صوبے کا اختیار اپنی جگہ برقرار رہے اگر کوئی کاروبار کرنا ہے تو صوبے کے ساتھ کیا
جائے۔ وسائل صوبے کے ہوں گے شرائط صوبے کے ہوں گے مفادات صوبے کے محفوظ تصور کیے
جائیں گے اور بین الاقوامی دنیا میں بھی اگر کوئی ملک یہاں پر انویسٹمنٹ کرنا
چاہتا ہے تو وہ پاکستان کی وساطت سے کرے لیکن پاکستان پھر بھی وہ صوبائی حکومت کی
اجازت اور ان کے شرائط کے ساتھ کریں۔ تو یہ ایک شائستہ راستے موجود ہیں حل موجود
ہے کوئی بھی دنیا کاروبار کا انکار نہیں کرتی لیکن اپنے مفادات پر کسی کو قبضہ بھی
نہیں کرنے دیتی، ہمارے مفادات محفوظ ہونے چاہیے، ہمارے وسائل ہمارے قبضے میں ہونے
چاہیے اس پر کسی قسم کا معاہدہ وہ ہمارے شرائط پر ہونا چاہیے اور ہمارے مفادات کے
تابع ہونا چاہیے۔ تو اس قسم کی چیزوں پر یہ جو قانون سازیاں ہو رہی ہیں یہ قانون
سازی جمعیت علماء اسلام کے لیے اور تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
تعجب کی بات یہ
ہے کہ یا تو فاٹا کا انضمام کیا گیا، بہت جلدی تھی، بہت ضروری ہے اور کوئی شک نہیں
ہے کہ فاٹا انضمام کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ تھی اور اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے عالمی
قوتیں تھی، جن کے دباؤ پر ہم نے یہ کام کیا آج فاٹا برباد ہوگیا، کچھ پتہ نہیں کہ
اب وہ سیٹلز میں شمار ہوں گے یا وہ ابھی اسی طرح ٹرائیبل ہوں گے، ایک نیم درون
بیرون کی زندگی گزار رہے ہیں اور آج کیا ضرورت پڑ گئی اس کی کہ باقی انضمام اپنی
جگہ پر لیکن مائنز کے حوالے سے اختیارات وہی پرانے فاٹا کے اور اس کو ایک مہلت دی
گئی ہے لمبی چوڑی تاکہ ایک مسئلہ جو وفاق کے مفاد میں ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی مفاد
میں ہے یا بین الاقوامی مفاد میں ہے صرف اس حصے کو جوں کا توں جو مرجر سے پہلے
پوزیشن تھی اس پر برقرار رکھا جا رہا ہے اور باقی مرجر اسی طرح قائم و دائم رکھا
جا رہا ہے، یہ تضاد کیوں آگیا ہے اور ان کو اپنے مطلب کی چیزیں نکالنے کا کیا مطلب
ہے، جو آپ کو پسند آئے وہاں مرجر نہیں ہے مرجر سے پہلے کا قانون ہے اور جو آپ کو
پسند نہ آئے اس کے لیے دوسرا نظام ہے تو اس طرح نظام میں جو تذبذب ہے وہ اس سے ملک
کو یہ لوگ نکالنا نہیں چاہتے اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو
کسی طریقے سے بھی ان شاءاللہ کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اسی طریقے سے
ایک دوسرا اہم مسئلہ ا فغان مہاجرین کی جبری انخلاء کا ہے، میں آپ کو بتا دینا
چاہتا ہوں کہ ایک جذباتی قسم کا فیصلہ، ا فغانستان سے ہم ناراض ہوئے کسی اور وجہ
سے، ہم زور نکال رہے ہیں اس کا مہاجرین سے، تکلیف دے رہے ہیں ہم مہاجرین کو، آپ کے
علم میں ہونا چاہیے کہ یہ مسئلہ 2017 میں اٹھا تھا، جس زمانے میں یہاں پشاور سے ا
فغان مہاجرین کو پکڑ پکڑ کر گاڑیوں میں ڈالا جا رہا تھا اور ا فغانستان کے علاقوں
میں صحراؤں میں چھوڑا جا رہا تھا جس سے ان کی جانی نقصانات ہوئیں، وہاں بدامنی تھی
جنگ تھی اور جنگ کے حالت میں ہم نے ان لوگوں کو وہاں پھینکا، یہاں پر حکومت میں
شامل پارٹیوں کی میٹنگ ہوئی اور اس میں ہم نے کچھ تجاویز دیے، ہم نے ان سے یہ کہا
تھا کہ آپ کیٹگریز طے کرے، سب سے پہلی جو کیٹگری ہے وہ ان ا فغانوں کی کہ جو یہاں
پڑھ چکے ہیں، یہاں گریجویشن حاصل کرچکے ہیں، یہاں ڈاکٹر بن چکے ہیں، یہاں انجینیئر
بن چکے ہیں، مختلف شعبوں میں ان کی مہارت ہے اب وہ ہمارا سکِل ہے اس کو ہم پاکستان
کے لیے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ جن کو ہم نے تربیت دی ہے، جن کو ہم نے تعلیم دی
ہے، جن کو ہم نے بنایا ہے ان کو پاکستان کے مفاد میں استعمال ہونا چاہیے۔ پاکستان
میں ان کو کہیں پر کھپانا چاہیے نہ یہ کہ آپ دھکے دے کر آپ ملک سے باہر نکالیں اور
ان کی مہارت و صلاحیت سے پاکستان کو محروم کر دیا جائے تو ایک تو اس کیٹیگری کو
سامنے رکھا جائے۔
دوسرا وہ ا
فغانی جو گزشتہ تیس پینتیس سالوں سے یہاں پر سرمایہ کاری کر رہا ہے، کاروبار کر
رہا ہے، تجارت کر رہا ہے، بینکوں میں ان کے پیسے موجود ہیں اگر وہ یہاں سے کاروبار
باہر نکال لیں تو کیا اقتصادی اثرات پاکستان پر پڑیں گے منفی اور اگر وہ بینکوں سے
پیسے نکال لیں تو آپ ذرا جانچ لیں کہ کچھ بینک تو ان کے پیسے نکالنے سے ہی دیوالیہ
ہو جائیں گے۔ تو پاکستان کا معاشی نقصان کیوں کیا جا رہا ہے اندھے پن میں، اس کو
مدنظر رکھا جائے ان کی انویسٹمنٹ کو تحفظ دیا جائے اور اس کو پاکستان کے مفاد میں
استعمال کیا جائے۔
تیسری کٹیگری
ہم نے یہ بتائی تھی ان کو کہ جو یہاں سٹوڈنٹس ہیں جو اس وقت ایک آدمی میٹرک میں ہے
کوئی ایف اے، ایف ایس سی کر رہا ہے یا کوئی ایم اے، ایم ایس سی کر رہا ہے اور یہاں
پر وہ اتنا زیادہ پڑھ چکا ہے کہ اگر اب یہ اپنا ملک تبدیل کرے گا تو اس کا نصاب
تبدیل ہو جائے گا تو وہ پھر الف ب سے شروع کرے گا تو یہ انسانی حق ہے تعلیم اور ان
کے انسانی حق کو آپ بری طرح متاثر کر رہے ہیں لہٰذا ان کو بھی تحفظ دینے کا راستہ
نکالا جائے۔ اس کے بعد عام مہاجرین رہ جاتے ہیں، میں آج بھی کہتا ہوں اور میں نے
اس وقت بھی کہا تھا کہ مہاجرین یک طرفہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ا فغانستان پاکستان کا
دو طرفہ مسئلہ ہے اور ہم نے خوشی سے ان کو قبول کیا تھا اور پھر پشتون معاشرے میں
جہاں مہمان نوازی ان کا ایک طرہ امتیاز ہے ان کی روایات کا ایک روشن حصہ ہے، آپ
چالیس سال تک کسی کو مہمان رکھ کر جب گھر سے نکالے اور لات مار کر نکالیں گے تو آپ
کی چالیس پینتالیس سال کی مہمانداری کا نفی کر دی، ختم ہو گئی وہ بات، لہٰذا دونوں
ملک بیٹھ کر، اب اگر وہاں امن و امان ہے تو مہاجرین کی واپسی کا میکنزم طے کریں،
طریقہ طے کریں اس کا شیڈول طے کریں، کس طریقہ سے وہاں آئیں گے کس ترتیب کے ساتھ
آئیں گے تاکہ دھیرے دھیرے جا کر، اس طریقے سے تو جہاز سے سواریوں کو بھی نہیں
اتارا جاتا وہاں بھی کہتے ہیں کہ پہلے ان سیٹوں کے لوگ نیچے جائیں پھر دوسرے سیٹوں
کے لوگ نیچے جائیں اور اس ترتیب کے ساتھ تاکہ کوئی بھگدڑ نہ ہو، کوئی پریشانی نہ
ہو، یہاں آپ ان کو اٹھا اٹھا کر باہر پھینک رہے ہیں جانوروں کی طرح اٹھا کر گاڑی
میں بٹھا رہے ہیں یہ آپ ا فغان مہاجرین کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے یہ انسانی حق
کو آپ کچل رہے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے
اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے، ہم کب کہتے ہیں کہ کوئی اپنے گھر نہ جائے، خوشی
خوشی سے اپنے گھر جائے۔ لیکن اگر تیس لاکھ لوگ ہمارے پاکستان میں ہے تو یہ طے ہوا
تھا کہ اگر پندرہ لاکھ لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہوئی تھی تو رجسٹریشن کرانے میں ان
کی مدد کی جائے گی اس کے لیے ان کو فسیلیٹیٹ کیا جائے گا اور پھر آپ کو یہ بات بھی
بتا دوں کہ یہ جتنی بھی ہماری تجاویز تھی اور کٹیگریز تھی یہ اس وقت کابینہ میں
پیش ہوئی اس کو کابینہ نے منظور کیا ہے کابینہ کے منظوری کے بعد آج کونسی کابینہ
کا اجلاس ہوا ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ فیصلے کیے گئے ہیں؟ کیا کیا جا رہا ہے ہمارے
ملک میں، کون حکومت کر رہا ہے، کون ملک کو چلا رہا ہے، کوئی اصول، کوئی ضابطہ،
کوئی اخلاق، کوئی تدبیر کار کچھ بھی تو یہاں نہیں ہے۔ لہٰذا یہ طریقہ کار اگر ہم ا
فغانستان سے ناراض ہیں بات کریں، ابھی میں نے آج خبر پڑی ہے کچھ ان کے وفود آ رہے
ہیں کچھ ہمارے وفود جا رہے ہیں اچھی بات ہے، بات چیت سے معاملات طے ہوتے ہیں ہم نے
بھی ان سے مذاکرات کئیں ہیں، میں تو الیکشن سے پہلے گیا ایک ہفتہ گزارہ کامیاب ہو
کر واپس آیا، اب حکومت کیوں اتنی ناہل ہے کہ جو کچھ ہم نے طے کیا تھا اس کو صحیح
طور پر فالو نہیں کر سکی اس کو دوام نہیں بخش سکی اور معاملہ خراب ہو گیا ان سے،
تو کچھ اپنی نااہلیتوں پر بھی ہمیں گریبان میں جان کر سوچنا چاہیے صرف یہ نہیں کہ
ساری غلطیاں جو ہے وہ دوسرے کے سر پہ آپ پھینکتے رہیں۔
تو یہ ساری
چیزیں نیگوسئیشن سے طے ہو سکتی ہیں اور ہمیں مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے
اس حوالے سے یک طرفہ طور پر اس طرح کے کہ بین الاقوامی معاہدات اور سارے ہمارے جو
روایات ہیں ان کو آپ روندتے چلے جائیں اور کہیں کہ جی ہم تو پاکستان کے لیے کر رہے
ہیں۔ پاکستان اچھے کردار سے نیک نام ہوگا اس طرح کے کردار سے پاکستان کو آپ بیرونی
دنیا میں کوئی اچھا نام نہیں دے رہے ہیں۔
پھر تیسری بات
یہ کہ جو اس وقت صوبے میں بدامنی ہے اور اس میں جو علماء کرام کو، سیاسی کارکنوں
کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس حوالے سے بھی ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے اس
وقت، رِٹ ختم ہو چکی ہے حکومت کی، ہمارے جو ایک تو دریائے سندھ کا مغربی کنارہ
تقریباً اول تا آخر اس ساری صورتحال سے دوچار ہے، جنوبی اضلاع خاص طور پر اس وقت
اس کی زد میں ہیں اور بہت سے علاقوں پر تو اب حکومت نام ہی کوئی چیز نظر نہیں آرہی
ہے، بلوچستان کی یہی صورتحال ہے وہاں پر بھی کوئی رٹ حکومت کی موجود نہیں ہے، تو
ان دو صوبوں کے اندر اور پھر آج جب میں یہاں پر پشاور میں بیٹھا ہوں تو اپنے صوبے
کی بات کروں گا خاص طور پر کروں گا کہ آپ عوام کو کس کے حوالے کر کے چھوڑ رہے ہیں،
عوام نہ تو مسلح گروہوں کے ہاتھوں محفوظ ہیں اور نہ ہی اپنی فوج کے ہاتھوں محفوظ
ہیں، ان کی زندگی مضطرب ہے، پریشان ہے، وہ کاروبار نہیں کر سکتے، وہ بچوں کو سکول
نہیں بھیج سکتے، وہ اپنے زمینوں پر کام کرنے کے لیے نہیں جا سکتے، وہ مزدوری نہیں
کر سکتے اس اضطراب کے حالت میں غریب آدمی کیسے زندگی گزارے گا اور پھر ماشاءاللہ
ہمارا ہر حکمران پچھلوں کو بخشوا دیتا ہے جی، کرپشن کا جو بازار گرم ہے اس وقت
سترہ ہزار ملازمین بیک جنبش قلم آپ کے اس وقت نوکری سے نکال دئیے گئے ہیں، حکومت
کے بعض لوگوں نے درخواستیں جمع کئیں انٹرویوز دئیے انہوں نے میرٹ کے اوپر نوکریاں
حاصل کی ہیں اور آپ آئے آپ کے مزاج کے مطابق نہیں ہے آپ نے نکال دئیں، کیوں؟ کون
تحفظ دے گا ان غریب لوگوں کو؟ ان ملازمین میں کون تحفظ دے گا؟ سترہ ہزار خاندان
تباہ ہو گئے ہیں اور دوسری طرح کرپشن کا بازار گرم ہے، مہنگائی آسمانوں کو چھوں
رہی ہے، ہماری معیشت بہتر نہیں ہو رہی تو یہ ساری چیزیں انتہائی پریشان کن ہیں اور
اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام نے اپنی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس بھی 19 اور 20
اپریل کو بلا لیا ہے اور ہم 27 اپریل کو اسرائیل مردہ باد کے عنوان سے مینار
پاکستان پر ملین مارچ کر رہے ہیں اور ان شاءاللہ پشاور میں 11 مئی کو بہت بڑا ملین
مارچ ہوگا ان شاءاللہ اور پورے صوبے کے عوام اس میں شریک ہوں گے۔ تمام تنظیموں کو
ذیلی تنظیموں کو ہدایت دی گئی ہیں کہ وہ فوری طور پر عوام میں آگاہی مہم چلائیں
اور لوگوں کو اس کانفرنس کی طرف متوجہ کرنے اور یہاں پر ان کو لانے میں اپنا
بھرپور کردار ادا کریں۔ ان شاءاللہ ایک تاریخی اجتماع ہوگا امت مسلمہ کو بیدار
کرنے کیلئے ہوگا اور ہمارے حکمران جو خرگوش کی نیند سو رہے ہیں اور غفلت کے خراٹے
مار رہے ہیں ان کو بھی جگانا ہوگا ہرچند کہ یہ مشکل کام ہے، اگر ساٹھ ہزار شہداء
ایک لاکھ سے زیادہ زخمی تین لاکھ بے گھر لوگ اگر ان حکمرانوں کو نہیں جگا سکی تو
آپ بتائیں کہ کس طرح جگایا جائے گا لیکن پھر بھی اس خاموشی کے اندر ایک آواز ہوگی
ایک صدا ہوگی عوامی قوت ہوگی ان شاءاللہ العزیز اور ہم اس حوالے سے بھرپور کردار
ادا کریں گے جہاں تک ہم ا سرائیل مردہ باد کی بات کریں گے فلسط ینیوں کے حق کی بات
کریں گے ان کی آزادی کی بات کریں گے اور ان کی دفاع کی حمایت کریں گے وہاں پر
پاکستان کے اندر جو یہ ایشوز ہیں اس پر بھی ان شاءاللہ عوامی گفتگو ہوگی عوام کے
ساتھ بات چیت ہوگی اور عوام کے ساتھ ایک یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔
سوال و جواب:
صحافی: مولانا
صاحب اے این پی نے مائنز اینڈ منرلز بل کے حوالے سے سخت بیان دیا ہے اور ان کا
کہنا ہے کہ اس حوالے سے اگر کچھ نہیں کیا گیا تو وہ آزادی کا نعرہ بھی لگا سکتے
ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کتنا خطرناک ہے ؟
مولانا صاحب:
خیر وہ بیان جانے اور ان کا کام جانے، ہم حق کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہم پاکستان سے
نکلنے یا اس طرح کے آزادی کے ہم پاکستان سے کٹ کر ایک ملک کی بات کریں یہ مسترد ہے
ہماری طرف سے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس چیز کا، ہم پاکستان کی وحدت کی بات کریں
گے ایک پاکستان کی بات کریں گے البتہ حق کی بات کریں گے، اگر ہمارا حق آئین نے دیا
ہے تو ہم اس حق کی جنگ لڑیں گے اور ایک پاکستان کے اندر ان شاء اللہ ہم وہ حق حاصل
کریں گے اس کیلئے پاکستان سے نکلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور پاکستان کے اندر
رہتے ہوئے ہم تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی ہم جدوجہد کر سکتے ہیں ہم ایک صف بن کر
اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتے ہیں ہمارے اندر حق کے مسئلہ پر کوئی اختلاف رائے نہیں
ہیں۔
صحافی: مولانا
صاحب ایک اور تنقید آپ پر یہ کی جارہی ہے کہ صوبہ بلوچستان میں یہ قانون جو ہے جس
نے تمام صوبوں کو بھیجا تھا بلوچستان میں آپ نے اس کی حق میں ووٹ کیا ہے اور
خیبرپختونخوا میں آپ مخالفت کر رہے ہیں کیا وجوہات ہوسکتی ہے اور ایسی کونسی بات
ہے جس پر آپ کو سخت اعتراض ہیں ؟
مولانا صاحب:
ذرا تھوڑا سا الفاظ کا انتخاب ہونا چاہیے آپ تو صحافت کے دنیا میں ایک ہی لفظ
جانتے ہیں جہاں جمعیت کا کوئی آدمی کہیں کوئی کچھ بھی غلطی کر لے نا تو آپ اس فرق
کا نام نہیں لیں گے، جے یو آئی نے ایسا کر دیا، جے یو آئی نے نہیں کیا، بات یہ ہے
کہ نہ تو ہماری پارٹی وہاں پر اس کے حق میں ہیں اور میں آپ کو اپنی تاریخ بتاؤں گا
یہ جو الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کی حکومت تھی ہم حکومت میں شامل تھے اس میں ہماری
منسٹریاں تھیں اور جب ریکوڈک کے حوالے سے وہاں قانون سازی کی بات آئی تو جے یو آئی
نے راستہ روکا ہے، کیبنیٹ سے واک آؤٹ کیا، اسمبلی میں ووٹ دینے سے انکار کیا اور
بلآخر حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا، ہم وہ لوگ ہیں کہ صوبوں کے حقوق کے لیے اس حد تک
جاتے ہیں، اب بات یہ ہے کہ آپ لوگ اسمبلی میں جو چیز لاتے ہیں اور پھر جب وہ
کمیٹیز میں جاتی ہیں اس میں آپ ہائی لائٹ کچھ اور کرتے ہیں، ممبران کے سامنے زیر
بحث آپ کچھ اور نکات کو لاتے ہیں جو بڑی مثبت قسم کی ہوتی ہے اور بے ضرر قسم کی
ہوتی ہیں پیچھے ان کے کوئی ناگ چھپا ہوا ہوتا ہے جی، تو بعض دفعہ کسی ایک ممبر کے
نوٹس میں وہ نہیں آتی وہ بات، تو یہ ایک ممبر کی غلطی ہو سکتی ہے لیکن ہم نے صوبائی
جماعت کو کہا ہے کہ اس کے پوری تحقیق کریں ایک ممبر نے بھی یہ غلطی کیوں کی ہے اور
اس نے ایسا کام کیوں کیا ہے، لہٰذا جمعیت علماء اسلام وہاں پر صوبے میں ہو یا صوبے
کی پارلیمانی پارٹی ہو یا صوبائی جماعت ہو یا مرکزی جماعت ہو سب ایک پیج پر ہیں
اور اگر کسی ایک فرد کی غلطی ثابت ہوئی کہ اس نے عمداً کی ہے یا غیر ارادی طور پر
کی ہے تو جماعت اس کے خلاف ایکشن لے گی یہ اعلان ہو چکا ہے یہ فیصلہ ہو چکا ہے
ہمارے اندر، لہٰذا اس پر کام ہمارا ہو رہا ہے کبھی بھی اس کو جمعیت علماء اسلام کا
ایکٹ نہ کہیے کبھی بھی جمعیت علماء اسلام کا عمل سے تعبیر نہ کیا جائے بلکہ ایک
فرد کی، ایسا نہیں ہے خدا نہ خواستہ کہ ایک صوبائی حکومت پوری جو ہے وہ تو بل پیش
کر رہی ہے اور پارٹی کہتے ہیں مخالف ہیں اس کے، تضاد اس کو کہتے ہیں کہ پوری
صوبائی حکومت جو ہے بل پیش کر رہی ہے اور پوری پارٹی کہتے ہیں جی یہ غلط ہو رہا
ہے، تو اس چیز کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اس کے ساتھ موازنہ نہ کیا جائے، ہماری
ایک پوری تاریخ ہے ہم نے پی ڈی ایم میں رہ کر لڑائی رہی ہے اور حکومت کو پیچھے
دھکیلنے پہ ہم نے مجبور کیا ہے۔
صحافی: یہاں جو
صورتحال ہے کچھ پی ٹی آئی کے بھی کچھ ممبران ہیں جو اس چیز کے مخالفت کر رہے ہیں
لیکن حالات ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ بل پاس ہوگی مائن اینڈ منرلز کے حوالے سے،
تو کیا یہ بل پاس ہوگا تو صحیح ہوگا، تو عوامی سطح پر جمعیت علمائے اسلام یا دوسری
سیاسی جماعتوں میں کون سی لائحہ عمل بنانے کے لیے منصوبہ بندی ہوگی؟
مولانا صاحب:
ہم دوسری پارٹیوں سے بھی رابطہ کریں گے اور صوبے کے تمام جماعتوں کو ایک پیج پھر
لائیں گے اور خود بھی عوام میں اتریں گے اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا، طریقہ
کار جائز ہونا چاہیے، جائز طریقوں سے ہم تجارت کا انکار نہیں کرتے، جائز طریقوں سے
ہم کاروبار جس میں ہمارا حق محفوظ رہے ہمارا اختیار محفوظ رہے، تو اگر ہمارا
اختیار بھی محفوظ رہتا ہے اور ہمارا حق بھی محفوظ رہتا ہے تو وہ مثبت راستے تلاش
کئیں جائیں نہ یہ کہ پیٹھ پیچھے آپ چھرا گھونپیں اور آپ ڈھاکہ ڈالیں اور ہمارے حق
پہ ڈھاکہ ڈال کر آپ اس کو چین لیں اور ہمیں اس سے محروم کر لیں یہ اس پر کمپرومائز
نہیں ہو سکتا۔
صحافی: مولانا
صاحب یہ بتائیں کہ جے یو آئی نے مختلف ایشوز پر دھرنے دیے مارچ کیے تو اس بل پر
اور اسی طریقے سے خیبرپختونخوا میں جو بدامنی ہے اس پر دھرنا کب دینے جارہے ہیں؟
مولانا صاحب:
سوال آپ کا ٹھیک ہے لیکن جواب ابھی مشکل ہے کیونکہ ہماری پارٹی کے اجلاس ہو رہے
ہیں اور پالیسی فیصلے انہوں نے کرنے ہیں وہ ہوں گے ان شاء اللہ۔
صحافی: مولانا
صاحب ہمارا فلسطین میں جو ہو رہا ہے اس کے حوالے سے جہاد کی بات ہو رہی ہے یہاں پر
لیکن ہمیں جو نظر آ رہا ہے کہ کوئی بوتلیں توڑ رہے ہیں، کوئی ریسٹورانٹس پر حملے
کر رہے ہیں یہ جہاد کس طرح ہوگی اور کس پر فرض ہے؟ تھوڑی سی وضاحت اس کی کردے۔
مولانا صاحب:
امت مسلمہ پر فرض ہے اور امت مسلمہ پر فرض ہونے کے طریقہ کار ہے کہ جو وہاں ملک کے
شہری ہیں ان سب پر واجب ہو گیا جو قریب قریب ہیں اور سرحدات ساتھ متصل ہیں وہاں کے
لوگ پہنچ سکتے ہیں تو اس کے اوپر بھی فرض ہے اور اگر کوئی دور ہے اور وہاں نہیں
پہنچ سکتا تو وہ مال کے ذریعے سے بھی پیسے کی مدد بھی کر سکتے ہیں ان کی اور ان کی
سیاسی مدد بھی کر سکتے ہیں جس طرح ہم مظاہرے بھی کر رہے ہیں ان کے حق میں، یہ آواز
اٹھنی چاہیے کسی سطح پر ان کے اس جہاد میں شریک ہونا چاہیے، چاہے وہ براہ راست
مورچے میں بیٹھ کر ہو، چاہے مالی تعاؤن کی صورت میں ہو، چاہے وہ سیاسی تعاون کی
صورت میں ہو لیکن وہ تعاؤن ہر صورت پر ہر شکل میں ہونا چاہیے، جہاد ایک امر شرعی
ہے وہ مسلمان ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ المسلم اخ
المسلم لا يظلمه ولا يسلمه۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے جو نہ خود اس پر ظلم
کرتا ہے اور نہ کسی دوسرے کے ظلم کے سپرد کرتا ہے۔
صحافی: مولانا
صاحب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت مائنز اینڈ مینرلز بل کو بارگیننگ کے لئے استعمال
کر رہی ہے تاکہ بانی پی ٹی آئی کی مشکلات میں کچھ کمی ہو، اگر یہ بل منظور ہوتا ہے
تو کوئی مشکلات کم ہوتی نظر آ رہی ہیں آپ کو اڈیالہ جیل میں؟
مولانا صاحب:
میں ذرا ایک نامناسب بات کرنا چاہتا ہوں معاف فرمائیں مجھے تنگ نہ کرو زیادہ میں
ذرا نامناسب بات کرنا چاہتا ہوں، پی ٹی آئی والے بھی ناراض نہ ہو وہ میرے دوست ہے
آج کل، دیکھئے پی ٹی آئی نے پرویز خٹک صاحب کو وزیراعلیٰ بنایا آج وہ پی ٹی آئی کا
ہے یا اسٹیبلشمنٹ کا ہے؟ پی ٹی آئی نے محمود خان کو وزیراعلیٰ بنایا اب بتائیں کہ
وہ پی ٹی آئی کا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کا ہے؟ پی ٹی آئی نے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ
بنایا اب بتائیں کہ وہ پی ٹی آئی کا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کا ہے؟ آگے میں نہیں
جاتا۔۔۔۔ قیاس کن ز گلستانِ من بہارِ مرا
صحافی: مولانا
صاحب سی ایم کے پی نے اعلان کیا ہے کہ جی جو ا فغان پاکستان میں اور خاص طور سے
سرحد میں رہ رہے ہیں ان کو نیشنلٹی دی جائے گی، اس حوالے سے آپ کی پارٹی کی کیا
رائے ہے ؟
مولانا صاحب:
دیکھیں اتنا عرصہ پاکستان میں رہنے کے بعد تو بہت سے لوگوں کو نیشنلٹی مل بھی چکی
ہے جن کو نیشنلٹی مل چکی ہے وہ بھی نکال رہے ہیں نا تو یہاں تو ا فغانوں کو باعزت
طور پر رہنا اور اگر اپنے ملک میں لے جانے والی بات ہے تو میں نے جتنی بات کہہ دی
ہے یہ میرے پارٹی کی سوچ ہے اور میں نے وہ آپ کے سامنے رکھی ہے۔
صحافی: مولانا
صاحب یہ جو مینرلز بل ہے اس کے حوالے سے جو سیاسی جماعتیں ہیں وہ کیا اکٹھے بیٹھ
کے اس پہ اگلے لائحہ عمل بنانے کا کوئی پلان ہے کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی
اس طرح اشارہ کرے کہ اس پہ ہم نے مل بیٹھ کے کام کرنا چاہئے، جس طرح کا کوئی پلان
نظر آپ کو آ رہا ہے کہ بیٹھ کے۔۔۔؟
مولانا صاحب:
عملی طور پر تو فالحال ابھی تک کوئی ایسا رابطہ نہیں ہوا ہے لیکن یہ آپ کی مثبت
تجویز ہے اور ہمیں سب کو مل بیٹھ کر اس پہ مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہئیے۔
صحافی: مولانا
صاحب میرے دو کویسچن ہے ایک یہ کہ افغان کونسل جنرل نے آج خود پریس کانفرنس کیا ہے
اور تمام افغانوں سے کہا ہے کہ لیگل اور ایللیگل جو ہیں سب جن کے کاروباریں جو بھی
ہیں دونوں ممالک تعاون کر رہے ہیں اور جائیں اور اپنے ملک کو آباد کریں وہاں پہ
کاروبار کریں آپ لوگ بےسر و سامانی کے حالت میں یہاں پر آئے تھے آج آپ کروڑوں کے
مالک ہیں آپ جائیں اور وہاں پر سرمایہ کاری کریں کاروبار کریں تو ان کے خود موقف
اور آپ کی موقف، دوسری بات یہ ہے کہ یہ مائنز اور منزل ایکٹ جو لے کر آرہے ہیں اور
جو اتنے خدشات ہیں، یہ بتائیں کہ ابھی تک خیبر پختونخوا کو یا بلوچستان کو اس
مائنز اور منرلز سے کیا فائدہ ہوا ہے وہ تو انڈویجول فائدے کے لیے دیئے ہیں جن
لوگوں کو ٹھیکے دیئے ہیں۔
مولانا صاحب:
باتیں آپ کی بڑی اہم ہیں ایک ہے افغان حکومت کی بات، یہاں کوئی افغانی از خود جانا
چاہتا ہے تو ظاہر ہے اپنی ملک پر جانے کیلئے تو ہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے اس کے
اوپر، ایک یہ ہے کہ ہم زبردستی بھیج رہے ہیں اور ان کو ہم اٹھا اٹھا کے گاڑیوں میں
ڈال رہے ہیں اور پھر صرف سرحد پر جا کر ہم ان کو ایک گلاس شربت پلا رہے ہیں اور
پھر کہتے ہیں بڑے احترام کے ساتھ رخصت کیا گیا، یہ مذاق ہے ان کا، اس طریقے سے
مہمانداریاں نہیں ہوا کرتی جس طرح تم کر رہے ہو اور یہ دھوکا مت دو لوگوں کو،
ہمارے لیے ہمیں کیا سوچنا ہے ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا ہے ہمارا کردار کیا ہونے
چاہیے میں اس پر بحث کر رہا ہوں، ہمارا رویہ غلط ہے افغانوں کے ساتھ اور اس حوالے
سے بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھرپور طور پر ایک انسانی حق کے تحفظ کی نیت سے ان
کو سپورٹ کرنا چاہیے۔
یہ ایک مستقل
سوال ہے آپ کا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صوبائی اختیارات صوبوں کو دینے کے باوجود
جہاں پر لفظ سٹریٹیجک آئے گا اس سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ بالآخر اس کا آخری
مالک کون ہوگا، تو اس قسم کی چیزیں جو ہیں یہ فاصلے پیدا کر رہی ہیں، دیکھو دو
چیزیں بڑی خطرناک چل رہی ہیں اس وقت ایک جو پنجاب کے چولستان میں نہریں نکالنے کا
سوال پیدا ہوا اور جس کے اوپر صوبہ سندھ میں رد عمل آیا یہ بھی عوام اور فوج کے
درمیان فاصلے پیدا کر رہا ہے اگر یہاں پر مینرلز بل کا سوال پیدا ہوا تو وہاں بھی
لوگوں کے اشارے ادھر ہی کو جاتے ہیں اور یہاں پر بھی عوام اور فوج کے درمیان شکوے
شکایات کا سلسلہ چلتا ہے میں یہ سوچتا ہوں کہ فوج ہماری آخری قوت ہے فوج ہماری
دفاعی قوت ہے یہ ہماری کاروباری قوت نہیں ہے اور اس کو اگر ضرورت ہو تو اس کے لیے
بھی ایسے راستے تلاش کیے جا سکتے ہیں کہ ملک کی ضرورت بھی پوری ہو دفاعی ضرورت بھی
پوری ہو اور صوبے کو اس کا فائدہ اور اس کا نفع بھی ملے، تو صوبے کے حق سے صوبے کو
محروم کر دینا اس پر تو کوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا، ہمارے تمام وسائل اس کے مالک
ہمارے صوبے کے عوام ہیں اور عجیب بات ہے کہ ہمیں اپنے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے
تو اس پر سارے صوبے کے عوام متفق ہیں ایک پلیٹ فارم سے اتفاق کی بات ہوگی۔
صحافی: مولانا
صاحب ایک سوال ہو بھی چکا ہے تھوڑی سی کنفیوژن ہے اگر آپ دور فرمائے، آپ نے فرمایا
کہ پاکستان کے اندر رہ کر آئین کے اندر رہ کر ہم جدوجہد کر رہے ہیں جو قومی
کانفرنس ہوئی اس میں جہاد کا فتویٰ دیا ہے ہم تو بار بار آپ ہی سے سنتے آ رہے ہیں
کہ جو مسلح کوئی گروہ ہے وہ اگر جہاد کا اعلان کرتا ہے تو پھر وہ ناجائز ہے کیونکہ
جہاد کا اعلان ریاست کرتی ہے حکومت کی طرف سے ہوتا ہے تو یہ جو جہاد کا اعلان ہوا
ہے اسلام آباد میں یہ کس قسم کا۔۔۔
مولانا صاحب:
دیکھیے تجدید ہوتی ہے بعض چیزوں کی فلسطین اول روز سے حالت جنگ میں ہے اسر ائیل کے
خلاف، اس کے وجود کے خلاف، اس کے قبضے کے خلاف اور جو ملک اول روز سے جنگ میں ہے،
کیا کشمیر میں آپ کی فوج لڑی ہے، کیا آپ کے مجاہدین نہیں گئے وہاں، کیا وہاں کے
اندر کے مجا ہدین نے جنگ نہیں لڑی، کیا پاکستان نے ان کے جہاد کی حمایت نہیں کی،
کیا پاکستان نے اس کو جہاد نہیں کہا، تو اگر ہم کشمیر میں کشمیری مجا ہدین کے جنگ
کو جہاد کہہ سکتے ہیں تو وہاں بھی تو حکومت نہیں ہے حکومت کے خلاف ایک تحریک ہے جو
اپنے آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے تو قومیں جس وقت غلام بنا دی جاتی ہیں تو قوموں کے
اندر کے کوئی تنظیم بھی اس وقت فیصلہ کر سکتی ہے کہ ہم اب آزادی کی جنگ لڑیں گے تو
فلسطینی اپنے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اول دن سے لڑ رہے ہیں، فلسطینیوں نے آج
تک اسرا ئیل کو تسلیم نہیں کیا اور پاکستان نے آج تک اسرا ئیل کو تسلیم نہیں کیا
لہٰذا پاکستان کے علماء اور فلسطین کے عوام ان کے آپس میں جو فکری ربط ہے وہ ابھی
تک بہ دستور برقرار ہے اور وہ لوگ اس میدان میں ہیں اور ہم ان کی جہاد اور ان کی
قربانیوں کا مذاق اڑا رہے ہیں! اور اگر پاکستان سے ان کی تائید میں کوئی بات جاتی
ہے تو پھر ہم ان کا مذاق اڑاتے ہیں یہ شریعت کا مذاق اڑا رہے ہیں ان سے کہہ دو جو
لوگ جہاد کے لفظ کا مذاق اڑاتے ہیں پاکستان کے اندر اگر کوئی مسلح جنگ لڑے گا تو
یہ پاکستان کے حالات کے تحت دیکھیں، تو پاکستان کے حالات کے تحت بھی تو یہی علماء
