مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مفتی اویس عزیز کی رہائشگاہ پر علماء کرام سے خطاب

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جےیوآئی اسلام آباد کے امیر مفتی اویس عزیز کی رہائشگاہ پر علماء کرام سے خطاب

4 مئی 2025

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا، قَيِّمًا لِيُنذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّن لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا، مَّاكِثِينَ فِيهِ أَبَدًا، وَيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ ۚ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا، فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا، إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا، وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا، إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا، فَضَرَبْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا، ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا۔ صدق اللہ العظیم

مولانا محمد اویس عزیز صاحب نے یہ ترتیب دیا ہے اور میرے اوپر تو یہ احسان ہے کہ اسلام آباد کے علماء سے ملاقات ہو گئی ان کی زیارت ہو گئی اور کچھ وقت ان کے ماحول میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے، تو یہ ایک روحانی مجلس بن جاتی ہے جس میں ظاہر ہے یہ ماحول بھی خانقاہی ہے اور ہم سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح خانقاہوں سے ہے بھی، تو یہاں جو انوار ہمیں نصیب ہوتے ہیں اور قلوب کی تجلی ہمیں نصیب ہوتی ہے وہ عام دوسرے ماحول میں نہیں ملتی، ہمارے یہ تعلیم گاہیں اور تربیت گاہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں حیثیتیں آپ نے خود بیان کیں إنما بُعِثْتُ مُعَلِّمًا "میں استاد بنا کر بھیجا گیا"، بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخْلَاقِ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا، ایک پہلو تعلیم کی ہیں اور دوسرا پہلو تربیت کا ہے، تعلیم ہو تربیت نہ ہو تو اس کی مثال یعنی ایسا علم جو بغیر عمل کے، اس کی مثال کھوٹے سکے کی ہے کہ وہ وزن تو رکھتا ہے جیب تو بھر جاتا ہے لیکن بازار میں جائیں تو اس کو کوئی قیمت نہیں ہوتی اور جب علم کے ساتھ عمل آتا ہے تو علم بھی قیمتی ہو جاتا ہے پھر اس علم کی قدر قیمت بھی بڑھ جاتی ہے اور اسلام اجتماعی زندگی یا معاشرتی زندگی کا آغاز قانون سے نہیں کرتا ہے اخلاق سے کرتا ہے، اسی لئے جب اعمال تولے جائیں گے تو سب سے بھاری عمل حسن خلق، بات کرنے کا سلیقہ، اس میں وقار، اس میں شائستگی، اگر مذاکرہ ہو تو قوت دلیل اور اس کی تعلیم بھی اللہ رب العزت نے خود ہی دیا، ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ "اللہ کے راستے کی طرف بلاؤ حکمت کے ساتھ" پہلے یہ جانوں کہ میں کس کو دعوت دے رہا ہوں اور جب میں اس کو دعوت دے رہا ہوں تو اس کا مزاج کیا ہے، اس کا ماحول کیا ہے، وہ بات کو کس زاویہ سے سنتا ہے، کس زاویہ سے اس کو قبول کرایا جا سکتا ہے اور اگر آپ کی اس کے ساتھ بے تکلفی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں، ایک دو مجالس اس کے ساتھ کرلو تاکہ بے تکلفی پیدا ہو جائے، تعلق پیدا ہو جائے، قرب پیدا ہو جائے اور جتنا قرب ہوگا اتنا ہی قبولیت جو ہے اس کے اندر پیدا ہوتی جائے گی، وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ  اور اندازِ گفتگو شائستہ ہونا چاہے اور تیسری چیز  وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ، اب جدال بذات خود تو زریعہ دعوت نہیں ہے لیکن آپ حکمت سے بھی کام لے رہے ہیں آپ شائستہ اندازِ گفتگو سے بھی کام لے رہے ہیں لیکن کسی جگہ جا کر آپ اُلجھ جاتے ہیں دعوت دینے والا اور جس کو دعوت دی جا رہی ہے یہ اُلجھ جاتے ہیں اگر ایسی صورتِ حال پیدا ہو گئی تو یہ جھگڑا بھی وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ اس کو بھی شائستہ انداز کے ساتھ انجام تک پہنچاؤ بِٱلَّتِى هِىَ أَحْشَنُ نہیں کہا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ کہا یعنی جدال اپنی ذات میں زریعہ دعوت تو نہیں لیکن اگر ایسا کوئی مرحلہ آ جاتا ہے دعوت دینے والے اور جس کو دعوت دی جا رہی ہے اُس کی بیچ میں تو اُس کو اِس طرح حل کرو، اِس طرح انجام تک پہنچاؤ کہ اُس کا نتیجہ و معال وہی ہو جو حکمت اور حسن موعظت کا ہوتا ہے۔

تو اس اعتبار سے ہم لوگ جو ہیں وہ مقامِ دعوت میں ہیں، مقامِ حکومت میں نہیں ہیں اور جب کوئی آدمی مقامِ دعوت میں ہوتا ہے تو وہ اپنے مقام سے ایک لمحے کے لیے بھی اترتا نہیں جبکہ اُس کا مد مقابل جو منکر ہے وہ اگر اپنے مقام سے گر بھی جائے تب بھی اُس کے مقابلے میں صاحبِ دعوت کبھی اپنے مقام سے نہیں اترتا جیسے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا،

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ، إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ۔

اب یہ داعی ہے اُنہوں نے تکذیب کی اُس کے باوجود اُنہوں نے کہا کہ ہم تو اللہ کے رسول ہیں ہم آپ کے پاس آئے ہیں دعوت دینا چاہتے ہیں، قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا، آپ کی کیا حیثیت ہے ہماری طرح انسان تو ہیں اور کچھ بھی تمہارے اوپر نازل نہیں ہوا، إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ، جھوٹ بولتے ہو، داعی کہتا ہے قَالُوا رَبُّنَا يَعْلم إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ، کہ ہمارا اللہ جانتا ہے کہ ہم اللہ ہی کی طرف سے آئے ہیں۔ اب اس وقت میں آپ دیکھیں کہ جب گاؤں کے اندر سے ایک بندہ ان کی مدد کیلئے آتا ہے وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ، دوڑتے دوڑتے ہوئے آیا ان کو شہید کر دیا، اب یہ شہید ہو چکا ہے قبر میں اتر رہا ہے اور قبر میں اترتے ہوئے بھی کہتا ہے قال يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ، کہتا ہے میرے قوم کو ہدایت ہو جائے، جان جائے، آخر لمحے تک بھی اُس کے خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ مقام دعوت سے نیچے نہ اُترے اور اپنے مقام پر برقرار رہے، یہاں تو ہم لوگوں نے ہر ماحول کو جذباتی بنا دیا، جتنے شدید الفاظ کے ساتھ ہم مخالف کو پکاریں گے اگر ہم کتاب لکھتے ہیں تو ٹھیک ہے آپ مخالف کے حقائق پر رد کریں لیکن اگر آپ کی زبان اچھی نہیں ہے اُس سے کوئی فائدہ نہیں ہے، اُس سے مخالف اشتعال میں آئے گا، اگر آپ تقریر کر رہے ہیں اور تقریر میں آپ کی زبان اچھی نہیں ہے، اب مثال کے طور پر اگر آپ کہیں کہ یہ بدعت ہے یہ شرک ہے بدعت ہے شرک ہے تو یہ الفاظ ایسے عام ہو گئے ہیں کہ اگر کوئی دوسرے فرقے والا بیٹھا ہے تو وہ سمجھے گا کہ یہ مجھے کہہ رہا ہے لیکن اگر اسی کو آپ تعبیر کرنے کے خلاف سنت ہے تو شاید وہ ان کو اتنا زیادہ محسوس نہ ہوں۔

تو اس اعتبار سے ماحول کو جانچنا اور سمجھنا مجھے ایک مولوی صاحب نے بتایا کہ میں تقریر کر رہا تھا تو بے حیائی، فحاشی اور عریانی کے خلاف میں بول رہا تھا تو ایک آدمی اٹھا اور کہا کہ آپ ہماری پارٹی کے خلاف بول رہے ہیں۔ تو جس ماحول میں بھی آپ گفتگو کریں تو دعوت کا ماحول ہو اور ایک ہے جب آپ میدان میں نکلتے ہیں فتنے کے خلاف آپ لڑ رہے ہوتے ہیں جنگ جاری ہے اس میں ذرا پھر وہاں آپ کی گفتگو میں سختی بھی آتی ہے اور اس وقت تو پاکستان کا مسئلہ ہے پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے پاکستان کی استقلال کا مسئلہ ہے اور ہندوستان کی طرف سے جس انداز سے جارحیت کا ارتکاب ہو رہا ہے تو اس وقت تو قوم کو ایک کرنے کی ضرورت ہے اس وقت ہماری وحدت کی ضرورت ہے اور تمام مکاتب فکر کو، پوری قوم کو، سیاسی پارٹیوں کو ایک جگہ لانے کی ضرورت ہے تو ایک صف ہو کر قوم جو ہے وہ لڑ سکتی ہے اور اسی انداز کو ہمیں اپنا کر آگے بڑھنا چاہیے تاکہ ملک ہوگا تو دعوت بھی ہوگی، جدوجہد بھی ہوگی، نظریہ بھی ہوگا، تو پھر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش بھی چلتی رہے گی اور ہمارے حضرات کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ صرف آپ ہی ہیں جس کے پشت پر کوئی دو سو تین سو سالہ تاریخ ہے یہ سب نوزائیدہ ہے سب سے قدیم تاریخ آپ کی ہے اور انگریز نے جہاں ابھی قبضہ نہیں کیا تھا تب سے آپ کی تاریخ شروع ہو گئی تھی، تو جب انگریز نے قبضہ کیا تو جہاد کا فتویٰ آپ نے دیا، پھر اس جہاد کو چلایا آپ نے اور میں تو بڑے دعوے سے کہتا ہوں کہ جب تک برصغیر کی قیادت، سیاسی قیادت علماء کے ہاتھ میں تھی تب تک کوئی فرقہ ورانہ جنگ نہیں ہوئی ہندوستان میں اور جب سے علماء کے ہاتھ سے سیاست نکلی ہے تو اس کے بعد پھر یہ خون اور یہ جنگ تھمی نہیں، برابر چل رہی ہے، تو یہ لوگ ناکام ہیں لیکن میں نے اُس دن اپنی مجلس عمومی میں بھی کہا کہ ہم نے تو ایک لفظ سیکھا ہوا ہے دائرہ اختیار کا ایک اور دائرہ بھی ہے اس کو دائرہ اقتدار کہتے ہیں، ابھی ہمارے ملک کی نظام میں علماء کو دائرہ اقتدار میں داخل ہونے کا راستہ نہیں دیا جا رہا ہے لیکن آپ اپنے جدوجہد سے تقریباً اُس دروازے پر پہنچ چکے ہیں اور ملک اب آپ کے بغیر نہیں چلے گا۔

تو ان ساری چیزوں کو ہمیں سمجھنا ہوگا، مدارس کا معاملہ بھی ہے مدارس کچھ بھی متاثر نہیں ہو رہی ہے میرے خیال میں آپ سب مدارس والے حضرات ہیں آپ صحیح بات کہہ سکیں گے مجھے کہ اِس سال جو داخلوں کا دباؤ ہمارے مدارس کی اوپر ہے شاید کبھی نہ رہا، تمام مدارس نے وقت سے پہلے داخلے بند کر دیے کہ گنجائش نہیں ہے۔ تو یہ دباؤ جو باہر سے یہ اللہ کی طرف سے مدد ہے لوگوں کے دلوں میں اللہ ڈالتا ہے ان کی پابندیاں، کیا کریں گے۔ جہاں چشمہ ہوگا لوگ وہاں پینے کے لیے جائیں گے جہاں چشمہ نہیں ہے لوگ کیا کریں گے وہاں پر، تو ہمارے مدارس الحمدللہ لوگوں کو علم دے رہے ہیں اور حالات کے ساتھ چلتے ہیں، جدید علوم کے ساتھ ایک مناسبت پیدا کرتے ہیں، صنعت و حرفت کے ساتھ ایک مناسبت پیدا کرکے علوم عطا کرتے ہیں۔ تو قرآن کی علوم ہو حدیث کی علوم ہو فقہ کی علوم ہو ان علوم میں رسوخ پیدا کرنا امت کی ضرورت ہے اس میں ایک ایک گاؤں میں رہنما ربط کی ضرورت ہے اور یہ بھی ایک میری درخواست ہے کہ دیوبندیت جو ہے یہ فرقہ نہیں ہے، حضرت یہ برصغیر میں اہل سنت و الجماعت اور حنفیت کا ایک نشاطِ ثانیہ ہے اس کا سیاسی فکر عالمگیر ہے، آفاقی ہے۔ بالکل بھی یہ محدود فرقہ نہیں ہم نے دکان بنایا ہوا ہے اس کو، اگر ہم یہ موضوع نہیں چھیڑتے تو پھر ہمیں لوگ جلسہ میں نہیں بلاتے پھر ہمیں فیسیں نہیں ملتی۔ تو یہ اسلام کی اتنی وسیع تصور اور اس کی عالمگیریت اور اس کی جو سوچ ہے اور اس کا جو پرواز ہے وہ اتنی بلند ہے کہ ہم نے اس کی سطح بہت کم کر دی اس کے دائرے کو بہت چھوٹا کر دیا ہے، تو ہمیں بڑے وسیع طریقے کے ساتھ پبلک میں جانا چاہئے ہم انسان کو انسان سمجھے، حضرت ایک بلی پر ظلم کرنا اس کے لئے حدیث میں وعیدیں آئی، حیوانات پر آپ زیادتی نہیں کر سکتے، چہ جائے کہ ہم انسان کی خون کو اپنے لئے حلال کرا دیں، انسان کی خون سے تو اور کوئی محترم چیز نہیں ہے پھر مسلمان کا خون جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں،

لَزَوَال الدُّنْيَا أَهْوَنُ عِنْدَ اللَّهِ من قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ

پوری دنیا تباہ ہو جائے یہ اللہ پر اتنا گراں نہیں ہے جتنا کہ ایک مسلمان کا قتل ہے اور ہم نے کتنا آسان بنا دیا، ایک روایت میں آتا ہے کہ کعبہ گر جائے وہ اللہ پر اتنا گراں نہیں ہے جتنا کہ ایک مسلمان کا قتل، طواف کے دوران رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم خطاب کرتے ہیں کعبے کو، آپ عظمت والا گھر، بڑا گھر، محترم ہے لیکن ایک مسلمان کے خون قدر و قیمت سے زیادہ نہیں اور یہ مذہبی لوگوں نے انسان کا خون جائز قرار دے دیا، یہ کہاں مذہبی لوگ ہو سکتے ہیں، مذہب کا غلط استعمال ہے، مذہب کا غلط تشریح ہے، آج ایک میں سن رہا تھا ایک سوال کیا مولانا ارشد مدنی سے کسی نے کہ یہ لوگ جنہوں نے قتل کیا وہ کہتے ہیں کہ جہاں ملے مارو ان کو اور انہوں نے کہا جی ساٹھ ستر سال سے تو میں پڑھا رہا ہوں پڑھا بھی ہے پڑھایا بھی ہے مجھے تو یہ آیت قرآن میں کہیں نہیں ملی، نہ کہیں حدیث میں یہ تعلیم ملی ہے۔

تو اس قسم کی چیزیں ہم کیوں پھیلا رہے ہیں، لہذا دین کو اس بلند مقام پر رکھنا چاہیے اور یہ جو خون ریزیاں ہو رہی ہیں اس کو جہاد کا نام دے دینا، کس بات کا جہاد، آپ قتل کر رہے ہیں انسان کو، اس کے مال کو مالِ غنیمت کہہ رہے ہیں اور یہاں علماء اس پر متفق ہے کہ نہیں یہ نہیں ہے، افغانستان کے علماء متفق ہیں انہوں نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ جہاد اگر تھا تو مکمل ہو چکا ہے اب اگر کوئی لڑے گا تو وہ جنگ ہوگی جہاد نہیں ہوگی، تو پاکستان کے اور افغانستان کے علماء تو اب ایک پیج پر ہے۔

تو اس اعتبار سے ہمیں اپنے صفوں کو ٹھیک کرنا ہوگا، اپنے درسگاہوں میں ہمیں طلباء کے ساتھ صحیح بات کرنی چاہیے، مجھے ایسے ایسے اساتذہ معلوم ہیں جو میری تقریر کے بعد کلاس میں کہتے ہیں یہ مولوی صاحب سیاسی آدمی ہیں ان کے باتیں چھوڑو، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله بھئی میں بھی اسی کمرے میں پڑھا ہوں، میں بھی اسی حجرے میں پڑھا ہوں، میں نے بھی اسی طرح استادوں کے سامنے زانوں بچھائے سبق لئے، ہمیں تو کسی زمانے میں یہ سبق کسی طرح نہیں پڑھایا گیا، تو اس حوالے سے ہمیں محتاط انداز کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، تو آپ نچوڑ ہیں معاشرے کے علمی اعتبار سے، تربیت کے اعتبار سے، اسی حوالے سے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمارا حام و ناصر ہو۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

#teamJUIswat

جےیوآئی اسلام آباد کے امیر مفتی اویس عزیز کی رہائشگاہ پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا علماء کرام سے خطاب ۔ (04-May-2025)

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Thursday, May 8, 2025

0/Post a Comment/Comments