پارلیمنٹ میں شادی کے لیے 18 سال عمر کی تحدید کیوں کی گئی؟ قسط پنجم

پارلیمنٹ میں شادی کے لیے 18 سال عمر کی تحدید کیوں کی گئی؟ اس کے پس پردہ مکروہ عزائم اور ہمارے معاشرے پر اس کے منفی اثرات

تحریر: مولانا امان اللہ حقانی (سابق صوبائی وزیر)
قسط پنجم

امریکہ جو پچاس ریاستوں پر مشتمل ہے سوائے نیویارک کے کہیں بھی شادی کے لئے عمر کی تحدید ۱۸ سال نہیں ہے، میساچوسیٹس کی ریاست میں بارہ سال ہے۔ انڈیانا، ہوائی اور جارجیا میں پندرہ اور پینسلوانیا میں چودہ سال، کیلیفورنیا میں کم سے کم عمر کی تو کوئی قید ہی نہیں ہے اگر ماں باپ کی مرضی شامل ہو تو کسی بھی عمر میں شادی جائز ہے۔ کتنی ہی ایسی ریاستیں ہیں جو عمر کی حد میں مزید کمی کر دیتی ہیں۔

جہاں تک جنسی یا حمل کی مشکلات کا سوال ہے تو امریکا میں قریباً نصف کے قریب ہائی اسکول میں پہنچنے والے بچے اور بچیاں ان مراحل سے گزر چکے ہوتے ہیں۔

سال میں کوئی دس لاکھ بچیاں تیرہ سے انیس سال کی عمر میں حاملہ ہو جاتی ہیں، یعنی ہر ایک منٹ میں دو امریکی حکومت سال کا چالیس بلین ڈالر صرف انہی کی دیکھ بھال، بچاؤ، مشورے اور تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ کیونکہ حاملہ ہونے والی ان لڑکیوں سے ہونے والے بچوں کی ماؤں سے ان کے وہی باپ شادیاں نہیں کرتے اور بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر دس میں سے آٹھ لڑکے بغیر شادی کے بھاگ جاتے ہیں۔ 89 فیصد یہ لڑکیاں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ پاتیں۔ یہ بچیاں امریکا میں ہونے والی پیدائشوں کا اکیس فیصد ہیں۔ آج بھی امریکا میں اکتالیس فیصد بچے شادی سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔ اندورا، کولمبیا اور پیراگوئے میں آج تک عمر چودہ سال ہے، مالی اور انگولا میں پندرہ سال، میکسیکو، اسکاٹ لینڈ، سیریا لیون، گیمبیا، انگلینڈ اور لائبیریا میں سولہ سال اور ان میں سے کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے۔ کتنے ہی ڈیوک آف انگلینڈ ہیں جن کی شادیاں سولہ سال کیا چودہ سال یا اس سے بھی کم عمر میں ہوئیں۔

شریعت نے جہاں عورتوں کو تعلیم و تربیت کے حصول کی پوری آزادی بخشی ہے، وہیں اس کے نزدیک مرد و عورت کے درمیان اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ دونوں کے لیے علیحدہ تعلیم گاہ ہونی چاہیے، جہاں وہ یک سوئی اور سکونِ خاطر کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں، اور ہر نوع کے ممکن فتنے کا سدِّباب ہوسکے، خاص طور سے موجودہ دور میں، جب کہ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مخلوط تعلیم کی فحش کاریاں اور زیاں کاریاں ظاہر و باہر ہوچکی ہیں اور خود یورپ وامریکہ کی تعلیم گاہوں کے ماہرینِ تعلیم و سماجیات وعمرانیات کی رپورٹس اس کا بین ثبوت ہیں؛ چنانچہ مشہور فرانسیسی عالم عمرانیات ” پول بیورو “(Poulbureou) اپنی کتاب (Towardsmoral Bankruptcy) میں لکھتا ہے کہ: ”فرانس کے متوسط طبقے کی تعلیم یافتہ لڑکیاں، جو کسی فرم میں کام کرتی ہیں اور عام سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہیں، ان کے لیے کسی اجنبی لڑکے سے مانوس ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے، اوّل اوّل اس طرزِ معاشرت کو معیوب سمجھا گیا، مگر اب یہ اونچے طبقے میں بھی عام ہوگیا ہے اور اجتماعی زندگی میں اس نے وہی جگہ حاصل کرلی ہے، جو کبھی نکاح کی تھی۔

امریکہ کی تعلیم گاہوں کے نوجوان طبقہ کے بارے میں جج بن لنڈ سے (Benlindsey) جس کو ڈنور (Denver)کی عدالت جرائم اطفال (Juentlecourt) کا صدر ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے نوجوانوں کی حالت سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع ملا، اپنی کتاب (Revolt of Modern youth) میں لکھتا ہے کہ: ”امریکہ میں ہائی اسکول کی کم از کم ۴۵ فیصد لڑکیاں اسکول سے الگ ہونے سے پہلے خراب ہوچکی ہیں اور بعد کے تعلیمی مدارج میں اوسط اس سے کہیں زیادہ ہے، لڑکیاں خود ان لڑکوں سے اس چیز کے لیے اصرار کرتی ہیں، جن کے ساتھ وہ تفریحی مشاغل کے لیے جاتی ہیں اور اس قسم کے ہیجانات کی طلب ان میں لڑکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں، گرچہ زنانہ فطرت ان اقدامات پرفریب کاری کے پردے ڈالتی ہے۔

انگلینڈ کے مرکزی شہر لندن (جو تہذیب جدید کا صاف شفاف آئینہ ہے، اسی آئینے میں اس کی تمام تر گل کاریوں کا عکسِ قبیح نظر آتاہے) کی ”غیر شادی شدہ ماؤں اور ان کے بچوں کی نویں کونسل“ سے خطاب کرتے ہوئے انگلینڈ کی مشہور مصنفہ ”مس مارگانتا لاسکی“ یہ دھماکہ خیز انکشاف کرتی ہے کہ: ”انگلستان کی تقریباً ۷۰ فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی اپنے دوستوں سے جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور ۳۳ فیصد لڑکیاں شادی سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں۔“

لندن کے ایک سماجی کارکن نے اپنی مطالعاتی رپورٹ میں وہاں کی مخلوط تعلیم گاہوں کی صنفی آوارگی اور جنسی انارکی (Anarchy)کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”اسکول میں آج کل چودہ برس کے لڑکے اور لڑکیاں عام طور پر مانعِ حمل اشیاء اپنے اپنے بیگ میں لیے پھرتے ہیں کہ جانے کب کہاں ضرورت پڑجائے؟ اس معاملے میں وہ اپنے ماں باپ سے کہیں زیادہ ہوشیار ہیں۔

حقائق کے برخلاف ماحول کی وجہ سے پاکستان، انڈیا اور ایسے ہی کئی ممالک میں شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال کر دی گئی ہے۔ ہر معاشرے، ہر ملک، ہر طبقہ، ہر تاریخ، ہر جغرافیہ کے اپنے اپنے اطوار ہوتے ہیں اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔ اگر کوئی کسی مفلوک الحال بچی کے ساتھ ظلم کر رہا ہے تو وہ بلاشبہ قابل تعزیر ہے، وہ چاہے پاکستان میں ہو یا امریکا میں، اب ایسی کیا مجبوری پیش آگئی ہے کہ پاکستان میں انتہائی عجلت میں ہنگامی بنیادوں پر بغیر کسی سوچ بچار کے شادی کی عمر کی تعیین کا قانون پاس کیا گیا ہے؟ آئینی طور پر ریاست پابند ہے کہ اس طرح کے معاملات کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، یہاں آپ شریعت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتے۔ اگر 15 سال کی عمر کے بالغ لڑکی اور لڑکی باہمی اور خاندان کی رضامندی سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو دنیا کا کوئی قانون اس سے نہیں روک سکتا، یہ عجیب منطق ہے کہ 18 سال سے پہلے شادی پر تو آپ پابندی لگائیں جبکہ اس عمر میں غیر محرموں میں دوستی اور بے محابہ میل جول پر کوئی قدغن نہ ہو؟ ایک سوال ہمارا ان لوگوں سے یہ ہے کہ تمہاری قانونی جکڑ بندیوں اور بروقت نکاح کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے جو لڑکیاں عمر رسیدہ ہو جاتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ نکاح میں مردوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ جنسی خواہش پوری کرنے کے لئے بدکاری کا راستہ اختیار کرتی ہیں تو انکے گناہ کا ذمہ دار کون ہوگا؟کیا اس کے لئے کوئی سزا مقرر کی گئی ہے؟

الحمدللہ کل تو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے منعقدہ اجلاس میں واضح فیصلہ کیا کہ ۱۸ سال کی تحدید کا بل اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، جو کسی طور پر جائز نہیں، اب اتنی عجلت میں اس بل کو دونوں ایوانوں سے پاس کرانے کا یہی مقصد ہے کہ جس طرح یورپ اور امریکہ میں شادی کیے رجحان میں کمی اور مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کے باعث انکا خاندانی نظام تباہی کے دھانے پر کھڑا ہوگیا ہے، بلکہ زمین بوس ہوگیا ہے، ہمارے معاشرتی نظام کو بھی اس تعفن زدہ گندگی کے ڈھیر میں دھکیل دیا جائے۔


0/Post a Comment/Comments