اب بھی وقت ہے...! نظام بچانا ہے تو جمعیۃ کا راستہ اختیار کرو
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
پاکستان اس وقت جس بحران میں گھرا ہوا ہے، وہ کسی ایک ادارے، کسی ایک شخص، یا کسی ایک غلطی کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ اس بوسیدہ، بے حس اور استحصالی نظام کا پیدا کردہ ہے جو پچھلے کئی عشروں سے اس ملک پر مسلط ہے۔ آج اگر کوئی کسان کھیت میں اپنے خون سے فصل اگا کر بھی بھوکا ہے، اگر کوئی مزدور سارا دن مشقت کے باوجود اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتا، اگر کوئی نوجوان ڈگری لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، اگر عدالتیں انصاف کے بجائے تعلقات دیکھتی ہیں، اگر اسمبلیاں قانون سازی کے بجائے مفاد سازی میں لگی ہیں، اگر افسر شاہی عوام کی نوکری کے بجائے اشرافیہ کی خدمت میں جھکی ہے، تو کیا یہ سب کسی آسمانی قہر کا نتیجہ ہے؟
نہیں!
یہ سب اُس نظام کی دین ہے جو انگریز کی غلامی سے نکل کر سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بیرونی ایجنڈوں کا غلام بن گیا۔
آج ہر طرف سے "تبدیلی"، "جمہوریت"، "ترقی"، "عوامی نمائندگی" کے بلند و بانگ دعوے سنائی دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کھوکھلے نعرے اس وقت تک ہیں جب تک نظام کی بنیاد سود، استحصال، اقربا پروری، کرپشن اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی پر رکھی گئی ہے۔ ہم نے قوم کو لبرل نعروں، مصنوعی منصوبوں، اور ٹی وی اشتہارات کے ذریعے سبز باغ دکھائے، لیکن نہ دین بچا، نہ ریاست محفوظ رہی، نہ قوم متحد رہی۔
اس ملک کو صرف حکومت نہیں، قیادت کی ضرورت ہے۔ وہ قیادت جو صرف تخت کے لیے نہیں، قوم کے لیے جیتی ہو۔ جو ایوانوں کے بجائے محراب و منبر سے اٹھتی ہو۔ جو مغرب کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتی ہو۔ جو روٹی، روزگار، تعلیم، انصاف اور تحفظ کو بنیادی انسانی حق سمجھے، احسان نہیں۔ اور یہ قیادت صرف جمعیۃ علماء اسلام کے پاس ہے وہ جماعت جس نے ہر آمر کے سامنے کلمۂ حق کہا، جو ہر الیکشن میں بندوق نہیں، بیلٹ کا راستہ چنتی ہے، جو دینی مدارس کی حفاظت سے لے کر آئینِ پاکستان کی اسلامی شقوں کی نگہبانی تک ہر محاذ پر کھڑی رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمن جیسے رہنما آج بھی اس قوم کو صرف جذبات نہیں، راستہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ واحد آواز ہیں جو امریکہ، اسرائیل، بھارت اور مغرب کی مداخلت کے خلاف کھل کر بولتے ہیں، جو معیشت کو سودی قرضوں کے شکنجے سے نکالنے کی بات کرتے ہیں، جو مدارس کو دہشتگردی کا اڈہ نہیں بلکہ انسان سازی کا ادارہ مانتے ہیں، اور جو عوام کو مذہب، مسلک، اور قومیت کے نام پر نہیں، پاکستان کے نام پر جوڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اس جھوٹے سیاسی نظام سے جان چھڑائیں، ان پارٹ ٹائم مذہبی نعروں والوں سے ہوشیار ہوں، ان ایجنڈہ بردار حکمرانوں سے سوال کریں، اور اُن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں جو کل بھی سچ پر تھے، آج بھی سچ پر ہیں، اور کل بھی اسی راستے پر ہوں گے وہی راستہ جو اسلام کا ہے، آئین کا ہے، پاکستان کا ہے... جمعیۃ علماء اسلام کا ہے۔
اگر قوم نے اب بھی نہ پہچانا، تو شاید ہم صرف مہنگائی یا بے روزگاری کے نہیں، بلکہ اپنے نظریاتی وجود کے بھی مقروض ہو جائیں گے۔ سوچنے کا وقت ہے۔ اٹھنے کا وقت ہے۔ اب بھی وقت ہے...!
ایک تبصرہ شائع کریں