مولانا فضل الرحمان کی تقریر سے کسی کو خوف تھا؟
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
جمہوریت کا حسن اختلافِ رائے میں ہے۔ جب ایک منتخب ایوان میں مختلف نظریات کے لوگ اپنی بات دلیل سے پیش کریں، اور عوام تک وہ بات بے روک ٹوک پہنچے، تو یہ نہ صرف جمہوری نظام کی مضبوطی کی علامت ہوتا ہے بلکہ قوم کے اجتماعی شعور کی آبیاری کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ اسی لیے پارلیمنٹ کو ریاست کی "ماں" کہا جاتا ہےوہ ادارہ جہاں سے قانون بھی بنتے ہیں، سمت بھی طے ہوتی ہے، اور جہاں کی آواز ریاست کے باقی اداروں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہونی چاہیے۔
مگر افسوس! آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں پارلیمنٹ کے فلور پر کی گئی ایک سنجیدہ، مدلل اور قومی مفادات سے جڑی ہوئی تقریر کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، وہ بھی اس شخصیت کی تقریر جو پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست کا ایک فیصلہ کن اور با اثر کردار ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی قومی اسمبلی میں کی گئی حالیہ تقریر کو جس منظم بلیک آؤٹ کا نشانہ بنایا گیا، وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ آئین، جمہوریت، آزادیٔ اظہار، اور صحافت کے بنیادی اصولوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔
یہ کوئی عام تقریر نہ تھی۔ یہ پاکستان کی ایک بڑی دینی و سیاسی جماعت کے سربراہ کا خطاب تھا۔ ایک ایسے رہنما کی بات جس کا سیاسی وزن محض عددی نہیں بلکہ فکری، مذہبی اور تہذیبی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ مولانا نہ صرف قومی سیاست کے نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہیں بلکہ ان کی گفتگو ہر موقع پر قومی مفاد، آئینی بالادستی اور امت کے اجتماعی کرب سے جڑی ہوتی ہے۔ ان کی حالیہ تقریر بھی انہی نکات پر مشتمل تھی، نہ اس میں کسی ادارے کو نشانہ بنایا گیا، نہ کوئی غیر آئینی مطالبہ کیا گیا، نہ کوئی شرانگیزی پائی گئی پھر آخر ایسی کیا بات تھی جو میڈیا کو زبان بند کرنے پر مجبور کر گئی؟
سچ یہ ہے کہ طاقت کے وہ مراکز جو "منصوبہ بند جمہوریت" کے خواب دیکھتے ہیں، انہیں وہ آوازیں ہمیشہ کھٹکتی ہیں جو عوامی شعور کو جگاتی ہیں، سوالات اٹھاتی ہیں، اور اصل حقائق کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مولانا کی تقریر دراصل ایک فکری دستک تھی، جس میں آئینی زوال، ریاستی ناانصافی، انتخابی مداخلت، مذہبی شناخت پر حملوں اور سیاسی انجینئرنگ کے خلاف ایک مدلل مقدمہ پیش کیا گیا۔ اس تقریر کو دبانا دراصل اس فکری بیداری کو روکنے کی کوشش تھی جو اس ملک کے عوام کے اندر بیدار ہو رہی ہے۔
میڈیا کا کردار یہاں سب سے زیادہ زیرِ سوال ہے۔ وہ ادارے جو ہر چھوٹی بڑی بات کو "بریکینگ نیوز" بنا کر پیش کرتے ہیں، جنہیں سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز بھی "ایکسکلوسیو" بنا کر چلانے کا فن آتا ہے، وہ مولانا فضل الرحمان جیسے جمہوریت پسند رہنما کی ایک مکمل تقریر کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ کیا یہ سادہ سی غفلت تھی؟ ہرگز نہیں۔ یہ سوچی سمجھی خاموشی تھی، جو بتاتی ہے کہ میڈیا اب صرف میڈیا نہیں رہا، بلکہ وہ مخصوص مراکز کے اشاروں پر چلنے والا ایک فلٹرڈ ماؤتھ پیس بن چکا ہے۔ اور جب میڈیا کی زبان پر تالا ہو، تو پھر جمہوریت ایک تماشا بن جاتی ہے۔
جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں، نہ ہی صرف پارلیمانی نشستیں رکھنے سے کسی نظام کو جمہوری کہا جا سکتا ہے۔ جمہوریت اس وقت بنتی ہے جب آوازوں کو عزت دی جائے، جب اختلاف کو برداشت کیا جائے، اور جب ایوان کی گونج کو عوام تک پہنچانے میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ مولانا کی تقریر کو سنسر کرنا صرف ایک فرد کی توہین نہیں بلکہ اس پورے طبقے، اس پوری فکر، اور ان کروڑوں پاکستانیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے جن کی نمائندگی مولانا کرتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تقریر میں کچھ غلط ہوتا تو اسے دکھایا جاتا، اس پر تبصرے ہوتے، اور اس کی تردیدیں آتیں۔ لیکن جب کسی تقریر کو مکمل طور پر چھپا دیا جائے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ سچائی پر مبنی تھی، اور سچائی ہمیشہ ظالموں کو چبھتی ہے۔ آج اگر ہم نے اس رویے پر خاموشی اختیار کی، تو کل کو یہی خاموشی ہماری اپنی آواز کو بھی نگل جائے گی۔
یہ محض ایک تقریر نہیں تھی، یہ قومی شعور کا آئینہ تھی۔ اسے دبانا صرف میڈیا بلیک آؤٹ نہیں بلکہ اجتماعی ضمیر کا بلیک آؤٹ ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ کیا ہم وہی سنیں گے جو سنایا جائے؟ وہی دیکھیں گے جو دکھایا جائے؟ اور وہی سوچیں گے جو طاقتور چاہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ جمہوریت نہیں، یہ بندوق کی چھاؤں میں اگنے والی وہ خاموشی ہے جو بالآخر ایک اور سیاسی طوفان کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں