قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ہنگامی پریس کانفرنس
5 مئی 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمده و نصلی على رسولِهِ الكریم۔
پاکستان اس وقت ایک انتہائی نازک اور حساس دور سے گزر رہا ہے اور ہندوستانی جارحیت اس وقت پاکستان کی سلامتی کے لئے مسئلہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت بہت مضبوط بھی ہے، دنیا میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے، قوم اس پہ اعتماد کرتی ہے اور میں تو سب سے پہلے یہ اعلان کر چکا ہوں کہ وطنِ عزیز کی دفاع کے لئے پوری قوم ایک صف رہے گی، لیکن اس تمام تر یکجہتی کے باوجود آج جب پارلیمنٹ کا قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تو توقع یہی تھی کہ آج کوئی قرارداد آئے گی، آج معمول کی جو کاروائی ہے وہ معطل ہو جائے گی اور اس صورتحال پر بحث کی جائے گی لیکن وزیراعظم سے لے کر وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع یا کوئی بھی ذمہ دار منسٹر آج ایوان میں موجود نہیں تھا اور پھر اس کے بعد بانسری کس کے سامنے بجائیں، کیا فائدہ ہوگا اس کا، تو اس طرح سے انتہائی اہم اور حساس مسئلے کو غیر سنجیدہ لینا کہ کوئی یہاں پر پارلیمنٹ کو بتانے والا کوئی نہیں، حالات سے آگاہ کرنے والا کوئی نہیں، جواب دینے والا کوئی نہیں، داخلی طور پر بھی ہم اس وقت ابھی ایک دوسرے پر تنقید اور جوابِ تنقید کے دائرے سے نہیں نکل سکے، صوبہ خیبر پختونخوا میں اور بلوچستان میں جو جنگ جاری ہے اس میں اضافہ ہو رہا ہے کمی نہیں ہو رہی، دیکھنا یہ ہے کہ جب ہندوستان نے محاذ پر ہمیں للکارا اور ہماری فوج اُدھر متوجہ ہوئی وطن عزیز کی دفاع کیلئے تو کیا ملک کی داخلی جنگ کے ہم متحمل ہیں اور اس کے لئے کیا سٹریٹجی بنائی گئی ہے، حکومت نے کیا اس پر سٹریٹجی بنائی، اسٹیبلیشمنٹ نے کیا اس کے اوپر سٹریٹجی بنائی اس سے پارلیمنٹ کو کم از کم آگاہ کرنا چاہیے تھا یا کم از کم ہماری جو تجاویز تھیں آج اس حوالے سے وہ سن لی جاتی، تفصیل کے ساتھ سن لی جاتی، اگر کہیں کسی کمزوری کی نشان دہی ہم کرتے تو اس کو بھی تنقید تصور نہ کیا جاتا بلکہ اصلاح احوال اور ان کی دفاع کو مستحکم بنانے کے لئے اس کو لیا جاتا، تو ایسی صورتحال میں ظاہر ہے پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اس طرح ایوان کی کاروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے اور ہماری جماعت باہر آگئی، تو اس طرح پارلیمنٹ کے اجلاسوں کو غیر سنجیدہ بنانا، بے فائدہ بنانا اور پوری کیبنٹ مکمل طور پر غائب رہنا، کوئی ایک منسٹر نہیں جو ایوان کو جواب دینے والا ہو، کوئی تجویز سننے والا ہو، کوئی تنقید سننے والا ہو، تو اس پر مجھے احتجاج بھی ہے مجھے افسوس بھی ہے کہ اس طرح کیوں سوچا جارہا ہے۔
سوال و جواب
صحافی: مولانا صاحب یہ فرمائیے کہ مسلح افواج کو اور ڈیفنس ہمارا جو ارینجمنٹ ہے اس کو ایسی صورتحال میں جس سیاسی تائید کی ضرورت ہے کیا انہیں دستیاب ہے وہ سیاسی تائید؟
مولانا صاحب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فوج کبھی بھی اکیلے نہیں لڑتی، پوری قوم اس کے پشت پر آتی ہے اور قومی وحدت کے ساتھ جنگیں لڑی جاتی ہیں، ایک مؤثر سیاسی قیادت اس کے پشت پر ہونی چاہیے جو بدقسمتی سے اس ملک میں موجود نہیں ہے، جن کو باثر سیاسی شخصیات کہا جا سکتا ہے یا جہاں وہ کھڑے ہوں وہاں دنیا ان کو سنجیدہ لیتی ہے ایسی کوئی سیاسی قیادت اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی پشت پر ہمیں نظر نہیں آ رہی۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے کہ سلالہ چیک پوسٹ کے سانحے سے لے کر ایبٹ آباد کے سانحات تک ہم نے دیکھا کہ پارلیمنٹ متحرک ہوئی پارلیمنٹ اعلیٰ فوجی قیادت نے نا صرف بریف کیا بلکہ لمحہ بہ لمحہ ساری صورتحال سے پارلیمنٹ آگاہ رہا، سیاستدانوں کی بات پوری دنیا میں سنی جاتی ہے یا اس کو اولیت دی جاتی یا ترجیح دی جاتی ہے سیاستدانوں کی بات پر، اب کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی انہوں نے تاخیر سے طلب کیا اور اسی طرح غیر سنجیدگی۔۔۔ یہ سیاستدانوں کی آواز کیوں اس طرح بنایا جاتا ہے؟
مولانا صاحب: پھر اس کے علاوہ میں آپ کی تائید کرتے ہوئے ایسی متنازعہ چیزیں سامنے آ رہی ہیں مثال کے طور پر نہروں کا معاملہ ایسا متنازعہ کہ پورا ایک صوبہ جو ہے وہ وفاق کے اور پنجاب کے مقابلے میں آ گیا، اسی طریقے سے مائنز اور منرلز بلز جو ہے وہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں لایا جا رہا ہے جو متنازعہ ہے اور جس پر قوم نے اٹھنا ہے اور لوگوں نے اس پر احتجاج کرنا ہے کہ ہمارے حق کے مالک تم کب سے بن گئے ہو اور کس طرح ہمارے اثاثوں پر تم قبضہ کر سکتے ہو، اسی طریقے سے جب مذہبی حوالے سے جو توہین رسالت یا توہین مذہب کے حوالے سے عدالتوں نے فیصلے دے دئیے ہیں لوگوں کو سزائیں سنا دی گئی ہیں اس کے لئے دوبارہ کمیشنیں بنانا اور تجاویز پر بات کرنا ہماری ملک میں تو نئے نئے ہنگامیں کھڑے کرنے والی بات ہے، لہٰذا ہم یہی چیزیں ایوان میں زیر بحث لانا چاہتے تھے اور ان کو ہم حکومت کے سامنے رکھنا چاہتے تھے کہ یہ وقت نہیں ہے اس قسم کے متنازعہ چیزوں کو اٹھانے کا کہ ہم ایوان میں بیٹھے رہے ہیں اور ایوان میں ہم حکومت کے پالیسیوں پر تنقید کریں، اس وقت تو ایک ایسی قرارداد کی ضرورت ہے کہ باقی سب چیزیں چھوڑ دو صرف ملک کی دفاع کے لیے ہم نے متحد رہنا ہے اور جو چیزیں ہمارے اتحاد کے خلاف ہیں ان کے لئے کیا حکمت عملی بنانی ہوگی۔
صحافی: اب حکومت سمجھتی ہیں کہ جو اپوزیشن ہے اسے کسی قسم کا اسے ڈر نہیں ہے شاید یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس لئے غیر سنجیدہ تھی آج۔
مولانا صاحب: اپوزیشن سے ڈرنے اور نہ ڈرنے کا سوال ہے آج! یہ کوئی بات ہے، کوئی حکومت گرا رہا ہے، کوئی عدم اعتماد کی تحریک لا رہا ہے، یہ کیسے سوال آپ کر رہے ہیں۔
صحافی: مولانا صاحب کل بریفننگ دی گئی تھی سیاسی جماعتوں کو ہر جماعت کا نمائندہ موجود تھا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سچویشن میں بریفننگ کافی ہے؟
مولانا صاحب: یہ بریفنگ بھی غیر سنجیدہ تھی جن کے ساتھ انہوں نے رابطہ کیا وہ تو چلے گئے اگر ہم سے بھی رابطہ ہوتا تو ہم بھی چلے جاتے لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح غیر سنجیدہ اقدامات کیوں لے جاتے ہیں اور کسی کو نہ علم نہ پارٹیوں کو علم نہ پارٹی قیادت کو علم بریفنگ دیے جا رہے ہیں تو یہ ساری چیزیں جو ہیں اس وقت حالات سے کوئی مطابقت اور مناسبت نہیں رکھتی، میں سوچتا ہوں کہ صرف فوجی سوچ اور اپروچ کافی نہیں ہے اس میں مضبوط پولٹیکل اپروچ جو ہے وہ ہونا چاہیے اور ہماری اسٹریٹیجک پالیسیاں جو ہیں وہ پوری قوم کی پالیسیاں ہونا چاہیے۔
صحافی: جنگ کی صورتحال ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جنگ کتنی دور ہے؟
مولانا صاحب: دیکھئے دور یا قریب ہونا الگ بات ہے تیاری جو ہے وہ ہونی چاہیے اور بھرپور تیاری کے ساتھ ہمیں ہر وقت الرٹ رہنا چاہیے، رہی بات جنگ کی جنگ کی بات انڈیا کر رہا ہے جنگ کی بات پاکستان نے نہیں کی، پاکستان نے جواباً رد عمل دیا ہے، اب بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ہندوستان کی حکومت کو وہاں خود سپورٹ نہیں مل رہی، وہاں اپوزیشن کی سپورٹ نہیں مل رہی، سیاسی جماعتوں کی سپورٹ نہیں مل رہی، مذہبی جماعتوں کی سپورٹ نہیں مل رہی اور حکومت وہاں پر بلکل تنہا ہے تو اس صورتحال میں پاکستان کی پوزیشن بڑی مستحکم ہے کہ یہاں ایک ملکی یکجہتی موجود ہے ملکی دفاع کیلئے جبکہ ہندوستان میں ہندوستانی حکومت کی جو پالیسی ہے اور جس طرح انہوں نے پاکستان کو تھریٹ کیا ہے میرے خیال میں اس میں کوئی معقولیت نہیں ہے اور اس حوالے سے جو ابتدائی خبریں آئی تھی کہ کس طرح ایف آئی آر کاٹا گیا، کس طرح سے پاکستان پر الزام لگایا گیا، یہ ساری چیزیں ایسی لگتی ہیں کہ جیسے انہوں نے بس عجلت میں کی ہیں اور وہ کوئی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا مقامی سیاست میں جو حاصل نہیں کر سکا۔
صحافی: مولانا صاحب انفیکٹ آپ نے جس طرح بتایا کہ حکومت کی غیر سنجیدگی تو عیاں ہو چکی ہے لیکن آج بھی اس ملک کے سن آف سوائل ہیں اور ایک بڑی توانا آواز ہے اپوزیشن کے اندر تو کیا امید رکھیں کہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے ایک اے پی سی بلائی جا رہی ہے جس میں حکومت کو بھی دعوت دی جائے تاکہ اکراس دی انڈیا کہ بڑا پھر پور پیغام جائے کیونکہ حکومت یہ کام کرنے میں ناکام رہی ہے تو آپ کرنے جا رہے ہے سر یہ کام؟
مولانا صاحب: دیکھئے حکومت کرے ہم کریں یہ سوال جب پیدا ہوتا ہے تو یہی تقسیم کا سبب بنتا ہے، اس وقت تو حکومت کو کرنا چاہیے سارا کچھ اور اگر حکومت خاموش ہے اپوزیشن اجلاس بلا لیتی ہے یہ بھی ایک تقسیم کی علامت بنتی ہے تو میرے رائے میں یہ سارے سٹپس جو ہیں اس وقت حکومت کو اٹھانے چاہیے تھیں اور ہم اگر اٹھائیں گے ہم تو کل بھی اٹھا سکتے ہیں ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم نے تو سب سے پہلے بیان دیا کہ آج پاکستانی قوم ایک صف ہے اور ہم اپنے وطن عزیز کی دفاع پوری ایک قومی قوت کے ساتھ اور سوچ کے ساتھ کریں گے اور اس سے ایک یکجہتی کی فضاء بنی ہے یقیناً بنی ہے تو اس کو سبوتاژ نہ کیا جائے غیر سنجیدگی سے یقیناً پھر داخلی معاملات چھڑیں گے تنقید ہو گی حکومت پر اور وہ یکجہتی ختم ہوجائی گی۔
صحافی: مولانا صاحب کے پی کے میں آپ لوگوں کی بڑی نمائندگی ہے، کے پی کے جو حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں اور جو دوسرے جو دہشتگرد اندر آ رہے ہیں اور کافی حد تک اندر آ چکے ہیں آپ کی پارٹی اس کو کیسے دیکھتی ہے کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کا کیا حل ہے؟
مولانا صاحب: دیکھیں میں نے پہلے بھی یہی بات کہی کہ ایک طرف ہندوستان کی جارحیت ایک طرف بلوچستان اور کے پی میں جو داخلی جنگ چل رہی ہے اس کے لیے کوئی سٹریٹیجک پالیسی ہماری ہونی چاہیے اور سیاسی لوگوں کو انوال کرنا چاہیے اس میں تاکہ ہم اس کے لیے راستے نکالیں اور اگر ایک طرف ہمارے پوزیشن جو ہے وہ بہت سنجیدہ ہے تو دوسرے اطراف پر ہمیں ایک کام کرنا چاہیے محنت کرنی چاہیے تاکہ ہم ہمہ جہت جنگ میں نہ الجے رہیں ورنہ ہندوستان ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھائے گا۔
صحافی: جی مولانا صاحب پی ٹی آئی سات مئی کو اے پی سی بلائیں گے آپ کو دعوت آئی ہے اگر آئی گی تو آپ دعوت اے پی سی میں جائیں گے؟
مولانا صاحب: مجھے خبر آئی ہے دعوت نہیں آئی ہے۔
صحافی: مولانا صاحب اس حوالے سے آپ ہمیشہ یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں اور ساری سیاسی اور جمہوری قوتوں کو اکٹھا کرنے میں بھی مصروف رہتے ہیں، میاں نواز شریف کے ساتھ اس حساس معاملے پر کوئی رابطہ کریں گے؟
مولانا صاحب: اگر تو کوئی ایسی تجویز سنجیدہ طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ہم اے پی سی بلاتے ہیں تو پھر تو میرے خیال میں ان کو بھی شریک ہونا چاہیے وہ بھی پاکستان کے ایک اہم شخصیت ہیں تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں تو ان کی شخصیت اور ان کی اہمیت سے تو ہم انکار نہیں کریں گے جی۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتا دیں کہ یقیناً آپ کی پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے میں جمعیت علماء اسلام کا ہم دیکھتے ہیں ایک مضبوط اور ایک مقبول جماعت ہے، اس وقت جو خطے کی صورتحال ہے اور کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، آپ ایز ہول بھارت کی جو بی جے پی اور کانگریس کی قیادت ہے، آپ یہ سمجھیں کہ اس وقت جو ہے آپ خطے میں اپنے جمعیت علماء اسلام اس کے نمائندے ہے، اس کو کیا پیغام دینا چاہیے یہ صورتحال پر خطے میں؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں مودی جی جو ہیں جو فرقہ پرست ہے اور جو مسلم دشمن تصور کیے جاتے ہیں اور گجرات پہ جب وہ وزیراعلیٰ تھے تو مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، لہٰذا اس کو ایک اس کی ذہنیت ایک فرقہ ورانہ ذہنیت ہے، ہندوستان کو بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ وہاں پر ایک جہتی ہو، اگر ان کا آئین ایک سیکولر آئین ہے اور اس پہ ہندوستان کے ہر شہری برابر کی حیثیت رکھتے ہیں، تو پھر وہاں اس قسم کی ذہنیت اگر حکومت کرے گی تو وہ جس طرح انہوں نے اب الیکشن میں تو شکست کھا گیا تھا، اتحادیوں کے سہارے حکومت کر رہا ہے، پھر اس نے جو تبدیلیاں کشمیر میں کی اور جس طرح ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن الیکشن میں کشمیری عوام نے مسترد کر دیا ان کو، یہ چیزیں ان کے اعصاب کو توڑ چکی تھی، آج اس کو ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ اس واقعے کا سہارا لے کر وہ مسلمانوں کے خلاف ہندو ووٹ کو اکٹھا کر سکے اور ہندو غیض و غضب کو اٹھا سکے مسلمانوں کے خلاف جو کبھی بھی ہندوستان کے فائدے میں نہیں جائے گا، نہ ہندوستان کی مفاد میں یہ بات ہوگی، لہٰذا ایسی صورتحال میں ہندوستانی قوم کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایک ایسا فرقہ پرست جو قوم کو آپس میں لڑاتا ہے جو اپنے ملک کو دوسروں سے لڑاتا ہے، بلا تحقیق لڑاتا ہے اور آندھاپن الزامات لگا رہا ہے، اس سارے صورتحال میں میرے خیال میں اس وقت وہاں جو اپوزیشن کا رول ہے حکومت کے حوالے سے جو اس کو یہ یکجہتی نہیں مل رہی ہے اتفاق رائے نہیں مل رہا ہے اس کی یہی وجوہات ہیں۔ بہت شکریہ
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1
#teamJUIswat
Presser in Parliament Houseپارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد:قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی اہم پریس کانفرنس
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, May 5, 2025
Good
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں