جے یو آئی کا دفاعِ پاکستان و غزہ ملین مارچ، مجروح دلوں پر مرہم
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
پچھلے کچھ دنوں سے عجیب کیفیت میں ہوں ، دل پریشان تھا کیونکہ ٹی وی چلتا ہے، کھیل، سیاست، اشتہار، شور سب ہے, بس جو نہیں ہے وہ غزہ ہے جیسے وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا جیسے وہ سب سچ نہ ہو یا اتنا پرانا ہو چکا ہو کہ اب قابلِ ذکر نہیں رہا۔
ایسے میں اچانک ایک خبر دیکھی کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جمعیۃ علماء اسلام کا دفاعِ پاکستان و غزہ ملین مارچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل جیسے ایک لمحے کو سنبھل گیا یہ صرف ایک مارچ نہیں تھا بلکہ امت محمدیہ کے مضبوط نظریاتی لوگوں کا بھرپور مظاہرہ تھا جنہوں نے یہ ثابت کر دیا ھے کہ ملت اسلامیہ میں جرأت و حمیت کے حامل افراد موجود ہیں۔
سوچتا رہا، باقی سب کہاں ہیں؟ وہ سب بڑے نام، وہ مشہور تنظیمیں، وہ ہر موضوع پر پریس کانفرنسیں کرنے والے، اب کیوں نہیں نکلے؟ کیا غزہ اب ان کے منشور سے گر چکا ہے؟ یا فلسطینی بچوں کی چیخیں ان کے جلسوں کے ساؤنڈ سسٹم سے کمزور ہیں؟
جمعیۃ کی یہ تحریک کوئی سیاسی چال نہیں لگی مجھے یہ جیسے کسی دل کے اندر کے دکھ کی صورت تھی جیسے کوئی یہ یاد دلا رہا ہو کہ "ہم بھولے نہیں ہیں"۔ کہ ہم ابھی مکمل بےحس نہیں ہوئے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اب بھی امت کو ایک جسم مانتے ہیں جس کے ایک حصے کے زخم کو باقی محسوس کرتے ہیں۔
یہ مارچ محض سڑکوں پر نکلنے کا نام نہیں یہ ان لوگوں کی طرف سے احتجاج ہے جنہیں آج بھی یہ یقین ہے کہ پاکستان صرف ایک ملک نہیں، ایک نظریہ ہے اور جب نظریہ خطرے میں ہو تو خاموشی جرم بن جاتی ہے۔
تو میں نے خود سے سوال کیا کیا ہم بھی ان خاموش رہنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں؟ کیا ہم نے بھی یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب جو چیخے گا، وہ پسماندہ، جذباتی، یا غیر سنجیدہ کہلائے گا؟ اگر ہاں، تو پھر شاید وہ سچ ہے جو کبھی کسی نے کہا تھاکہ زخم سے زیادہ خطرناک چیز بے حسی ہوتی ہے۔
جمعیۃ کی یہ کوشش شاید سب کو دکھائی نہ دے، لیکن ایک حساس دل کے لیے یہ امید کی ایک لکیر ضرور ہے یہ ثبوت ہے کہ کچھ لوگ اب بھی بولتے ہیں، اب بھی نکلتے ہیں، اور اب بھی فلسطین کو اپنی جنگ سمجھتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں