مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا تونسہ میں امام اہلسنت و استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا تونسہ میں امام اہلسنت و استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب

05 اپریل 2025 

الْحَمْدُ للهِ نَحْمَدُه ونستعينُه ، ونستغفرُه ، ونؤمن به، ونتوكل عليه، ونعوذُ باللهِ من شرورِ أنفسِنا ، ومن سيئاتِ أعمالِنا ، مَن يَهْدِهِ اللهُ فلا مُضِلَّ له ، ومَن يُضْلِلْه فلا هادِيَ له ، ونشهدُ أن لا إله إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له ، ونشهدُ أنَّ سيدنا و سندنا و مولانا مُحَمَّدًا عبدُه ورسولُه، أرسله بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا، وداعياً إلى الله بإذنه وسراجاً منيرا، صلى الله تعالى على خير خلقه محمد وعلى اله وصحبه وبارك وسلم تسليما كثيراً كثيرا. اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ۔ بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ۔ صدق اللہ العظیم۔ 

جناب صدر محترم، میرے انتہائی قابل احترام اور اس اجتماع کے روح رواں حضرت مولانا عبدالطیف صاحب تونسوی، حضرت مخدوم مکرم مولانا عبدالستار تونسوی صاحب رحمہ اللہ کے خانوادے کے تمام بزرگان و اکابرین، سٹیج پر موجود معززین، میرے بزرگوں، میرے دوستوں اور بھائیوں، طویل عرصے کے بعد آج یہاں تونسہ میں اس عظیم الشان اور فقید المثال اجتماع سے مخاطب ہو رہا ہوں اور میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ جس نسبت سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے میں اُس میں شرکت کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

میرے محترم دوستوں، ہمارے لیے حضرت تونسوی رحمہ اللہ ایک اُستاد کا مقام رکھتے تھے، ہمارے لیے وہ ایک محترم تھے اور آج وہ ہماری تابندہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میرے محترم دوستوں، یہ سرائیکی وسیب اس اجتماع میں شریک سرائیکی وسیب کے اور تونسہ کے میرے دوست جمع ہیں، میرے بھائی جمع ہیں، ہم بھی کوہ سلیمان کا دامان ہیں اور آپ بھی کوہ سلیمان کا دامان ہیں، ہم سب دامانی ہیں، ہمارے رواج ایک ہیں، ہماری روایات ایک ہیں، ہمارے مسائل ایک ہیں اور ہم ایک دوسرے سے ایسے وابستہ ہیں کہ ہماری تقسیم ممکن ہی نہیں ہے۔ کچھ باتوں پہ ہمیں غور کرنا ہے ہماری پسماندگی کا غلط استعمال ہو رہا ہے، ہماری غربت کو ہماری کمزوری تصور کیا جا رہا ہے، ہماری غربت اور پسماندگی کو جاگیردار بھی استعمال کر رہا ہے، ہماری ملک کی مقتدرہ بھی ہماری غربت کا غلط استعمال کرتی ہے لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سرزمین پر ایک ایسی آواز موجود ہے جس کو اکابرِ دیوبند کی آواز کہا جاتا ہے، یہاں اس خطے میں وہ آواز موجود ہے جسے مفتی محمود کی آواز کہا جاتا ہے، اس خطے میں وہ آواز موجود ہے جسے جمعیت علماء اسلام کی آواز کہا جاتا ہے اور جب تک یہ آواز موجود ہے اس ظلم کے خلاف اس جبر کے خلاف اس جاگیر کے خلاف اس اقتدار کے خلاف اس استبداد کے خلاف ہماری جنگ جاری تھی جاری ہے اور جاری رہی گی۔ بس ایک کام کرنا ہے آپ نے کہ ہر چڑھتے سورج کے سامنے سر نہیں جھکانا، ایک پختہ نظریہ ایک پختہ عقیدہ یہ ہماری آزادی اور حریت کی علامت بن سکتا ہے، ان قوتوں نے ہمیں غلام بنا رکھا ہے، یہ انگریز کے وفادار ہمیشہ غلامی پر راضی رہتے ہیں، آپ کو بھی انہوں نے اس غلامی پر راضی رکھنا ہے لیکن جس سٹیج سے میں بات کر رہا ہوں یہ غلامی سے بغاوت کا سٹیج ہے، یہ غلامی سے بغاوت کا میدان ہے اور غلامی سے بغاوت ہماری شناخت ہے، میں چاہوں گا کہ یہ اجتماع یہ وسیب یہ سرائیکی سرزمین یہ تونسہ کی سرزمین آزادی کی آواز بن جائے اور غلامی کے خلاف بغاوت کی شناخت بن جائے۔ میرے نزدیک اسلام کے مقدس نام پر اس سے بڑھ کر اور کوئی بدنما دھبہ نہیں ہو سکتا کہ انسانی حریت اور آزادی اور ملک کی فلاح و بہبود کوئی مسلمان دوسری قوم سے بھیک مانگ کر نہیں بنتی، دوسری قوم سے آزادی کی بھیک نہیں مانگی جاتی! آزادی و حریت، غیرت و استحکام، پاکستان کا استحکام و استقلال اپنی قوم نے پیدا کرنا ہے ورنہ ان قوتوں نے انگریز کے دور میں بھی ہمیں غلامی کا راستہ بتایا تھا اور آج بھی وہ ہمیں امریکہ اور مغرب کی غلامی کا راستہ بتا رہے ہیں ہمیں اس اجتماع سے ان کو پیغام دینا چاہیے کہ اس نظریے کی ہم نے پہلے بھی نفی کی تھی، اس کا انکار انگریز کے دور میں بھی ہم نے کیا تھا اور آج بھی ہم اس نظریے کا انکار کرتے ہیں اور کھل کر اس نظریے کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ غلامی کی اس سے بدترین شکل اور کیا ہوسکتی ہے کہ آج بھی ہم تہذیب، بود وباش اور اپنی روایات مغرب سے مانگتے ہیں، یورپ سے مانگتے ہیں، امریکہ کی تقلید کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں، خواتین کی بےحیائی، بےحرمتی اس کو ہم اپنے لئے فخر سمجھ رہے ہیں، ہم مغرب کی تہذیب کو قبول کرنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے، ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں ان کی پیروی کرنے کا تابع نہیں بنایا اس سے بغاوت کا درس دیا ہے جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعًا حَتَّى لَوْ دَخْلُوا جُحْرَ ضَبِّن تَبِعْتَمُوہُمْ، قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهَ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ فَمَنْ؟

فرمایا ایک زمانہ آئے گا جب تم قدم قدم اور بالش بالش پچھلی قوموں کی اس طرح پیروی کرتے ہوئے نظر آؤگے کہ اگر وہ گوہ کی غار میں بھی گھسے تو تم وہاں بھی ان کی پیروی کروگے، صحابہ اکرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم یہود و نصاری کی پیروی کریں گے؟ آپ نے فرمایا اور کون ہوسکتے ہیں؟!

آج اسلامی دنیا مظلوم ہے، فلسطین کی سرزمین سے لے کر کشمیر اور برما تک تمام مسلمان آج آگ میں جل رہے ہیں، افغانستان آگ میں جل رہا ہے، شام آگ میں جل رہا ہے، لبنان آگ میں جل رہا ہے، عراق آگ میں جل رہا ہے، عرب دنیا آگ میں جل رہی ہے، افریقہ میں اسلامی ممالک کے اندر آگ بھڑکی ہوئی ہے، یہ کس نے بھڑکائی ہے؟ آگ بھی میرے اوپر برس رہی ہے، جھلس بھی میں رہا ہوں، آگ میں جل بھی میں رہا ہوں اور دہشتگر بھی میں رہا ہوں، انسانیت کے لیے خطرہ بھی میں ہوں، ایسا تو نہیں ہو سکتا! فساد کی جڑ تم ہو فساد کی جڑھ ہم نہیں! یہودیوں سے کہنا چاہتا ہوں، مسیحیوں سے کہنا چاہتا ہوں، ہم نے آپ کے تورات کو قبول کیا ہے، ہم نے آپ کے انجیل کو قبول کیا ہے، ہم نے حضرت موسیٰ کو پیغمبر مانا ہے، ہم نے حضرت عیسیٰ کو پیغمبر مانا ہے، تم نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پیغمبر نہیں مانا ہے، تم نے قرآن کریم کو اللہ کی کتاب نہیں مانا ہے، اب بتاؤ ماننے والا فساد کا سبب بنتا ہے یا انکار کرنے والا فساد کا سبب بنتا ہے؟ آپ کے ہاں پنچائتیں ہوتی ہیں، جرگے ہوتے ہیں، دو فریق بیٹھتے ہیں فساد کا باعث وہ فریق ہوگا جو انکار کر کے اٹھے گا جو ہاں کر کے اٹھے گا وہ امن کا سبب بنتا ہے، دو جمع دو چار کی طرح، تم نے مسلمانوں پہ آگ لگائی ہے، ڈیرھ سال کا عرصہ ہوا فلسطین میں ساٹھ ہزار (60,000) مسلمان عام شہری بمباریوں سے شہید کر دیئے گئے۔ یہودی فسطائیت، اسرائیلی جبرو استبداد، صہیونی سفاکیت اس نے ڈیرھ سال میں ساٹھ ہزار مسلمانوں کا خون کیا، ہر لمحہ چھوٹا بچہ ہو جوان ہو خاتون ہو مرد ہو بوڑھا ہو اس انتظار میں ہوتا تھا بزبان حال یہ کہا کرتا تھا غداً ألقي الاحبة محمد وصحبة۔ پس لمحہ آنے والا ہے پس صبح ہونے دو تمہیں اپنے دوستوں سے ملنا ہے حضرت محمد سے ملنا ہے اس کی جماعت سے ملنا ہے۔ اس کیفیت میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں پر کیا گزرتی ہوگی، یاد رکھو آج تم نے دنیا کو کہنا ہے کہ ہم نے غزہ کا خاتمہ کر دیا، ہم نے فلسطینیوں کا خاتمہ کر دیا، دنیا میں جنگیں چھڑتی ہے، شکست وہ کھاتا ہے جس کا سر جھک جائے، جس کا سر کٹ جائے اس کو شکست نہیں کہتے، فلسطینیوں نے سر کٹوائے، سینوں پہ گولیاں لی، عزت و افتخار کے ساتھ شہادت کو دعوت دی، شکست تسلیم نہیں کی ہجرت نہیں کی گھر نہیں چھوڑا اپنے کھنڈرات میں ایک سال ڈیڑھ سال گزارا اور اس پر امریکہ اور یورپ بات کرتا ہے انسانی حقوق کا کہ ہم انسانی حقوق کی محافظ ہیں، تم انسانی حقوق کی قاتل ہو! تمہارے ہاتھوں سے انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے اور جس کے ہاتھ سے انسانیت کا خون ٹپک رہا ہو اسے انسانیت کی قیادت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ امریکہ اس وقت سپر طاقت نہیں ہے چالبازیاں کرتا ہے، آج اس نے چین کو روس کو پوری دنیا کو اقتصادی دوڑ میں ایسا الجھا دیا ہے کہ ساری دنیا کو فلسطینی بھول گیا ہے، کب تک ان چالبازیوں کے ساتھ آپ اپنے جرائم پر پردہ ڈالتے رہینگے۔ نیتن یاہو جنگی جرائم کا مرتکب ہے، امریکہ اور یورپ اگر اس کی حمایت کرتے ہیں تو نسل کشی میں یہ سب برابر کے مجرم ہیں اور میں صرف ان کی بات نہیں کرتا، کوئی مسلمان حکمران اگر ان حالات میں بھی خاموش ہے، ان کی زبانیں گنگ ہیں میں ان مسلمان حکمرانوں کو بھی اس جبر و استبداد حامی سمجھتا ہوں اس سے لا تعلق نہیں ہو سکتا۔ جمعیت علماء اسلام پوری قوم کو پکار رہی ہے، ان شاءاللہ العزیز ہم تمام مکاتب فکر کو دعوت دیں گے علماء اکرام کو دعوت دیں گے تمام مکاتب فکر یکجا ہو اور ایک متفقہ موقف لیں قوم کے سامنے ایک متفقہ موقف لائیں اور میں تجویز کروں گا اپنے اکابر کے سامنے ایک ہفتے کے اندر اندر قومی سطح کا کنونشن اسلام آباد میں بلا لیا جائے۔

میرے محترم دوستو! آگے بڑھنے کے عزم کے ساتھ زندہ رہنا ہے پیچھے ہٹنا اس سے موت بہتر ہے موت، یہ گناہ کبیرہ ہے، فرار عن الزحف، آگے بڑھنا ہے۔ پاکستان میں ہمارا ایک کردار ہے اس ملک میں شریعت کے قیام کے لیے ایک مسلسل جہد جہد کا نام ہے جمعیت علماء اسلام، خلافت راشدہ کے قیام کے لیے ایک جہد مسلسل کا نام ہے جمعیت علماء اسلام اور میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جب تک امت مسلمہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا رہی انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی اقوام عالم پر ان کا دبدبہ اور ان کا رعب تھا اور جب سے ہم نے قرآن و سنت کا راستہ چھوڑ دیا ہے آج ہم غلامی کی رسوائی اور ذلت کے دلدل دھنستے ہیں، بڑے ہمت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ 77 سالوں میں ہمارے ملک میں یہ بحث ختم نہیں ہو رہی تھی کہ سود کیسے ختم کیا جائے، سود کا متبادل کیا ہوگا، حکومت نے خود ہی اپنے آپ کو شکنجے میں پھنسایا، چھبیسویں ترمیم لے آیا، چھبیسویں ترمیم میں جمعیت علماء تنہا وہ قوت تھی تو رکاوٹ بنی، اس ترمیم کے چھپن نکات تھے ان چھپن نکات سے ہم نے حکومت کو چونتیس دفعات سے دستبردار کیا۔ اس ترمیم میں ہماری تجویز یہ تھی کہ ایک آئینی عدالت قائم ہو جو سیاسی معاملات کے فیصلے کرتے رہیں باقی عوام کے مقدمات وہ دوسرے عدالتوں کے حوالے لیکن ہماری بڑی اپوزیشن کو کچھ حوالوں سے تحفظات تھے ان کی تجویز پر ہم نے آئینی عدالت کے بجائے ایک آئینی بینچ کو اس ترمیم کا حصہ بنایا، یہ اپنے دوستوں کے مشورے سے ان کی اصرار پر، ہم نے ایک فیصلہ بھی اپوزیشن جماعتوں کے مشورے اور اعتماد کے بغیر نہیں کیا تو پھر ازسرنو لوگوں کو بے خبر رکھ کر نئے مسائل پیدا کیوں کئے جارہے ہیں؟ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس بات آئین کا حصہ بنایا کہ یکم جنوری 2028 سے پاکستان کے اندر سور مکمل طور پر ختم ہوجائے گا، کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ دو ہزار اٹھائیس یکم جنوری؟ میں نے کہا وہ یکم جنوری 2028 آپ کو نظر آتا ہے اور وہ جو 1947 سے آج تک نظر نہیں آتا! اور یہ ہم نے نہیں کیا یہ ہمارے شریعت کورٹ نے کیا، وفاقی شرعی عدالت نے اکتیس (31) دسمبر دو ہزار ستائیس (2027) تک سودی نظام کو آخری تاریخ دیا، اب اگر خدا نخواستہ اس ترمیم کو نقصان پہنچتا ہے تو سودی نظام کے خاتمے کے فیصلے کو نقصان پہنچے گا یا نہیں، وفاقی شرعی عدالت بظاہر تو اس کا نام عدالت ہے لیکن اس کے فیصلے کے کوئی وقعت نہیں تھی، ایک سفید کاغذ پر اس کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل آپ سپریم کورٹ میں پھینک دے اپیلٹ بینچ میں پھینک دے، فیصلہ معطل کوئی پابندی نہیں عدالت پر کہ اس فیصلے پر اپیل کا فیصلہ کب ہوگا، ہم نے یہ بات ڈال دی کہ وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ فوری طور پر مؤثر ہوگا اور اگر اس کے خلاف اپیل ہوئی تو اپیل کا فیصلہ ایک سال کے اندر اندر لانا لازم ہوگا اور اگر ایک سال کے اندر فیصلہ نہ ہوگا تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ خود بخود نافذ العمل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت میں اس کا اپنا جج اس کا اپنا جج اپنی عدالت کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا ایک ریٹائرڈ جج کو لا کر اس کا چیف جسٹس بنایا جاتا تھا ہم نے اس ترمیم کے اندر اس کورٹ کو طاقت دی اور یہ فیصلہ کیا اور آئین کا حصہ بنایا کہ وفاقی شرعی عدالت کے اپنے ججوں میں سے اس کورٹ کا چیف جسٹس بنایا جائے گا۔ 

 اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات رپورٹ بن کر آتے تھے کمیٹیوں میں چلے جاتے تھے آج تک کمیٹی سے کوئی سفارش واپس نہیں آیا تاکہ اسمبلی میں اس پر بحث کر سکے، اب ہم نے اسمبلی کے اندر اس کو زیر بحث لانے کو آئین کے ذریعے پابند کر دیا کہ باقاعدہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات پر ایوان میں بحث کی جائے گی، تو بحث ہوگی دو فریق بن جائیں گے شریعت کی مطابق فیصلہ نہیں ہوگا تو آئین اجازت نہیں دیگی اور اگر نیا کوئی مسئلہ آ جائے جس پر ہمیں شریعت کی رہنمائی چاہیے اور ہم چاہیں کہ یہ بات پہلے اسلامی نظریاتی کونسل میں جائے تو پہلے اسمبلی کی چالیس فیصد ممبران ہاں کرتے تھے تب جاکے اسلامی نظریاتی کونسل میں مسئلہ جاتا تھا اب ہم نے چالیس فیصد کو کم کر کے بائیس فیصد کردیا اگر سو میں سے بائیس نے کہہ دیا کہ بھئی وہاں جائے قانون سازی نہیں ہوگی پہلے وہاں جائے، اس قوم کو ہم نے ایک پیشرفت دیا ہے اگر پارلیمنٹ میں ہم ہیں اور ہم نے کوئی پیشرفت کی ہے تو یاد رکھو میرے بھائیو تمام مذہبی دنیا کو اکٹھا ہوکر اس کی حفاظت کیلئے ایک ہونا پڑے گا، جس طرح ہم نے پہلے روز ان حصوں کی متفقہ طور پر حمایت کی تھی اور متفقہ طور پر اس کا تحفظ کیا تھا، ہاں حکومت نے کچھ اقدامات کیے بدیانتی کے بنیاد پر اور بدنیتی کے بنیاد پر، جو کام وہ آئین کے راستے سے نہیں نکال سکا اور ہم نے ناکام بنایا، قانون کے ذریعے سے، سادہ اکثریت کے ذریعے سے انہوں نے قانون سازی کے ذریعے سے نکالا، یہ بدنیتی ہوتی ہے۔ جب ایک دفعہ دو دن پہلے ایک آئین پاس ہوا اور آئین میں ایک معاملہ طے ہو گیا اس کے بعد اس کا احترام ضروری ہے، آپ نے فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جو اس آئین کے روح کے منافی ہیں، تم نے آئین کی توہین کی، تم نے پارلمنٹ کی توہین کی، تم نے پارلمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی توہین کی اور سادہ اکثریت کے ذریعے سے تم نے بدنیتی کا قانون پاس کیا۔ ہمیں اس حوالے سے بھی حکومت کو نشانہ بنانا پڑے گا۔ حزب اختلاف کو وحدت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، اس احساس کے ساتھ ہم پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں، پارلمنٹ کے اندر ہم کردار ادا کر رہے ہیں، آپ کی طرف سے ہم نمائندگی کر رہے ہیں، ہرچند کہ آپ ہمیں ووٹ نہیں دیتے۔

 ایک دفعہ میں پنجاب میں کسی سے ملنے گیا تھا میڈیا والے بیٹھے بھی تھے مجھ سے سوالات کر رہے تھے ہاں بڑے جُرات سے پوچھا مجھ سے مولانا صاحب آپ نے اسلام کے لئے کیا کیا؟ میں نے کہا بھائی جان تم نے اسلام کے لئے کتنا ووٹ دیا؟ تونسے والوں تمہاری غربت پر اور تمہاری پسماندگی پر تمہیں بلیک میل کیا جاتا ہے، تمہیں جاگیردار بلیک میل کرتا ہے، پھر تھانے میں تیرے ساتھ کون جائے گا، پھر اگر میں نے تھانے میں تمہیں پکڑ لیا اب تمہیں کون چھڑائے گا، جمعیت والوں ذرا اپنے جان میں جان پیدا کرو، جمعیت والوں اپنے اندر ذرا قوت پیدا کرو، غیرت پیدا کرو، مولانا احمد اللہ صاحب اور خواجہ صاحب سے کہنا چاہتا ہوں اپنے اندر غیرت پیدا کرو، اگر کسی جاگیردار نے اور کسی خان نے ایک غریب آدمی کو تھانے میں لے جانے کی کوشش کی اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اس کے منہ پہ دو چار مکے لگاؤ۔ جب تک تم ان جاگیرداروں کی، ان نوابوں اور خانوں کی غریب کے اوپر ظلم دیکھو اور آپ اس کو گریبان سے نہیں پکڑیں گے آپ اس کا ہاتھ نہیں مروڑیں گے تم غریب کا ووٹ نہیں لے سکتے، اس لیے قوت بنو، اس لیے سیاسی قوت بنو۔

 ہمارے ایک بزرگ کا قول ہے وہ فرماتے ہیں کہ تم تہجد گزار بنو، پنج وقتہ نمازی بنو لیکن اگر قوم کے اندر سیاسی شعور پیدا نہیں کرو گے تو ایک دن آئے گا جب آپ کے پنج وقتہ نمازوں پر پابندی لگا دی جائے گی۔ انبیاء نے سیاست کی، علماء کرام نے ان کی سیاست کو پکڑا ہے اور آج تک اس عمل کو زندہ رکھا ہے۔ تو غریب کا ساتھ دو، غریب کو تحفظ دو، جب اس کا اعتماد پیدا ہوگا کہ آج ایک غریب نے غریب کو تحفظ دیا ہے اور ایک جماعت اتنی طاقتور ہو گئی ہے اس کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک جاگیر دار کو آگے کرے گا۔ ہمیں اپنے فرض کا احساس کرنا چاہیے، ہمیں اس محاذ پر اپنی حکمتِ عملی بنانی چاہئے، باقی صاف بات ہے کہ ہمارے الیکشنوں میں ہم نے دھاندلیاں ہوتی ہے،  میں پی ڈی ایم کا صدر تھا، پی ڈی ایم ابھی تک ٹوٹی بھی نہیں ہے لیکن اس کا صدر اپوزیشن میں ہے اور باقی پارٹیاں حکومت میں ہے، وجہ کیا ہے؟ دھاندلی دھاندلی ہے اگر 2018 میں ہوئی تب بھی ہم نے نہیں مانی اگر 2024 میں ہوئی تب بھی ہم نے نہیں مانی۔

میرے محترم دوستو! ان شاءاللہ العزیز یہ سلسلہ یہ جدوجہد جاری رہے گا اور اس خطے میں تبدیلیاں آئیں گی، جمعیت علماء اسلام یہاں تبدیلیاں لائے گی، لوگوں میں شعور بیدار کرے گی، ہمت و ہم آہنگی ان کے اندر لائے گی اور آپ کے اندر خود اعتمادی لائے گی، ملک کے اندر بھی اسلام کے لئے باہر بھی اسلام کے لیے لائے گی۔ تو ان شاءاللہ العزیز یہ سلسلہ جاری رہے گا اپنے اکابرین کے سلسلوں کو روکنا نہیں، ان سلسلوں کو جاری رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ملک میں اسلام کا مکمل عادلانہ نظام ہماری آنکھوں کے سامنے ہمیں نصیب فرمائے اور قوم کو توفیق دے کہ وہ اس نعرہ پسطانہ اور نعرہ حریت کا ساتھ دے اور اس ملک کے اندر تبدیلیوں کا ذریعہ بنیں، میں آپ کا بے حد شکر گزار دوں۔

وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، جے یو آئی گلف ریجن 1

#teamJUIswat


0/Post a Comment/Comments