اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سوال
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
اگر آپ اب بھی اپنی دکان میں اسرائیلی و صہیونی مصنوعات بیچ رہے ہیں تو مبارک ہو! آپ کے منافع میں تو اضافہ ہو رہا ہوگا مگر اُمت کا جنازہ بھی آپ کی دکان کے تھڑے سے گزر رہا ہے آپ کہتے ہیں "گاہک مانگتا ہے ہم کیا کریں؟" تو پھر سچ یہ ہے کہ آپ تاجر نہیں محض نوکر ہیں گاہک کے منافع کے اور دشمن کے ایجنڈے کے۔
شرم آنی چاہیے کہ ایک طرف امتِ مسلمہ کے بچوں کے جسم جل رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کے شاپنگ بیگز میں انہی قاتل کمپنیوں کے لوگوز چمک رہے ہیں کیا آپ کو اتنی بھی غیرت نہیں کہ جس پیسے سے آپ کا بچہ دودھ پیتا ہے وہ کسی فلسطینی ماں کے بیٹے کے خون سے آلودہ ہو؟ کیا آپ کی تجارتی حکمتِ عملی اتنی "عقلمند" ہے کہ ظالم کی اشیاء بیچ کر اپنی نسل کو ذلیل بنا دیا جائے؟
آپ کو اگر اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ بائیکاٹ ایک فرض ہے تو معاف کیجیے گا آپ نے نہ نبی کا راستہ سمجھا نہ امت کا درد محسوس کیا اور نہ اپنی دکان کا وقار بچایا آپ ہر جمعہ کو جمعہ بازار لگاتے ہیں ہر عید پر اسپیشل سیل دیتے ہیں مگر افسوس کبھی امت کے غم میں "ضمیر کی سیل" نہیں لگتی بائیکاٹ کا نام آتے ہی آپ کے منہ پر لاچاری بےبسی اور منافع کی دہائی آجاتی ہے جیسے غیرت اور وفاداری آپ کے حساب کی کیلکولیشن میں آتی ہی نہ ہو۔
آپ سے سوال ہے جب دشمن آپ کے بچوں کو مارے گا، کیا تب بھی آپ یہی کہیں گے "اب کیا کریں کاروبار بھی تو ضروری ہے؟" شرم آنی چاہیے کہ آپ اپنی دکان بچاتے بچاتے غیرت کا سودا کر بیٹھے۔
یاد رکھیں آپ کے شیشے کے شوکیس میں صرف پروڈکٹس نہیں آپ کا کردار بھی سجا ہوتا ہے بائیکاٹ نہ کرنا صرف تجارت نہیں یہ غیرت کا سودا ہے۔
یہ تمہاری جنگ نہیں یہ ہماری نسلوں کی بقا کی جنگ ہے یاد رکھو جب تک ظلم کا بازار گرم ہے اس میں تمہاری خاموشی بھی شریک جرم ہے ہمیں جاگنا ہوگا اس بائیکاٹ کے پیچھے ایک انقلاب چھپا ہے وہ انقلاب جو دشمن کے ظلم کو توڑ کر ہماری تاریخ میں نیا باب رقم کرے گا“ریاستیں کردار سے بنتی ہیں… اور قومیں؟ وہ تبھی اٹھتی ہیں جب ضمیر کا سودا بند ہو جائے۔”
ایک تبصرہ شائع کریں