اسرائیلی بربریت کے خلاف مولانا فضل الرحمن کی جہد مسلسل اور فرضیت جہاد کا متفقہ فتویٰ
حافظ مومن خان عثمانی
فلسطین میں اٹھارہ مارہ جاری خون ریزی نے دنیائے انسانیت کی تاریخ میں تمام مظالم کے ریکارڈ توڑ ڈالے، اس قدر ظالم حکمران دنیا کی تاریخ میں کبھی انسانیت پر مسلط نہیں ہوا جس قدر ظالم وجابر نیتن یاہو کی صورت میں آج ارض مقدس اور سرزمین فلسطین پر مسلط ہے، یہود بحیثیت قوم ایک مجرم قوم ہے، جس کے جرائم سے انبیاء علیہم السلام بھی محفوظ نہیں رہے،انبیاء کے مقدس خون سے ان بد بختوں کے ہاتھ رنگین ہیں، انبیاء کے علاوہ اگر کسی نے حق بات کا اظہار کیا ہے تو ان درندوں نے ان کو بھی نہیں بخشا اور ان کے خون کو بہانے اور ان کے قتل کرنے میں بھی انہیں کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی، یہ بنی آدم میں سب سے بڑا اور غلیظ ترین انسانی گروہ ہے جو اللہ کے ہاں بھی مبغوظ ترین مخلوق ہیں، کہاوت مشہور ہے ”اللہ گنجے کو ناخن نہ دے“ یہی وجہ ہے کہ طویل زمانہ تک اللہ نے ان کو طاقت سے محروم رکھا اور یہ بدبخت قوم دنیا میں دربدر پھرتی رہی، جہاں گئے وہاں اپنے اعمال اور کرتوتوں کی وجہ سے دھتکار دئے گئے، کہیں بھی ان کو ان کی شرارتوں کی وجہ سے جائے پناہ نہ ملی، نومبر1917ء میں انہیں برطانیہ کی سرپرستی حاصل ہوئی اور بالفور معاہدہ نے ہزاروں سال بعد ان کے مردہ تن میں جان ڈال دی، دربدر پھرنے اور جائے پناہ تلاش کرنے والے بدبختوں کو انگریز جیسے خونخواروں کی حمایت حاصل ہوئی، مسلمانوں کی دشمنی میں انگریزوں نے ان کی سرپرستی قبول کی اور ان کو مسلمانوں کے وسط میں آباد کرنے کی شیطانی سازش سوجھی، دولت ان کے پاس بہت تھی مگر زمین پر کوئی ایک ٹکڑا بھی ان کے پاس نہیں تھا انہوں نے دولت کے بل بوتے پر سلطنت عثمانیہ سے ارض مقدس میں زمین خریدنے کی ہرممکن کوشش کی مگر عثمانی حکمران ان کے جال میں نہ پھنسے، لیکن سلطنت عثمانیہ کی کمزوری کے بعد برطانیہ کے سازشی کرداروں نے مسلمانوں میں خنجر گھونپنے کے لئے انہیں ارض مقدس میں لاکر آباد کیا، جب سے یہود کے ناپاک قدم ارض مقدس پر پڑے ہیں اس وقت سے آج تک سرزمین انبیاء ارض مقدس فلسطین نے چین وسکون کا دن نہیں دیکھا، ایک سو آٹھ (108) سال سے یہ عرصہ فلسطینی مسلمانوں پر دردناک عذاب کی طرح گزر رہا ہے اور ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے زیادہ مصائب ومشکلات کے ساتھ ان پر طلوع ہوتا ہے،،اس وقت اگر مسلمان ممالک اس ناسور کا راستہ روک لیتے تو آج یہ ناسور عالم اسلام کے لئے تباہی وبربادی کا باعث نہ بنتا، آج اگر عرب ممالک چاہیں بھی تو اسرائیل کے خلاف قدم اٹھانا ان کے بس میں نہیں ہے، اسرائیلی طاقت کے سامنے وہ ایک تنکے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے اگرچہ مال ودولت کے انبار ان کے پاس موجود ہیں مگر ان کے تمام خزانے امریکہ کے ہاتھ میں ہیں اور امریکہ یہود کا وہ ناجائز باپ ہے جس نے اپنے اس ناجائز بیٹے کو بڑے لاڈ سے مسلمانوں کے وسط میں ان کی تباہی کے لئے پالا پوسا ہے، اس کو ہرقسم کے آلات جنگ سے لیس کیا ہے، اسے ہر طرح سے سپورٹ کیا ہے اور اس کی ہر ناجائز خواہش کو پورا کرنے کی ہرممکن کی کوشش کی ہے، آج برطانیہ کا لے پالک اور امریکہ کا یہ ناجائز سرپھرا بچہ عالم اسلام کے لئے ایسا دردِ سر بناہوا ہے کہ کسی مسلمان ملک میں یہ سکت نہیں کہ اس کے خلاف منہ سے کوئی لفظ نکال سکے، اس درندے نے گزشتہ اٹھارہ ماہ سے غزہ کے اندر جو قیامت برپا کر رکھی ہے، اس کے مناظر دیکھنے کے لئے بھی دل گردہ کی ضرورت ہے، غزہ اور اس کے قرب وجوار میں خان یونس اور رفحہ کے تمام آبادیوں کو زمین بوس کردیا گیا ہے، ساٹھ ہزار سے زیادہ انسانوں کا قتل عام کردیا گیا ہے، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، امریکہ اور یورپ خواتین اور بچوں کے حقوق کے چیمپئین بنے ہوئے ہیں پاکستان کی ایک ملالہ کے لئے ان کے دل تڑپے، ایک گستاخ عورت آسیہ مسیح کے لئے وہ بے چین ہوئے، لیکن غزہ کی ہزاروں خواتین، بچے اور بیمار ان کو نظر نہ آئے، بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر جان دینے والے معصوم بچے انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کو نظر نہیں آئے، وہاں 36 ہسپتال اور ان کے اندر زخموں سے چور اور خون میں لت پت انسان انہیں انسانی شکل وصورت میں دکھائی نہیں دئے، دنیا کا کونسا ظلم ہے جو غزہ کی سرزمین پر برپا نہیں ہوا، کونسی انسانی بے حرمتی ہے جس کا ارتکاب نہیں کیاگیا، غزہ میں 36 ہسپتال سب کے سب مریضوں سمیت بموں سے اُڑادئے گئے، جس پر دنیا بھرمیں احتجاج ہوا، یمن، بنگلہ دیش اور پاکستان میں گزشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر لاکھوں لوگ سراپا احتجاج بن کر اسرائیلی بربریت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیلی درندوں کے ظلم وستم پر احتجاج کیا، یورپ اور امریکہ میں بھی عوام نے احتجاج کیا مگر اسرائیلی درندوں اور اس کے دونوں باپوں سمیت مسلم حکمرانوں پر جوں تک نہیں رینگی، قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے حسب سابق فلسطینی مسلمانوں کے دکھ درد کو بانٹنے کی ایک بار پھر بھر پور کوشش کی، 7 اپریل کو اپنے ایک وڈیو پیغام میں مولانا صاحب نے فرمایا: آج فلسطین میں غزہ کے مسلمانوں کا خون پیا جارہاہے، ان کا گوشت نوچا جارہاہے، ان کی ہڈیاں چبائی جارہی ہیں، چوسی جارہی ہیں شیرخوار بچے بغیر کسی سرپرستی کے تڑپ رہے ہیں، زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، جو کچھ وہاں ہوا اسے کسی انسانی عمل سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، یہ سفاکیت اور درندگی ہے اور نیتن یاہو ایک جنگی مجرم ہے، قائد جمعیۃ نے فرمایا: گردن کے کٹ جانے کو شکست نہیں کہتے گردن کا جھک جانا شکست ہے، فلسطینیوں کے سرکٹ تو گئے مگر انہوں نے سر جھکایا نہیں، وہ سرنگوں نہیں ہوئے انہوں نے ہجرت نہیں کی بھاگے نہیں لیکن آج وہاں انسانی سانحہ درپیش ہے، غزہ میں ساٹھ ہزار انسان شہید ہوچکے ہیں جن میں اٹھارہ ہزار بچے اور بارہ ہزار خواتین ہیں، زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کو پہنچ چکی ہے تین لاکھ سے زیادہ عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں، سر چھپانے کے لئے کسی کے پاس ایک کمرہ بھی نہیں بچا انہوں نے عید الفطر بھی کھنڈر بنے گھروں میں گزاری ہے، مولانا صاحب نے دنیائے اسلام کے بے حس حکمرانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے مخاطب کیا کہ اسلامی دنیا کے حکمرانوں تمہیں کیا ہوگیا ہے، اقتدار اور عزت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے،جب چاہے تمہیں اقتدار دے جب چاہے تمہیں اقتدار سے اتار دے، جب چاہے تمہیں عزت دے اور جب چاہے تم سے عزت چھین لے، پھر تم امریکہ کے سامنے کیوں سرنگوں ہو، تم ایک انسانی قوت کے سامنے کیوں سرنگوں ہو، کلمہ توحید کا تقاضا تو یہ ہے کہ صرف اللہ کے سامنے جھکنا ہے لیکن اسلامی دنیا کا حکمران امریکہ اور مغرب کے سامنے جھک رہاہے؟ مولاناصاحب کا یہ پیغام مسلمانوں اور مسلمان حکمرانوں کے خوابیدہ دلوں کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے لیکن شاید وہ صور اسرافیل کے منتظر ہیں، کیونکہ مسلمانوں حکمران اپنے اقتدار کے حصول اور اس کی بقا کے لئے امریکہ کے محتاج ہیں، ان کو غزہ میں سسکتی، بلکتی اور تڑپتی ہوئی انسانیت نظر نہیں آئی، وہاں کے معصوم بچوں کی تڑپتی ہوئی بے گور و کفن لاشیں، غمزدہ ماؤں کی دہائیاں، مکمل گھرانوں کو دفن کرنے والے باپوں کے دکھ بھرے الفاظ، جوانوں کی کٹی ہوئی لاشیں، تیزاب میں ڈالے جانے والے مظلوموں کی آہ وزاری ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں کرتی، انہیں اپنے مفادات سب سے زیادہ عزیز ہیں، لیکن عام مسلمانوں پر اس کا اثر ضرور ہوا، ان کے دل رنجیدہ ہیں، ان کے دل اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی راستہ ملے تو وہ جاکر اسرائیلی درندوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرکے یا یہودی درندوں کو جہنم رسید کریں یا جام شہادت نوش کرکے اس ظلم وبربریت کے خلاف اپنے توانائیاں بروئے کار لائیں، لیکن جغرافیائی حدود کی رکاوٹیں ان کو اپنے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لئے جانے نہیں دیتیں، مولاناصاحب نے دس اپریل کو اسلام آباد میں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کنونشن کا اعلان کیا جو قومی کنونشن کے نام سے اسلام آباد میں منعقد ہوا، اس کنونشن میں تمام مسالک اور تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان نے شرکت کی، صرف شرکت ہی نہیں کی بلکہ اس میں مفتی اعظم پاکستان مسلک دیوبند کے سب سے بڑے مفتی شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور مسلک بریلوی کے سب سے بڑے مفتی مولانا مفتی منیب الرحمن نے کھل کر اسرائیل کے خلاف جہاد کی فرضیت کا شرعی فتویٰ جاری کیا اور مظلوم فلسطینیوں کے پشتیباں قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے ان جہادی فتووں پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اپنا فرض پورا کردیا اور دنیاء انسانیت پر واضح کردیا کہ یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور پاکستان کا بچہ بچہ اس پر غمزدہ ہے، پاکستان کاایک ایک فرد اپنے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کھڑاہے، پاکستان ہر بوڑھا، جوان، بچہ، مرد اور خاتون اسرائیل کے ظلم وبربریت کی مذمت کرتا ہے اور اس کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، مولانا فضل الرحمن نے فتواء جہاد کے اجرا پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد کراچی میں جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام لاکھوں افراد پر مشتمل بہت بڑا ملین مارچ منعقد کیا جس میں لاکھوں انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے قائدجمعیۃ مولانافضل الرحمن نے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا ایک بار پھر اعلان کیا، جس کا خیر مقدم غزہ کے خون میں لت پت میڈیا نے بھی بڑے تشکر کے ساتھ کیا، قائدجمعیۃ مولانافضل الرحمن کا اقدام ایک تاریخی کارنامہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے دونوں بڑے مذہبی مسلکوں کو ایک سٹیج پر جمع کرکے ان سے ایسے وقت میں جہاد کی فرضیت کا فتویٰ جاری کیا کہ مسلم دنیا پر خوف کی چادر تنی ہوئی ہے، مسلمان حکمران جمود کاشکار ہیں، او آئی سی عضو معطل بن کر تماشا دیکھ رہی ہے، انسانی حقوق کے علمبردار خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں، فلسطینی مسلمان آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر مسلمانانِ عالم کی طرف دیکھ رہے ہیں، وہ 57 ممالک کے مسلمانوں کے انتظار میں ہیں کہ کوئی تو ان کو اسرائیلی ظلم سے نجات دلانے کے لئے آگے بڑھے گا، کوئی تو ان پر ترس کھائے گا، کسی کو تو ان کی کٹی ہوئی لاشیں نظر آیں گی، کسی کو تو ان کے معصوم بچوں کے ٹکڑے نظر آئیں گے، کسی کو تو ان ماؤں بہنوں کی چیخیں سنائی دیں گی، کسی مسلمان ملک کی غیرت ایمانی میں ارتعاش پیدا ہوگا، کسی اسلامی ملک کی رگِ حمیت تو پھڑکے گی لیکن حکومتی سطح پر دنیائے اسلام پر سکوت کا عالم طاری ہے، خاموشی چھائی ہوئی ہے، چاروں طرف بے حسی کا عالم ہے، حکمران اقتدار کے نشے میں مدہوش ہیں، نصف صدی سے رٹی ہوئی باتوں سے آگے بڑھنے کے لئے کوئی حکمران تیار نہیں، بلکہ اگر عرب ممالک میں کوئی عالم دین اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے تو اس کو نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے، ابھی چند دن پہلے کویت میں غزہ کے مظلوموں کی حمایت پر کویت نے ممتاز عالم دین اور مبلغ شیخ نبیل العوید کی شہریت باضابطہ طور پر منسوخ کردی ہے، عرب ممالک میں نہ حکومتی سطح پر غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی جاتی ہے اور نہ عوامی سطح پر کوئی یہ جرات کرسکتا ہے، ایسے دل گرفتہ، تعفن زدہ اور گھٹن ماحول میں مولانا فضل الرحمن کی طرف سے پاکستانی علماء و مفتیان کا متفقہ جہادی فتویٰ اور ان کی حمایت میں لاکھوں کا اجتماع اور جمعہ کے دن پورے ملک میں اسرائیلی بربریت کے خلاف صدائے احتجاج، فلسطین کے مظلوموں بھائی بہنوں اور بچوں کے زخموں پر اگر مکمل پٹی نہیں تو کچھ نہ کچھ مرہم ضرور ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں