قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ کا پشاور مفتی محمود مرکز میں اہم پریس کانفرنس

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ کا پشاور مفتی محمود مرکز میں اہم پریس کانفرنس

یکم جون 2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمده و نصلی على رسولہ الكریم، اما بعد

میں شکر گزار ہوں پشاور کے اپنے تمام صحافی بھائیوں بہنوں کا، کہ ہمارے مختصر سے نوٹس پہ آپ لوگ تشریف لائیں۔

سب سے جو تشویشناک امر ہے کہ وہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا تھا اور جس کی شناخت اسلام ہے اس ملک کو سیکولرائز کیا جا رہا ہے، اس کی اسلامی شناخت کو ختم کیا جا رہا ہے، اس سے قبل کچھ قانون سازیاں ہوئیں، قانون سازی کی وجوہات کا جو ذکر کیا گیا کبھی آئی ایم ایف کی تجاویز کو بنیاد بنایا گیا، کبھی ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کو بنیاد بنایا گیا اور آج اگر ایک نئی قانون سازی جو اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کے شادی پر پابندی کے حوالے سے ہے اس میں بھی قوم متحدہ کے کسی قرارداد کا حوالہ دے کر قانون سازی کی جا رہی ہے جس کا صاف معنیٰ یہ ہے کہ ہم ابھی نو آبادیاتی نظام سے نکلے نہیں ہیں۔ ہم ابھی بھی غلامی کے دور سے گزر رہے ہیں اور دینی مدارس پر اگر دباؤ ہے قانون سازی ہو جانے کے باوجود کبھی صدر مملکت اس پہ دستخط نہیں کرتے، کبھی نیا آرڈیننس آ جاتا ہے پھر اس پر عمل درعمل نہیں ہوتا، آرڈیننس آیا، اسمبلی کے اجلاس بلایا گیا تو قانون سازی ضروری تھی، تو آرڈیننس کے میعاد بھی اضافہ کر دیا گیا۔ اس طریقے سے بوجوہ اس ملک کے اسلامی شناخت کو ختم کیا جا رہا ہے، قرآن و سنت کے منافی قانون سازی ہو رہی ہے جبکہ آئین پاکستان صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے متصادم کوئی قانون سازی نہیں ہوگی اور ہر قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی۔

تو اس سارے صورتحال میں ہمیں تشویش اس بات کا ہے کہ جہاں پاکستان ان حکمرانوں کی روش اور ان کی غلامانہ ذہنیت کے بنیاد پر اپنا اسلامی شناخت کھو رہا ہے وہاں پر جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے اور پاکستان میں جو مسلح گروہ جو مؤقف لے کر اٹھے ہیں کہ پارلیمنٹ سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے اور وہ بندوق ہی کو اپنا راستہ سمجھتے ہیں اس سے ان کے بیانیے کو تقویت ملتی ہے۔ تو ایک طرف حکومت ان کے خلاف آپریشنز بھی کرتی ہے اور دوسری طرف ایسے ایسے اقدامات کر رہی ہے کہ جس سے ان کے بیانیے کو تقویت ملتی ہے، کیوں اس تضاد کا شکار ہے حکومت، اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ عجیب پاکستان ہے اسلامی پاکستان، کے جہاں پر جنرل مشرف کے زمانے میں حقوق نسوان کے حوالے سے ایک آئینی ترمیم لائی گئی جس میں زنا بر الرضا کے لئے راستے کھولے گئے اور اس کو جرم کے زمرے سے نکال دیا گیا، اس کو گناہ کے زمرے سے نکال دیا گیا اور آج اٹھارہ سال کے عمر سے کم کہ بچوں کی نکاح پر پابندی کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان میں زنا بر الرضا کے لئے آسانیاں پیدا کی جارہی ہے اور جائز نکاح کے لئے مشکلات پیدا کی جارہی ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل اس کو مسترد کر چکی ہے، تمام علماء اور ان کی تنظیمیں اور جماعتیں اس کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے چکی ہیں۔ کسی زمانے میں آئینی قوانین کے نام سے قرآن و سنت کے منافی قوانین ہم پر مسلط کیے گئے تھے لیکن اس وقت شاید آئین قرآن و سنت کے مطابق قوانین کی ضمانت نہیں دے رہا تھا آج آئینی ضمانت کے باوجود آئین کو پامال کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات کیوں ہو رہے ہیں، کس بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ ہم آج اس قسم کے اقدامات کو مسترد بھی کرتے ہیں اور اس کے خلاف عملی اقدامات کی طرف بھی جائیں گے۔ ہم مختلف صوبوں میں جلسے منعقد کریں گے، ان جلسوں کا مقصد اب صرف ایک موضوع نہیں ہوگا جیسے ہم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے حوالے سے ایک موضوع پر جلسہ کرتے تھے، اب ہمیں وطن عزیز کی آزادی اور اسلام کی حکمرانی اور اللہ کی حاکمیت کے حوالے سے بھی اپنی تحریک آگے بڑھائیں گے، عوام کے شعور کو بیدار کریں گے اور ان شاءاللہ العزیز دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ پوری آزادی کے ساتھ پیش کریں گے، اسلام دنیا کے ساتھ مل کر چلنے والا دین ہے اسلام دنیا کے ساتھ تصادم والا دین نہیں ہے۔ اسلام کی اس لچک کو، اسلام کی اس اعتدال کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے، دنیا کے لئے مفید بنایا جا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان حکمران اسلام کی تشریح کرنے سے خاموش اور غیر مسلم دنیا ہمیں اسلام کا تعارف کرا رہی ہے اور اس نے ہی ہمارے اسلام کے حدود کا تعین کرنا ہے کس قدر موت کا مقام ہے کہ کیا امت مسلمہ آج اس مقام پر پہنچ گئی ہے۔

سو اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام کا مؤقف بڑا واضح ہے اور ہم اس ساری صورتحال کو نظر میں رکھے ہوئے ہیں اور اسی حوالے سے ان شاءاللہ ہم آگے بڑھیں گے اور یہاں پر بھی صوبے میں جو اجلاس ہوا جس کا ذکر کیا گیا تو اس میں بھی اس حوالے سے غور فکر کیا گیا اور ہم اس میں آگے بڑھنے کے لئے ہم نے میرے خیال میں 29 جون کو ہم ان شاءاللہ ہزارہ ڈویژن میں ایک بڑی کانفرنس کریں گے بہت بڑا اجتماع کریں گے اور عوام میں ان شاءاللہ اس حوالے سے شعور بیدار کریں گے۔

سوال و جواب

صحافی: یہ جو پاکستان اور ہندوستان کا ایشو ہے اس حوالے سے بڑا جشن منایا جا رہا ہے سیز فائر کے حوالے سے، اور آج جو کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بات ہو رہی ہے بٹ کوائن، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اور یہ جو ہم پینگیں بڑھا رہے ہیں امریکہ کے ساتھ، ایک طرف امریکہ ہے دوسری طرف چین ہے اور چین اور امریکہ کے درمیان جو حالات ہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے ہمارے فائدہ میں کیا ہے؟

مولانا صاحب: دیکھئے نائن الیون کے بعد اور سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد ہم ہی تھے اور آپ کو ہماری وہ تقریریں یاد ہوں گی جب ہم عالمی تغیرات اور عالمی انقلابات کی باتیں کر رہے تھے اور ہم نے اس وقت بھی امت مسلمہ کو پکارا تھا کہ آنے والے وقت میں ہمارا کردار کیا ہوگا، یقیناً دنیا میں جو نائن الیون کے بعد یک محوریت آئی ہوئی تھی اب وہ یک محوریت ٹوٹ چکی ہے اور ایک نئے سرد جنگ میں ہم داخل ہو چکے ہیں، تین سو سال تک دنیا کی معیشت پر جہاں یورپ کا قبضہ تھا اور جس نے دنیا میں سرمایہ داریت کے غلبے کو جنم لیا تھا آج وہ دوبارہ ایک نئے جنگ میں داخل ہو گئے ہیں، چین کی قیادت میں ایشیا ایک نیا اقتصادی ٹائگر بننے کی طرف جا رہا ہے اور جمعیت علماء کی تجویز یہی ہے کہ ہم ایک ایشیاٹک فیڈریشن کی طرف جائیں، ایشیا کو مضبوط کریں، انڈیا پاکستان کی کشمکش، جہاں توقع کی جا رہی تھی کہ رفتہ رفتہ ہم اپنے تعلقات بہتری کی طرف لے جا رہے ہیں معاملات کو ہم باہمی مفاہمت سے حل کر رہے ہیں اور ان دو ریاستوں کے درمیان تنازعات کے پر امن حل کے راہیں تلاش کر رہے ہیں جہالت کے خلاف اپنی معیشت کو استعمال کر رہے ہیں، غربت کے خلاف اپنی معیشت کو استعمال کر رہے ہیں، ہمیں ایک چھوٹے سے واقعے نے مودی کی حماقتوں کے نتیجے میں دوبارہ ایک جنگ میں الجھا دیا ہے۔

سو اس حوالے سے بھی ہندوستان کو بھی سوچنا ہوگا اور پاکستان کو بھی سوچنا ہوگا کہ ایک حکمران کی حماقتوں کی وجہ سے ہمیں جو خطے کی مشکلات ہیں اس پہ اضافہ کی طرف جانے کی بجائے ہمیں مشکلات کو واپس اپنے اصلی حالت میں بحال کرنے کی طرف اقدامات کرنے ہوں گے، لیکن ابھی اس پہ وقت لگے گا کیونکہ ہندوستان کی طرف سے جارحیت کی امکانات بدستور موجود ہیں اور ان شاءاللہ پاکستان کو اس محاذ پر جو عزت ملی ہے اور ہماری دفاعی قوتوں نے جو اس وقت کارنامے دکھائے ہیں ہمیں آج بھی اپنی دفاعی قوت پر اعتماد ہے کہ وہ وطن عزیز کی دفاع کیلئے کوئی دقیقہ فروغ داشت نہیں کریں گے اور پاکستان کی عزت اور اس کے استحکام کیلئے ہماری دفاعی قوت کام آئے گی، ہم بحث کر رہے ہیں اس وقت پاکستان کی نظریاتی حیثیت کے حوالے سے، نظریاتی حوالے سے حکمرانوں کی اقدامات کے حوالے سے اور اس پر ہم نے بات کرنی ہیں اور ان شاءاللہ العزیز ہم نے یہ جنگ جیتنی ہے۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے کہ یہ جو ابھی سکینڈلز سامنے آرہے ہیں حکمران جماعت کے حوالے سے، حکمران جماعت آپس میں بھی دست و گریباں، مولانا صاحب اس کے ساتھ ایک اور سوال بھی ایڈ کر لیں یہ پیپلز پارٹی بھی صوبہ بچاؤ تحریک کیلئے نکلی ہے تو اچھا نہیں تھا کہ اس تحریک کو اگر یہ آپس میں ایک ساتھ آگے لے جائے پیپلز پارٹی اور باقی اپوزیشن جماعتیں؟

مولانا صاحب: پیپلز پارٹی نے کیا کیا ہے؟

صحافی: صوبہ بچاؤ تحریک کیلئے نکلی ہے۔

مولانا صاحب: کل ایک شخص لطیفہ سنا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کا احتجاج اس لئے نہیں کہ کرپشن کیوں ہوئی ہے بلکہ اس کا احتجاج اس بات پر ہے کہ ہمارا ریکارڈ کیوں توڑا گیا ہے۔ تو بات بنیادی یہ ہے بہرحال یہ جنگ ہم نے لڑنی ہے اور آئین و قانون کی روشنی میں لڑنی ہے۔ اس حوالے سے جو بھی صورتحال منظر عام پر آئی ہے، صوبے کے اسمبلی کے اندر سے یہ آواز اٹھی ہے، یہ نہیں کہ کسی حزب اختلاف کی جماعت نے اس حوالے سے کوئی بات کی ہے بلکہ سپیکر صوبائی اسمبلی نے بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ اس ساری صورتحال کا تفصیل بیان کیا ہے اور چالیس ارب کے کرپشن سے آگے وہ کہتے ہیں کہ اس کی تعداد وہ دو سو ارب سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ اگر ہم کہیں کہ اس کی تحقیق کی جانی چاہیے تو اصولاً تو یہی بنتا ہے کہ اس کی تحقیق ہونی چاہیے، عدالتی سطح پر اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ لیکن دوسری طرف اس کی تصدیق اس طرح بھی سامنے آ رہی ہے کہ بیس ارب روپے وہ ریکور بھی کر لئے گئے ہیں اگر چالیس ارب میں بیس صرف کوہستان کے کرپشن میں بیس ارب واپس بھی کرا دئیے گئے ہیں تو یہ سارے صورتحال اس بہت بڑے سیکنڈل یا اس بہت بڑے کرپشن کی طرف اس کی تصدیق کی اشارے کر رہے ہیں۔ لیکن تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف الزام کی حد تک بات نہ رہے بلکہ باقاعدہ عدالتی سطح کی تحقیقات ہونی چاہیے اس کی، تاکہ قوم کے سامنے صحیح صورتحال سامنے آئے۔

صحافی:

مولانا صاحب: میرے خیال میں کوئی نیا سوال کریں اس میں تو ہم پرانے ہو چکے ہیں۔ داڑھیاں سفید ہوگئی ہے۔

صحافی: مولانا صاحب کم عمری کی شادی کے متعلق کوئی تحریک آپ شروع کر رہے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی فیصلہ دیا ہے قرآن و سنت کی روشنی میں کتنی عمر ہے میل کے لئے اور فی میل کے لئے؟

مولانا صاحب: میل اور فی میل کے لیے کوئی عمر کی قیمت نہیں ہے، بلوغت ہے بلوغت، بلوغت بارہ سال میں آتی ہے، دس سال میں آتی ہے، تیرہ سال میں آتی ہے، چودہ سال میں آتی ہے، پندرہ سال میں آتی ہے اور اگر کم سنی میں ان کے والدین نکاح کر دیں تو پھر اس کو خیار بلوغ حاصل ہے بالغ ہونے کے بعد اس کو اختیار ہوگا کہ وہ اس نکاح کو قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا ہے۔

جہاں تک کابل افغانستان کی بات ہے، حضرت یہ مصنوعی قسم کی ایک جیسے تنگ نظری کے نتیجے میں کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ جس میں دونوں طرف کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ جہاں ذمہ دار ریاستوں کو بہت بڑے تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ہم وہ نہیں کر پاسکے جبکہ الیکشن سے پہلے یہ ساری چیزیں اس کی بنیادیں ہم نے رکھ دی تھی اور تمام شعبوں میں باہم تعاون کے راستوں پر اتفاق کر لیا تھا ہم نے، اس کی پیروی کیوں نہیں کی جا سکی اور کیوں ہم نے ان کامیابیوں کو کامیاب نتائج تک نہیں پہنچایا، یہ ساری چیزیں اپنے جگہ پر سوالات ہیں لیکن اگر اب کچھ معاملات آگے بڑھے ہیں یعنی اگر سی پیک کو ایکسٹینڈ کیا گیا ہے افغانستان کی طرف، تو یہ مزید آگے وسطی ایشیا تک بھی جا سکے گا، اس کو ایران تک بھی ایکسٹینڈ کیا جا سکے گا، اور خطے میں پاکستان اور دوسرے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مفادات کے اعتبار سے، اقتصاد کے اعتبار سے، عوام کے باہمی فلاح و بہبود کے اعتبار سے ایک انگیجمنٹ ہو جائے گی ان کی، اور ایک دوسرے سے وابستہ ہو جائیں گے اور پھر ابھی ہم اپنے جو سفارت خانے ہیں ان کو بھی اب آپ گریٹ کر رہے ہیں ناظم الامور سے آگے اب سفیر کے منصب کی طرف ان کو لے جا رہے ہیں، ان کا جو یہاں پر ناظم الامور ہے وہ بھی سفیر کے عہدے پہ چلا جائے گا اور کابل میں جو ہمارا ناظم الامور ہے وہ بھی سفیر کے عہدے پہ چلا جائے گا۔ تو یہ باہمی تعلقات میں پیشرفت کی علامت ہے اور افغانستان اور پاکستان کی بہترین باہمی تعلقات ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں ناگزیر

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ اس ملک میں ادارے ہیں جو بھی قانون سازی ہوتی ہے اور اسلام سے متصادم ہوتی ہے اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھ سکتے ہیں اور اکثر آپ لوگ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس جانا چاہیے، اور یہ کم عمری میں شادی کے بل کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے خلاف حکم دیا ہے اس کے حوالے سے آپ کوئی احتجاج کریں گے؟

مولانا صاحب: دیکھیے کونسل تو ایک ادارہ ہے اُس نے ایک رائے دے دی اور اُس رائے میں اُنہوں نے صراحت کے ساتھ اس قانون کو خلاف شریعت قرار دیا ہے لیکن یہ سارا اقدام اسلامی نظریہ کی کونسل نے از خود کیا ہے یا اُن کے اراکین کی تحریک پہ کیا ہے۔ اسمبلی اُس وقت قانون سازی نہیں کر سکتی جس وقت پارلیمنٹ کی بائیس فیصد اراکین کسی مسئلہ کو اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف لے جانے کا ووٹ نہ کرے۔ پہلے یہ تعداد غالباً پچاس فیصد کے قریب تھی یا چالیس فیصد کے درمیان تھی اور اب وہ نیچے بائیس فیصد پہ آگئی ہے۔ تو اُس کا ایک پروسیجر ہے ضرور اپنی جگہ پر، لیکن ہم نے صرف پروسیجر کو دیکھنا ہے یا یہ کہ ہم خود بھی مسلمان ہیں اور ہمارا ایک اسلامی عقیدہ اور نظریہ ہمیں کیا کہتا ہے اور اُس حوالے سے اسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے ہم وہاں اندھے کیوں ہو جاتے ہیں، ہمارے آنکھوں پر پردے کیوں آ جاتے ہیں اور صرف اس بنیاد پر کہ ہم نے مغربی دنیا کی پیروی کرنی ہے ان کو راضی رکھنا ہے ان کو راضی رکھنے میں ہمارے اقتدار کے امکانات پوشیدہ ہیں تو آخرت میں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے یا نہیں ہونا، تو یہ حکمران اللہ کا جرم کر رہے ہیں، یہ مجرم ہیں قوم کی بھی مجرم ہیں، آئین کی بھی مجرم ہیں، قرآن سنت کی بھی مجرم ہیں۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے کہ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کا مسئلہ زیر التوا ہے زیر سماعت ہے جس جماعت کی نمائندگی نہیں ہے۔

مولانا صاحب: دیکھیں کورٹ جو فیصلہ کرے گی اس کا انتظار کریں گے، جب تک مسئلہ زیر التوا ہے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔

صحافی: میرا سوال یہ ہے کہ پہلے بھی آپ نے صوبہ کی سیکیورٹی کے حوالے سے بات کی ہے لیکن ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہ رہا ہوں کیونکہ خیبر پختونخوا اور خصوصی طور پر جو ضم اضلاع ہے وہاں پر صورتحال خراب ہے، ابھی کل کی بات ہے درہ آدم خیل میں گھر کے اندر بلاسٹ کے نتیجے میں دو افراد جانبحق ہوئے ہیں، ڈرون اٹیک وہاں پر ہو رہے ہیں، اسی طرح خیبر کی وادی تیراہ میں بھی مبینہ طور پر لوگوں کو نقل مکانی کی طرف کہا جا رہا ہے تو اس پہ آپ کیا کہیں گے؟

مولانا صاحب: تو یہ بات تو حضرت آج کی نہیں ہے اس کرب سے تو میرے خیال میں گزشتہ تیس چالیس سالوں سے ہمارا صوبہ جو ہے وہ گزر رہا ہے اور عام آدمی اس ساری صورتحال کو برداشت کر رہا ہے۔ تو اس ساری صورتحال میں اب تو پہلے تو پاکستان کے علماء کا فتوہ تھا کہ یہاں پر دینی مقاصد کیلئے مسلح جنگ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اب تو افغانستان کے صرف علماء نے فتوہ نہیں دیا بلکہ اس فتوے کو امارت اسلامیہ نے سرکاری طور پر اس کا اعلان کر دیا ہے۔ تو اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام بھی خود کو علماء کرام کے اس رائے کا پابند سمجھتی ہے اور مسلح گروپوں کو بھی اس حوالے سے علماء کرام کی آراء اور دونوں ریاستوں کے علماء کے آرا کا احترام کرنا چاہیے۔

صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ دو ہزار تیرہ میں یہ بل جس کی آپ بات کر رہے ہیں یہ سندھ اسمبلی نے پاس کیا گیا ہے ریسنٹلی یہ پنجاب اسمبلی میں بھی پیش ہوا ہے اور ابھی یہ نیشنل گورنمنٹ اس پہ بات کر رہی ہے اور صدر پاکستان نے اس پر دستخط کر دیے ہیں تو یہ پیپلز پارٹی کا شروع سے یہ ارادہ ہے کہ یہ بل ہم پاس کریں گے؟

مولانا صاحب: دیکھیں پیپلز پارٹی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنا سیکولر جو چہرہ ہے وہ زیادہ واضح دکھائے تاکہ وہ بس ایسی زبان کے مسلمان تو نظر آئیں لیکن اس کے علاوہ مسلم لیگ تو اپنے آپ کو کہتے ہیں ہم تو پابند صوم صلات ہیں اور اس کے باوجود وہ صرف اقتدار کے بچاؤں کے لئے ان کے دباؤں میں آکر اس قسم کے قوانین نافذ کرتے ہیں ایک دفعہ انہوں نے سندھ میں قانون پاس کیا کہ جی پتہ نہیں کتنے سالوں کے کم کوئی مسلمان نہیں کیا جا سکے گا اب عجیب بات یہ ہے کہ عاصف علی، امداد علی، حاکم علی، قاسم علی، سارے سندھ جو ہے علی علی علی علی سے بھرا ہوا ہے اور ان کو یہ پتہ نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کرم اللہ وجہہ وہ کس عمر میں مسلمان ہوئے تھے اور ان کے اسلام کو قبول کیا گیا تھا، پھر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوتا ہے رخصتی ہوتی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک مثال موجود ہے جس پر اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے اور وہ آپ کی سب سے محبوبہ، تو اس حوالے سے ہم اپنے طرف سے کیسے قوانین بنا سکتے ہیں لہٰذا رخصتی کے وقت کے لیے یہ تو طے ہے کہ بلوغ ہونا چاہیے لیکن مختلف دنیا کے موسموں کے مطابق ہر علاقے کے لوگوں کے مدت بلوغ کے اپنے اپنے عمر ہوتی ہے اس میں تفاوت بھی آتا ہے آگے پیچھے بھی ہو جاتے ہیں تو ایک چیز شرعی طور پر جائز ہے آپ نے اس کو جرم قرار دے دیا، آپ نے اس پر سزا لگا دی، جرمانے لگا دیے، سات سال کے قید لگا دی اور جب زنا بر الرضا کا سوال آتا ہے تو وہاں پر آپ پروسیجر کو بھی مشکل بناتے ہیں، قوانین میں بھی تبدیلی کرتے ہیں، یہ کیسا اسلامی پاکستان ہے کہ جس میں زنا کے لیے تو راستے کھولے جا رہے ہوں اور سہولت پیدا کی جا رہی ہو اور شرعی نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں، سوال تو یہ ہے۔

صحافی: اچھا مولانا صاحب سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص صاحب، ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم وزیر اعلیٰ کے حوالے سے مولانا صاحب کے تحفظات دور جر دیے ہیں لیکن پھر بھی مولانا صاحب اتحاد کیلئے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں کیا وجہ ہے؟

مولانا صاحب: پہلے اس سوال کو سوال سمجھ لو، پھر اس کے بعد جواب بعد میں تلاش کیا کرو سوال ہی ٹھیک نہیں ہے۔

صحافی: 

مولانا صاحب: اس صوبے میں کرپشن اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہاں جمعیت علماء اسلام کی حکومت نہیں ہوگی، ہم نے پہلے بھی ثابت کرکے دکھایا ہے کہ کرپشن کیسے ختم کی جاتی ہے اور اب بھی ثابت کرکے دکھائیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہماری کردارکشیاں کی ہیں لیکن کیا کوئی آج تک ایک ایف آئی آر بھی درج ہو سکا ہے، ایسی ایسی الزام تراشیاں کہ جس پر ہمیں آج بھی جیلوں میں ہونا چاہیے تھا لیکن اتنی جرات تک نہیں ہو سکی کہ کوئی ایک چھوٹا سا ایف آئی آر آج تک درج کیا جا سکے۔ تو کردار کشیوں کا معاملہ چلتا رہتا ہے یہ بات نہیں ہے اصل بات، لیکن عملی طور پر کیا ہوتا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ایم ایم اے کے حکومت میں کرپشن سو فیصد ختم ہو گئی تھی لیکن پردے کی پیچھے چلی گئی تھی، اس کو ہر سطح پر جرم تصور کیا گیا تھا اور آج میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر پہلے لینا دینا طے ہوتا ہے اس کے بعد پھر مسائل کا حل ہوتا ہے۔ یہ چیزیں جو ہیں یہاں پر تو نظریات، دیانت، امانت اس کی جنگ نہیں ہے، یہاں پر جنگ ہے اتھارٹی کی، کہ میرے پاس اتھارٹی ہونی چاہیے۔ تو جتنا کمزور انسان ہوگا جتنا کرپٹ انسان ہوگا جتنا اخلاقی طور پر گیا ہوا انسان ہوگا اس کو لا کر آپ کے سروں پر بٹھائیں گے تاکہ ان کے کمزوریوں کو استعمال کر کے ان کو اپنے اتھارٹی کے مطابق استعمال کر سکیں۔ تو جنگ اتھارٹی کی ہے نظریات کی نہیں ہے، اخلاقیات کی نہیں ہے اور امانت و دیانت کی نہیں ہے، یہاں تو امانت و دیانت کو پامال کیا جاتا ہے ایسے لوگوں کو تلاش کیا جاتا ہے کہ کون ہے جو سب سے زیادہ کرپٹ، بد اخلاق، گندے اخلاق کا انسان، گرا ہوا انسان ان کو ملے اور آپ کے ملک کا حکمران بنا دیں تاکہ اچھے طریقے سے ان کو استعمال کیا جا سکے۔

بہت شکریہ آپ حضرات کا جی

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب ، #محمدریاض 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

#teamJUIswat


براہ راست : قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان مدظلہ کا پشاور میں اہم پریس کانفرنس ۔

براہ راست : قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان مدظلہ پشاورمیں مفتی محمود مرکز میں اہم پریس کانفرنس کر رہے ہیں ۔

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, June 1, 2025

0/Post a Comment/Comments