قائد محفوظ ہو، تو قافلہ سلامت رہتا ہے ✍️ ذکی اللہ سالار بنوی

قائد محفوظ ہو، تو قافلہ سلامت رہتا ہے

✍️ ذکی اللہ سالار بنوی

دنیا میں بہت سے تعلقات وقتی ہوتے ہیں، کچھ مصلحت پر مبنی، اور کچھ مفاد کے اسیر، مگر جو تعلق قائد (Leader) اور کارکن (Worker) کے درمیان ہوتا ہے، وہ خالص جذبے، وفاداری (Loyalty)، اور مشترکہ مقصد (Collective Cause) پر قائم ہوتا ہے۔ مگر اس تعلق کی اصل آزمائش تب آتی ہے جب قیادت (Leadership) کو چند دنوں کے لیے حفاظتی وجوہات کی بنیاد پر ظاہری طور پر خود کو علیحدہ رکھنا پڑے۔

گزشتہ دنوں جب جمعیت علمائے اسلام کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اعلان ہوا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب کی حفاظت کے پیشِ نظر عام ملاقاتوں (Public Interactions) پر عارضی پابندی ہے، تو بہت سے محبّ اور مخلص ساتھیوں کے دل زخمی ہو گئے۔ کئی افراد نے اس فیصلے پر سوال اٹھایا کہ "یہ کیسا قائد ہے جو اپنے کارکنوں سے نہیں ملتا؟" کچھ نے بے صبری کا مظاہرہ کیا اور دل کی جذباتی کیفیت کو زبان پر لے آئے۔

مگر اے عزیزو! محبت کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم ہر قیمت پر دیدار کے طلبگار رہیں، بلکہ اصل محبت یہ ہے کہ ہم قائد کی خیر و عافیت کو اپنی ملاقات سے زیادہ عزیز سمجھیں۔ جو لوگ اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہیں، ان سے پوچھنا بنتا ہے:

"اگر دشمن کا ہدف ہی قائد ہو، تو کیا عقل کا تقاضا نہیں کہ ہم اس چراغ کو طوفان سے بچا لیں؟"

یاد رکھو! قیادت صرف شخصیت (Personality) کا نام نہیں، بلکہ ایک فکری قلعہ (Ideological Fortress) ہے۔ اگر یہ قلعہ گر جائے تو پوری عمارت بیٹھ جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کی شہادت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا تھا:

"آج اسلام کا ایک دروازہ ٹوٹ گیا!"

کیونکہ وہ صرف ایک فرد نہ تھے، بلکہ ایک نظام (System) کے ترجمان تھے۔

 تاریخ شاہد ہے کہ جب امام احمد بن حنبلؒ جیسے جری عالم نے "خلقِ قرآن" کے فتنہ کے خلاف آواز بلند کی تو حکومتِ وقت نے ان پر کوڑوں کی بارش کر دی، ان کے شاگردوں سے ان کا رابطہ توڑ دیا گیا، انہیں قید خانوں میں ڈالا گیا، مگر امت کے بہی خواہ نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ وہ وقت بھی آیا جب شاگرد دروازوں پر کھڑے رہے، دیدار کو ترستے رہے، مگر امامؒ نے فتنہ کی شدت کو دیکھتے ہوئے خاموشی کو بہتر جانا، کیونکہ ان کی جان صرف ان کی نہیں، امت کی فکری میراث تھی۔

آج کچھ ایسی ہی کیفیت ہمارے سامنے ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب بھی صرف ایک خطیب یا سیاست دان نہیں، بلکہ ملت اسلامیہ کے لیے ایک فکری قافلہ سالار (Intellectual Leader) ہیں۔ وہ شخص جس نے ہر محاذ پر باطل کے مقابلے میں علم، دلیل اور حکمت کے چراغ روشن کیے، وہ آج خطرے میں ہے، کیونکہ اس کے دشمن جان چکے ہیں کہ اگر یہ ستون سلامت رہا تو ظلم کی بنیادیں لرز جائیں گی۔

 یہ بات محض خدشہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب پر ماضی میں کئی مرتبہ قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ ایک موقع پر جب وہ دورہ پر تھے، ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، بم دھماکہ کیا گیا، لیکن قدرت نے انہیں محفوظ رکھا۔ دوسرا واقعہ بھی شدید نوعیت کا تھا، جب جانثار ساتھی شہید ہو گئے، مگر قائد بچا لیا گیا۔ کیا ان حملوں کے بعد بھی یہ حکمت نہیں کہ قائد کو وقتی طور پر محفوظ رکھا جائے؟ کیا دشمن کا یہ تسلسل اس بات کی علامت نہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ اگر یہ چراغ جلتا رہا، تو باطل کے ایوان اندھیرے میں ڈوب جائیں گے؟

کارکن (Member) کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ محبت میں حکمت (Wisdom) کو شامل کرتا ہے، وفاداری میں فہم (Understanding) کو، اور جذبے میں صبر (Patience) کو۔ اگر ہم صرف اپنے جذبات کی بنیاد پر ملاقات پر اصرار کریں، اور قائد کی حفاظت کو نظر انداز کر دیں، تو یہ جذبات نہیں بلکہ غفلت (Negligence) کہلائے گی۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ "ہم سے ملاقات کیوں بند ہے؟" ان سے پوچھا جائے:

"کیا آپ اس ملاقات کی قیمت ایک عظیم قائد کی جان سے چکانے کو تیار ہیں؟"

ظاہری ملاقات نہ ہونا، دلوں کی دوری نہیں ہوتی۔جب نظریہ ایک ہو، منزل مشترک ہو، اور نیت پاک ہو، تو چند دنوں کی جدائی صرف حکمت کا تقاضا بنتی ہے، نہ کہ بیزاری کا۔

ان نادان دوستوں کے لیے یہ چند الفاظ رہیں جو کہہ اٹھے کہ:

"یہ کون سی جماعت ہے جس میں قائد ملتا نہیں؟"

دوستو! یہ کوئی عام جماعت نہیں، یہ ایک فکر ہے، ایک مشن ہے، ایک امت کی آواز ہے۔ اور اس آواز کے تحفظ کے لیے اگر چند لمحے صبر کے دریا عبور کرنے پڑیں، تو یہ صبر بھی ثواب (Reward) ہے، اور وفاداری کا تاج (Crown of Loyalty) بھی۔

دنیا جانتی ہے کہ دشمن کبھی کمزور کو نشانہ نہیں بناتا۔

جب مولانا نشانے پر آئے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دشمن کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

پس اگر ہمیں ان سے محبت ہے، تو یہ محبت اب نعرے نہیں، عمل مانگتی ہے؛قربت نہیں، دعا مانگتی ہے۔شکایت نہیں، شعور مانگتی ہے۔

 اے کاروانِ جمعیت کے وفادار ساتھیو!

یہ چند دنوں کی احتیاط، وقت کے فتنوں کے مقابل میں ہمارا دفاع ہے۔

اگر آج ہم نے عقل سے کام لیا،

تو کل ہم مولانا کے ساتھ ایک بار پھر انقلابی صفوں میں کھڑے ہوں گے۔

اگر چراغ سلامت رہے، تو اندھیرے خودبخود چھٹ جاتے ہیں۔

پس آؤ، چراغ کو بچا لیں… تاکہ منزل روشن ہو سکے۔


1/Post a Comment/Comments

ایک تبصرہ شائع کریں