جمعیت میں فکری تربیت کا فقدان اور اس کے نتائج۔ تحریر: سہیل سہراب

جمعیت میں فکری تربیت کا فقدان اور اس کے نتائج

تحریر: سہیل سہراب

ایک وقت تھا جب جمعیت علماء اسلام پاکستان میں فکری، شعوری اور نظریاتی سطح پر بہترین کام ہو رہا تھا۔ نوجوانوں کی تربیت کا خاص نظام موجود تھا، جس کے باعث ایسے افراد سامنے آتے تھے جو جماعت کی ترقی اور اس کو آگے لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ مگر جب سے فکری، شعوری اور نظریاتی تربیت کے دروازے بند ہوئے ہیں، اُس دن سے آج تک ہم نے صرف عقیدت مندوں کا ہجوم پیدا کیا ہے۔ فکری اور نظریاتی کارکنوں کی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے، جو کہ اس عظیم اور تاریخی جماعت کے لیے کسی صورت مناسب نہیں۔

جدید ٹیکنالوجی اور پلیٹ فارمز کے آنے کے بعد یہ ضروری تھا کہ ہم اپنے ورکرز کو ان کا مثبت اور مؤثر استعمال سکھاتے، لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ ہر کوئی جماعت سے مخلص ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے، مگر حقیقت میں اکثر افراد جماعت کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ویورز، لائکس اور کمنٹس کے نشے میں وہ ایسی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کر رہے ہیں جن پر ہم ماضی میں سخت تنقید کیا کرتے تھے۔ یہی چیزیں جب پی ٹی آئی کے کارکنان کرتے تھے تو ہم انہیں شخصیت پرستی اور اندھی عقیدت کا طعنہ دیتے تھے۔

بدقسمتی سے آج یہی روش ہماری اپنی جماعت میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ چاہے شادی بیاہ کی تقریب ہو یا جلسہ جلوس، قائد محترم کی تصاویر کو فخر سے اٹھایا جاتا ہے، کوئی تصویر کو چومتا ہے، تو کوئی تربوز کو تصویر سے لگا کر کھانے کی "اداکاری" کرتا ہے۔

مسئلہ کہاں ہے؟ وہی جگہ جہاں سے یہ تحریر شروع کی تھی: تربیت کا فقدان۔ ان لوگوں کو یہی سب جماعت کی خدمت سمجھ آتی ہے اور وہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ دوسری طرف، ہمارے بڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ان حرکات کو فخریہ انداز میں شیئر کرتے ہیں، جس سے ان لوگوں کو مزید حوصلہ ملتا ہے اور وہ خود کو ہیرو سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہی لوگ جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ جب ان کا "نشہ" عروج پر ہوتا ہے اور کہیں جلسے میں ان کو کارڈ نہ ملے، تو جماعت کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے میں بھی دیر نہیں کرتے۔

تحریر طویل ہو رہی ہے، اس لیے آخر میں اپنے جماعت کے علما کرام سے عاجزانہ گزارش ہے کہ خدارا! ان باتوں پر سنجیدگی سے نوٹس لیں۔ ان خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔

#سہیل_سہراب 

#teamJUIswat


0/Post a Comment/Comments