مولانا فضل الرحمان صاحب کا ہم نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ خصوصی گفتگو

قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب کا ہم نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ خصوصی گفتگو

13 مئی 2025

عاصمہ شیرازی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ السلام علیکم۔ ناظرین میں ہوں عاصمہ شرازی پروگرام ہے فیصلہ آپ کا، آج ہمارا بہت خصوصی پروگرام ہے کیونکہ اس وقت جو خطے کی صورتحال ہے 10 مئی کے بعد وہ صورتحال بدل چکی ہے، ایک جنگ بندی ضرور پاکستان اور بھارت کے بیچ ہوئی ہے لیکن کیا یہ مستقل ہے اور اگر ہم ہندوستان کے وزیراعظم کے سٹیٹمنٹس دیکھیں تو لگتا ایسے ہے کہ ہندوستان ایڈونچریزم سے باز نہیں آئے گا، ان کے ڈیزائر کیا ہیں اس خطے کے اوپر تسلط کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن جو کہ مضبوط ہوئی ہے اس کے بعد اگلا مرحلہ کیا ہے، کیا مذاکرات کی میز کے اوپر پاکستان کا ایجنڈا جو ہے وہ کلیر ہے، اس کے اوپر کیسے آگے بڑھنا ہے، اس خطے کے اندر اپنا اثرورسوخ کیسے برقرار رکھنا ہے اور پھر پاکستان کی جو انٹرنل پولٹکس ہے اس کے حوالے سے بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی جو کہ اب سینٹر سٹیج پہ آ چکا ہے، کہاں کہاں پاکستان کو اپنی پولیسیز کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا پڑے گا، ایک مشکل دور ہے اس پہ پاکستان کی جو قومی قیادت ہے وہ کیا سوچتی ہے اور اس سلسلے کو آگے کیسے بڑھانا چاہتی ہے، کیا کوئی مشاورت ہوگی جو انٹرنل پولٹکس ہے اس کے اندر استحکام کی کتنی ضرورت ہے، بہت سارے موضوعات ہیں لیکن ہمارے ساتھ موجود ہیں جناب مولانا فضل الرحمان صاحب، سربراہ ہیں جمعیت علماء اسلام کے، کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں اور انہوں نے حال ہی میں جو تقریر کی ہے قوم کے سامنے جو ہیں وہ ضروری ہیں کہ ان پر مولانا صاحب سے بات بھی کی جائے۔ بہت شکریہ مولانا آپ نے ہمیں وقت دیا ہے۔

مولانا صاحب: بہت شکریہ۔

عاصمہ شیرازی: بہت شکریہ سر اور یہ جو میرا سوال پہلا تو یہی ہے، آپ کی تقریر ہم نے سنی اس پاک بھارت تناؤ کے بیچ میں اور اس کے اندر آپ نے بہت ساری توجہ جو ہے پاکستان کے قومی مسائل کے ساتھ ساتھ ریجنل ایشیوز کے اوپر بھی دلائی ہے، آپ کو کیا لگتا ہے ایک تو دس مئی کے بعد کا پاکستان کونسا کیسا پاکستان ہے، کتنا مضبوط پاکستان ہے، دفاعی اعتبار سے اور ہماری اندرونی جو صورتحال ہے اس کے اعتبار سے۔

مولانا صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمده و نصلي على رسولہ الکریم۔

10 مئی کے بعد ہم صورتحال کو صرف ایک پاکستان کے نظر سے نہیں دیکھ رہے بلکہ صورتحال ریجنلائز ہو گئی ہے اور اس کے جو خطرات خطے پر پڑے ہیں تو سب لوگ جو ہیں خطے کے سر جوڑ کے بیٹھے ہیں کہ اب آنے والے مستقبل کیا ہونا چاہیے یا کیا ہوگا، جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو ہندوستان نے ظاہر ہے کہ پہلگام کے واقعے کے فوراً بعد اور چند منٹوں کے اندر پاکستان پر اس کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کی اور اس کے عواقب کو دیکھے بغیر پھر انہوں نے سب سے پہلے سندھ طاس معاہدہ توڑا، اب سندھ طاس معاہدہ دو طرفہ ہے اور اس کے درمیان جو ہے ثالث اور ضامن وہ ورلڈ بینک ہے، ظاہر ہے اس طرح کے معاہدات یک طرفہ طور پر نہیں توڑے جا سکتے اور انہوں نے صرف یہ نہیں کہ عسکری قوت کے استعمال کی دھمکی دی بلکہ باقاعدہ آبی جارحیت کی اور انہوں نے ہماری دریائیں روکیں اور ہم پاکستان کو بنجر کر دیں گے اس کا پانی ہم روک دیں گے، یہ سارا کچھ کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کے سویلین علاقوں پر مساجد پر مدارس پر حملے کیے، بہاولپور میں ہو یا مُریدکے میں ہو یا آزاد کشمیر میں ہو یا ایل او سی کے اوپر ہو اور بے گناہ عام شہریوں کو شہید کیا انہوں نے، تو اس سارے منظرنامے میں ہندوستان کو اور مودی صاحب کو اپنے ملک میں تائید نہیں ملی اور وہاں کی اپوزیشن نے بھی ان سے اختلاف کیا اور آل پارٹیز کانفرنس بلا کر بھی یعنی انہوں نے ان کے رویوں کو سراہا نہیں اس سے اختلاف رائے ہوا، مسلمانوں نے اور مسلمان تنظیموں نے وہاں ان سے اختلاف کیا اور پاکستان میں اس کے برعکس یہاں پر یکجہتی آئی، میں نے اس وقت بھی فوری طور پر جو بیان دیا ہر چند کہ ہمارے یہاں اختلافات ہیں، ہماری پارٹی خود اپوزیشن میں بیٹھی ہے، الیکشن اور اس کے نتائج پر ہمارے سوالات ہیں اور بہت سے معاملات پاکستان کے اندر ہیں جس کا میں بعد میں شاید تذکرہ کروں گا لیکن دفاع وطن کے لئے قوم ایک صف ہوئی، کچھ لوگ تو بلکہ عوام اور تمام مذہبی تنظیمیں ہو سیاسی تنظیمیں ہو یا مدارس ہو بیک آواز وہ اپنے فوج کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور ملکی دفاع کے لئے ایک صف بن گئی، اگر کسی کو بہت زیادہ گریونسز تھی یا بہت زیادہ کسی کو شکایات تھی تو وہ بھی خاموش ہو گئے انہوں نے اس خاموشی کے ذریعے سے یہ کردار ادا کیا کہ وہ وطن کے لئے سنجیدہ ہیں اور اس پر کوئی کمپرومائز کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، تو اس سارے صورتحال میں اب ظاہر ہے کہ اس کے اندر کشمیر کا مسئلہ بذات خود اجاگر ہوا ہے اور بہتر انداز کے ساتھ اجاگر ہوا ہے اور اب اگر عالمی برادری ہو یا علاقائی قوتیں ہوں وہ جب بھی ہندوستان پاکستان کے بیچ میں اگر کوئی مذاکرات کی بات کریں گے تو کشمیر کو اب نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا، تو یہ غلطی خود نریندر مودی نے کی ہے اور انہوں نے غلط سٹپ اٹھائے ہیں اور اب جب ان کو جنگ میں شکست ہوئی ہے یعنی کہ ایک پاکستان سے سات آٹھ گنا زیادہ بڑی ہماری خطے کی فوجی قوت اور اس کے جو وسائل ہیں اس کے جو ریزرو ہیں وہ پاکستان کو اس کے ساتھ نسبت ہی نہیں رکھتا، لیکن اس کے باوجود جب انہوں نے پاکستان کی طرف جارحانہ نظروں سے دیکھا جارحانہ ارادوں سے دیکھا اور پھر پاکستان نے جس طریقے سے دفاع کیا خاص طور پر ہمارے جو ہواباز ہیں جانباز، انہوں نے جس طرح اسے جواب دیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان کا غرور خاک میں ملا دیا ہے اور مغرب کو بھی ایک درس ملا ہے کہ مغرب کی جو ٹیکنالوجی انڈیا کے پاس تھی یا ان کے جو دفاعی استعداد اور صلاحیتیں انڈیا کے پاس تھی وہ سب ناکام ہو گئی اور پاکستان کے پاس جو ایشین صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں تو وہ کامیاب ہو گئیں، تو اس سے ایک موازنہ بھی دنیا میں سامنے آ گیا کہ ایشین اس حوالے سے اور پھر چائنا بالخصوص اور پاکستان چائنا دوستی کا اس مرحلے پر جو اظہار ہوا تو اس نے ایک بہت اچھا منظر پیش کیا ہے، مغرب کو امریکہ تک جا کر یہ احساس ہوا ہے کہ ہمارے رویے جو ہیں وہ ترقی پذیر دنیا کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے اور پاکستان کو ہم جتنا کمزور سمجھتے تھے ایسا نہیں ہے کہ وہ اتنا تنہا ہے یا اتنا کمزور ہے، تو تاہم جو جنگ بندی میں سعودی عرب نے کردار ادا کیا تو ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ٹھیک ہے ہم جنگ نہیں چاہتے تھے پاکستان تو بالکل بھی جنگ نہیں چاہتا تھا لیکن پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی اور جب مسلط کی گئی تو پھر دفاع تو ہمارا حق تھا، تو ہم نے دفاعی جنگ لڑی ہے اور کامیاب جنگ لڑی ہے۔

عاصمہ شیرازی: اب اس سے پہلے کہ جو ایک پوری دنیا کا توازن بگڑا ہے یعنی جیسے آپ نے خود بھی کہا کہ خطے میں ہی نہیں بلکہ چین بھی ایک ہمارے ساتھ تھا تو ایک توازن سمجھ میں آگیا کہ کہاں پہ یہ پلڑا بھاری ہوا ہے چین کا، دوسری طرف آپ نے کہا کشمیر سینٹر سٹیج پہ آگیا آپ کی تقریر میں آپ نے کہا بہت ساری چیزیں کرنے کی ہیں، اب مولانا صاحب وہ مرحلہ ہے جہاں پہ میز پہ جنگ ہوگی، ہم نے تاریخ میں میز پہ جنگیں ہاری ہیں تو آپ اس کو کس طرح سے دیکھتے ہیں کہ کیا وہ چیزیں ہیں جو کہ پاکستان کو اب آگے لے کے چلنی ہیں، کس طرح سے کشمیر کے سینٹر سٹیج کو اسی طرح رکھنا ہے اور جیتنا ہے۔

مولانا صاحب: ہمیں اس حوالے سے اپنی سٹریٹجک پوزیشن کو بھی دیکھنا ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ انڈیا کے عزائم کیا ہیں، انڈیا کے عزائم واضح طور پر یہ ہے کہ وہ پورا کشمیر اور گلگت بلتستان اس کو ہندوستان کا حصہ سمجھتے ہیں اور وہ اس پورے خطے کو اپنے زیرنگیں لانے کی کوشش کر رہا ہے یعنی حتمی اور آخری سوچ ان کی یہی ہے، تو جتنی بھی اگر خدا نہ کرے وہ کوئی پیش رفت کرے گا تو ان کا ایجنڈا یہ پورا خطہ ہے جس کے ذریعے سے پاکستان اور چائنا کے درمیان رابطہ ٹوٹ جائے گا، اس رابطہ کو بھی وہ توڑنا چاہتا ہے، اس حوالے سے جو لوگ خود مختار کشمیر کی بات کرتے ہیں ان کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خود مختار کشمیر کے ذریعے سے بھی چین اور پاکستان اور کشمیر رابطے ٹوٹ جائیں گے اور پھر ایک نئی صورت دنیا میں سامنے آئے گی جو کسی طرح بھی پاکستان کے اور چین کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ جہاں تک ہے تو کشمیر کا مسئلہ تو کشمیر کا جو آغاز ہوا ہے مسئلے کا یہ تقسیم ہند کے ساتھ ہوا ہے، تقسیم ہند کے دوران پانچ سو سے زیادہ ریاستیں برصغیر میں تھیں اور ان سب کو اتفاق رائے کے ساتھ اختیار دیا گیا، ان کے نوابوں کو، ان کے راجوں کو کہ وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ ان کی ریاست وہ پاکستان کے ساتھ جائے گا یا ان کی ریاست ہندوستان کے ساتھ جائے گا، اس اعتبار سے اگر ہم یہ بات آج کرتے ہیں کہ یہ خود مختار تو کل پانچ سو ریاستیں اٹھیں گی اور وہ کہیں گے کہ یہ تیسرا آپشن اگر ان کو مل سکتا ہے تو پھر ہمیں بھی ملنا چاہیے جی، اس کا متحمل پھر نہ پاکستان ہو سکتا ہے نہ انڈیا ہو سکتا ہے جی، یعنی یہ ایک عجیب سیاسی صورتحال بن جاتی ہے، تو یہ وہ عوامل ہیں کہ جس کے تحت الحاق پاکستان وہ کشمیر کے لئے ضروری ہے اور اس موقف پر پاکستان کو رہنا چاہیے اور جو تقسیم کی اصول اور بنیاد ہیں ان کو سامنے رکھ کر ہمیں سوچنا چاہیے، اب ظاہر ہے جی راجاؤں نے یا نوابوں نے جو بھی فیصلے کیے لیکن اقوام متحدہ میں بات چلی گئی اور اقوام متحدہ میں بات ہم نہیں لے گئے نہرو جی لے کر گئے تھے اور ہندوستان کی طرف سے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی جس کے رو سے کشمیری عوام کو حق دے دیا گیا کہ وہ فیصلہ کرے گا، اب مقبوضہ کشمیر کے اندر مودی نے اپنے پورے اقتدار کے دورانیے میں یہ کوشش کی ہے کہ وہاں پر آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا جائے، ڈیموگرافی تبدیل کر دی جائے اور اس کے باوجود کیونکہ اس نے سب کچھ انتظام کیا بڑا پیسہ خرچ کیا انہوں نے کشمیر میں لیکن اب جو الیکشن ہوئے تو اس الیکشن میں جو کشمیری عوام نے ردعمل دیا ہے اس سے تو ان کی کمر ٹوٹ گئی چکی، اب ہندوستان کے اندر بھی ان کو اس دفعہ اکثریت نہیں ملی، اتحادیوں کے ساتھ بھی اگر اس نے کمزور حکومت بنائی ہے پھر کشمیر کے اندر بھی ان کو دھچکہ لگا، اس پہلگام کے واقعے سے اس نے ایک ہندوتوا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی اور ان کا خیال یہ تھا کہ میں دوبارہ ہندو مسلمان کا سوال پیدا کر کے پورے ہندوستان کے ہندو کو اپنے پشت پہ لا کھڑا کر دوں گا، بطور کارڈ اس نے یہ ساری چیزی سیاسی طور پر استعمال کی ہے یہی وجہ ہے ہندوستان کی سیاست دانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور انہوں نے بھی اس کا ادراک کیا کہ یہ اس کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے یہ کوئی ہندوستان کے مفاد کیلئے نہیں کر رہا ورنہ اس قسم کے واقعے تو بہت ہوئے ہیں اور کچھ دن ناراضگیاں ہوتی تھیں پھر رابطے ہو جاتے تھے معاملہ ختم ہو جاتا تھا، تو مودی صاحب نے جو فیصلے کیے قدم قدم پر انہوں نے غلط فیصلے کیے، ان پر قوم کے اتفاق رائے نہیں ہوا اور پاکستان کے اندر یکسوئی آگئی اور پوری قوم ایک صف ہو کر انہوں نے دفاع کا حق ادا کیا ہے۔

عاصمہ شیرازی: امریکہ کے کردار کو مولانا آپ کیسے دیکھتے ہیں کیونکہ ایک ایسے ٹائم پہ سیز فائر کی بات امریکہ کی جانب سے آئی، ثالثی کی بات ہوئی، کشمیر پہ جس کو ہندوستان کبھی نہیں مانتا تھا اس وقت مودی جی کے اوپر بہت تنقید ہو رہی ہے، تو کیا امریکہ نے ایسے ٹائم پہ جب وہ شکست کھا رہا تھا اس کو ریسکیو کیا ہے بھارت کو اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ طویل جنگ کا آغاز ہے جس کا اشارہ نریندر مودی کر رہے ہیں۔

مولانا صاحب: دیکھیے امریکہ اب ظاہر ہے کہ افغانستان کے شکست کے بعد اس کا وہ رعب و دبدبہ نہیں رہا ہے اب وہ پیسوں کا کھیل کھیل رہا ہے ساری دنیا میں، میرے پاس انویسٹمنٹ کرو، میں انویسٹمنٹ کرنے کے لئے آ رہا ہوں، تو انویسٹمنٹ ہی کی پالیسی کی طرف وہ جا رہا ہے اور اب وہ بھی کہہ رہا ہے کہ کشمیر جو ہے وہ پھر ایک ایجنڈے پہ سامنے آ گیا ہے بلکل اسی طریقے سے جس طرح کہ فلسطین جو ہے وہ پبلک کے ایجنڈے پہ آ گیا سامنے، تو جس طرح  وہاں پر ڈیڑھ سال کی جو وہاں جدوجہد ہے قربانیاں ہیں اب اس کو ہم اس نظر سے بھی دیکھیں کہ امریکہ ہو اقوام متحدہ ہو جنیوا انسان حقوق کنونشن اس کا چارٹر ہو وہ سب اس بات کی طرف دیکھیں کہ اسرائیل نے جو کچھ کیا ہے وہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کے خلاف کیا ہے، سن 67 کے بعد جو اس نے قبضے کیا ہے آج تک اقوام متحدہ ان کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دے رہا ہے، پھر بین الاقوامی معاہدے اور انسانی حقوق کے تمام معاہدے کہہ رہے ہیں کہ جنگ میں آپ نے کسی ملک پر حملہ نہیں کرنا اگر ایسی حالت آ جاتی ہے آپ نے عام شہریوں پہ نہیں کرنا، آپ نے ہسپتالوں پہ نہیں کرنا، آپ نے سکولوں پہ نہیں کرنا، آپ نے آبادیوں پہ نہیں کرنا، لیکن یہاں پر تو پانی کے ذخائر پر ہوا، کیمپوں پر ہوا، ساٹھ ہزار لوگ۔۔۔ اس کا کون ذمہ دار ہوگا اور امریکہ جب اس کو سپورٹ کرے گا تو وہ انسانی المیے اور جنگی جرم میں شریک ہوگا، اگر صدام حسین کو ایک یا دو جگہوں پر آپریشن کر کے ان مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے پاداش میں ان کو پھانسی دی گئی تو اب نیتن یاہو کے بارے میں کیا سوچیں گے ہم، وہ جنگی مجرم ہے اور عالمی عدالت انصاف نے اس کو جنگی مجرم قرار دیا ہے اس کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے اور دنیا اس کے حکم پر کیوں عمل نہیں کر رہی، تو یہ ساری چیزیں اس وقت دنیا میں دوبارہ پلٹ رہی ہیں، صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور مشرق وسطی کی صورتحال بھی تبدیل ہوگی، ہمارے اس ساتھ کی دنیا جو ہے اس کے حالات بھی تبدیل ہوں گے، ایک نئی ایشیا کی تشکیل آنے والے مستقبل میں لازمی ہو جائے گی اور اس کے اپنے خدوخال ہوں گے، جہاں پر اگر امن ہے تو پھر امن کے لئے امن کے راستے اختیار کرنا ہوں گی۔

عاصمہ شیرازی: تو امریکہ جو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بات کر رہا ہے وہ محض آپ کو لگتا ہے کہ صرف اپنی اس علاقے میں چودھراہٹ کے لئے ہے یا وہ کر سکتا ہے؟

مولانا صاحب: امریکہ کے سمجھ میں یہ ہے کہ میں بڑی طاقت ہوں حالانکہ وہ اب ایک محوری قوت نہیں رہا ہے اب تو چین رشیا بہت لوگ آگے سامنے آگئے ہیں، نئی نئی تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں، برِکس وجود میں آگیا ہے، ایک ورلڈ بینک کے مقابلے میں چائنا کا بینک وجود میں آگیا ہے، اور ون بیلٹ ون روڈ کی پالیسی کے تحت پوری دنیا کے ساتھ معیشت اور ان کے ساتھ رابطے اور سڑکیں ان کے جال بچھانے کی ساری چیزیں اس وقت دنیا میں آ رہی ہیں اور یہی چیزیں جو ہے آنے والے مستقبل کو تبدیل کریں گی، اور خاص طور پر یہ جو پانی کا مسئلہ ہے وہ اب دوبارہ ایجنڈے پر آئے گا، ازسرنو آئے گا اور پاکستان کو ایک مضبوط موقف کے ساتھ میز پر بیٹھنا ہوگا۔

عاصمہ شیرازی: آپ نہیں سمجھتے کہ ہندوستان اس کی کوشش کر رہا تھا اور بارہا اس نے کی پچھلے چار پانچ برسوں کے اندر کے سندھ طاس کے معاہدے کو جو ہے دوبارہ سے دیکھا جائے اور پہلگام کے بعد وہ اس پوزیشن پر آ گیا کہ اس کے اوپر بات کرے، اگر یو این میں جاتی ہے بات یا امریکہ ثالثی کراتا ہے تو آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو اس کے اوپر جو ہے اپنا حق ماننا چاہئے، ہم نے سندھ طاس میں پہلے ہی تین دریا ان کو دیئے تھے، کیا اس کو ری نگوشیٹ ہم اپنے نظر سے کریں گے اور وہ اپنی نظر سے کریں گے یہ تو حالات پر بگڑ بھی سکتے ہیں ؟

مولانا صاحب: اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا کیونکہ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن بہرحال پاکستان کو اس پر غور کرنا ہوگا اور پانی کے حوالے سے ہندوستان جو روز روز ہمارا پانی روکتا ہے، ہمیں پانی روکنے کی دھمکیاں دیتا ہے، اس سے مستقل طور پر جان چھڑانے کے لیے کچھ نہ کچھ اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی ہوگی۔ 

عاصمہ شیرازی: یہ پاکستان کو اپنی بطور ریاست اپنی تبدیلی لانا پڑے گی اور اس میں چین کا کردار کیونکہ اگر وہ ہمارا روکتا ہے تو چین بھی تو اپر سائیڈ کے اوپر ہے اور پھر اس پوری جنگ کے اندر چین کا بے پناہ ان کا کردار ہے تو ہم کیا کس طرح سے خطے کے اندر پاکستان اور چین کا جو تعلق ہے وہ ایک نئی صف بندی کے صورت آپ کو لگتا ہے نظر آرہا ہے؟

مولانا صاحب: انڈیا نے اپنی حماقتوں کی وجہ سے چائنا اور پاکستان کو سٹریٹیجکلی ایک کر دیا ہے کیونکہ انڈیا نے سرحدات کا معاملہ چائنا کے ساتھ بھی چھیڑا، سرحدات کا معاملہ اس کا پاکستان کے ساتھ بھی ہے خاص طور پر کشمیر کی سرحدات کے حوالے سے، تو یہ ساری مشکلیں جو ہیں وہ اس نے خود اپنی طرف سے چین اور پاکستان کو ایک سٹریٹیجکلی پارٹنر قرار دے دیا ہے، امریکہ اس وقت پریشان ہے کیونکہ امریکہ جو ہے ماضی میں وہ یہ کہہ چکا ہے کہ انڈیا میرا سٹریٹیجک پارٹنر ہے، ظاہر ہے کہ اس کے نظر میں وہ انڈیا کو چائنا کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا اور اس حوالے سے اس کو مدد فراہم کرنا پھر پاکستان کو انہوں نے فرینڈ کہا اس کو سٹریٹیجک پارٹنر کہا تو فرق تو آ گیا ظاہر ہے جی، تو اس وقت اب اس کی سوچ تبدیل ہے وہ فلسطین کے بارے میں بھی سوچ تبدیل کرے گا، وہ کشمیر کے بارے میں بھی سوچ تبدیل کرے گا، اس خطے کے بارے میں بھی اپنے سوچ تبدیل کرے گا اور ازسرنو نئی پالیسیوں کے طرف متوجہ ہوگا پرانا رعب داب اور پرانے سلسلے اور پرانی سوچ اب آگے نہیں بڑھ سکے گی۔

عاصمہ شیرازی: اور اس میں کشمیر کی آپ جیسے بات کر رہے تھے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشمیر کی حوالے سے سینٹر سٹیج پہ آنا حکومت کی جو اب تک کی سٹریٹیجی ہے وہ آپ کو مناسب لگ رہی ہے کیونکہ مولانا حزب اختلاف کی طرف سے ہمیں یعنی پی ٹی آئی ہے آپ ہیں، پی ٹی آئی کی طرف سے ہمیں نظر نہیں آرہا کہ اس مسئلے کے اوپر وہ اس کو کس طرح سے گائیڈ کرے شیڈو کیبینٹ کے طور پر شیڈو گورنمنٹ کی طرف سے دیکھیں مگر آپ نے کچھ تجاویز اس میں رکھی ہیں سامنے۔

مولانا صاحب: دنیا میں اپوزیشن جو ہوتی ہے وہ ایک شیڈو گورنمنٹ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں نہیں ہوتی (قہقہہ) پاکستان میں کچھ معلوم نہیں پھر کون آتا ہے، جہاں تک ہے افغانستان کا مسئلہ تاریخی اعتبار سے پاکستان اور افغانستان ایک دوسری کے لیے بہت اہم ہیں اور ایک دوسرے پر بہت سے معاملات میں ڈیپنڈ کر رہے ہیں تو یہ تو بالکل واضح ہے کہ اب ڈیورنڈ لائن ہے یا پاک افغان بارڈر ہے ہم تو بارڈر کہتے ہیں وہ ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں اس پر پوری پشتون قوم آباد ہے اور ایک ہی برادری ایک ہی خاندان آدھا اُدھر ہے آدھا اِدھر ہے تو اس کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا، پھر ہمیں بہت سے حوالوں سے دیکھنا ہوگا افغانستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے، افغانستان میں تجارت کے حوالے سے افغانستان کے ساتھ، افغانستان کے ساتھ سرحدات کے حوالے سے معاملات، مہاجرین کے مسائل و معاملات اور پھر جس طرح پاکستان بار بار کہتا ہے کہ وہاں سے پاکستان میں حملے ہو رہے ہیں اور مسلح گروہ وہاں سے آ رہے ہیں تو یہ سارے وہ چیزیں ہیں کہ ہمیں اس حوالے سے ترجیحات دیکھنے ہوں گی، تو جو ہمارا مجموعی مسئلہ ہے یہ مسلح لوگوں کی کاروائی بھی ان میں ایک مسئلہ ہے تو اس ایک مسئلے کے لیے ہمیں مجموعی مفادات جو ہیں جو افغانستان سے وابستہ ہیں اس کو خراب نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ذمہ دار ممالک ایسا نہیں کیا کرتے، بہت تحمل صبر برداشت اور بہت سے لوگ ہیں پاکستان میں جو اس حوالے سے بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں، اب آپ اس حوالے سے دیکھیں کہ افغانستان کتنا اہم ہے یعنی امریکہ جو 1980 سے لے کر بیس سال طالبان کے خلاف جنگ میں وہ قابض رہا ہے افغانستان کے اوپر اب جب نکلا ہے تو فوجیں نکلی ہیں لیکن بہرحال وہاں پر ان کا سفارتخانہ بھی ہے اور ان کے اداروں کے لوگ بھی وہاں پر موجود ہیں لیکن سرمایہ کاری کے حوالے سے دوڑ روس اور چائنا کے بیچ میں ہے دونوں کوشش کر رہے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ افغانستان میں سرمایہ کاری کریں اور ان کو تجارتی حوالے سے کاروبار کے حوالے سے اقتصادی حوالے سے اپنے ساتھ انگیج کریں، تو وہ بالکل اس بات کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا کہتی ہے، اقوام متحدہ نے کیا قراردادیں پاس کئیں ہیں ان کے بارے میں، بلیک لسٹ ہیں، یہ ہے، وہ ہے جو بھی ہو لیکن اب اس وقت وہاں پر وہ حکومت ہیں اور بطور حکومت کیوں ان کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور بطور حکومت ہی ان کے ساتھ معاملات طے کئیے جا رہی ہیں۔

عاصمہ شیرازی: اس میں مولانا آپ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں افغانستان کے سلسلے میں؟ 

مولانا صاحب: دیکھیں میں تو خود یا تو میری جماعت ہے اور اگر جماعت اجازت دیتی ہے میں تو زیادہ سے زیادہ ایک فرد ہوسکتا ہوں ایک رائے تو میری ہے اور میں آپ سے اس پر تذکرہ بھی کر رہا ہوں اور الیکشن سے پہلے میں خود جا چکا ہوں افغانستان، ہر چند کہ میں ان کی دعوت بھی گیا اور اپنی کیپیسٹی پہ گیا لیکن پھر بھی میں نے وزارت خارجہ کو اس بارے میں آگاہ کیا ہمیں بریفنگ دی گئی اور جو ان کے ساتھ بات کرنے والی باتیں تھیں وہ ساری ہم نے ہائی لائٹ کی اور اسی کی مطابق میں نے جا کر گفتگو کیا اور الحمدللہ میں کامیاب ہو کر آیا اور میں نے یہاں رپورٹ کیا ان کو انہوں نے میری تحسین کی، اب یہ بات تو ان سے پوچھنے کی ہے کہ وہ پھر ان کو فالو اپ کیوں نہیں کر سکے، میرا تو اسٹبلشمنٹ سے گلہ ہو سکتا ہے لیکن وہ الیکشن کے حوالے سے ان کے نتائج کے حوالے سے اختلافات میرے ہیں یا میرے تحفظات ہیں لیکن جو طے ہوا اس کو فالو اپ کرنا اس کا تو ریاست کی ذمہ داری ہے اور ان پر مشترکہ کام کرنے کا جو میکنزم ہے وہ تو ریاست کی ذمہ داری ہے میری ذمہ داری تو نہیں تھی لیکن اس میں ان کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور بہت ہی ایک جزوی مسئلہ جس میں یقیناً فوج کو نقصان بھی ہوا ہے فوج کو شکایات بھی ہیں سویلین لوگوں کو بھی شکایات ہیں ہمارے ریاست کو بھی شکایات ہیں لیکن شکایات کو دور کرنے کی جو راستے ہوتے ہیں وہ سب مثبت راستے ہوتے ہیں اور تمام مثبت راستوں کو سفارتی راستوں کو ڈپلومیسی کے ذریعے سے ان چیزوں کو حل کیا جا سکتا ہے، تو ظاہر ہے اگر ریاست کو اس بات کی ضرورت ہو کہ ہم وطن عزیز کے مفاد میں کچھ کر سکیں تو یقیناً ہم اس کے لئے آج بھی تیار ہیں کل بھی تیار تھے اور ہمارے علاوہ اور بھی لوگ ہوں گے جو وہاں مؤثر ہوں گے اور ان کی بات کو وہاں پر بڑی عزت سے سنا جائے گا اور دیکھا جائے گا۔

عاصمہ شیرازی: ناظرین ایک چھوٹی سی بریک لینا چاہتی ہوں بریک کے بعد ہم بات کریں گے کہ کیا اس وقت پاکستان کی جو پارلیمنٹ ہے اس کی کشمیر کمیٹی کی اہمیت کتنی زیادہ ہے اور افغانستان کے حوالے سے بھی اور کشمیر کے حوالے سے بھی پارلیمنٹ کا کردار کیا ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس جنگ کے بعد پاکستان کے اندر بھی جو ہماری افواج جو ہے ایک مضبوط پوزیشن میں آئی ہے تو اس کا کیا کردار آگے ہونے جا رہا ہے اس پر بات کریں گے مولانا سے ایک بریک واپس آتے ہیں ہمارے ساتھ رہیں۔

ویلکم بیک ایک دفعہ پھر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں مولانا فضل الرحمان صاحب ہمارے ساتھ موجود ہیں، مولانا صاحب آپ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں، پارلیمنٹ کا کردار اس وقت کتنا اہم ہے، کیا ہونا چاہیے، کیا کشمیر کمیٹی پھر وجود میں آ سکتی ہے، آپ اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں، بہت ہائپو تھیٹیکل ہے، مگر کوئی کردار سامنے آ سکتا ہے اس سلسلے میں ؟

مولانا صاحب: دیکھئے کشمیر کمیٹی بذات خود اپنا جو اس کا دائرہ کار یا دائرہ اختیار ہے وہ بہت ہی محدود ہے، محض ایک سفارشی حد تک اس کا کردار ہے، تو جب تک میں تھا تو لوگ سمجھتے تھے کہ فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہے اور کشمیر کے مسئلہ کو حل نہیں کر رہا، جو کہ اس کے کوئی زیادہ اختیارات کی حیثیت اتنی زیادہ وسیع نہیں ہے بہت محدود ہے لیکن اس کے بعد مجھے کشمیر کمیٹی کا نام تو یاد ہے لیکن مجھے آج تک معلوم نہیں ہے کہ چیئرمین اس کا کون ہے، میرے خیال میں آپ کو بھی معلوم نہیں ہے، ہم میں کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔۔۔

عاصمہ شیرازی: نہیں کسی کو معلوم، ابھی نئی جو ہے اس میں تو بنی بھی شاید نہیں ہے ابھی تک۔

مولانا صاحب: بنی بھی ہے۔

عاصمہ شیرازی: بنی ہے لیکن پتہ نہیں ہے۔ 

مولانا صاحب: پتہ نہیں ہے۔

عاصمہ شیرازی: جی ایسا ہی ہے لیکن اس کی سفارتی کوششیں تھیں ہم دیکھتے تھے آپ مختلف ملکوں میں۔۔۔۔۔

مولانا صاحب: سفارتی کوششیں ہیں نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب مرحوم تھے تو اس وقت بھی سفارشی کوششیں تھی، میں رہا تب بھی اس وقت سفارشی کوششیں ان کی رہی ہیں، یہ جو کشمیری مہاجرین ہے میرے خیال میں کوئی چیئرمین آج تک ان کے کیمپوں تک اس حد تک نہیں پہنچا جتنا میں پہنچا ہوں جی، تو یہ ساری چیزیں رہی ہیں لیکن بہرحال پھر سٹیٹ کے جو فیصلے ہوتے تھے فیصلے تو وہی ہوا کرتے تھے ہم تو زیادہ زیادہ کچھ سفارشات ہی ان کو دے سکتے تھے اور دیے بھی ہیں اور کامیاب رہے ہیں ہم اپنے میں، تو بہرحال یہ مسئلہ پاکستان کی ریاست کا مسئلہ ہے اور اس پر کوئی حتمی فیصلہ یا حکومت کر سکے گی یا پارلیمنٹ کر سکے گی، کمیٹیاں جو ہیں وہ تو چلتی رہتی ہیں۔

عاصمہ شیرازی: حکومت کے ساتھ تو آپ کا پرائم منسٹر تو آپ سے ملنے آتے رہتے ہیں آپ سے بات بھی کرتے رہتے ہیں تو انہوں نے کوئی ایسی کیونکہ آپ افغانستان کے اوپر بھی بات کرتے رہتے ہیں تو کوئی ایسی اظہار نہیں ہوا کہ بھئی آپ اپنا کردار ادا کریں یا اسی وقت جو آپ بن کے گئے تھے اور پھر واپس آکے سفارشات آپ نے دیں اس کے اوپر بھی کوئی فیڈبیک آپ نے نہیں لیا کہ کیوں آگے نہیں بڑھے ؟

مولانا صاحب: نہیں اس پر کوئی بات نہ ان کی طرف سے ہوئی ہے نہ کوئی ہمارے طرف سے اس پر بات ہوئی ہے، تو حکومت اپنے ڈِکورم میں سارے صورتحال کو دیکھتی ہے۔

عاصمہ شیرازی: آگے جاکر ہو سکتی ہے مستقبل میں آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایک۔۔۔۔۔

مولانا صاحب: آج سنا ہے کہ انہوں نے کوئی اجلاس آل پارٹیز بلائی تھی، پھر کینسل ہو گئی ورنہ آج اس پر بات ہو سکتی تھی۔

عاصمہ شیرازی: آپ کو لگتا ہے کہ ضروری ہے اس وقت کہ سب قومی قیادت۔۔۔

مولانا صاحب: جی جب انڈیا میں آل پارٹیز ہوئی تو میں نے کہا پاکستان میں فوراً آل پارٹیز ہونی چاہیے لیکن بوجوہ یعنی یہاں نہیں ہو سکی اور اگر آج بلایا گیا تو کیوں کینسل ہو گئی اس کے مجھے معلومات نہیں ہے۔

عاصمہ شیرازی: اور آپ مطالبہ کرتے ہیں کہ بھئی فوراً بلایا جائے سب کو؟

مولانا صاحب: میں ضرورت محسوس کرتا ہوں اس کی، اب یہ ہے کہ باقی پارٹیاں انہوں نے کیا جواب دیا کیا ریسپانس تھا ان کا مجھے معلوم نہیں ہے۔

عاصمہ شیرازی: اور شاید اسی لیے وہ نہیں بلا رہے کہ۔۔۔

مولانا صاحب: اگر کسی ایک پارٹی نے بھی انکار کیا ہو تو پھر بلانے سے شاید وہ اس لیے گھبراتے ہوں کہ پھر وہ خبر بنتی ہے، اور وہ کوئی ایسی خبر نہیں دینا چاہتی۔

عاصمہ شیرازی: قومی یکجہتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو اس وقت آپ نے بتایا کیا ہے ؟

مولانا صاحب: ظاہر ہے، ظاہر ہے

عاصمہ شیرازی: لیکن سر اب ایک تو ہم خطے کی بات کر رہے تھے، دوسرا جو انٹرنل پولیٹکس ہے وہ بھی بدل گئی ہے، جو دس مئی سے پہلے کی صورتحال تھی دس مئی کے بعد نہیں ہے۔

مولانا صاحب: دس مئی سے پہلے نو مئی ہے نا۔ نو مئی کے بعد پھر دس مئی ہے۔ (قہقہہ)

عاصمہ شیرازی: بلکل، تو یہ نو اور دس مئی جو ہیں ان دونوں کی سگنیفکنس اپنی جگہ پہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، تو اب پھر دس مئی کے بعد کو آپ کیسے دیکھتے ہیں، خاص کر کے فوج ایک پاپولر نیریٹیو اور عوامی رائے ان کے حق میں۔۔۔

مولانا صاحب: میں اس وقت تو تنقید نہیں کروں گا کسی بات پہ، تجاویز دے سکتا ہوں، وہ میں نے پارلیمنٹ میں بھی دیئے ہیں۔ دیکھئے ان حالات میں متنازعہ مسائل کھڑے کرنا یہ شاید ملکی یکجہتی کیلئے مفید نہ ہوں، جس میں پہلی بات ہے مثلاً سندھ کو نئے کینالز پر احتجاج کرنا پڑا اور ظاہر ہے کہ ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا، اب یہ جو مائنز اینڈ مِنرل بل آئے گا یا آیا ہے وہ دو صوبوں میں آئے گا بلوچستان میں یا ہمارے خیبرپختونخوا تو اس پر قوم جو ہے وہ قبول نہیں کرے گی اس کو اور کیوں موقع دیا جائے اس بات پر لوگوں کو کہ وہ نکلیں اور مظاہرے کریں اور کہیں کہ ہمارے حق پہ ڈھاکہ ہے۔ اسی طریقے سے اگر بلوچوں میں یا پشتونوں میں لا پتہ افراد کا معاملہ ہے تو اس کو بھی کسی ٹھکانے لگانا چاہیے، اگر کوئی زندہ نہیں ہے تو بھی بتا دینا چاہیے اگر زندہ ہیں تو بھی بتا دینا چاہیے اور عدالتوں کی طرف ان کو لے آیا جا سکتا ہے اگر وہ زندہ ہے تو کم از کم پیاروں کو ان سے ملنے کے موقع تو مل سکے گا چاہے جیل میں ہو چاہے حوالات میں ہو چاہے تھانے میں ہو جہاں بھی ہو تو یہ وہ چیزیں ہیں، پھر ہمارے دینی مدارس کا معاملہ ہے جس طرح آج جمعیت علماء اسلام یا باقی تمام دینی تنظیمیں یا مدارس یا مذہبی طبقہ جس طرح ایک آواز ہو کر اپنے ملک کے ساتھ اپنے ریاست کے ساتھ اس کی دفاع کے ساتھ کڑا ہو گیا پھر کیوں جو طے شدہ معاملات ہیں اور مدارس کے رجسٹریشن کا مسئلہ ہے، ان کے بینکس کے اکاؤنٹس کا مسئلہ ہے کیوں حل نہیں کیا جا رہا اس کو اور کون اس کو سبوتاژ کر رہا ہے، کون اس کے راستے میں رکاوٹ ہے، میں سوچتا ہوں کہ ملکی یکجہتی کے لیے کوئی بڑے سے بڑا آدمی اگر رکاوٹ ہے تو اس کو راستے سے ہٹا دینا چاہیے اور واضح راستہ ہمیں دے دینا چاہیے کہ ہم اپنے طے شدہ معاملات کو رو بہ عمل لاسکیں اور کام کر سکیں ہم لوگ، تو یہ چیزیں ہیں کہ جو میں سوچتا ہوں کہ حکومت کو اس پر فوری طور پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔

عاصمہ شیرازی: اور مولانا جو پی ٹی آئی کہ ظاہر ہے کہ آپ کے صوبے کے اندر آپ ان کے حریف بھی ہیں خیبرپختونخواہ کے اندر پھر علی امین گنڈاپور صاحب کا جو ایک رویہ ہے، ان کے ساتھ آپ کی جو بات چیت ہوتی رہی گرینڈ الائنس کی طرف آپ بڑھ رہے تھے پھر آپ نہیں بڑھے، وجوہات کیا ہیں، کیا صرف ایک سپیسیفک علی امین گنڈاپور صاحب کا رویہ ہے یا کچھ اور معاملات بھی تھے۔

مولانا صاحب: نہیں نہیں عاصمہ بی بی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جمعیت علماء اسلام یا فضل الرحمن بطور اس کے امیر کے کسی فرد کو یا اس کے فرد کی کارکردگی کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتا، تو کے پی حکومت ہو یا کے پی ہو یہ پی ٹی آئی کا مسئلہ ہے اور ہماری گفتگو اور معاملات پی ٹی آئی سے طے ہو رہے ہیں اگر کبھی ان کا کوئی فرد میرے خلاف بیان بھی دیتا ہے اور آپ کی میڈیا جب مجھ سے سوال کرتی ہے کہ بھئی یہ آپ کے خلاف یہ بات کہی ہے تو میں اس پہ بھی یہی جواب دیتا ہوں کہ بھئی یہ پارٹی کا رکن ہے اور اس کے خلاف خود پارٹی کو اپنی انضباطی کاروائی کرنی چاہیے میں اس کا جواب نہیں دوں گا جی اور ظاہر ہے کہ میرے رابطہ جو ہے ان کے پارٹی کے ساتھ ہے گفتگو اگر ہے تو ان کے پارٹی کے ساتھ ہے میری، تو ایک سال سوا سال ہو گیا ہے اور آنے جانے میں گفتگو میں لیکن چونکہ ہماری پارٹی کی تنظیم نو ہو چکی اور ہمارے نئے ادارے وجود میں آگئے ہیں تو اس وقت جو ہماری جنرل کونسل ہے کوئی چودہ سو لوگ اس کے ممبران ہیں اور ان کا اجلاس ابھی گزشتہ انیس بیس اپریل کو ہوا تھا تو انہوں نے دو دن اس پر بحث کی اور اس نتیجے پر ہم پہنچے کہ ہمیں فالحال اپنی جدوجہد وہ اپنی ہی پلیٹ فارم سے جاری رکھنی ہے اور جو روز مرہ معاملات پر جن مسئلہ پر کوئی اشتراک عمل ہو سکتا ہے تو وہ اشتراک عمل کے لئے ہم تیار رہیں گے جی، تو اس طرح ایک متوازن حالات کے مناسبت سے ہم نے ایک رائے قائم کر لی اور اسی پہ ہم چل رہے ہیں۔

عاصمہ شیرازی: پھر آپ جماعت اسلامی سے بھی ملے منصورہ بڑے عرصے کے بعد آپ گئے تو بہت سے لوگوں نے مجھ سمیت یہ سمجھا کہ ایک دفعہ پھر ایم ایم اے کا ریوائیول جو ہے وہ ہو رہا ہے۔

مولانا صاحب: نہیں اس میں یہ تھا جی کہ رمضان مبارک میں جناب لیاقت بلوچ صاحب تشریف لائے تھے میرے گھر پہ اور ان کے ساتھ ہمیشہ بہت اچھا پیار کا تعلق ہے ہمارا احترام کا تعلق ہے تو میں نے ہی سوال اٹھایا تھا کہ عرصہ ہوا ہے رابطہ نہیں ہے تو رابطہ ہونا چاہیے تو پھر میں نے ہی کہا ان سے کہ میں ان شاءاللہ جب اپنے پارٹی کی اجلاس میں آؤنگا تو میں وہاں آپ کے منصورہ میں بھی آؤنگا تو انہوں نے بڑا سراہا ہے اس کو اور کہا ہے یہ تو بہت اچھا اقدام ہوگا آپ کا اگر آپ وہاں آگئے تو، اتنے میں جب وہ دن قریب آئے تو پروفیسر خرشید صاحب کا انتقال ہو گیا جی تو وہ جماعت اسلامی کے سینئر رہنما تھے اور ہمارے کولیگ رہے ہیں جی تو پھر ضروری ہوا کہ میں ان کی تعزیت کے لیے حاضر ہوں، تو وہ اس حد تک محدود تھا۔ 

عاصمہ شیرازی: ایم ایم اے نہیں بن سکتی ہے؟

مولانا صاحب: نہیں اس کا کچھ ذکر ہی نہیں ہوا، کوئی ایجنڈا ہی نہیں تھا اس کے حوالے سے، آپ لوگ تو ایک ناخن برابر جگہ دیکھتے ہیں جی تو پھر ایکدم سا اس کو آپ سمجھتے ہیں کہ بس کوئی بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے، منصورہ میں جانا میرے لئے کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے اور ان کا بھی ہمارے ہاں آنا کوئی ایسا نہیں ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے بہت مانوس ہیں، اختلاف رائے کے باوجود ہمیں دوسرے سے بہت مانوس ہیں اور اگر آنے والے مستقبل میں کسی ایسے بڑے اقدام کی ضرورت پڑی تو ہم انکار تو نہیں کریں گے ان چیزوں کا۔

عاصمہ شیرازی: لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ گرینڈ الائنس جو ہے۔۔۔ 

مولانا صاحب: ابھی الائنس کا مسئلہ نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

عاصمہ شیرازی: خارج ازامکان ختم۔۔۔

مولانا صاحب: اتنے سخت الفاظ مت استعمال کرے نا میں نہیں کہہ رہا ہوں۔۔۔ 

عاصمہ شیرازی: ناظرین میں ایک چھوٹی سی بریک لے رہی ہوں بریک کے بعد واپس آئیں گے اور جو ابھی مولانا صاحب نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کریں اور ایک رائے عمل بنائیں ایک رائے عامہ کے حوالے سے قومی یکجہتی پیدا کریں، اس میں کیا کیا پرابلمز ہیں اور کیا یہ ممکن ہے اور عمران خان صاحب کی جماعت خود عمران خان صاحب جو ہیں وہ اس میں کتنے کوآپریٹیو ہو سکتے ہیں، بریک کے بعد اس پر بات کرتے ہیں۔ 

ویلکم بیک ایک دفعہ پھر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں، سربراہ جمعیت علماء اسلام جناب مولانا فضل الرحمان صاحب ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ مولانا اس دشت کی سیاہی میں آپ نے اتنا وقت گزارا ہے سب سے آپ کے ذاتی مراسم ہیں یعنی نواز شریف صاحب ہوں شہباز شریف صاحب ہوں آصف علی زرداری صاحب ہوں سب کے سب، اس وقت آپ سمجھتے ہیں کہ ان کا کردار بطور سب کا آپ مطمئن ہیں کہ ایک بطور لیڈر کے جو کردار ہے وہ کہیں وہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں بھلے وہ نواز شریف صاحب ہوں زرداری صاحب ہوں۔

مولانا صاحب: دیکھیے مسئلہ اصول کا ہے اگر میں نے 2018 کے الیکشن کو اس لیے قبول نہیں کیا کہ دھاندلی ہوئی ہے، اگر ہم نے 1977 کے الیکشن کو اس لیے قبول نہیں کیا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو 2024 کے الیکشن پر بھی ہمارا اتفاق ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور بہت بڑی دھاندلی ہوئی ہے، اب ان کی کیا مجبوری تھی اور کن مجبوریوں کے تحت۔۔۔ حالانکہ کہ آپ کو یاد ہوگا جب 2018 میں زرداری صاحب نے کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو اس وقت بھی ان کی سندھ میں اکثریت تھی اور حکومت بنائی تو آج بھی اگر پنجاب میں ان کی اکثریت ہوئی یا سندھ میں بھی وہ پارٹی کی اکثریت تھی تو مجموعی طور پر ملکی الیکشن کے بارے میں کوئی مشکل نہیں تھا کہ وہ کہیں کہ بھئی یہ زیادتی ہوئی ہے لیکن انہوں نے 2018 کے نتائج کو تو قبول نہیں کیا لیکن 2024 کے نتائج کو انہوں نے تسلیم کر لیا، تو ہم تو اپنے اصول پر قائم رہے ہیں اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں حکومت کر رہی ہیں اور ان کا سربراہ اپوزیشن کر رہا ہے (قہقہہ)

عاصمہ شیرازی: آپ کے پاس یہ چانس تھا کہ آپ بھی حکومت کا حصہ بنتے ؟

مولانا صاحب: مجھے تو بہت کہا گیا یہاں پر کتنے جرگے آئے کتنے انہوں نے میرے اوپر پریشر ڈالا لیکن میں نے کہا میں اس حجم کے ساتھ حکومت میں نہیں بیٹھ سکتا۔

عاصمہ شیرازی: تو آپ اب فریش الیکشنز کا مطالبہ کرتے ہیں یا آپ سمجھتے ہیں کہ جو کہ اب آ بھی چکے ہیں آپ منظر عام پر لیکن ممکن نظر آتا ہے آپ کو کہ اس پہ عمل ہوگا؟

مولانا صاحب: یہ الگ بات ہے کوئی چیز ممکن نظر آتی ہو یا نہ نظر آتی ہو، عوامی رائے کس حد تک آگے بڑھتی ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ حکومت کی دنیا میں مؤثر سیاسی قیادت یا مؤثر سیاسی شخصیات وہ پس منظر میں جا رہی ہیں اور عوام جن کو لیڈر نہیں کہتی وہ آگے سامنے لائے جائیں گے اس لیے کہ اکثریت بنا کر کمزور لوگوں کے ذریعے سے اپنی مرضی کی قانون سازیاں کروائی جائیں گی تو پھر ظاہر ہے جی کہ یہ چیزیں پھر نقصان کرتی ہیں اور جس طرح آج کے اس ماحول میں جس قدر ضرورت نواز شریف کی تھی کہ وہ خود میدان میں آ کر ان کے پشت پہ آ جائیں لیکن وہ بھی نہیں آئے جی۔ 

عاصمہ شیرازی: کیوں نہیں آئے آپ کے خیال میں؟

مولانا صاحب: یہی کہہ رہا ہوں نا جی کہ وہ قیادت کو پس منظر میں پھینک دیا گیا ہے جی اور یہ سوچنا ہے اسٹیبلشمنٹ کو اس حوالے سے کہ اس طرح کے الیکشن کہ جس میں صرف ان کے مرضی کی قانون سازیاں ممکن ہوں تب حکومت بنے گی یہ شاید نہ ملک کیلئے بہتر ہے اور نہ ان کیلئے بہتر ہے۔

عاصمہ شیرازی: آپ کو میاں صاحب سے یہی شکوہ ہے کہ وہ خود بھی پیچھے نہیں ہیں ان کو دھکیلا بھی گیا ہے وہ خود بھی تو آ سکتے ہیں ان کے اپنے بھائی کی حکومت ہے ان کی بیٹی کی حکومت ہے۔

مولانا صاحب: بس حکومتیں بن گئی ہیں جس کے وجہ سے۔۔۔

عاصمہ شیرازی: اس پر انہوں نے کمپرومائز کر لیا ہے؟

مولانا صاحب: خاموش ہو گئے ہیں اور کیا کرنا ہے، کمپرومائز کرے یا نہ کریں لیکن۔۔۔

عاصمہ شیرازی: اور عمران خان صاحب کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں اس وقت کہا جا رہا ہے کہ قومی یکجہتی کے لیے ان کو رہا کیا جائے ان کو۔۔۔

مولانا صاحب: دیکھئے رہائی کا معاملہ نہ میرا ہے نہ آپ کا ہے عدالتوں کا ہے، عدالتیں جو ہیں اس کو رہا کرتی ہیں تو سب سے پہلے میں خوش آمدید کہوں گا اس کو جی لیکن ایسی چیزیں کہ جو ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتی ہیں اور صرف ہم۔۔ تو لیڈر جیلوں میں جاتے ہیں اور وہ جیل میں ہوتے ہیں پارٹیاں باہر فیصلے کرتی ہیں، ان میں یکسوئی ہوتی ہے، یہاں تو عمران خان جیل میں ہے تو یکسوئی بھی موجود نہیں ہے پارٹی کے اندر، تو کس کے ساتھ بات کر کے اتحاد کی باتیں کی جائیں۔

عاصمہ شیرازی: یکسوئی نہیں ہے یا اختیار نہیں ہے ان کی پارٹی کے پاس؟

مولانا صاحب: دونوں چیزیں (قہقہہ) تو یہ چیزیں ہوتی ہیں جو ظاہر ہے کہ ان کا کارکن بھی محسوس کر رہا ہے اس ساری صورتحال کو اور وہ اس کی وجہ سے فکر مند بھی ہے پریشان بھی ہے کارکن جو عام آدمی ہے تو یہ سارے چیزیں مل کر ملک کے اندر طاقتور سیاسی نظام جو ہے اس کی نفی ہو رہی ہے۔

عاصمہ شیرازی: مولانا کوئی مشورہ جو آپ شہباز صاحب کو شہباز شریف صاحب کی حکومت کو اور نواز شریف صاحب کو اور زرداری صاحب کو اس وقت دینا چاہے۔

مولانا صاحب: وہ تو میں نے دے دیا کہ ان حالات میں جس میں اس وقت پاکستان چل رہا ہے جو چیزیں طے ہوئی ہیں ان پر عمل درآمد ہو جو چیزیں طے نہیں ہوئی متنازعہ ہیں ان کو منظر عام پر کیوں لایا جا رہا ہے جی، تو یہ ایک مشورہ میں اس وقت دے سکتا ہوں ان کو اور یہی پاکستان کے لیے۔۔۔۔

عاصمہ شیرازی: ہم آہنگی کے لیے پہلا سٹیپ کیا ہو سکتا ہے آپ کے خیال میں، تو یہ قدم جو کہ اٹھائے جائے اور ہم آہنگی پیدا ہو۔

مولانا صاحب: آپ دیکھ رہے ہیں جب ملک کے لیے سوال پیدا ہوا تو ہم آہنگی بھی پیدا ہو گئی تو اس میں تو کوئی مشکل نہیں ہے، وہ جگہ تو پھر جب آئی گی تو پتہ چلتا ہے نا جی اب اگر اور مگر کا تو جواب نہیں دیا جا سکتا نا جی اس کا تو کوئی سلسلہ ہی بند نہیں ہو سکتا تو جو حالات آئے اس نے ثابت کیا کہ اب یہ وہ جگہ ہے جہاں پر ہمیں یکجہتی کی طرف جانا چاہیے وہاں ہم گئے ہیں۔

عاصمہ شیرازی: بہت شکریہ سر، تھینک یو سو مچ، ناظرین گفتگو آپ نے سنی فیصلہ آپ کا۔

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1

#teamJUIswat

Maulana Fazl ur Rehman's Exclusive Interview with Asma Shirazi

سربراہ جےیوآئی مولانا فضل الرحمان صاحب کی ہم نیوز کے پروگرام "فیصلہ آپ کا" میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ خصوصی گفتگو #MaulanaFazlurRehman #juipakistan

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Tuesday, May 13, 2025

0/Post a Comment/Comments