کرام تھے نا یہی مفتی تقی عثمانی تھا یہی فضل الرحمن تھا یہی وفاق المدارس تھی یہی
تمام دینی مدارس اور دین مکاتب فکر کے سربراہان تھے جنہوں نے کہا کہ پاکستان میں
مسلح جنگ جو ہے وہ جائز نہیں ہے، تو جہاں جہاں پر جو ضرورت ہے اس کے مطابق علماء
کرام بات کرتے ہیں، جس علاقے کا معاملہ ہے اس علاقے کے جغرافیے اس کے داخلی
صورتحال اس کے تاریخی پس منظر اس ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے موقف کو،
اب اس حالت میں اگر آپ اسر ائیل کے خلاف جہاد کا مذاق اڑائیں گے تو آپ اسرا ئیلی
کہلائیں گے آپ اس کے سپورٹر ہیں پھر، تو اگر وہاں کے علماء فتویٰ دے سکتے ہیں تو
ہم نے ان کے فتوے کی تائید کی ہے۔ لہٰذا پاکستان کے اندر علماء نے اگر کہا ہے کہ
یہاں پر مسلح جنگ نہیں ہونے چاہیے تو جمعیت علماء اسلام نے ان کی تائید کی ہے، تو
یہ ساری چیزیں ہر جگہ پر درجہ بہ درجہ ہونے چاہیے یا ایک ہی لاٹھی کے ساتھ ساری
چیزیں نہیں ہانگنے چاہیے، لفظ جہاد آ گیا تو پاکستان سے لے کر فلسطین تک جہاد مذاق
بنا دیا گیا، کیوں؟ یہاں کی صورتحال اپنی ہے افغا نستان کی۔۔۔ ہم افغانستان میں جہاد
کی حمایت نہیں کر رہے تھے؟ کیا پاکستان میں بھی ہم کہہ رہے تھے کہ مسلح لڑی جائے؟
کیا 1979 ، 1980 کے بعد 12 13 سال تک یا 14 سال تک پاکستان سے مہاجرین کو ہم اسلحہ
دے کر نہیں بھیج رہے تھے؟ پاکستانی مجا ہدین شریک نہیں ہو رہے تھے؟ عرب مجا ہدین
نہیں آئے؟ تاجک اور ازبک نہیں آئے؟ ساری دنیا کو ہم نے پاکستان میں اکٹھا کر کے
پاکستان کو افغان جہاد بیس کیمپ بنایا ہم نے اس کو جی، اب جب معاملات آپ کے اپنے
پالیسی کی وجہ سے آج آپ ان کو یکساں نہیں چلا سکے اس میں تذبذب آ گیا، اضطراب
آگیا، تضادات آگئے ان کے آپ کو مشکلات سامنے آرہی ہیں تو اس کا حال آپ طریقے سے
نکالیں نا، لہٰذا ہر چیز کو ایک ہی لفظ سے لپیٹ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
صحافی: اس
تھریٹس کے باوجود آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم عوام میں نکلیں گے اور رابطوں کا سلسلہ خود
آپ نے کہہ دیا کہ اتنے علماء کرام کو شہید کیے گئے ہیں۔ خود روزانہ آپ کو تھریٹس
جاری کر دیتے ہیں تو کیسے آپ نکلیں گے عوام میں؟
مولانا صاحب:
دیکھیے ان ساری چیزوں کا اصل مقابلہ عوام خود کر سکتے ہیں جب پبلک نکلتی ہے تو
پبلک کی جو رائے ہوتی ہے اس کا ایک اپنا دباؤ ہوتا ہے اور وہ جس طرح ہم حکومت پر
دباؤ ڈالتے ہیں جس طرح ہم اسٹیبلشمنٹ دباؤ ڈالتے ہیں یہ قوتیں بھی تو عوام ہی کی
دباؤ سے پیچھے ہٹیں گی اگر عوام دب گئے، وہ خاموش ہو گئے تو وہ تو آپ کے گھروں میں
داخل ہوں گے پھر! آپ کے گھروں کی ملکیتیں اپنے ہاتھ میں لے لیں گے، آپ کی عزتیں
اپنے ہاتھ میں لے لیں گے، لہٰذا عوام کو بیدار رہنا، عوام میں شعور پیدا کرنا، اس
میں ہمت دینا، اس میں جرات اجاگر کرنا یہ ایک سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہے اور
جمعیت علماء اسلام وہ ذمہ داری پوری کرنے کے لیے میدان میں آئی ہے، کراچی میں ملین
مارچ ہوا ہم نے خود اپنے پچھلے تمام ریکارڈ خود توڑے ہیں، اتنا بڑا اجتماع تھا
تاحد نظر انسانیت تھی اور اب 27 اپریل کو ان شاءاللہ مینار پاکستان پر وپی صورتحال
ہوگی، پھر 11 مئی کو ان شاءاللہ ہم پشاور میں ملیں گے اور ٹھیک ٹھاک ملیں گے ان
شاءاللہ العزیز۔ بہت شکریہ
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1
#teamJUIswat
مائنز اینڈ منرل بل، افغان مہاجرین کی جبری بیدخلی،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن وامان سمیت بین الاقوامی صورت حال پر پشاور میں اہم پریس کانفرنس
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, April 16, 2025
Goog
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں