مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی ڈان نیوز کے پروگرام لائیو ود عادل شاہ زیب میں خصوصی گفتگو

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی ڈان نیوز کے پروگرام لائیو ود عادل شاہ زیب میں خصوصی گفتگو

13 مئی 2025

السلام علیکم ناظرین لائیو ود عادل شاہ زیب کے ساتھ میں ہوں آپ کا میزبان، گزشتہ دو ہفتے ہم نے دیکھا پاکستان اور انڈیا کی جو کشیدگی تھی پھر اس کے بعد انڈیا نے جس طرح جارحیت کا مظاہرہ کیا، دو تین دن مسلسل پاکستان پر حملے جاری رکھے پھر پاکستان نے مجبوراً جب جواب دیا تو انڈیا کو جو ہزیمت اور شرمندگی انٹرنیشنل لیول پر اٹھانی پڑی جو ماڈرن کنونشنل وار فیئر ہے ایٹمی جنگ کے علاوہ جو جنگ ہوتی ہے اس میں جو ایک امیج تھا انڈیا کا، کہ انڈیا جو ہے وہ ناقابل تسخیر ہے قوت اور طاقت بن چکا ہے خصوصا اس خطے میں وہ ٹوٹ چکا ہے اور یہ ہم نہیں کہہ رہے یہ جو عالمی دفاعی تھنک ٹینکس ہیں خصوصاً رافیل طیاروں کے گرنے کے بعد کی جو صورتحال ہے اس کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ٹویٹ آتی ہے کہ جی سیز فائر ہو چکا ہے اور بات ہوگی اور کشمیر پر بھی بات ہوگی اور پھر ان کی کل ایک سٹیٹمنٹ اتی ہے کہ میں نے انڈیا کو اور پاکستان کو دونوں کو یہ کہا کہ آپ کے ساتھ تجارت بند کر لیں گے اگر آپ نے سیز فائر نہیں کی، اب پاکستان اور امریکہ کی جو تجارت ہے وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن انڈیا اور امریکہ کی جو میوچول تجارت ہے وہ تقریباً ایک سو تیس بلین ڈالرز ہے، لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اب سیز فائر ہو چکی ہے لیکن بار بار جو انڈین پرائم منسٹر ہیں ان کے جو بیانات ہیں انہوں نے جب کل اپنی قوم سے خطاب کیا تو اس میں انہوں نے یہ کہا کہ بات ہوگی لیکن پاکستانی کشمیر پر بات ہوگی، پانی اور خون ساتھ میں نہیں بہہ سکتا، یعنی وہ جو انڈس واٹر ٹریٹی انہوں نے یونیلائٹرلی سسپینڈ کی تھی اس پر بھی وہ بات کرنے کے لیے نہیں تیار اور بات اگر وہ کشمیر پہ کریں گے بھی تو وہ آزاد کشمیر کی بات کر رہے ہیں، لیکن پریزیڈنٹ ٹرمپ جو ہیں وہ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ تو یہ معاملات کس طرف جائیں گے، پاکستان کی قومی قیادت کیا سوچ رہی ہے، پاکستان کی اپوزیشن کیا سوچ رہی ہے، تمام معاملات پر گفتگو کریں گے اپوزیشن کے بڑے رہنما بزرگ سیاستدان جمیعت علماء اسلام کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمن صاحب۔

اینکر: مولانا صاحب بہت شکریہ آپ نے اپنے قیمتی وقت سے ٹائم نکالا، مولانا صاحب بڑا نازک وقت ہے اس وقت بھی سیز فائر ہو چکا ہے لیکن کسی بھی وقت یہ سیز فائر جو ہے وہ ٹوٹ سکتا ہے آپ اس پوری صورتحال کا کیسے جائزہ لیں گے؟

مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم، صلی اللہ علی نبی الکریم وعلی الہ وصحبہ اجمعین، دیکھیے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے اور اس پورے عرصے میں حالات نارمل تھے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے تھے خاص طور پر کشمیر کے علاقوں میں، لیکن ایک دوسرے سے صرف احتجاج نوٹ کرایا اور اس کے بعد معاملہ معمول پہ آگیا، لیکن اس بار بالکل ماضی سے مختلف ہندوستان نے اپنا رویہ دکھایا کہ پہلگام کا واقعہ ہوا اور پہلگام کے واقعے کا دس منٹ کے اندر اندر اس نے سارا ملبہ پاکستان کے اوپر ڈال دیا، اور نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا اس نے پاکستان کے مختلف مراکز جو ہمارے دینی مراکز تھے، مساجد تھے، مدارس تھے وہاں پر انہوں نے راکٹ برسائے اور اس میں جتنے لوگ شہید ہوئے ہیں وہ سب سویلین ہیں اور غیر مسلح لوگ ہیں اگر وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے میلیٹنٹس پر حملہ کیا ہے تو ایک منٹ میں بتا دیں کہ کس کو انہوں نے نشانہ بنا لیا ہے۔

اینکر: اور مولانا صاحب اس دن انٹرنیشنل جرنلسٹ ان ساری سائٹس پہ پہنچے جہاں حملہ کیا تھا۔

مولانا صاحب: جی ہاں، اور اس میں بچے ہیں خواتین ہیں تو کشمیر میں ایل او سی کے اُوپر بلا وجہ یعنی انہوں نے حملہ کیا اور پھر یہ کہنا جی کہ ہم نے تو صرف دہشت گرد مارے ہیں یا ان کے مراکز پر حملہ کیا ہے۔ اگلے روز انہوں نے ہمارے ایئر بیسز پہ حملے کیے اور ایئر بیسز پر حملے کرنے کے بعد پاکستان نے اپنے طیارے اڑائے اور پھر اس کی جوابی کاروائی دکھائی۔ تو پورے خطے میں ایک ایسا تناؤ پیدا کر لیا ہے جس کی بنیادی وجہ کیا ہو سکتی ہے جی، بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت تو بی جے پی کی ہے لیکن واجپائی آنجہانی اور یہ جو مودی صاحب ہیں ان کی سوچ اور پالیسیوں اور رویوں میں ایک سو اسی ڈگری کا فرق ہے۔ وہ بڑا معتدل انسان پاکستان آیا، مینار پاکستان پر گیا، پاکستان کو بطور ایک حقیقی ریاست کے تسلیم کیا،ایک بہتر تعلقات کی طرف جانے کا اس نے آغاز کیا ہر چند کے اس کے بعد کارگل کا واقعہ ہوا اور جس سے کہ بہت کشیدگی آئی لیکن میں اس زمانے میں دو ہزار تین میں، میں گیا انڈیا جمیعت علماء اسلام کا وفد لے کر اور میں دس دن وہاں گزارے اور میں نے تمام پارٹیوں سے میٹنگز کی اور اس پر متفق کیا کہ جی ہم نے کوئی جنگ نہیں لڑنی بلکہ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو طے کرنا ہے اور میرا خیال میں پانچ چھ مہینے کے بعد ہمارے تعلقات بہتر ہو گئے کہ ہماری فضائیں بند تھیں تو وہ کھل گئیں ہمارا فضائی رابطہ ختم ہو گیا تھا سو وہ بحال ہو گیا ہمارے زمینی راستہ جو ہے ٹرین بس وغیرہ یہ معطل ہو گئے تھے سو وہ بحال ہو گئے اور ہمارے دونوں طرف کے جو ہائی کمیشنز تھے جو بالکل سٹینوگرافک لیول پہ آگئے تھے وہ کھل گئے سب، صورتحال بہتر ہو گئی جی۔

تو اس ساری محنتوں کو جو ہم بیس تیس سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ بھی ہو تو ہم مذاکرات ہی کے ذریعے حل کریں، شملہ معاہدہ اسی کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنے آپ کو اس کا پابند سمجھتے ہیں۔ پھر اس کے باوجود انہوں نے تیزی کیوں دکھائی، صرف اس لیے کہ وہ غیر مقبول ہو چکا ہے اور انہوں نے ہندو کارڈ استعمال کر کے ہندو ووٹ تو حاصل کیا لیکن اس بار وہ جذبہ نہیں دیکھا ہندوستان میں، مسلمانوں نے بھی، اور ان کا ووٹ بینک ڈی کلائن ہوا اور کچھ اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بچا سکے ہیں پھر انہوں نے کشمیر میں جو کچھ کیا ماضی میں تو وہاں کے ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی انہوں نے، اور یہ سوچا کہ اگر پرائیویٹ پریمیسنٹ بھی ہوگا تو اس میں ہندو اکثریت ہونی چاہیے اور وہاں پر ہندوں کو آباد کیا، بہت زیادہ آباد کیا ان کو، لیکن جب وہاں پر کشمیر کا الیکشن آیا سو ہر چند کے وہ آرٹیکل 370 آئین کا ختم کر چکے تھے اور وہاں جو شق نمبر 85 تھا وہ ختم کر دیا تھا انہوں نے، اس کے باوجود اس دفعہ الیکشن میں کشمیری عوام نے جس طرح بی جے پی کو مسترد کیا تو یہ درد اسے نہیں بھولا جا رہا تھا اور اس پہلگام کے واقعے سے اس نے سوچا کہ میں دوبارہ وہاں پر ہندو مسلم کا سوال پیدا کر سکوں گا اور ہندوتوا کارڈ استعمال کرنے کی وہ کوشش کرنا چاہ رہا تھا لیکن جو بھی قدم اس نے اٹھائے، آپ موازنہ کر سکتے ہیں اس بات کا کہ ہندوستان میں اپوزیشن نے ان کا ساتھ نہیں دیا، مسلمانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا، دوسری تنظیموں نے ان کا ساتھ نہیں دیا، سکھوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور پاکستان میں اس کے مقابلے میں ایک یکجہتی پائی گئی اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں حکومت سے ناراض ہوں اور میں اپنے ناراضگی پر قائم ہوں تب بھی خاموش ہو گیا اور اس نے یہ دکھایا کہ یہ پاکستان کے دفاع کا وقت ہے اور ہمیں ایسے کہ کوئی ایکٹیوٹی نہیں دکھانے چاہیے۔ ہم لوگوں نے، تمام مذہبی طبقے نے، تمام مدارس نے ایک جان ہو کر اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا اور عام آدمی جو ہے وہ دوبارہ فوج کے ساتھ کھڑا ہوا، حالانکہ فوج کے ساتھ تو ناراضگی تھی ہماری، ان لوگوں کی بھی تھی لیکن ملک کے لیے اور ملک کی دفاع کے لیے ہم ایک صف ہو گئے اور اس کی برکت تھی اللہ تعالی نے ہماری مدد کی اور جس طریقے سے ہماری دفاعی قوت نے اور ہمارے ہوا بازوں نے جس فدائیت کے ساتھ معاملہ کیا ہے اور جس طرح ان کے پورے دفاعی قوت کو سبوتاژ کر دیا اس کے ٹیکنالوجی کو تباہ و برباد کر دیا اس کی جنگی صلاحیت کو اتنا کمزور کر دیا کہ خود ان کو چیخنا پڑا کہ پاکستان کو جنگ بند کرنی چاہیے اور بات چیت کی طرف آنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

اینکر: اچھا مولانا صاحب اب جنگ بندی تو ہو چکی ہے اب صدر ٹرمپ اس وقت سعودی عرب میں ہے محمد بن سلمان سے ان کی ملاقات بھی ہوئی اور سعودی آفیشلز نے ایک بڑا کردار ادا کیا بہائنڈ دی سین ان کے وزیر مملکت برائے خارجہ پہلے انڈیا پہنچے پھر پاکستان پہنچے اس کے بعد امریکہ اس پوزیشن میں آیا کہ سیز فائر کا اعلان کرے، اب سعودی کردار کو آپ کیسے دیکھتے ہیں اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو کشمیر کا معاملہ ہے کافی عرصے بعد اب دوبارہ سے انٹرنیشنلائز ہو چکا ہے اور وہ انڈیا کے کنٹرول میں چیز نہیں رہی؟

مولانا صاحب: جہاں تک ہے سعودی عرب کا کردار تو سعودی عرب نے جب بندی کے لیے جو کردار ادا کیا وہ قابل تحسین ہے اور ہم اس پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ یہ پورا گیم چینج ہے مکمل طور پر اور مسئلہ کشمیر کو دوبارہ زندہ کر دیا جی، بالکل اسی طریقے سے جس طرح کے اہل غزہ نے اسرائیل کے خلاف جو جنگ لڑی ہے سال ڈیڑھ سال میں اور اس نے جس طریقے سے فلسطین کے سیاسی شکل کو تبدیل کیا ہے مسئلے کو ریوائز کیا ہے اور فلسطینی ریاست کو ایک حقیقت کے طور پر دنیا سے منوایا ہے چنانچہ آج ٹرمپ بھی یہ اشارے دے رہا ہے کہ فلسطین ایک حقیقت ہے اور اس کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اسی طریقے سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اس کی خصوصی جو ایک سٹیٹس تھا کشمیر کا وہ بھی دوبارہ بحالی کی طرف جائے گا اور جو متنازعہ مسئلہ ہے کیونکہ میں آپ کو یہ بات بتا دوں جی کہ جہاں تک انڈیا کی سوچ ہے اور اس کے جو ارادے اور عزائم ہیں وہ گلگت بلتستان تک کو انڈیا کا حصہ سمجھتے ہیں اور ان کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ مظفرآباد تک سوچ رہے ہیں بلکہ وہ اس بات کی کوشش میں ہیں کہ پورا کشمیر پورا گلگت بلتستان اس پر قبضہ کرکے چین پاکستان کا رابطہ کاٹ دے اور یہ کوئی معمولی سازش نہیں ہے اور بڑے ان کے ایک عجیب سی سوچ ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان اس پر کمپرومائز نہیں کر سکتا کسی قیمت پر بھی اور نہ ہی کشمیری عوام یا گلگت بلتستان کے عوام وہ ہندوستان کی اس سوچ کی تائید کر سکتے ہیں چنانچہ یہ جو کچھ لوگ کہتے ہیں یہ خود مختار کشمیر خود مختار کشمیر تو اگر گلگت بلتستان اور کشمیر کو ایک حصہ بھی تسلیم کر لیا جائے لیکن اگر الحاق پاکستان نہیں ہوگا اور خود مختار کشمیر کی بات ہوگی تو ظاہر ہے جی کہ اس سے بھی ہندوستان وہی مقصد حاصل کر سکے گا کہ وہ چین پاکستان کا رابطہ توڑ دے گا اور دنیا کے ساتھ جو ہے وہ پاکستان کے روابط جو ہے انتہائی کمزور ہو جائیں گے۔

اینکر: ویلکم بیک ناظرین مولانا فضل الرحمن صاحب آج ہمارے خصوصی مہمان ہیں۔ مولانا صاحب آپ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں اور کافی آپ نے کام کیا کشمیر کاز کے لیے یہ جو ابھی آپ نے بات کی کہ خود مختار کشمیر، تو ایک تجویز یہ بھی آسکتی ہے تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان جو ہے جب تک الحاق کشمیر الحاق پاکستان نہیں ہوگا تو وہ اس سے کم پاکستان کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے ؟

مولانا صاحب: دیکھیے الحاق پاکستان کی جو بات ہے اس کو ہمیں اس حوالے سے بھی ذرا سوچنا ہوگا کہ اس کا تعلق تقسیم ہند کے ساتھ ہے تو تقسیم ہند کے دوران ہندوستان میں پانچ سو سے زیادہ ریاستیں تھی اور بالآخر تمام ریاستوں کو ان کے جو نواب یا ان کے جو راجا تھے ان کو اختیار دیا گیا کہ آپ کو اختیار ہے پاکستان کے ساتھ یا انڈیا کے ساتھ، either with Pakistan either with India, اب جب اس وقت پانچ سو سے زیادہ ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا اور انہوں نے اس اختیار کو استعمال کیا آج اگر تیسرا کوئی اختیار بنا کر دے دیا جائے گا تو پانچ سو کے پانچ سو ریاستیں اٹھیں گے اور کہیں گے جی پھر یہ حق ہمیں بھی دیا جائے تو اس کا نہ متحمل پاکستان ہے اور نہ انڈیا ہے، اس پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے۔

اینکر: اچھا مولانا صاحب ہمارے جو ڈپٹی نائب وزیراعظم ہیں فارن منسٹر ہیں اسحاق ڈار صاحب، ان کی سٹیٹمنٹ ہے کہ اگر پانی پر بات نہ ہوئی تو یہ جنگ بندی ختم نہیں ہو سکتی ہے دوسری جانب مودی صاحب اپنی سٹیٹمنٹس کے پانی پر تو بات نہیں ہوگی اور بات اگر ہوگی صرف پاکستانی کشمیر پر بات ہوگی اس کا مطلب کہ بات چیت تو پھر۔۔۔

مولانا صاحب: نہیں، مودی نے چھیڑی ہے یہ بات، ظاہر ہے جی پھر رد عمل میں یہ بات کی جاتی ہے لیکن ہندوستان کو سوچنا ہوگا کہ پانی کی تقسیم یہ ایک معاہدے کے تحت ہوئی ہے اور اس معاہدے میں جو ثالثی ہے وہ ورلڈ بینک کو ہے وہ اس کا ضامن ہے تو یک طرفہ طور پر اس ٹریٹی کو کوئی ملک بھی ختم نہیں کر سکتا، اگر کوئی مشکلات ہیں کوئی شکایات ہیں تو ہمیں عالمی بینک کی طرف جانا پڑے گا جی، کیونکہ وہی ضامن تھا بیچ میں لہذا یہ 1960 کا معاہدہ ہے ٹریٹی ہے اور اس واٹر ٹریٹی میں عالمی بینک جو ہے وہ ثالث ہے اور یک طرفہ طور پر اس معاہدے کے خلاف ورزی کا حق کسی کو نہیں پہنچتا، ہندوستان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اس ضد پر قائم رہ سکے کیونکہ دنیا بھی دیکھ رہی ہے اس کو اور وہ پانی اگر روکے گا تو اس کی اپنی بھی تباہی کا باعث بنے گا وہ خود جب مشکل میں آتا ہے پانی چھوڑ جاتا ہے ہماری طرف، ابھی پانی اس کو چھوڑنا پڑا۔ تو یہ تو ایسا نہیں ہے کہ وہ اس کو روک سکتے ہیں، زبانی بڑی بڑی باتیں کریں لیکن دنیا کچھ قواعد ضوابط کی پابند ہوتی ہے۔

اینکر: مولانا صاحب آپ کی فہم و فراست، سیاسی تدبر اس کی مثالیں دی جاتی ہیں اس پورے ایپیسوڈ کے بعد کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خطے میں طاقت کا ایک توازن جو کہ دنیا سمجھتی تھی کہ انڈیا کی طرف جو ہے وہ زیادہ تھا اب جو ہے تھوڑا بہت معاملہ، میں معیشت کی بات نہیں کر رہا، بالکل میں فوجی اور تکنیکی حساب سے بات کر رہا ہوں۔

مولانا صاحب: دیکھیے میں کوئی فوجی تکنیکی آدمی تو ہو نہیں کہ میری بات جو ہے وہ اتھینٹک ہو اور ایک معیاری بات ہوگی لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیا کو اپنے دفاعی قوت پہ غرور تھا اور امریکہ اور مغربی دنیا نے گزشتہ دو تین دہائیوں میں بہت مدد کی تھی اس کی، اور پھر اس کے پاس جنگ لڑنے کے لیے چھ سے سات سو کے درمیان ارب ڈالر کا ریزرو موجود تھا اور پاکستان کی مدد کس نے کی تھی زیادہ سے زیادہ کچھ چائنہ نے کی ہوگی کچھ پیسے کی مدد سعودی عرب نے کی ہوگی کچھ امارات نے بھی، دوست ہمارے بھی ہوتے ہیں لیکن مغربی دنیا اور عالمی دنیا وہ پاکستان کی طرف امداد دینے میں ہاتھ روکے ہوئے تھی اور بڑے محدود پیمانے پر پاکستان کے ساتھ وہ مدد کر رہے تھے۔ چنانچہ سات آٹھ گنا زیادہ دفاعی قوت اس نے پاکستان پر حملہ کیا لیکن پاکستان نے جس طرح سے ان کی ٹیکنالوجی کو ناکام بنایا سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں پاکستان نے جس طرح ان کو ایک فضول ڈھانچہ بنا دیا اور اب اس کے وہ رہنمائی حاصل نہیں کر سکتے تھے ان کو جنگ میں نہیں استعمال کر سکتے تھے، رافیل تیاروں کا گرنا، پھر ان کے رافیل طیارے جس پر فرانس کو بڑا فخر تھا اور جس نے بڑے فاخرانہ انداز کے ساتھ انڈیا کو حوالے کیے تھے کہ یہ زبردست قسم کے ایک مدد ہے آپ کی، وہ فیل ہو گئی ان کے جو دفاعی نظام تھا جس سے وہ راکٹ اپنے نشانوں پر پھینک رہے تھے وہ سب کے سب نشانوں سے کچھ لگے کچھ ضائع ہو گئے لیکن پاکستان نے جس وقت دفاعی جواب دیا ان کو اور ہمارے ہوا بازوں نے بالکل ایک فدائی انداز کے ساتھ جا کر حملے کیے، اپنے سرحدات کو بھی محفوظ رکھا ان کے کسی جہاز کو پاکستان میں انے نہیں دیا مکمل سرحد ان کے کنٹرول میں تھا اور خود ان کے ملک کے اندر جا کر انہوں نے ٹھیک ٹھاک اپنی نشانے جو ہے وہ حاصل کیے تو اس ساری صورتحال میں جو اس وقت جنگی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے پاکستان کے فوجوں نے تو یہ چھوٹی طاقت ہونے کے باوجود جس جذبے کے ساتھ پاکستانی لڑا ہے اور میں تو سمجھتا ہوں کہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ جس نے پاکستان کو عزت دی اور اس جنگ میں آج ہمارے پوری قوم کے سر فخر سے بلند ہیں اور اس پر ہم اپنی فوج کی اس جرآت کو سلام پیش کرتے ہیں۔

اینکر: مولانا صاحب آپ کی انڈیا کی سیاست پر بھی گہری نظر ہے جمعیت علماء اسلام کی لمبی تاریخ ہے جمعیت علماء ہند سے شروع ہوتی ہے کیا واقعی نریندر مودی کا سیاسی زوال اب شروع ہو گیا اس ایپیسوڈ کے بعد آپ کے خیال میں؟

مولانا صاحب: "ناٹ نریندر بٹ سرنڈر"۔ تو بات بنیادی یہ ہے کہ وہ سرنڈر کر چکا ہے اور جس بھونڈے انداز کے ساتھ اس نے ہندوتوا کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی، بری طرح فیل ہو گیا ہے۔ تو اب تو ظاہر ہے کہ اس کا زوال طے ہے بلکہ میں تو سوچتا ہوں کہ اگر وہ اپنی زوال کو سمجھتا ہے اور اس کو ملک کے اندر سے کچھ تجزیہ ہے تو اس کو ابھی سے استعفیٰ دے دینا چاہیے اور نئے الیکشن کرا دینے چاہیے تاکہ ہندوستان کے عوام کی حقیقی حکومت وہاں وجود میں آجائے۔

اینکر: اب مسئلہ یہ ہے مولانا صاحب جس طرح آپ نے کہا ناٹ نریندر بٹ سرنڈر اب ایشو یہ ہے کہ اگر وہ کچھ نہیں کرتے تو انہوں نے ایک جنگی جنون کا جو ایک ماحول بنا دیا تھا بہت زیادہ پریشر ان کی اپنی عوام کا اپنا میڈیا ان سے سوالات پوچھ رہا ہے کہ آپ نے رافیل خریدے تھے جو چوزوں کی طرح گر رہے تھے اس سے ہمیں بچانا تھا اور اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو اوپر امریکہ بہادر ہے اور ٹرمپ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے چھوڑنا نہیں ہے پھنس چکے ہیں اس وقت ٹریپ ہو چکے ہیں۔

مولانا صاحب: وہ ٹریپ تو ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی بہرحال جس طرح ان پہ تنقید ہو رہی ہے اس طرح یعنی ان کی فوج ان کی پوری دفاعی قوت ایک ذہنی دباؤ میں ہے اس وقت، تو ظاہر ہے کہ صرف جنگ بندی ہی ہوئی ہے مزید اگے تو کچھ نہیں ہوا کوئی باضابطہ مذاکرات کوئی دستخط کوئی چیز موجود نہیں ہے تو ان حالات میں ہماری فوج کو مسلسل الرٹ رہنا چاہیے، چوکس رہنا چاہیے، ہوشیار رہنا چاہیے اور اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ کسی وقت بھی اگر ہندوستان جارحیت کرتا ہے جنگ بندی توڑتا ہے تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔

اینکر: اچھا مولانا صاحب کے پی ہو یا بلوچستان ہو اس بات کے ثبوت پاکستان بار بار دنیا کے سامنے پیش کر چکا ہے اور ان دونوں صوبوں میں آپ کی جماعت کی اچھی خاصی اکثریت ہے عوام میں اگر الیکشن میں جس طرح آپ کے گلے ہیں کہ آپ کو نہیں انے دیا گیا وہاں پر یہ دراندازی جو انڈیا کی ہو رہی ہے اس کو روکنے کا کیا طریقہ ہوگا کیا یہ پراکسی وار جو انڈیا لڑ رہا ہے چاہے وہ بی ایل اے کو سپورٹ کر رہا ہے یا دوسری طرف خوارج کو سپورٹ کر رہا ہے جو کہ آپ کی پارٹی کے کئی کارکنان رہنما ان کی شہادتیں اس میں ہو چکی ہیں؟

مولانا صاحب: دیکھیے یہ کہ یہ پراکسی وار ہے اور بلوچستان کے اندر ہو یا کے پی کے اندر ہو جو مسلح تنظیمیں ہیں اور مسلح تنظیموں کے علاوہ وہ تنظیمیں جو قوم پرست بھی ہیں اور جو اسلحے کے بغیر مظاہرے کر رہے ہیں یا جلسے کرتے ہیں سو وہ بھی کوئی ملک کے ساتھ وابستہ رہنے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ کچھ علیحدگی اور اس قسم کی گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ تو اس حوالے سے جمیعت علماء اسلام کی پوزیشن بڑی واضح ہے کہ بھئی جنگ کہاں سے شروع ہوئی ہے، جنگ شروع ہوئی ہے حقوق سے، اب بلوچستان کے جو حقوق ہیں ظاہر ہے کہ چھوٹے صوبے ہمیشہ شاکی تو رہے ہیں، ہمارے صوبہ خیبر پختون خواہ میں بھی ہمیں اپنے وسائل کے حوالے سے گلے شکوے رہے ہیں اور ہمارے بلوچستان کے بھی شکوے رہے ہیں ایون کہ سندھ کی بھی شکوے رہے ہیں ایسے حالات میں اگر حکومت متنازعہ کرتی ہے معاملات کو، تو جب ایک طرف ہم ہندوستان کے مقابلے میں محاذ پہ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ہم داخلی طور پر اس قسم کے مسائل اٹھاتے ہیں جیسے نہروں کا مسئلہ اب ظاہر ہے جی کہ صوبہ سندھ اس کو قبول نہیں کر رہا جیسے کہ آپ نے مائنز اینڈ منرل ایکٹ جو ہے وہ لائے ہیں بلوچستان میں پاس کیا صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی ارادہ ہے ان کا، تو یہ چیزیں وہ ہوتی ہیں کہ جو معاملات کو متنازع کر دیتے ہیں اور ہمیں داخلی خلفشار کے حوالے کر دیتی ہے۔ اس وقت دینی مدارس کا بھی معاملہ ہے کہ ہمارے ساتھ باقاعدہ معاہدات ہوئے قانون پاس ہو گیا، آرڈیننس آگئے اور ابھی آرڈیننسوں کو ہی توسیع دی جا رہی ہے اور نہ صوبوں میں قانون سازی ہو رہی ہے۔

اینکر: چھبیسویں آئینی ترمیم کے وقت آپ سے وعدہ بھی ہوا تھا اور ابھی تک نہیں ہوا؟

مولانا صاحب: تو اس قسم کی چیزیں ہمارے ان کے داخلی مشکلات کا سبب بنتی ہے اور داخلی مشکلات ہمیشہ دفاع میں مشکلات پیدا کرتی ہیں یہ تو ہمارا دل گردہ ہے کہ ہم نے ان حالات میں اپنی گلے شکوے چھوڑ کر وطن عزیز کی دفاع کے لیے اور اپنے دفاع قوت کو سپورٹ کیا اور ان کا ساتھ دیا تو اب ان کا بھی فرض ہے حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ داخلی معاملات کی طرف جو ہیں اور ان کو ٹھیک کریں اگر بلوچوں کا مطالبہ ہے مسنگ پرسنز کا لاپتا لوگوں کا تو ان کا حق بجانب ہے اور میں آپ کو یہ بات بتا دوں جی کہ لاپتہ لوگوں کے حوالے سے سب سے پہلی تقریر وہ میزان چوک پر میری ہے جب میں نے پورے قوت کے ساتھ یہ کہا تھا کہ آپ زیادتی کر رہے ہیں عام آدمی کے ساتھ، اور اس طرح ہمارے صوبے میں بھی لوگ ہیں لاپتہ ہے، تو ظاہر ہے کہ ان کے گھر ہیں ان کے پیارے ہیں ان کی سوچ ہے کہ بھئی ہمارا اور اس سے شرعی مسائل وابستہ ہیں کچھ پتہ نہیں کہ لاپتہ کہاں ہے زندہ ہے یا نہیں، اگر وہ زندہ نہیں ہے بالفرض تو پھر اس کی بیوی جو ہے بیوہ ہے کیا وہ کسی اور جگہ نکاح کر سکتی ہے یا نہیں کر سکتی اس پریشانی میں وقت گزار رہی ہے، پھر ان کی وراثت ہے وراثت کی تقسیم ہے رشتہ داروں میں اب وہ زندہ ہے یا مردہ ہے لوگ کیا کریں، ان کی جائیداد کا کیا کریں، ان کی میراث کا کیا کریں، اتنے خاندانی معاملات اس سے پیدا ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں کہ ابھی تک لوگوں کو پتہ نہیں چل رہا کہ اب ہم کریں کیا، تو یہ گھروں کے اندر بھی تنازعات کا سبب بنتا ہے۔

اینکر: قطع کلامی کی معافی لیکن مسنگ پرسنز والا معاملہ جو ہے اس میں سے ہم نے بہت سارے ایسے ایپیسوڈز بھی دیکھے ہیں کہ جو لوگ مارے گئے ہیں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ لڑتے ہوئے، بی ایل اے کے لوگ وہ ان کا مسنگ پرسنز میں نام تھا حکومتی ورژن ایک یہ بھی ہے۔

مولانا صاحب: یہ چھوٹی چیزیں ہیں یہ ہوتا رہے گا بہت سی چیزوں کا وہ مطالبہ کریں گے پتہ لگے گا وہ تو زندہ ہی نہیں ہے، بہت سے لوگوں کا ہوگا کہ بھئی وہ تو مر چکے ہیں پتہ لگے گا وہ تو زندہ ہے، کسی کا ہم کہیں گے وہ لاپتہ ہے لیکن پتہ نہیں وہ ایران میں ہے کہ بلوچستان میں ہے کے پی میں ہیں کدھر ہے، کہاں ہے کہاں نہیں ہے یہ چیزیں ا سکتی ہیں اس کا امکانات ہے لیکن بنیادی طور پر مسئلہ تو ہے نا، اس مسئلے کو حل تو کرنا ہے انہوں نے۔

اینکر: حل کیا ہے مولانا صاحب، کیا سجیسٹ کریں گے آپ؟

مولانا صاحب: حل یہی ہے کہ ان لوگوں کو باقاعدہ ایف ائی آر درج کر کے عدالتوں میں لایا جائے اور پبلک کو بتایا جائے کہ بھئی ان کے خلاف یہ کیس ہے یہ کیس ہے یہ کیس ہے تو جس نوعیت کا جو کیس ہوگا اسی نوعیت کے مقدمہ کا پتہ تو چل جائے گا نا، کہ فلانا جیل میں ہے فلانا حوالات میں ہے یا فلانا تھانے میں ہے پیارے ائیں گے گھر کے ان کے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے، کم از کم یہ پتہ تو چل جائے گا کہ انسان ہے، ہمارے رشتہ دار ہیں فلانا فلانا

اینکر: مولانا صاحب خطے کی طرف دوبارہ اتے ہیں، پاکستان کا یہ دعویٰ ہے کہ افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے انفرنٹیشن میں چاہے وہ خوارج ہو چاہے وہ بی ایل اے ہو چاہے باقی دہشت گرد تنظیمیں ہوں اور اس کے ثبوت بھی بار بار دیے گئے ہیں ابھی پچھلے دنوں بارڈر پر تقریبا ستر اکہتر لوگوں کو جو ہے فوج نے اندر انے میں جب وہ گھسنے کی کوشش کر رہے تھے ان کو مارا، افغانستان کے ساتھ امن جو ہے وہ تو افغانستان ہمارا برادر ملک ہے ایک تاریخ ہے دونوں ممالک کی، کیا کیا جائے ؟

مولانا صاحب: دیکھیے اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اس قسم کے ناخوشگوار واقعات ہوئے ہیں چاہے فوج نے ان کو مارا ہے یا انہوں نے فوج کو مارا ہے اور دونوں جو ہے اور ایک دوسرے پر وار کرتے ہیں تو بڑے فاخرانہ انداز کے ساتھ اس کو پیش بھی کرتے ہیں یہ ایک مستقل مسئلہ ہے لیکن اس حوالے سے افغانستان کا مسئلہ ہے افغانستان ایک ملک ہے ایک وطن ہے ہم نے پاکستان افغانستان کے تعلقات کی اہمیت کو بھی دیکھنا ہے ہم نے دونوں ملکوں کے لیے تعلقات کی افادیت کو بھی دیکھنا ہے تو ظاہر ہے کہ اگر ہم ایک دوسرے کے لیے اہم ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ہماری افادیت جو ہے وہ مسلم ہے تو ہمیں اس ترجیح کو سامنے رکھنا چاہیے اور معاملات کو ڈیل کرنا چاہیے جہاں تک افغانستان کے بارے میں میری معلومات ہیں وہ مسلح جنگ کو جہاد نہیں کہہ رہے۔

اینکر: ٹھیک جو پاکستان میں ہو رہی ہے؟

مولانا صاحب: پاکستان میں ہو رہی ہے یا پاکستان سے باہر ہو۔

اینکر: اسے وہ جہاد نہیں سمجھتے؟

مولانا صاحب: پاکستان کے علماء نے بھی باقاعدہ فتویٰ دیا ہے کہ پاکستان کے اندر مسلح جہاد از روئے شریعت جائز نہیں ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تو اب یہ ساری چیزیں جب وہاں کے علماء اور یہاں کے علماء ایک مسئلے پر متفق ہیں تو پھر وہ تنظیمیں یا وہ لوگ جنہوں نے ان کے ہاتھ پہ بیعت کی ہے اور اس کا احترام تو کریں، ہماری بات کا احترام نہ کرے ان کی باتوں کا احترام تو کریں۔ لیکن یہ ایک مسئلہ ہے تمام مسائل کو لے کر جو دو ملکوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ہمارے مدنظر ہیں ہمیں ان سارے معاملات کو دیکھنا ہے افغانستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس میں پاکستان کو سرمایہ کاری کرنے، تجارت کرنے، افغانستان کے ساتھ بہت سے خارجہ معاملات کے حوالے سے یکجہتی پیدا کرنے کا وقت ہے اگر چین اور روس ایک دوسرے سے پہل کر کے افغانستان میں جا کر ان کے ساتھ دوستی کر رہے ہیں پھر وہ افغانستان جس نے چودہ سال روس کی خلاف جنگ لڑی ہے سویت یونین کو توڑا ہے وہ تو ان سارے دشمنیوں کو بھول کر آ رہا ہے اور وہاں پر ان کے ساتھ تعلقات بنا رہا ہے۔ امریکہ جو 1979 سے جہاد افغانستان کے تائید میں اور پھر اس کے بعد کرزئی اور اشرف غنی کی تائید میں اور پھر افغانستان میں مداخلت کر کے طالبان کے خلاف لڑتے لڑتے آج اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ وہاں ایک سفارت خانہ تو ہوگا، شاید وہاں ان کے کچھ اداروں کے لوگ بھی موجود ہوں گے لیکن اس کی سیاسی اثرات وہاں ختم ہو چکے ہیں۔

اینکر: افغانستان میں؟

مولانا صاحب: جی افغانستان میں، اگر آپ کو ختم کا لفظ صحیح نہیں لگ رہا تو کم از کم ہو گئے اور روس اور چین جو ہے ان کے وہاں پر مفادات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ایسے وقت میں پاکستان جو ہے وہ سفارتی حوالے سے، سیاسی حوالے سے، اقتصادی حوالے سے سوچے اور معاملات کو ٹھیک کرے۔

اینکر: مولانا صاحب پاکستان تو چاہتا بھی یہی ہے آفیشل ورژن کو اگر دیکھیں اور افغان طالبان کے ساتھ تو سب سے زیادہ قریبی تعلق ہی پاکستان کر رہا ہے جس کی لمبی تاریخ ہے دنیا ان کے ساتھ ہمیں جوڑتی رہی ہے ان کی وجہ سے ہمیں انٹرنیشنلی سزا بھی ملی اور جزا بھی ملی ہے لیکن اگر وہاں سے مداخلت ہو رہی ہے اور وہ لوگ نہیں روک پا رہے یا صلاحیت نہیں رکھتے یا جو بھی اس کی وجوہات ہیں تو پھر پاکستان کا گلا تو جائز بنتا ہے۔

مولانا صاحب: گلہ بنتا ہے لیکن بات یہ ہے بنیادی کہ پس منظر کو بھی دیکھنا چاہیے صدیوں سے پاکستان افغانستان کے سرحدات اور اس کے نوعیت کو بھی دیکھنا چاہیے، صدیوں سے افغان قوم اور پاکستان میں پشتون قوم ان کے باہمی روابط و تعلقات اور اس کے نوعیت کو بھی دیکھنا چاہیے اور پھر یہ جو دو چار دہائیوں سے افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہیں۔ تو میں نے اسی لیے کہا کہ یہ سارے معاملات باہمی روابط کے ساتھ ٹھیک ہو سکتے ہیں اور ممکن ہے میرا یہ گمان ہے جو کچھ ہو رہا ہے یہاں افغان گورنمنٹ اس کے حق میں نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی ہو رہا ہے مطلب یہ کہ نہ تو افغانستان کی ابھی تک اتنی فوج منظم ہے کہ وہ سرحدات کو کنٹرول کر سکے نہ اس کی اتنی بڑی انٹیلیجنس نیٹ ورک اب تک موجود ہے کہ وہ اس نیٹ ورک کے ذریعے سے ان کا پیچھا کر سکے اور ان کو کنٹرول کر سکے اور پاکستان کے پاس یہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں۔ تو اس ساری صورتحال میں ہم نے بڑے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے چھوٹے موٹے شکایات کو اس کے اپنے لیول پہ طے کرنا ہے اور ہم حل کر سکتے ہیں اس کو پاکستان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے۔

اینکر: پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد آپ کا نہیں ہو پایا اور اس کی بہت ساری وجوہات جو ہیں آف دی ریکارڈ بھی ہمیں پتہ ہے اور آن دی ریکارڈ آپ ایکسپلین کر چکے ہیں بنیادی وجہ کیا ہے کہ پی ٹی ائی کے ساتھ جے یو آئی اتحاد میں نہیں جا سکتی؟

مولانا صاحب: دیکھیے یہ ساری باتیں ہم ایک سال سے کرتے رہے ہیں اور ہم نے ان سے یہی کہا کہ ہماری جماعت کی تنظیم سازی ہوئی ہے اور ہماری جو جنرل کونسل ہے جو پالیسی بناتی ہے اور اس کے منظوری دیتی ہے اس میں کوئی چودہ سو لوگ ہیں ہمارے پاس، تو ان کا اجلاس ہوا اور ہم نے ان کو بتایا کہ فیصلہ وہی کرے گا اور اس کا اجلاس ہوا اور کوئی ایک ہزار تک ہمارے مندوب پورے ملک سے ائے تھے، دو دن تک ہم اس تمام صورتحال پہ غور کرتے رہے، سارے تجزیوں کے بعد طے یہی ہوا کہ جمیعت علمائے اسلام اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رہے گی یعنی سیاسی جدوجہد، نظریات کے لیے وغیرہ اور جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے یعنی بڑی اپوزیشن تو پی ٹی ائی ہی ہے تو روزمرہ کے معاملات پر ان کے ساتھ اشتراک عمل ہو سکتا ہے۔

اینکر: لیکن ایک سٹیج پر نہیں؟

مولانا صاحب: عمومی طور پر کوئی ایسا اتحاد نہیں ہے، لیکن اگر اسمبلی میں کوئی مسئلہ اتا ہے کوئی پریس کانفرنس ہوتی ہے کہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔

اینکر: تو اس کا مولانا صاحب بنیادی وجہ کیا آپ کے کارکن کا مائنڈ سیٹ ہے یا ماضی جو ماضی میں پی ٹی آئی کا ایک رویہ رہا ہے آپ کے اکابرین کے ساتھ بنیادی وجہ اس کی کیا ہے یا یا ایک دوسری وجہ کہ آپ کے پاس پی ٹی ائی کے اگر بیس لوگ ملنے اتے ہیں اور سب کہتے ہیں کہ ہم عمران خان صاحب کا پیغام لے کے ائے ہیں ہر ایک پیغام مختلف ہوتا ہے۔

مولانا صاحب: بنیادی وجہ تو آپ نے بتایا کہ وہ یکسوئی موجود نہیں ہے باہر کہ جس یکسوئی کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی حتمی بات کی جا سکے اصل بات بالکل یہی ہے جو آپ نے فرمائی، باقی سیاسی طور پر حضرت آپ برصغیر کی تاریخ کو دیکھیں ہم نے دو تین سو سال انگریز کے خلاف جنگ لڑی ہے کتنے نقصانات ہم نے اٹھائے ہیں، پچاس ہزار علماء کرام کو پھانسیوں پہ چڑھایا گیا، توپوں سے اڑا دیا گیا، پھر بھی ایک وقت آیا مذاکرات ہوئی ہیں ہمارے حضرات بڑے جو ہیں وہ انگریز کے ساتھ بھی بیٹھے ہیں، کانگریس کے ساتھ بھی بیٹھے اور پھر مخالفین کے ساتھ بھی بیٹھے پاکستان کی تاریخ دیکھ لیں یعنی کتنی بڑی تحریک ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چلی جب دھاندلی کا مسئلہ سامنے آیا لیکن ایک وقت آیا کہ ہمارے حضرات نے سوچا کہ جو بھٹو صاحب کے اور ہمارے درمیان معاملات طے ہو چکے تھے اور انہوں نے دستخط کرنے تھے تو اگر ضیاء الحق صاحب اس پر عمل کر لیتا اور اسی معاہدے کے تحت الیکشن کرا دیتا تو ٹھیک، لیکن جب وہ نہیں کر رہا اور وہ مسلسل الیکشن کو ملتوی بھی کر رہا ہے ہم نے اگر اس میں تعاون کرنا تھا تو وہ فرض بھی ہم نے ادا کر لیا تو پھر ہم اپنے کمٹمنٹ کو واپس جاتے ہیں اور پھر اس کے بعد پیپلز پارٹی سے بھی رابطہ ہوا اور میٹنگیں بھی ہوئے، پیپلز پارٹی بھی بنی اور پیپل پارٹی سے مل کر جدوجہد بھی کی۔

اینکر: اب مولانا صاحب کیا پی ٹی آئی کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ یہ جو موجودہ حالات میں جو بھی اگر کسی کانفرنس کی بات ہوئی بریفنگ کی بات ہوئی وہ کہتے ہیں نہیں جی جب تک عمران خان کو آپ اس میں نہیں لائیں گے تو ہم نہیں شامل ہوں گے؟

مولانا صاحب: دیکھیں یہ میرے نزدیک کم از کم یہ سیاسی سوچ نہیں ہے، رائے ہے پالیسی ہے ان کے حالات ہوں گے وہ میں ان کو کوئی الزام نہیں دے رہا لیکن اس کو ایک سیاسی سوچ نہیں کہا جاتا، ہم جیلوں میں رہے ہیں تو جب باہر پارٹی معطل رہی ہے اور پارٹی میں باہر ہماری شوریٰ ہوتی تھی، ہماری عاملہ ہوتی تھی، ہماری جنرل کونسل ہوتی تھی، وہ بیٹھتی تھی فیصلے بھی کرتی تھی مجھے جیل میں اطلاع ملتی تھی کہ یہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے بس اس سے زیادہ نہیں تھا اور یہ کبھی نہیں ہوا کہ میں جیل میں ہوں میرے ہاتھ پاؤں بند ہوں میرے آزادی سلب ہو اور میں باہر کی پارٹی کو اسی طرح پابند رکھوں جس طرح کہ میں پابند ہوں تو میرے خیال میں یہ سیاسی حوالے سے تو اس کی مجھے کوئی جواز نہیں ملتا لیکن ان کی پارٹی کے اپنے حالات ہیں میں کسی پارٹی کے اندرونی حالات پر تو کوئی بات نہیں کر سکتا۔

اینکر: آج کی جو اے پی سی ملتوی ہوئی مولانا صاحب وجوہات کوئی بتائے گا اس کی یا دوبارہ ہوگی؟

مولانا صاحب: مجھے صرف اطلاع ملی کل رات کو کہ کل ایک بجے یا ڈیڑھ بجے پرائم منسٹر صاحب نے اے پی سی بلائی ہے اور تمام پارٹیوں کو بلایا ہے اور موجودہ حالات ان کو بریفنگ دے رہے ہیں اور صبح جب نماز کے لیے میں اٹھا تو نماز کے فوراً بعد میرے کان میں مجھے یہ بات کہی گئی کہ آج میٹنگ نہیں ہے بس اتنا مجھے پتہ ہے۔

اینکر: لیکن موجودہ حالات میں وقت کا تقاضا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس سربراہان کی حد تک تو بلائی جا سکتی ہے؟

مولانا صاحب: حضرت میں نے یہ تجویز پہلے پیش کی تھی کہ جس وقت پہلگام کا واقعہ ہوا اگر انڈیا میں آل پارٹیز بلائی جا سکتی ہے تو پاکستان میں بھی بلائی جائیں، اب مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے پہلی کیوں نہیں بلائی اور اب جو بلائے تو کیوں ملتوی کر دی یا تو یہ ہے کہ شاید کسی نے جانے سے انکار کیا ہوگا تو اس کی پھر خبر بنتی ہے تو اس کا فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے میڈیا کی دنیا میں اسی کو اڑایا جاتا ہے اور انڈیا کو بھی شاید کوئی بات کرنے کا موقع مل جاتا تو یہ ایک گمان ہے مجھے معلومات نہیں ہیں اس حوالے سے، تو ہم اتنا ضرور ہے کہ اگر ایسی کوئی میٹنگ ان حالات میں بلائی جاتی ہے تو ہم اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں ابھی نہیں، پہلگام کے واقعے کے فوراً بعد میں نے اس کی ضرورت محسوس کی تھی۔

اینکر: مولانا صاحب آخر میں اور پی ٹی ائی کو اس میں بطور پارٹی شریک ہونا چاہیے؟

مولانا صاحب: میرے خیال میں تو شریک ہونا چاہیے۔

اینکر: مولانا فضل الرحمان صاحب بہت بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

#teamJUIswat

Exclusive Interview | Dawn News

سربراہ جےیوآئی مولانا فضل الرحمان صاحب کا ڈان نیوز پر عادل شاہ زیب کے ساتھ خصوصی گفتگو #MaulanaFazlurRehman #juipakistan

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Tuesday, May 13, 2025

0/Post a Comment/Comments