سفارت کاری اور قومی مفاد مولانا فضل الرحمن کی شرکت کو کس زاویے سے دیکھا جائے؟
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
سیاسی شخصیات کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت اکثر جذبات اور تعصبات عقل پر غالب آجاتے ہیں، اور ہم کسی ایک لمحے، تصویر یا واقعے کو پوری شخصیت یا پالیسی کا آئینہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہی طرزِ فکر اس وقت بھی سامنے آیا جب مولانا فضل الرحمن کی امریکہ کے قونصل خانے میں ایک سفارتی تقریب میں شرکت کو بعض حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ سوال یہ نہیں کہ مولانا وہاں گئے کیوں، اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ وہ وہاں کیوں نہ جاتے؟
مولانا فضل الرحمن گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ کی خارجہ پالیسی، خصوصاً افغانستان، مشرق وسطیٰ، اسرائیل اور مسلم دنیا کے خلاف استعماری طرز عمل پر تنقید کرتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی ان پالیسیوں کو ہمیشہ ظالمانہ، استحصالی اور مسلم اقوام کی خودمختاری کے منافی قرار دیا ہے، اور ان کے بیانات، تقاریر، پارلیمانی تقاضے اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اُن کے مؤقف کی گواہی موجود ہے۔ لیکن کیا کسی پالیسی سے اختلاف رکھنا، اُس ملک سے مکمل قطع تعلقی کا مطلب ہوتا ہے؟ کیا عالمی سفارت کاری میں اختلافِ رائے کو دشمنی، اور گفت و شنید کو وفاداری یا مصالحت سمجھا جانا چاہیے؟ یقیناً نہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا ایک مسلسل بدلتا ہوا منظرنامہ ہے۔ آج جس امریکہ نے افغانستان پر لشکر کشی کی، وہی امریکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر افغانستان جیسی زخم خوردہ سرزمین، جہاں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، آج اپنے قومی مفاد کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے نئے زاویے تلاش کر رہا ہے، تو ایسے میں پاکستان جیسے ملک کے ایک سیاسی رہنما، جو نہ صرف قومی سیاست میں بلکہ عالمی امور پر بھی اثر رکھتے ہیں، اگر امریکی سفارتی تقریب میں شرکت کرتے ہیں، تو یہ ہرگز کوئی خلافِ توقع یا قابل اعتراض عمل نہیں۔
بین الاقوامی سفارتی دنیا میں یہ معمول کی بات ہے کہ مختلف ممالک کے درمیان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی تقریبات، دعوتوں اور مذاکرات میں شرکت کی جاتی ہے۔ اسی کا نام "سفارت کاری" ہے۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جنگوں اور دشمنیوں کے دوران بھی سفارتی چینلز کھلے رکھے گئے، پیغام رسانی ہوئی، اور نمائندگی کے تقاضے نبھائے گئے۔ یہ سفارت کاری کسی ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر نہیں ہوتی، بلکہ قومی مفاد، جغرافیائی حالات، خطے کی سیاست اور عالمی تقاضوں کو سامنے رکھ کر انجام دی جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن پاکستان کی سیاست کا ایک قدآور اور معتبر نام ہیں۔ وہ نہ صرف دینی طبقے کے نمائندہ ہیں بلکہ پارلیمانی سیاست، عوامی تحریک، بین الاقوامی وفود اور قومی وحدت کے میدان میں ان کی موجودگی ایک توازن کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شخصیت صرف ایک مذہبی رہنما کی نہیں، بلکہ ایک مدبر، قومی سیاستدان اور پختہ کار سفارت کار کی ہے۔ ایسے میں اگر وہ کسی ملک کی سفارتی دعوت پر شرکت کرتے ہیں تو اسے ذاتی رجحان یا نظریاتی جھکاؤ نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ قومی سطح پر ایک بالغ نظری، بین الاقوامی شعور اور ذمہ دار قیادت کا مظہر ہے۔
جو لوگ کسی ایک تصویر یا موقع پر مولانا کی پوزیشن کو شک کے دائرے میں لاتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ تاریخ میں اُن کے استقامت بھرے مؤقف کا مطالعہ کریں۔ چاہے وہ اسرائیل کی کھلی مخالفت ہو، قادیانی لابی کے خلاف مؤثر جدوجہد ہو، یا امریکہ کی خطے میں مداخلت پر شدید تنقید ہو — مولانا کا مؤقف واضح، دو ٹوک اور اصولی رہا ہے۔ ایسے شخص پر محض ایک سفارتی تقریب میں شرکت کی بنیاد پر انگلی اٹھانا، قومی سطح کے سیاسی شعور کی نفی اور سفارت کاری کے آداب سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
لہٰذا، مولانا فضل الرحمن جیسے قومی رہنما کی بین الاقوامی سطح پر شرکت کو ایک تنگ نظر سیاسی عینک سے دیکھنا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ خود ہمارے قومی وقار اور مفاد کے بھی منافی ہے۔ قیادت وہی ہوتی ہے جو اختلافات کے باوجود مکالمہ جاری رکھے، تعلقات کو مکمل انقطاع کی بجائے دانشمندی سے لے کر چلے، اور عالمی دنیا میں اپنے ملک کا مؤقف ذمہ داری کے ساتھ پیش کرے۔ مولانا کی سفارتی تقریب میں شرکت اسی بالغ نظری اور قومی شعور کا مظہر ہے۔ ہمیں شخصیات کو ان کے مکمل کردار اور دیرینہ مؤقف کی روشنی میں پرکھنا چاہیے، نہ کہ وقتی جذبات اور محدود معلومات کی بنیاد پر۔ یہی طرزِ فکر ایک باشعور قوم کی پہچان ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں