قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا لاہور منصورہ میں میڈیا سے گفتگو
21 اپریل 2025
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔
میرا کافی عرصے سے یہ ارادہ تھا کہ جب میں لاہور آؤں گا تو جماعتِ اسلامی کے مرکز میں آؤں گا تاکہ رابطے کا عمل شروع ہو۔ اس دوران میں ہمارے بزرگ قابلِ احترام پروفیسر خورشید صاحب کا انتقال بھی ہو گیا تو پھر خیر سگالی کے ساتھ ساتھ تعزیت کرنا بھی مقصود تھا، جیسے کہ جناب نعیم الرحمان صاحب نے بتایا کہ کچھ باتیں ہوئی ہیں جو اہم باتیں ہیں وہ تو ظاہر ہے کہ اس وقت فلسطین کی صورتحال پوری امتِ مسلمہ کے لئے باعثِ تشویش ہے، باعثِ اضطراب ہے اور باعثِ غم و کرب ہے، اس اعتبار سے 27 اپریل کو یہاں لاہور مینار پاکستان پر ایک بہت بڑا جلسہ بھی ہوگا مظاہرہ بھی ہوگا اور اس میں پنجاب کے عوام کو دعوت دی گئی ہے ان شاءاللہ بہت اچھا ریسپانس ہوگا پبلک کا، اس میں بھی ان شاءاللہ ہم سب شریک ہوں گے، مذہبی جماعتیں اس میں شریک ہوں گی اور پھر مزید آگے ہم دوسرے پروگراموں کا بھی اعلان کریں گے اور ملک بھر میں ہم ایک بیداری کی مہم چلائیں گے تاکہ ملک کے اندر ہمارے اپنی قوم بھی اور امت مسلمہ بھی اور ان کے حکمران بھی یکسوں ہو کر مظلوم فلسطینیوں کے مداوے کیلئے کچھ کردار ادا کر سکیں گے جی۔ تو یہ مقصود تھا اس کے لئے ہم حاضر ہوئے اور مجھے بڑی خوشی بھی ہے اور میں ان کا شکر گزار بھی ہوں کہ انہوں نے انتہائی محبت اور احترام کا مظاہرہ کیا اور ان شاءاللہ یہ تعلق محبت کا احترام کا وہ ان شاءاللہ تسلسل کے ساتھ آگے بڑے گا۔
سوال و جواب
صحافی: ۔۔۔
مولانا صاحب: اس وقت تو ایک پلیٹ فارم ہم تشکیل دے رہے ہیں جو مجلس اتحاد امت کے نام سے ہے اور جو لاہور میں اجتماع ہو رہا ہے وہ بھی اسی مجلس اتحاد امت کے تحت ہو رہا ہے جس میں تمام پارٹیاں اور تنظیمیں اس میں شریک ہورہی ہیں۔
صحافی:
مولانا صاحب: کوئی بھیجنے والا نہیں ہوتا، اسرائیل کی طرف جانے کی چوری کے راستے کافی ہیں، یورپ سے لوگ آتے ہیں اردن میں اتر جاتے ہیں وہاں سے ان کے پاس جانے کا راستہ ہوتا ہے اس کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی انہوں نے میرے خیال میں ریلیف دے رکھا ہے جو بھی وجہ ہے لیکن وہ کوئی پاکستان کے نمائندے نہیں ہیں، نہ حکومت کے نمائندے نہ عوام کے نمائندے نہ مسلمانوں کے نمائندے اپنے سیر سپاٹے کے لیے جاکر سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے اس قسم کی چیزیں لے آتے ہیں، تو بہرحال دنیا میں ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں اسرائیل کے حامی بھی چھوٹی موٹی لابی تو ہر جگہ موجود ہوتی ہے لیکن اس کی کوئی حیثیت نہیں وہ کسی کی نمائندے نہیں، میں کہتا ہوں اپنے گھر کے بھی نمائندے شاید نہ ہوں، باقی رہی آپ کی بات کہ او آئی سی نے۔۔۔ میرے خیال میں او آئی سی کی قرارداد میں کوئی صراحت کے ساتھ ایسی بات نہیں ہے جو آپ نے فرمائی ہے لیکن جتنا بھی کچھ اس میں کہا گیا ہے یہ امت مسلمہ کے نمائندگی نہیں کر رہا، اس میں انتہائی کمزوریاں ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ بڑا واضح موقف اسلامی دنیا کا ہونا چاہیے اور امت مسلمہ کو اگر شکایت ہے تو وہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کے رویے اور اُن کی غفلت سے ہے کہ وہ اپنا حقیقی جو فرض ہے اُن کا وہ کیوں ادا نہیں کر رہا ہے۔
صحافی: ۔۔۔
مولانا صاحب: دیکھئے جہاں تک لفظ جہاد کا تعلق ہے یہ انتہائی مقدس لفظ ہے اور اس کی اپنی حرمت ہے، یہ قرآن کی بھی اصطلاح ہے یہ احادیث کی بھی اصطلاح ہے یہ فقہ کی بھی اصطلاح ہے لیکن جہاد کا کوئی بھی مرحلہ جب آتا ہے تو وہ نماز کی طرح نہیں ہے کہ نہ اس کا وقت تبدیل ہو سکتا ہے نہ اس کا طریقہ تبدیل ہو سکتا ہے وہ تدبیر کے تابع ہوتا ہے کہ جہاد جب لڑا جائے تو اس میں کیا تدبیر اختیار کی جائے، آج جب مسلم دنیا جغرافیائی طور پر منقسم ہے اور ستاون اسلامی ممالک اس وقت موجود ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ فلسطین کے اندر کے مسلمانوں کی پوزیشن اور ہوگی اس کے ساتھ جس کے سرحدات ملتی ہیں پھر ان کے فرض اور ان پر فرض عائد ہوتا ہے اس کی نوعیت پھر اس سے مختلف ہوگی، جو اس سے دور رہتے ہیں تو اس میں اگر مالی طور پر بھی کوئی شریک ہوتا ہے یا سیاسی طور پر ان کو سپورٹ کرتا ہے وہ سب کے ساتھ ایک ہی جہاد کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہاں تو ایک پتہ نہیں کس قسم کے لوگ ہیں کہ عجیب سا۔۔۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ میں اپنا مذاق اڑا رہا ہوں اگر میں مسلمان ہوں تو میں اپنے اسلام کے ایک اہم حکم اور اس کی اصطلاح کا مذاق اڑا رہا ہوں، کبھی کہتے ہیں جی کہ فلانا پہلے جائے، پھر فضل الرحمان کیوں نہیں گیا، فلانا کیوں نہیں گیا، اس قسم کی چیزیں جو ہیں یہ صرف ایک مسخرے پن کی صورت تو ہو سکتی ہے کوئی سنجیدہ شکل نہیں ہیں ان لوگوں کی تو ہمیں اس کی پرواہ بھی نہیں ہے، ہمیں جو اسلام کہتا ہے جو شریعت کہتا ہے اگر آپ ہمارے اس بات کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں تو پاکستان کے اندر بھی تو انہیں علماء نے کہا ہے کہ مسلح جنگ جائز نہیں ہے، تو اس کا احترام کیوں نہیں کیا گیا وہ بھی تو انہی علماء نے کہا ہے، جہاں پر ضرورت ہے جہاں پر اس کی اسلحے کی ضرورت ہے جہاں پر تحریک کی ضرورت ہے جہاں پر جماعتی قوت کو بڑھانے کی ضرورت ہے پبلک کی موبلائزیشن کی ضرورت ہے یہ سب جہاد کے ذمرے میں آتے ہیں لیکن ہر جگہ کے ماحول جو ہے وہ مختلف ہوتا ہے اس کے لئے اور اس کے مناسبت سے تدبیر دیکھی جاتی ہے۔
صحافی: ۔۔۔
مولانا صاحب: دیکھئے جمعیت علماء اسلام کا جو منشور ہے وہ بڑا واضح ہے صوبائی خود مختاری کے حوالے سے اور صوبوں کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے، ہر صوبے کے جو وسائل ہیں یہ اس صوبے کے عوام کی ملکیت ہیں اور ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے، ہماری جماعتوں کے منشور اس سے کچھ زیادہ واضح ہوتی ہیں پھر اس کے بعد عملی طور پر ہم اس قابل ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے لیکن ایک نظریہ ہمارا ہے اس حوالے سے، سو سندھ کے لوگ اگر وہاں پر اپنے حق کی بات کرتے ہیں تو ہم کسی صوبے کے عوام کو اپنے صوبائی حق کے حوالے سے بات کرنے سے نہیں روک سکتے لیکن بہرحال مسئلہ کا حل یہ ہوتا ہے کہ ہم یہاں مرکز میں تمام صوبوں کو بٹھاتے تمام صوبوں کے اشتراک کے ساتھ اتفاق رائے کے ساتھ اس طرح کے فیصلے کرتے، ہم نے اپنے اسی روش سے کالا باغ ڈیم کو بھی متنازع بنا دیا، آج ہم نے اسی روش کے تحت نہروں کے مسئلے کو بھی متنازع بنا دیا، کیا ہمارا ملک اتنا بانجھ ہو چکا ہے کہ ہم مسئلے کا حل تلاش نہیں کر سکتے، کسی تنازع کی پیدا ہونے کی صورت میں ہم ان کے کوک سے کوئی حل نہیں نکال سکتے، تو یہ نا اہلی ہیں حکمرانوں کی اور جیسے کہ وہ کوئی چیز قوم سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے ان کے اندر کا ایک چور ہوتا ہے اور وہ اپنے مقاصد و مفادات کے لئے کچھ کر رہا ہوتا ہے، تو اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام نے یہ قانون یکسر مسترد کر دیا ہے اور کسی طریقے سے بھی یہ جو منرل والا ہے ان کو بھی مسترد کیا ہے اور نہروں کے حوالے سے بھی ہم نے کہا ہے کہ ایک متفقہ لائحہ عمل ہونا چاہئے۔
صحافی: ۔۔۔
مولانا صاحب: میں زرا تھوڑا سا یہ چھبیسویں ترمیم پہ میں بات کرنا چاہتا ہوں، ہر جماعت کے مدنظر کچھ نکات ہوتے ہیں اگر ہماری نظر اس بات پر ہو کہ یہ غیر ضروری چیز یہ غلط چیز یہ غیر ضروری یہ غلط اور ہم نے ان سے صاف کیا ہے اس کو ہم اس پر دوسرے ساتھیوں کو مطمئن کر سکتے ہیں لیکن اگر کسی جماعت کی یہ راہ ہے کہ یہ بات بھی ہونی چاہیئے تھی اور یہ بات بھی ہونی چاہیئے تھی تو ہم اس سے اختلاف اس لئے نہیں کرتے کہ ہم بھی تو یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ جو بل ہوا ہے آئیڈیل ہے، آئیڈیل نہیں ہے ایکسپٹیبل ہے اور کوئی چھپن کلازز میں چونتیس کلازز سے حکومت کو دستبردار کرانا یہ ظاہر ہے کہ ہمارا اختلاف تھا اس کے ساتھ، چھبیسویں ترمیم سے ہمارا اختلاف تھا لیکن چونکہ ہم انگیج تھے بات چیت کر رہے تھے تو یہ چیزیں سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتی ہیں کچھ کا اس موقع کے اوپر یہ نظر ہوتا ہے کہ یہ چیز جو ہے نہیں ہونی چاہیئے کچھ کا خیال ہوتا ہے کہ یہ بھی ہونی چاہیئے سو وہ بھی صحیح ہوتی ہے اور وہ بھی صحیح ہوتی ہے لیکن تعبیر میں چونکہ فرق ہوتا ہے تو آپ صحافی حضرات نے اس کو اختلاف سے تعبیر کرنا ہے۔
صحافی: ۔۔۔
مولانا صاحب: یہ ایسا اختلاف نہیں ہے کہ جس پر بات نہ ہو سکے بات ہو سکتی ہے۔
صحافی: ۔۔۔
مولانا صاحب: میرے خیال میں تعبیر تو آپ کی اپنی ہے اس کے آپ ذمہ دار ہیں، پوری دنیا میں جمہوریت جہاں پر ہے وہاں ضروری نہیں ہوتا، صرف حکومت کا جو بینچز ہوتی ہیں وہاں پر وہی بیٹھتے ہیں جو اتحادی ہوں، کبھی بھی اپوزیشن بینچوں پر یہ ضروری نہیں ہے کہ سب اتحادی بھی ہو بلکہ جو گورنمنٹ میں نہیں ہے وہ اپوزیشن میں بیٹھتا ہے جو گورنمنٹ میں نہیں ہے وہ اپوزیشن میں بیٹھتا ہے اور اپنے شناخت کے ساتھ بیٹھتا ہے، اپنے موقف کے ساتھ وہاں بیٹھتا ہے، ہاں اپوزیشن جماعتوں کے بیچ میں پھر ضرور یہ رابطہ رہتا ہے کہ روزمرہ کے معاملات پر اگر کوئی بل آتا ہے یا کوئی تحریک التوا آتی ہے یا کوئی واک آؤٹ آتا ہے یا کوئی احتجاج آتا ہے تو ہم مل کر کرسکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں ایسا بھی نہیں ہیں، بعض دفعہ نہیں بھی کیا بعض دفعہ کیا بھی ہے لہٰذا اب بھی ہمارا موقف یہی ہے کہ اس وقت جمعیت علماء اسلام اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھے گی اپنے موقف کے ساتھ جہاں پر معروضی صورتحال پیدا ہو اور وہاں پر کوئی مشترک امر آجائے مشترک مسئلہ آجائے اس پر چاہے مذہبی جماعتیں ہوں یا اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں ہوں ان کے ساتھ اشتراک عمل میں کوئی مانع نہیں ہے۔
صحافی: ۔۔۔
مولانا صاحب: میں بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دوں دیکھئے ایک تو آپ ہیں میرے برخوردار اور میرے زندگی کی سیاسی زندگی شاید آپ کے پوری عمر سے زیادہ ہے جی تو میں انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ سیاست والا نہیں ہوں، میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی اور ہمارے درمیان گزشتہ دس بارہ سال انتہائی سخت اور شدید اختلاف کے رہے ہیں لیکن جو الفاظ ابھی آپ نے ذکر کیے یہ گالیاں نہیں ہیں یہ ایک نظریاتی معاملہ ہے اگر کسی نے انگریز کا ایجنٹ رہا ہے تو ہم نے انگریز کا ایجنٹ کہا ہے، کوئی امریکہ کا ایجنٹ رہا ہے تو امریکہ کا ایجنٹ کہا ہے، تو یہ تو اس کے سیاسی جو فلاسفی ہے اس کی اس کی تعبیر ہے، اب اس تعبیر میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یار آپ کو اتنا سخت لفظ نہیں کہنا چاہیے، یہ اس حد تک اس سے زیادہ نہیں، ہم اب تعلقات کو واپس وہاں لانا چاہتے ہیں جہاں پر جمعیت علماء اسلام کا طبعی مزاج ہے جو اس کے معمول کی سیاست ہے اس پر واپس لانا چاہتے ہیں، ہمارا اختلاف پیپلز پارٹی سے بھی ہے لیکن دشمنی تو نہیں ہے، ہمارا اختلاف مسلم لیگ سے بھی ہے لیکن دشمنی تو نہیں ہے، ہمارا اختلاف جماعت اسلامی سے بھی ہے لیکن دشمنی تو نہیں ہے بیٹھے دوستوں کی طرح، ہمارا اختلاف نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی ہے قوم پرستوں کے ساتھ بھی ہے لیکن دشمنیاں نہیں ہے کسی کے ساتھ، ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کے پوزیشن میں ہیں اور ہم آج بھی یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ہم پی ٹی آئی کے ساتھ بھی تعلقات کو دوبارہ وہاں لے جائیں کہ جہاں ہم آپس میں بیٹھ کر بات چیت کر سکیں۔
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1
#teamJUIswat
لاہور منصورہ: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ،جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی میڈیا سے گفتگو
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, April 21, 2025
❤️❤️❤️❤️
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں