کارکن کی تربیت۔۔۔ کیوں اور کیسے؟ تحریر: حافظ نصیر احمد احرار

کارکن کی تربیت۔۔۔ کیوں اور کیسے؟

تحریر: حافظ نصیر احمد احرار 

(سابق مرکزی صدر جمعیۃ طلباء اسلام)

 جوانو! یہ صدائیں آرہی ہیں، آبشاروں سے

  چٹانیں چور ہو جائیں، جو ہو عزمِ سفر پیدا 

کسی بھی تنظیم کے پروگرام اور اغراض ومقاصد کی کامیابی و ناکامی میں کارکن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کارکن کے انداز واطوار ، رہن سہن، کردار ومعاملات، فراست و تدبر جوش و ولولہ پر ہی جماعتی پروگرام کی ترویج و اشاعت کا مدار ہوتا ہے۔ اگر کارکن جماعت سے مخلص ، قیادت سے مطمئن ، پروگرام سے سچی لگن اور محبت رکھتا ہو تو اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ جلد ہی دور ہو جایا کرتی ہے اور اگر کارکن میں حوصلہ و بردباری کا فقدان، نظریات کی ناپختگی، جماعتی معاملات میں عدم دلچسپی ، حالات حاضرہ اور تنظیمی سرگرمیوں سے ناآشنائی ہو تو پھر یہ ممکن نہیں کہ اس جماعت کا یہ بیکار کارکن جماعت کے کسی بھی شعبے کیلئے کارآمد ثابت ہو یا جماعتی قیادت اپنے امور کی انجام دہی میں اس مردہ جسم سے کوئی فائدہ حاصل کرسکے۔ 

ظاہر بات ہے کہ جماعت نام ہے انفرادی زندگی کے خاتمے کا۔ تنظیم کے قیام کا مقصد ہر چیز میں حسنِ ترتیب قائم کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی جماعت سے وابستگی کا ارادہ کرتا ہے تو اِس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی بے ترتیبی کو کسی Discipline (نظم) کا پابند کرنا چاہتا ہے۔ اس کا تنظیم کی لڑی میں پرویا جانا اس بات کا اظہار ہے کہ وہ اپنے جذبات کو اپنی عقل کے تابع کرنے کی بجائے کسی اعلیٰ سوچ اور وسیع دماغ کے سپرد کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے دل ودماغ کو ایک شعور حاصل ہو۔ کسی جماعت کی قیادت کو تسلیم کرکے ان کے نظریات وافکار کو اپنے دل ودماغ میں جگہ دیکر اپنی خواہشات اور آرزؤں کو ان کے سپرد کرکے اپنا مرنا ،جینا ان کے نام کردینا ،یہ معمولی قربانی نہیں۔ لفظوں کے ہیر پھیر اور بیان کی سحر انگیزیوں سے کارکن کی اس عظیم قربانی کا تذکرہ محال اور اس کی رفعت و بلندی کو پانا ناممکن ہے۔ لیکن اس کے باوجود حالات حاضرہ کے تناظر میں جماعتوں کے عروج وزوال کی داستانوں اور خصوصاً جمعیۃ علماء اسلام وجمعیۃ طلباء اسلام کے کارکنان کے مخصوص حالات کے مشاہدے اور عملی زندگی کی پیچیدہ راہوں سے گزرنے کے بعد اپنے ہم نظرو ہم فکر ساتھیوں کی خدمت میں چند معروضات پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں، محض اس ارادے سے کہ:  

  شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات  

-1 کارکن کی حیثیت: 

یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ کارکن جماعت کی روح ہوا کرتا ہے، کارکن کے کردار و معاملات اور اس کی ذہنی پختگی وعملی جدوجہد کی بنیاد پر ہی جماعتیں اپنے اہداف حاصل کرتی ہیں۔ ہر اچھے کارکن میں یہ صفات بدرجہ اتم موجود ہونی چاہئیں کہ وہ جماعت کی پالیسی اور اسکے پروگرام کو اعتماد کیساتھ قبول کرے اور اس کو آگے بڑھانے کیلئے راہ ہموار کرے۔ اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب درج ذیل امور پر دسترس ہوگی۔ 

-2 نظریات میں پختگی :

کارکن میں اعلیٰ صفات کی موجودگی کیلئے سب سے اہم اور بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اس کے دل ودماغ کی گہرائیوں میں جماعتی نظریات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوں۔ بلاشبہ نظریہ وہ چیز ہے جو ایندھن بن کر کسی بھی کارکن کے حوصلے، جذبے اور عزم واستقلال میں شدت پیدا کرتا ہے اور اس میں آگے ہی آگے بڑھنے کی قوت و توانائی ڈال کر ''گر گر کر اٹھنا اور اٹھ اٹھ کر گرنا'' کا صحیح مصداق بناتا ہے۔ زمانہ قدیم کی تحریکات کے مطالعے سے یہ بات عقل میں آتی ہے کہ نظریاتی پختگی کے بغیر کوئی مخلص شخص بھی تنظیم پر آنے والے مصائب وآلام میں اس کا ہم رکاب نہیں رہتا بلکہ الٹا نقصان کا سبب بنتا ہے۔ مگر نظریات کی بھٹی میں پگھل کر جماعت سے وابستہ ہونے والا کارکن بادِ مخالف کے تھپیڑوں کو سہہ کر اپنے سے روشن مستقبل کی شمع جلا کر ہنستا ، مسکراتا جانب منزل رواں دواں رہتا ہے۔ 

-3 تربیتی مجالس:

نظریاتی کارکنوں کی کھیپ تیار کرنے کیلئے محض توکل علی اللہ پر انحصار خوش گمانی کے علاوہ کچھ نہیں (جیسا کہ ہمارا شعار بن چکا ہے) بلکہ اس کیلئے عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی کارکن کو جماعتی نظریات سے روشناس کروانے کیلئے اسبابِ مطالعہ، تاریخ کے آئینے میں تحریکات کے کردار، ان کی ناکامی و کامیابی کی وجوہات، اپنے پروگرام سے متعلق ذہن میں اٹھنے والے شکوک وشبہات اور سوالات کو دلائل وعلل سے رفع کرنا ،پروگرام کی حقانیت اور اس کی کامیابی کا صدق و یقین اس کے دل ودماغ میں بٹھا کر اس کو ہمہ وقت تن من دھن قربان کرنے کیلئے تیار کرنا جیسے امور کیلئے تربیتی مجالس کے عنوان پر اجتماعی مطالعے کا نظام، تحریک سے وابستہ علماء کرام کے علم و تجربے سے مستفید کروانے کا انتظام اور اسکے کے ساتھ ساتھ وقت کے مشائخ عظام صوفیاء کے نظام خانقاہی سے وابستہ کرواکر تزکیہ قلب اور سلوک و طریقت کے رموز کو سمجھنے کے مواقع مہیا کرنا نہایت ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ بعض سادہ لوح ساتھیوں کو میرے تحریر کردہ آخری جملے سے حیرانی ہوئی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ خانقاہی نظام سے وابستگی جمعیۃ کے مشن کا اہم جز اور ہمارے اسلاف رحمۃ اللہ علیہم کی حیات جاودانہ کا ایک روشن باب ہے۔ ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارے نظام اجتماعی میں آنے والی باہمی نفرت وبغض، حسد وعداوت جیسی روحانی بیماریاں اور اس جیسی دیگر خرافات احتسابی عمل سے دوری اور خانقاہی نظام سے لاتعلقی کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی متاع گم شدہ پانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 

-4 کام کا طریقہ کار:

جب یہ یقین کامل حاصل ہوجائے کہ تربیتی مراحل سے گزر کر عملی میدان میں اس شخص کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے تو اب اس پر اس کی استطاعت کے مطابق جماعتی ذمہ داری کا بوجھ ڈالا جائے اور ساتھ ساتھ اس کو جماعت کے نظامِ عمل اور طریقہ کار سے اس انداز میں متعارف کروایا جائے کہ رفتہ رفتہ یہ شخص جماعت کے نظم کا حصہ بن کر اس کے پروگرام کی تعمیر و ترقی کا سبب بن سکے۔ 

-5 باہمی مشاورت:

اسلام ایک آفاقی اور انقلابی مذہب ہے۔ اسی بناء پر اس کو نظامِ اجتماعی کہنا درست ہوگا۔ خالق کائنات نے اس نظام اجتماعی کو چلانے کیلئے جہاں ایک انقلابی پروگرام سے مزین کتاب مبین عطا کی۔ وہیں ایک راہنما ۖ  بھی مبعوث کیا ،جس نے اس نظام ِاجتماعی کو عدل کی بنیاد پر قائم کیا اور آنے والی نسل کیلے انمٹ نقوش چھوڑے۔ نظام اجتماعی کو عدل پر چلانے کیلئے قرآن عظیم نے وامر ھم شورای بینھم کا ضابطہ بیان کیا ہے جوکہ بظاہر تو فقط ایک جملہ ہے مگر تفسیر و تشریح میں یہ ایک مفصل کتاب کا طالب ہے، جو ہمارا مقصود بحث نہیں۔ البتہ شوریٰ کا نظام جماعت کی کامیابی و ناکامی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام کو قائم کرنے سے جہاں روحانی وباطنی ثمرات حاصل ہوتے ہیں، وہاں اسباب و ظاہر کی دنیا میں اس سے بہت سے فتنہ و فساد اور بدامنی وانتشار کا سدباب ہوتا ہے۔ غرضیکہ جماعتی کام کو چلانے اور طریقہ کار کے وضع کرنے میں مشورہ بہت ضروری ہے۔ جس جماعت کے کارکن نظام شوریٰ کو قائم رکھتے ہوں ان کے قول و فعل اور عملی جدوجہد میں خیر و برکات کا ظہور عام ہوتا ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ جماعتی کارکن نظام شوریٰ سے محروم ہوگئے تو جماعت کی ناکامی اور کارکنوں میں باہمی نفرت اور رنجش پیدا کرنے کیلئے مخالف کو کسی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ صرف اس نظام شوریٰ کے خاتمے کی نحوست ہی ساری محنت و جدوجہد کو رائیگاں کرکے جماعت کی بنیادوں کو اکھاڑنے اور تحریک کو پسپا کرنے کیلئے کافی ہے فَاعْتَبِرُوا یا اُوْلِی الْاَبْصار… 

-6 فیصلوں پر عمل درآمد :

نظام شوریٰ کی برکت سے منتشر اذہان کے مجتمع ہونے کی نعمت متبرکہ حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ ایک معاملے سے متعلق جتنے اشخاص ہوں گے اتنی ہی آراء سامنے آئیں گی۔ لیکن اس انتشار کو رفع کرنے اور کسی نتیجے پر پہنچ کر عمل کرنے کے ارادے کو فیصلہ کہتے ہیں اور یہ فیصلہ نظام شوریٰ کی بدولت طے پاتا ہے۔ شوریٰ کے ذریعے کئے گئے فیصلوں اور بغیر مشاورت کئے گئے اعمال کے نتائج میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ہمیشہ سنجیدہ اور جماعت کا مخلص و وفادار کارکن وہی ہوگا جو اپنی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے اجتماعی فیصلے پر عمل کرنے کو ترجیح دے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو، تو جان لیجئے کہ یہ شخص جہاں خود جماعت سے مخلص نہیں وہاں یہ پروگرام کو نقصان پہنچانے اور جماعتی نظم کو درہم برہم کرنے میں سرگرم عمل ہے۔ ایسے شخص سے جماعت کے کارکنوں کو بچانا اور اس کی باغیانہ سوچ کو کنٹرول کرنے کیلئے نظام وضع کرنا جماعتی عہدیداران کی اولین ذمہ داری ہے 

-7مضبوط رابطہ:

فیصلوں کے انعقاد کے بعد ان فیصلوں کو جماعت کے ہر ہر کارکن و ذمہ دار تک پہنچانا اہم کام ہے۔ یہ کا م بطریق احسن تبھی انجام پائے گا جب جماعتی کارکن تسبیح کے دانوں کے مثل آپس میں جڑے ہوں۔ جماعتی فیصلہ جات کے انعقاد اور جماعتی کارکنوں کا اس پر عمل درآمد کرنے کی درمیانی مدت ہی رابطے کی قوت و مضبوطی کو واضح کردے گی۔بہر حال دن بدن بدلتے حالات کی بنیاد پر جماعت کے کئے گئے فیصلوں اور احکامات کا کارکن تک پہنچنا اور بر وقت اس پر عمل کرنا یہ صرف اور صرف مضبوط رابطے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ 

-8پروپیگنڈے کی اہمیت:

کسی بھی جماعت میں رابطے کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو صرف جماعتی کارکن تک محدود رہے ۔دوم وہ جو عوام سے ہو۔ رابطے کی اول الذکر قسم تو اصل ہے جبکہ آخر الذکر تابع۔اسلئے کہ عوام الناس سے رابطہ کارکن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ قیادت پروگرام وضع کرتی ہے اور جماعتی پروگرام کو پھیلا کر لوگوں کو ساتھ چلانا اور ان کو قیادت سے متعارف کروانا کارکن کا کام ہے۔ قیادت کا کارکن تک اپنا پیغام پہنچانے اور کارکن کا اپنے پروگرام اور قیادت کو عوام الناس میں متعارف کروانے کیلئے روایتی طریقہ کار مثلاً مختلف علاقہ جات میں تنظیمی دورے اجتماعات و مجالس کا انعقاد، اجتماعی و انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ وغیرہ کے علاوہ جدید دور کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا نہایت ضروری ہے۔ 

پروپیگنڈے کا سب سے موثر ذریعہ میڈیا ہے۔ ملکی وغیر ملکی میڈیا کو مختلف ذرائع سے اپنا ہمنوا بنانا، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام الناس تک اپنے موقف کو پہنچانا اور اس کے ساتھ ساتھ جماعتی اور غیر جماعتی سطح پر ایسے رسائل واخبارات کی وسیع پیمانے پر اشاعت کرنا جو جماعت کی ترجمانی کرتے ہوئے کارکن کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے، جماعتی پالیسی کو سمجھنے اور تنظیمی سرگرمیوں سے مطلع رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، جماعتی ذمہ داروں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ 

-9مالیاتی استحکام: 

سطور بالا میں مختلف امور کا ذکر کیا گیا جوکہ جماعت اور کارکن کی بنیادی ضروریات ہیں۔ لیکن ان تمام چیزوں پر عمل تب ممکن ہے جب آپ کے پاس وسائل موجود ہوں۔ وسائل کے حصول کے بغیر کوئی بھی جماعت نہ کارکن پیدا کرسکے گی اورنہ کسی جماعت کا کارکن آگے بڑھ سکے گا۔ جماعت کو زندہ رکھنے اور جماعت سے کارکن کو وابستہ رکھنے کیلئے شعبہ مالیات کا قیام ناگریز ہے۔ شعبہ مالیات کے قیام کے بعد ایسا نظام وضع کرنا ضروری ہے جس سے اس شعبے کو دن بدن استحکام ملے۔ اس سلسلے میں ماہانہ، سالانہ اور ہنگامی بنیادوں پر جماعتی کارکنوں ہم فکر ساتھیوں، نجی و ذاتی متعلقین اور جماعتی پروگرام کی تائید و نصرت کرنے والے احباب سے حسب استطاعت باقاعدگی سے وصولی کرتے رہنا نہایت سود مند ہے جمعیۃ طلباء اسلام کے سابق مرکزی ناظم اطلاعات محترم محمد ادریس اپل صاحب کا خوبصورت جملہ کہ''کسی سے وفاداری حاصل کرنی ہو تو اس سے فنڈ لیا کرو، کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ اس کی ہمدردی وہاں ہوگی جہاں اس کا مال لگے گا'' … اپنے اندر بہت سی وسعت و گہرائی رکھتا اور مالی تنگی کے سبب مایوس کارکنوں کیلئے حوصلے کا باعث ہے۔ 

-10 تنقید سے احتراز : 

کسی بھی جماعت کے پروگرام کو اہداف تک پیمانے کیلئے منتظمین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ کوئی شخص بشری کمزوریوں سے مبرا نہیں۔ لہٰذا تنظیمی امور کی انجام دہی میں لغزش کا واقع ہونا فطری عمل ہے۔ عقلمند انسان وہی ہے جو اپنی کوتاہیوں سے سبق سیکھے اور ہم سفر ساتھیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ ناصحانہ انداز میں اس کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ لیکن جماعتی زندگی میں ہم تربیتی مراحل میں ہوں یا کارکن کے درجے پر ، محض ہمدردی کے بل بوتے پر جماعت سے وابستہ ہوں یا جماعتی ذمہ دار کی حیثیت سے مصروف عمل ہوں، اگر تنقید برائی تنقید کی پالیسی اپنا کر دوسرے کی اصلاح کرنا چاہی، تو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ یہ اصلا ح نہیں مخالفت ہے۔ 

لازمی بات ہے کہ اصلاح کرنے والا یہ شخص حسد ، کینہ، بغض وعداوت، جھوٹی انانیت، یا غصہ وہٹ دھرمی کی روش اپنا کر دیگر ساتھیوں کیلئے سنگ گراں بننے کی کوشش میں مصروف ہے، اس شخص کے اس منفی طرز عمل سے جہاں جماعتی پروگرام کی اشاعت پر بداثرات مرتب ہوں گے وہاں یہ جماعت کی تباہی کا بھی سبب بنے گا۔ ایسے شرپسند وفتنہ پر ور شخص سے دیگر ساتھیوں کو دور رکھنا ہرباشعور کارکن کا فرض بنتا ہے۔ 

-11قیادت پر اعتماد: 

اجتماعی زندگی کے سفر کے دوران انسان تجربات کے بہت سے مراحل طے کرتا ہے، ان تجربات کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ ایسے امور سے بھی واسطہ پڑتا ہے جس سے جماعتی قیادت کے کردار ومعاملات کے متعلق ذہنوں میں شکوک وشبہات کا پیدا ہونا اور سوالات کا ابھرنا ایک یقینی امر ہے۔ موجودہ زمانے میں میڈیا وار اور دیگر ذرائع ابلاغ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ کسی بھی کارکن کی زندگی کا یہ بہت نازک مرحلہ ہوتا ہے ایسے مواقع پر ایک باشعور کارکن کیلئے ضروری ہے کہ وہ صبر وتحمل کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور رجوع الی اللہ کیساتھ اپنے قائدین کے کردار ومعاملات، ان کے مؤقف وپالیسی پر بظاہر سمجھ میں نہ آنے کے باوجود مکمل اعتماد کرے اور اپنے دل ودماغ میں پیدا ہونے والے شیطانی خیالات ووسوسوں کو رفع کرنے میں سنجیدہ کوشش کرے۔ اپنی رائے اور عقل، قیاس کو چھوڑ کرقیادت پر اعتماد کا اظہار کرنا جہاں اس کے لئے باعث خیروبرکت ہوگا وہاں اس کا یہ عمل آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے جماعتی قوت وطاقت میں اضافے کا سبب بنے گا۔ 

-12 ماتحتوں کی حوصلہ افزائی:

تنظیمی امور کی انجام دہی میں نظم کو قائم کرنے کیلئے چند ساتھیوں کو ذمہ داری (عہدہ) سپرد کیا جاتا ہے جو ساتھیوں کے اعتماد کے ساتھ ساتھ کچھ شرعی اور اخلاقی تقاضے بھی لازم کرتا ہے۔ جب کوئی شخص جماعت میں عہدے دار چن لیا جائے تو عام سطح کے کارکنوں کی بنسبت اس کی حیثیت وذمہ داری میں بھی اضافہ پڑتا ہے۔ اور ظاہر بات ہے کہ فیصلے کا اختیار جس کے پاس ہوگا اس کی بات تنظیم میں اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسے موقع پر جماعت نظم کو سختی سے قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ماتحت عہدیداروں اور بنیادی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرنا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ، سخت مزاجی نقصان کا باعث بنتی ہے کیونکہ کارکن محض فی سبیل اللہ جماعت سے وابستہ ہوتا ہے، وہ جماعت کا ملازم نہیں ہوتا، اسکے انجام کردہ امور کی تعریف کرنا ،اس کے ذمے کاموں میں تعاون کیساتھ مسلسل اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے محبت و خلوص سے پیش آنا اور لغزشوں کو درگذر کرکے مناسب حال تنبیہ بھی کرنا سود مند ثابت ہوتا ہے۔ 

-13شخصیت پرستی کا زہر:

جماعت کی کامیابی میں اس کے ارفع پروگرام کے ساتھ ساتھ شخصیات بھی اپنا ایک مقام اور اہم درجہ رکھتی ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شخصیات کے گن گا کر، ان کے سحرمیں مبتلا ہونے والے لوگ اپنے مقاصد اصلیہ کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اور جب وہ شخصیات کے طلمساتی تخیل سے نکلتے ہیں تو ان کی منزل ماسوائے مایوسی وناکامی کے کچھ نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس صرف اور صرف نظریات سے وابستہ رہنے والے لوگ راہ عشق کی دشوار گزار وادی میں مخالفتوں کی سنگلاح چٹانوں کو عبور کرتے ،نفرت کے طمانچوں کو سہتے، ہنستے ،مسکراتے جانب منزل رواں دواں رہتے ہیں۔ یہ لوگ شخصیات کی دلربا اداؤں میں کھونے کی بجائے ان کی ظاہری رنگینیوں سے بے نیاز ہوکر کامرانی کی تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں۔ درحقیقت یہی لوگ منزل مقصود کوپاتے اور نظرئیے کی بقاء واحیاء میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

-14نتائج کا اختیار: 

سطور بالا کے مندرجات کا حاصل یہی ہے کہ کسی بھی تنظیم سے موافقت کرکے اس کے نظرئیے اور پروگرام سے وابستہ ہو کر انسان کو کامیابی کے حصول کیلئے جہد مسلسل ، انتھک محنت، جوش جذبے اور ولولے کے ساتھ ساتھ خلوص نیت اور رضائے الٰہی کو بنیاد بنا کر اپنے مشن کو جاری رکھنا چاہئے اور آنے والے ناموافق حالات کا کوہ استقامت بن کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ 

جب یہ یقین ہو جائے کہ جملہ امو رکی انجام دہی میں انسانی وسعت واختیار کے مطابق ہم نے پوری تندہی اور دیانتداری کیساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا ہے تو اب اپنی محنت کا ثمرہ پانے کیلئے صبرو استقامت کیساتھ بارگاہ الٰہی میں متوجہ ہوکر نتائج کا انتظار کیا جائے۔ کیونکہ انسان اسباب کا مکلف ہے اور انجام کا اختیار مسبب الاسباب کے دست قدرت میں ہے۔ وہ ذات چاہے تو بن مانگے سب کچھ عطا کردے اور اگر نہ چاہے تو کل کائنات کی قوت مل کر بھی اس کو مجبور نہیں کرسکتی۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔

مفکر اسلام قائد جمعیت حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ: روز محشر ہم سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ دنیامیں تم نے میرے دین کو نافذ کیوں نہ کیا؟ بلکہ سوال تو یہ ہوگا کہ دین کے نفاذ کیلئے کتنی کوششیں کیں تھیں۔'' شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ''نقش حیات'' میں اپنے مربی و استاد تحریک آزادی ہند کے عظیم راہنما شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کے تذکرہ کے باب میں تحریک ریشمی رومال کے اسباب و محرکات اور اس عظیم تحریک کیلئے دی گئی ناقابل فراموش قربانی اور بے مثال جدوجہد کے باوجود تحریک کی (ظاہری) ناکامی کی بنیادی وجوہات کا ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ ''خدا کا ملک ہے وہ جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے۔'' حضرت کے اس اختتامی جملے کی روشنی میں ہمیں اپنی تمام تر محنت و جدوجہد کے باوجود اس چیز کا اعتقاد رکھنا ہوگا کہ نتائج ہماری مرضی سے نہیں بلکہ خدا کی رضا سے حاصل ہوتے ہیں اور خدا کی رضا سے ملنے والی چیز یقینا اس کے بندوں کے حق میں نفع مند ہی ثابت ہوتی ہے نقصان دہ نہیں۔ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ

؎ چمن تلخ نوائی میں میری گوارا کر 

کہ کبھی زہر بھی کرتا ہے کار تریاقی

الجمعیۃ مئی 2005ء 

 

0/Post a Comment/Comments