قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے اہم خطاب
19 مئی 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمد و نصلی على رسولِه الكریم جناب چئیرمن! میں سب سے پہلے تو اس حوالے سے آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ جس روز میں نے حکومت کی طرف سے دونوں رو خالی دیکھے اور میں نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا، آپ نے مجھے سپورٹ کیا میں اس کا بھی شکر گزار ہوں آپ کا اور اس وقت بھی آپ کے جذبات، آپ کے احساسات میرے سامنے ہیں جو مجھے بولنے کا حوصلہ دے رہے ہیں۔
جناب چئیرمن! پورا ملک، ملک کے عوام اور ہماری یہ پارلیمنٹ اس ایک ہی احساس میں ڈوبی ہوئی ہے اور ایک ہی سوچ پر متفق ہے کہ ہندوستان نے جارحیت کی ہے پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر اس نے بلا تحقیق پاکستان پر الزام دھر دیا، اپنی سیکورٹی فیلیئر کا پورا ملبہ پاکستان کے اوپر گرایا اور پھر اس نے ہمارے ملک کے سیویلین علاقوں پر اور ہمارے مذہبی مراکز پر راکٹ برسائے یہ کہہ کر کہ یہ دہشتگردوں کے مراکز ہیں۔ لیکن دنیا تو مذہب اور مذہبی طبقے کو دہشتگرد کی نظر سے دیکھتی ہیں لیکن ہندوستان نے عملی مظاہرہ کیا اور انہوں نے ہمارے مساجد کو نشانہ بنایا، مساجد کے قرب وجوار میں رہنے والی فیملیز ان کو نشانہ بنایا، کشمیر کے اندر ہمارے سیویلین علاقوں کو انہوں نے نشانہ بنایا، ایل او سی کے اوپر انہوں نے سیویلین لوگوں کو نشانہ بنایا اور پھر صراحت کے ساتھ کہا کہ ہم نے پاکستان کے فوجی مراکز، فوجی اثاثوں پر کوئی حملہ نہیں کیا ہم نے جو حملہ کیا ہے وہ دہشتگردوں کے مراکز پر کیا ہے، جناب سپیکر میں اس طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، پورے ہاؤس کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، کہ وقت نے ثابت کر دیا کہ مذہبی ادارے جس کے خلاف ہم نے ہمیشہ شکوک کا اظہار کیا ان کی ملکی اور قومی وفاداری پر سوالات اٹھائے، نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے ایک امتیازی رویہ اور پالیسیوں کو اجاگر کیا، آپ نہیں مان رہے تھے لیکن ہندوستان نے آپ کو منوایا کہ مسجد اور مدرسے کا جوان پہلی صف میں فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہا ہے اس لیے فوج کو بعد میں نشانہ بنایا مذہبی ادارے کو اول نشانہ بنایا انہوں نے، ان حقائق کو تسلیم کرنا ہے، یہ تاریخ کے صفحات ہیں جس کو آج ہر شخص پڑھ رہا ہے اور آنے والی نسلیں اس کا مطالعہ کریں گے ان ساری باتوں کو ہمیں سوچنا پڑے گا، میں اس حوالے سے ضرور یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اس وقت کن باتوں کو دیکھنا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ہماری فوج اس بات کا اعتراف کر رہی ہے اور کرنا چاہیے کہ اگر قوم ان کی پشت پر نہیں ہے تو وہ محاذ کی جنگ نہیں لڑ سکتی، سن 1965 میں قوم فوج کی پشت پر تھی آج بھی 6 ستمبر 1965 کو ہم یوم فتح کے طور پر مناتے ہیں، یوم دفاع پاکستان یعنی کامیاب دفاع کیا تھا، لیکن 1971 میں جب قوم فوج کی پشت پر نہیں تھی تو پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہم نے سرنڈر کیا جو تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ آج ایک بار پھر ہمیں اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے میں اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ الزام دھرنے میں بھی ہندوستان نے پہل کی، جھوٹا الزام لگایا اور حملہ کرنے میں بھی ہندوستان نے پہل کی، پاکستان کی پوری کاروائی چاہے وہ بری ہو چاہے وہ فضائی ہو وہ دفاعی تھی اور جس بھرپور انداز کے ساتھ پاکستان نے دفاع کیا ہے تاریخ ہمیشہ اس کو قدر اور احترام کی نظر سے دیکھے گی اور آج پارلیمنٹ کے اس فلور پر میں ان شاءاللہ پورے ایوان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ پاک فوج کو ہم خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے جس جنگ کا آغاز اب کر لیا ہے دفاعی پوزیشن میں کیا ہے لیکن کر لیا ہے سو ہم آج بھی دفاعی پوزیشن پر محاذ جنگ پر ہیں اور محاذ جنگ کی صورتحال بدستور برقرار ہے، جنگ بندی ہوئی ہے باضابطہ کسی معاہدے کے تحت نہیں ہوئی ہے، ہندوستان نے اس کی خلاف ورزی کی بھی کوشش کی لیکن بہرحال جنگ بندی ہے لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا رات میں کیا ہوگا، کل کیا ہوگا، اگلے ہفتے میں کیا ہوگا، صورتحال کیا ہوگی آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس قومی یکجہتی کو برقرار رکھیں اس کو استحکام دیں اس کو دوام دیں اور ہندوستان پر بھی واضح کریں کہ پاکستانی قوم ایک صف میں ہے۔
جناب چئیرمن! آپ اس بات کو بھی دیکھیں کہ آج ہندوستان کی پارلیمنٹ میں ان کے اراکین پارلیمنٹ حکومت کا مسخرہ اڑا رہے ہیں، ان کی وہ ڈمی بنا رہے ہیں کہ شاید دنیا میں کسی پارلیمنٹ میں اس حکومت کی بنی ہو، وہاں کی حزب اختلاف ان کے ساتھ نہیں ہے، وہاں کی مسلم کمیونٹی ان کے ساتھ نہیں ہے، وہاں کی سکھ کمیونٹی ان کے ساتھ نہیں ہے، اقلیت ان کے ساتھ نہیں ہے اور مودی جی بالکل تنہا ہے اس کو کوئی عوامی سپورٹ نہیں مل رہا اس لئے شکست خوری کہ اس احساس کی وجہ سے ہمیں الرٹ رہنا چاہیئے، ہوشیار رہنا چاہیئے کہ وہ کسی وقت بھی اپنی فیس سیونگ کے لئے کوئی ایسی حماقت دوبارہ کر سکتا ہے۔ لیکن ہمیں ان حالات میں داخلی یکجہتی پر بھی نظر رکھنی ہے ہمیں جغرافیائی حوالے سے بھی اس یکجہتی کی طرف دیکھنا ہے۔
چائنا ہمارا پڑوسی ملک ہے 77 سال کی طویل دوستی، مضبوط دوستی، گہری دوستی، بلند دوستی، میٹھی دوستی، آج وہ ہمیں جہاں سی پیک کی صورت میں وہ دوستی اقتصادی میدان میں داخل ہوئی آج وہ دوستی دفاعی میدان میں بھی داخل ہو چکی ہے۔ ہمیں اپنے اس پڑوسی دوست پر اعتماد کرنا چاہیے اور یورپ نے اسرائیل نے ہندوستان کو مدد دی، ان کی طیارے مار کھا گئے، یورپ کی ٹیکنالوجی مار کھا گئی، ہندوستان نے یورپ کی ٹیکنالوجی پر اعتماد کیا آج ان کی ممبران کہہ رہے ہیں کہ ہمارا رافیل تو کٹ کٹ کٹ کرتے گر گئے۔ ان کا مذاق ہو رہا ہے لیکن چین کی ٹیکنالوجی، ایشیا کی ٹیکنالوجی وہ کامیاب ہو گئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح ہمارے ہوابازوں نے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا اور کس طرح ان کے دفاعی سسٹم کو تباہ و برباد کر دیا۔ ہمیں کچھ چیزوں میں، ان حالات میں جہاں ہم کبھی بیٹھ کر تنقید کے عنوان سے بات کرتے ہیں ہم حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں آج میں لفظ تنقید استعمال نہیں کروں گا لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے قومی وحدت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو ضرور کچھ مثبت تجاویز دے سکتا ہوں۔
یہاں تذکرہ ہوا وزیرستان میں آج ڈرون کا، کیا فوج کا ایک محاذ پہ انڈیا کے ساتھ حالت جنگ میں ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ملک کے اندر بھی لڑے، ہماری فوج کیا کسی اور محاذ پر لڑے، یہ جنگوں کا تقاضا ہے، کیا جنگیں اس طرح لڑی جاتی ہیں، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کی پہلا دشمن مشرکین مکہ، مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تھوڑے عرصے میں انہوں نے یہود قبائل کے ساتھ بھی معاہدے کئے، نصاریٰ قبائل کے ساتھ بھی معاہدے کئے، اس لئے کہ اگر باہر کا دشمن ہم پر حملہ آور ہو تو ہم کہیں داخلی مشکل کا شکار نہ ہو جائے، قبائل ان کا ساتھ دے کر ہماری زندگی کو مشکل نہ بنا دیں، یہ ہوتی ہے وہ حکمت عملی کہ آپ دشمن کو اس کے محاذ پر تنہا کرتے ہیں۔ ہمارے اوپر ضروری ہیں اس وقت کہ افغانستان کے سرحد کو ہم پرامن رکھیں اور اس پر عمل کرنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ اس وقت ہمیں کچھ اور قدم بھی اٹھانے چاہیے اس وقت تک جو ہمارے اقدامات ہیں وہ کافی نہیں، ہمیں آگے اور بڑھنا چاہیئے۔ ملک کے اندر کی شورشیں موجود ہیں، خیبر پختونخوا میں موجود ہیں، بلوچستان میں موجود ہیں ہم اس تھیوری سے اختلاف کرتے ہیں اور ابھی ہم نے پشاور میں ملین مارچ کیا تاحد نظر انسانوں کا سمندر، ابھی ہم نے کوئٹہ میں اجتماع کیا تاحد نگاہ انسانوں کا سمندر، کس جذبے کے ساتھ کیا، کیوں کیا، کیا ضرورت تھی اس بات کی کہ ملک کے اندر جو ایک طویل عرصے سے خوف کے بادل منڈلا رہے ہیں ہر شخص خوف زدہ ہے اور جو خوف زدہ ہے اور آپ اس کے خوف کو ختم نہیں کریں گے تو پھر مایوسیاں اس کے بعد کے جو نتائج آئے ہم نے قومی یکجہتی اور قوم کے حوصلے کو بلند کرنے کے لئے خطرات کو مول لے کر پشاور کا جلسہ بھی کر دکھایا، ہم نے بلوچستان کے حالات کو سمجھتے ہوئے وہاں کے خطرات کو مول لے کر جلسہ بھی کیا اور دنیا کو پیغام دے دیا کہ بلوچستان کی قوم بھی زندہ ہے اور خیبر پختونخواہ کی قوم بھی زندہ ہے۔ کوئی خوف نہیں تھا، لوگ کیسے آئے، کہاں کہاں سے اترے، کن کن پہاڑوں سے اترے، کس طرح قافلے کر کے جلسوں میں شریک ہوئے، کس طرح وہ واپس گئے اور ایک حوصلہ دیا قوم کو، کہ نہیں کوئی خلا بھی نہیں ہے، ملک ہے، قوم ہے ہم ہے اور ان شاءاللہ کوئی خوف ہمیں متاثر نہیں کر سکتا، لیکن ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اگر ایک سیاسی جماعت ملک کے لیے اس زاویے سے سوچتی ہے تو اس سے ہزار درجے یہ ذمہ داری ہمارے حکمرانوں کی ہے، اس سے ہزار درجے یہ ذمہ داری ہماری اسٹبلشمنٹ کی ہیں ان سب کو اس حوالے سے سوچنا چاہیئے، اگر آج بھی وزیرستان میں ڈرون گرتا ہے سیویلین شہید ہوتے ہیں آپ بتائیں ہم ہندوستان کے ڈرون سے کیا جواب دیں گے، ہم وہاں ڈرون بیج رہے ہیں ہم اس کا کیا جواب لوگوں کو دیں گے، یہ حساس چیزیں ہوتی ہیں ان پر ہمیں نظرثانی کرنی چاہیئے، ان پر ہمیں سوچنا چاہیئے یہ سوچے بغیر ہم ملک کے اندر کی قومی یکجہتی برقرار نہیں رکھ سکتے، ہمیں سوچنا چاہیئے اس حوالے سے۔
کینالز کا مسئلہ آیا، دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا مسئلہ آیا، صوبہ سندھ کھڑا ہوگیا احتجاج کی وجہ سے، آج جب ہم محاذ جنگ پر ہیں تو عام سندھی کے اندر اس ناراضگی کا احساس موجود ہے ہم نے ذرا حالات کا تجزیہ بھی کرنا چاہیئے بہت سیکریٹ ہوتی ہے یہ صورت حال جسے سب چند لوگ ہی جانتے ہیں ممکن ہے مجھے پتہ نہ ہو آپ کو پتہ نہ ہو لیکن جو ہمارے محاذ پر لڑنے کی فوج ہے طاقت ہے اس کو صورت حال کا علم ہوتا ہے کہ ملک کے اندر اس فلاں واقعے کا یا فلاں اقدام کا ہم متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں ہو سکتے، یہ پہلے سوچنا چاہیئے تھا۔ ہم نے انہی حالات میں صوبہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں مائنز اینڈ منرلز بل لائے جو دو صوبوں کے حقوق پر ایک ڈاکہ ہے، اور اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیار کے متنازع ہے جسے نہ بلوچستان قبول کرے گا جسے نہ خیبرپختونخواہ قبول کرے گا، کیا ان حالات میں اس طرح کی متنازع بل اسمبلی میں لانا جائز ہے، سوچنا چاہیئے کہ ہم کر کیا رہے ہیں، ہم نے یہاں پر طے کیا چھبیسویں ترمیم کے موقع پر دینی مدارس کے رجسٹریشن اور بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کچھ جھگڑا ہو گیا بیچ میں، صدارتی آرڈینس آ گیا، اب صدارتی آرڈینس کو قومی اسمبلی میں آنا چاہیے تھا سینیٹ میں آنا چاہیئے تھا، آیا اور آپ نے ایک سو بیس دن مزید اس کو ایکسٹینڈ کر دیا، ہر چیز کو لٹکانا اور یہ خیال کرنا کہ بس پراسس میں ہے کیا کر سکیں گے کیا نہیں کر سکیں گے حضرت ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ برہم نہ ہو عالم کا نظام، کچھ سوچو چیئرمین صاحب، آج یا گزشتہ کل اسی ایوان میں بچوں کی شادی کے عمر کا سوال پیدا ہوا، 18 سال سے کم بچے ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے اگر کریں گے تو جرم ہوگا یہ بل لانا یہ موقع ہے اس کا، میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے جہاں پر آپ کے ساتھ کھڑا ہوں ملک کی دفاع کے لئے کھڑا ہوں، صف اول میں کھڑا ہوں، ملک کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہوں وہاں آپ ایک ایسا بل لائیں گے جو میرے نزدیک وہ شریعت کے مطابق نہیں ہوگا پھر تنازعہ پیدا ہوگا پھر آپ کہیں گے ملک کن حالات میں ہیں مولانا صاحب، آپ یہ کیا کر رہے ہیں اس وقت، یہ سوال میرا ہے کہ ملک کن حالات میں ہیں اور آپ کیا کر رہے ہیں، ایسے حالات کا ناجائز فائدہ اٹھانا اس کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اس بل کو یہی ختم ہونا چاہیے، ہاں آپ بل لائیں اسمبلیاں ہوتی اسی لیے ہے کہ وہ ایکٹ بنائے بل پہلے اسلامی نظریاتی کونسل میں جائے گا وہ جانچے اس کو، آیا یہ قوانین جس میں بہت سے شقیں وہ ہیں جو ہر لحاظ سے قرآن و سنت کے منافی ہیں آج تک ہمارے گلے سے نہیں اتر رہے ہیں اور اگر کوئی بات کرتا ہے تو پھر خواتین کی حقوق اور آئینی قوانین اور فلاں فلاں، سب چیزوں کو ٹھیک کرے نا، اسمبلیاں بانجھ تو نہیں ہوگئی، اسمبلیاں ہے اسی لئے کہ جب بھی کوئی قانون بننے کی ضرورت ہوتی ہے تو اسمبلیوں میں آئے ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے تو اسمبلیوں میں آئے لیکن ہم ہیں کہ جہاں قرآن و سنت کے خلاف کوئی چیز ہو اس کو اسمبلیوں میں دوبارہ نہیں لانا، ہم نے الحاد کو استحکام دینا ہے ہم نے شریعت کو استحکام نہیں دینا ہے۔ لہٰذا یکجہتی کا تقاضا یہی ہے کہ اس قسم کی حرکتیں نہ کی جائیں اور جناب چیئرمین آپ بڑے معتبر انسان ہے میں آپ کو ذاتی طور پر جانتا ہوں مجھے آپ سے پیار بھی ہے تھوڑا دبنگ ہوکر یہاں رولنگ تو دے دیں اسی جگہ تک تو ہمت کرو جی، ہمت کرو، ابھی رولنگ دے دیں۔ آپ کی رولنگ اس وقت بہت کچھ کر سکتی ہے، ملک کی یکجہتی کیلئے کر سکتی ہے آپ دبنگ آدمی ہیں آپ نہ پارٹی کی پرواہ کرتے ہیں، نہ میری پرواہ کرتے ہیں، نہ کسی کی پرواہ کرتے ہیں۔ تو یہ چیزیں بڑی سنجیدہ سوالات ہیں ہمارے، سنجیدہ تجاویز ہیں ہم اس وقت نہ باہمی دشمنیوں کی متحمل ہیں نہ ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کے متحمل ہیں، ہم یکجہتی کے اس وقت محتاج ہیں محتاج، ہمیں ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر بھی اس سے یکجہتی کی بھیک مانگنی چاہیے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہم ایک طرف بوری میں غلہ ڈال رہے ہیں آپ نیچے سے سوراخ کر کے اتنے غلہ نیچے سے گزر رہا ہوتا ہے، تو کس طرح بوری بھرے گی؟
یہ ہے وہ صورتحال کہ جس پر ہمیں بہت سنجیدگی کے ساتھ سوچنا پڑے گا اور یہ اقدامات اس میں احتیاط برتنے پڑیں گے۔ یقیناً بدامنی ہے ہمارے پارٹی کے کتنے لوگ رمضان شریف میں کوئی پندرہ سے بیس نوجوان ہمارے شہید ہو گئے ہیں، ابھی بھی ہمارے زخمی ہسپتال میں ہیں، ابھی بھی ہمارے ساتھ یہ اغوا کاروں کے ہاں پڑے ہوئے ہیں، ابھی بھی پڑے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ جن کے پیارے لا پتہ ہیں ان کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لیے احتجاج کریں ہم ان کو بہت دشمن کہہ دیتے ہیں کہ یہ مایوسیاں چلتے چلتے بلآخر ریاست کے ساتھ محبت اور دوستی کی جڑوں کو کاٹ دیتی ہیں۔ ہم اس طرح کے سفر نہیں کرنا چاہتے، یہ ملک ہمارا ہے ہم اس ملک کے ساتھ کھڑے ہیں اور فتوے ہیں لگ رہے ہیں تو ان کو اپنے فتوے سے سروکار ہمیں اپنے مؤقف سے سروکار، میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں۔ ہم پورے دلیل کے ساتھ، اطمینان کے ساتھ اور شرح صدر کے ساتھ اپنا موقف لیے ہوئے ہیں اور اس ملک کو ایک پرامن اسلامی مملکت اور دین اسلام کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں، امن ہے تو ایمان ہے، سلامتی ہے تو اسلام ہے۔ اگر اسلام ہو سلامتی نہیں ہے تو اسلام کا تصور نہیں ہے اگر امن نہیں ہے تو ایمان کا تصور نہیں ہو سکتا، دین اسلام اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ امن ہو اور سلامتی ہو، اس مقصد کیلئے آگے بڑھیں، غلط حرکتیں نہ کریں، غلط اقدامات نہ کریں اور ہمیں اس بات پر مجبور نہ کریں کہ ہم پھر مجبوراً احتجاج پہ نکل آئے، ہم جان بچانا چاہتے ہیں ان حالات میں، ہم ایک صف رہنا چاہتے ہیں، خدا کے لئے ہمارے جذبات کا احترام کرو، ہم پاکستانی ہیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، اس آئین کا کتنی دفعہ میں حلف اٹھا چکا ہوں، جس جگہ پر کھڑا ہوں۔ جس آئین کے وساطت سے میں حلف اٹھا چکا ہوں اس کے بعد بیوفائی کا کیا تصور ہو سکتا ہے، حلف تو بہت بڑی چیز ہے وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ یہ قسم ہے اگر جانوں تو بہت بڑی چیز ہے معمولی بات نہیں ہے اللہ کے نام کا قسم کھانا، تو ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر ہمیں آگے بڑھنا ہے، میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن بہتر ہوگا کہ آپ رولنگ دیں اور اس قسم کی قانون سازی رکوائے اور اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجیں اگر وہ سمجھے کہ یہ قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہیں ہے میں خود اسے قبول کروں گا۔
چئیرمن کے وضاحت کے بعد، دوبارہ مولانا صاحب کا بیان
اچھا آپ نے ہمارا کام آسان کر دیا آپ نے تو بڑی مہربانی کی آپ نے بتایا اپنے رائے کا اور یہ کہ منٹس بھی موجود ہے یہ ساری صورت حال، تو آپ کے لئے سب سے آسان ہے کہ اس کرسی پہ بیٹھے رولنگ دے دے، قانونی حوالے سے تو آپ اس کو کہہ سکتے ہیں کہ صحیح ہوا غلط ہوا ہے لیکن شرعی حوالے سے ہمارے پاس آئینی فرم موجود ہے تو وہاں کیوں نہیں جا سکتا۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے اہم خطابقائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا قومی اسمبلی کے اجلاس سے اہم خطاب
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, May 19, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں