پارلیمنٹ میں شادی کے لیے 18 سال عمر کی تحدید کیوں کی گئی؟ اس کے پس پردہ مکروہ عزائم اور ہمارے معاشرے پر اس کے منفی اثرات
احادیث میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کو ہدایت کی ہے کہ شادیاں ہلکی پھلکی اور کم خرچ ہوا کریں، اور بشارت سنائی گئی ہے کہ اگر ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شادیوں میں اور اُن کے نتیجوں میں بڑی برکتیں ہوں گی۔
اب نکاح جتنا آسان ہوگا اتنا ہی عام ہوگا اور نکاح جب عام ہوگا تو اس سے فحاشی اور بد کاری کا سد باب ہوگا، اسلام کا مطمح نظر یہ ہے کہ معاشرے میں حتی المقدور پاکدامنی اور عصمت و عفت کا ماحول قائم ہو اور یہ تب ممکن ہوگا جب نکاح آسان اور عام ہو۔
جبکہ عصرِ حاضر میں خصوصاً اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے شادی کو غیر اہم بتایا ہے اور شادی سے انکار کردیا ہے، بلکہ شادی کو ایک قید اور بوجھ سمجھ لیا، ان کے بے ہودہ نظریات کے مطابق انسان ہر طرح کی آزادی کا حق رکھتا ہے اور اسے اپنے فطری جذبات کو جیسا چاہے ویسا پورا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس معاملہ میں انسان کسی قسم کی روک ٹوک، اسی طرح شادی جیسی کوئی پابندی اور بندھن کا قائل نہیں ہے۔ ان کے ہاں شادی کا تصور ہے بھی تواس کا مقصد صرف جنسی خواہشات کا پورا کرنا، رنگ رلیاں منانا، موج مستی کرنا اور سیر وتفریح کرنا پھر ایک مقررہ وقت اور مدت کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو جانا ہے۔ مغربی ممالک کے لوگ خصوصاً اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے دنیا کے دیگر ممالک کے افراد عموماً مرد کے لئے عورت دوست اور عورت کے لئے مرد دوست (Boy friend, Girl friend) نظریے کے تحت بے حیائی بے شرمی کے شکار ہیں۔ عاشق و معشوق کی حیثیت سے بے حیا و بے شرم بن کر زندگی گزارتے ہیں اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے شادی کو ایک کھیل تماشا بناکر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں گھر گرہستی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ خاندان اور اقارب کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ ماں باپ اور بچوں کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں رہ گیا ہے۔
جدید عالمی نظام یعنی عالمگیریت کی تحریک اپنے مقاصد کی تکمیل اسی صورت میں کرسکتی ہے جبکہ انسانی زندگی کے ہر شعبے اور گوشے تک اس کی رسائی ہو، اسی لئے اس نے سب سے پہلے سیاست میں قدم رکھا، پھر اقتصادیات کی راہ سے ہوتے ہوئے تہذیب و ثقافت پر دست درازی کی اور پھر معاشرتی اقدار و روایات پر حملہ کیا، پوری دنیا میں مغربی معاشرہ قائم کرنا، اگر مختصر تعبیر کرنا چاہے ”تو دنیا کو سیاسی،اقتصادی،تہذیبی اور معاشرتی طور پر امریکنائز کرنا ہے۔“
اب یورپ اور امریکہ میں مرد و زن کا نکاح کئے بغیر ایک دوسرے کا پارٹنر بننا ایک عام معمول کی بات ہے، جس کی وجہ سے وہاں خاندانی نظام زمین بوس ہوا۔
اب ان کا پروگرام مسلم ممالک کے لئے بھی یہی ہے کہ یہاں بھی بغیر نکاح کے آسانی کے ساتھ مرد و زن کا اختلاط ہو لیکن یہاں پر فالحال گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ جیسے بیہودہ تصورات کو عام کرنا ممکن نہیں، لہذا ان قوتوں کا سارا زور اس پر ہے کہ نکاح کو مشکل بناکر عمر کی حد زیادہ کرکے اس کو تاخیر کا شکار بنایا جائے تاکہ زنا کاری کے لئے راستہ ہموار ہوجائے۔
اقوام متحدہ نے کئی عشرے قبل سب سے زیادہ فوکس اس پر کیا ہوا ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ گلوبلائزیشن ہمارے معاشرے کو کس طرح ”ویسڑنائز اور امریکنائز“ کرتا ہے، اور انہوں نے خاندان کو جو معاشرے کی بنیاد ہے کس طرح بیخ و بند سے اکھاڑنے کا پروگرام بنایا ہے؟ ۱۹۹۴ میں قاہرہ میں آبادی کانفرنس منعقد ہونے کے بعد مصر، تیونس اور اردن میں خواتین کی مختلف تنظیمیں قائم کیں، انہوں نے عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کیا، اقوام متحدہ کی جانب سے ان کو ۲۰۰ ملین ڈالر ملے، اس زبردست مالی امداد کا اثر ۱۹۹۵ میں بکین میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں دیکھنے میں آیا جس میں مسلم خواتین کی بھرپور شرکت تھی، اس کانفرنس کی قرار دادوں میں سے ایک قرارداد یہ بھی تھی
”لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کو جنسی عمل کے ارتکاب کی مکمل آزادی ہے، والدین کو یا کسی دیگر ولی اور ذمہ دار کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس عمل سے لڑکی کو روکے“ مسلم ممالک کو ان کے قرضے معاف کر دینے کا لالچ دے کر اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ ان کو اپنے یہاں نافذ کریں۔
جوان لڑکیوں اور خواتین سے متعلق اقوام متحدہ میں کئے گئے معاہدوں اور منظور کردہ قراردادوں کی تفصیلات تیسری قسط میں ملاحظہ کریں جس سے آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
ایک تبصرہ شائع کریں