انجینئر ضیاء الرحمن مرکزی کوآرڈینیٹر ڈیجیٹل میڈیا سیل جمعیت علماء اسلام پاکستان کا پروگرام "کچھ لمحات سلیمانی کے ساتھ" میں محمد سلیم سلیمانی کو خصوصی انٹرویو
18 مئی 2025
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، دوستوں میں ہوں محمد سلیم سلیمانی اور آپ حضرات دیکھ رہے ہیں پروگرام کچھ لمحات سلیمانی کے ساتھ اور آج ہمارے پروگرام کے مہمان ہیں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی سوشل میڈیا کوارڈینیٹر انجنیئر ضیاء الرحمن صاحب، انجینئر صاحب بہت شکریہ
انجینئر ضیاء الرحمن: آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں دعوت دی۔
سلیم سلیمانی: انجینئر صاحب شروعات میں سوالات اس حوالے سے کروں گا کہ قریب میں پاکستان اور انڈیا کا جو تناؤ چلا، اس میں ایک جنگ جو بارڈر پر لڑی جا رہی تھی ہمارے پاک فوج جو ہے وہ لڑ رہی تھی تو دوسری طرف جو ہے وہ سوشل میڈیا پر بھی ایک جنگ لڑی جا رہی تھی تو آپ چونکہ جمعیت علماء اسلام کے سوشل میڈیا کوارڈینیٹر ہے پورے پاکستان کی سطح کہ تو اس حوالے سے ہم نے مختلف جماعتوں کے کردار کو دیکھا، تو اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کا جو ہم نے کردار دیکھا بڑا خوبصورت کردار رہا کہ باوجود اس کے کہ جمعیت علماء اسلام کو مولانا صاحب کو اسٹیبلشمنٹ اور فوج سے گلے شکوے تھے لیکن اس موقع پر جو ہے کارکنوں نے اور مولانا صاحب نے خود بڑا زبردست کردار ادا کیا تو اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
انجینئر ضیاء الرحمن: بسم اللہ الرحمن الرحیم، سب سے پہلے تو میں آپ کا، آپ کی ٹیم کو شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دیکھیں آپ کے سوال میں ایک چیز بڑی وضاحت کے ساتھ اور کھل کر سامنے آرہی ہے کہ آپ نے ایسے خود کہا کہ جی ایک جنگ بارڈر پر لڑی جا رہی تھی اور ایک سوشل میڈیا کے میدان پہ لڑی جا رہی تھی تو ایک چیز تو سامنے اگئی کہ اب یہ سوشل میڈیا کا میدان بھی پورا جنگ کا میدان ہے آپ اس میدان کے بغیر نہ کوئی جنگ جیت سکتے ہیں نہ آپ کے افواج باڈر پر جو ہے وہ شاید اس انداز میں جب تک ان کو یہ سپورٹ حاصل نہ ہو وہ لڑ سکتے ہیں نہ آپ کی سیاسی جماعتیں جو ہیں وہ اس ہتھیار کے بغیر اپنی سیاسی جنگ جو ہے وہ لڑ سکتی ہے یا جاری رکھ سکتی ہیں جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے دیکھیں گھروں میں لڑائیاں ہوتی ہیں، مختلف ایشوز پر ہوتی ہیں، مختلف عنوانات پر ہوتی ہیں، آپس میں بھائیوں کی بھی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ آپ اور ہم پشتون معاشرے کے لوگ ہیں ہمارے ہاں میراث پر کتنے جھگڑے ہوتے ہیں، آپ کا اور ہمارے ہاں دیہاتوں میں گلی گلی اور محلے جو ہے وہ اس میں یہ لڑائیاں چلتی رہتی ہیں لیکن جب آپ کے گھر پر آپ کا کوئی بیرونی دشمن حملہ آور ہوتا ہے تو پھر اس کے لیے ساری سارے اختلافات بھلا دیے جاتے ہیں سارے اپس کے اختلافات بھلا دیے جاتے ہیں سب کچھ پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس دشمن کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو وہی کچھ جمیعت علماء اسلام نے ایک محب وطن پاکستانی کی طرح کیا ایک سوشل میڈیا ورکر ہمارا جمعیت کا ایک ایک کارکن، ہماری قیادت جو ہے انہوں نے ایک محب وطن پاکستانی کا کردار ادا کیا اور انہوں نے اپنے اسٹیبلشمنٹ کو یہ بتاتے ہوئے کہ ہمیں آپ سے شکوے ہیں ہمیں آپ سے تحفظات ہیں ہمیں آپ سے گلے ہیں لیکن سارے گلے شکوے تحفظات سائڈ پر، پاکستان کی حفاظت اس کی سالمیت کے لیے ہم آپ سے ایک قدم آگے ہیں۔
سلیم سلیمانی: اچھا یہ جیسے اس بات کا اعتراف بھی کر دیا گیا ہے کہ بھئی سوشل میڈیا پر واقعی جمعیت علماء اسلام نے ساتھ دیا ہے اس دوران جلسے بھی ہوئے وہاں بھی مولانا صاحب نے وہ اپنا پیغام پہنچایا تو کیا آپ حضرات کو یا مولانا صاحب کو یہ لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جو جمیعت علماء اسلام کو روکے رکھا ہے تو اس کے بعد ان کو بھی سمجھ یہ بات اگئی ہے یا ا جانا چاہیے کہ بھئی اب ان کا راستہ چھوڑنا چاہیے؟
انجینئر ضیاء الرحمن: دو باتیں ہیں ایک تو یہ کہ ہمیں ان کے اس لگنے یا نہ لگنے سے غرض نہیں، اگر ہمارا مقصد ان کو جتانا ہوتا ان کو بتانا ہوتا تو پھر شاید ہم اس پہ بھی سوچتے کہ جی ان کو یہ بات جو ہماری جو پاکستان کے ساتھ کمٹمنٹ ہے اس سے ان کو کوئی بات محسوس ہوئی ہے کہ جی ہم سے زیادتی ہوئی ہے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ہم نے پاکستان کے وطن کے لیے اس کی سالمیت کے لیے ساتھ دیا اور اس طرح دیا کہ کوئی جماعت آپ کو پاکستان میں اس طرح نہیں نظر ائے گی کہ جس نے پارلیمنٹ کے فلور پر اس کی قیادت نے کھڑے ہو کر کہا ہو کہ ہمارے کارکن آپ کی افواج سے ایک قدم اگے لڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی جماعت آپ کو ایسے نظر نہیں ائی ہوگی کہ جس نے جب رات کو ڈرون جو ہے وہ فضاؤں میں گھوم رہے تھے اور صبح لاکھوں کا اجتماع پشاور کے روڈ پر آپ نے دیکھا وہ اپنے عنوان میں انہوں نے دفاع وطن دفاع پاکستان کا جو ہے وہ اضافہ کیا اور پاکستان کے افواج کو پیغام بھیجا کہ ہم آپ کے ساتھ یکجہتی کی اظہار کے لیے یہاں موجود ہے کوئی جماعت آپ کو نظر نہیں ائے گی لیکن ہمیں اس سے غرض نہیں ہے یہ ہے اس کا ایک پہلو، دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر پاکستان کے حوالے سے میں ان کو اتنا یعنی شعور کے دائرے میں رکھنے والا سمجھتا تو کیا جمیعت علماء کی تاریخ کبھی ایسی رہی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ کمٹمنٹ میں پاکستان کے ساتھ وفاداری اور سالمیت کے لیے جو ہے وہ کسی محاذ پر لڑنے میں کسی کسی اور جماعت سے وہ پیچھے رہیں، وہ ہمیشہ آگے رہیں۔ تو پھر یہ چیز ان کو پہلے سمجھ کیوں نہیں اتی، آج اس کے بعد کیوں سمجھ ائے گی، تو مجھے تو نہ ان سے کوئی توقع ہے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے، نہ میں ان سے کوئی توقع رکھتا ہوں کہ جی وہ اب اس کے بعد شاید سمجھیں گے یا گنجائشیں دیں گے یا ہمارا راستہ نہیں روکیں گے مجھے اس سے کوئی توقع نہیں ہے ہم نے جو کچھ کیا اپنے جذبے اپنے کمٹمنٹ کے ساتھ کیا اور جو ہمارا نظریہ ہے اس نظریے کی بنیاد پر کیا کہ جی سارے ان سے اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان کی سالمیت پر جو ہے کوئی کمپرومائز نہیں۔
سلیم سلیمانی: اچھا آپ نے بیچ میں یہ بات عرض کر دی کہ یہ پشاور میں آپ لوگوں نے جلسہ کیا تو ایک رات پہلے پشاور میں جو ہے وہ کہا جاتا ہے کہ انڈیا کے ڈرون ائے ہیں صبح آپ لوگوں کا وہاں پر جلسہ ہوتا ہے تو کئی اداروں نے یا جماعتی لوگوں نے یہ پیغام نہیں دیا کہ یار خطرات ہیں کہ جلسہ کینسل کر دیتے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے اور پھر اس سے کچھ دن بعد جو کوئیٹہ میں کہ جو جہاں پر دہشت گردی کے واقعات بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں تو یہ دونوں جلسے۔۔۔۔۔
انجینئر ضیاء الرحمن: دیکھیے اس سے آپ جمعیت علماء کی اور جمعیت علماء کے کارکنوں کی کمٹمنٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں ایسے وقت میں جب پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہو رہی ہے اور لوگ اس خوف میں شاید مبتلا ہوں، میں ایک بات عرض کر دوں میں اس انٹرویو کے ذریعے سے پاکستانی قوم کو بھی ایک طرح سے خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی جنگ کا پاکستان کی عوام پہ اتنا بھی اثر نہیں تھا ایک ناخن برابر بھی وہ اثر نہیں لے رہے تھے جس طرح کے سوشل میڈیا پہ میمز بنائی جا رہی تھی جس طرح میں ان جنگ کے دنوں میں دیکھ رہا تھا کہ جی جس طرح اپنے روٹین کے مطابق باراتیں جا رہی ہیں جس طرح ایک چیز ہو رہی ہے ایک لمحے کے لیے بھی انہوں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ جی ہندوستان کے ساتھ ہماری کوئی جنگ ہو رہی ہے آپ اندازہ لگائیں اس قوم کی میں ایک طرح سے میں کہوں کہ بہادری کا اور ان کا جو ہے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس کے دو وجوہات ہوسکتے ہیں یا تو یہ قوم جو ہے وہ ہندوستانیوں کو معلوم نہیں تھا کہ اتنی بہادر قوم ہے یا دوسری بات یہ ہے کہ ہم جنگی ماحول کے پچھلے 25 سالوں میں اتنے عادی ہو گئے ہیں اپنے ہاں جس طرح کے ہمارا ایک ماحول بن گیا ہے روز کا جو ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ ہم عادی ہو گئے ہیں ہمیں ہندوستان کا جو ہے ہندوستان کے حملے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا لیکن اس کے باوجود یہ ایک کسی سیاسی جماعت کا ایک امتیاز ہو سکتا ہے جو جمعیت علماء اسلام کا امتیاز رہا کہ انہوں نے اس سارے خطرے کے باوجود بھی یہ لاکھوں لوگوں کو میدان میں لائے، انہوں نے نہ غزہ کے شہداء کو بھلایا نہ ہمارے غزہ کے جو خواتین بچے جن کے ساتھ اسرائیل نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا نہ ان کو بھلایا ان کو بھی یکجہتی کا پیغام دیا اور ساتھ میں افواج پاکستان کو بھی یکجہتی کا پیغام دیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ہماری قیادت میں اور خاص کر مولانا فضل الرحمن صاحب نے ہمارے قائد نے یہ کہا کہ ہم نے اسرائیل کے ڈرونز کو پاکستان میں گرا کر غزہ کے مظلوم عوام کا بدلہ لیا ہے۔ تو ایک لحاظ سے ہمارے لیے تو یہ بڑا ایک خوشی کا مقام بھی تھا جس سے ایک طرف میں نے پشاور کی اپنے تقریر میں بھی ایک جملہ کہا کہ میں اس وقت آپ کے سامنے کھڑا ہوں تو دو متضاد کیفیات میں کھڑا ہوں ایک کیفیت میری یہ ہے کہ میں غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی تصویریں جو ہیں وہ میرے سامنے کھڑی ہیں اور مجھے ایک غم ہے ایک درد ہے جو مجھے محسوس ہو رہا ہے اور میں ان کو یکجہتی کا پیغام دے رہا ہوں ساتھ میں میرے سامنے ہندوستان کی شکست خوردہ تصویر اور پاکستانی افواج کی جو ہے وہ ایک فتح یابی اور کامرانی کی تصویر بھی ہے تو دو متضاد کیفیات ہیں لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیے یہ خطرہ اپنی جگہ پہ موجود تھا اس کے علاوہ یہ جو موضوع ہے میں اس کو خاص طور پر مینشن کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جو اسرائیل کے خلاف ہمارا موضوع ہے غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ ہماری یکجہتی کا موضوع ہے یہ ایسا موضوع ہے کہ اس کے خلاف بین الاقوامی قوتیں وہ جو ایجنڈے ہیں وہ قوتیں جمیعت کے خلاف اب دوبارہ سے ایکٹو ہو گئی یہ جو ہمارے خلاف دہشت گردی کا ایک نیا سلسلہ جس طرح آپ نے پشاور میں بھی دیکھا جس طرح جلسے والے دن بلاسٹ بھی ہوا ہے جس سے کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جس طرح کوئیٹہ کے یہ جو تھریٹ تھے اور اس طرح وہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جی جس طرح خطرات درپیش ہیں اس سب کے باوجود اپنی کمٹمنٹ کو برقرار رکھنا اور شہدائے غزہ اور فلسطین کے اور غزہ کے مسلمانوں کو یکجہتی کا پیغام دینا اور افواج پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہماری قیادت جو ہے نہ پہلے اس طرح کا بھی مرعوب ہوئی ہے نہ ان شاءاللہ آپ کو بعد میں اسی کی طرح مرعوب ہوتی نظر آئے گی۔
سلیم سلیمانی: اچھا یہ جو آپ نے بات کی غزہ کے حوالے سے اور مولانا صاحب یہ ہندوستان کی اس عمل سے پہلے بھی غزہ کے لیے میدان عمل میں نظر آئے تو دیگر اسلامی ممالک کو بھی ہم دیکھتے ہیں لیکن اس حوالے سے عرب ممالک ہیں ان کا کردار تھوڑا سا مایوس کن رہا ہے اور پھر حال ہی میں اگر ہم دیکھیں کہ ٹرمپ کا جو ہے وہ عرب ممالک کا دورہ کرنا پھر عرب ممالک کے ساتھ ان کے ساتھ رویت اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
انجینئر ضیاء الرحمن: دیکھیں کل پرسوں بلکہ پرسوں کے مولانا صاحب کی تقریر میں آپ نے یہ اس کا خلاصہ سنا ہوگا ہم فلسطین کے حوالے سے غزہ کے حوالے سے عرب یا مسلمان ممالک جتنے بھی ہیں ان کے حکمرانوں کے طرز عمل سے کبھی بھی مطمئن نہیں تھے نہ اس سے پہلے والے جو فیز گزرا نہ یہ اب جو نیا فیز ہے اس میں کوئی ایسی بات ہمیں نظر آئی کہ جی مسلمان دنیا کے مسلم امہ کے مسلمان تو اہل غزہ کے ساتھ کھڑے تھے بلکہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر آپ کو کہوں کہ میں نے پوری دنیا کے انسانوں کو مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر میں نے امریکہ میں لوگوں کو لاکھوں لوگوں کو نکلتے دیکھا میں نے برطانیہ میں لوگوں کو نکلتے دیکھا فرانس میں لوگوں کو نکلتے دیکھا یورپ کے طلباء یونیورسٹی کے طلباء نکل رہے تھے تو حالانکہ مسلمان نہیں تھے لیکن وہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے تھے لیکن سب سے جو زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اگر دنیا کے حکمرانوں سے ہمیں یہ گلا ہے کہ وہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے تھے میں کیوں کر اپنے مسلمان ممالک کی حکمرانوں سے گلا نہیں کروں گا کہ جی وہ بھی جو ہے وہ اسرائیل کی پشت پناہی کی طرف ہمیں نظر آ رہے تھے مسلمانوں کی پشت پناہی کے لیے نہیں۔
سلیم سلیمانی: وہ کس مرض کے دوا ہے؟
انجینئر ضیاء الرحمن: میرے خیال میں نہ اس کے پاس پہلی کوئی ایسی کوئی کرشمہ تھا نہ اب اس کے پاس کوئی ایسا ہے تو خاص کر پھر اس دفعہ جو ٹرمپ کے دورے کے بعد ہم نے عرب ممالک کو دیکھا ہے اور جس انداز میں انہوں نے خوشامد کی ہے اس کو خوش کرنے کی میرے خیال میں کبھی بھی مسلمانوں کا اور بالخصوص عرب کا یہ طرہ امتیاز نہیں رہا یہ طریقہ کار نہیں رہا پتہ نہیں کس ذہن سے انہوں نے یہ سب کچھ کیا لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ پورے مسلم امہ اور خاص کر عرب ممالک اس کے مسلمان تو اہل غزہ کے ساتھ ہیں اس کے حکمران نہیں۔
سلیم سلیمانی: غزہ کا مستقبل کیا نظر ارہا ہے ابھی بھی بات آجاتی ہے بیچ میں کہ جنگ بندی ہو گئی ہے اگلے دن یا دو دن بعد یہ خبر آجاتی ہے کہ ستر آسی پھر شہید کیے گئے ابھی انہوں نے ان کا جیورپ کا ہسپتال ہے اس پر بھی جو ہے بمباری شروع کر دی ہے۔
انجینئر ضیاء الرحمن: دیکھیں جو ظلم اور بربریت ہے اس کا تو شاید الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہوں گے کہ میں اس ظلم اور بربریت کو بیان کروں لیکن آپ اندازہ لگائیں کہ جو کچھ پچھلے کئی مہینوں سے ہم وہاں دیکھ رہے ہیں ایک چیز کا تو ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم نے ہندوستان کی افواج کو جس طرح شکست دی ہے اپنے فضائیہ کی مدد سے اپنے بری افواج کی مدد سے اپنے بحری افواج کی مدد سے حماس اور غزہ کے مسلمانوں نے اپنے طرز عمل سے اور اپنے مستقل مزاجی سے اور سب کچھ سہتے ہوئے جس طرح وہ اپنے میدان میں کھڑے ہیں اسرائیل کو انہوں نے اس میدان میں شکست دی ہے اور اسرائیل آج اس سب کچھ کرنے کے باوجود بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مجھے فتح حاصل ہوئی تو ہم نے یہاں فتح اور انداز میں حاصل کی ہے وہاں غزہ کے مسلمانوں نے فتح ایک اور انداز میں حاصل کی پھر جس انداز میں یہ مسئلہ دنیا کے سامنے اجاگر ہوا ہے اور دنیا کے سامنے ایا ہے ایک بات میں یقین سے اس وقت آپ کے توسط سے آپ کے چینل کے توسط سے میں تمام لوگوں کو بتا سکتا ہوں فخر کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ دنیا کے عوام کی نظروں میں اس وقت اسرائیل جتنا ناپسندیدہ ہو گیا ہے شاید یہ قربانیوں کے نتیجے میں ہوا ہے اور شاید اس کا تصور بھی اسرائیل نہیں کر سکتا، اسرائیل کے اندر بھی مزاحمت کی آواز اٹھی ہیں بلکہ میں ایک یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کے دوسرے ممالک میں رہنے والے بہت سارے یہودیوں نے بھی خود ان کی مخالفت کی، تو یہ انداز یہ کبھی اسرائیل اس کا تصور نہیں کر سکتا یہ ان قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جن قربانیوں کے بعد جو ہے وہ یہ صورتحال یہاں تک پہنچی ہے اور اب اسرائیل کو ہر صورت کسی نہ کسی طور غزہ کے مستقبل کو فلسطینیوں کے منشاء کے مطابق طے کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد دوسرا اور کوئی راستہ نہیں۔
سلیم سلیمانی: اچھا یہ عرب ممالک تو تقریباً جو غزہ کے یہ مسئلہ شروع ہونے سے پہلے ہم جو خبریں دیکھ رہے تھے اس میں یہ تھا کہ بھئی سعودی عرب سمیت عرب ممالک تقریبا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے تو ابھی آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بھئی وہ مسئلہ اب پھر واپس چلا گیا؟
انجینئر ضیاء الرحمن: میرے خیال میں کل پرسوں آپ نے دیکھا ہوگا ٹرمپ نے جس طرح کھڑے ہو کر ایک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ان کے سامنے کی ہے حماس کے اور غزہ کے مسلمانوں نے جس انداز میں انہوں نے مزاحمت کی ہے اور جس انداز میں اس مسئلے کو انہوں نے اجاگر کیا جس میں انداز سے انہوں نے اس مسئلے کو اب دنیا کے سامنے ہائی لائٹ کر دیا ہے کسی بھی مسلمان ملک کے لیے اس کے بعد اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف جانا یہ بہت مشکل ہوگا جہاں تک میرا ذہن کام کر رہا ہے میرا نہیں خیال کہ باوجود یہ کہ ڈکٹیٹر شپ ہوگی باوجود یہ کہ بادشاہت ہوگی لیکن وہ اپنے مسلمانوں کی مزاحمت کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں گے اپنے ملک کے مسلمانوں کے مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کر سکتے۔
سلیم سلیمانی: اچھا آپ حضرات نے مولانا صاحب نے بھی غزہ کے لیے ملین مارچ کی اور آئندہ بھی جو ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ مولانا صاحب اس حوالے سے جو ہے وہ آگے بھی اسی مشن کو جاری رکھ رہے ہیں تو سوال یہ سوشل میڈیا پر اٹھایا جاتا ہے کہ ان جلسوں سے ان سے غزہ والوں کو فائدہ کیا پہنچ رہا ہے؟
انجینئر ضیاء الرحمن: دیکھیں میں نے ایک بات سنی بھی پھر میں نے اپنی تقریروں میں بھی کہی میں نے ایک ویڈیو دیکھی اور وہ ایک ماں جو ہے وہ اپنے بچے کے آخری لمحات تھے اس کے بچے بمباری میں زخمی ہوا تھا اور اس کے آخری لمحات میں وہ اس کی ماں اس بچے کو کہتی ہے کہ میرے بچے جا رہے ہو تو جاؤ اور میرے آقا کو ہمارا پیغام دینا کہ آپ کی امت نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا، آپ مجھے بتائیں کیا اس جملے کا جو اس ماں نے کہا اس کا بھی کوئی مول ہے کہ نہیں اس کا بھی ہم نے کوئی لحاظ رکھا ہے یا نہیں، میں شاید جغرافیائی تقسیم کی وجہ سے تو یہ کہہ سکوں کہ میں غزہ تک مسلمانوں تک نہیں پہنچ سکتا میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میں اسرائیل کی بربریت کے خلاف لڑ نہیں سکتا لیکن میرے پاس جو چیز اویلیبل ہے جو موجود ہے جس تک میری رسائی ہے جو میرے اندر ایک کیپیسٹی ہے اور صلاحیت ہے میں اس کا بھی اظہار نہیں کروں گا تو میں اپنے آقا کو اس شکایت کے جواب میں کیا کہنے کی پوزیشن میں ہوں گا آپ مجھے بتائیے سیاسی طور پر اور اس کا لوگ کہتے ہیں کیا فائدہ ہو گا آپ دیکھیں یہ جو پاکستان کے عوام نے فلسطین کے اور غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اس کے جواب میں جب ہندوستان اور پاکستان کی جنگ ہو رہی تھی اور غزہ کے بچے ویڈیو پیغامات پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اس سے آپ اندازہ لگائیے نا کہ آپ جو یکجہتی کا پیغام ان کو دے رہے ہیں آپ جو محبت کا ان کا پیغام ہے ان کو پہنچ رہا ہے اور کم از کم اس کا ادراک جو ہے یہ ان کو ہو رہا ہے کہ کوئی اور ہو نہ ہو پاکستان کی عوام جو ہے وہ ہمارے ساتھ کھڑی ہے آپ سیاست کے میدان میں آپ سفارت کے میدان میں آپ مالی تعاون کی حیثیت سے ان کے ساتھ جو کچھ آپ کے بس میں اللہ تعالی نے دے دیا ہے بس سے زیادہ کا مکلف اللہ نے ہمیں نہیں بنایا تو اس کی جواب دہی ان شاءاللہ ہمیں یقین ہے اللہ تعالی ہم سے نہیں کریں گے لیکن جو چیز ہمارے بس میں ہے وہ بھی نہیں کریں گے تو پھر اس کے جواب دہی ہم سے ہوگی۔
سلیم سلیمانی: اچھا مالی تعاون کی بات آپ نے کی ہے تو ان کا فلسطین کا ایک صحافی اسے اردو بھی اتی ہے غالباً، کافی عرصہ پاکستان میں گزارے بیس بائیس سال، اس نے کہا ہے کہ یہاں تو کافی چندے ہوئے ہیں اربوں کا کہا جا رہا ہے لیکن فلسطین میں ایک سوئی تک نہیں پہنچی ہے۔
انجینئر ضیاء الرحمن: میں کسی اور کے بارے میں تو بات نہیں کر سکتا میں تو صرف جمعیت علماء کی بات کر سکتا ہوں آپ نے رمضان کے مہینے میں خود ویڈیوز دیکھی ہوں گی جو غزہ سے جو آئی ہیں جس میں جمعیت علماء جو ہے وہ انہوں نے کیمپ لگائے ہوئے ہیں جس طرح انہوں نے وہ سحری اور افطاری کا جو ہے بندوبست کیا ہے دسترخوان لگائے ہوئے ہیں اور جس طرح وہ تقسیم ہو رہے ہیں تو میں اپنے جماعت کی طرف سے تو مطمئن ہوں کہ ہم نے جس انداز سے جس چینل سے وہ چیز پہنچانے کی کوشش کی ہے وہ وہاں پہ پہنچی ہے۔ باقی کا جواب جو ہے وہ ان کے اور اللہ کے درمیان میں ہے وہ جواب دے۔
سلیم سلیمانی: اچھا اس بات کی طرف آتے ہیں کہ دیکھیں سوشل میڈیا جو متعارف ہوا ہے تو کافی عرصہ ہو گیا ہے جمعیت علماء اسلام کے کارکن جو ہے وہ اس پر تو کام کر رہے تھے لیکن منظم طریقے سے آپ کے زیر نگرانی جو ائے ہیں بڑے تاخیر سے اس میدان میں، تاخیر میں آنے کی وجہ کیا تھی ؟
انجینئر ضیاء الرحمن: اچھا سوال ہے آپ کا، آپ تو بہت عرصے سے اس میں متحرک ہیں تو آپ کو تو پتہ ہے، جمیعت علماء اسلام کا جو نظم ہے جمیعت علماء اسلام کے نظم میں اکثریت جو ہے سلیمانی صاحب وہ ہمارے بزرگوں کی اور ان بزرگوں کو ہر میدان میں سیاسی حوالے سے فقہی حوالے سے مذہبی حوالے سے ان کی اپنی اپنی ایک شناخت ہے ان کی رائے حجت رکھتی ہے لیکن جب بھی دنیا میں ایک نئی چیز متعارف ہوگی تو ضروری نہیں ہے کہ وہ بزرگ بھی اس سے آشنا ہو، تو یہ سوشل میڈیا کا ایسا میدان تھا کہ جن اداروں میں ہمارے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے جن اداروں میں ہمارے فیصلے ہوتے تھے ان میں جس طرح جو رائے آتی تھی وہ چونکہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ان کو کوئی واقفیت نہیں تھی وہ اس میدان کو جو ہے وہ ان کے علم میں نہیں تھا نہیں غیر ضروری ان کے علم میں یہ نہیں تھا تو یہ ہمارا فرض تھا کہ ہم جیسے، آپ جیسے جو اس میدان کو سمجھتے تھے ہم ان چیزوں کو ہم سامنے لاتے، اب میں آپ کو ایک عجیب بات بتا دوں جب ہم نے اپنی قیادت کو اس حوالے سے متوجہ کیا کہ سوشل میڈیا کے میدان میں ہمارے ساتھی کام کر رہے ہیں محنت کر رہے ہیں اور میں آپ سے، ان تمام سوشل میڈیا کے پرانے ساتھیوں کو جنہوں نے اس وقت جمیعت علماء کے مؤقف اور بیانیوں کو دنیا تک پہنچایا اور سب کا مقابلہ کیا جب ہمارے مخالف جو ہے وہ بالکل سوشل میڈیا کے اور ڈیجیٹل میڈیا عروج پر تھا اور ہمارا جو ہے اس میں نظم تک موجود نہیں رہے تو ہمارے ان ساتھیوں نے خود سے آپس میں رابطے کر کے جس میں آپ بھی شامل ہیں جس میں ہمارے اور ساتھی شامل ہیں میں اگر نام لینے پر آؤں گا تو شاید میں حق تلفی کر جاؤں گا کچھ ساتھیوں کا، تو میں نام نہیں لے رہا لیکن آپ کو معلوم ہے ہمارے وہ سارے ساتھی وہ اس میدان میں انہوں نے کام کیا، مخالف کے بیانیہ کا توڑ کیا پھر اپنے بیانیوں کو آگے پہنچانے کو جو کچھ ان کے بس میں تھا وہ کام کرتے رہے، تو یہ تو چلتا رہا لیکن باقاعدہ ایک نظم نہیں تھا پر ہم نے جب قیادت کو اس کی بریفنگ دی کہ جی اب اس میدان کی لڑائی ہے یہ اس میدان کی جنگ ہے اگر اس کے بغیر ہم سیاسی میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتے آپ یقین کریں میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اپنی قیادت کو کہ مجھے یاد ہے یہ میرے سامنے آیاز خان بیٹھے ہیں جب ہم بریفنگ دے رہے تھے آدھے گھنٹے کی بریفنگ کے بعد انہوں نے ہمیں کہا کہ جی بالکل آپ بسم اللہ کریں اور اس میدان میں جو جو آپ کو ضرورت ہوگی ہم آپ کو تعاون کریں، پھر اس کے بعد ہم نے اس کو کہا کہ جی چونکہ اس کو دستور میں شامل ہونا چاہیے باقاعدہ ان کو دستوری پروٹیکشن ملنی چاہیے تو میں تو چونکہ اس فورم کا ممبر نہیں تھا اس وقت، لیکن جو میری معلومات ہیں ہمارے جتنے بزرگ جن کو سوشل میڈیا کا شاید بالکل جو بنیادی علم ہے وہ بھی شاید نہیں تھا لیکن جب ان کو بریفنگ دی گئی تو انہوں نے کہا ہمارا علم اس حوالے سے محدود ہے لیکن جماعت کو اس بات کی ضرورت ہے ہم بغیر کچھ کہے اور سنیں ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ اس میدان میں کام کریں، اس کے بعد یہ کام ہوا اور تاخیر سے صحیح لیکن آپ سب دوستوں کی میں ایک تو پرانے جو بغیر نظم کے دوست کام کر رہے تھے میں آپ کی وساطت سے دل کی گہرائیوں سے ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں وہ میرے سارے دوست سمجھتے ہیں میں جن کو کہہ رہا ہوں آپ کی وساطت سے میں جن کو کہہ رہا ہوں سب سمجھتے ہیں ان حضرات نے جو اس وقت دفاع کیا شاید ہم اس کا شکریہ جماعت کی طرف سے ادا نہ کر سکیں پھر نظم بنا اور نظم بنانے کے بعد تاخیر سے بنا لیکن بہرحال اس وقت جب میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں میں آپ کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پاس شاید وسائل وہ نہیں ہوں گے ہمارے کارکن بے سروسامانی کے حالت میں ہوں گے لیکن اس وقت پاکستان کے سیاسی نظام پر جو سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو اپنے آپ کو اس میدان کی اس فیلڈ کی بہت بڑے پلیئرز سمجھتے ہیں ان کو بھی جمعیت علماء اسلام کے سوشل میڈیا کے بنیادی ورکر سے لے کر اوپر کے عہدے دار اور اس پوری ٹیم سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ جب جب ہمارے مقابلے پر آئیں گے یہ ہمیں بالکل سر کے بل کھڑا کر دیں گے۔
سلیم سلیمانی: اب شروعات آپ لوگوں نے تاخیر سے کر دی تو اب کہاں تک جو ہے وہ اہداف حاصل کر چکے ہیں؟
انجینئر ضیاء الرحمن: اب دیکھیں سلیمان صاحب جب سب سے پہلے یہ ذمہ داری میرے حوالے ہوئی تو بنیادی چیز یہ تھی کہ ہم نے اس کا ڈھانچہ کیسے ترتیب دینا ہے، تو ہم نے اپنے لیے دو اہداف رکھے کیونکہ اس وقت آپ کو بھی معلوم ہے کہ جب ہمیں پہلے دستوری طور پر ہمیں اجازت ملی اور ہم نے نظم بنانا شروع کیا تو ٹائم ہمارے پاس ایک سال کا تھا کیونکہ اس کے بعد پھر انتخابات ہونے تھے اور نیا نظم تشکیل پانا تھا پھر اس سے ایک نئے نظم نے جنم پانا تھا، دو چیزیں ہم نے لی اپنے اہداف کے طور پر رکھی ایک یہ کہ ہم نے سیٹ اپ بنانا ہے ہر صورت بنانا ہے ہم نے اپنے نظام کو اسٹیبلش کرنا ہے ہم نے اضلاع تک جانا ہے ہم نے تحصیلوں تک جانا ہے جہاں جہاں تک ہم نے ممکن ہوگا ہم وہاں تک پہنچیں گے لیکن نظام کو اسٹیبلش کریں گے اور دوسرا یہ کہ ہم نے جو جماعت کا بیانیہ ہے اس کو پہنچانا ہے اس دوران میں دو باتیں آئیں ایک پاکستان کے انتخابات ائے اور ایک ہمارے جماعتی انتخابات، یہ دونوں ہمارے لیے بڑے مشکل مراحل ہوتے ہیں آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا جماعتی الیکشن کا مرحلہ جو ہے وہ پاکستان کے الیکشن سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے تو مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے یہ بات کرتے ہوئے ہم نے اس ایک سال کی مدت میں ہم نے تمام صوبوں کی ٹیمیں تشکیل دی ہم اضلاع تک پہنچے ہم نے اضلاع کے کوآرڈینیٹرز مقرر کیے ہم نے وہاں تک چیز کو پہنچایا ہم نے اوورسیز کا شعبہ بنایا ہم نے ٹیکنیکل کا شعبہ بنایا ہم نے کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز کا ہم نے شعبہ بنایا ہم نے خواتین کا شعبہ بنایا جو جمعیت کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے کہ جی پتہ نہیں جمیعت والے اس محاذ پہ بہت کمزور ہیں لیکن میرے خیال میں، میں اس پروگرام سے ان کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس طرح ہماری خواتین کی ڈیجیٹل میڈیا سیل نے اس حوالے سے کام کیا ہے اپنے ایفرٹس دکھائی ہیں خراج تحسین جو ہے ان کو پیش کیا جانا چاہیے تو ہم نے یہ سارے فورم تشکیل دیے پھر اس کے بعد جب نیا نظم بنا تو نئے نظم کے بننے کے بعد دوبارہ ذمہ داری میرے حوالے ہوئی ہم نے پھر اس پورے سیٹ اپ کو دوبارہ نئے سرے سے بنانا شروع کیا ہم نے صوبے بنائے ہم اب اس وقت پاکستان میں تمام گلگت سے لے کر بلوچستان تک اور سندھ سے لے کر پنجاب اور کے پی تک ہم نے تمام اضلاع کے کوآرڈینیٹرز مقرر کر دیے ہیں اس وقت جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو خیبر پختون خواہ سندھ اور پنجاب تقریباً اپنے تحصیلوں کو اناؤنس کرنے کی طرف جا رہا ہے اور بلوچستان کے تقریباً میں ابھی پچھلی میٹنگ کر کے ایا ہوں تو ستر پچھتر فیصد اپنے تحصیلوں کو کمپلیٹ کر چکے ہیں ان کو بھی ہم نے ٹائم دیا ہے، ایک مہینے کا ٹائم اس کے بعد ہم نے دیا ہے کہ اپ نے ویلج یعنی اپنے یونٹ تک آپ نے، تحصیل کے اعلانات جب آپ اور میں اس وقت بات کر رہے ہیں شاید ہمارے بات کرنے کے کچھ ٹائم کے بعد ہو جائے یا ایک دن کے بعد ہو جائے لیکن بہرحال یہ تین صوبے تو کمپلیٹ کر چکے ہیں، بلوچستان نے صرف اس جلسے کی وجہ سے انہوں نے کہا جی ہمارا تھوڑی تاخیر ہوگی لیکن پرسوں کی میٹنگ میں ہم نے ان کو بتا دیا ہے کہ اسی ہفتے آپ نے کرنا ہے اور پھر ایک مہینے کا ٹائم ہم نے دیا ہے کہ آپ نے تحصیلوں سے یہ بات یونٹ تک پہنچانی ہے یونٹ کے تقرر کرنا ہے آپ نے۔
سلیم سلیمانی: اچھا ہم نے دیکھا کہ سرکاری خزانوں سے بھی سوشل میڈیا ٹیموں کو جو ہے وہ مراعات ملتی رہیں، تنخواہیں ملتی رہی آپ تو مرکزی سطح کے کوآرڈینیٹر ہیں آپ کی تو تنخواہ ہوگی نا؟
انجینئر ضیاء الرحمن: میرے خیال میں، میں نے پہلے بھی آپ کو کہا کہ ہمارا جو ایک سوشل میڈیا کا یہ کام جو بنیادی ورکر ہے جب وہ اپنی جیب سے پیکج کر کے اپنے موبائل کو استعمال کرتے ہوئے جمعیت کے بیانیے کو دنیا تک پہنچا رہا ہے اور ایسے پہنچا رہا ہے کہ آپ کے ملک میں موجود جو مخالفین ہیں ان پہ بھی لرزہ طاری ہے اور باہر کے آپ کے جو دشمن ہیں ان پہ بھی آپ کی اس ٹیم کا لرزہ طاری ہے آپ کی میڈیا ورکرز کا جو ہمارے نظم میں موجود ہیں وہ بھی جو ہماری نظم میں موجود نہیں ہے وہ بھی، جو جماعت کے لیے کام کر رہے ہیں سوشل میڈیا پہ کام کر رہے ہیں وہ بیچارے جن کے پاس یہ استطاعت بھی نہیں ہوتی کہ وہ سو روپے کا جو ہے وہ ایک کارڈ لوڈ کرے وہ سو روپے ملتے ہیں اس کا کارڈ لوڈ کر کے وہ جماعتی خدمت کے لیے سوشل میڈیا پہ کام کر رہے ہوتے ہیں اس طرح کے کارکنوں کے ہوتے ہوئے کوئی عہدہ دار یا تصور کیسے کر سکتا ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی ایک انے کا بھی روادار ہو کہ وہ جماعت سے کوئی چیز وصول کریں ہمارے بس میں جتنا ہوگا ہم اپنے جماعت کے لیے خرچ کریں گے ان شاءاللہ۔
سلیم سلیمانی: اچھا یہ گزشتہ دن بلوچستان کے اندر مولانا صاحب کی گفتگو سنی تو ایک عجیب بات مولانا صاحب نے کہہ دی اور ہمیں حیرانگی بھی ہوئی کہ جمیعت علماء اسلام ایک مذہبی جماعت ہیں مولانا صاحب نے یہ شکوہ کیا کہ میں اپنے کارکنوں کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ بھئی وہ زبان استعمال کر رہے ہیں جو کہ ہی ہمارے مخالفین ہمارے خلاف استعمال کر رہے تھے تو یہ بڑی عجیب سی بات نہیں ہے؟
انجینئر ضیاء الرحمن: دیکھیں مولانا صاحب بڑے آدمی ہیں ان کا جو زاویہ ہوتا ہے باتوں کو دیکھنے کا وہ بہت مختلف ہوتا ہے اب اگر آپ ہم جیسے کارکنوں سے پوچھیں گے تو ہمارا شاید ذہن یہ ہوگا کہ ہم کہیں گے کہ جی دشمن ہمارے ساتھ جیسے کر رہا ہے تو ہمیں پھر اس کو اسی طرح جواب دینا چاہیے پھر ہم اس کے ہمیں اس کے ساتھ اسی طریقے سے برتاؤ کرنا چاہیے لیکن یہ قیادت ہے اور ہماری قیادت بڑی اعلیٰ ظرف قیادت ہے انہوں نے کبھی گالیاں دینے والوں کو کبھی اس انداز میں جواب نہیں دیا جو کچھ ہماری قیادت کو جس انداز میں مخاطب کیا گیا ان کے ساتھ آپ دیکھتے ہیں جب ہم بیٹھتے ہیں تو ان کو شاید یہ چیز محسوس ہو رہی ہو کہ یہ وہی لوگ ہیں یہ ہمیں گالیاں دیتے تھے اور لیکن ہم بڑے فخر کے ساتھ اور سینہ چوڑا کر کے اور آنکھیں اونچی کر کے ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں بات کرتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کے خلاف کبھی اس طرح ہماری قیادت نے زبان استعمال نہیں کی تو ہماری قیادت بڑی اعلیٰ ظرف قیادت ہے شاید ہمارا ذہن وہاں تک نہیں پہنچتا جس انداز میں وہ سوچتے ہیں لیکن بہرحال ہمارے اسلام کا بھی تقاضا یہ ہے اور ہمارے اخلاقیات کا بھی تقاضا یہ ہے اور یہ باتیں وہاں پہ کرتے تھے ہم جب ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ ہمیں یہی نصیحت ہے وہ ہمیں کرتے ہیں سوشل میڈیا کے دوستوں کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ جی اسلام کا مزاج یہ ہے اسلام کا مزاج وہ نہیں ہے کہ جو سوشل میڈیا میں اس وقت رائج ہے اور سوشل میڈیا جس سے کامیاب ہوتا ہے وہ مزاج اسلام کا نہیں ہے تو ہم نے ہوا کے اس پر نہیں جانا ہم نے پانی کے ساتھ بہنا نہیں ہے ہم نے اسلام کے مزاج کے مطابق کام کرنا ہے تو یہ میں نے ان کو درخواست کی تھی کہ یہ جو باتیں آپ ہمیں سمجھاتے ہیں یہ آپ ہمارے سوشل میڈیا کے ٹیم کے ممبران کو جب ہم صوبوں میں جائیں گے ہمارا پہلے سے ایک وہ موجود ہے کہ ہم نے جانا ہے صوبوں میں ان کے ساتھ بیٹھنا ہے ضلعی کوآرڈینیٹرز کے ساتھ، صوبائی ٹیموں کے ساتھ بیٹھنا ہے تو آپ کی موجودگی کا ہم فائدہ اٹھائیں گے تو یہ باتیں آپ ان کو براہ راست کہیں تاکہ ان پر اثر ہو اور الحمدللہ ہم نے کے پی میں میٹنگ کی مولانا صاحب نے ان سے بات کی ہم نے بلوچستان میں کی ہے تو مولانا صاحب نے ان سے بات کی اب ہم سندھ کی طرف جا رہے ہیں تو وہاں سب ان شاءاللہ اس میں بھی موجود ہوں گے پھر پنجاب کی طرف تو جائیں گے تو یہ پیغام ہمارے جمعیت کے ہر کارکن تک پہنچنا چاہیے کہ ہم نے سوشل میڈیا کا استعمال ان کے مزاج کے مطابق نہیں کرنا ہم نے اسلام کے مزاج کے مطابق کرنا ہے اور جس طرح ہماری قیادت ہمیں حکم دے رہی ہے ہم نے اس کے مطابق کرنا ہے۔
سلیم سلیمانی: اچھا حضرت یہ ایک سوال جو زیادہ تر سوشل میڈیا پر بھی اٹھایا جاتا ہے کہ جمعیت علماء اسلام ایک مذہبی جماعت ہے ٹھیک ہے اور جب ان اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو جو ہے وہ وقت کے حکمران وہ عہدہ دے رہے تھے وہ لے نہیں رہے تھے اس کی وجہ سے ان کو سزا مل رہی تھی اس طرح بہت سارے مثالیں دی جاتی ہیں لیکن جمعیت علماء اسلام میں جب ہم دیکھتے ہیں کچھ چیزوں کو سوشل میڈیا کو بھی لائی جاتی ہے کہ عہدوں کے لیے کہ کھینچا تانی ہوتی ہے۔
انجینئر ضیاء الرحمن: یہ قابل افسوس بات ہے دیکھیں سوشل میڈیا ایسا میدان ہے جس طرح آپ اور ہم اپنے معاشرے میں اگر ہم دیکھیں تو یہ ایسے ہے جیسے کسی گاؤں کا چوک ہو چوراہا، حجرہ، اگر میں اپنے گھر کی کسی بات کو چوک چوراہے اور حجرے میں کرنے کا روادار نہیں ہوں میں کیوں کر جماعت کی بات کو جماعت کے اندر کی بات کو چوک چوراہے اور حجرے پہ کروں گا، کیا میری اخلاقیات مجھے اس بات کی اجازت دیتی ہیں، کیا میں نے جماعت کو یہ سمجھا کہ یہ میرا گھر ہے، کیا یہ چیز میرے مد نظر ہے کہ میری اس بات سے جس طرح چوک چوراہے اور حجرے پر اپنے گھر کی بات کرنے سے میرے گھر کو نقصان ہوگا میرے گھر کی عزت پر حرف ائے گا کیا یہ ایک چیز میں اپنی جماعت کے لیے بھی سوچتا ہوں تو میرے خیال میں جو بھی چیز ہوگی ہمارے عہدے کی بات ہے ہمارے اندر کے اختلافات کی بات ہے وہ ہمارے گھر کی بات ہے ہمارے پاس کہتے ہیں جی ہم کہتے ہیں جی فورمز پر کریں پھر کچھ ساتھی ہمیں کہتے ہیں کہ جی کون سے فورمز پر، کون سے فورم پر بات کریں ہم تو اس فورم پر ہیں نہیں تو میرے بھائیو فورم ایسی چیز تو ہے نہیں کہ اس پہ ہر کارکن موجود ہو سوشل میڈیا تو ایسی چیز ہے جو ہر کارکن کے ہاتھ میں ہے، اب اگر ایک سوشل میڈیا کو آپ جیسے بٹگرام کے ہیں میں ڈیرہ اسماعیل خان کا ہوں، ڈیرہ اسماعیل خان کے کسی ایک ویلج کونسل میں بیٹھا ہوا ہے یا بٹگرام کے کسی ایک ویلج کونسل میں بیٹھا ہوا ہمارا ایک کارکن جب وہ اپنا موبائل اٹھائے گا اس کے دماغ میں ایک بات ائے گی،سوشل میڈیا پہ ڈالے گا اور کل کو اس کو کوئی کہے گا کہ جی یہ بات تو فورم پر ہونی چاہیے تو وہ یونٹ کا جو ہے وہ کارکن وہ یہ کہے گا کہ جی کون سے فورم، میں تو فورم پر ہوں نہیں، فورم ہوتی اسی لیے ہیں کہ وہ اس پر محدود لوگ ہوں گے تو اگر میں فورم پر موجود ہوں تو فورم پر کر سکتا ہوں میں فورم پر موجود نہیں ہوں تو کوئی تو اس فورم پر موجود ہوگا جس تک میری رسائی ہوگی میرے گاؤں کا کوئی ہوگا میری یونٹ کا کوئی ہوگا میرے ویلج کونسل کا کوئی ہوگا میری تحصیل کا کوئی ہوگا میرے ضلعے کا کوئی ہوگا تو کسی تک تو میری رسائی ہوگی تو میں اس کو کہہ سکتا ہوں کہ جی یہ میری بات آپ اس فورم پر کیجئے گا یہ جماعت کے حوالے سے میں بات کر رہا ہوں دوسرا یہ کہ کب مجھے جماعت نے ذمہ داری دی ہے کہ میں جو سوچتا ہوں وہ صحیح ہے اور جماعت نے اس کو ایڈاپٹ کرنا ہے، جماعت نے اس پر ایکشن بھی لینا ہے، جماعت نے اس کے بنیاد پر پالیسی بھی بنانی ہے اور جماعتیں اس کو امپلیمنٹ بھی کرنا ہے میری ذمہ داری اتنی ہے کہ مجھے ایک خیال آیا جماعت کے حق میں، بہتر اخلاص کی بنیاد پر ایا ہے، میری نیت ٹھیک ہے، سلیمانی صاحب جو ہے وہ ایک فورم کا ممبر ہے میں نہیں ہوں، میں گیا، میں نے سلیمانی صاحب کو کہا جی میری یہ بات ہے اس بات کو آپ فورم پر پہنچا دیجیے اور اس کے بعد میرا جو ہے ذمہ داری ختم ہو گئی، اب اگر میں کہوں اگر میں مخلص ہوں، اب میں کہوں کہ یہ سلیمانی صاحب نے میری بات کیوں نہیں پہنچائی، پھر سلیمانی صاحب نے اگر پہنچائی ہے تو پھر فورم نے اس بات کو مانا کیوں نہیں ہے، پھر فورم نے اس کو اڈاپٹ کیوں نہیں کیا، پھر فورم اس کے مطابق حکمت عملی تشکیل کیوں نہیں دی، تو اگر یہ بات ہے تو پھر فورم تشکیل کس لیے دیا گیا، تو ہمیں اس خول سے اپنے آپ کو نکالنا ہوگا، 11 کھلاڑیوں کی ٹیم ہوتی ہے تو کپتان ایک ہوتا ہے یہ کپتان بھی ایک ہوتا ہے اور ٹیم بھی گیارہ کھلاڑیوں کی ہوتی ہے۔ سولہ کھلاڑی جو ہے وہ سلیکٹ کیے ہوئے ہوتے ہیں، اس سے پہلے 30 کھلاڑیوں میں سے 16 کی سلیکشن ہوتی ہے پھر یہ ساری چیزیں پراسیس سے گزر کر یہ چیزیں جو ہیں نا ریجن سے آپ نے کرکٹ کی مثال دی ہے تو ریجن کی ٹیم ہوتی ہے پھر ریجن سے باہر پھر صوبے کی ٹیم ہوتی ہے پھر صوبے کے بعد جو ہے پھر اس میں سے تیس کھلاڑیوں کا انتخاب ہوتا ہے پھر تیس کے بعد جو ہے وہ سولہ کا، پھر سولہ میں سے گیارہ کھلاڑی میدان میں کھیلتے ہیں پھر یہ کہ اب آپ اپنی بات کو سچا ثابت کرنے کے لیے اور اپنی بات کو اپنی دلیل کو حجت بنانے کے لیے آپ یہ کہہ دیں کہ یہ وہ جو گیارہ کھلاڑی جو میدان میں کھیل رہے ہیں وہ تو صحیح میرٹ کی بنیاد پر منتخب نہیں ہوئے تو اس کے لیے آپ تو مکلف نہیں ہے آپ نے رکن سازی جمعیت کے نظریے کہ اس کے عقیدے کی بنیاد پر رکن سازی کر لی اس کے بعد میں جمعیت کے ساتھ وابستہ ہو گیا، اب جمعیت مجھ سے کس میدان میں کہاں کام لیتی ہے جو منتخب کرنے والے لوگ ہیں انہوں نے صحیح منتخب کیا غلط منتخب کیا آپ کی ذمہ داری ختم ہو گئی، جواب دہی ان پر ہے جواب دہی آپ پر ہے نہیں ہے، تو ہم نے خود کو کیوں کر جواب دہ بنا لیا ہے کہ میں ہر بات کا جواب دہ ہوں کیونکہ کل کو مجھ سے پوچھا جائے گا بھئی آپ کی جو ذمہ داری تھی آپ نے ادا کر دی اس کے بعد آپ کی جواب دہی نہیں ہے، تو یہ ہمارے کارکنوں سے میری ایک ریکویسٹ بھی ہے اور میں ایک دعوت فکر بھی ان کو دینا چاہ رہا ہوں آپ کے توسط سے، کہ اگر ہم جمعیت کو جمیعت علماء کو اپنا گھر سمجھتے ہیں تو پھر جس طرح میں اپنے گھر کی بات جو ہے وہ کھلے عام گھر کی بات جب ہم ڈسکس کرتے ہیں دبے الفاظ میں کانوں میں بیان کرتے ہیں کانوں میں بیان کرتے ہیں تو دبے الفاظ میں گھر کی بات ہوتی ہے کھلے عام کوئی لاؤڈ سپیکر میں جا کر اعلان نہیں کرتا اور پھر گھر کی بات اگر ہم جمیعت کو گھر سمجھتے ہیں تو پھر اس طرح میں اپنے گھر کی بات چوک چوراہے اور حجرے پر نہیں کرتا میں جماعت کی بات بھی چوراہے اور حجرے پر نہیں کروں گا، سوشل میڈیا پر نہیں کروں گا، ہم لوگ بڑے اخلاص کے ساتھ یہ بات کرتے ہیں اور میں مجھے ان کے اخلاص پر شک نہیں ہے لیکن انداز پہ تو اختلاف ہو سکتا ہے حکمت عملی سے اختلاف ہو سکتا ہے میں اپنے کارکن کے اخلاص پر کیسے کروں گا لیکن مجھے اس کی انداز اور اس کی حکمت عملی سے تو اختلاف ہو سکتا ہے کہ میں اس سے کہوں کہ آپ کا اخلاص بجا لیکن آپ نے جو تحریر لکھی ہے اس میں اخلاص کے ساتھ طریقہ کار ٹھیک نہیں ہے اس طریقہ کار کو جو ہے وہ آپ ٹھیک کیجیے تاکہ آپ کی ان چیزوں کا آپ کی اس رائے کا فائدہ جماعت کو ہو نقصان نہ ہو۔
سلیم سلیمانی: اچھا اب تھوڑی سی نجی زندگی کی طرف اگر ہم آئیں تو اس حوالے سے مولانا صاحب کو ہم جب بھی دیکھتے ہیں سفر میں سیاسی ملاقاتیں وغیرہ یہ گھر والوں کو شکوہ نہیں ہوتا یار کوئی مولانا صاحب ٹائم کم دے رہے ہیں یا گھر نہیں آ رہے ہیں؟
انجینئر ضیاء الرحمن: میرے خیال میں بات تو اب شکووں سے بہت آگے بڑھ چکی ہے کتنے شکوے کریں گے وہ میرے خیال میں جب ان کی عمر 27 سال تھی جی اللہ تعالی مغفرت کرے مفتی صاحب کو، تو مفتی صاحب کی رحلت کے بعد مولانا صاحب جو ہیں وہ اس میدان میں ائے، اور اتے ہی ضیاء الحق کے مارشل کا سامنا کرنا شروع کیا اور پھر مجھے یاد ہے اس وقت تو یہ ذرائع ابلاغ نہیں ہوا کرتے تھے یہ کمیونیکیشن کا نظام نہیں ہوا کرتا تھا تو ہمیں کہیں جب گرفتار ہوتے تھے ہمیں ہفتے کے بعد جا کر کہیں سے اطلاع اتی تھی کہ جی وہ سکھر جیل میں ہے تو ان کے کپڑے پہنچا دیں، وہ میانوالی جیل میں ہے تو ان کے کپڑے پہنچا دیں ان کا سامان پہنچا دیں وہ ہری پور جیل میں ہے، ہفتے بعد جا کر ہمیں پتہ چلتا تھا بس یہی آنکھ مچولی ہوتی تھی، پندرہ دن باہر ہیں تو پھر مہینہ اندر ہے پھر دو مہینے باہر ہیں پھر چار مہینے اندر ہیں تو اس وقت سے کیونکہ گھر والوں کو بھی سب کو معلوم ہے کہ مفتی محمود کا گھر ہے اور اس کے ساتھ یہ بات لکھی ہوئی ہے تو ان کو بھی یہ معلوم ہے دوسرا یہ کہ اگر کہیں شکوہ اب پیدا بھی ہوتا ہے تو بس وہی پیدا ہوتا ہے ختم ہو جاتا ہے ان کو معلوم ہے کہ شکوے سے بات آگے چلی گئی ہے ۔
سلیم سلیمانی: اچھا آپ چونکہ چھوٹے ہے مولانا صاحب مفتی محمود رحمت اللہ علیہ کے رحلت کے بعد مولانا صاحب بھی گھر کے بڑے رہے تو مولانا صاحب نے ڈانٹ وغیرہ کی ہے؟
انجینئر ضیاء الرحمن: سلیمانی صاحب میں پہلے بھی بات کر چکا ہوں ہم ان کے ساتھ تعلق کو دو طرح سے انجوائے کرتے ہیں ایک یہ کہ چونکہ مفتی صاحب کی وفات کے وقت ہم بہت چھوٹے تھے تو ہم نے ان کو مجھے بہت کم کم جگہوں پر وہ یاد ہیں تو ہم نے مولانا صاحب کو ہمیشہ اپنے والد کے روپ میں دیکھا، ہماری تربیت جس طرح ایک والد کرتا ہے ہماری تربیت اس طرح انہوں نے کی ہے اور ہم ایک بھائی کے سٹیٹس کو بھی انجوائے کرتے ہیں تو جس طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ والد جس طرح بچوں کو ڈانٹتے ہیں تو وہ ڈانٹ بھی پڑتی ہے ابھی بھی پڑتی ہے ایسا نہیں ہے کہ آج نہیں پڑتی آج بھی جو ہے نا کبھی ان کی آنکھیں سرخ ہوں تو ان کے سامنے نہیں جاتے اور بھائی کی حیثیت سے ہم ان کے ساتھ ارگومنٹس بھی کبھی کر لیتے ہیں کہ جی یہ چیز اس طرح نہیں ہے اس طرح ہے یا یہ ہونا چاہیے اس طرح ہونا چاہیے اور ایک قائد کا ایک کارکن کے ساتھ جو ہے وہ رشتہ ہے تو اس حیثیت سے کارکن کا سٹیٹس بھی انجوائے کرتے ہیں پھر وہ باتیں بھی ان کے ساتھ کرتے ہیں تو یہ ڈانٹ تو پڑتی ہے اور اللہ آپ کو کبھی ایسے وقت میں حاضر نہ کرے کہ وہ کوئی ڈانٹ رہے ہیں ان کی ڈانٹ پھر حساب سے باہر ہوتی ہے۔
سلیم سلیمانی: اچھا یہ گھر میں ایسا ماحول کبھی بنتا ہے کہ یار آج سیاسی گفتگو نہیں ہوگی اب چلو آپس کی گپ شپ لگاتے ہیں خاندانی باتیں یا یادیں وغیرہ اس طرح کوئی باتیں ہوتی ہیں؟
انجینئر ضیاء الرحمن: وقت ایسا ہوتا ہے سلیمانی صاحب کے ہمیں گھر کی کوئی بات کرنے کے لیے بھی بہت وقت انتظار کرنا پڑتا ہے کہ ہم گھر کی بات کریں تو ہمیں زیادہ تنہائی چاہیے ہوتی ہے ہمیں کوئی ٹائم چاہیے ہوتا ہے تو ہمیں مشکل سے ملتا ہے باقی جہاں تک یہ وقت کی وجہ سے ہوتا ہے باقی گھر میں جب ہم بیٹھتے ہیں آپس میں تو مولانا صاحب بڑی مشکل سے سیاسی گفتگو کرتے ہیں، ہاں سیاسی گفتگو نہیں کرتے، ہاں ہمیں کوئی زبردستی کوئی بات ان سے پوچھنی ہو سیاسی حوالے سے کہ جی ہمیں اس حوالے سے بتائیں تو چند کلمات میں بتا دیتے ہیں باقی زیادہ تفصیل سے گھر میں وہ سیاسی حوالے سے بات نہیں کرتا۔ اس کی میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دوں ابھی کچھ عرصہ پہلے مولانا صاحب خود بھی بتاتے ہیں ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہمارے بھائی جو ہیں لطف الرحمن صاحب، ہمارے پارلیمانی لیڈر ہیں کے پی کے، تو وہ ائے ان کے پاس اور یہ پانچ چھ مہینے پہلے حالات ایسے تھے کہ سیاسی حالات سمجھ نہیں آرہے تھے، تو پوچھا ان سے کہ جی یہ پاکستان کی سیاسی حالات کی سمجھ نہیں آرہی آپ ذرا تھوڑا سا بتائیں کہ یہ کیا کیا چل رہا ہے، تو مولانا صاحب نے بڑے مزیدار انداز میں ان کو کہا کہ سمجھ نہیں آرہی، پاکستان کی اس وقت جو حالات کیسے چل رہے ہیں، لطف الرحمن صاحب نے کہا نہیں بالکل سمجھ نہیں آرہی، کہاں بھئی یہ پاکستان ہے جس کے حالات سمجھ نہیں آتی بس یہ جواب ان کو دیا، تو اس طرح کہیں جا کے ہم کوئی ایک آدھ جملہ ان سے نکال لیتے ہیں ورنہ گھر میں نہیں کرتے۔
سلیم سلیمانی: اچھا جیسے آپ نے کہا کہ مولانا صاحب آپ کے لیے والد صاحب کا درجہ بھی رکھتے ہیں کہ بچپن سے ان کے ساتھ رہے وہ سیاسی لیڈر بھی ہے اور بڑے بھائی بھی ہیں ٹھیک ہے تو سوشل میڈیا پر چونکہ آپ بھی نوجوان ہی ہیں تو مولانا صاحب کے حوالے سے غلط الزامات یا ان کی جو ہے وہ خلاف جو ممیز بنائی جاتی ہے یا جو تصاویریں بگاڑ دی جاتی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے غصہ آتا ہے؟
انجینئر ضیاء الرحمن: فطری بات ہے غصہ آتا ہے لیکن اب چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ سیاست کا میدان ہے اور سیاست کے میدان میں ان ساری چیزوں کا مقابلہ کرنا ہے اور مقابلہ حکمت کے ساتھ کرنا ہے طریقہ کے ساتھ کرنا ہے اس کے لیے حکمت عملی ترتیب دینی ہے تو اب ہمیں زیادہ آج کل کے زمانے میں فکر مند ہونے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہوتی کہ ہمارے سوشل میڈیا کے ساتھی اب خود سے اس کا جواب دے رہے ہوتے ہیں تو ہمیں اس تکلف کی ضرورت نہیں پڑتی۔
سلیم سلیمانی: اچھا مولانا صاحب سوشل میڈیا دیکھتے ہیں؟
انجینئر ضیاء الرحمن: نہیں بہت کم، بہت کم، ہم کوئی چیز ان کو بتا دیں یا ان کو کوئی چیز دکھا دیں یا کوئی اور ساتھی ان کو کوئی چیز بتا دیں تو ٹھیک ورنہ سوشل میڈیا بہت کم دیکھتے ہیں۔
سلیم سلیمانی: بہت شکریہ انجینئر صاحب
انجینئر ضیاء الرحمن: آپ کا شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں