عرب حکمران، قضیہء فلسطین، امت مسلمہ۔ حافظ علی گل سندھی

عرب حکمران، قضیہء فلسطین، امت مسلمہ

تحریر: حافظ علی گل سندھی

13 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا جہاں پر اسکا والہانہ استقبال دیکھ کر دل و دماغ پر ایک مایوسی چھا گئی۔ کیونکہ یہ توقع کی جارہی تھی ٹرمپ صاحب اس دورے کے دوران مشرق وسطی کے متعلق کوئی بڑا اعلان کرنے جارہے ہیں اور بعض تجزیہ نگاروں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین کی آزاد ریاست کا اعلان کریں گے لیکن مجھ سمیت ہر وہ آدمی جو آزادی فلسطین کے اعلان کی آس لگائے بیٹھا تھا وہ یہ بھول گئے تھے قرآن کریم کا واشگاف الفاظ میں بیان ہے کہ "یہود و نصارٰی آپکے کبھی بھی دوست نہیں ہوں گے؛۔ 

لیکن یہ توقع اسلیے بھی اہمیت کی حامل تھی کہ اس میں سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے اکثر عرب حکمرانوں کی شرکت کی وجہ سے یہ امید بڑھ گئی تھی کہ اتنی بڑی بیٹھک صرف تجارتی معاہدوں پر ختم نہیں ہوگی بلکہ تمام عرب حکمران خصوصاً سعودی عرب مل کر امریکی صدر پر یہ زور دیں گے کہ ہمارے معاہدات تب تک عملی شکل اختیار نہیں کریں گے جب تک فلسطین میں قتل عام بند نہیں کیا جائے گا۔

یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی جس سے ایک نیم پاگل شخص ناراض ہو جاتا اور اگر ایسی نوبت پیش آ بھی جاتی تب بھی کوئی قیامت نہیں آجاتی، کیونکہ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا، افغانستان سے انخلاء کے بعد اس کی بدمعاشی میں کھوکھلا پن کے علاؤہ کچھ نہیں بچا، کیونکہ وہ یہاں سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر محفوظ راستہ لیکر بھاگا ہے اس سے وہ سپر پاور کے بجائے صفر پاور کہلوانے کا مستحق رہ گیا ہے۔ لیکن جس طرح شرم و حیا سے عاری ان عیاش حکمرانوں نے اپنی تہذیب کو روندا، وحی الہٰی کی سرزمین کے تقدس کو پامال کیا، اور شاہی خاندان کی عورتوں کو لاکر اس سے ملاقات کروائی اور متحدہ عرب امارات میں جس طرح نوجوان لڑکیوں نے اپنے بال لہرا کر اس کا استقبال کیا اور پروٹوکول دیا گیا، میں کہتا ہوں ان حکمرانوں کو ڈوب مرنا چاہیے،

آخر بے رخی، ظلم پر خاموش رہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے، لاتعلقی کی ایک حد ہوتی ہے، آنکھیں بند کرکے بیٹھنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے، لیکن ان دلال اور عیاش عربوں نے تمام حدود کو کراس کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے اور میرا دعویٰ ہے کہ ان حکمرانوں نے پس پردہ اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان جب اسی امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اس کے پہلے دور میں ملاقات کرکے واپس پاکستان پنہچے تو اعلان کیا کہ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں دوسری مرتبہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں، (کشمیر کو مودی کے ہاتھوں بیچ کر آیا ہوں) اسکے دوسرے دن ہندوستان کے پردھان منتری نریندر مودی نے کشمیر کی اصلی حیثیت کو ختم کرکے بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کردیا۔ 

یہاں پر بھی بعینہٖ وہ ہی صورت حال ہوگئی ہے ٹرمپ صاحب کے کامیاب دورے نے مسلمانوں کے قاتل عالمی دہشت گرد نیتن یاھو کو اور زیادہ بہادر کردیا ہے اور اب وہ غزہ کے باشندوں کو مکمل ختم کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے اور اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپریشن کو تین مراحل میں مکمل کرکے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا عزم مصمم کیے ہوئے ہے۔ 

اس باؤلے کتے کو یہ جرأت دینے والے مسلم حکمران ہیں اور جو بیغرت بن کر اپنی عزتیں ایک مجنون شخص کے سامنے پیش کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتے تو یہ اہلیانِ غزہ کی کیا مدد کریں گے۔ 

اب تو ایک ہی سہارا ہے اور جس کے سہارے کے علاوہ باقی تمام سہارے کمزور ضعیف اور اپنے مفادات کے غلام ہیں وہ رحمان و رحیم کوئی غیب سے مدد کردے اور یقیناً وہ نہتے بیگناہ، معصوم بچوں، جاں بلب مسلمانوں کی مدد کرے گا لیکن ان عیاش حکمرانوں کی وجہ سے جو عذاب اس امت پر ٹوٹے گا شاید ہی کوئی ملک پھر اس سے محفوظ رہ سکے۔

آج کل کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ پر نئے کینال کا معاملہ ہو یا بلوچستان اور کے پی کے میں کچھ بلز لانے کا معاملہ، یا پھر ہندوستان کا پاکستان پر حملہ یہ دراصل فلسطینی کاز سے توجہ ہٹانے کے حیلے بہانے ہیں۔

لیکن یہ باتیں حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہیں۔

 سندھ کی عوام نے اپنے حقوق پر ڈاکہ برداشت نہیں کیا اور پاکستانی افواج کے بری جانبازوں نے ہندوستان کے غرور و گھمنڈ کو خاک و خوں میں تر کردیا لیکن ان تمام معاملات میں فلسطینی کاز کو نقصان نہیں پہنچا اور پاکستانی عوام کے جذبات واحساسات بیدار ہیں اور ہماری تمام تر دلی ہمدردیاں اور اور حتی الامکان مدد غزہ کے باشندوں کے ساتھ ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جو مر کر بھی نہیں ٹوٹے گا اور اگر پاکستان کا کوئی حکمران اس عقیدت و مودت اور پاکستانی کے اساسی نظریہ کو بدلنے کی کوشش کرے گا تو پاکستانی قوم جو زندھ و بیدار ہے اور ظالمانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت و ولولے سے لبریز ہے ہم ایسے امریکی دلالوں کو سمندر برد کردیں گے لیکن فلسطینی عوام اور قبلہء اول کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔


0/Post a Comment/Comments