قادیانیوں کو رعایت دینا پاکستان کے نظریاتی وجود پر حملہ ✍🏻 محمد اسامہ پسروری

قادیانیوں کو رعایت دینا پاکستان کے نظریاتی وجود پر حملہ

✍🏻 محمد اسامہ پسروری

قادیانیوں کو کسی بھی قسم کی رعایت دینا محض ایک انتظامی یا قانونی معاملہ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی نظریاتی اساس پر کھلا وار ہے۔ یہ ایک فکری اور نظریاتی فتنہ ہے جو اس نظریے کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ پاکستان کا وجود اسلام کی بقاء اور اس کے عقائد کے تحفظ کے لیے عمل میں آیا، اور ان عقائد میں سب سے بنیادی عقیدہ ختم نبوت ہے۔ یہی عقیدہ پاکستان کے آئین میں شامل ہے اور یہی عقیدہ اسلام کی اصل بنیاد ہے، جس کے بغیر اسلام کی عمارت نامکمل ہے۔

ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ قادیانی گروہ اپنے بانی کو نبی مان کر اس بنیادی عقیدے کی نفی کرتا ہے، جو کہ اسلام سے کھلی بغاوت اور پاکستان کے آئینی و نظریاتی ڈھانچے سے انکار کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1974 میں پاکستان کی منتخب پارلیمان نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ایک واضح آئینی اور نظریاتی حد بندی کر دی تھی۔

مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ آج کچھ سیاسی، عدالتی اور سماجی حلقے اس واضح فیصلے کو پس پشت ڈال کر قادیانیوں کو اسلامی اصطلاحات، شعائر اور علامات استعمال کرنے کی اجازت دینے کی وکالت کر رہے ہیں۔ اذان دینا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنا، اور خلافت کے القابات اختیار کرنا وہ اسلامی شعائر ہیں جنہیں استعمال کر کے قادیانی فتنہ نہ صرف عوام کو گمراہ کرنا چاہتا ہے بلکہ ریاستی نظریے کو بھی مسخ کر رہا ہے۔

یہ صرف مذہبی حساسیت کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی فکری و نظریاتی سالمیت کا معاملہ ہے۔ اگر آج قادیانیوں کو اسلامی شناخت کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی تو کل یہ گروہ تعلیم، میڈیا، اور ریاستی اداروں میں بھی اپنا اثر و رسوخ اسلام کے نام پر بڑھائے گا۔ اس کا نتیجہ فکری انتشار، قومی وحدت کا زوال، اور نظریاتی دیوار میں خطرناک دراڑ کی صورت میں نکلے گا۔

قادیانی گروہ محض ایک مذہبی جماعت نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کا آلہ کار ہے۔ ان کے پشت پناہ وہ قوتیں ہیں جو پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ فرقہ واریت کو ہوا دینا، مذہبی شعائر کی بے حرمتی، اور اسلام کے نام پر دھوکہ دینا ان کا پرانا ہتھیار ہے۔ قادیانی فتنہ اسی عالمی سازش کا حصہ ہے جو پاکستان کے نظریاتی قلعے کو کھوکھلا کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اس تناظر میں جو افراد یا ادارے قادیانیوں کو اسلام کے دائرے میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ دراصل پاکستان کے دشمنوں کی زبان بول رہے ہیں۔ یہ لوگ قوم کے ضمیر کو زہر آلود کر رہے ہیں اور نوجوان نسل کو نظریاتی گمراہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ایسے تمام عناصر کے خلاف ریاستی اداروں، عدلیہ، میڈیا، سیاسی قیادت اور عوام کو متحد ہو کر مؤقف اپنانا ہوگا، کیونکہ یہ محض ایک فقہی مسئلہ نہیں، بلکہ پاکستان کی فکری بقاء کی جنگ ہے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ قوم کو اس فتنے کی اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے۔ کچھ این جی اوز اور میڈیا ہاؤسز قادیانیوں کو مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کے دلوں میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو، جو کہ ایک خطرناک پروپیگنڈہ ہے۔ ہمیں واضح کر دینا ہوگا کہ قادیانیوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں، نہ اسلامی شعائر میں، نہ آئینی دائرے میں۔

ہمیں عدالتوں، میڈیا، تعلیمی اداروں، اور ہر عوامی فورم پر یہ پیغام دینا ہوگا کہ قادیانیوں کو رعایت دینا اسلام سے غداری اور پاکستان کے نظریے سے انحراف ہے۔ یہ ایک اجتماعی قومی فریضہ ہے کہ ہم اپنے آئینی و نظریاتی اثاثے کی حفاظت کریں اور ان سازشوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کریں جو ہمارے دین اور وطن دونوں کو کھوکھلا کرنا چاہتی ہیں۔

پاکستان کی بقاء اس کے نظریے کی حفاظت میں ہے۔ اگر ہم اس پر سودے بازی کریں گے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں آج فیصلہ کرنا ہے کہ ہم پاکستان کے نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں یا ان قوتوں کے ساتھ جو اسے مٹانا چاہتی ہیں۔ قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روکنا، انہیں غیر مسلم اقلیت کے طور پر محدود رکھنا، اور ان کے فتنے کو بے نقاب کرنا ہی ہماری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہے۔


0/Post a Comment/Comments