قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو

9 مئی 2025

یہ جو ہمارے ملک میں بعض لوگ سوشل میڈیا کے اوپر افواہیں پھیلاتے ہیں، پھر جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں، پھر فوج پر تنقید کرتے ہیں، پھر مذاق کرتے ہیں، مسخرہ کرتے ہیں، یہ اپنی حب الوطنی کو مشکوک کرتے ہیں، اس کے علاوہ انہیں کوئی فائدہ اس کا نہیں ہے اور یہ چیزیں جو ہیں اس وقت ان حالات میں جبکہ آپ کی فوج محاذ پر ہو تو اس وقت ان کے حوصلوں کو توڑنے کا سبب بنتا ہے اور جب حوصلہ ٹوٹتا ہے اور دفاعی حوصلہ ٹوٹتا ہے تو ظاہر ہے کہ ملک جو ہے وہ رسک پہ چلا جاتا ہے۔ اس وقت تک ماشاءاللہ قوم کا سر فخر سے بلند ہے، ہندوستان نے جتنی بھی اپنے فتوحات کی باتیں کیں ہیں سب جھوٹ بولا ہے، کراچی بندرگاہ پہ قبضہ ہو گیا، تو لاہور کے ائیرپورٹ پہ قبضہ ہو گیا، تو فلاں ہو گیا، تو وزیراعظم گرفتار ہو گیا، تو آرمی چیف برطرف ہو گیا، اس قسم کی باتیں جو ایک لمحے کے لیے بھی جھوٹ برقرار نہیں رہ سکتا اور حقیقت سامنے آ جاتی ہے، نہ معلوم وہ کہاں پڑھیں ہیں کہاں انہوں نے یہ تعلیم حاصل کی ہے، تو ہمیں ان کی طرح نہیں ہونا چاہیئے ہمیں ان سے امتیاز برتنا چاہیئے بحیثیت ایک مسلمان کے، اور مسلمان سب سے پہلے اس کا اخلاق ہے پھر اس کے بعد اس کا سچ ہے اور جھوٹ تو بلکل نہیں بولنا چاہیئے سچ بھی اتنا بولنا چاہیئے جس کی ضرورت ہو اگر بعض دفعہ سچ بولنے میں بھی اگر مشکلات ہوتی ہیں تو پھر خاموش رہا جا سکتا ہے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔

سوال و جواب

صحافی: اب تک کی جو صورتحال دیکھی ہے آپ نے، پانچ ہم نے طیارے گرائے ہیں سو کے قریب اسرائیلی ڈرون وہ اب تک کی صورتحال میں گرائے چکے ہیں کیا کہیں گے پاک فوج کی اس کارکردگی پر؟

مولانا صاحب: دیکھیں پاک فوج کی یہ کارکردگی بہت ہی قابل تحسین ہے اور پاکستان کی فوج چاہے وہ بری ہو، چاہے فضائی ہو، چاہے بحری ہو سب اپنے ملک کے ساتھ بڑے کمیٹڈ نظر آئے ہیں اور انہوں نے اپنے سرزمین کے دفاع کا حق ادا کیا ہے اور ہندوستان جھوٹ بول کر تو وہ اپنے فتوحات کی بات کرتا ہے جبکہ پاکستان بین الاقوامی طور پر تحقیق شدہ گفتگو کر رہا ہے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ جہاز گرائے ہیں ہم نے اور پانچ جہاز گرائے ہیں اور فرانس اس پر تشویش میں بھی ہے کہ ہماری بدنامی ہو گئی کہ ہمارے جہاز جو ہیں وہ اپنا دفاع نہیں کر پاسکے اور گرا دیا گیا۔ تو یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ اس وقت ان حالات میں پوری قوم کو حوصلہ مل رہا ہے تو فوج کی بہادری سے قوم کو حوصلہ ملتا ہے اور جب قوم فوج کے پشت پر ہوتی ہے تو پھر فوج طاقتور ہو جاتی ہے اس کا حوصلہ اور بڑھ جاتا ہے تو ظاہر ہے حوصلے لڑتے ہیں اگر جنگ میں آرمی پر خوف طاری ہو جائے اور اس کے اوسان خطا ہو جائے تو کتنے ہی اس کے پاس اسلحہ کیوں نہ ہو سب کچھ چھوڑا جائے۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے حضرت اسرائیل نے جب غزہ پر بمباری شروع کی تو ان حالات میں عام شہریوں پر بمباریوں کے دوران سب سے پہلے مودی نے اس کی حمایت کی اور اس وقت اسرائیل اور ہندوستان انڈیا کا جوڑ ہے جسے خود انڈیا کے لوگ اس کو تنقید کر رہے ہیں کانگریس تنقید کر رہی ہے مسلمانوں کی جماعتیں وہاں تنقید کر رہی ہیں جمعیت علماء تنقید کر رہے ہیں سارے چیزوں پر تو اس حوالے سے ہندوستان میں کوئی یکجہتی موجود نہیں ہے اور الحمدللہ پاکستان میں ایک یکجہتی موجود ہے۔

صحافی: مولانا صاحب یہ دونوں جو ممالک ہیں یہ ایٹمی ممالک ہیں تو آپ نہیں سمجھتے کہ اگر بات بڑھتی ہے تو یہ آپشن؟

مولانا صاحب: ظاہر ہے جی کہ جب دونوں طرف ایٹمی قوتیں ہوں تو وہاں تک جانے میں تو یقیناً دونوں کی بربادی ہے اور پاکستان تو ویسی بھی جنگ نہیں چاہتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی یہ ہیں کہ اللہ سے عافیت مانگا کرو دشمن کا سامنا کرنے کی خواہش نہ کیا کرو اور اگر سامنا ہو جائے تو پھر ڈٹ جایا کرو اور یہ دو مراحل ہیں کہ پہلے عافیت مانگو پھر دشمن کا سامنا کرنے کی خواہش نہ کیا کرو اور اگر مقدر ہے سامنا، سامنا ہو گیا تو پھر ڈٹ جاؤ، بزدلی کی گنجائش پھر اسلام میں نہیں ہے، تو اسی روش کو سامنے رکھتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، پاکستان نے جنگ کا آغاز نہیں کیا، اگر پہلگام واقعہ ہوا ہے تو بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ ہم نے کیا ہے، آئیں بین الاقوامی ادارے ہیں انسانی حقوق کے ادارے ہیں اقوام متحدہ ہے انسانی حقوق کنونشن ہے وہ آئیں تحقیقات کریں اس کے لئے تو ہم نے دعوت دی ہوئی ہے۔

صحافی: امریکہ کا کیا کردار دیکھ رہے ہیں؟

مولانا صاحب: حضرت امریکہ اس بات کی انتظار میں ہے کہ مجھے کب کوئی رول ملتا ہے ایسا رول کہ میں پولیٹکلی اور سفارتی طور پر بھی اس خطے میں جگہ بنانا تو چونکہ وہ انڈیا کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے بلکہ وہ تو اپنے آپ کو انڈیا کا سٹرٹیجک پارٹنر تک کہہ چکا ہے اس سے پہلے اور پاکستان بھی بہرحال بین الاقوامی گروپ میں تو اسی میں ہے جہاں پر امریکہ اور یورپ ہے تو اس حوالے سے ابھی جو امریکہ کی پوزیشن ہے وہ اپنی پوزیشن کو واضح نہیں کر رہا ہے اور بڑی طاقتوں کا اپنی پوزیشن واضح نہ کرنا یہ ظاہر ہے جی کہ یہ پھر ریاستی دہشتگردی کو فروغ دیتا ہے، امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دیا ساٹھ ہزار انسانوں کے قتل عام پر وہ خاموش ہے اور وہ اس پر اسرائیل کو حق بجانب سمجھتا ہے تو پھر آپ نے صدام حسین کو کیوں پھانسی دی، آپ نے پھر محمد قذافی کو کیوں وہاں سے ہٹایا، ان کے خلاف بغاوتیں کروائے، ان کو سپورٹ کیا تو اس قسم کے چیزوں میں وہ اپنا سیاسی مفاد دیکھیں گے اس کو کوئی انسانیت سے تعلق نہیں ہے انسانیت پر ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

صحافی: یہ بتائیے گا کہ ایک تو قوم کی طرف سے ظاہر ہے ڈیمانڈ آ رہی ہے کہ بھارت کو بھی جواب دیا جائے گا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے خلاف پاکستان کو ایسی کاروائی کرنی چائیے اور بجٹ آ رہا ہے کیا بجٹ دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ کی حمایت کریں گے؟

مولانا صاحب: دیکھئے جہاں تک ہے جنگی حکمتِ عملی اس پر لوگ کے جذبات ہوتے ہیں آپ بھی حملہ کریں لیکن بات یہ ہے کہ کیا جنگی حکمتِ عملی کا وہ حصہ ہے تو لہٰذا جو محاذ پر جنگ لڑ رہے ہیں وہ اپنی جنگی حکمتِ عملی خود بناتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے جنگ کے لیول کو کہاں رکھنا ہے تو میرا یہ خیال ہے کہ جنگ اس حد تک بلکل بھی نہیں جا رہا کہ وہ ایٹمی جنگ کے حد تک چلا جائے لیکن پھر بھی بہرحال اس وقت تک پاکستان کو جگہ جگہ پر فتوحات حاصل ہوئی ہیں، میری ذاتی معلومات کی حد تک کچھ کشمیر کے اندر بھی کچھ چھاؤنیاں پاکستان کے فوج کے قبضے میں آئی ہیں اور انہوں نے بھاگ کر چھاؤنیاں چھوڑ دی ہیں تو یہ خبریں اچھی آ رہی ہیں پاکستان کے لیے حوصلہ افزاء آ رہی ہیں اس لیے ہندوستان اب جھوٹ کا سہارا لے رہا ہے اور بلکل ہی جیسے منگھڑت قسم کی خبریں پھیلا دینا تو یہ چیزیں جو ہیں وہ انڈیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہی ہیں۔

صحافی: پاکستان تحریک انصاف ابھی بھی حکومت پر تنقید کر رہی ہے مسلسل، تو کیا سمجھتے ہیں کیا کرنا چاہیے ان کو سمجھائیں گے، ان کو بیٹھ کے مذاکرات کرائیں گے اس سیچویشن میں کہ ملک ایک جنگی حالات میں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جو ہے پھر بھی حکومت پر جو ہے وہ تنقید جاری رکھے ہوئے تو کیا آپ اس میں کوئی کردار ادا کریں گے ؟

مولانا صاحب: دیکھئے ہر پارٹی کا اپنا ایک انداز گفتگو ہے اور اس کے اپنی ترجیحات ہے جہاں تک ملک کے لیے لڑنے کی بات ہے تو وہ بھی ملک کے لیے لڑنے کی بات کرتے ہیں کوئی ایسے نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان کے لیڈر جیل میں ہے ان کے ورکر جیل میں ہے تو وہ ان حالات میں ان کی رہائی کو بھی اپنے مطالبات میں شریک رکھتے ہیں یا یہ تعبیر کرتے ہیں کہ ان کے باہر آنے سے ملک کو فائدہ ہوگا لیکن یہ معاملات جو ہیں یہ عدالت کے ہیں اور عدالتی معاملات پر میں تبصرے نہیں کیا کرتا میں سیاسی آدمی ہوں اور سیاسی طور پر کسی کے نزدیک صحیح بات نہیں ہے۔

صحافی: انہوں نے آج کی جو صورتحال ہے جو علی امین گنڈاپور ہے انہوں نے پے رول پر رہا کرنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی ہے کہ انڈین جو اٹیکس ہیں وہ پنڈی تک پہنچ گئے ہیں اور ممکنہ طور پر وہ سابق وزیراعظم، ان کے اوپر جیل میں بھی حملہ ہو سکتا ہے اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں کہ ان کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کیلئے ؟

مولانا صاحب: انہوں نے پیٹیشن دائر کیا ہے اگر عدالت ان کی پیٹیشن کو قبول کرتی ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ بہت بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض

ممبرز ٹیم جےیوآئی سوات

#teamJUIswat

پارلیمنٹ ہاوس: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی صحافیوں سے گفتگو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Friday, May 9, 2025

0/Post a Comment/Comments