پارلیمنٹ میں شادی کے لیے 18 سال عمر کی تحدید کیوں کی گئی؟ قسط سوم

پارلیمنٹ میں شادی کے لیے 18 سال عمر کی تحدید کیوں کی گئی؟ اس کے پس پردہ مکروہ عزائم اور ہمارے معاشرے پر اس کے منفی اثرات

تحریر: مولانا امان اللہ حقانی (سابق صوبائی وزیر)
قسط سوم

اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے زیر اہتمام جتنی کانفرنسیں ہوئیں ان سب میں اسی بات پر زور دیا گیا ہے کہ نکاح و شادی کا تصور جڑ سے ختم کردیا جائے، یا پھر نکاح میں تاخیر کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جائیں، ذیل میں ان کانفرنسوں میں کئے گئے فیصلے اور اعلانات بغور ملاحظہ کریں پھر آپ پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائیگی کہ اس حالیہ منظور کردہ بل کی پشت پر کونسے عوامل کار فرما ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ اس بل کی پوری ڈرافٹنگ کسی عالمی ادارے کے راتب خور این جی او نے تیار کی ہوگی۔

۱۹۸۴ء میں، میکسیکو میں آبادی کے موضوع پر عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں مندرجہ ذیل امور کی اپیل کی گئی۔

1)۔ زندگی کے ہر میدان میں،عورت کو مرد کے مساوی حقوق دینا۔

2)۔ شادی میں تاخیر کرنا اور حمل میں جلدی نہ کرنا۔

3)۔ باپ کو گھر کے کاموں میں شریک کرنا ، جب کہ عورت کو خارجی یعنی باہر کی ذمے داریوں میں شریک کرنا۔

4)۔ نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کو جنسی تعلیم سے آراستہ کرنا۔

5)۔ خاندان کے دائرے سے باہر جنسی تعلقات کو فروغ دینا۔

6)۔ زانی مردوں اور عورتوں کو مالی امداد فراہم کرنا اور ان کو رہایش کے لیے مناسب جگہ دینا۔

پھر ستمبر ۱۹۹۴ء میں اسلامی تہذیب کے سابقہ گہوارے مصر کی دار الحکومت، قاہرہ میں آبادی اور ترقی کے موضوع پر، عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، اگر چہ اس کانفرنس کا تعلق آبادی سے تھا لیکن اس میں خواتین کے مسائل چھائے رہے اور بکین کانفرنس سے ملتی جلتی بل کہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک قراردادیں پاس ہوئیں، اگر یہ کانفرنس کسی مغربی ملک میں منعقد ہوتی تو بھی معاملے کی اہمیت کم نہ ہوتی لیکن اس قسم کے اجتماع کا عالم اسلام میں منعقد ہونا، بہت زیادہ باعث تشویش ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مغربی طاقتوں نے قاہرہ میں یہ کانفرنس منعقد کر کے، عالم اسلام کے منہ پر زوردار طمانچہ مارا ہے۔

قاہرہ کانفرنس میں جو دستور تیار ہوا ، ذیل میں ہم اس کے حوالے سے چند باتیں ذکر کر رہے ہیں:

(1) فرد ہی اصل بنیاد ہے، اس کے مفادات اور اس کی خواہشات ہی معیار ہیں، دین ، قوم، خاندان، رسوم ورواج اور عرف و عادات معیار نہیں

(2) دستور میں لکھا ہے کہ عقد نکاح کے بغیر ہی جنسیت کا عمل ہونا چاہیے، اسی طرح ہم جنس پرستی کو بری نگاہ سے دیکھنے کے بجائے اس کو فروغ دینا چاہیے البتہ اس بات کی طرف پوری توجہ رہے کہ یہ عمل کسی مرض میں مبتلا نہ کر دے،اس لیے نو عمروں کو ہم جنس پرستی اور منع حمل سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں اور اس سلسلے میں ان کو مکمل راز داری کا یقین دلایا جائے اور ان کی کارکردگیوں کے حوالے سے، ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔

(3) یہ دستور جلدی شادی کو نہایت غلط تصور کرتا ہے، اس لیے کہ یہ شرح پدائش میں اضافے کا سبب ہے۔

(4) یہ دستور اسقاط حمل کی مذمت نہیں کرتا، اگر چہ اس عمل میں ماں کی صحت کو ہی خطرہ کیوں نہ ہو؛ البتہ اتنی توجہ ضرور دی جانی چاہیے کہ ماں کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔

(5) اس دستور میں جلد ماں بننے کو بھی غلط تصور کیا گیا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ عورت جائز طریقے سے ماں بنی ہے یا ناجائز طریقے سے، کیونکہ جلد ماں بننے سے شرح پیدایش میں اضافہ ہوتا ہے اور عورت مرد کے شانہ بہ شانہ، خارجی کاموں میں شرکت نہیں کر پاتی۔

(6) قاہرہ کانفرنس کے اس دستور میں ، مرد و عورت کے لیے زوجین کے بجائے ساتھیوں کا لفظ استعمال ہوا ہے، کیوں کہ دستور سازوں کی نظر میں یہ ایک غیر جانبدار لفظ ہے، یہ لفظ بغیر نکاح کے جنسی بے راہ روی اور جسمانی تعلقات قابل قبول اور جائز ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ عالم اسلام کے لئے یہ بات نہایت شرمناک ہے کہ اسلامی دور کے حسین مرکز قاہرہ میں اتنے بڑے پیمانے پر کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں ان لغویات کو دستور قرار دیا گیا، حالانکہ لغویات و منکرات سے پُر یہ دستور اسلام ہی کیا کسی بھی آسمانی مذہب سے کی تعلیمات سے میل نہیں کھاتا،کیونکہ کوئی بھی آسمانی مذہب جنسی بے راہ روی اور حرام کاری کی کھلی اجازت نہیں دے سکتا،جبکہ اس دستور کی مکمل بنیاد ہی زناکاری پر ہے۔

اس کے بعد ۱۹۹۵ء میں اقوام متحدہ نے ”خواتین“ سے متعلق چوتھی کانفرنس منعقد کی، اس مرتبہ یہ کانفرنس بکین میں منعقد ہوئی اور ”بکین کانفرنس “ ہی کے نام سے مشہور ہوئی، اس کانفرنس کا مقصد نیروبی کے اجتماع میں پیش کردہ مقاصد کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے سلسلے میں، کوششیں تیز کرنے کی اپیل کرنا تھا تاکہ مغرب نے عورت کے سلسلے میں جو منصوبے تیار کر رکھے ہیں، وہ رو بہ عمل ہو جائیں، لیکن بیسوی صدی کے اختتام میں صرف پانچ سال کا عرصہ باقی تھا اور مغرب ابھی اپنے مقاصد سے بہت دور کھڑا تھا، اس لیے صدی کے اواخر تک اپنے خواب کو تعبیر عطا کرنے کا، یہ آخری موقع تھا جسے مغربی طاقتیں گنوانا نہیں چاہتی تھیں، اس لحاظ سے یہ کانفرنس اقوام متحدہ کی سابقہ کانفرنسوں سے کچھ مختلف تھی، مغربی معاشرے کی عالم کاری کے خواہش مندوں نے اس کانفرنس میں پہلی بار کھلم کھلا ایسے اعلانات و فیصلے کئے جو آسمانی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت کے بھی خلاف تھے، اس کانفرنس میں مرد و زن کی مساوات اور ان کے درمیان ہر قسم کے فرق کو کچل دینے کا عزم کیا گیا، حرام جنسی تعلقات کا دروازہ کھولنے پر ابھارا گیا، اس کانفرنس میں جن چیزوں پر زور دیا گیا وہ درج ذیل ہیں، دل تھام کر ملاحظہ کریں۔

(1) جنسی آزادی کی اجازت

(2) آغاز جوانی میں شادی سے نفرت۔ (حالیہ منظور کردہ بل سے اسی مقصد کا حصول ہے)

(3) مانع حمل ذرائع اور وسائل کوفروغ دینا،

(4) آپریشن وغیرہ کے ذریعے مرد کی صلاحیت کو ختم کرنا

(5) محدود اولاد

(6) محفوظ طریقے سے اسقاط حمل کی اجازت

(7) مردوزن کے درمیان مخلوط تعلیم

(8) نو عمری میں ہی لڑکے لڑکیوں کو جنسی ثقافت کی تعلیم

(9) ان مقاصد کے حصول کے لیے میڈیا کا استعمال

اسی طرح اس کانفرنس میں، یہ اعلان کیا گیا کہ اب معاشرہ ہر قسم کی قیود سے پاک ہو کر ، اباحیت کی راہ پر گامزن ہوگا کسی بھی مذہب کو اور خصوصاً اسلام کو اس ترقی یافتہ معاشرے کی سمت تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا، والدین کی بچوں پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی، جبکہ مرد عورت کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ 

پھر اکیسویں صدی کی ابتداء میں عالمی قوتوں نے نکاح کے تصور کو ختم کرنے کے لئے کونسے سخت اقدامات اٹھائے، یورپ و امریکہ میں اس کے کیا منفی نتائج مرتب ہوئے وہ چوتھی قسط میں ملاحظہ کریں۔


0/Post a Comment/Comments