نکاح کی راہ میں رکاوٹ تہذیبِ رفتہ کا ماتم ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

نکاح کی راہ میں رکاوٹ تہذیبِ رفتہ کا ماتم

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

 نکاح … ایک ایسا مقدس بندھن جس پر معاشرتی عمارت استوار ہوتی ہے، جس کے ذریعے نسلیں پروان چڑھتی ہیں، جس میں حیا پنپتی ہے، عزت محفوظ رہتی ہے، اور خاندان تشکیل پاتے ہیں۔ یہی نکاح جب ریاستی قوانین کے شکنجے میں جکڑا جانے لگے، تو سمجھ لیجئے کہ تہذیب زوال کی آخری سیڑھی پر کھڑی ہے۔

آج ہمارے ایوانِ اقتدار میں جو قانون زیرِ بحث ہے، وہ محض ایک عمر کی حد طے کرنے کا معاملہ نہیں، بلکہ براہِ راست ایک ایسے دینی حکم کو معطل کرنے کی جسارت ہے جو صدیوں سے مسلم معاشروں کی اساس رہا ہے۔ قرآن و سنت نے نکاح کے لیے بلوغت کو معیار قرار دیا، مگر جدید ریاست اٹھارہ سال کی مصنوعی لکیر کھینچ کر شریعت کو مات دینے نکلی ہے۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ جب بچے بچیاں سوشل میڈیا کے زہر میں جوان ہو رہے ہیں، جب فحاشی کی یلغار نے گھروں کی دہلیز پھلانگ لی ہے، جب موبائل اسکرینوں پر بے حیائی کا بازار گرم ہے، تب نکاح جیسے فطری، محفوظ اور دینی حل پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔

 ایسے میں اگر کوئی صاحبِ علم، صاحبِ درد آواز بلند کرے، تو وہ صدائے احتجاج نہیں بلکہ فکری بیداری کا پیغام ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے اس غیر شرعی قانون کے خلاف جو مؤقف اختیار کیا، وہ صرف مذہبی طبقے کی ترجمانی نہیں، بلکہ پوری امت کے اجتماعی ضمیر کی نمائندگی ہے۔ ان کا کہنا کہ "اگر یہ بل واپس نہ لیا گیا تو ہم سڑکوں پر ہوں گے"،

 دراصل اس احساس کا اظہار ہے کہ دین کے بنیادی احکامات پر حملے اب نظری مباحث سے نکل کر عملی محاذوں میں داخل ہو چکے ہیں، اور اب خاموشی، صرف بزدلی نہیں بلکہ گناہ ہے۔

مولانا کا موقف ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ نکاح پر پابندی، پردے پر تنقید، اذان پر اعتراض، نصاب سے قرآن کا اخراج… یہ سب اسی ایک تسلسل کی کڑیاں ہیں جس کا مقصد ہماری دینی شناخت کو مٹانا ہے۔

اب وقت ہے کہ اہلِ علم، اہلِ درد، والدین، اساتذہ، دانشور اور قانون دان سب مل کر اس فکر کو عام کریں کہ نکاح کو مشکل اور زنا کو آسان بنانے والے قوانین درحقیقت معاشرتی زوال کی بنیاد ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مولانا کی اس فکری قیادت کا ساتھ دیں، کیونکہ یہ معرکہ صرف ایک بل کا نہیں، بلکہ پوری تہذیب کا ہے۔

 اگر ہم نے آج نکاح کی راہ میں کھڑی دیواریں نہ گرائیں، تو کل حیا کے چراغ بجھ جائیں گے، اور ہم صرف ماتم کرتے رہ جائیں گے… ایک تہذیبِ رفتہ کا ماتم۔

اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں

نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے


0/Post a Comment/Comments