قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن صاحب کا بٹگرام میں شعائر اسلام کانفرنس سے خطاب
29 جون 2025
الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَىٰ بِاللّٰهِ شَهِيدًا، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ الَّذِي أَرْسَلَهُ اللّٰهُ إِلَىٰ كَافَّةِ النَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا، وَدَاعِيًا إِلَى اللّٰهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا، صَلَّى اللّٰهُ تَعَالَىٰ عَلَىٰ خَيْرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ وَبَارَكَ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا كَثِيرًا
جنابِ صدر محترم، اکابر علمائے کرام، زعمائے قوم، معززینِ علاقہ، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو! آج کا یہ فقید المثال تاریخی اجتماع منعقد کر کے آپ نے اپنی روایات زندہ کی ہے۔ آپ نے آج کے اس عظیم اجتماع کے ذریعے تجدیدِ عہد کیا ہے کہ ہزارہ کے عوام اور بٹگرام کے عوام جمعیۃ علماء اسلام پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ اعتماد غیر متزلزل ہے اور دنیا کی کوئی طاقت جمعیۃ علماء اسلام اور عوام کے درمیان اب فاصلے پیدا نہیں کر سکے گی۔ آپ نے بارش کے ماحول میں، برستی بارش میں جس استقامت کا مظاہرہ کیا، یہی وہ مقامِ عشق و جنوں ہے کہ آپ بارش سے متاثر نہیں ہوئے، سردی سے متاثر نہیں ہوئے، اور جس طرح اس ماحول میں آپ نے استقامت کا مظاہرہ دکھایا، ان شاءاللہ جمعیۃ علماء اسلام کی تحریک، جو اس ملک کے اندر شعائرِ اسلام کے تحفظ کے لیے ہے، جو اس ملک کے اندر اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے ہے، ان شاءاللہ آپ کا یہ استقامت متاثر نہیں ہوگا۔
میرے محترم دوستو! جمعیۃ علماء اسلام اکابر کی جماعت ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام ہماری تاریخ کا نام ہے، جمعیۃ علماء اسلام قربانیوں کا نام ہے، جمعیۃ علماء اسلام استقامت کا نام ہے اور ان شاءاللہ العزیز، جب تک جان میں جان ہے، جب تک جسم میں خون کا ایک قطرہ ہے، اس صف کو اور مضبوط کریں گے، آگے بڑھیں گے، اور پاکستان کے اندر انقلاب برپا کریں گے۔
میرے محترم دوستو! ہمارا ملک اس وقت آئین کی پٹری سے اتر رہا ہے۔ کچھ طاقتیں اس ملک کو آئین و قانون کی پٹری سے اتار رہے ہیں۔ ہم نے ان قوتوں کو چیلنج کیا ہے، ہم نے ان کو بتایا ہے کہ جس پاکستان کو، جو آئین میرے اکابر نے دیا تھا، تمہارا باپ بھی اس آئین کا بال بیکا نہیں کر سکے گا۔
میرے محترم دوستو! اس ملک میں الیکشن ہوتے ہیں۔ 2018 میں الیکشن ہوئے، ہم نے کہا دھاندلی ہوئی ہے اور ہم نے ان نتائج کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ ہم نے 2024 کے الیکشن پر کہا کہ یہ دھاندلی کا الیکشن ہے، ہم اس کے نتائج کو قبول نہیں کرتے۔ جعلی اسمبلیوں سے اور جعلی حکومتوں سے ملک نہیں چلا کرتا۔ عوام کا اعتماد ہوگا، قوم کا اعتماد ہوگا تو آگے چل سکو گے۔ اور جمعیۃ علماء اسلام نے نہ پہلے ایسی حکومتوں کو چلنے دیا اور نہ آج کی حکومت کو چلنے دے گی۔ ملک چلے گا، آئین چلے گا، قانون چلے گا، عوام چلیں گے، عوام کا اعتماد چلے گا۔ عوام کے اعتماد کے بغیر ہم اس ملک پر کوئی حکمرانی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں نے ستتر سال تک لا إله إلا اللہ کے ساتھ غداری کی ہے۔ اللہ کے کلمے کا مذاق اڑایا ہے۔ اور اگر تم اس طریقے سے اللہ کے نظام کا راستہ روکو گے، اللہ کے نظام کا مذاق اڑاؤ گے، تو یاد رکھو، میں آج اس عظیم الشان جلسہ عام کی وساطت سے آپ کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پھر اپنے سامنے مقابلے میں آپ ان جانبازوں کو دیکھیں گے، جمعیۃ کے جیالوں کو دیکھیں گے۔ ہم آپ کے مقابلے میں میدان میں کھڑے ہیں اور ان شاءاللہ یہ جنگ جاری رہے گی۔ نہ امریکہ تمہیں بچا سکے گا، نہ یورپ تمہیں بچا سکے گا۔ اللہ کی طاقت ہمارے ساتھ ہوگی اور ان شاءاللہ فتح و کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
میرے دوستو! دھاندلی کے الیکشن ہوں گے، دھاندلی کی حکومتیں ہوں گی، تو پھر کرپشن کا گلہ نہ کیا کریں۔ ایسے لوگ اقتدار کو پیسہ کمانے کا سنہرا موقع تصور کرتے ہیں۔ اور آج ہماری حکومتیں اس ماحول کو غنیمت سمجھتے ہوئے قوم کا پیسہ لوٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ حکومتیں نہیں چلیں گی۔ میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عوام کے سامنے سر تسلیم خم کر لو، عوام کے فیصلوں کو تسلیم کرو۔ تمہارے کوئی فیصلے اپنے نہیں ہیں۔ تم نے فاٹا انضمام کا فیصلہ کیا اور فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیا۔ آپ نے کہا ہم نے کمال کر دیا۔ آپ نے کمال کیا کیا؟ ہم آپ کو چیختے رہے کہ جس طرح تم فاٹا کو ضم کر رہے ہو، یہ غلط فیصلہ ہے۔ یہ قبائل کے سیاسی مستقبل کا یک طرفہ فیصلہ ہے، قبائل کا اس میں مرضی شامل نہیں۔ قبائل اس پر ناراض ہیں۔ آج حکومت نے کمیٹی بنا دی ہے، کمیشن قائم کیا ہے کہ آؤ ذرا انضمام پر دوبارہ غور کریں، جرگہ سسٹم کس طرح بحال ہو سکے گا۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا! اگر آٹھ سال پہلے ہماری بات مان لیتے، ہمارے آئین میں ایک یا دو دفعات فاٹا سے متعلق تھیں، تم نے دو دفعات ختم کیں اور دو سو دفعات ان پر مسلط کر دیں۔ نہ ایوان میں کوئی اس پر بحث ہوئی اور جو میں نے موقف پیش کیا تھا، اس کے کسی ایک فقرے کا بھی مجھے جواب نہیں دیا گیا۔ آج پچھتا رہے ہیں کہ ہم نے غلط فیصلہ کیا تھا۔ تم نے فاٹا کے عوام اور کروڑوں عوام کے مستقبل کا فیصلہ ان کی مرضی کے بغیر کیا، تو پچھتانا تو پڑے گا۔ مان لو کہ تمہارے اندر سیاسی بصیرت نہیں ہے۔ مان لو کہ تم سیاسی لحاظ سے کورے ہو۔ تمہاری کھوپڑیوں میں بھوسا بھرا ہوا ہے، دماغ کی طاقت نہیں ہے کہ آپ اس ملک اور اس قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔
جس طرح تم نے فاٹا کے عوام کا فیصلہ کیا، میں نے اسی وقت کہا تھا اور ایوان کے فلور پر کہا تھا کہ اگر اس طریقے سے تم نے فاٹا کا انضمام کیا، تو پھر کشمیر انڈیا میں چلا جائے گا۔ اور انڈیا بھی کشمیر کے بارے میں اسی طرح فیصلہ کرے گا۔ پھر کشمیر کا فیصلہ ہوا، ہندوستان نے اپنے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، جس طرح آپ نے یہاں فاٹا کی خصوصی حیثیت ختم کی۔ تو میرے محترم دوستو، غلط فیصلوں کے غلط نتائج ہوتے ہیں۔ اور جب ہم ڈٹ گئے تو ہمیں راضی کرنے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہم نے فاٹا کا انضمام نہ کیا تو امریکہ ناراض ہو جائے گا۔ جو اس ملک کو امریکہ کی رضامندی کے ساتھ چلاتے ہیں، تو جمہوریت کی بات کیوں کرتے ہو؟ پھر عوام کی بات کیوں کرتے ہو؟ پھر اسلام کی بات کیوں کرتے ہو؟ نہ تم اسلام کے نعرے میں سچے، نہ تم عوام کے نعرے میں سچے، نہ تم جمہوریت کے نعرے میں سچے، نہ تم آئین کے نعرے میں سچے۔ پھر آپ کو دھاندلی کے نتیجے میں ہم کس طرح اس ملک پر حکمرانی کا حق دے سکتے ہیں؟
تم نے پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں ابھی ایک قانون سازی کی اور 18 سال سے کم عمر کے لڑکے اور لڑکی کے نکاح کو ناجائز قرار دیا، سزائیں مقرر کئے۔ میں بتانا چاہتا ہوں، جنرل مشرف کے زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ سے اس وقت کی حکومت کی دو تہائی اکثریت بنی اور حقوق نسواں کے خوشنما عنوان کے ساتھ انہوں نے آئین میں ترمیم کی اور زنا بالرضا کے لیے سہولتیں مہیا کی۔ حالانکہ علماء جانتے ہیں، آپ بھی جانتے ہیں، زنا رضا کے ساتھ ہو یا جبر کے ساتھ، دونوں یکساں جرم ہیں۔ لیکن اس ترمیم کے ساتھ تم نے زنا کا راستہ کھولنے کی کوشش کی، زنا بالرضا کے لیے سہولتیں مہیا کی، اور ایک شرعی نکاح، جائز اور حلال تعلق، اس پر آپ نے قدغنیں لگا دیں، سزائیں لگا دیں۔ یہ کیسا اسلامی جمہوریہ ہے؟ یہ تم کس طرح کے مسلمان حکمران ہو؟ تمہاری مملکت میں، تمہاری حکومت میں زنا کے لیے سہولت مہیا کی جائے اور جائز اور شرعی نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں؟
تم جیسے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے، میں نے اس دن پارلیمنٹ میں بھی کہا کہ تم نے چھت کے اوپر اللہ کے 99 نام لکھے ہوئے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نامم ہمارے اوپر رحمت کے نزول کا سبب بنیں گے۔ تمہیں یہ خوف کیوں نہیں ہے کہ اللہ کے 99 نام تم اوپر پھٹکار بھی کر رہے ہیں؟ اللہ کی پھٹکار سے ڈرو! تم خدا سے بغاوت کر رہے ہو۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
کوئی بھی مؤمن مرد یا مؤمنہ عورت، اگر اللہ اور اس کے رسول نے کسی معاملے میں ایک فیصلہ دے دیا، تم سر منہ اس میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔
آج تم اتنے جری ہو گئے ہو کہ آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہوگی اور ہر قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی، لیکن آپ نے قرآن و سنت کو پامال کیا ہے۔ آپ نے قرآنی احکامات کو پامال کیا ہے، جو خدا کی رحمت کا سبب نہیں، اللہ کے عذاب کا سبب بنتے ہیں۔
میرے بھائیو! آپ کا یہ اجتماع، ان حالات پر آپ کی ناراضگی، ان حالات پر گھروں سے نکلنا، بارش اور طوفان کا مقابلہ کر کے یہ فقید المثال اجتماع قائم کرنا، یہی آپ کا اجتماع اور آپ کا احتجاج اللہ کے عذاب کو روکتا ہے، ورنہ حکمرانوں کے کارنامے، وہ تو اس ملک کو کہاں لے جاتے ہیں؟ تمہیں ہر بات میں اللہ کی ناراضگی قبول ہے، لیکن امریکہ کی اور مغرب کی ناگواری تمہیں قبول نہیں۔ تم اس ملک میں بے حیائی اور فحاشی کا ایک ماحول بنانا چاہتے ہو۔ اور پشتونوں سے میں کہنا چاہتا ہوں، میرے سامنے اس بات کا اعتراف کیا گیا، میرے سامنے کچھ ذمہ دار لوگوں نے کہا کہ ہم پشتون قوم کی تہذیب کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس خطے میں، جہاں پشتون قوم رہتی ہے، یہاں پر مذہب کی جڑیں گہری ہیں۔ ہم مذہب کی ان گہری جڑوں کو اکھیڑنا چاہتے ہیں۔ میرے دوستو! بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت، عالمی آقاؤں کے دستِ شفقت کے نیچے یہاں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں تاکہ ہمیں اندر سے مذہب سے فارغ کر دیا جائے اور اوپر سے ہماری تہذیب کی چادر ہم سے چھین لی جائے۔ لیکن ان شاءاللہ مقابلہ جاری رہے گا۔
میرے محترم دوستو! آج جو فلسطین پر گزر رہی ہے، ساٹھ ہزار سے زیادہ فلسطینی، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، عام شہری، صہیونی بمباری سے شہید ہو گئے۔ میں امریکہ بہادر سے پوچھنا چاہتا ہوں، جب اسرائیل فلسطین پر بمباری کر رہا ہے، ساٹھ سے ستر ہزار فلسطینی مسلمانوں کو شہید کر رہا ہے، اس وقت تمہیں جنگ بندی یاد نہیں آئی؟ لیکن جب ایران کی جوابی کارروائی نے اسرائیل میں تباہی مچائی، تو تم فوراً بیچ میں آتے ہو اور کہتے ہو جنگ بند کر دو، کریڈٹ بھی لیتے ہو کہ میں نے جنگ بند کرائی۔ ٹرمپ صاحب! اگر آپ کریڈٹ لینا چاہتے ہیں اور واقعی آپ انسانوں کو انسان سمجھتے ہیں، فلسطینیوں کو انسان سمجھتے ہیں، تو پھر بیت المقدس کو آزاد کراؤ، فلسطین کو آزاد کراؤ، وہاں پر اسرائیل کو مظالم ڈھانے سے روکو۔
جب ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان نے اس کا جواب دیا، چند گھنٹوں کے اندر ہندوستان کے پورے دفاعی نظام کو تہہ و بالا کر دیا اور اس کے ڈیجیٹل سسٹم کو تباہ و برباد کر دیا، سفید جھنڈے لہرا دیے کہ بس کرو، ہم جنگ نہیں لڑنا چاہتے۔ تو ٹرمپ صاحب، آپ کہتے ہیں کہ میں گیا اور میں نے جنگ بند کرائی۔ جب ہندو پٹتا ہے تو وہاں تمہیں امن یاد آتا ہے، جب یہودی پٹتا ہے تو وہاں تمہیں امن یاد آتا ہے، جب فلسطینی شہید ہو رہا ہے تو وہاں تمہاری انسانیت کہاں چلی جاتی ہے؟
میرے محترم دوستو، آج امریکہ کہتا ہے آؤ اتحاد کرو۔ کون سا اتحاد؟ کہتا ہے ابراہیمی اتحاد۔ مسلمان بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے ہیں، یہودی بھی مانتے ہیں، عیسائی بھی مانتے ہیں۔ آؤ، یہ تینوں ایک مذہب پر آ جائیں، ایک ہی عبادت خانہ بنائیں، سب اس میں نماز پڑھیں۔ آج تمہیں حضرت ابراہیم یاد آ گیا؟ مجھے تمہاری تاریخ معلوم ہے۔ جب مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں انقلابِ روس آیا، کمیونسٹ انقلاب آیا، تو تم نے اس وقت مسلمان کو کہا کہ آؤ، تم بھی خدا کو مانتے ہو، ہم بھی خدا کو مانتے ہیں۔ تم نے خدا کے نام پر مسلمانوں کو اپنے قریب کیا، صرف اس لیے کہ کمیونسٹ انقلاب کو شکست دے سکو۔ ہمارے اکابر، ہمارے علماء کرام اس فلسفے سے آگاہ تھے۔ ان کو اندازہ تھا کہ یہی مغرب پھر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے گا، یہی مغرب مسلمانوں کا قتل عام کرے گا۔ ہم نے اس فلسفے سے اتفاق نہیں کیا، تو ہمارے علماء کو کمیونسٹ ملا کہا گیا۔
میرے محترم دوستو! تم نے اس وقت بھی خدا کے نام پر مسلمان کو پکارا، لیکن صرف سوویت یونین کو توڑنے کے لیے۔ آج تم چین کی طاقت کو اور ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنے کے لیے پھر مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہو اور کہتے ہو آؤ ابراہیمی اتحاد کرو۔ حضرت ابراہیم ہمارا پیغمبر تھا، عیسائی اسے چھوڑ چکے۔ حضرت ابراہیم ہمارا پیغمبر تھا،
مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ
ابراہیم ہمارا پیغمبر تھا، ابراہیم کے پیروکار ہم ہیں۔ حضرت اسماعیل کی اولاد سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آخری پیغمبر آئے، اور ایسا دین نہیں لائے کہ پھر اب اتحاد بھی ہوگا آؤ تینوں ایک پیغمبر کو مانتے ہیں۔ میرا پیغمبر جب میرا دین لایا، دینِ اسلام، تو پیغمبر بھی آخری تھا، اسلام بھی آخری مذہب، کتاب بھی آخری کتاب، اور رسول بھی آخری رسول۔
اسلام نے عیسائیت کو منسوخ کیا، اسلام نے یہودیت کو منسوخ کیا۔ اور یہودیوں اور عیسائیوں نے انجیل اور تورات میں تحریفات کی ہیں۔ یہ وہ آسمانی کتابیں اب نہیں رہیں جسے اللہ نے نازل کیا تھا۔ لیکن قرآن میں ایک حرف کی تبدیلی آج تک نہیں آئی۔ پورا قرآن محفوظ ہے، پورا اسلام محفوظ ہے، پورا دین محفوظ ہے۔ اور امت مسلمہ ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے، آخری امت کی حیثیت رکھتی ہے۔
کُنْتُمْ خَيْرُ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ
تم وہ بہترین امت ہو جو اب انسانیت کی طرف بھیجے گئے ہو۔ لہٰذا دنیا میں اسلام بھی ہوگا، دنیا میں مسلمان بھی ہوگا، دنیا میں قرآن بھی ہوگا، دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین بھی ہوگا، اور دنیا میں مسجد بھی ہوگی۔ اور تم آج دوبارہ مسلم امہ کو دھوکہ نہیں دے سکو گے۔
پشتو سے اردو ترجمہ
میرے بھائیو! امریکہ ایک بار پھر ڈگڈگی بجا رہی ہے کہ آؤ سب حضرت ابراہیم پر متفق ہوتے ہیں تو میں تو آپ کے مکر سے واقف ہوں، ایک دفعہ تو یہ بھی کہا کہ ہمارا خدا ایک ہے اور ہمیں سویت یونین سے لڑایا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، پھر مجھے افغانستان میں قتل کر دیا اور میرا خون بہایا، عراق میں میرا خون بہایا، لیبیا، یمن اور شام میں میرا خون بہایا ہے، تمہاری نظریں اب حرمین شریفین پر ہے لیکن یاد رکھو پاکستان اپنی راہ لے گا، اسلامی دنیا اپنی راہ لے گی اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے گی، لیکن مجھے اپنے حکمرانوں پر حیرت ہو رہی ہے اُدھر افغانستان میں خون ابھی تازہ پڑا ہے، عراق، لیبیا میں خون تازہ پڑا ہے، شام پر بمباری ہو رہی ہے اور فلسطین میں خون ابھی بہہ رہا ہے اور ایسی صورت حال میں ہمارے وزیراعظم صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہم ٹرمپ کو امن نوبل انعام دینے کی سفارش کریں گے، اے عقل سے پیدل لوگوں، تم سفارش کروگے، اے عقل سے فارغ لوگوں خوشامد کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
یاد رکھو امن نوبل انعام اور ٹرمپ دو متضاد چیزیں ہیں، امن نوبل انعام ہو یا ٹرمپ یہ دونوں متصادم چیزیں ہیں، ٹرمپ ہے تو امن نہیں اور امن ہے تو ٹرمپ نہیں۔
جمعیت علماء اسلام وضاحت کے ساتھ یہ بات کرتی ہے کہ ہم کسی مسلمان کے خون بہانے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی کسی مسلمان کا خون بہنے کو برداشت کر سکتے ہیں، ہم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ہم حرمین کے سنگ کھڑے رہیں گے، ہم بیت المقدس کے سنگ کھڑے رہیں گے، ہم اسرائیل کے مقابلے میں ایران کے سنگ کھڑے رہیں گے۔
میرے محترم بھائیو! ہم وہ کریں گے جو شریعت کا حکم ہو، ہمارے اس وطن عزیز میں ہم نے آگے بڑھنا بے۔ مجھے پوری طرح احساس ہے ہمارے سوات میں کچھ سیاح دریا کے طغیانی کا شکار ہوگئے، اللّٰہ تعالیٰ ان متاثرین کو مقام شہادت عطاء فرمائے اور میں سیاحوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان دنوں میں دریاؤں کے قریب نہ جایا کرے، انتظامیہ سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جو سیاح آئے ہوئے ہیں انہیں اس قسم کی حادثات سے تحفظ دینے کی کوشش کیا کرے۔ لیکن بے غوری ہے نہ انتظامیہ احساس کرتی ہے اور نہ لوگ احتیاط کرتے ہیں۔ لوگوں کو بھی احتیاط کرنا چاہیے اور انتظامیہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔
تو میرے محترم دوستو! آپ کا یہ اجتماع میرے خیال میں کوہستان کے بعد اس علاقے میں آیا ہوں آپ نے ثابت کر دیا کہ یہ تحریک اب آگے بڑھے گی اور ان شاءاللہ اور کامیابیوں پر منتج ہوگی ان شاءاللہ۔ ہماری یہ تحریک کراچی سے شروع ہوئی، لاہور آئی، پشاور میں ہم نے ملین مارچ کیا، کویٹہ اور حیدرآباد میں کیا، آج ہم بٹگرام میں یہ عظیم الشان جلسہ دیکھ رہے ہیں یہ اس خطے کی عوام کے وحدت کا مظاہرہ ہے، وحدت فکر کا مظاہرہ ہے اور ان شاءاللہ آپ کا اور ہمارا یہ سفر جاری وساری رہے گا۔
اور میں اب بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنا قبلہ درست کر لیں، اپنی عمل ٹھیک کر لیں ورنہ اگر ان لوگوں سے ہم نے کہا کہ چلو اسلام آباد چلتے ہیں تو ان شاءاللہ ایک ہفتہ کے اندر اندر اسلام آباد کو فتح کر لیں گے، کیوں ان پرامن لوگوں کو اس بات کے لیے مجبور کر رہے ہو کہ یہ انتہائی اور سخت قدم اٹھائے، یہ پرامن لوگ آئین و قانون کی پیروی کرنے والے، ملک کی سلامتی کو مقدم رکھنے والے انہیں کیوں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ہفتے کہ نوٹس پہ اسلام آباد پر قبضہ کر لے، ایک ہفتہ لگے گا اور پورا اسلام آباد ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا لیکن ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ملک کے حالات اس حد تک نہ جائے، طاقتور قوتیں اپنی طاقت پر اتنا بھی بھروسہ نہ کرے کہ بس وہ آخری قوت ہے اور کوئی قوت ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ ہم نے سخت حالات میں امریکہ کو چیلنج کیا، عالمی قوت کو چیلنج کیا، وہ افغانستان میں شکست کھایا اور اس سے پہلے وہ مختلف جگہوں میں شکست کھا چکا ہے اور ان شاءاللہ ہم سیاسی جنگ لڑیں گے بھرپور سیاسی قوت کے ساتھ، بھرپور عوامی قوت کے ساتھ، قانون کی پیروی کرتے ہوئے ان شاءاللہ اس ملک میں نظام کو تبدیل کریں گے اور اللہ کا دیا ہوا نظام جس میں اللّٰہ کے شعائر محفوظ ہو، اللّٰہ کرے گا وہ نظام پاکستان میں آئے گا۔
اللّٰہ پاک آپ کی جدوجہد کو قبول فرمائے اور آپ کی محنت پر کامیاب نتائج مرتب فرمائے۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض
ممبرز ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
بٹگرام جلسے سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا خطاببٹگرام جلسے سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا خطاب
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, June 29, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں