سیاسی حقیقت اور ملت کا تحفظ مولانا
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے عرصہ دراز سے مساجد کے مینار و گنبد منہدم کرکے اذان کو دبانے کی کوشش تو کی ہی جا رہی تھی مگر اب حالیہ ترمیم کے ذریعے وقف بورڈ کے اختیارات بھی سلب کیے جا چکے ہیں۔ پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے اس قانون کے تحت حکومت کو اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ وقف کی گئی املاک کو کسی بھی دیگر مقصد کے لیے استعمال کر سکتی ہے — حتی کہ اگر وہ مسجد ہو، مدرسہ ہو یا قبرستان کو وقف کی ھوئی زمین پر حکومت قبضہ کر سکتی ھے۔
یہ محض ایک قانونی شق نہیں، بلکہ بھارتی ریاست کے اس منظم ایجنڈے کا تسلسل ہے جو ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی جانب دھکیل رہا ہے اسد الدین اویسی جیسے باشعور اور پرعزم رہنما بھی پارلیمنٹ کے فلور پر اس ظلم پر اشکبار نظر آئے اُن کی بے بسی درحقیقت ایک پوری امت کی بے بسی ہے جو عددی طور پر کروڑوں میں ہونے کے باوجود قیادت کے فقدان کا شکار ہے۔
یہ منظرنامہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ایک کڑی تنبیہ ہے اگر آج ہم نے اپنی مذہبی و سیاسی قیادت کی اہمیت کو نہ پہچانا تو ممکن ہے کہ کل ہمیں بھی ویسی ہی محرومیوں کا سامنا ہو، جن کا مشاہدہ ہم بھارت میں کر رہے ہیں۔
پاکستان میں مولانا فضل الرحمٰن جیسے باشعور، بالغ نظر اور جرات مند قائد کی موجودگی ایک نعمت سے کم نہیں وہ صرف ایک سیاستدان نہیں بلکہ ایک فکری قوت دینی روایت کے نمائندہ اور ملت کے اجتماعی شعور کے ترجمان ہیں ان کی قیادت وہ دیوار ہے جو مسلسل سیکولر اور لبرل بیانیے کے سیلاب کے آگے بند باندھے کھڑی ہے ان کی گفتگو صرف سیاسی نہیں، عقیدے، نظریے، تاریخ اور شعور کا امتزاج ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس قیادت کو وہ درجہ نہیں دیا جو اسے دیا جانا چاہیے تھا ہم نے انہیں الزامات کی گرد میں چھپانے کی کوشش کی ان کی نیت پر شک کیا اور ان کی خدمات کو نظر انداز کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان میں آج بھی تحفظ ناموس رسالتؐ، تحفظ مدارس، اور اسلامی نظریۂ پاکستان کی کوئی مضبوط آواز ہے، تو وہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت ہی ہے۔
قومیں قیادت کے سائے میں پلتی اور پنپتی ہیں اگر وہ سایہ چھن جائے تو زوال صرف وقتی نہیں نسلی ہوتا ہے اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی قیادت کو پہچانیں ان کی پشت پر کھڑے ہوں اور امت کو درپیش خطرات کے مقابلے کے لیے متحد ہوں۔
یہ وقت جذباتی نعروں کا نہیں شعوری اتحاد کا ہے ہمیں اپنے اردگرد کے حالات سے سبق لینا ہوگا، کیونکہ جو قوم دوسروں کے انجام سے نہ سیکھے وہ جلد اپنا انجام لکھوا بیٹھتی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں