پارلیمنٹ میں شادی کے لیے 18 سال عمر کی تحدید کیوں کی گئی؟ قسط اول

پارلیمنٹ میں شادی کے لیے 18 سال عمر کی تحدید کیوں کی گئی؟ اس کے پس پردہ مکروہ عزائم اور ہمارے معاشرے پر اس کے منفی اثرات

تحریر: مولانا امان اللہ حقانی (سابق صوبائی وزیر)
قسط اول
گزشتہ روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے شادی کے لئے ۱۸ سال عمر کی تحدید کے لئے پیش کردہ بل کو اکثریت کی بنیادی پر منظور کرلیا گیا، اس کے خلاف قومی اسمبلی میں قائد جمعیت کی قیادت میں صرف جمعیت علماء اسلام نے شدید مخالفت کی جبکہ سینٹ میں جمعیت علماء اسلام کے ممبران سمیت مولانا عطاء الرحمن اور اے این پی کے ایمل ولی خان نے مدلل انداز میں ہدف تنقید بنایا، تاہم وہاں سے بھی بل بغیر کسی ترمیم کے منظور کرلیا گیا، مولانا فضل الرحمن نے تو اس کے خلاف سڑکوں پر آنے کا عندیہ دیا ہے، اس بل کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟ اس سے ہمارے معاشرے پر کیا منفی اثرات مرتب ہونگے؟ فلسفہ عالمگیریت میں اس پر زور کیوں دیا جاتا ہے؟ درج ذیل تمہیدی قسط کے بعد دیگر اقساط کے پڑھنے تک ہمارے ساتھ جڑے رہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ قانونِ زوجیت پر عمل پیرا ہوں اور ان کے درمیان توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہے۔ اسی لیے ان کے اندر صنفی میلان (Sex) کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے۔ عمر کی ایک حد تک پہنچنے کے بعد مرد عورت کی طرف کشش محسوس کرتا ہے اور عورت کے اندر مرد کی طرف کھنچاؤ پایا جاتا ہے۔ اگر اس جذبے کی تسکین صحیح طریقے سے ہو تو انسانیت کا قافلہ سکون و اطمینان کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے ،لیکن اگر اسے صحیح رخ نہ دیا جائے تو سماج فتنہ و فساد سے بھر جاتا ہے۔ جذبۂ جنس کے تعلق سے تاریخ میں انسانوں کے دو رویّے پائے گئے ہیں ۔ بہت سے انسانوں نے اسے حقارت کی نظر سے دیکھا اور اسے دبانے اور کچلنے کو انسانیت کی معراج سمجھا۔ جیسا کہ عیسائیت میں ’’تجرد‘‘ کی زندگی کو شروع ہی سے تقدس کا درجہ حاصل ہے اور چرچ کے ساتھ تعلق رکھنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے شادی نہ کرنے اور جنسی تعلقات سے دور رہنے کی پابندی مذہبی قواعد کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کا ذکر قرآن کریم نے ’’رہبانیت‘‘ کے عنوان سے کیا ہے چنانچہ پادری اور نن کی جنسی بے راہ روی کی تاریخ اتنی ہی طویل ہے جتنی خود چرچ کی تاریخ ہے، اور ماضی کا ریکارڈ ایک طرف، اب بھی میڈیا میں پادری صاحبان کے بارے میں اس قسم کی خبریں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔

دوسری طرف انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے یہ نظریہ قائم کیا کہ جنسی تسکین کے لیے انسان پر کوئی قد غن نہیں ہے۔ وہ جہاں اور جیسے چاہے اپنی خواہش پوری کرلے۔ آج کل عالمگیریت کے داعی پوری دنیا میں Live In Relation Ship کے نظریہ کو ترویج دے رہیں۔ یہ لیو ان ریلیشن شپ ہے کیا؟ ایک دوسرے میں جنسی کشش کے تحت زندگی گزارنا اور جذباتی وابستگی سے مغلوب ہوکر ساتھ رہنا، آج کل جہاں دیکھو ہر جگہ Live in Relation Ship کا پرچار ہورہا ہے۔ پہلے تو اس کا دائرہ کار یورپ تک محدود سمجھا جاتا تھا مگر اب یہ نظریہ بعض اسلامی ممالک میں فیشن کے طور پر اپنایا جارہا ہے بلکہ اس رشتے کو زیادہ رواج دیا جارہا ہے، حیوانی زندگی کے رسیا کہ جس میں کوئی شخصی، معاشرتی و سماجی پابندی نہ ہو بلکہ وہ مادر پدر آزاد زندگی گزاریں، انہیں روک ٹوک اور انسانیت کا درس دینے والا کوئی نہ ہو، یہ دونوں رویے افراط و تفریط پر مبنی ہیں۔ جنسی جذبہ کو دبانا انسانی فطرت سے بغاوت ہے۔ جب کہ اباحیت کا نظریہ انسانی سماج کو حیوانات کے باڑے میں تبدیل کردیتا ہے، دوسری قسط میں اس پر تفصیل سے بتاؤنگا کہ ترک نکاح کے رجحان نے یورپ و امریکہ میں خاندانی نظام کو کیسے برباد کیا؟

ان دونوں کے درمیان اعتدال پر مبنی فطری راستہ نکاح کا عمل ہے، اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے، اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائز اور مہذب طریقے کے ساتھ پورا کرنے کی اجازت ہے اور اسلام نے نکاح کوانسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔

1)۔  ارشاد نبوی ہے: ”النکاح من سنّتی“ نکاح کرنا میری سنت ہے۔

2)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کوآدھا ایمان بھی قرار دیا ہے ”اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ“ جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔

3)۔  نکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً“ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اور انہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا۔

 اس ارشاد ربانی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام بھی نکاح ہی کے نتیجے میں صاحبِ اہل وعیال رہے ہیں۔حضرت ابوایوب انصاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسولوں کی چار سنتیں ہیں:

 (۱) شرم و حیاکا خیال (۲)مسواک کا اہتمام (۳) عطر کا استعمال (۴) نکاح کا التزام(۴)۔

شریعت نے نکاح کا عمل بہت سادہ، سہل اور آسان بنایا ہے، اب اس کو مشکل بنانا، اس میں قیودات لگانا اور قانونی موشگافیاں پیدا کرنا آزادانہ جنسی اختلاط کے لئے راہ ہموار کرنا ہے،

اس پر تفصیل دوسری قسط میں ملاحظہ کریں

0/Post a Comment/Comments