قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خدمات مولانا حامد الحق شہید کانفرنس سے خطاب
یکم مئی 2025
مولانا عبد الحق ثانی اور میرے عزیز مکرم مولانا راشد الحق صاحب، اس اجتماع میں موجود تمام اکابرین، علماء کرام، زعمائے قوم، دانشوران وطن، بہت ضروری تھا کہ مولانا حامد الحق صاحب اور مولانا سمیع الحق صاحب شہیدین مکرمین کی یاد میں نخبہ شخصیات پر مشتمل اس اجتماع کا اہتمام ہوا، ظاہر ہے کہ ہمارا تعلق اس سلسلے کے ساتھ ہے جہاں رحلتوں اور شہادتوں پر ماتم برپا نہیں کیے جاتے بلکہ ان کے مشن کو زندہ رکھنے اور ان کی مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا جاتا ہے۔ آج کا اجتماع بھی ہمیں یہی درس دے رہا ہے کہ ہم اپنے اسلاف، اپنے اکابرین کے اس مشن کو زندہ بھی رکھیں، اسے ہم نے آگے بھی بڑھانا ہے اور ہم تحریک ہیں، تحریک سمندر میں کوئی بہت بڑا پتھر پھینک کر ایک بڑے دھماکے کا نام نہیں، ایک بڑے بھونچال کا نام نہیں ہے بلکہ تحریک سمندر کے لہروں کا نام ہے، لہروں میں نشیب و فراز آتا ہے، لہریں کبھی ڈوب جاتی ہیں لیکن پھر اُبھرتی ہیں اور لہریں بالآخر ساحل پر جا کر دم لیتی ہیں۔
حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللہ دار العلوم دیوبند کے سند یافتہ تھے، وہاں پر چھے سال مدرس رہے اور جس سال وہ اپنے گھر اکوڑہ خٹک تشریف لائے تو اسی رمضان شریف میں پاکستان بن گیا اور وہ واپس نہ جا سکے اور اکوڑہ خٹک کے ایک محلے کے مسجد میں انہوں نے بیٹھ کر درس و تدریس کا آغاز کیا۔ اب ظاہر ہے کہ ہماری یہ دانشگاہیں، یہ تعلیمگاہیں یہ محض تعلیمگاہیں نہیں ہیں بلکہ یہ نظریاتی ادارے ہیں، یہ فکری ادارے ہیں اور ہمہ جہت وہ اپنے علم سے بھی اور اپنے عمل سے بھی امت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ انگریز کے خلاف ڈیڑھ سو سال تک میدان میں جہاد لڑا گیا، تحریکیں چلیں، پچاس ہزار علماء کرام سولیوں پر لٹکائے گئے، توپوں سے اڑا دئیے گئے اور ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ ایک انگریز جو اس وقت انہیں سزا دینے کی موقع پر ڈیوٹی پر تھا کہ ہم نے ہزاروں علماء کرام سے تنہائی میں ایک ایک سے پوچھا کہ اگر آپ اتنا کہہ دیں کہ اس جہاد سے میرا تعلق نہیں تھا تو آپ کی سزا ابھی معاف ہو جائے گی، وہ کہتا ہے کہ تمام کے تمام اڑ گئے لیکن کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ میرا اس جہاد سے تعلق نہیں تھا، یہ ہے قربانیوں کی وہ تاریخ جس سے ہم اور آپ وابستہ ہیں، ہم اس نسبت کے لوگ ہیں اور ظاہر ہے کہ جس کی یہ نسبت ہو جن کی یہ تعلیم ہو جن کی یہ تربیت ہو تو آج کے امت مسلمہ کے حکمرانوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان کی روش کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اور آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے، یہی جو آج ہمارے حکمران ہیں یہ اُس وقت بھی انگریز کے وفادار تھے اور یہی جو آج میدان میں بڑے عزم کے ساتھ بات کرتے ہیں یہی اُس وقت میدان جہاد میں تھے، تو اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم اپنے اور اسلامی دنیا کے حکمرانوں کی تاریخ کو جانتے ہیں، کن وفاداریوں کے نتیجے میں انہیں مراعات ملیں انہیں ملک ملے اور ان مراعات کا آج بھی ہمارے حکمران حق نمک ادا کر رہے ہیں، تو اس حوالے سے اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کے بعد ستائیس عرب مالک کے وجود میں آنے کے بعد جغرافیائی تقسیم نے ہمارے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور منقسم جسم وہ پھر دفاع میں کمزور ہو جاتا ہے وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔
میرے محترم دوستوں، اس وقت ہم ہمہ جہت مشکل میں مبتلا ہے، ایک طرف افغانستان میں بیس سال سے امریکہ کے خلاف جنگ رہی وہ کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہے فتح سے ہم کنار ہوئی ہے لیکن ابھی وہ مشکل برقرار ہے کہ فلسطین کا موضوع سامنے آگیا، دنیا اب اس طرف متوجہ ہوئی، حماس کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا گیا تھا جس طرح طالبان افغانستان کو دہشتگرد کہا گیا تھا، انہیں بلیک لسٹ قرار دیا گیا تھا اور دنیا ہچکچا رہی تھی اس بات سے کہ حماس کے ساتھ حمایت کیسی کی جائے، مجھے یاد ہے سات اکتوبر کو جنگ شروع ہوئی اور چودہ اکتوبر کو حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی یاد میں پشاور میں ملین مارچ تھا جلسہ تھا بہت بڑا جسے ہم نے طوفانِ اقصیٰ کے نام میں تبدیل کر دیا اور اس میں حماس کے نمائندے نے آ کر تقریر کی اور پھر یہاں سے ہم بلوجستان گئے وہاں سے کراچی گئے اور کراچی سے میں سیدھا دوحہ گیا اور حماس کی قیادت سے میں نے ملاقات کی کھل کر ملاقات کی اور دنیا کو پیغام دے دیا کہ آپ کسی کو دہشتگرد کہیں بلیک لسٹ کہیں لیکن میں اس کو مجاہد کہتا ہوں اور اپنے حق کا طلبگار کہتا ہوں، امریکی وزیر خارجہ آیا تل ابیب اور اس نے کہا کہ میں وزیر خارجہ کے طور پر نہیں آیا ہوں میں ایک یہودی کے طور پر آیا ہوں تمہارے پاس، تو میں نے بھی بیان میں کہا کہ میں کسی جماعت یا مکتب فکر کی نمائندگی نہیں کر رہا بلکہ ایک مسلم مجاہد کے طور پر آپ کے پاس آیا ہوں، اس مقام پر آ کر پھر سیاسی مصلحتیں ختم ہو جاتی ہیں اگر ایمان کو بچانا ہو تو، پھر گروہی مصلحتیں نہیں رہتی اور پھر میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر تعزیت کے لئے گیا مکمل یکجہتی آج بھی برقرار ہے اور مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ ہم تمام مکاتب فکر ہوں سیاسی مذہبی جماعتیں ہوں ایک جگہ بیٹھ کر ہم جو آواز بلند کر رہے ہیں یہ صرف پاکستان کی متفقہ آواز نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی متفقہ آواز ہے، ہم ان کے نمائندگی کر رہے ہیں اور میں یہ بھی بتا دوں آپ کو کہ ایسے حالات میں ہمیشہ دنیا کی توقع پاکستان سے ہوتی ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو ایک ایسا ماحول یہاں نصیب ہے کہ جہاں ہم اکٹھے بھی ہوتے ہیں ہم میدان میں بھی اترتے ہیں ہم نعرہ بھی بلند کرتے ہیں ہماری آواز بھی اٹھتی ہے اور پوری دنیا کو پاکستان کی سرزمین سے آواز کا انتظار ہوتا ہے، شاید دنیا کے دوسرے مسلمانوں کو ایسے مواقع حاصل نہیں ہو، مشکلات ہوتی ہیں اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی تکلیف مالا یطاق نہیں دی اپنی استطاعت سے زیادہ اللہ نے کسی کو مجبور نہیں کیا، تو مشکلات آ سکتی ہیں بے بسیاں آ سکتی ہیں لیکن ہمیں صرف اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ پچاس ہزار سے زیادہ فلسطینوں شہید ہو گئے ہیں یقیناً وہ باعث کرب ہے جیسے مشتاق بھائی نے کہا کہ کتنے بچے ہیں کہ جو بالکل شیرخوار اور ان کا پورا خاندان نہیں ہے ان کو کل یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ میرے ماں باپ کون تھے میں کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا جب بڑا ہو جائے گا، تو کرب کا باعث تو یقین ہے لیکن اس پہلو پہ بھی ہماری نظر رہنی چاہیے کہ جب دنیا غور کر رہی تھی اس بات پر کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے، لابیاں کام کر رہی تھی، ہمارے ملک میں لابی کام کر رہی تھی، ٹیلیویژن پہ آ کے بات کرتی تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے کراچی میں ایک ملین مارچ کر کے یہ زبان بند کی اور ہمارے اس جلسے میں اسماعیل ہنیہ نے وہاں سے خطاب کیا براہ راست، مسجد اقصیٰ کے خطیب نے وہاں سے خطاب کیا، لبنان کے مفتی نے وہاں سے خطاب کیا اور وہ اتنی مؤثر ثابت ہوئی کہ یہاں پر تو لابی کو دھچکہ لگا لیکن پوری دنیا میں قضیہ فلسطین کی ہئیت اور اس کی نوعیت کو اس کی سفارتی نوعیت کو اس کی سیاسی نوعیت کو اس کی زمینی نوعیت کو اگر تبدیل کیا ہے تو حماس کی طرف سے سات اکتوبر سے شروع ہونے والے جہاد نے کیا ہے، اب کوئی زرا کوشش کریں نا کہیں نا کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں، ہاں نئی باتیں کی جا رہی ہیں دو ریاستی حل ایک ریاستی حل دو ریاستی حل ایک ریاستی حل، سوال یہ ہے کہ اگر فلسطینی کہتا ہے کہ صرف فلسطین اور یہ میری زمین ہے اور اسرائیل قابض ہیں تو ایک فلسطین کی بات کرنے والا اس موقف کو بھی دیکھنا چاہئیے، اسرائیل کی موقف کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ کہتا ہے ایک اسرائیل کوئی فلسطین نہیں، اگر فلسطینی بھی ایک ریاست کی بات کریے اور اسرائیل بھی ایک ریاست کی بات کرے ہم کون ہوتے ہیں کہ ہم دو ریاستی حل کی بات کریں ہم بھی ڈٹ کر کہتے ہیں کہ ایک فلسطین اور کوئی اسرائیل نہیں، مسئلہ واضح ہونا چاہیے ایک صدی پہلے سرزمین عرب پر بلکہ کرہ ارض پر اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہیں تھی، جنگ عظیم اول کے بعد جب یورپ میں یہودی پیٹا گیا مارا گیا تو ایک انسانی مسئلہ پیدا ہوا کہ اس لٹی پٹے یہودیوں کو اب کیا کریں ہم، اس وقت اقوال متحدہ نہیں بنی تھی لیگ آف نیشنز اس نے ایک کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں واضح طور پر اس نے کہا ہے کہ ان لٹے پٹے یہودیوں کو بحال کرنا یہ انٹرنیشنل ریسپانسیبیلیٹی ہے بین الاقوامی ذمہ داری ہے، جہاں ایک بین الاقوامی ذمہ داری کے سفارش کی گئی وہاں صرف فلسطین کو اس کا ذمہ دار کیوں کہا گیا کہ آپ نے یہودیوں کو بسانا ہے، جہاں یہ بھی کہا گیا کہ یہودیوں کو بھی مجبور نہیں کیا جائے گا کہ کہاں بستے ہو اور ان ممالک کو بھی جہاں ان کو بسایا جا رہا ہے ان کو مجبور نہیں کیا جائے گا باہمی رضامندی کی بنیاد پر ان کو بسایا جائے گا، پھر جبراً فلسطین میں کیوں آباد کیا گیا، جہاں یہ بھی کہا گیا کہ فلسطین میں آباد نہ کیا جائے اس لیے کہ یہ اورپاپولیٹڈ ایریا ہے ضرورت سے زیادہ آبادی ہے یہاں کی تو مزید آبادی کا متحمل نہیں ہے اس کے باوجود فلسطین کو کیوں منتخب کیا گیا، جہاں یہ بھی کہا گیا اس سفارشات میں کہ فلسطین اقتصادی لحاظ سے کمزور ملک ہے وہاں کوئی زیادہ دباؤ نہ ڈالا جائے پھر کیوں فلسطین پر دباؤ ڈالا گیا اور انیس سو سترہ (1917) میں برطانوی وزیر خارجہ بال فور نے ایک معاہدے کے تحت اسرائیلی ریاست کا اعلان کر دیا، آج پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ صاحب یہ تو فلسطینیوں نے خود زمینیں بیچیں، اب خود زمینیں بیچ کر اس پر یہودی آباد ہو گئے تو یہ کیا آپ لوگ باتیں کر رہے ہیں، بہت بڑا مغالطہ ہے تاریخی لحاظ سے، آپ ریکارڈ دیکھیں انیس سو سترہ (1917) میں پورے فلسطین کی سرزمین پر اس کے دو فیصد علاقے پر یہودی آباد تھے اٹھانویں فیصد علاقے پر مسلمان آباد تھا عرب آباد تھا اور اڑتالیس میں یہ بنا سینتالیس کے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ پورے فلسطین کی سرزمین پر صرف چھ فیصد پر یہودی آباد تھا چورانوے فیصد جو ہے وہ فلسطینیوں کے ہاتھ میں تھا، پھر یہ کہنا کہ انہوں نے زمینیں بیچیں اور اس کے اوپر یہودی آباد ہو گئے تاریخ کو جھٹلایا جاتا ہے اعداد و شمار کو جھٹلایا جاتا ہے حقائق کو جھٹلایا جاتا ہے، تو اس حوالے سے اب اقوام متحدہ کیا کہتا ہے آج کا اقوام متحدہ کہتا ہے کہ انیس سو ستاسٹھ (1967) کے بعد اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے یہ ناجائز قبضہ ہے، پاکستان تو اس کے وجود کو ناجائز کہتا ہے نا لیکن سن ستاسٹھ کے بعد اقوام متحدہ کے قرارداد کہتی ہے کہ مقبوضہ علاقے جو ہیں یہ ناجائز ہیں اور اسرائیل نے قبضہ کیے ہیں اس سے ان کو واپس ہونا ہوگا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود امریکہ اور یورپ اس کے برعکس اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کی قبضہ کا تحفظ کر رہے ہیں، آج عالمی عدالت انصاف کہتا ہے کہ یہ انسانی مجرم ہے جنگی مجرم ہے اور اس کو گرفتار کر دیا جائے، گھوم رہا ہے دنیا میں حالانکہ یہ فیصلہ آنے کے بعد کوئی بھی ملک کہ جس سے اس شخص کا جہاز گزر رہا ہو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاز کو اتارے اور گرفتار کر دے، نا اقوام متحدہ کو سنا جا رہا ہے نا عالمی عدالت انصاف کو سنا جا رہا ہے یہ دنیا ہماری اوپر کیا مسلط کرتی ہے، یہ صرف ہمارے لئے ہیں کہ کویت پر اگر قبضہ ہو جائے تو پھر صدام کو ختم کر دو، عراق کو تباہ کر دو یہ صرف ہمارے لئے ہیں یہ، کشمیر کے قرارداد پر کوئی عمل درآمد نہیں وہاں آئے روز مظالم ہو رہے ہوں، تو عالمی اداروں کو امریکہ اور مغربی دنیا نے غیر مؤثر بنایا ہوا ہے حالانکہ اصول کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی ماضی بھی ہمارے موقف کی حمایت کرتی ہے اور عالمی عدالت انصاف کے آج کے فیصلے بھی ہمارے موقف کی حمایت کر رہے ہیں، پھر اس کے باوجود کہاں سوئی ہوئی ہے دنیا، کیوں مردہ ہو گئی ہے اور ہم یہاں پر اپنے معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھاتے چلے جا رہے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ ہے لیکن کشمیر کے مسئلے سے پہلے ہمیں افغانستان کے حوالے سے سوچنا ہوگا کہ پاکستان بحیثیت ریاست کے اس نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بہتر کیوں نہیں بنائے، یہ بات یاد رکھیں کہ ظاہر شاہ سے لے کر اشرف غنی تک جتنے حکومتیں آئی ہیں پرو انڈین تھی سوائے امارت اسلامی افغانستان کے، اگر ہم کوئی سیاست جانتے اگر ہم کوئی سفارت جانتے اگر ہم کوئی اپنا ملکی مفاد جانتے تو آج افغانستان کو ایک پرو پاکستان افغانستان ہونا چاہیے تھا، ہم ان کو بھی دھکیل رہے ہیں کہ جاؤ تم روس کے ساتھ کہیں بات کرو چائنہ کے ساتھ بات کرو انڈیا کے ساتھ بات کرو، کس بات پر، سرحدیں روک دی ہیں ہزاروں گاڑیاں مالی اُدھر کھڑی ہیں ہزاروں اِدھر کھڑی ہیں، عوام کا مال تباہ و برباد ہو رہا ہے، سرحد پر وہاں ٹینشن پیدا کر دی گئی ہے، یہ وہ غلط پالیسیاں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری ریاستی قوتیں یا تو سفارتی ذہن کے ساتھ غلام ہیں یا پھر ان کے سفارتی ذہنیت صفر ہے ان کو سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، اور میں نے تو ان کو کمیٹی میں کہا ہے کہ جناب اگر ہر مسئلے کے لیے فوج کے سوچ یا فوج کی اپروچ ہو کبھی بھی آپ یہ مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے جب تک کہ آپ کے ساتھ پولیٹیکل سوچ نہ ہو اکنامک سوچ نہ ہو، آپ کیسے اکانومی کو ٹھیک کر سکتے ہیں، انڈیا کی اکانومی اوپر جا رہی ہے چائنہ کی اکانومی اوپر جا رہی ہے بنگلہ دیش کی اکانومی اوپر جا رہی ہے انڈونیشیا کی اوپر جا رہی ہے ملائیشیا کی اوپر جا رہی ہے افغانستان کی اوپر جا رہی ہے ایران کی اوپر جا رہی ہے اور ان سب کے بیچ میں صرف پاکستان کی اکانومی گر رہی ہے، کیوں؟ ہم وہ جو کرسی میں بیٹھ رہا ہوتا ہے صرف اس کو دیکھتے ہیں ہم اس پر تنقید کرتے ہیں، ریاستی پالیسی ہیں جس کی وجہ سے ہم تباہ ہو رہے ہیں، آج بھی میں اپنے فوج کو اس محاذ سے ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس کا اعتراف کر لو کہ موجودہ صورتحال میں آپ کی پشت پر طاقتور سیاسی قوت نہیں ہے، آپ کو بھی سیاسی قوت کی ضرورت ہے، آپ کو بھی عوام کی پشت پناہی کی ضرورت ہے، زبانی بیانات جاری کر دینا قوم ایک ہے قوم ایک ہے، اب جب ہمیں انڈیا نے چھیڑ دیا اور ادھر سے معاملات خراب ہو گئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج پوری قوم ایک صف پہ ہے، ملکی دفاع کیلئے ایک ایک مجاہد تیار ہے، ایک ایک پاکستانی مجاہد بن گیا ہے، ملک کے ساتھ سب وفادار ہیں لیکن ہمیں تجزیہ کرنا چاہیے لوگ بیوقوف نہیں ہوتے ہر چیز کو سمجھتے ہیں لوگ، اگر انڈیا کے ساتھ معاملہ ہوگا قوم ایک صف پر ہوگی اگر افغانستان کے ساتھ معاملہ ہوگا قوم ایک صف پر نہیں ہوگی، سیدھی بات ہے اس چیز کو زیادہ جانچنا چاہیے تجزیہ کرو اس بات کا، دونوں کے پس منظر مختلف ہے، دونوں کے زمینی صورتحال مختلف ہے، سو وہ بھی دیکھا سو یہ بھی دیکھا۔ آج کشمیر کے مسئلے پر انڈیا کے دھمکیوں کے بعد پوری قوم ایک ہے لیکن کیا یہ سوچ افغانستان کے ساتھ معاملات بگاڑنے کے وقت بھی موجود تھے، نہیں، تو کچھ ذرا سوچ سمجھ کر موقف اختیار کیا جائے، پروپیگنڈے سے کچھ نہیں بنتا، میڈیا کے ذریعے دباؤ ڈالو ہمارے اوپر، نہیں اس سے کچھ نہیں ہوگا ہم اب اتنے چھوٹے بچے نہیں ہیں کہ آپ میڈیا پر ایک فضاء بنانے کی کوشش کریں اور ہم اس سے مرغوب ہو جائیں، ہم آپ سے بہتر سوچتے ہیں ہماری اپروچ آپ سے بہتر ہے، معاملات تک رسائی آپ سے ہماری بہتر ہے، آپ کو اپنے قوم کے ساتھ بیٹھنا ہوگا آپ کو اپنی سیاست کے ساتھ بیٹھنا ہوگا آپ کو اپنے اقتصاد کے ساتھ بیٹھنا ہوگا اپنے وسائل کے ساتھ بیٹھنا ہوگا تب جا کر ہم وہ ملک حاصل کر سکیں گے کہ جس کیلئے مولانا سمیع الحق نے بھی جان دی مولانا حامد الحق نے بھی جان دی۔ حملے ہم سب پہ ہوئے ہیں کوئی بچا تو نہیں ہم میں سے، تین خودکش تو میرے اوپر ہوئے ہیں، دو تین میرے گھر پہ ہوئے ہیں لیکن اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں، کتنے ہمارے ساتھی شہید ہوئے کتنے علماء شہید ہوئے، کس جرم میں؟ اور پھر ان کے خیال یہ ہے کہ ہم علماء کو بھی قتل کریں گے اور پھر ہم مجاہد بھی کہلائیں گے، تو میرا موقف واضح ہے کہ جس عالم دین کو میں نے شہید کہنا ہے اس کے قاتل کو میں مجاہد نہیں کہتا ہوں یہ دہشتگرد ہے یہ سفاک ہیں یہ قاتل ہیں، میں مولانا سمیع الحق کے قاتل کو مجاہد نہیں مانتا میں حامد الحق کے قاتل کو مجاہد نہیں مانتا میں مولانا نور محمد صاحب وانا کے بزرگ کو شہید مانتا ہوں تو اس کے قاتل کو میں مجاہد نہیں مان سکتا، میں مولانا حسن جان کے قاتل کو مجاہد نہیں کہہ سکتا، میں مولانا معراج الدین کے قاتل کو مجاہد نہیں کہہ سکتا، یہ بات صاف ہے، مجاہدوں کی طرح آؤ بات کرو دو آدمی بیٹھ کر حلال و حرام کا مالک بن جاتے ہیں، انسانی خون کو حلال کرنے کا فتویٰ پانچ آدمی بیٹھ کر طے کر دیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لزوالُ الدُّنيا أهونُ على اللهِ من قتلِ رجلٍ مسلمٍ۔ پوری دنیا تباہ ہو جائے اللہ کیلئے آسان ہے ایک مسلمان کے خون کے مقابلے میں۔ انہوں نے اتنا آسان بنا دیا جب چاہے کسی کو قتل کرتے ہیں اور اس کو جہاد بھی کہیں، تو اس حوالے سے میں یہ بھی عرض کر دوں کہ دارالعلوم حقانیہ جہاں یہ دارالعلوم دیوبند کا تسلسل ہے وہاں مجھے شرف حاصل ہے کہ میں نے آٹھ سال دارالعلوم حقانیہ میں پڑھا ہے اور میں جو کچھ ہوں اس دارالعلوم کی برکت سے ہوں، کافیہ سے دورہ حدیث تک اور حضر شیخ عبدالحق صاحب رحمہ اللہ کی سرپرستی نگرانی اور ان کے شفقت ہے مجھ پہ، میں ان کے احسان کو نہیں بھول سکتا، میں اس تعلق کو کہاں بھول سکتا ہوں، میری زندگی دارالعلوم حقانیہ سے تعبیر ہے، یہ نقصان صرف ان کے خانوادے کا نقصان نہیں ہے یہ ہمارا نقصان ہے، میرے گھر کا نقصان ہے، میرے خاندان کا نقصان ہے اور یہ اس میں یہ تنہا نہیں ہے ہم سب اس نقصان میں ان کے ساتھ شریک ہے اور ان شاءاللہ اس کی تلافی میں بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ رہیں گے۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمين
ضبط تحریر: #محمدریاض
ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1
#teamJUIswat
خدمات حضرت مولانا حامد الحق حقانی شہید رح و یکجہتی فلس 3 کانفرنس اسلام آباد ہوٹل میلوڈی اسلام آباد سے براہ راستبراہ اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا جےیوآئی س کے زیر اہتمام کانفرنس سے خطاب
Posted by Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan on Thursday, May 1, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں