مولانا فضل الرحمٰن کا پروفیسر ساجد میر کے انتقال پر ان کے جماعت کے رہنماؤں اور بیٹے سے تعزیت اور میڈیا سے گفتگو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پروفیسر علامہ ساجد میر کے انتقال پر ان کے جماعت کے رہنماؤں اور بیٹے سے تعزیت اور میڈیا سے گفتگو

6 مئی 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وصل اللہ علی النبی الکریم وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم۔
پروفیسر ساجد میر صاحب رحمہ اللہ زندگی کا ایک طویل عرصہ رفاقت رہی ہے، وفات سے چند روز پہلے میں نے ان کو فون کیا مجھے پتا چلا تھا کہ ان کے کمر میں کوئی تکلیف تھی اور آپریشن ہوا ہے تو بڑی بے تکلفی کے ساتھ انہوں نے باتیں کی ہنسے کھل کھلائے حال احوال لیا اور کہا کہ بس رفتہ رفتہ ٹھیک ہو رہا ہوں اللہ خیر کرے گا ان شاءاللہ لیکن چند روز بعد جب یہ خبر نظر سے گزری بظاہر اوسان خطا ہوگئے کہ یہ کیا ہوگیا جی لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے موت و حیات اسی کے ہاتھ میں ہے، جب وہ چاہے دنیا میں لے آئے اور جب وہ چاہے دنیا کے دن پورے کر کے اپنے ہاں بلالے یہ اسی کی مرضی ہے، تو سب نے جانا ہے اور بڑے لوگ بہرحال اپنی بڑائی ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں ہمارے پاس ان کا نصب العین ان کا مشن ان کا نظریہ رہ جاتا ہے اور جس کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری زندوں پہ آ جاتی ہے ان کے پیروکاروں پہ آ جاتی ہے ان کے رفقاء پہ آ جاتی ہے، تو زندگی بھر وہ جو مقصد لیے ہوئے تھے اور جس کے لئے وہ دن رات ایک کیے ہوئے تھے اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس نصب العین کو آگے بڑھائیں اس مشن کو ہم آگے بڑھائیں، یعنی مجھے بارہا اس کا مشاہدہ ہوا کہ پارلیمنٹ میں ان کا سیاسی وابستگی کچھ بھی ہو لیکن جب کوئی دینی مسئلہ سامنے آتا تو ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے اور اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ میرے تو کسی سے کوئی سیاسی اتحاد ہے یا میری کوئی وابستگی ہے وہ کچھ محسوس کریں گے بلکہ کوئی پرواہ کیے بغیر وہ حق کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ میزان حسنات میں ڈالے اور انسان ہیں ہم سب انسان ہیں وہ بھی ہماری طرح کے ایک انسان تھے، تو بہرحال وہ ایک نظریاتی انسان تھے اور پارلمنٹ میں بھی اسی کا اس نے لحاظ رکھا ہر مرحلے پہ لحاظ رکھا ہم اس کے گواہ ہیں، تو اب وہ ہم سے چلے گئے ہیں اللہ کے حضور میں ہیں، رب العالمین ان کے تمام حسنات کو قبول فرمائے اور تمام اگر سیِّات ان کے زندگی میں کہیں ہیں تو اللہ درگزر فرما دے، اللہ کو سارے گناہ معاف کرنے میں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں اس کو اور ہمیں اللہ توفیق دے اور ان کے خاندان کو ان کے اولاد کو اور ان کی جماعت کو کہ ان کے اس مشن کو آگے جاری رکھیں برقرار رکھیں اور دین کا کام بہرحال کارِ خیر ہے اس کارِ خیر میں ہم سب شریک ہیں اور یہ شراکت اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ نصیب فرمائے۔ میں تعزیت کیلئے حاضر ہوا ان کے خاندان سے تعزیت کرنے ان کے جماعت سے ان کے رفقاء سے بلکہ میں خود تعزیت کا مستحق ہوں میرے جو تعلق ان کے ساتھ رہا تو میں خود ان کے وفات پر تعزیت کا مستحق ہوں، اللہ تعالیٰ ہماری اس محبت کو جو لِلّٰہ محبت تھی وہ ہمیشہ قائم و دائم رکھیں۔ واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمين۔
سوال و جواب 
صحافی: جی آپ کا ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل میں بھی آپ کا ایک بڑا ساتھ رہا تھا کوئی ایسا مشرف کے دور میں بھی خاصے حالات میں وہ مشکل آئے، سر آپ کوئی بہادری کا واقعہ سنائیں گے جس میں وہ بڑے ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔
مولانا صاحب: ان کی ساری زندگی بہادری سے بھری ہوئی تھی، مجھے کوئی لمحہ یاد نہیں کہ انہوں نے کوئی کمزوری دکھائی ہو کسی موقع پر لیکن وقار کے ساتھ، بڑے وقار کے ساتھ، بڑے تحمل کے ساتھ، شائستگی کے ساتھ۔
صحافی: بھارت نے جو شرارت کی ہے اور اس کے حوالے سے کچھ تھوڑا سا بتائیں کہ دینی جماعتیں کہاں پہ کھڑی ہیں اور پی ٹی آئی کے حوالے سے بتائیں کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ مولانا صاحب ہمارے ساتھ نہیں ہے تو یہ تھوڑا سا ابہام ہے اس پر تھوڑا سا ڈیٹیل بتا دیں کہ کیا ہے، کل اے پی سی بھی ہے نا۔
مولانا صاحب: آپ نے ایسے سوالات کی ہے کہ ایک کا تعلق شرق کے ساتھ ہے ایک کا تعلق غرب کے ساتھ ہے، اب مجھے ملانا پڑے گا دونوں کو، تو بھارت نے پاکستان پر کچھ سویلینز کو قتل کرنے کا الزام پاکستان پر لگایا ہے جس کی کوئی تُک نہیں بنتی اور اس الزام لگانے میں وہ خود مشکوک ہو گیا ہے اور اس مشکوک ہونے پر خود ہندوستان میں وہاں کے جماعتیں چاہے وہ ہندو جماعتیں ہوں چاہے مسلمان جماعتیں ہوں ان پر تنقید کر رہے ہیں کہ آپ کا مقدمہ بنتا نہیں ہے اور الحمدللہ یہاں پاکستان میں مکمل یکجہتی ہے، میں تو پہلے روز ہی کہہ چکا ہوں کہ وطن عزیز کی دفاع کیلئے پوری قوم ایک صف ہے، ہم سیاسی اختلافات کریں گے اپنے گھر میں کریں گے اس کے اپنے حدود ہوں گے ان حدود تک ہم اختلاف رائے کرتے ہیں لیکن وطن کی حفاظت جو ہے وہ ہمارا سب کا ایک قومی فریضہ ہے ملی فریضہ ہے اور ان شاءاللہ پوری قوم ہمارے ہاں ایک ہے۔
صحافی: اے پی سی جو ہے پی ٹی آئی کا اس حوالے سے کوئی رابطہ ہوا ہے یا نہیں؟ 
مولانا صاحب: مجھے خبر تو ہے دعوت ابھی نہیں ملی۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ ہم جس طرح حکومت کو خود تنقید کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے ہندوستان میں جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں کہ جو تین بار کے وزیر اعظم رہیں مسلم لیگ ن کے سربراہ بھی ہیں، صدر بھی ہیں، میاں نواز شریف ابھی تک ان کی زبان سے ایک لفظ نہیں آیا، انڈیا نے جو جھوٹا پروپیگنڈا کیا پاکستان کے خلاف جس طرح کی ایک جنگی کیفیت پیدا کی گئی۔
مولانا صاحب: میں اپنی زبان کا پابند ہوں دوسرے کے زبانوں کا وکیل نہیں ہوں کون بولتا ہے، کتنا بولتا ہے، کہاں بولتا ہے لیکن یہ ہے کہ مجھے ان کے بارے میں بھی پورا اعتماد ہے کہ وہ قومی صف میں جو ہے وہ اکٹھے کھڑے ہیں جی۔
صحافی: حضرت یہی سیچویشن جو اس وقت بنی رہی ہے کہ انڈیا جو ہے وہ پروپیگنڈا کر رہا ہے، الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان جو ہے وہ دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب جو ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ جی بالکل ہم لوگ ماضی میں اس ڈرٹی پولیٹکس کا اور ڈرٹی گیمز کا حصہ رہے ہیں کہ ہم لوگ اس طرح کے اقدامات کرتے رہے ہیں، ان کی اس بیان کو آپ پاکستان کے لئے کتنا خطرناک سمجھتے ہیں؟ 
مولانا صاحب: پھر ہمیں ان کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوگا اور اس حوالے سے وہ کس زاویے سے بات کر رہے تھے ان کے کہنے کا مقصد کیا تھا وہ تو خود وہی بیان کر سکیں گے لیکن یقیناً اس بیان کو کچھ مخالفین نے ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، ہمیں ہر بات کہنی چاہیے بڑے احتیاط کے ساتھ کہنی چاہیے اور اگر کوئی چیز حقیقت ہے یا کچھ حقائق ہم سامنے لانے چاہتے ہیں تو حقائق کے لیے بھی موقع و محل چاہیے حکمت کے ساتھ چاہیے بے ہنگم ایسی بات کر دینا کہ جس سے ان حالات میں مشکلات پیدا ہوں تو میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے کوئی بری نیت سے بات کی ہوگی لیکن بہرحال اُس کا اپنے ایک ذاویہ نظر ہے اور اُس میں ضرور کچھ سوالات اٹھے ہیں جو نہیں اٹھنے چاہیے تھی۔
صحافی: دینی مدارس کے حوالے سے لاہور میں بھی آپ نے مینار پاکستان میں کہا کہ حکومت کو بھی باور کروایا کہ جو فیصلہ ہو اس پر عمل کیا جائے، تو وہ معاملات کہاں تک پہنچے اور دوسرا آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ سینتالیس کی حکومت ہے تو اس حوالے سے کچھ بتائیں کہ لوگوں کو ریلیف نہیں ملا تو یہ حکومت کہاں تک چلے گی کب تک لوگوں کو ریلیف دے گی آپ تو عوام کے لیے بھی کافی۔۔۔
مولانا صاحب: دیکھیں جہاں تک ہے دینی مدارس کا تعلق تو ایک قانون پاس ہو چکا ہے پھر اُس میں ایک ترمیم کی ضرورت پڑی جس پر کہ اتحاد تنظیمات مدارس نے اتفاق کیا پھر اُس حوالے سے ایک آرڈیننس آیا اب آرڈینس کو چار ماہ کے اندر اندر پارلیمنٹ میں آنا چاہیے اور اس کو بطور قانون اس کو پاس ہو جانا چاہیے لیکن وہ آرڈیننس اسمبلی میں آیا اور آرڈیننس کی مدت میں بھی اضافہ کیا مزید ایک سو بیس دن کا، تو یہ سب چیزیں بدنیتی پر مبنی ہیں معاملات کو لٹکانا اُلجھانا اور دینی مدارس کا یہ حال ہے اس وقت کہ ہمارا اپنا ایک شیڈول ہوتا ہے ہمارے شوال میں داخلے شروع ہو جاتے ہیں شوال کے آخر میں اسباق شروع ہو جاتے ہیں یا ذیقعد کے اوائل میں لیکن اس سال تو اتنا رش ہے دینی مدارس کے اوپر کہ انہوں نے وقت سے پہلے داخلے بند کر دیئے، تو وہ جو عوام میں اور عام آدمی میں قرآن و سنت کے علوم کے حصول کا ایک شوق ہے وہ تو اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے کہ اب مدارس جو ہے وہ طلبہ کا متحمل نہیں ہو رہا ہے، تو یہ کہاں بیٹھے ہوئے ہیں کس جہان میں یہ لوگ زندگی گزار رہے ہیں کیا سوچ رہے ہیں یہ لوگ لہٰذا مدارس پر قوم کا ایک اعتماد ہے مدارس ہمارے برصغیر کے سوسائیٹی کا ایک رچھا بسا حصہ ہے اس کو اس سوسائیٹی سے اب الگ نہیں کیا جا سکتا، ٹھیک ہے آپ لوگ کچھ کریں مغرب کو خوش رکھنے کے لئے کہ ہم یہ کچھ کر رہے ہیں تو ہم یہ کر رہے ہیں تو کہیں ایف اے ٹی ایف کے کوئی شرائط آتے ہیں کہیں آئی ایم ایف کے آتے ہیں ان کو مطمئن کرنے کے لئے یہ لوگ تھوڑا بڑا لگے رہتے ہیں، لیکن پوری دنیائے کفر اور اس کی پیروی میں اگر کوئی مسلمان حکومت اس معاملے میں ٹال مٹول کرتی ہے تو اس کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا، دینی علوم کا سلسلہ ٹھیک ٹھاک جاری ہے اور بڑے اعتماد کے ساتھ ملک کے اندر دینی علوم کا سلسلہ رواں دواں ہے۔
ضبط تحریر: #محمدریاض 
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1 
#teamJUIswat

لاہور: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی مرکز اھل حدیث آمد، پروفیسر علامہ ساجد میر کے انتقال پر ان کے جماعت کے رہنماؤں اور بیٹے سے تعزیت،میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Tuesday, May 6, 2025

0/Post a Comment/Comments