قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا موجودہ صورتحال پر پریس کانفرنس
23 اپریل 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمده و نصلي على رسول الکریم و بعد
جمعیت علماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس انیس اور بیس اپریل کو لاہور میں منعقد ہوا، اس اجلاس کی فیصلوں کے حوالے سے میں کچھ بات کروں گا پھر جو آپ لوگوں کا کوئی سوال ہوگا تو ان شاءاللہ اس پر بھی گفتگو ہوگی۔
جمعیت علماء اسلام فلس طین کی جدوجہد آزادی کی حمایت بھرپور انداز سے جاری رکھے گی، اسر ائیل ایک ناجائز ملک ہے اور اس کی حیثیت ایک قابض کی ہے۔ فلسطینیوں کی سرزمین ہو یا عرب سرزمین ہو اس پر قابض ہے۔ اگر وہ یہ سمجھتا ہے جیسے کہ نیتن یاہو کہتا ہے کہ ہم دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں کبھی دنیا میں دفاعی طور پر عام شہریوں پر بمباریاں ہوئی ہیں، کیا کوئی ملک اپنی دفاع میں ہزاروں چھوٹے بچوں کو شہید کرتا ہے، کیا دنیا کے کسی جنگ میں کوئی ایک فریق دفاع کرتے ہوئے خواتین کو شہید کرتا ہے، کیا کوئی ملک دنیا میں ہے کہ جنگ میں وہ بوڑھوں، کو جوانوں کو جن کے پاس اسلحہ نہیں ہے جو جنگ کا حصہ نہیں ہے ان پر بمباریاں کریں اور پچاس ہزار سے زیادہ شہداء جو پر امن شہری، ان کو جس طریقے سے ظلم و بربریت اور سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا یہ جنگی مجرم ہے اور عالمی عدالتی انصاف نے اس کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہوا ہے۔ اس کے باوجود عدالت کے اس فیصلے کا احترام نہ امریکہ کرتا ہے نہ یورپی ممالک کرتے ہیں۔ حکومتیں بھی ان جنگی جرائم کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور جو انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں چاہے وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کا ادارہ ہو چاہے جنیوا انسانی حقوق کنونشن کا ادارہ ہو چاہے اس کا تعلق یورپی یونین کے ساتھ ہو سب اس وقت جنگی جرائم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کے قتل عام میں اور فلس طین کے آبادیوں کو منہدم کرنے میں یہ سب ایک صف ہے اور ایک ہی جرم کے مرتکب ہیں۔ لیکن جو حمایت جمعیت علماء کی روز اول سے ہے فلسطینیوں کے لئے وہ آج بھی بدستور برقرار ہے اور ہم پاکستان میں لیڈنگ پوزیشن میں فلسطینیوں کے اس کاز کی حمایت میں میدان میں ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے کراچی میں بہت بڑا ملین مارچ کیا اور ہم نے تقریباً پچھلے تمام جو ہمارے اپنے پلیٹ فارم سے ملین مارچ تھے ان کے ریکارڈ توڑے، اس سلسلے میں اب ستائیس اپریل کو لاہور میں ایک بہت بڑا اجتماع ہوگا، ملین مارچ ہوگا اور پنجاب کے عوام اپنے فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں گے، ایک میدان میں ہوں گے، ایک آواز ہوں گے، ایک قوت ہوں گے اور یہ امت مسلمہ کے آواز ہوگی نہ کہ صرف ایک شہر یا ایک صوبے کے عوام کی آواز ہوگی۔ گیارہ مئی کو ان شاءاللہ العزیز پشاور میں فلسطینیوں کے حق میں اور غزہ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ملین مارچ ہوگا۔ اسی طریقے سے پندرہ مئی کو اسی عنوان سے کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔
پاکستان کی آواز اب دنیا تک پہنچتی ہے اور پوری امت مسلمہ کی آواز بن چکی ہے جو مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی جھنجوڑ رہی ہے اور خود مسلم اُمہ کی آواز بھی بن رہی ہے یہ شرف اگر پاکستان کو حاصل ہے تو ہمیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ہم ایک بار پھر پاکستانی قوم، پاکستان کا جو کاروباری طبقہ ہے، تاجر حضرات ہیں ان سے بالخصوص اور عام آدمی اپنے بساط کے مطابق مالی جہا د میں شریک ہوں، سیاسی طور پر ہماری مکمل سپورٹ انہیں ہونی چاہیے۔ ہم کسی مسلمان بھائی کو ایک سفاک کے منہ میں دینے کیلئے آمادہ ہوں نہیں ہو سکتے اور ان کے آزادی کے حق کے لیے اپنی جنگ اور جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس وقت ملک میں اور خاص طور پر خیبرپختونخواہ، بلوچستان، سندھ بدامنی کی صورتحال اب ناقابل بیان ہے۔ کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے کہیں پہ، مسلح تنظیمیں، مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں اور عام لوگ نہ اپنے بچوں کو سکول میں بھیج سکتے ہیں نہ اطمینان کے ساتھ وہ کوئی بال بچوں کے لیے کماسکتے ہیں، مزدوری کرسکتے ہیں، کاروباری طبقہ جو ہے وہ بھی پریشان کہ منہ مانگے بھتے ان سے لیے جا رہے ہیں تو اس حوالے سے ہماری حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، کسی قسم کی کوئی پیشرفت لوگوں کو ریلیف دینے میں نہیں ہو سکی ہے۔ اس بات کو بھی ہماری جماعت اجاگر کرے گی اور کر رہی ہے اور یہ موقف لئے ہوئے ہیں ہم کہ حکومتی یا ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام نظر آ رہی ہے۔ دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت چاہے وہ وفاق میں ہو چاہے وہ صوبوں میں ہو عوام کے مسائل کے حل اور امن و آمان کی قیام میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور نتائج تسلیم نہیں کیا آج دو ہزار چوبیس کے الیکشن پر بھی ہمارا وہی موقف ہے اور ہم ان اسمبلیوں کو عوام کے نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، اس بات پر زور دے رہے ہیں ہم کہ قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے، ووٹ عوام کی امانت ہے، جب ایک دفعہ ووٹ عوام کی امانت ہے اور کوئی بھی حکومت بنتی ہے تو اس حکومت کے ہاتھ پر اگر عوام کی اکثریت بیعت کرتی ہے تو اس کے حق حکمرانی کو کوئی بھی چھین نہیں سکتا لیکن یہاں مسلسل عوام کے رائے کو مسترد کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں من مانے نتائج سامنے آتے ہیں اور سیلیکٹڈ حکومتیں جو ہیں وہ قوم پر مسلط کر دی جاتی ہیں۔
جمعیت علماء اسلام نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ہم اپنی ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے الیکشن کے بارے میں ہمارا جو موقف ہے، غز ہ کے حوالے سے ہمارا جو موقف ہے، صوبوں کے حقوق کے حوالے سے جو ہمارا موقف ہے اور اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جمعیت علماء اسلام اپنے پلیٹ فارم سے اس حوالے سے میدان میں رہے گی البتہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترک امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی جماعتوں سے مل کر اشتراکِ عمل کی ضرورت ہو، یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کی ضرورت ہو تو اس کے لئے حکمتِ عملی، سٹریٹیجی وہ جمعیت علماء کی شوریٰ اور عاملہ کرے گی، کیونکہ یہ ملک ہمارا ہے، سب کا ہے بہت سی چیزیں ہمارے درمیان مشترک ہوتی ہیں تو یقیناً ہمارے ہاں اور ہر جگہ اتحاد صرف حکومتی بنچوں کا ہوتا ہے جو حکومت میں نہیں بیٹھتی وہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتی ہے، تو اس حوالے سے اپوزیشن میں کوئی باضابطہ مؤثر اتحاد کا تصور تو موجود نہیں ہے لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی اگر کوئی فوری طور پر کسی اشتراکِ عمل کی ضرورت پڑے اور کسی جائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لئے راستے کھلے ہیں، فضاء ہموار ہیں اور کریں گے ان شاءاللہ، لیکن باقیدہ ایک اپوزیشن کا کوئی بڑا اتحاد قائم کرنا اس پر ہماری جنرل کونسل نے، ہم نے ان کے سامنے ساری بات رکھی لیکن کونسل اس پر ابھی آمادہ نہیں ہے اور اس پر کام کی ضرورت ہوگی یکدم سے ایک جست میں شاید ہم یہ مقصد حاصل نہ کر سکیں۔
مائنز اینڈ مینرلز بل جو صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی پیش کیا جا رہا ہے ابھی تک پیش نہیں ہوا یا بلوچستان میں پیش کر بھی دیا گیا ہے اور شاید پاس بھی ہو چکا ہے، جمعیت علماء اسلام کے جنرل کونسل نے اس کو مسترد کر دیا ہے۔ میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ہمارے بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے اس کو ووٹ دیا ہے تو ان سے باضابطہ طور پر وضاحت طلب کر لی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں اگر جماعت ان کے جواب سے مطمئن ہوئی تو پھر ظاہر ہے کہ اس عذر کو اگر کوئی واقعی جائز عذر ہے تو قبول کیا جا سکتا ہے اگر جماعت مطمئن نہ ہوئی تو پھر ان کے رکنیت ختم کر دی جائے گی ہمیں اس کے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اسمبلی میں ہماری تعداد گھٹ جائے گی، ہماری ممبران کی تعداد کم ہو جائے گی، نہیں، اصول اصول ہوتا ہے اور میں مرکزی امیر ہوتے ہوئے بھی پارٹی پالیسی سے انحراف نہیں کر سکتا تو ہمارے دوسرے ساتھی کیسے کریں گے۔ پارٹی نظم سب سے اولین چیز ہے اس کے لئے کسی فرد کو قربان کیا جا سکتا ہے لیکن پارٹی کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔
اس حوالے سے بھی جو پھر آئندہ مستقبل میں فیصلے ہوں گے تو حکمت عملی ہماری مرکزی عاملہ یا شوریٰ ہی طے کرے گی۔
سوال و جواب
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا آپ نے جیسے ابھی مجلس عمومی کے فیصلوں سے ہمیں آگاہ کیا اور آپ نے کہا کہ اشتراک عمل جو ہے وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہو سکتا ہے لیکن آپ کے لاہور کے اجلاس کے بعد ایک بات سامنے آئی ہے کہ آپ منصورہ گئے اور اس کے بعد ایک اتحاد مجلس کی نام سے ایک نیا نام بھی سامنے آیا تو یہ بتائیں کیا آپ سیاسی پارلیمانی جماعتوں سے جو ہیں وہ اپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے اور کیا ایک مرتبہ پھر متحدہ مجلسِ عمل تو بحال نہیں ہونے جا رہی یا پھر کسی اور عنوان سے جو ہے آپ اپنی تحریک پاکستان میں چلانے جا رہے ہیں؟
مولانا صاحب: مذہبی جماعتوں کے ساتھ رابطے قائم کرنا یہ ہمارے نزدیک ایک مثبت اقدام ہے اور ویسے بھی ایک عرصہ ہوا میں منصورہ نہیں گیا تھا، نئے امیروں کے منتخب ہوئے تب بھی میں نہیں جا سکا اور عین انہی دنوں میں جب ہماری مرکزی مجلسِ عمل کا اجلاس ہو رہا تھا تو پروفیسر خورشید صاحب کی وفات بھی ہو گئی تو تعزیت کیلئے بھی پھر میرا جانا وہاں ضروری ہوا اور ان شاءاللہ اس رابطے کے مثبت اثرات سامنے آئیں گے جہاں تک ہے مجلسِ اتحاد امت کا تعلق اس کا جماعت اسلامی کے دفتر جانے سے کوئی تعلق نہیں، یہ جو ہم نے اسلام آباد میں کنونشن کیا تھا جس میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمان صاحب یہ سارے حضرات شریک تھے تو اس کنونشن سے یہ نام تجویز کیا گیا اس کنونشن سے، اور یہ بھی ہے کہ اگر اس نام سے مزید ہم جلسے کریں گے تو یہ کوئی باضابطہ نہ کوئی اتحاد ہے نہ کوئی تنظیم ہے نہ اس کی کوئی رکن سازی ہے نہ اس کی کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہے ایک اشتراک عمل کے حد تک ایک بیٹھک ہے اور علماء کا اکٹھے بیٹھنا اس کے یہ فائدہ بھی ہم اٹھائیں گے اور اس پر ہم متفق ہیں کہ اگر کوئی دینی شرعی مسئلہ ملک میں آتا ہے تو اس پر بھی ہم مل کر بیٹھ سکیں اور گفتگو کر سکیں فلس طین کا معاملہ ہے تو اس پر بھی ہمارا ایک اشتراک عمل اس حوالے سے ہونا چاہیے تو یہ ایک مشترکہ موقف لینا، شرعی معاملے پر ایک مشترکہ موقف لینا، اس کے لیے ایک بیٹھک کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اس وقت سے ہم نے اس کا آغاز کیا یہ جو ابھی لاہور میں جلسہ ہو رہا ہے یہ بھی مجلس اتحاد امت ہی کے پلیٹ فارم سے ہو رہا ہے لیکن باقی کچھ جمعیت علماء کے اپنے پلیٹ فارم سے بھی ہو رہے ہیں اور جس میں ہم سب کو دعوت دی جاتی ہے۔
صحافی: مولانا صاحب یہ سوال یہ ہے کہ آپ نے کہا کہ ہم نے فی الحال کسی بڑی اپوزیشن اتحاد پر بھی رضا مندی ظاہر نہیں کی ہے تو پچھلے دنوں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جے یو آئی نے تحریک انصاف کے سامنے کوئی ڈیمانڈز رکھیں تھی جس کا انہوں نے جواب نہیں دیا یہ بات درست ہے؟
مولانا صاحب: یہ باتیں تو ہماری ایک سال سے چل رہی ہیں اور ابھی تک تعلقات کی بہتری آپس کے بہتر ماحول کی تشکیل اس پہ تو بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ جب ہم کبھی ایک دوسرے کو بالکل نہیں ملتے تھے تو ہم بلا تکلف اب ملتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہیں میں بھی چلا جاتا ہوں وہ بھی تشریف لے آتے ہیں لیکن یہ پوری دنیا میں بھی ہے جہاں پر پارلیمانی جمہوری نظام ہوتا ہے جہاں پر پارلیمنٹوں میں اپوزیشن بیٹھتی ہے تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو پلیٹ فارم ہوتے ہیں وہ آپس میں اپنے رابطے بھی رکھتے ہیں لیکن ان کا ایکشن جو ہے وہ اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ہوا کرتا ہے تو یہ کوئی پہلی مرتبہ پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا، دنیا کے اور پارلیمانی ملکوں میں بھی اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔
صحافی: حضرت یہ بتائیے گا کہ فلسطین کا ایک بڑا سیریس ایشو ہے بڑے بڑے اجتماعات اور ملین مارچ تو ہو جاتے ہیں تمام جماعتیں بھی اس حوالے سے سرگرم رہتی ہیں ماشاءاللہ، عملی اقدام جو عالمی سطح پر کیا جانا چاہیے اور حکومتوں کو مجبور کرنا چاہیے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک چیز منظر آپ کے سامنے نظر آیا ہے یا اس طرح ممکن ہے یا حکومتوں کیا کرنا چاہیے؟
مولانا صاحب: یہ سوال آپ کا سنجیدہ ہے لیکن حکومتیں نہ ہماری بات کو سنجیدہ لے رہی ہیں نہ امت مسلمہ کی بات کو سنجیدہ لے رہی ہیں اور انہی کی وجہ سے یعنی امت جو ہے وہ ان سے شاکی ہے۔ لیکن امت کے اپنے حوصلے بلند ہے، ہر وقت یہ نہیں کہ صرف امت مسلمہ کی بات کرتا ہوں اس جنگ کے خلاف امریکی پالیسیوں کے خلاف امریکی عوام بھی نکلے ہیں برطانیہ میں عوام نکلے ہیں یورپ کے ممالک میں عوام نکلے ہیں خود اسرائیل کے اندر مظاہرے ہوئے ہیں ہو رہے ہیں۔ تو ایسا نہیں ہے کہ عام انسانی معاشرہ چاہے وہ مسلم ہو نان مسلم ہو وہ جنگ کے خلاف بھرپور رائے دے رہا ہے اور پھر بھرپور قسم کی ایک شعور بیدار ہوا ہے پورے دنیا میں، اور اسلامی دنیا سب کی نظر اس حوالے سے پاکستان کے طرف ہوتی ہے کیونکہ پاکستان واحد ملک ہے جس کے اندر ایک ماحول موجود ہے کہ جہاں سے عوامی آواز اٹھ سکتی ہے اور وہ پھر سارے دنیا کے مسلمانوں کی آواز بن جاتی ہے۔
صحافی: مولانا صاحب یہ فرمائیے گا کہ ماضی میں آپ کو پاکستان کی جو ابتر صورتحال جس کا آپ نے ذکر بھی کیا ہے زمین گرم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں اور ایک طرف سے یہ بات ہو رہی ہے کہ یہ جو موجودہ حکومت ہے ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے تو بات اسٹیبلشمنٹ سے کرنی چاہیے۔ آپ کا کیا نقطہ نظر ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کو آن بورڈ لینا چاہیے، آپ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات کرنے کے حق میں ہیں، پاکستان کے حالات کی بہتری کرنی ہے یا الیکشن جو آپ کہہ رہے ہیں ہونے چاہیے دوبارہ، کیا اسٹیبلشمنٹ کے بغیر بھی کوئی الیکشن کرا سکتا ہے؟
مولانا صاحب: ایک ہے اصول کی بات اور ایک ہے جو معروضی طور پر صورتحال درپیش ہوتی ہے۔ اصول تو یہی ہے کہ الیکشن آزاد شفاف اور الیکشن کمیشن کے انتظام کے تحت ہونے چاہیے لیکن شکایت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں مداخلت کرتی ہے، وہ کیوں نتائج تبدیل کرتی ہے، وہ انتخابی عملے کی تبدیلیاں اپنی مرضی سے کیوں کرتی ہے، الیکشن کمیشن کو وہ لسٹ کیوں مہیا کرتی ہے کہ ان ملازمین کو فلاں کو فلاں جگہ رکھو، فلاں کو فلاں جگہ رکھو، تو یہ اعتراضات اصولی طور پر ہمارے ہیں جس کو ہم نے ہی زیادہ ہائی لائٹ کیا ہے ہم نے اجاگر کیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ فوج یا جو ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے وہ ریاست کے تحفظ کیلئے ہے، وہ ریاست کے مفادات کرے، اب ریاست سے وفاداری ریاست کے ساتھ کمٹمنٹ میں وہ ان کو حق نہیں ہے کہ وہ پک اینڈ چوز کریں۔ سب سے پہلے میں دعوے دار ہوں اس بات کا کہ میں سٹیٹ کا حامی ہوں، میں سٹیٹ کے ساتھ کھڑا ہوں، میں آئین کے ساتھ کھڑا ہوں، میں پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑا ہوں اور اگر ہم ان کے ایجنڈے پر پورا نہیں اتر سکتے اگر ان کو یہ خیال ہو کہ ہم نے تو اگلے پانچ سالوں میں خیبر پختونخوا کے معدنیات پر قبضہ کرنا ہے تو ہم نے بلوچستان کے معدنیات پر قبضہ کرنا ہے اور یہ ان کے ایجنڈے پر ہو اور ان کو پتہ ہو کہ فضل الرحمان اس پر ساتھ نہیں دے گا جے یو آئی ساتھ نہیں دے گی تو پہلی سے اس کو کاٹ دو اس کے پر کاٹ دو جی تاکہ اس کا پارلیمانی رول نہ رہے جی، لیکن یہ خواب بن جاتے ہیں ایسی خواہشیں ہیں، چھبیسویں ترمیم پر ہم نے قومی اسمبلی میں آٹھ اراکین اور سینٹ میں پانچ اراکین کے اوپر جو کردار ادا کیا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہیں جی اور اب ایک طرح مجھے یاد ہے وہ جو ڈومیسٹک وائلنس کے حوالے سے ایک قانون آ رہا تھا، پنجاب اسمبلی میں آ رہا تھا، ہمارا ایک ممبر وہاں نہیں تھا لیکن ہم نے لاہور میں جا کر مورچہ لگایا اور حکومت کو پسپا کر دیا، تو رول ہونا چاہیے۔ اب ہمارے ہاتھ میں ایک رول آیا چھبیسویں ترمیم کے حوالے سے ہم نے کوئی چونتیس کلازز سے ان کو دست بردار کرایا اور پوری اپوزیشن کی جماعت کو دن رات کی صورتحال اور ہر ڈیویلپمنٹ سے ان کو آگاہ کیا اور ایک مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت ہم یہاں سے اٹھے اگر انہوں نے ووٹ نہیں کیا تو میری خواہش اور تجویز پہ نہیں کیا میں اس پر راضی تھا اگر میں نے ووٹ کیا تو میرے ووٹ پر وہ راضی تھے اور ہمیں اپریشیٹ کیا انہوں نے،
صحافی: پی ٹی آئی والوں نے؟
مولانا صاحب: ہاں، آپ دیکھے نا سینٹ کی تقریر ہے قومی اسمبلی کی تقریر ہے یہاں جو دروازے کے سامنے آپ کے موجودگی میں پریس کانفرنس ہوئی تھی یاد نہیں آپ لوگوں کو وہ، آپ عجیب لوگ ہیں خدا کے بندوں اتنی جلدی بھول جاتے ہو۔
صحافی: آپ نے بہت اچھی بات کی کہ باہر اتحاد نہیں ہو سکتا، اندر آپ کی اپنی مرضی تھی چھبیسویں ترمیم پہ تو آپ نے اتحاد کر لیا اور اپنی بات منوا بھی لی، اس وقت ملک میں مہنگائی ہے، بدامنی ہے، لاقانونیت ہے یہ بھی آپ ہمیں بتاتے ہیں اور ہم بھی دیکھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اپوزیشن دوسرے مسائل پر اندر اکھٹی نہیں ہوتی، وہ سنجیدہ نہیں ہوتی کیا یہ واک کور نہیں دی رہے گورنمنٹ کو آپ لوگ؟
مولانا صاحب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر آپ اس کا انتظام نہیں کر پاتے فوری طور پر تو کوئی تو فائدہ اٹھاتا ہے اس سے، تو اس سے حکومت تو فائدہ اٹھاتی ہے جتنا ان کو موقع ملتا ہے لیکن اتحاد کیلئے بھی حضرت ہم آنکھیں بند کر کے تو کسی پلیٹ فارم پر نہیں کھڑے ہو سکتے تو ہمارے پلیٹ فارم سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ موقف ایک ہی جا رہا ہوتا ہے اپوزیشن کے کسی پارٹی پہ ہم تنقید نہیں کرتے ہم بعض دفعہ ان کے کسی بات کا جواب بھی نہیں دیتے، اور اگر آپ نے کبھی سوال کیا ہو کہ یہ فلاں نے آپ کے بارے میں بیان دیا ہے تو میں نے آپ کو یہی جواب دیا ہوگا کہ اس کا جواب میں نہیں دوں گا اس کا پارٹی ڈسپلن کے تحت ان کا فرض ہوگا کہ اس کے پوچھے کہ آپ نے ایسی بات کیوں کی ہے۔ باقی صوبے ہیں تو صوبوں میں بھی ہم اپوزیشن میں ہیں، اگر کہیں پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے وہاں ہم اپوزیشن میں ہو، کہیں پر مسلم لیگ کی حکومت ہے وہاں پر ہم اپوزیشن میں ہو، کہیں پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں ہم اپوزیشن میں ہو، تو بلوچستان میں بھی ہم اپوزیشن میں ہیں، کے پی میں بھی ہم اپوزیشن میں ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ وہاں پر اگر ایک حکومت ہے تو پی ٹی آئی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے، پیپلز پارٹی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ اس صوبے کی حکومت کی اپوزیشن ہیں تو انہیں صوبے کی حکومت کو ٹارگٹ کرنا ہے پارٹی کو ٹارگٹ نہیں کر رہے جی، تو حکومت سے شکایت ہوتی ہیں تو ابھی بھی سندھ میں جو کینالز کا مسئلہ اٹھا ہے تو پارٹی کی خلاف ان کے پالیسی کی خلاف ہے نا، اب تو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ غلط ہے لیکن وہ عوامی دباؤ کے تحت کہہ رہے ہیں۔
صحافی: تحریک ائین تحفظ پاکستان نے آپ سے باضابطہ درخواست کی تھی آپ نے ٹائم مانگا کیا جو فیصلہ ہوا ہے اتحاد میں شمولیت کے حوالے سے جانا یا نہ جانا وہ ان کو اگاہ کر دیا گیا ہے اور دوسری بات ہے پی ٹی آئی کہتی ہے کہ ہم نے مولانا صاحب کے جتنے تحفظات تھے ان کو دور کرا دیا ہے تو اب کیا ریزن ہے کہ جے یو آئی جو ہے وہ اتحاد میں نہیں جا رہی؟
مولانا صاحب: مجھے تو یہ سوال صحیح نہیں لگتا کہ انہوں نے یہ کہا ہو کہ ہم نے سارے تحفظات دور کر دیے، ایسا کوئی بیان نہ آیا ہے نہ کسی سے وہ بات کر سکتے ہیں جی، تو جب دور ہو جائیں گے پھر خیر ہو جائے گی۔
صحافی: مولانا صاحب فلسطین کے حوالے سے آپ کا ظاہر ہے ایک واضح موقف آیا ہے، کچھ دن قبل بھی ایک سیمینار ہوا کانفرنس میں جہاد کے حوالے سے بات کی وہاں پر، تو مولانا صاحب کب اعلان کریں گے وہاں جہاد کی اور کیا یہ اعلان اس طرح ہم ماضی میں افغان جہاد کی جو خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں کیا اس طرح تو نہیں ہوگا؟
مولانا صاحب: آپ کیوں ان لفظ جہاد سے ڈرتے ہیں؟ آپ کلمہ گو مسلمان ہیں آپ کا قرآن جہاد کی بات کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کی بات کرتے ہیں، فقہاء جہاد کی بات کرتے ہیں، جہاد ایک مستقل عنوان ہے دین اسلام کا اور ہم ایسے لفظ سنتے ہیں تو مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں، ملاؤں کا فتویٰ ہے، مولوی صاحبان نے پھر فتویٰ دے دیا، اب پہلے کون جائے گا وہاں پر، تو اس قسم کی چیزیں مسخرہ پن ہے، اپنا مسخرہ پن یہ لوگ بند کریں۔ میری بات تو پوری ہونے دے فتویٰ کو بھی میں جانتا ہوں تو جہاد سے شرعی قانون سے آج آپ کہیں پاکستان میں شریعت، اوہو کیا ہو جائے گا ہاتھ کٹیں گے گردن کٹیں گے۔ اپنے دین جس پر ہم ایمان لاکر مسلمانوں کے صف میں اپنے آپ کو شریک کرتے ہیں، اپنا مسلمان اپنے دین سے ڈر رہا ہے اور یہ دین صرف مولوی کا ہے جس طرح میں کلمہ گو ہوں آپ اس طرح کلمہ گو ہیں جس طرح میں نماز پڑھتا ہوں آپ اس طرح نماز پڑھتے ہیں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ آ جائے گا کہ اسلام کی بات کرنا ایسا ہوگا جیسے مٹھی میں آدمی انگارہ پکڑے، یہی صورتحال اب آ گئی ہے کہ دین اسلام کو ہم عجوبہ سمجھ رہے ہیں، دین اسلام کو ہم کوئی ایسا اجنبی چیز سمجھ رہے ہیں تو بدأ الإسلام غريبًا وسيعود غريبًا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج بھی اسلام جو ہے وہ نا اشنا چیز ہے ایک زمانہ آئے گا جب پھر اسلام ایک دفعہ نا اشنا چیز تصور کی جائے گی، یہ خرابیاں ہیں ہمارے اندر، یہ کمزوریاں ہیں ہر مسلمان کو اپنے اندر کی اصلاح کرنی چاہیے۔ جہاد کا مذاق اڑانا، اب جہاد کیا غزہ کا مسلمان اور فلسطین کا مسلمان جس پر ایک غیر مسلم قابض ہے مسجد اقصیٰ پر قابض ہے اس کو چھڑانے کیلئے وہ قربانیاں دے رہے ہیں اور عالم دین اس کو جہاد کہہ رہا ہے اور آپ جہاد کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کے ساتھ دشمنی ہے۔ افغانستان میں جہاد تھا ہم جہاد کہتے تھے، اسلامی دنیا منقسم ہے ستاون یا اٹھاون اسلامی ممالک میں تو جغرافیائی طور پر ہر ملک کے اندر کے حالات اپنے ہو جاتے ہیں، اس طرح کے فیصلے جو ہیں ہر ملک اپنے ماحول کے تحت کرتا ہے اگر کوئی فلسطین میں رہتا ہے تو ان پر جہاد فرض ہے، جو ساتھ میں سرحدات ہیں وہ اگر اندر جا سکتے ہیں تو ان پر فرض ہے، دور والے ہیں ان کے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے وہ سیاسی حمایت کرتا ہے، کوئی چندہ بھیج دیتا ہے، تو یہ ساری چیزیں جو ہیں جہاد کے ذمرے میں آتی ہیں براہ راست سے لڑنا یا لڑنے والے کو سپورٹ دینا، مالی سپورٹ دینا، اخلاقی سپورٹ دینا، سیاسی سپورٹ دینا، اب آپ مجھے بتائیں کہ جہاد افغانستان یہ ہمارے حکمرانوں کا نعرہ نہیں تھا، وہاں تو آپ جہاد کے لفظ کے مخالف بول بھی نہیں سکتے تھے۔ کیا کشمیری جو وہاں لڑ رہے ہیں کیا یہ جہاد کے ذمرے میں آپ آج تک اس سے دستبردار ہوئے ہیں۔ تو یہ ساری چیزیں ایسی ہیں بساط کے مطابق آپ جتنا کچھ کر سکیں یہ نماز کی طرح نہیں ہے نماز کا نہ ٹائم تبدیل ہو سکتا ہے نہ طریقہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاد ایک عمل ہے اس کے لئے تدبیر ہوتی ہے، مشاورت ہوتی ہے کس طرح لڑنا ہے کس سطح پر لڑنا ہے یہ ساری چیزیں، جہاد صرف ایک چیز کا نام ہے ہر وہ جدوجہد، وہ ہر محنت جو اعلیٰ کلمتہ اللہ کے لئے ہو اور اللہ کے احکام واضح ہیں اگر اللہ نے مجھے آزاد پیدا کیا ہے کسی کا باپ بھی میری آزادی سلب نہیں کر سکتا، اگر اس نے حرم میرے حوالے کیا ہے، حضرت عمر کے حوالے کیا ہے، صلاح الدین ایوبی کے حوالے کیا ہے، مسلمانوں کا اس کے اوپر قبلہ اول رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات تک رخ کر کے نماز پڑھتے رہے ہیں تو اس پر ان کا قبضہ جو ہے وہ مسلمان کیسے قبول کرے، تو یہ ساری چیزیں حضرت جب آپ اللہ کے دین کے کسی حکم کو اونچا کرنے کے لئے اور اس کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے آپ سادھ سی گفتگو بھی کرتے ہیں وہ بھی جہاد کے زمرے میں آ جاتا ہے۔
صحافی: مولانا صاحب اس فتوے کے بعد آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جہاد ایک انفرادی عمل ہونا چاہیے یا ریاست اعلان کرے اور فوج اس کو لیڈ کرے، آپ کا مؤقف کیا ہے؟
مولانا صاحب: ہونا تو یہی چاہیے کہ ریاستیں خود اعلان کریں اور چلیں اور فوجی قوتوں کو اس میں شامل کریں کیا ہم کہتے ہیں پاکستان کا ایٹم بم، اسلامی ایٹم بم، امت مسلمہ کا ایٹم بم، ہمارا نہیں ہو سکا تو دنیا کا کیسے ہوگا۔ تو اس میں مایوسی اگر ہے تو حکمرانوں کے جانب سے ہے لیکن اگر حکمران ایک فرض پورا نہ کر رہے ہوں تو کیا عام لوگ جو ہیں مسلمانوں کے اندر کوئی اس کے فرائض نہیں ہو سکتے جو مسلمانوں کے اندر جو فرض ادا کرنے کی صلاحیت استعداد ہو اسے وہ پورا کرے۔
صحافی: کشمیر میں بھی فائرنگ کا جو واقع ہوا ہے اس کے بعد کیا اس کے کونسیکوئنسز کیا دیکھ رہے ہیں پاکستان اور انڈیا کی درمیان اور خطے میں اس کے کیا حالات نظر آئیں گے اور دوسرا سر یہ ضرور میں پوچھوں گا کیا اپوزیشن سے اتحاد صفحہ پھاڑ یا گنجائش باقی ہے؟
مولانا صاحب: اس پر عمل چلتا رہے گا فی الحال تو ہمارا، یعنی آپ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بس اسی کو نوٹ کریں مہربانی کر کے ہماری پریس کانفرنس کو خراب نہ کریں، ہاں وہ جو دوسرا آپ نے بات کی ہے کشمیر کی، دیکھیں یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر میں ہوا ہے اور انتظامی طور پر وہ انڈ یا کے کنٹرول میں ہیں تو وہاں پر اگر کوئی بدامنی کا ایسا واقعہ ہوا ہے تو وہاں کی حکومت اور وہاں کے جو امن و امان قائم رکھنے والی ادارے ہیں وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ اب اپنے گناہ کو کم کرنا یا اپنے گناہ سے لوگوں کے نظر لوٹانے کیلئے پاکستان پر الزام لگانا یہ تو بڑا آسان کام ہو جاتا ہے لیکن میں خود بھی منتظر ہوں کہ ہماری طرف سے، ہماری ریاست کے طرف سے کیا جواب آتا ہے۔ اب تک جو دو چار جملے میں کوئی جواب آیا ہے وہ ابتدائی انیشئیل ہو سکتا ہے زیادہ سے زیادہ، ابھی تفصیلات اس کی مزید بھی آنی ہیں، صورتحال واضح ہونا ہے تو احتیاط کے ساتھ ہمیں اس حوالے سے آگے بڑھنا ہے، کسی طرح جذباتی پوزیشن ہم نے نہیں لینی، وہاں پر ایسے واقعات کا ہونا یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ واقعات اگر اکا دکا ایسے ہوتے ہیں تو وہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستانی موقف کو کتنا متاثر کرتے ہیں اس کو طاقت کتنی دیتے ہیں اور انڈ یا کا جو ردعمل ہے اس کے وزن کیا ہوگا وہ اس مسئلہ کا رخ کدھر پھیریں گے۔ تو اپنی ناکامیوں کے طرف وہ دیکھیں اور اپنی ناکامیاں پاکستان کے طرف پھینکنے کی کوشش نہ کریں۔
صحافی: مولانا صاحب چند دن پہلے کمانڈر شریف اللہ امریکہ کو مطلوب تھے وہ پاکستان میں ان کے حوالے کیا اور شادیانے بجائیں گے اب امریکہ کی طرف سے کچھ معدنیات میں انٹرسٹ سو کیا جا رہا ہے جو حالیہ مائنز اینڈ منرلز بل ہے کیا آپ سمجھتے ہیں یہ بھی امریکہ کو خوش کرنے کے لئے کوشش کی جارہی ہے؟
مولانا صاحب: اس حوالے سے میں پارلیمنٹ میں بڑی تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں یہ کس طرح عالمی قوت ہیں وہ ہمارے فاٹا اور افغانستان کے پہاڑوں میں دلچسپی لے رہے ہیں اور کیوں لے رہے ہیں، تو یہ ساری چیزیں معروف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بظاہر تو پاکستان کی ترقی کا نام دیا جاتا ہے تو فاٹا انضمام کو بھی تو پاکستان کی ترقی کا نام دیا گیا، فاٹا انضمام کو بھی تو سبز باغ دنیا کو دکھائے گئے اور وہاں کے نوجوانوں کو کہا گیا آپ کا مستقبل یہ ہوگا، ان کا مستقبل پہلے سے بھی خراب ہوگیا۔ تو اس طریقے سے لوگوں کو دھوکہ نہ دیا جائے، اس میں اس سارے کاروبار میں عالمی برادری جو ہے اس کے منہ میں پانی آتا ہے وہ ایسے ممالک میں جا گھستے ہیں، انہوں نے سارا کچھ جو عراق میں کیا تو اپنے معدنیات کے لئے کیا، لیبیا میں کیا تو اپنے معدنیات کے لئے کیا، جہاں بھی جاتے ہیں اپنے معدنیات کو سامنے رکھا، اپنے مفادات کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملکوں کے وہاں پر بھی، ہم اس کے حامی ہیں کہ دنیا آئے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ ہم سرمایہ کاری کے خلاف نہیں ہیں سرمایہ کاری جو ہے وہ ایسی ایک چیز ہے جس میں امریکہ بھی بیرونی سرمایہ کاری سے بے نیاز نہیں رہ سکتا، لیکن اس کی اصول ہونے چاہیے اگر صوبہ اپنے وسائل کا مالک ہے، اٹھارویں ترمیم کے تحت یہ ان کی ملکیت ہے تو پھر وفاق وہاں سرمایہ کاری کرے، تو وہ بھی صوبے کے شرائط پر کرے، اگر باہر کی دنیا آتی ہے تو پہلے ہمارے وفاق کے پاس آئے، ملک سے بات کر کے پھر ان کی وساطت سے صوبے میں جائے اور اس صوبے کے شرائط پر، اس کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ اگر سرمایہ کاری ہوتی ہے تو ہم کوئی جذباتی لوگ نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ اپنے ملک کی ترقی کے راستہ روکتے ہیں، لیکن چوری چھپے، اس طرح ہمارے وسائل کو بیچنا اور پھر ہمارے آئین کو سبوتاژ کرنا، آئین کی نفی کرنا اس پر ظاہر ہے کہ ہمارا مؤقف بڑا واضح ہے۔
صحافی: مولانا صاحب آپ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا کام نہیں ہے الیکشن میں مداخلت کرنا، سیاسی جماعتوں کا کام ہے آپس میں بات چیت کرنا، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جب آپ نے آزادی مارچ کیا تھا تو اس کے بعد آپ کو کوئی یقین دہانی کرائی گئی جس میں آپ نے کہا تھا کہ میں جھولی بھر کے جا رہا ہوں خالی ہاتھ نہیں جا رہا اور اس کے بعد پھر وہ نمبر ہی بند کر کے چلے گئے، پھر دوبارہ بات چیت شروع ہوئی، پھر نیوٹرل کا بات کی گئی اب تو ہر کسی کو پتا ہے کہ وہ حکومت کیسے گرائی گئی، کیا اب اگر وہاں سے کوئی اس طرح کی ری اپروچ اپوزیشن کے لئے نظر آئے تو پھر جیسے حاجی صاحب نے کہا تھا وہ کوئی۔۔۔۔۔ والی میٹنگ تو اس طرح کی پھر میٹنگ تو ہو سکتی ہے اسی اسٹیبلشمنٹ سے؟
مولانا صاحب: دیکھئے ہمارا کام ہے جدوجہد کرنا، جدوجہد کی کامیابی پر نقشہ کیا بنتا ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم رات کو تحریک چلا رہے ہیں اور یک دم صبح کے روشنی میں نکال لائیں۔ اس آزادی مارچ نے ملکی سیاست کو تبدیل کر دیا، اس نے اسٹیبلشمنٹ کے فکر کو تبدیل کر دیا، اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ وہ عدم اعتماد کے نکتے پر اتفاق نہ کرتیں تو تحریک کی قوت سے حکومت کو استعفی پر بھی مجبور کیا جا سکتا تھا اور الیکشن کے نتائج بھی اس سے مختلف ہوتے، لیکن وہاں پر پھر ایک کمپرومائز کیا گیا عدم اعتماد کی تحریک کا سہارا لیا گیا پھر ہم نے کہا کہ اب حکومت ہاتھ میں آ گئی ہے ابھی سے الیکشن کا اعلان کر دو، جتنا ٹائم آپ اس میں دے سکتے ہیں وہ ٹائم لوگوں کو دے دو تاکہ فضاء بن جائے فوراً الیکشن کی، کہتے ہیں نہیں ہم نے تو سولہ مہینے حکومت کرنی ہے جی، تو یہ ساری چیزیں کچھ ہم سے ماضی میں جو غلطیاں ہوئی ہیں لیکن یہ ہے کہ تحریک نے ماحول تو بنا دیا اور یہ جو میں آپ سے کہہ رہا تھا کہ ہم کوئی خالی نہیں جا رہے ہیں تو ہلا دیا تھا صورتحال کو ہم نے اور پھر اس جگہ پہ مضبوطی سے ٹھہرنا یہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی ممکن نہیں رہا تھا۔
صحافی: یہ جو افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے گئے ہیں اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
مولانا صاحب: ہمیں تو ہر وقت ان کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے چاہیے، ٹوٹے کیوں ہیں یہ سوال ہے اور جب وہاں پر امریکی کٹھ پتلی حکومت تھی ان کے ساتھ تو ہمارے سفارتی تعلقات تھے اور جو بیس سال قربانیاں دے کر قربانیوں کے نتیجے میں فتح حاصل کیا انہوں نے اور وہاں پر انہیں ایک مضبوط حکومت بنا لی ہے اب اگر وہ سفارت کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں پتہ نہیں دنیا اس کو بلیک لسٹ ہے اب بلیک لسٹ ہونے کے باوجود بھی لوگ ان سے ملاقات کرتے ہیں روس اپنے لیے جگہ تلاش کر رہا ہے، چائنا اپنے لیے جگہ تلاش کر رہا ہے، یورپ کے ممالک جگہ تلاش کر رہے ہیں، ابھی امریکنز بھی ان کے ساتھ تقریبا خود بخود براہ راست بات چیت میں آ گئے ہیں تو ان چیزوں کو ہمیں بروقت جو ہے اگر حقائق کو تسلیم کریں تو بہتر ہوتا ہے نہ یہ کہ ایک وقت آئے کہ آپ بلاخر تسلیم کریں گے تو حالات ان کے لئے بہتر ہوتے جا رہے ہیں ہم ایک بات کی کوشش کریں اور ہمارا ایک ہدف ہونا چاہیے کہ ہم افغا نستان کے بچے بچے کو ان کے دل میں پاکستان کی محبت ڈال دیں انہیں پرو پاکستانی بنائیں یہ ہماری ضرورت ہے، ہمارے کچھ رویوں کے ساتھ وہاں کی قوم وہاں کی نسلیں اگر وہ ہمارے خلاف جاتی ہیں یا وہ پرو انڈین جاتی ہیں تو یہ ہمارا سفارتی شکست ہے۔ضد اور دھمکیوں سے ان چیزوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ آپ پیار دیں اگر روس نے چودہ سال جنگ افغا نستان میں لڑے اور ناکام ہو کر گیا اور آج وہی روس جو آتا ہے وہ ان کے ساتھ دوستی کرتا ہے ان کے سفارتی پوزیشن کو قبول کرتا ہے، چائنا قبول کرتا ہے، امریکہ براہ راست گفتگو میں آ رہا ہے ان کے ساتھ اور خطے میں از سر نو وہ سوچ رہے ہیں تو ہمیں کیوں نہیں سوچنا تھا اس حوالے سے وہ ہمارا برادر اسلامی ملک ہے وہ ہمارا پڑوسی ملک ہے ان کے اور ہمارے سرحدات جو ہیں وہ ملے ملے ہوئے ہیں اور آنا جانا وہاں کے لوگوں کا صدیوں سے ہمارے ساتھ ہے تو وہاں پر ہم نے ایک پرو پاکستان نیو جنریشن کے حساب سے ہم نے کام کرنا ہے اور اس کو آگے لے جانا ہے۔
مولانا صاحب: آرمی چیف کے سٹیٹمنٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں جو انہوں نے اوورسیز کنونشن میں باقاعدہ افغانستان کی قیادت کو پیغام دیا تھا کہ ان کے خلاف ہماری کاروائی میں ساتھ دیں اور ہم دونوں مل کے برادر اسلامی ملک ہے آگے بڑھتے ہیں، یہ بھی فرمائیے گا جو اسحاق دار صاحب گئے ہیں دیر سے ہی سہی گئے تو ہیں افغانستان اس کے کوئی پوزیٹو نتائج آپ سمجھتے ہیں نکلیں گے؟
مولانا صاحب: اگر پازیٹیو نتائج آتے ہیں میں خیر مقدم کروں گا لیکن ابھی تک کوئی چیز سامنے آئی نہیں ہے کیونکہ یک طرفہ پریس کانفرنس کی ہے انہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس نہیں کی اگر مشترکہ پریس کانفرنس ہوتی تو مسیج اور ہوتا، یک طرفہ پریس کانفرنس کے مسیج پھر اور ہے لیکن میں نے اپنا نظریہ بتا دیا ہے کہ افغانستان ایک برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے اور ان کو اور پاکستان کو سب سے زیادہ آپس میں کوپ ہونا چاہیے۔
صحافی: مولانا صاحب جتنے بڑے سیمینار ہوتے ہیں چیف آف آرمی سٹاف اس کو اڈریس کررہے ہوتے ہیں آپ ایسے ڈیموکریٹک اس کو کس طرح دیکھتے ہیں اور وزیراعظم شہباز شریف کہاں نظر آرہے ہیں اور وزیراعظم شہباز شریف جب سے بنے ہیں کہ ان کا کوئی بڑا کام جس کو آپ سراہ سکے ؟
مولانا صاحب: آپ کا سوال خود میرا جواب ہے۔
صحافی: مولانا صاحب اس وقت خطے کے اندر تبدیلیاں آرہی ہیں نریندر مودی کو سعودی عرب کے اندر ایک اچھا پروٹوکول دیا گیا ان کے طیارے کو حصار میں لے کے پہنچایا گیا تو کیسے دیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے بالکل پڑوس میں ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیے سعودی عرب ایک اسلامی ملک ہے ہمارا دوست ملک ہے لیکن خطہ ہے ہندوستا ن ایک بڑا ملک ہے اس کے اپنے وسائل ہیں تو کوئی ملک جو ہے وہ اپنے مفادات کو تو نظر انداز نہیں کر سکتا اگر اس کے انڈ یا سے مفادات ہیں تو وہ کرے گا اگر کوئی چائنہ سے مفادات ہیں تو وہ کرے گا پاکستان سے مفادات ہیں تو وہ کرے گا تو اس کے لئے ہمیں بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ دنیا کے ممالک پاکستان سے زیادہ اپنے مفادات کو وابستہ کریں، نہ یہ کہ ہمارے مخالف لوگوں سے، تو پھر ظاہر ہیں کہ اپنے لئے تو کچھ کرنا پڑے گا پھر آپ دیکھیں عرب ملکوں میں انڈ یا جو ہے اس کے افرادی قوت ہم سے زیادہ ہے جو لوگ وہاں پر پیسہ کماتے ہیں وہاں پر انویسمنٹ کرتے ہیں یہ ساری چیزیں موجود ہے ان کی بھی، تو پاکستان کو اپنے حوالے سے بہتر انداز سے سوچنا چاہیے اور صرف ایک جو ہماری فوجی اپروچ یا فوجی سوچ ہے یہ کافی نہیں ہے جب تک کہ اس کے اندر پولیٹیکل اپروچ نہیں ہوگی اور اکنامک اپروچ ہماری اپنی نہیں ہوگی تو سب کے مشاورت اور سب کی سوچ کے ترجیہات کے ساتھ ہمیں پالیسی بنانے ہوگی۔ ایک ادارہ جو ہے وہ پاکستان کو نہیں بنا سکتا۔
صحافی: مولانا صاحب جیسے آپ نے جہا د کی بات کی فلس طین کے ایشو پر جو مذہبی جماعتیں یا علماء کرام وہ متحد ہونے میں کیوں ناکام ہیں یہ جیسے ابھی دھرنے احتجاج تمام مذہبی جماعتیں کر رہی ہیں لیکن کوئی ایسا اس کے نتائج سامنے نہیں آرہی اس کی کیا وجہ ہے؟
مولانا صاحب: ہو جائے گی، وہ بھی ہو جائے گی، آپ کا خواب پورا ہو جائے گا ان شاءاللہ بہت شکریہ جی
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
Islamabad Maulana Fazl ur Rehman Latest Press Conferenceاسلام آباد:مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس کے بعد قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی میڈیا بریفنگ
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, April 23, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں