بٹگرام شعائر اسلام کانفرنس: مولانا آرہا ہے۔ حافظ مومن خان عثمانی

بٹگرام شعائر اسلام کانفرنس: مولانا آرہا ہے

 حافظ مومن خان عثمانی

آج بروز اتوار 29 جون 2025ء کو ملک کے سب سے سینئر اور نبض شناس سیاست دان، امت مسلمہ کا ترجمان، سیاست کا سلطان، قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن کوزہ بانڈہ ضلع بٹ گرام میں تاریخی جلسہ عام سے خطاب کرنے آرہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کے وہ مردِ میدان ہیں جن کی آواز اندرونِ ملک کی طرح بیرونِ ملک بھی بڑی توجہ سے سنی جاتی ہے، جن کی سیاسی سمجھ بوجھ کے سبھی قائل ہیں، جن کے دربار پر سیاست دانوں کا ہجوم رہتا ہے، جن سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں، جن کے الفاظ کو چننے کے لئے سینئر صحافی اور اینکرز بے تاب رہتے ہیں۔ آج وہ امام زمانہ شگئی گراؤنڈ کوزہ بانڈہ میں بٹ گرام کی عوام کو اپنے خطاب سے لطف اندوز کرنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔

جمعیت علماء اسلام ملک کی سب سے بڑی مذہبی و سیاسی جماعت ہے، جس کے کارکن ملک بھر میں موجود ہیں۔ ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کی تعداد کم و بیش پائی جاتی ہے۔ مگر بٹ گرام ایسا ضلع ہے جہاں ہمیشہ سے جمعیت علماء اسلام کی اکثریت رہی ہے۔ ضلع بٹ گرام کے لوگ مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ اور مجاہد ملت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے وقت سے جمعیت علماء اسلام کا ساتھ دیتے آرہے ہیں اور قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن جب بھی بٹ گرام آئے ہیں یہاں کے لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا ہے، ان کے خطاب کو توجہ سے سنا ہے۔ الیکشن میں بھی جمعیت علماء اسلام کو یہاں کی عوام نے ہمیشہ پذیرائی بخشی ہے۔ اگر بٹ گرام میں جمعیت علماء اسلام کسی الیکشن میں ہاری ہے تو اپنی اندرونی معاملات اور اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہاری ہے، عوام کی طرف کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ جمعیت علماء اسلام نئی اور ملک گیر تحریک کا آغاز ضلع بٹ گرام سے کرنے جا رہی ہے۔

12 سال سے صوبہ خیبر پختونخوا کی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، انہوں نے اپنے طویل دور اقتدار میں صوبے کو سوائے محرومیوں کے کچھ بھی نہیں دیا۔ پی ٹی آئی دورِ اقتدار صوبہ خیبر پختونخوا کی تاریخ کا طویل ترین دورِ اقتدار ہے مگر اس دور میں کوئی میگا پروجیکٹ قوم کو نہیں ملا۔ اگر کچھ ملا ہے تو وہ میگا کرپشن کے سیکنڈلز ملے ہیں، وہ بدعنوانیوں کے انبار ملے ہیں، وہ قرضوں کے وزنی بوجھ ملے ہیں، وہ افراتفری اور انتشار کے دکھ دینے والے واقعات ملے ہیں، وہ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے ظلم و ستم ملے ہیں، وہ کوہستان اور سوات جیسے افسوسناک سانحات کے زخم ملے ہیں۔ پورے صوبے میں ہر محکمہ کرپشن کی مشین بن کر ملکی وسائل کو بڑی بے دردی سے لوٹ رہا ہے۔ وزراء سمیت تمام بیوروکریسی لوٹ مار میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کو اپنی سعادت سمجھ رہے ہیں۔ بی آر ٹی سکینڈل، مالم جبہ سکینڈل، بلین ٹری سکینڈل تو قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ گنڈاپور سرکار نے کرپشن کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ مارچ 2025ء میں کروڑوں روپے کی گندم غائب، اپریل میں صرف کوہستان میں چالیس ارب کی کرپشن، مئی میں مسجدوں کے نام پر سولر سسٹمز میں کروڑوں کے گھپلے ایسی بدبودار اور شرمناک کہانیاں ہیں کہ آدمی سن کر حیران و پریشان ہو جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کوئی سیاسی جماعت ہے یا لٹیروں اور ڈاکوؤں کا پیشہ ور گروپ ہے۔ محکمہ ایلیمینٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے بعد اب پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور واٹر اینڈ سینی ٹیشن کے محکموں میں کرپشن کی جو ہوشربا کہانیاں منظر عام پر آئی ہیں اس کے بعد اس حکومت کا باقی رہنا صوبے پر تاریخ کا سب سے بڑا ظلم ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق 2016ء سے اپریل 2025ء تک صوبہ کے 29 اضلاع میں 163 ارب 13 کروڑ کی کرپشن ہوئی ہے۔ ان میں چند کیسز یہ ہیں: مانسہرہ میں 73 کروڑ 18 لاکھ 20 ہزار روپے کی کرپشن ہوئی ہے، ضلع تورغر متقی اور پرہیزگار لوگوں کی سرزمین پر 54 کروڑ 58 لاکھ 10 ہزار روپے، پشاور 3 ارب 5 کروڑ، سوات 2 ارب، مردان ایک ارب 55 کروڑ، چارسدہ ایک ارب 17 کروڑ، نوشہرہ 91 کروڑ 10 لاکھ، شانگلہ 34 کروڑ 61 لاکھ 90 ہزار، بونیر 54 کروڑ 85 لاکھ 80 ہزار، دیر لوئر 67 کروڑ 20 لاکھ، دیر اپر 46 کروڑ 43 لاکھ 60 ہزار، ٹانک 70 کروڑ 64 لاکھ 20 ہزار روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ گنڈاپور اور کراچی سے لائے گئے مشیر خزانہ مزمل اسلم دونوں عمران خان کے خاص بندے ہیں جو اس کرپشن کی مکمل سرپرستی کر کے صوبے کو دیوالیہ کرنے کی خاص مہم میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ گنڈاپور کے دس کروڑ بسکٹ کھانے کی کہانی کرپشن کی الگ داستان ہے۔

بدانتظامی، غفلت اور عوامی مسائل سے لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ دو دن قبل ڈسکہ سیالکوٹ سے آئے ہوئے سیاحوں کے ساتھ دریائے سوات میں جو کچھ ہوا ہر انسان اس پر اشکبار ہے۔ ہر دل اس روح فرسا واقعے پر دکھی ہے، ہر ضمیر شرمندہ ہے۔ اٹھارہ افراد ایک ٹیلے پر سیلابی ریلے میں پھنس گئے، کئی گھنٹوں تک وہ انتظار کرتے رہے، اپنی مدد کے لئے لوگوں کو پکارتے رہے۔ ان معصوم بچوں نے کیا کیا چیخیں ماری ہوں گی، اپنے ماں باپ کے ساتھ لپٹ کر کس دکھ اور درد سے روئے ہوں گے۔ موت کو سامنے دیکھ کر انہوں نے ساحل پر کھڑے بے شمار تماش بینوں کو کس طرح اپنی مدد کے لئے پکارا ہوگا۔ وہ اپنی معصوم خواہشات کے ساتھ سوات میں سیر تفریح کرنے آئے تھے، وہ پختونوں کی سرزمین پر خوشیاں منانے آئے تھے، وہ اپنے بچپن کے لمحات کو یادگار بنانے آئے تھے، وہ دریائے سوات کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لئے اس ٹیلے پر گئے تھے۔ لیکن کے پی کے گورنمنٹ کی نااہلی اور غفلت نے انہیں موت کے حوالے کر دیا اور ایسی بے بسی کی موت کہ اس منظر کو دیکھ کر دل پھٹتا ہے۔ ان ماں باپ کے دل پر کیا گزری ہوگی جو اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر دریائے سوات کی بے رحم موجوں میں موت کے منتظر تھے۔ وہ تو یہ سمجھ کر آئے تھے کہ پٹھان بڑے بہادر اور جرات مند لوگ ہیں، لیکن ساحل پر کھڑے پٹھان ان کو ڈوبتا ہوا دیکھ کر ان کی تصویریں کھینچ رہے تھے، ویڈیوز بنا رہے تھے اور حکومتی ادارے غفلت کی نیند سوئے ہوئے کرپشن کے نت نئے طریقے سوچ رہے تھے۔ عمران خان کی بہن اگر چترال میں پھنستی ہے تو اس کے لئے پشاور سے ہیلی کاپٹر پہنچ سکتا ہے مگر عوام کے لئے کوئی کشتی بھی حرکت میں نہیں آتی۔ تین سو سے زیادہ ریسکیو ہیلی کاپٹر آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ وہ صرف حکمرانوں اور اشرافیہ کی عیاشیوں کے کام آئیں گے؟

دوسری طرف مرکزی حکومت نے گزشتہ دنوں ایک غیر اسلامی اور غیر شرعی بل پاس کر کے اللہ کے غیظ و غضب کو دعوت دی ہے۔ قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے اس موقع پر قومی اسمبلی کے خطاب میں کہا تھا کہ ایک طرف بھارت کی جارحیت کے اس نازک موقع پر حکمران چاہتے ہیں کہ قوم میں یکجہتی ہو، کوئی اختلاف رونما نہ ہوجائے اور دوسری طرف آپ اس قسم کے غیر شرعی اور غیر آئینی بل پاس کر کے قومی وحدت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ اگر ہم اس نازک موقع پر وحدت پیدا کرنے کے لئے کوئی قدم آگے بڑھاتے ہیں تو آپ کے اقدامات اس میں رخنہ پیدا کرتے ہوئے افتراق و انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔ آپ اپنے اقدامات سے قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن اس انتباہ کے باوجود حکمران اتحاد نے آئی ایم ایف کے کہنے پر اس کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انتہائی جلد بازی میں یہ غیر شرعی اور غیر آئینی بل پاس کر کے اپنی غلامی کا ثبوت ایک دفعہ پھر پیش کیا ہے۔

شعائر اسلام کانفرنس بٹ گرام صوبہ بھر میں میگا کرپشن اور غیر شرعی قوانین کے خلاف اٹھنے والی تحریک کا پہلا قطرہ ہے۔ یہ تحریک سیلاب کی طرح پورے ملک میں پھیلے گی اور حکمرانوں کے گریبانوں تک بات پہنچے گی۔ مولانا صاحب تو کئی دفعہ بتا چکے ہیں کہ ہم حکومت بنا نہیں سکتے مگر گرا ضرور سکتے ہیں۔ جب قائد جمعیۃ کی آواز پر قوم حکمرانوں کے خلاف میدان میں اترے گی تو یہ کس طرح حکومت چلا سکیں گے؟ یہ پی ٹی آئی کا احتجاج نہیں ہے کہ ایک گولی پر ٹھس ہو جائے گا اور تمام قیادت مانسہرہ پہنچ کر سرکٹ ہاؤس میں پناہ لے گی۔ حکمران مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام کی قوت کو خوب جانتے ہیں کہ یہ جب میدان میں کود پڑتے ہیں تو پھر گولیوں سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ ان کی تاریخ سرفروشی ہے، یہ جب ڈٹ جاتے ہیں تو تاریخ کا رُخ موڑ کر کے سانس لیتے ہیں۔ انہوں نے ضیاء الحق جیسے آمر کی آمریت کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے، پرویز مشرف کے ظلم و بربریت کے ہتھکنڈوں کو برداشت کیا ہے، عمران نیازی اور اس کے سرپرستوں کی اکڑی ہوئی گردنوں کو جھکایا ہے۔ شہباز شریف، آصف زرداری اور ان کے سرپرستوں کو مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور احتجاجی تحریک سے خوب واقفیت ہے۔ بٹ گرام کی سرزمین سے اٹھنے والا طوفان جب ملک میں پھیلے گا تو حکمرانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام کا راستہ اگر بزور طاقت نہ روکا جاتا تو آج بھی صوبہ میں جمعیت علماء اسلام کی حکومت ہوتی۔ مگر اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ جمعیت علماء اسلام کا راستہ دھاندلی کے ذریعے روکا ہے۔ لیکن مولانا صاحب کے جلسوں سے لوگوں کو روکنا ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایوان اقتدار سے تو جمعیت علماء اسلام کو روک سکتی ہے مگر سیاست کے میدان سے نہیں روک سکتی، جس کی ایک جھلک آج بٹ گرام کی سرزمین پر دنیا کو نظر آجائے گی۔

یہ عظیم الشان کانفرنس بٹ گرام کی سیاسی تاریخ کے رُخ کو تبدیل کرنے کے لئے سنگ میل ثابت ہوگی۔ جمعیت علماء اسلام کی مقامی قیادت نے جس طرح اس کانفرنس کے لئے دن رات محنت کی ہے، مفتی نثار احمد، مولانا حمداللہ عثمانی، شاہ حسین خان اور بخت نواز خان نے بٹ گرام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔ شیخ الحدیث مولانا قاری محمد یوسف، مولانا فرید الدین اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھلے دل سے اس کانفرنس کی کامیابی کے لئے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ صوبائی امیر مولانا عطاء الرحمن اور جنرل سیکرٹری مولانا عطاء الحق درویش نے بھی بٹ گرام اور اس کے ساتھ متصل اضلاع میں جماعت کو متحرک کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ آج قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن کی گرجدار آواز سے بٹ گرام کی سرزمین، فضائیں، ہوائیں، پہاڑ اور شگئی گراؤنڈ کا ذرہ ذرہ گونج اُٹھے گا۔


0/Post a Comment/Comments