قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا کوئٹہ میں سوشل میڈیا ورکرز سے اہم خطاب
14 مئی 2025
برادرانِ محترم، ڈیجیٹل سوشل میڈیا کے ذمہداران و کارپردازان، یہ ایک اچھی محنت ہے جو اس وقت پورے ملک میں جمعیت علماء اسلام کے نوجوان سر انجام دے رہے ہیں، کیونکہ نئے دور کے جو نئے تقاضے ہیں، ذرائع اور وسائل ہیں، ان کو استعمال میں لانا ناگزیر ہو جاتا ہے اور پھر ایسے ماحول میں کہ جہاں پر مغربی دنیا کی ترجیحات، ان کا تہذیب وتمدن، ان کے نظریات اور انہیں فروغ دینے کے لیے جس بے تحاشا انداز کے ساتھ وہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں، ضروری ہے کہ ہم اپنے نظریات، اپنے اعتقادات، اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کے فروغ کے لیے انہی ذرائع کو استعمال بھی کریں اور انہی ذرائع سے ہم ان کو جواب بھی دیں، ان کا جو فریب و مکر ہے اس کو توڑیں اور دین اسلام کا حقیقی چہرہ اور اس کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔
آج کل جو دنیا میں میڈیا متعارف ہے، کم از کم میری ذاتی رائے میں وہ دین اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ دین اسلام کا مزاج اور اس کی تعلیمات کسی کی کمزوریوں کو، کسی کی برائیوں کو چھپانا اور ان کی اچھائیوں کو سامنے لانا یہ اسلام کا مزاج ہے۔ لیکن میڈیا کے دنیا میں وہ کھوج لگاتے ہیں کہ کہیں سے کسی کی کمزوری ہاتھ آجائے، کہیں سے کسی کی کوئی برائی ہاتھ آجائے اور پھر ہم اس کو اچھا لیں اور اسی پہ وہ پیسے کماتے ہیں۔ یہی ان کا کاروبار بنتا ہے۔ اسی لئے جنابِ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لَا تَتَّبِعُوا عَوَرَاتِ أَخِيكُمْ فَيَتَّبِعُوا اللَّهُ عَوَرَاتِكُمْ وَيُفْتِحَكُمْ فِي رِحَالِكُمْ کسی بھائی کے پوشیدہ باتوں کے پیچھے مت لگو ورنہ اللہ تمہاری برائیوں کے پیچھے لگے گا اور تمہیں گھر بیٹھے بیٹھے رسوا کر دے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے اللَّهُمَّ إنِّي أّعُوذُ بِكَ مِنْ خَلِيْلٍ مَاكِرٍ عَيْنُهُ تَرَانِي، وَقَلْبُهُ يَرْعَانِي؛ إِنْ رَأَى حَسَنَةً دَفَنَهَا، وَإِذَا رَأَى سَيِّئَةً أَذَاعَهَا۔ مجھے ایسے مکار دوست سے پناہ دے کہ جس کی آنکھیں مجھے گھورتی ہیں جس کا دل مجھے تارتا ہے اور اگر میری کوئی برائی اس کے ہاتھ لگے تو اس کو اچھالتا ہے اور اگر مجھے کوئی اچھائی اس کو معلوم ہو تو اسے چھپاتا ہے۔ ایک دوسرا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیا ہے اللهم إني أعوذ بك من صاحبِ الخديعة إن رأى حسنةٍ دفنها و إن رأى سيئةٍ أذاعها مجھے ایسے دھوکے باز دوست سے پناہ دے کہ اگر وہ میری کوئی اچھائی دیکھتا ہے تو اسے چھپا لیتا ہے برائی دیکھتا ہے تو اس کو اچھالتا ہے۔ اب اس اعتبار سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ جو بیماریاں ہیں یہ بیماریاں ہمارے اندر بھی آتی ہیں۔
دنیا میں کُفر چار طریقوں کا ہے، شرک ہے یہودیت ہے نصرانیت ہے منافقت ہے، آج ہم نہ مشرک ہیں نہ ہم یہودی ہیں نہ ہم مسیحی ہیں نہ ہم منافق ہیں، بڑے خلوص کے ساتھ اللہ پر اور اس کی وحدانیت پر ہمارا ایمان ہے، جنابِ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ہمارا ایمان ہے، آپ کی نبوت پر ہمارا ایمان ہے، آپ کی تعلیمات پر ہمیں ایمان ہے لیکن ہمارے اندر شرک کی برائیاں آجاتی ہیں، ہم ایسے ایسے اعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ جس سے شرک کی بو آتی ہے، ہم ایسے ایسے کام کرتے ہیں کہ جس میں یہودیت اور نصرانیت کی پیروی نظر آتی ہے، ہم ایسے ایسے کام کرتے ہیں کہ جس سے منافقوں والی جو عادتیں ہیں وہ ہمارے اندر آ جاتی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تَعِسَ عبدُ الدِّينَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الخَمِيصَةِ، إنْ أُعْطِيَ رَضِيَ، وإنْ لَمْ يُعْطَ سَخِطَ، تَعِسَ وَانْتَكَسَ، وإذَا شِيكَ فلا انْتَقَشَ۔ روپے پیسے اور لباس کا غلام ہلاک ہو گیا، منہ کے بل گرا، پاؤں میں ایسا کانٹا چُبھا جو نہ نکلا اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر انہیں کوئی مال دے دیا جائے تو پھر تو راضی ہیں اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ اب یہ عادت تو اس زمانے میں منافقین کی تھی، قرآنِ کریم نے بھی اس کا ذکر کیا ہے فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡهَا رَضُوۡا، کہ اگر کچھ دیا جائے تو راضی ہیں، وَاِنۡ لَّمۡ يُعۡطَوۡا مِنۡهَاۤ اِذَا هُمۡ يَسۡخَطُوۡنَ۔ غالباً اس طرح آیت ہے کہ اگر کچھ دیا جائے تو راضی رہتے ہیں نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ تو دنیا کا مفاد دنیا کی کمائی یہ محور اور معیار ہوتا ہے تعلق بنانے میں اور اگر وہ مفاد نہ ملے تو اپنی وفاداری تبدیل کر دیتے ہیں اپنا تعلق کاٹ دیتے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعًا حَتَّى لَوْ دَخْلُوا جُحْرَ ضَبِّن تَبِعْتَمُوہُمْ، قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهَ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ فَمَنْ؟ ایک زمانہ آئے گا جب تم لوگ پچھلی قوموں کے عادات کی پیروی کروگے، کہ اُن کی عادتیں تھی اُن کی پیروی کرتے نظر آوگے، قَدم قَدم بالشت بالشت حتى کہ اگر وہ گوہ کے غار میں بھی گھسیں تو تم وہاں بھی اُن کے پیچھے گھسوں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا اے رسول اللہ ﷺ یہود و نصارٰی کے پیچھے ہم جائیں گے، آپ نے فرمایا اور کون ہو سکتا۔ آج کی اِس موجودہ تہذیب میں آپ خود سوچیں کہ ہمارا معاشرہ تہذیب کے حوالے سے اُن کی پیروی نہیں کر رہا ہے، عالمی سیاست میں ہم اُن کی پیروی کرتے نظر نہیں آ رہے اور عام لوگ تو چھوڑئیے شاید اُن میں اتنی کمزوریاں نہ ہوں لیکن حکمرانوں نے جو کمزوریاں دکھائی ہیں کہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ تَرَی المُؤْمِنينَ في تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهمْ وتَرَاحُمهمْ كمَثَلُ الجَسَدِ الواحد إذ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإذ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ وإِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الجَسَدِ بِالسَّهَرِ والحُمَّ کہ ایمان والوں کو تم اس طرح دیکھو گے جیسے وہ ایک جسم ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنے میں ایک جسم جیسے نظر آئیں گے اور ایک جسم کیا ہوتا ہے کہ اگر آنکھ میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار سر میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار جسم کے کسی حصے میں اگر درد مچل رہا ہے تو ساری رات ساری رات جاگتے گزرتی ہے بخار کے حالت میں گزرتی ہے، بے قراری یہاں تک چلی جاتی ہے۔ کیا آج جو فلسطینی بھائیوں پہ گزر رہی ہے یا برما کے مسلمانوں پہ گزر رہی ہے کیا اسلامی دنیا کے حکمرانوں میں ایمان کے حوالے سے یہ درد پایا جا رہا ہے، ہم پھر بھی ٹرمپ کو راضی کرنے کیلئے مغرب کو راضی کرنے کیلئے جتن کرتے ہیں حکمت عملی بناتے ہیں اور یہ ایک دفعہ بھی نہیں سوچتے کہ میرے مسلمان بھائی کے ساتھ کیوں ظلم ہو رہا ہے، المسلمُ أخو المسلمِ، إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ، اللہ رب العزت نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے لفظ اخوت استعمال کیا ہے بھائی ہیں، لا يظلِمُه ولا يُسلِمُه ولا يَخْذُلُهُ ولا يَحْقِرُهُ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پہ ظلم کرتا ہے نہ دوسرے کے ظلم کے سپرد کرتا ہے، نہ اس کو رسوا کرتا ہے اور نہ اس کی بے توقیری کرتا ہے، عزت دیتا ہے۔ آج ہماری سوشل میڈیا میں آپ دیکھیں جس طرح بڑوں کو عزت دی جاتی ہے اور جس طرح ریمارکس پاس کیے جاتے ہیں، میں تو نہیں سمجھتا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، یہ ناجائز باتیں ہیں، یہاں تک کہ ان بیماریوں کے اثرات ہمارے کارکنوں میں آگئے ہیں، ہمارے جمعیت کے ماحول میں بڑوں کی عزت ختم ہوگئی، شاید ہم اپنے نوجوانوں کی صحیح تربیت نہیں کر رہے ہیں، ہمارے مدارس کا فرض ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کی تربیت کرے کیونکہ اسلام دو چیزوں کا نام ہے ایک علم کا اور ایک تربیت کا، علم ہی نہیں ہے تو اندھیرے میں ہے اندھا ہے، علم ہے اور اخلاق نہیں ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہے تو پھر کھوٹا سکہ ہے جیب میں تو بوجھ ہے لیکن آپ بازار میں جائیں گے تو اس کی کوئی حثیت نہیں ہوتی۔
تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے حوالے سے دو الفاظ ارشاد فرمائے ہیں ایک جگہ فرمایا إنما بُعِثْتُ مُعَلِّمًا میں استاد بنا کر بھیجا گیا ہوں اور دوسرے جگہ فرمایا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخْلَاقِ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ میں اچھے اخلاق لوگوں کو بتاؤں۔ جب میں اپنے ساتھی کو دیکھتا ہوں جمعیت و علماء سے وابستہ کارکنوں کو دیکھتا ہوں اور سوشل میڈیا پر جو ان کے الفاظ اور ان کے اندازِ گفتگو سامنے آتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے کسی کے اچھائی بھی بیان کر لیا کرو کسی کے اچھے خدمات کا اعتراف بھی کر لیا کرو کسی ساتھی کو شاباش بھی دے دیا کرو اور اگر کہیں کسی کی کمزوری سامنے آئی یا ہم کسی سے ناراض ہو گئے تو پھر طوفانِ بدتمیزی، کتنی بری بات ہے، یہ اخلاق تو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نہیں سکھائے، یہ اخلاق تو ہماری دین کے نہیں ہیں، ہمارے دینی مدارس کی اور کالج یونیورسٹی کے درمیان امتیاز اس بات کا تھا کہ مدرسہ کا طالب علم جس طرح کا علم پڑھتا تھا عملی زندگی بھی اس کے مطابق ہوتی تھی، لباس سے لے کر باقی اعمال تک لیکن آج ہم کہاں چلے گئے ہیں، تو آج کی اس سوشل میڈیا کو بھی آپ نے اس پہلو سے بھی استعمال کرنا ہے اور جمعیت کے اندر تو حضرت ایک نظام موجود ہے اگر کوئی شکایت ہے تو وہ شکایت جو ہے وہ اگر عاملہ میں میٹنگ ہو رہی ہے تو اس میں لے آئیں اگر شوریٰ ہو رہا ہے تو اس میں لے آئیں اگر عمومی ہو رہا ہے تو اس میں لے آئیں اگر آپ خود اس کے رکن نہیں ہیں تو جو رکن ہیں ان کو جا کر بتا دیں کہ بھئی یہ مسئلہ جو ہے یہ آپ وہاں اٹھائیں اور پوچھیں اس بارے میں کہ یہ بات کیوں ایسے غلط ہو رہی ہے کہ فلانا آدمی کیوں ایسے غلط بات کر رہا ہے، کسی کو انتخاب پر اعتراض ہے تو اس کے لیے بھی طریقہ موجود ہے، اب یہ جو ہم نقالیاں کرتے ہیں دوسروں کی اگر آج ایک جماعت اٹھتی ہے اور وہ فارم پینتالیس فارم سینتالیس فارم پینتالیس فارم سینتالیس، ہمارا بھی جب کسی اپنے جماعتی ساتھی کے لئے نیت خراب ہو جاتی ہے تو ہم بھی وہی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں یہ فارم پینتالیس والا ہے اور یہ فارم سینتالیس ولا، ہمارے ہاں کہاں ہیں فارم پینتالیس، کہاں سے یہ الفاظ لے کے آگئے ہیں اور ہماری جماعت کے اندر فٹ کر رہے ہیں، یہ ہے وہ بد اخلاقی جس کا ارتکاب ہمارے ماحول میں ہو رہا ہے، الفاظ کا انتخاب اچھے بلے عالم دین کے نام کو بگاڑتے ہیں صرف اس بنیاد پر کیونکہ خواہش کے مطابق بات نہیں ہے، لاؤ اپیل کرو وہاں اپیل کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے وہ آپ کو سنے گی اگر آپ کی بات صحیح ہے بالکل ٹھیک ہے، نہیں ہے صحیح ہے واپس ہو جائے گی، تو ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے اپنے آپ کو منظم کرنا ہے اور ہم نے اپنی ایک ایسی زندگی متعارف کرانی ہے کہ وہ ان کے اور ہمارے درمیان امتیاز کریں، اب ظاہر ہے دنیا میں جو باطل قوتیں ہیں دولت و سرمایہ تو ان کے پاس زیادہ ہیں، اخلاقی لحاظ سے بالکل فارغ لوگ پیسے ان کے پاس زیادہ ہیں، الیکشن میں اترتے ہیں اپنے پیسے پہ ناز کرتے ہیں، اب یہ جو عادت ہے جو اس وقت ہمارے اندر ہمارے ماحول میں موجود ہے یہ عادت بھی تو انہی کفار کی آئی ہے نا کہ جس کے بارے میں اللہ رب اللہ فرماتے ہیں إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے پیسہ بہایا تاکہ اللہ کی دین کا راستہ روک سکے، سو اللہ کہتا ہے آنے دو پھر ہاتھ بھی ملیں گے حسرت کے اور پھر جنگ بھی ہاریں گے مغلوب بھی ہوں گے، یہ تو ہے دنیا کی سزا پھر آگے فرمائے وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ دولت کی بنیاد پر دینِ اسلام کا راستہ روکنا اور حق کا راستہ روکنے والے آخرت میں جہنم میں بھی جائیں گے۔ لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ۔ باطل اور حق کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لئے، پاک اور ناپاک کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لئے، دنیا ان کا منظر دیکھے گا کہ دنیا میں پیسے پر غرور کر رہے تھے پیسے کی بنیاد پر وہ اللہ کی دین کا راستہ روک رہے تھے، ہماری تہذیب کو تباہ کر رہے تھے، ہمارے اخلاق کو تباہ کر رہے تھے، حکومتیں بناتے تھے اور وہ حکومتیں پھر یہود و نصارٰی کے پیروی میں پالیسیاں بناتے تھے وہ اس کو اپنے مفاد تصور کرتے تھے، تعلقات ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تعلقات روم سے اچھے تھے، دنیا کے دو بڑی طاقتیں تھے روم اور فارس، اسلام کا تعلق روم سے اچھا تھا فارس سے اچھا نہیں تھا، یہاں تک کہ جب فارس نے روم پر فتح حاصل کر لی اور روم مغلوب ہو گیا تو اتنی تکلیف ہوئی مدینہ کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ یہ کیا ہوگیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو پوری سورة روم اتارنی پڑی اور جس میں تسلی دی گئی، غُلِبَتِ الرُّومُ۔ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ۔ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ۔ چند سالوں کے اندر اندر حالات دوبارہ ہو جائیں گے آپ پریشان زیادہ نہ ہو، تو تعلقات ہوتے ہیں لیکن تعلقات بھی اپنے شرائط پہ۔ پوری دنیا کی کل آبادی کا ہم ایک ارب سے زیادہ تعداد ہے ہماری، تو تعداد کی زیادتی یہ تو فتح کا سبب نہیں بنتی، وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا۔ غزوہ حُنین میں آپ نے اپنی اکثریت کو دیکھا آپ کی تعداد زیادہ تھی، تو کچھ فائدہ پہنچایا اس نے، جب تک آپ کی حکمتِ عملی اور پالیسیوں میں خودداری نہ ہو خود اعتمادی نہ ہو، تو یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی کفر کے دنیا کے ساتھ تعلقات بنانا تجارتی تعلقات بنانا کاروباری تعلقات بنانا خارجہ پالیسی کا یہی کام ہوتا ہے لیکن خارجہ پالیسی دنیا میں اپنے مفادات کی گرد گھومتی ہے، کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کے اپنے مفادات کی گرد گھومتی ہے، خارجہ پالیسی کوئی جامد چیز نہیں ہے لیکن ہم دوسروں کے مفادات کے لئے خارجہ پالیسی بناتے ہیں، اپنا بیڑا غرق کر دیتے ہیں، اس لیے کہ ہمیں طاقت پر غرور ہے اکثریت پر غرور ہے، طاقت اور اکثریت بھی اسی وقت کام آتی ہے اگر وہ اللہ کے دین اور دیے ہوئے اصولوں کی پیروی کرے گا، جب یہ گھمنڈ آ جائے گا کہ میرے پاس پیسہ زیادہ ہے یہ گھمنڈ آ جائے گا کہ میری اکثریت ہے یہ گھمنڈ آ جائے گا کہ طاقت میرے ہاتھ میں ہے اس کے بعد آپ کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے، آپ ہار جاتے ہیں، لیکن اگر اللہ کی طرف رجوع ہو اس کی دیے ہوئے تعلیمات کی پیروی ہو، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیے ہوئے تعلیمات کی پیروی ہو، احکامات میں بھی اخلاقیات میں بھی طرز معاشرت میں بھی نظام معیشت میں بھی تو پھر اللہ تعالی خود رہنمائی کرتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ جس نے ہمارے لئے محنت کی اور کوشش کی تو ہم ان کو خود راستہ دیتے ہیں خود راستہ بتاتے ہیں۔
یہ ماحول ہمیں آج کی اس سوشل میڈیا سے اس کو فروغ دینا چاہیے اور جو بھی کہی سے ہمیں غلط پکارتا ہے ہمیں ان کی آواز میں ان کے الفاظ میں جواب نہیں دینا چاہیے، وجہ یہ ہے کہ ہم مقام دعوت میں ہیں، ایک اچھے نظام کی ہم نے دعوت دینی ہے اور اس سوشل میڈیا کو بھی ہم نے اسی لئے استعمال کرنا ہوتا ہے، تو مقام دعوت یہ اپنے مقام سے بالکل بھی نیچے نہیں اترتا اور جو منکر ہے وہ بد اخلاقی پہ اتر آتا ہے گالیوں پہ اتر آتا ہے دھمکیوں پہ اتر آتا ہے۔ وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ۔ إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ۔ اللہ نے مثال دی ہے کہ ہم نے دو پیغام رساں بھیجے پھر اس کے بعد تیسرا بھیجا پھر کہا ہم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں انہوں نے جواب میں کیا الفاظ کہے ہیں، قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمَٰنُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ۔ نہ کوئی اللہ نے بھیجا ہے کچھ تمہارے اوپر، نہ پیغمبر ہو، ہماری طرح کے لوگ ہو اور تم جھوٹ بولتے ہو۔ قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ۔ اللہ جانتا ہے ہم اس کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ تم تو ہمارے لیے نحوست لے کر آئے ہو اور اس کام سے رُک جاؤ تمہیں سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک عذاب ملے گا۔ قَالُوا طَائِرُكُم مَّعَكُمْ ۚ یہ ہم جو نحوست والی باتیں کر رہے ہیں یہ کوئی نحوست کی بات نہیں ہے اگر ایسے کوئی بات ہے تو آپ کے ہاں ہوگی، اگر تم ذرا تھوڑا سا اس پہ سوچو، اس پر غور کر لو۔ اب ان مہمانوں کی مدد کے لیے جو نصرت کے لیے بندہ آیا، وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ۔ اتَّبِعُوا مَن لَّا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ۔ اس کو شہید کر دیا، اب یہ داعی ہے اس کام میں اس کو شہید کر دیا گیا اب یہ داعی قبر میں جا رہا ہے اور قرآن ان کے جذبات کا اپنے الفاظ میں اظہار کرتا ہے۔ قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ ۔ جاؤ جنت میں، لیکن وہ کیا کہتا ہے قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ۔ اے کاش کہ میری قوم کو بات سمجھ میں آ جائے اب بھی وہ قوم کے لیے فکر مند ہے۔
تو مقام دعوت پہ رہنے والا اور یہ کہ میں حق عقیدے کا مالک ہوں حق نظریے والا ہوں اس کا پرچار کر رہا ہوں اس کے لیے بداخلاقی یہ جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ تنظیمی مسائل آتے ہیں، آپ تنظیمی طور پر ایک آدمی کی رکنیت ختم کر دیتے ہیں لیکن پھر اس کے بعد گالی کی بھی اجازت ہے اس کو گالیاں بھی دیں بداخلاقی بھی کرے برے الفاظ سے بھی ان کو یاد کرے، بس تنظیمی معاملہ تھا، اور اگر شکایت دور ہو جاتی ہے تو دوبارہ بحال ہو جاتا ہے۔ تو اس حوالے سے ہمیں شریعت کی تعلیمات کو اپنانا چاہیے، اور جو چیزیں جماعت کے فورم پر طے ہو جاتی ہیں اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ جب آپ ایک فیصلہ کر لیتے ہیں مجلس میں تو یہ منافقین رات کو پھر الگ بیٹھ کر کچھ اپنے پروگرام بنا رہے ہوتے ہیں، آپ کے فیصلے کے خلاف پھر وہ اپنے الگ پروگرام بنا رہے ہوتے ہیں لیکن تم پر پرواہ مت کرو میں دیکھ رہا ہوں ان کو، جب یہ رات کو غلط مشورے کرتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں ان کو تو مجھے پتہ ہے تم پرواہ مت کرو، تو یہ جماعت کے اندر معاملات طے ہونے کے بعد پھر اپنے گھر میں جا کر کچھ دوستوں کو بلا کر کہنا کہ بھئی یہ جو انہوں نے فیصلہ کیا ہے یہ غلط ہے اس کو کیسے توڑنا ہے، یہ وہ عادتیں ہیں جو ہمارے اندر آ گئی ہیں، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو وحی آتی تھی اللہ ان کو آگاہ کرتے تھے ہمارا تو وہ مسئلہ بھی نہیں ہے، تو ان عادتوں سے بچنا چاہیے جو ہماری زندگی میں آگئی ہے اور عادات ان کی ہے، تہذیب آگئی ہمارے اندر ان کی، تہذیب ان کی ہے پیروی ہم کر رہے ہیں قدم قدم پہ کر رہے ہیں۔ تو یہ وہ پاک تعلیمات ہیں دین اسلام کی اور یہ وہ پاک اخلاقیات ہیں دین اسلام کی اگر ہم اس کی پیروی کریں گے تو جمعیت علماء اسلام کو آپ ایک ایسی جماعت پائیں گے کہ دنیا اس کی پیروی کرنا چاہے گی۔ تاہم ہم بھی انسان ہیں انسانوں کے اندر کمزوری آ جاتی ہے خطا ہو جاتی ہے لیکن اس خطا پہ فخر کرنے کی گنجائش کہاں ہے، اس پہ تو شرمندہ ہونا چاہیے، پھر اللہ کے سامنے ہمیں گڑگڑانا چاہیے کہ الٰہ العالمین ہم سے غلطی ہو گئی حکم تو آپ کا چلتا ہے ہم تو آپ کے بندے ہیں، جب آپ نے حکم دیا تو ہم نے نافرمانی کی، جب آپ نے روکا تو ہم نے وہی کام کیا، یہ کمزوریاں جو ہمارے اندر آتی ہیں ہمیں اس کی بھی اصلاح کرنی چاہیے، سیاسی جماعت کا یہ معنی نہیں ہے کہ اب آپ شتر بے مہار ہو گئے جو چاہیں آپ کریں، سیاست بھی انبیاء کی سیاست ہونی چاہیے جس میں تدبیر ہو جس میں تدبر ہو جس میں بڑے سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی ہو، دیکھو کہ میں جو کچھ فیصلہ کر رہا ہوں میری طاقت کتنی ہے طاقت سے کہیں زیادہ تو نہیں کر رہا، دیکھو کہ کہیں اس کا انجام برا تو نہیں ہوگا، لیکن پھر انجام اللہ پہ چھوڑ دو جب ایک دفعہ آپ طے کر لیں پھر انجام اللہ پہ چھوڑو، کامیابی ملتی ہے تو اس کی مرضی نہیں ملتی بھی تو اس کی مرضی۔ تو یہ چند گزارشات تھیں آپ حضرات کی خدمت میں شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمين
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1
#teamJUIswat
کوئٹہ:قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا سوشل میڈیا ورکرز سے اہم خطاب
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, May 14, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں