قائدِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے ضلعی ڈیجیٹل میڈیا کوآرڈینیٹرز و صوبائی میڈیا سیل کے ممبران سے ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب
10 مئی 2025
الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین،
جناب صدر خیبرپختونخوا اور فاٹا ڈیجیٹل میڈیا سیل اور تمام اضلاع سے آئے ہوئے معزز کوارڈینیٹرز، سب سے پہلے تو میں آپ تمام حضرات کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے اس مجلس میں شریک ہونے کی دعوت دی اور اپنی بھی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ آج میں آپ کے ساتھ بیٹھے چند لمحے گزار رہا ہوں۔
آپ سب جانتے ہیں پورا ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور ایسی صورتحال جوں ہی پیدا ہوئی اور دونوں ملکوں کے افواج ایک دوسرے کے سامنے آئے اور ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دی تو فوری طور پر جو جمعیت علماء اسلام کا رد عمل ہم نے دیا وہ یہی کہ دفاع وطن ہر پاکستانی شہری کی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے پوری قوم ایک صف ہے، فوج اور عوام مل کر ایک محاذ پر جنگ لڑیں گے اور پوری قوم فوج کے پشت پر ہوگی۔ ہمارا یہ موقف آنے کے بعد جن جن گوشوں سے امکان تھا اہتمام تھا کہ وہاں سے کوئی ٹیڑھے میڑھے بیانات نہ آ جائیں جو قوم کی صفوں کو منتشر کریں، الحمدللہ ہمارے اس بیان سے اس احتمال کا راستہ رُک گیا اور کوئی منفی بات کسی طرف سے بھی فوج کے خلاف یا ان کی پالیسیوں کے خلاف یا حکومت کے خلاف آنا رُک گیا۔
یہ امتیاز ہے جمعیت علماء اسلام کا کہ وہ حالات کو دیکھتی ہے حالات کو سمجھتی ہے اور جس طرح حالات تقاضا کریں ملک و ملت کے فائدے میں اسی طریقے سے ہم قدم اٹھائیں یہ ہے وہ سیاسی حکمت عملی جو جمعیت علماء اسلام کو دوسروں سے ممتاز کر دیتی ہے۔ اس وقت میں آپ کو یہ خوشخبری سنا سکتا ہوں کہ انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا فیصلہ ہو گیا ہے اور اس میں سعودی عرب کا بہت بڑا کردار ہے جس کے لیے ہم مملکت سعودی عربیہ اور اس کے شاہی خاندان کے شکر گزار ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جن ممالک نے اس میں کردار ادا کیا ہے ہم ان کے بھی شکر گزار ہیں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیمات عطا کی ہیں اس میں سب سے اول بات تو یہ ہے کہ سلِ اللَّهَ العافِيةَ کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگا کرو۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا يا رسولَ اللَّهِ علِّمني شيئًا أسألُهُ اللَّهَ یا رسول اللہ مجھے ایک ایسی چیز بتا دو جو میں اللہ سے مانگوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلِ اللَّهَ العافِيةَ اللہ سے عافیت مانگا کرو۔ کچھ دنوں کے بعد پھر حاضر ہوئے اور پھر عرض کیا يا رسولَ اللَّهِ علِّمني شيئًا أسألُهُ اللَّهَ یا رسول اللہ مجھے ایک ایسی چیز بتا دو جو میں اللہ سے مانگوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلِ اللَّهَ العافِيةَ اللہ سے عافیت مانگا کرو۔ کرو کچھ عرصے کے بعد پھر حاضر ہوئے اور پھر عرض کیا يا رسولَ اللَّهِ علِّمني شيئًا أسألُهُ اللَّهَ یا رسول اللہ مجھے ایک ایسی چیز بتا دو جو میں اللہ سے مانگوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا يا عبَّاسُ يا عمَّ رسولِ اللَّهِ سلِ اللَّهَ العافيةَ في الدُّنيا والآخرةِ ذرا بڑی تاکید کے ساتھ اے عباس اے رسول اللہ کے چچا عافیت مانگا کرو اللہ سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ تو یہ جو لوگ میدان جنگ کی تلاش میں رہتے ہیں اور جنگ نہ ہو تو انہیں گدگدی ہوتی ہے کہ جنگ کیوں نہیں ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات کی منافی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا تتمَنَّوا لقاءَ العدُوِّ، دشمن کا سامنا کرنے کی خواہش نہ کیا کرو۔ فإذا لَقيتُم العدُوَّ فاصبِروا، واعلَموا أنَّ الجنَّةَ تحتَ ظِلالِ السُّيوفِ۔ اگر آمنا سامنا ہو جائے مقدر ہو پھر بزدلی نہیں دکھانی پھر ثابت قدم رہو اور موت سے مت ڈرو کیونکہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ تو مرحلہ وار سب سے پہلے عافیت مانگا کرو، کبھی دشمن کا سامنا کرنے کی تمنا نہ کیا کرو لیکن انسانی معاشرہ ہے حالات بن جاتے ہیں دشمن آمنے سامنے ہو جاتا ہے تو پھر اس وقت کوئی آپ نے پیٹھ نہیں دکھانی بزدلی مت دکھاؤ بلکہ پیٹھ دکھانا فرار ہے فرار من الزحف ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے کبائر میں سے ہیں، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الْعَظِيمَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ، وَأَتُوبُ إِلَيْهِ یہ تین دفعہ کہہ دیا تو جنگ سے بھاگنے والی اتنی بڑی گناہ کو بھی اللہ معاف کر دیتا ہے فرار عن الزحف کے گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔ تو گناہ کبیرہ کو بھی اللہ تعالی اس استغفار کے ساتھ معاف کرتا ہے۔
اب اس حوالے سے ظاہر ہے کہ پاکستان نے جنگ نہیں مانگی اور پہلگام میں ایک واقعہ ہوا جس میں غیر مسلح لوگ یا مہمان لوگ یا سیاح لوگ وہ مارے گئے، اس وقت پاکستان نے فوری طور پر تشویش کا اظہار کیا لیکن ہندوستان میں 10 منٹ کے اندر اندر ایف آئی آر بھی درج کر دیا پاکستان پر الزام بھی لگا دیا اور دہشت گردوں کا تعین بھی کر دیا، اب یہ ساری چیزیں یہ بتلاتی ہیں کہ ہندوستان میں جو موقف اختیار کیا اس واقعے کے بعد وہ عجلت میں بھی تھا اور مودی صاحب کی داخلی سیاسی ضرورتوں کے تحت تھا کیونکہ وہ فرقہ پرست ہے اور وہ ہندوؤں کو مسلمان کے مقابلے میں متحد کرنے کے لیے کارڈ استعمال کر رہا تھا، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں اس کو تعاؤن نہیں ملا حمایت نہیں ملی، آل پارٹیز کانفرنس بلائی اس میں بھی کانگریس نے اور دوسری پارٹیوں نے ان سے اختلاف کیا، جمعیت علماء ہند نے ان سے اختلاف کیا اور اس وقت تک بھی کسی قسم کی کوئی تائید جو حمایت مختلف اطراف سے ان کو حاصل نہیں ہے۔ پاکستان نے اس کا جائز انداز کے ساتھ جواب دیا کہ اس کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کرائی جائے، بین الاقوامی ادارے آئے معلومات کریں، تو اس کو انتظار کرنا چاہیے تھا، بین الاقوامی تحقیقات کی ہمارے مطالبے کو تسلیم کر لینا چاہیے تھا لیکن اس نے جنگ کا آغاز کیا سات مئی کو انہوں نے بہاولپور کے ایک مسجد مدرسے پہ بمبار کیا، مُریدکے میں کیا، کشمیر کے اندر کیا، لائن آف کنٹرول پہ کیا اور پہلے دن انہوں نے عام شہریوں کو جس میں کسی قسم کا عسکری شخص آج تک سامنے نہیں آسکا، 26 یا اس سے کچھ زیادہ لوگوں کو شہید کیا ہے، پھر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ ہم نے پاکستان کے فوجی ٹھکانوں پر کوئی حملہ نہیں کیا ہم نے تو صرف دہشت گردوں کے مراکز پہ حملہ کیا ہے، تو اس حوالے سے وہ دنیا کو ایک دھوکہ دینا چاہتا تھا کہ جس طرح امریکہ اور مغرب ہے اور دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اس حوالے سے وہ انہیں اپنی پشت پہ لانا چاہتا تھا لیکن کہیں اس دنیا سے ان کو حمایت نہیں ملی۔ گزشتہ رات انہوں نے ہمارے مختلف ایئر بیسز پہ حملے کئیں کوئی جانی نقصان کی اطلاع نہیں لیکن بہرحال عمارات کو کچھ نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن اس کا جو جواب پاکستان کی طرف سے آج رات ہی کو دیا گیا اس نے ہندوستان کی فوجی قوت کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ چیخنے لگ گئے کہ پاکستان جنگ بندی کی طرف جائے پاکستان جنگ بندی کی طرف جائے ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں اور انہی اوقات میں سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ بھی پاکستان آئے اور انڈیا گئے، دوسرے ممالک کے لوگ بھی انگیج رہے اور آج اس میں کامیاب ہو گئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر کی بات طے ہو گئی۔
اس حوالے سے میں تائید کرتا ہوں اس تجویز کی کہ اس کانفرنس کا نام جو پہلے شہدائے غزہ کانفرنس تھا اب شہدائے غزہ اور دفاع وطن کانفرنس کا نام دیا جائے گا۔ چونکہ مسئلہ اب سیز فائر ہے دونوں ملکوں کی فوجیں اپنے اپنے محاذ پر ڈٹی رہیں گی، سیز فائر سے ہم حالت جنگ سے نہیں نکلتے تو جہاں ہم فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے کل یہاں پشاور میں جمع ہو رہے ہیں وہاں آج اب اپنے وطن عزیز کا تو اس سے کہیں بڑھ کر حق ہے ہمارے اوپر کہ ملک کا عوام ایک پلیٹ فارم پر ہو اور پوری قوم یہاں سے آواز بلند کرے کہ ہم وطن عزیز کی دفاع کے لیے ایک طاقت ہے۔ اور پاکستانی قوم دفاع وطن کیلئے مر مٹنا جانتی ہے۔ چند دن پہلے حکومت نے شہری دفاع کے ذمہ داریوں کے لئے نوجوانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے نام لکھوائیں تو اس کے ساتھ ہی میں نے اعلان کیا اور کل پارلیمنٹ میں میں نے اس کا اعلان کیا کہ ہمارے انصار الاسلام جہاں بھی ہیں وہاں پر وہ الرٹ رہے کہیں پر کوئی حادثہ ہوتا ہے کوئی بمبار ہوتا ہے کوئی راکٹ لگتا ہے اس علاقے میں فوراً پہنچیں وہاں پر متاثرہ لوگوں کو ریسکیو کریں انہیں طبی امداد پہنچائیں ہسپتالوں تک پہنچائیں اور ان شاءاللہ ہمارے رضاکار اس خدمت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں گے۔ تو کل ان شاءاللہ میں یہاں سے ایک بار پھر صوبہ خیبرپختونخواہ اور فاٹا کے عوام کو بالخصوص اور ملک کے دیگر حصوں کے عوام کو بالعموم دعوت دوں گا کہ وہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ پورے خود اعتمادی کے ساتھ بلا خوف و خطر پشاور آئیں اور اس اجتماع کو ملکی اور قومی آواز بنائیں اور پاکستان کی دفاع وطن کیلئے ملک کی دفاع وطن کیلئے ایک آواز بنیں۔
اس کے علاوہ میں کچھ باتیں میڈیا کے حوالے سے عرض کروں گا، میڈیا نام ہے تشہیر کا، مؤثر طریقے سے اپنی آواز ہر خاص و عام تک پہنچانا ملک کے اندر بھی ملک سے باہر بھی اور اگر جماعت کے خلاف کوئی غلط پروپیگنڈا کرتا ہے کوئی جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کرتا ہے تو اس کا دفاع کیا جائے، یہ تو ہے اس کا اصل مقصد لیکن دنیا میں میڈیا اتنا بے لگام ہو چکا ہے کہ کوئی مثبت بات تو ان کے لئے خبر ہی نہیں صرف منفی بات جو ہے وہی خبر ہوتی ہے، ایسی خبر جو سچ ہو یا جھوٹ لیکن اس میں سنسنی خیزی ہو لوگوں کے کان کھڑے ہوں اس سے بلکہ پوری طرح جھوٹ بول کر سوشل میڈیا کو جس طرح استعمال کر کے پیسے کمائے جاتے ہیں، کاروباری حوالے سے جس طرح سوشل میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے وہ تو سرے سے حلال و حرام سے جھوٹ اور سچ سے کسی کی نیک نامی ہے کسی کی بدنامی ہے اس سے لا پرواہ ہو کر وہ وہ کچھ کہتے ہیں جس کا نہ کوئی اخلاقی جواز ہے نہ کوئی شرعی جواز ہے نہ کوئی قانونی جواز ہوتا ہے اس کا، جب میڈیا کے اوپر لوگ انسانوں کے کمزوریوں کے پیچھے لگے ہوتے ہیں اور بالخصوص سیاسی لوگوں کے، سیاسی لوگ چونکہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں ان کا عوام سے رابطہ ہوتا ہے تو پبلک دلچسپی لیتے ہیں، بیوروکریٹ ہو فوجی ہو کوئی اور ہو اِدھر اُدھر کا اس سے کیا دلچسپی ہے لوگوں کی، جہاں عوام کی دلچسپی ہوتی ہے ان لوگوں کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ ان کے اس بیانیے کو لوگ زیادہ پڑھ سکیں یا زیادہ سن سکیں، اب ایک طرف آپ اپنی دنیا کی اس میڈیا کی رجحان کو دیکھیں اور دوسری طرف جناب رسول اللہ ﷺ کی اس فرمان کو لا تَتَّبِعُوا عَوَرَاتِ أَخِيكُم اپنے بھائی کی چھپی ہوئی باتیں جو ان کی زندگی کے راز ہوتے ہیں اس کا پیچھا نہ کیا کرو لا تَتَّبِعُوا عَوَرَاتِ أَخِيكُم یا أَخِيكُم المسلم کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، اپنے مسلمان بھائی یا اپنے بھائی کی چھپی ہوئی باتیں جو ان کی عیب ہو سکتے ہیں ان کے گناہ ہو سکتے ہیں اس کا پیچھا نہ کیا کرو فَيَتَّبِعُوا اللَّهُ عَوَرَاتِكُم ورنہ پھر اللہ تمہارے عیبوں کا پیچھا کرے گا فَيَفْضَحَكُم فِي رِحَالِكُم اور گھر بیٹھے بیٹھے اللہ تمہیں رسوا کردے گا۔ یہ دنیا کی سزا ہے کہ اگر تم کسی مسلمان بھائی کے رازوں کا پیچھا کرو گے ان کی عیبوں کا پیچھا کرو گے ان کی چھپی ہوئی چیزوں کا پیچھا کرو گے کہ مجھے کہی سے مل جائے پھر میں اس کو بدنام کروں پھر میں اس کو بلیک میل کروں، یہ نہ کیا کرو ورنہ تم بھی انسان ہو تمہارے بھی بہت سے عیب ہوں گے جو اللہ کو معلوم ہیں تو اللہ تعالیٰ پھر اگر تمہارے عیبوں کا پیچھا کرے تو بظاہر تو تم سمجھو گے کہ میں تو گھر بیٹھے بیٹھا تھا لیکن گھر بیٹھے بیٹھے رسوا کردے گا، یہ تو ہے شریعت کا تقاضا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے فرمایا اللَّهُمَّ إنِّي أّعُوذُ بِكَ مِنْ خَلِيْلٍ مَاكِرٍ عَيْنُهُ تَرَانِي، وَقَلْبُهُ يَرْعَانِي؛ إِنْ رَأَى حَسَنَةً دَفَنَهَا، وَإِذَا رَأَى سَيِّئَةً أَذَاعَهَا۔ یا اللہ مجھے ایسے مکار دوست سے پناہ دے جو آنکھوں سے مجھے گھورتا ہے دل سے مجھے تھاڑتا ہے اور میری اچھائی ملے تو اسے چھپاتا ہے میری برائی ملے تو اسے اچھالتا ہے اور دوسری جگہ فرمایا اللهم إني أعوذ بك من صاحبِ الخديعة إن رأى حسنةٍ دفنها و إن رأى سيئةٍ أذاعها مجھے ایسے دھوکے باز ساتھی سے پناہ دے کہ جو میری اچھائیوں کو چھپائے اور برائیوں کو اچھالے۔ دوست وہ ہوتا ہے خیرخواہ ہوتا ہے کہ اگر آپ کی اچھائی دیکھے تو اسے اچھالے، عیب ہو تو اس کو چھپائے یہ ہے دوستی اور اسلامی اخوت کا تقاضا اور ہم کیا کر رہے ہیں! ہمارا میڈیا کیا کر رہا ہے! سوشل میڈیا کیا کر رہا ہے! کیا عملی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان فرمانات کے بلکل برعکس نہیں جا رہا ہے ہمارا معاشرہ۔ تو جمعیت علماء اسلام کم از کم ان چیزوں کو ان تعلیمات کو مدنظر رکھے کہ بلاوجہ کسی کی برائیوں کے پیچھے لگ کر ہم اس کو اچھالتے رہے اور اگر اس کی کوئی اچھائی ہے تو اس کے بیان کرنے میں ہم بخل کریں۔
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے بارے میں کہاوت ہے پتہ نہیں صحیح ہے غلط ہے لیکن کہتے ہیں کہ حضرت آپ کو انگریز میں کوئی اچھی بات بھی نظر آئی؟ تو جواب دیا کہ ہاں کباب اچھے بناتے ہیں (قہقہہ)، تو اس طریقے سے اپنے اس میڈیا کو ہم نے منظم کرنا ہے کہ دوسرے میڈیا کے لوگوں کے لئے بھی ہم تعلیم کا ذریعہ بنے، اپنا پرچار خوب کریں لیکن کسی پر ہم گرفت کریں تو جائز گرفت ہو، کوشش ہو کہ اگر حکومت ہو سیاسی جماعتیں ہو کوئی تنظیمیں ہو تو وہ کم از کم اس سے سبق لیں اور اس کی پیروی کریں، یہاں تو ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مقابلہ ہوتا ہے، اس نے جھوٹ بول دیا میں اس سے زیادہ بڑا جھوٹ بول کر اس کے خلاف پروپیگنڈا کروں گا اس کا جواب دے دوں گا، اس نے ترچھا وار کیا میں اس سے بڑھ کر ترچھا وار کروں اس کے اوپر اور اس میں جو ہمارے علماء ہیں یا ہماری جو مذہبی تنظیمیں ہیں، اختلافات تو ہر زمانے میں رہے ہیں، اختلافات تو صحابہ کرام کے زمانے میں بھی رہے ہیں، فقہی مسائل پر اختلاف رہے ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ کی واضح رائے تھی اور پھر بڑے ڈٹے ہوئے تھے اور امام ابو حنیفہ نے انہی کی رائے کو لیا ہے کہ سفر میں قصر واجب ہے چار رکعات پڑھ لئے اعادہ کرنا ہوگا اور دلیل کیا ہے کہ اللہ تعالی نے تم پر صدقہ کیا ہے اب اللہ کا دیا ہوا صدقہ امام صاحب کہتے ہیں کیسے واپس کیا جائے اور پھر امر بھی ہے کہ صدقہ کو قبول کرو، اب جب ایک طرف اللہ کا صدقہ ہوا اور دوسری طرف اللہ کی طرف سے قبول کرنے کا حکم آگیا امر آگیا تو وجوب تو آگیا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے یہ تھی کہ قصر جو ہے وہ رخصت ہے اور چار رکعات پڑھے تو وہ عظیمت ہے اور یہ ان کی رائے تھی، اب ایک جگہ سفر میں اکٹھے ہیں حضرت عثمان امیر ہیں امیر المؤمنین ہیں امام ہیں نماز حضرت عثمان نے پڑھائی چار رکعات پڑھائی، عبداللہ بن مسعود پیچھے پڑھی چار رکعات پڑھی بعد میں کسی نے پوچھا ان سے کہ حضرت آپ تو اس مسئلے پر امام صاحب سے اختلاف کرتے ہیں امیر المؤمنین سے اور کبھی کبھی تو آپ زرا برہم بھی ہو جاتے ہیں ان کے اوپر اور آپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح دیکھا ہے دو رکعات پڑھتے ہوئے، تو آج کیا ہوا آپ کو، تو انہوں نے کہا اس اختلاف سے زیادہ امت کی تقسیم وہ میری اوپر زیادہ بھاری تھی، اگر میں آج جماعت چھوڑ دیتا الگ جماعت کرتا تو امت تقسیم ہو جاتی، اسی لئے یہ بھی امام ہیں ان کی بھی ایک رائے ہے اگر اس پر عمل ہو گیا تو کیا بات ہے، یہ وہ درس ہے جو صحابہ کرام نے اپنے عمل سے ہمیں دیا ہے اور ہم جو صحابہ کرام کے نام پر لقمیں کماتے ہیں اور روزگار بنایا ہوا ہے ہم نے ان کو، ان کو صرف ہم نے لڑائیوں کیلئے لیا ہے کہ امت لڑے خون بہائے، یہ فقہاء میں اختلاف نہیں، پھر اس کے بعد معتزلہ آئے، جہمیہ آئے، قدریہ آئے، جن کو لوگ اہل سنت و جماعت میں بھی شمار نہیں کرتے تھے لیکن ایک مسجد کے ایک کونے میں ایک درس دے رہا ہے تو دوسرے کونے میں دوسرا دے رہا ہے تو تیسرے میں تیسرا دے رہا ہے، علمی مباحثیں ہوتے تھے مذاکرے ہوتے تھے، آج ہم نے ان کو مناظرے کا نام دے دیا ہے مناظرہ کیا ہے مجادلہ ہے، جھگڑوں کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں، مناظرہ تو اس لئے ہوتا ہے کہ آؤ علمی بحث کریں اگر آپ کی دلیل قوی ہے تو میں قبول کروں اگر میری دلیل قوی ہے تو آپ قبول کرے، نہیں! ایک دوسرے کے اوپر وار کرنا چالاکی کے ساتھ وار کرنا اور اپنے آپ کو فاتح ظاہر کرنا اس کی کوشش ہوتی ہے مسئلے کی تحقیق کو پتہ نہیں کہاں رہ جاتی ہے۔ یہ منہج بھی صحیح نہیں، اس منہج کی بھی ہمیں اصلاح کرنی چاہیے اور جمعیت علماء اسلام تو ایسی جماعت ہے کہ ہم تو آج کی جمعیت کو دیکھتے ہیں تو آج کی جمعیت تو جب آپ مجھے دیکھیں گے تو آپ کہیں گے بھئی یہ تو سنی بھی ہے پھر اس کے بعد تو یہ تو حنفی بھی ہے پھر اس کے بعد یہ تو دیوبندی بھی ہے تو سمجھیں گے کہ جمعیت شاید ان لوگوں کی جماعت ہے، ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جمعیت علماء کی بنیاد تو حضرت شیخ الہند نے رکھی تھی لیکن حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے مالٹا سے واپسی سے پہلے جو اس کی تجویز بنی تھی اور اس کا جو پہلا جلسہ ہوا تھا وہ امرتسر میں ہوا تھا مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے گھر پہ حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ آئے تھے اور ایک اہل حدیث عالم دین کے گھر میں اس جماعت کی تجویز بنی اور امرتسر کے مسلم پبلک اسکول کے ہال میں 10 15 علماء نے بیٹھ کر یہ تجویز مرتب کی، یہ پہلا جلسہ تھا۔ تو اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ کہاں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ ایک حنفی دیوبندی اور کہاں مولانا ثناء اللہ امرتسری ایک اہل حدیث عالم دین اور ان کے گھر پر، معنی یہ تھا کہ اس میں فرقہ واریت نہیں تھی، اور جب حضرت شیخ الہند تشریف لائے تو حضرت شیخ الہند کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی آپ نے پسند فرمائی آپ نے قبول کیا اور پھر ہندوستان بھر کے علماء کرام کو بلایا اور یہ جو ہم نے ابھی صدسالہ کیا تھا اس میں ایک پمفلٹ چھپا تھا چھوٹا سا کتابچہ اس کا نام تھا مؤسسین جمعیۃ، مؤسسین جمعیت یعنی ان تمام علماء کے نام اس میں لکھے گئے تھے کہ جو اس جمعیت علماء کے اساسی جلسے میں شریک ہوئے تھے حضرت شیخ الہند کے دعوت پر، اس میں ایسے نام بھی ملتے ہیں کہ آپ نام سے اندازہ لگائیں گے کہ یہ کوئی شیعہ مکتب فکر کا عالم ہے، آپ ایسے نام بھی اس میں پائیں گے جو آپ لوگ سمجھیں گے کہ یہ تو کسی درگاہ سے تعلق رکھتا ہے یا کوئی بریلوی مکتب فکر سے اس کا تعلق ہے، اس میں اہل حدیث علماء بھی تھے، پورے ہندوستان کے علماء کے نام پر جمعیت علماء ہند قائم کی گئی تھی تاکہ امت ملت قوم ان کی اجتماعی زندگی میں شریعت کے مطابق رہنمائی کی جائے اور شریعت کو علماء جانتے ہیں اور امت اور انسانیت شریعت کی رہنمائی کی محتاج ہیں مملکتی زندگی میں بھی، تو اس کے لیے پورے ہندوستان کے علماء کو اکٹھا کیا گیا، بد قسمتی سے بعد میں وہ سارے اپنے اپنے پلیٹ فارموں پہ چلے گئے اور اب ہر چند کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پہ چلے گئے لیکن ہمیں جو دو چیزیں ملی ہیں جو جمعیت علماء کا نظریہ ہے اور اس نظریے کے لیے جو کام کرنے کا رویہ ہے ان دو چیزوں کو ہم نے چھوڑنا نہیں۔
میں دو تین دن پہلے لاہور گیا تھا ہمارے بہت ہی پیارے دوست بہت ہی قابل احترام پروفیسر ساجد میر صاحب رحمہ اللہ ان کی وفات پر تعزیت کے لیے میں ان کے مرکز میں گیا، وہاں میں نے یہ بات کہہ دی تو وہ سب حیران ہوئے اور مجھے کہنے لگے کہ اچھا اس کے بعد تو پھر ہم ہر جلسے میں یہ بات کہیں گے، میں نے کہا اچھی بات ہے۔ تو فرقہ واریت سے دور رہ کر اور یہ ثابت کرنا کہ اگر میں سنی ہوں اگر میں حنفی ہوں اگر میں دیوبندی ہوں تو یہ کوئی ایک بھی فرقہ نہیں ہے یہ اسلام کے آفاقی تصور کا نام ہے اسلام کی عالمگیریت کا نام ہے اور اس کی آفاقیت کا نام ہے، میں کس طرح اس کو ایک چھوٹے سے فرقے کے سرحدات میں بند کر دوں اس کو اور آج بھی الیکشن ہوتے ہیں اسمبلی میں ہندو بھی ہمارے رکن بن کے رہتے ہیں وزیر بھی بن جاتے ہیں عیسائی بھی آتے ہیں جو مسیحی لوگ ہیں اور سکھ بھی آتے ہیں اور ہمارے ممبر بھی بنتے ہیں ہمارے وزیر بھی بنتے ہیں، شیعہ بھی الیکشن لڑتے ہیں ہمارے ٹکٹ پہ لڑتے ہیں بریلوی بھی ہمارے ٹکٹ کا الیکشن لڑتے ہیں اور ایک پوری قوم کی ہم بات کرتے ہیں، یہ کیوں کرتے ہیں، ہم نے تو اپنی شناخت تو ختم نہیں کی، نہ ہم نے اہل سنت و جماعت کی شناخت ختم کی ہے، نہ ہم نے حنفیت کے شناخت ختم کی ہے، نہ ہم نے دیوبندی کی شناخت ختم کی ہے لیکن ہم عوام میں برابر کے پوزیشن میں جاتے ہیں اور ان کو ایک انسان سمجھ کر ان کے پاس جاتے ہیں ان کو ایک پاکستان کا شہری سمجھ کر ان کے پاس جاتے ہیں اور ان کو اپنے ملک اپنے وطن اور اس کی اخوت کی بنیاد پر ہم ان کو دعوت دیتے ہیں، ہم ان کے مشکل میں ان کا ساتھ دیتے ہیں، ہم ان کے مسائل میں ان کا ساتھ دیتے ہیں، ہم پارلیمنٹ میں کھڑے ہوتے ہیں، دفتروں میں جاتے ہیں، ڈپٹی کمشنروں کی دفتر میں ان کے ساتھ جاتے ہیں، عوام سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہمارے لیے کام کرتے ہیں۔ تو کچھ عملی دنیا میں آپ کو کام دکھانا ہوتا ہے، عملی طریقے سے آپ کو پبلک میں تاثر چھوڑنا ہوگا کہ یہ وہ جماعت ہے جو ہماری خیر خواہی کے لیے سوچتی ہے اور میں صرف اپنی بات نہیں کررہا، ایک زمانے میں ہم پارلیمنٹ میں ایک کمیٹی میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک لبرل سیکولر ہمارے ایک سیاسی رہنما نے کہہ دیا کہ مذہب اور سیاست کا تعلق ختم ہونا چاہیے، مذہب اور ریاست کا تعلق ختم ہونا چاہیے اور پھر اس پر اضافہ کیا کہ جب تک مذہب اور ریاست کو الگ نہیں کرو گے یہ فساد رہیں گے یہ دیوبندی بریلوی رہے گا یہ شیعہ سنی رہے گا یہ وہابی سنی رہے گا اس قسم کی باتیں کررہے تھے، تو جب انہوں نے بات پوری کی تو میں نے کہا جی میں اس کا جواب دینا چاہتا ہوں میں نے ان سے کہا کہ قوم کو آپس میں لڑانے کی علت ایک نہیں ہے یعنی صرف فرقہ واریت نہیں ہے، اس کے اسباب اور بھی ہیں فرقہ واریت بھی ایک سبب ہے میں اس کا انکار نہیں کرتا لیکن قومیت لسانیت علاقائیت صوبائیت یہ نعرے بھی تو قوم کو آپس میں لڑاتے ہیں، یہ بھی تو قوم کے اندر نفرتیں پیدا کرتی ہیں، اب ہر طبقے میں جائیں تو وہاں دو طرح کے لوگ ہوں گے، ایک ان کی سیاسی قیادت ہوگی، سو تمام مکاتب فکر کی جو سیاسی قیادت ہے اس نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی کا کردار ادا کیا ہے، پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد ہمارے بزرگوں نے لکھی، وزیراعظم پاکستان نے پیش کی، آج تک کسی مکتب فکر کا اس کے اوپر اختلاف نہیں ہے، پوری قوم کو انہوں نے اس قرارداد پر متفق کیا اور کہیں سے کوئی اختلاف کی آواز آج بھی نہیں اور اس وقت بھی نہیں تھی۔ سن 1951 میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے 22 اسلامی دفعات ملک کے سیاسی نظام کو چلانے کے لیے متعین کئیں، وہ متفقہ 22 اسلامی دفعات آج بھی متفقہ ہے۔ یہ ہے ہمارے ملک کے مذہبی مکاتب فکر کی سیاسی قیادت کا کردار۔ سن 73 میں آئین بنا تمام اسلامی دفعات پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق تھا، مسلمان کی تعریف کا سوال آیا پارلیمنٹ میں تمام مکاتب فکر کے متفقہ تعریف پر اتفاق ہو گیا، عقیدہ ختم نبوت کا سوال آیا تمام مکاتب فکر اس پر متفق ہو گئے، ناموس رسالت کا مسئلہ آیا تمام مکاتب فکر نے اس پر اتفاق کیا، اسلامی نظریاتی کونسل بنی آج تک تمام رپورٹیں مکمل ہو چکی ہیں اور 98 فیصد یا 99 فیصد رپورٹوں پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے کونسل کے اندر بھی اور کونسل سے باہر بھی۔ اور آئے ایم ایم اے تک یہ ہے ان کی سیاسی قیادت کا کردار۔ ہاں میں نے کہا معاشرے میں فرقہ ورانہ عناصر ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن جب وہ آپس میں لڑتے ہیں تو وہ ہماری حکومتوں کی ضرورت ہوتی ہے، ہماری ریاستی ایجنسیاں ان کو لڑاتی ہیں پھر فساد برپا کرنے کے لیے ان خاص حالات میں ان کو ضرورت ہوتی ہے، اس کا ملبہ آپ تمام مکاتبِ فکر اور ان کی سیاسی قیادت پر اور سیاست کو ریاست سے وابستگی کے مسئلے پر ڈالتے ہیں! اور جو دوسرے عوامل ہیں جو دوسرے اسباب ہیں، لسانیت ہو قومیت ہو علاقائیت ہو صوبائیت ہو میں نے کہا ناراض نہ ہوں یہ حضرات گرامی یہ جو میرے سامنے صف بیٹھی ہوئی ہے یہ سیاسی قیادت ان فسادات کی اور ان نعروں کی قیادت کر رہی ہے۔ سو آپ تمام اسباب کی قیادت کر رہے ہوں، آپ کے نعرے آئین کا حصہ ہونے چاہیئے اور جہاں کہ تمام سیاسی قیادت یکجہتی کی بات کرتی ہے وہ آئین کا حصہ نہیں ہونا چاہیئے، وہ ریاست کا حصہ نہیں ہونا چاہیئے، آپ کے نعرے ریاست کا حصہ ہونے چاہیئے! یقین جانئے کہ بولتی بند ہو گئی ایک سکوت چھا گیا ہے، تو ایک سیاسی لیڈر نے ہنس کر کہا کہ بھئی اتنا جملہ تو کہہ دو نا ریکارڈ پہ تو آ جائے کہ مولانا صاحب سے ہمارا اختلاف ہے اور پھر اجلاس ملتوی کردیا۔ یہ ساری چیزیں آپ کے مدنظر ہونے چاہیئے، آپ آج کی اس دور کی جو موجودہ صورتحال ہے اور نقشہ ہے اس کو نہ دیکھیں ہمیں اسلام چودہ سو سال پہلے سے ملا ہے ہم نے وہاں سے حوالہ ڈھونڈنا ہے، ہم نے صحابہ کرام سے حوالہ ڈھونڈنا ہے، ہم نے تابعین اور تبع تابعین سے حوالے ڈھونڈنے ہے، ہمیں ائمہ مجتہدین سے حوالے ڈھونڈنے ہیں، ہم نے صدیوں پہلے اپنے اکابر کے حوالے ڈھونڈنے ہیں اور آج کی سیاسی زندگی کو بھی ہم نے ان بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اور ہمارے اندر صلاحیت ہونی چاہئے، ہم اپنے آپ کو اس قابل بنائیں ہمارے اندر یہ Capability ہونی چاہئے کہ ہم اپنی تاریخ دین اسلام کی تاریخ جمعیت علماء ہند کی تاریخ برصغیر کی تاریخ اور اپنے اکابر کے اس طرز زندگی کو آج کے ماحول میں منطبق کرسکیں، اب یہ حکمت کا مسئلہ ہے، تو بنیادی چیز حکمت ہے حکمت آجائے، وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا، طریقے آجائیں سیاست میں اور سیاست عجیب میدان ہے اس میدان میں وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ بھی فٹ ہوتا ہے اور إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا، وَأَكِيدُ كَيْدًا بھی فٹ ہوتا ہے لیکن عقل و تدبیر سے ہونا چاہیے اخلاق سے باہر نہیں نکلنا چاہیے، اپنے اکابر کی بتائے ہوئے جو اصول ہیں اس سے ہمیں باہر نہیں جانا چاہیے، سو میڈیا کو بھی ہمیں اسی پر استوار کرنا ہے انہی خطوط پر استوار کرنا ہے جماعتی زندگی کو ہم نے انہی خطوط پر استوار کرنا ہے اور دنیا کو ایک معزز محترم اور وضع دار ایک سیاسی ماحول اور فضاء مہیا کرنا ہے، بات کرو تو اس میں الفاظ کے چناؤ کا بڑا کردار ہوتا ہے ایسے الفاظ کے ساتھ کسی کو پکارو جو اگر آپ تنقید بھی کرے تو ان کو برا نہ لگیں۔ تو الفاظ کے چناؤ میں جملوں کے چناؤ میں اور جب مشورہ کرے تو تدبیر کے تعین میں اور جو چیز آپ اٹھانا چاہیں ٹھیک ہے اس میں پہلے جذبہ شامل ہوتا ہے اس میں جذبہ شامل ہوتا ہے لیکن مشورے کے وقت جذبہ پیچھے ہوتا ہے اور عقل آگے ہوتا ہے اور پھر آپ کو وہ خوش قسمتی حاصل ہے کہ آپ کے عقل کو وحی کی رہنمائی بھی حاصل ہے تو لہٰذا آپ ہر موقع پر غلط فیصلوں سے بچ سکتے ہیں لیکن پورے تدبیر اور تدبر میں اور اپنے مشاورت میں اس چیز کو مدنظر رکھیں کہ تدبیر ہو یا تدبر ان دونوں الفاظ کا مادہ دال بے رے (د ب ر) ہے، یعنی النظر على دبر الامور تمام معاملات کے انجام پر نظر کرنا، تو کوئی جذبہ آپ کو اکٹھا کرتا ہے لیکن مشاورت میں آپ یہ ضرور سوچیں کہ ہم یہ قدم اٹھائیں گے اس طرح جائیں گے انجام کیا ہوگا، تو انجامِ کار کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم فیصلہ کریں گے تو ہمیں شرمندگی نہیں ہوگی اور ضروری نہیں ہے کہ آپ نے جو طے کیا اسی طرح۔۔۔ کیونکہ نتیجے کا مالک صرف اللہ ہے، تو اگر کہیں ہمیں اپنے مشاورت سے بنائی ہوئی حکمت عملی میں کامیابی نہیں ملتی تو پھر اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کو کچھ اور منظور تھا تو اس کے رضا کے سامنے تسلیم خم ہو جانا چاہیے کہ ہاں ہم نے تو خلوص نیت سے یوں سوچا تھا لیکن چونکہ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے تو ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی، انبیاء اکرام نے کتنی محنت کی، ایسے انبیاء آئے جو اکیلے دنیا سے گئے، ایسے انبیاء آئے جن کو ایک امتی ملا، ایسے انبیاء آئے جن کو دو امتی ملے، تو کیا ان کا پیغام غلط تھا، کیا ان کی محنت میں کوئی کمی تھی، سب کچھ پورا لیکن نتیجہ چونکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی مرضی تھی اور دوسری چیز کہ اپنی استطاعت سے زیادہ اللہ نے آپ پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا، سو جو آپ کے وسائل کے اندر ہو آپ کے استطاعت کے اندر ہو اس حد تک جاؤ اور ایسی حد تک جانا کہ جہاں سے نہ واپسی ممکن ہو اور نہ کامیابی کا کوئی راستہ آپ کو نظر آتا ہو تو پھر یہ آپ کی ہی اوپر وبال آتا ہے کہ آپ نے اپنے وسائل سے بڑھ کر کیوں بات کی، تو اللہ رب العزت نے بھی اگر فرمایا وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ کہ دشمن کے مقابلے میں اپنی قوت بناؤ تیار کرو جتنی تمہارے اندر استطاعت ہے، اب ہمارے اندر کتنی استطاعت ہے، ہم تو ایک سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں سیاسی قوت بنا سکتے ہیں مدرسے کی قوت بنا سکتے ہیں درس و تدریس کی قوت بنا سکتے ہیں دعوت کی قوت بنا سکتے ہیں مسجد کی قوت بنا سکتے ہیں یہ ہمارے بس کی باتیں ہیں، یہ ہمارا ماحول ہے، باقی اسلحے بنانا اس کے لئے تو قانون موجود ہے آج تو ہر آدمی اسلحہ نہیں بنا سکتا وہ تو حکومتوں کا مسئلہ ہے وہ ریاست کا مسئلہ ہوتا ہے، تو ہمیں قرآنِ کریم کی آیات کو بھی اس طرح تطبیق کرنا چاہیے کہ ہم ہر زمانے میں قرآن پر عمل بھی کرسکے اور قرآن سے رہنمائی بھی حاصل کرسکے۔ باقی ان چیزوں سے مت ڈرو کہ تمہارے خلاف کوئی فتوے لگا رہا ہے تو کوئی کچھ کر رہا ہے تو کوئی کچھ کر رہا ہے، جانے دو یہ لوگ اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں جو مؤمن کو کافر کہتا ہے یہ کفر ان کی اوپر خود نہیں لوٹ پاتا! مولوی صاحبان آپ سے پوچھ رہا ہوں، اتنے جری ہو گئے ہیں کہ وہ جمعیت علماء کے بارے میں کفر کی باتیں کرتے ہیں، کہ خود تو اللہ کی لعنت کو دعوت دے رہے ہیں، اللہ کی پھٹکار کو دعوت دے رہے ہیں، ان چیزوں سے متاثر نہیں ہونا، ایک ایسا تنا بن جاؤ ایسا تنا کہ جس کا تنا اتنا مضبوط ہو ایسا درخت ہو کہ تنا اتنا مضبوط ہو کہ اپنی جگہ سے نہ ہلے اور شدید آندھی آئے تو شاخوں میں اتنی لچک ہو کہ وہ شدید آندھی کے طوفان سے جھک جائے اپنے آپ کو ٹوٹنے نہ دے اور پھر جب وہ ہوا کا ریلہ گزر جائے پھر دوبارہ تنا اپنی جگہ کھڑا ہے اور شاخیں جو ہیں وہ حالات کے ساتھ آگے پیچھے ہوتی رہتی ہیں وہ طوفان آنے کے اوپر جھک بھی جاتی ہے پھر کھڑی ہو جاتی ہے وہ اپنے آپ کو ٹوٹنے نہیں دیتی تو جماعت کو ایک ایسا تنہ بناؤ کہ جو اپنے اصولوں سے بالکل نہ ہٹے، اپنی جگہ قائم رہے لیکن روزمرہ کے حالات کے ساتھ ایسی حکمتِ عملی کے ساتھ کھیلو کہ کوئی مشکل مرحلہ آئے تو گزر جائے اور جماعت وہیں کھڑی ہو۔ تو یہ تعلیمات ہیں شریعت کی اور انہی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے آگے بڑھنا ہے شاید وقت بہت زیادہ میں نے لے لیا ہے آپ بھی تھک گئے ہوں گے، اللہ تعالیٰ قبول فرما لے اور انہی خطوط پر ہمیں چلنے کی توفیق عطا فرمائے، ہم خود بھی کمزور لوگ ہیں باتیں کرتے ہیں اپنی باتوں پر عمل کی طاقت نہیں ہوتی، تو اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمين
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1
#teamJUIswat
LIVE Peshawar:Maulana Fazl ur Rehman Addresses to party leadershipپشاور مفتی محمود مرکز: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان پارٹی زمہ داران اور سوشل میڈیا کے ورکرز سے خطاب کر رہے ہیں
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Saturday, May 10, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں