مولانا فضل الرحمن صاحب کا ڈیجیٹل میڈیا تربیتی کنونشن آرٹس کونسل ہال کراچی میں خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن صاحب کا جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سندھ کے زیر اہتمام ڈیجیٹل میڈیا تربیتی کنونشن آرٹس کونسل ہال کراچی میں خطاب

14 جون 2025

الحمد للہ رب العالمين والصلاة والسلام على اشرف الانبیاء والمرسلین وعلى آله وصحبه ومن تبعهم باحسان إلى يوم العظیم

جناب صدر، برادر محترم حضرت مولانا عبدالغفور حیدری صاحب دامت برکاتہم، عزیز مکرم مولانا راشد محمود سومرو صاحب، علماء کرام اور سندھ دھرتی کے ڈیجیٹل میڈیا کوارڈینیشن کے انتہائی ذمہ داران اور کارپردازان، ڈیجیٹل میڈیا کے محاذ پہ ہمارے نوجوانوں نے جو کام شروع کیا ہے تھوڑی ہی عرصے میں انہوں نے سوشل میڈیا کے محاذ پر بہت بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور دین اسلام کی دعوت اور جمعیت علماء اسلام کے پروگرام کو فروغ دینے کے لیے جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے یا حاصل کیا ہے میں اس پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

دنیا میں ہر چیز کے جہاں فائدے کے پہلو ہیں وہاں اس کے نقصانات کے پہلو بھی ہوتے ہیں۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو سب چیزوں کے نام بتا دیے، مشاہدہ یہ ہے کہ سب چیزوں کے محض نام معلوم ہونے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا، یہاں پر اسم بمنزل عنوان کے ہے یعنی کسی چیز کو پہچاننا، اس کے تمام لوازمات کے ساتھ، اس کے تمام معانی کے ساتھ، اس کے تمام مفاہیم کے ساتھ تب جا کر پھر اس کو حقیقی معنوں میں علم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ہر چیز کے نام بتائے حضرت آدم کو، اس کے فائدے کے پہلو بھی سارے بتا دیے، نقصانات کے پہلو بھی بتا دیے، فوائد کو حاصل کرنا اس کے منافع کا اکتساب کرنا اس کے طریقے بھی بتا دیے اور اس کے نقصانات و مضرات سے بچنا اس کے طریقے بھی بتا دیے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ اس کے ہر پہلو کو سمجھے اس کے منافع کو حاصل کرے اور اس کے مضرات سے بچے، بلکہ ہمیں جو کتابوں میں پڑھایا گیا ہے کہ جہاں کسی چیز میں منفعت بھی ہو اور مضرت بھی ہو تو دفع مضرات مقدم ہوتا ہے جلب منفعت پر، اور اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام چیزیں حضرت آدم کو بتا دیے، اب وہ آسمانوں کی دنیا ہو، بیچ کی دنیا ہو، زمین کی دنیا ہو، زیر زمین کی دنیا ہو، جہاں جہاں پر جو کچھ ہے اللّٰہ نے حضرت آدم کو بتا دیا، اور حضرت آدم کو دنیا کی تمام چیزوں کا علم دے دینا اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے بنی آدم کے اندر تمام چیزوں کے علم حاصل کرنے کی استعداد رکھ دی ہے، جو چیز بابا آدم کو نصیب ہوئی وہ استعدادات، وہ مزاج، وہ طبعیت، وہ عادات آج بھی تو انسان کے اندر مسلسل آرہی ہے۔ مجھے شدید اختلاف ہے لیکن اب کیا کریں ہمارے بس سے بھی باہر ہے علم کو تقسیم کر دینا دینی علوم اور عصری علوم اور فلانے علوم اور فلانے علوم اور علم اور فن اور فلاں چیزیں علم کی اس تقسیم کا اختیار کس کو حاصل ہے اور کس نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم علم کو تقسیم کریں ہاں علم کے شعبے ہیں اور جس کو جس شعبے سے رغبت ہو وہاں جائے، ایک آدمی قرآن کا عالم بننا چاہتا ہے قرآن کے علوم کو حاصل کر کے قرآن کی تفسیر کرنا چاہتا ہے اس میں ایک مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے، ایک شخص حدیث کا استاد بننا چاہتا ہے، ایک شخص فقہ میں افتاء کرتا ہے، مفتی بننا چاہتا ہے، فتوے کے آداب کیا ہیں فتوے کے قوانین اور ضابطیں کیا ہیں جو دل میں آیا کہہ دیا یہ فتویٰ تو نہیں ہوتا۔ میرے والد صاحب رحمہ اللہ سے ایک بزرگ نے کہا کہ حضرت آپ فلاں کے بارے میں کفر کا فتویٰ کیوں نہیں دیتے، تو مفتی صاحب نے کہا اس لیے نہیں دیتا کہ میں مفتی ہوں، تو جتنا اس محاذ پر احتیاط کی ضرورت ہے ہمیں بس اتنا ہی شوق ہوتا ہے کہ میرے نام کے ساتھ مفتی کا لفظ لکھا جائے پھر جو دل میں آئے کہہ دو وہ شریعت ہے اور وہ فتویٰ ہے ایسا تو نہیں ہے۔

تو اس دور کے جو نئے ایجادات ہیں، نئی تحقیق ہے یہ سب علم ہے اور اس میں ترقی کرنا، آگے بڑھنا، نئے سائنسی ایجادات سامنے لانا، نئی تخلیقات کرنا یہ تو انسان کو دی گئی اس استعداد کا تقاضا ہے اس پر قدغن لگانا، اس پر رکاوٹیں ڈالنا، کسی کو یہ کہنا کہ تم یہ علم کیوں حاصل کر رہے ہو لیکن پھر ایک فائدے کا پہلو بھی ہوتا ہے نقصان کا پہلو بھی ہوتا ہے، شریعت کبھی اس کو حلال کے لفظ سے تعبیر کرتی ہے کبھی حرام کے لفظ سے تعبیر کرتی ہے کبھی فائدے کے لفظ سے کبھی ضرر کے لفظ سے، تو ان چیزوں کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے کہ آپ اس کے نقصان سے بھی بچیں۔ اب یہی سوشل میڈیا ہے یہ جدید دور کی ایجاد ہے، انسانی ایجاد ہے اس کی محنت کے نتیجے میں ہے، اس کے فائدے کے پہلو بھی ہیں اس کے نقصان کے پہلو بھی ہیں۔ آپ کہاں پر اس علم کو صرف کرنا چاہتے ہیں اب اعتبار مصرف کا ہوگا اگر آپ نے صحیح مقامات پہ فائدے کے مقامات پہ اور شریعت کی رہنمائی میں اس کو استعمال کرنا چاہا تو پھر اس کے نتائج بھی اور ہوں گے اور اس پر کوئی قدغن بھی نہیں ہوگی اور اگر اسی چیز کو آپ حرام کیلئے استعمال کرتے ہیں تو پھر حرام حرام ہے اسے روکنا بھی ضروری ہے۔ اب ایک بات میں اس مقام پر میڈیا کے دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کیونکہ میڈیا کے ساتھ تو ہمارا واسطہ پڑتا ہے زندگی تو اسی کے ساتھ گزری ہے جتنا ایک سیاسی کارکن میڈیا کے فائدے اور میڈیا کے نقصانات سے واقف ہوتا ہے شاید دنیا کا کوئی آدمی اس سے واقف نہیں، کیونکہ وہ سب کچھ بھگت چکا ہوتا ہے ہمارے ہاں بڑے ادب و احترام کے ساتھ میں بات کرنا چاہوں گا میڈیا کے جو ترجیحات ہوتی ہیں کہ کریدو، خبر حاصل کرو اور ہر قیمت پر خبر حاصل کر کے پھر جلدی سے جلدی پھیلاو چاہے اس میں حرمت انسانیت کا بیڑا غرق ہو، جس چیز سے کوئی بدنام ہوتا ہو اور مجلسوں میں اسے زیر بحث لایا جاتا ہو اسے ہم خبر کہتے ہیں۔ کسی کا عیب تلاش کر لیا اور عیب مل گیا اور خاص طور پر اگر کسی سیاستدان کی کمزوری مل گئی اس کو اچھالنا ہی تو خبر ہے، پھر ہم بیٹھے کس لیے ہیں، پھر ہم نے روٹی بھی تو کمانی ہے اور یہی ذریعہ ہے کہ ہم لوگوں کی کمزوریاں تلاش کریں ان کو اچھالیں۔

اب یہ آج کی میڈیا کی ترجیح ہے لیکن شریعت کی ترجیح کیا ہے ایک مسلمان شریعت کی ترجیح کو نظر انداز نہیں کرسکتا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے اور فرمایا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ خَلِيلٍ مَاكِرٍ، عَيْنُهُ تَرَانِي، وَقَلْبُهُ يَرْعَانِي، إِنْ رَأَى حَسَنَةً دَفَنَهَا، وَإِنْ رَأَى سَيِّئَةً أَفْشَاهَا،

"یا اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے مکار دوست سے کہ جو آنکھوں سے مجھے گھورتا ہے دل سے مجھے تاڑتا رہتا ہے اور اگر میری کوئی اچھائی ملے تو اسے چھپاتا ہے اور اگر کوئی برائی ملے تو اسے اچھالتا ہے"۔

اب ایسی عادات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کیا رہنمائی کی ہے، کیا ہم نے اس کو بھی مدنظر رکھنا ہے یا نہیں رکھنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند چیزوں سے پناہ مانگی ہے جس میں ایک، صَاحِبُ خَدِيعَةٍ، إِنْ رَأَى حَسَنَةً دَفَنَهَا، وَإِنْ رَأَى سَيِّئَةً أَفْشَاهَا،

ایسا دھوکہ مار دوست کہ اگر میری کوئی اچھائی دیکھتا ہے تو اس کو چھپاتا ہے اور اگر میری کوئی برائی دیکھتا ہے تو اس کو اچھالتا ہے۔ اور پھر انسان انسان ہے، انسان کو اللہ تعالیٰ نے خواہشات سے بھر دیا ہے اور نفس کا جو شر ہے وہ تو سب سے بڑا شر ہے، کچھ ہوتے ہیں شرور خارجیہ اور کچھ ہیں شرور نفسانیہ، اللہ تعالیٰ نے جب خارجی شرور سے پناہ کے لیے سورۃ الفلق اتاری تو شرور متعدد ہے اور مستعاذ بہ ایک صفت کے ساتھ بیان ہوا ہے، بہت سے شروں سے پناہ مانگنے کے لیے جس ذات کی پناہ مانگی جاتی ہے اس ذات نے اپنے آپ کو ایک صفت کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن سورۃ والناس میں جہاں اپنے نفس سے ایک شر سے پناہ مانگی گئی ہے وہاں اللّٰہ تعالیٰ نے جس اللّٰہ کی ذات سے پناہ مانگتا ہے وہ مستعاذ بہ اس کو اللہ نے تین صفات کے ساتھ بیان کیا ہے شر ایک اور مستعاذ بہ وہ متعدد، قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، مَلِكِ النَّاسِ، إِلَٰهِ النَّاسِ، مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔

تو اس اعتبار سے شرور ہوتے ہیں انسان کے اندر، خارجی شرور بھی ہوتے ہیں داخلی بھی ہوتے ہیں۔ اس پر اللہ سے پناہ بھی مانگی جاتی ہے وہ شر ہمیں گمراہ کرتا ہے، باہر کے اثرات آتے ہیں وہ بھی ہمیں گمراہ کرتے ہیں، اندر سے خواہشات پیدا ہوتی ہیں وہ بھی ہمیں گمراہ کرتی ہیں، یہ ہے دنیا کا وہ امتحان اور جس پر پناہ صرف اللہ کی ذات دے سکتا ہے اس کے ساتھ رابطہ کرنا ہوگا۔ جب اللہ کا خوف دل میں آتا ہے تو پھر انسان گناہوں سے رکتا ہے۔ لیکن خواہشات غالب آہی جاتی ہیں اب اگر آپ انسانوں کے کمزوریوں کی پیچھے ان کی گناہوں کی پیچھے تاڑتے تاڑتے پیچھے لگتے ہیں تو اللہ رب العزت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لا تتبعوا عورة أخيكم، اپنے مسلمان بھائی کی کمزوریوں کے پیچھے، چھپی ہوئی چیزیں جو اس نے گناہ کیے ہیں اور جس کا صرف اس کو پتا ہے اگر کوئی شریک بھی ہے تو ان کا آپس کا معاملہ ہے آپ پیچھے مت پڑیں اس کے، کہ اس کی کمزوریاں معلوم کرو، پھر کل کو اس کو بلیک میل کرو، فَيَتَّبِعُ اللهُ عَوْرَتَكُمْ، ورنہ پھر اللہ تعالیٰ تمہارے پردے کی چیزوں کے پیچھے لگ جائے گا۔ خدا کو سب معلوم ہے لیکن اس نے پردے رکھی ہوئے ہیں تو کہتا ہے جب تم کسی مسلمان کی کمزوری کی پیچھے لگو گے اور ان کا پردہ معلوم کرو گے اس کی کمزوری معلوم کرو گے تو اللہ تمہارے کمزوریوں کے پیچھے لگ جائے گا اور جس کی پھر اللہ نے تتبع کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو گھر میں بیٹھے بیٹھے رسوا کر دے گا۔ کسی کی کمزوریوں کے پیچھے پڑنا اور یہاں، یہاں تو ہم کمزوریاں نہ بھی ہو تو پیچھے لگا دیتے ہیں اور یہ کمزوریاں ہم سب میں ہیں۔ اور ہمارے ملک میں تو ہمارے اپنے ادارے، اپنے دفتر میں ڈیسک پر بیٹھ کر جھوٹ بناتے ہیں اور پھر اس کو آپ کے خلاف شائع کرتے ہیں اس وقت وہ اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور خدا کے خوف کا کوئی تصور نہیں ہوا کرتا، تو میں اپنے نوجوانوں کے ساتھ گفتگو کر رہا ہوں اور اس پہلو کو ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمیں انسانیت کے ساتھ کیا رویہ رکھنا ہے؟ ہمیں اپنے مخالف کے ساتھ کیا رویہ رکھنا ہے؟ اگر تو اس نے کوئی نظریاتی بات کی ہے، کھل کر کی ہے، میری نظر میں غلط ہے تو میں اس کے مقابلے میں اپنی رائے دے سکتا ہوں لیکن یہی خطائیں ہم سب سے ہوتی ہیں ہم سب انسان ہیں پہلے مجھ سے، پھر آپ سے، پھر دوسرے سے، پھر تیسرے سے لیکن بری عادت بری ہوتی ہے اس پہ اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں اپنی اصلاح خود بھی کرنی چاہیے۔ اگر کسی دوست میں کمزوری نظر آئے تو خاموشی کے ساتھ، ادب کے ساتھ اس کو بتا بھی دینا چاہیے کہ ایسا نہیں ہے تو اس کو اگر اس مصرف کے تحت استعمال کیا جائے تو بہت کام کی چیز ہے۔ ہمارے ہاں تو جو گالی سوشل میڈیا میں براہ راست کوئی نہیں دے سکتا کسی کو وہ سوشل میڈیا پر دیا جاتا ہے، جو جھوٹ وہ پبلک کے سامنے نہیں بول سکتا وہ جھوٹ ہم سوشل میڈیا پر بولتے ہیں، انفرادی بنیاد پر نہیں اجتماعی طور پر بھی، مملکتی طور پر بھی، ادارہ جاتی طور پر بھی بولتے ہیں۔ اب یہ پیغام کیسے پہنچے گا لوگوں میں، اپنے ورکر کو کیسے پہنچے گا، اور ظاہر ہے نوجوان ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ مجھے گالی دی گئی ہے میرے اوپر الزام لگایا گیا ہے میری جماعت پر الزام لگا ہے میرے قیادت پر الزام لگا ہے تو جذبات تو مشتعل ہوتے ہیں تو یہ بھی امتحان کا وقت ہوتا ہے کہ آپ جذبات کے تابع ہوتے ہیں یا آپ شریعت کی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ تو اس پہلو کو ہمیں ضرور مد نظر رکھنا ہوگا۔

جماعتی زندگی میں شورائیت کی بہت اہمیت ہے اور جب شورائیت ہوگی تو اسی میں اجتہاد ہوگا اگر قرآن میں کوئی چیز واضح طور پر آگئی ہے حدیث میں کوئی چیز واضح طور پر آگئی ہے واضح ہے وہاں تو شورائیت کا گنجائش بھی نہیں ہے وہاں تو سیدھا سادہ اللہ کا حکم ہے بس ختم بات،

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ،

جہاں اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ آ جائے وہاں اس کے فیصلے میں کسی مومن مرد اور عورت کو تبدیلی کی بھی اجازت نہیں ہے اور ہم اسمبلی میں قانون سازیاں کرتے ہیں قرآن کہتا ہے کہ قرآن سنت کے تابع قانون سازی ہوگی اور قانون سازی قرآن سنت کے منافی نہیں ہوگی لیکن ہم جب اسمبلی میں قانونی ڈرافٹ لاتے ہیں تو اس کے پیچھے لکھا ہوتا ہے یہ قانونی ڈرافٹ جو ہم نے بنایا ہے اور اسمبلی میں ہم پیش کر رہے ہیں قانون سازی کیلئے اس کے وجوہات کیا ہیں، اس کا سبب کیا ہے تو پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبے کے بنیاد، آئی ایم ایف کے مطالبے کے بنیاد، اٹھارہ سال سے کم بچے بچی کی نکاح پر پابندی لگائی، سات سال کی سزائیں دے دی، ہر ایک کو، نکاح خواں کو بھی، گواہوں کو بھی، دونوں طرف کے ماں باپ کو بھی، رشتہ داروں کو بھی اور پیچھے لکھا ہوا ہے اقوام متحدہ کے فلانے فلانے مطالبے کی بنیاد پر، یہ پاکستان کے حکمران ہیں جو حلف اٹھا چکے ہیں کہ ہم اس آئین کی پاسداری کریں گے، آئین کی مطابق ملک کو چلائیں گے اور یہاں ملک سے باہر کے تمام ہدایات لی جا رہی ہیں ہمیں اپنے ملک کے اندر ہمارا آئین غیر مؤثر ہمارا قانون غیر مؤثر قرآن سنت غیر مؤثر اور بین الاقوامی وہ قوانین کہ جو نہ پاکستان کے مفاد میں ہیں اور نہیں وہ علاقے کے مفاد میں ہیں نہ پاکستانیوں کے مفاد میں ہیں وہ قانون سازیاں ہم ان کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ تو پھر سمجھ جاؤ نا کہ پھر کالوریلزم کس کا نام ہے تو یہ جو اکثریتیں پیدا نہیں ہوتی، جو اکثریتیں پیدا کی جاتی ہیں جو اکثریتیں بنائی جاتی ہیں جس قماش کے لوگوں سے پارلیمنٹوں کو بھر دیا جاتا ہے یہ اسی لئے بھرا جاتا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی ہدایات اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر قانون سازیاں کرتے رہے، قرآن سنت کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اور علماء کو لڑاؤ آپس میں، مسلکی مسائل پر لڑاؤ، مناظرے کرواؤ تاکہ یہ لوگ لڑتے رہے۔ ہمارے ملک میں رویت حلال کمیٹی لیکن آپ کی معلومات کے لیے عرض کرتا ہوں کہ اس رویت حلال کمیٹی کی کوئی قانون نہیں ہے یہ بغیر قانون کے چل رہا ہے میں نے کوشش کی کہ میں اس کمیٹی کی تشکیل کے دوران کی اس میٹنگ کے منٹس کہیں سے حاصل کروں وہ بھی نہیں مل سکے ہیں جب قانون نہیں ہوگا جب سزا نہیں ہوگی تو پھر قانون نہیں ہوگا قانون ہے سزا بھی ساتھ میں، یہ اس لئے نہیں ہے تاکہ ملک کے اندر مذہبی معاملے پر رویت حلال کے مسئلے پر روزانہ جھگڑے ہو اور مولوی حضرات نشانہ بنے، مذہب نشانہ بنے، لوگ ان کو ملامت کریں اور اس ملامت سے مذہبی طبقہ اور علماء نہ نکل سکیں، محرم کا مہینہ آتا ہے، ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے کچھ مکاتب فکر اس میں اپنے جلوس نکالتے ہیں اپنا انداز ہے ان کا، لیکن کوئی ضابطہ ستتر سال میں اس کے لیے نہیں بنا۔ کہ اس میں وقت کیا ہونا چاہیے طریقہ کیا ہونا چاہیے روٹ کیا ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے، عمدًا نہیں کیا جا رہا تاکہ مختلف مکاتب فکر اس مسئلہ پر لڑتے رہیں اور ان کی باہمی لڑائیوں کے نتیجے میں تاثر یہ ہو کہ مذہبی لوگ تو فرقہ پرست ہوتے ہیں یہ تو آپس میں لڑتے رہتے ہیں، بھئی ریاست کی سطح پر اس کا انتظام کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ لڑتے رہے ہیں۔

پارلیمنٹ میں ایک خصوصی کمیٹی کا اجلاس تھا اور ہمارے کچھ سیاسی رہنماؤں نے کہا کہ آئین سے مذہب کو نکال دو، سیاست و مذہب کا تعلق ریاست اور مذہب کا تعلق اسی لیے یہ تباہی مچائی ہوئی ہے کہ فرقہ پرستی، فرقوں کا آپس میں لڑائیاں فسادات یہ اسی لیے ہیں کہ ہم نے ریاستی نظام میں مذہب کو دخل اندازی کا موقع دیا ہے۔ تو میں نے ان سے کہا جی اس بات کو ذرا اگر سنجیدہ لے لیں اور ہمیں اپنا نکتہ نظر بیان کرنے دیں تو ہم کچھ عرض کر دیتے ہیں آپ کے سامنے، تو مجھے کہا جی آپ بھی کہیں، میں نے کہا کہ ملک میں فساد کی وجہ صرف فرقہ واریت نہیں ہے میں اس کا انکار نہیں کر رہا کہ فرقہ واریت فساد کی وجہ نہیں ہے فرقہ پرستی فساد کی وجہ ہے لیکن صرف فرقہ پرستی وجہ نہیں ہے بلکہ لسانیت، قومیت، علاقائیت، صوبائیت یہ بھی تو فساد کی وجوہات ہیں اس ملک میں کبھی پشتون پنجابی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے، کبھی پشتون بلوچ کا سوال پیدا ہو جاتا ہے، کبھی مہاجر سندھی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے، کبھی سرائیکی پنجابی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے اور ہماری اس تاریخ میں کتنے فسادات ہوئے کتنی تلخیاں آئیں یہ بھی ہماری تاریخ ہیں نا، اب آتے ہیں ان نظریات کی قیادت کی اور قیادت کی کردار کی طرف، مذہبی دنیا کی جو سیاسی قیادت ہے اس سیاسی قیادت نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کردار ادا کیا ہے وہ قرارداد مقاصد ہو جو پاکستان کی پہلے جس سال اسمبلی نے پاس کیا، وہ بائیس اسلامی دفعات ہو سن انیس سو اکیاون کے جسے تمام مکاتب فکر نے متفقہ طرف پر طے کیا اور آج بھی اس پر اختلاف نہیں ہے نہ قرارداد مقاصد پر اختلاف پیدا ہوا نہ بائیس اسلامی دفعات پر اختلاف پیدا ہوا اور مختلف مذہبی جماعتیں اپنے منشور میں بائیس اسلامی دفعات کا ذکر بھی کر دیا، آئین بنا، آئین کے تمام اسلامی دفعات پر اتفاق رائے تمام مکاتب فکر نے کیا، اسلامی نظریاتی کونسل بنی آج بھی اس کے تمام سفارشات متفقہ ہیں کونسل کے اندر بھی اور کونسل سے باہر بھی، اور ایم ایم اے تک آجاؤ اس مذہبی قیادت نے ہم آہنگی کے لئے کردار ادا کیا ہے ہاں سوسائٹی کے اندر فرقہ پرست عناصر موجود ہیں اس کا انکار نہیں، لیکن یہ فرقہ پرست عناصر یہ اس وقت آپس میں لڑتے ہیں جس وقت میری حکومتیں چاہتی ہیں اور میری ایجنسیوں کی ضرورت ہو، ریاستی ادارے اس کا باقاعدہ اہتمام کرتی ہیں اس کا باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہیں اور وہی آپس کے لڑائیوں کے لیے تمام نظام پیدا کرتی ہیں تاکہ فرقے آپس میں لڑتے رہے اور علماء کے ہاتھ اور ان کی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوں اور ہم پر دباؤ نہ آئے کہ ہم قرآن اور سنت کے مطابق جو ہے وہ ہم سے کہیں کہ قانون سازی کرو۔

تو قیادت کا تو یہ کردار ہے اور فتنہ آتا ہے تو وہ منصوبہ بندی کہاں سے ہوتی ہے اس کا بھی آپ انکار نہیں کرسکتے ہم بھی دیکھتے ہیں لیکن لسانیت علاقائیت صوبائیت اور اس حوالے سے نفرتیں اور اس حوالے سے تعصبات اور اس حوالے سے لڑائیاں اس کی قیادت تو میں نے کہا آپ حضرات جو میرے ساتھ بیٹھے ہیں یہی کر رہے ہوتے ہیں تو پھر آپ کا جو نعرہ ہے آپ کا جو نظریہ ہے اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے اس کو آئین میں بین کردینا چاہیے اور جہاں پر ہم آہنگی کی باتیں ہوتی ہیں وہی ملک کا نظام ہونا چاہیے۔ یقین جانیے میرے دوستو ایسا سناٹا چھایا کہ ایک بزرگ کو مسکراتے ہوئے کہنا پڑا کہ بھئی کوئی ایک بندہ یہ اتنا لفظ تو کہہ دے کہ فضل الرحمن سے ہمارا اختلاف ہے تاکہ کوئی لفظ ریکارڈ پر تو آئے اور اس کے ساتھ ہی اجلاس جو ہے ملتوی ہو گیا۔

تو اس حوالے سے جمعیت علماء کو سمجھنا چاہیے، جمعیت علماء اسلام کی بات کرتی ہے وہ اسلام جو پوری انسانیت کو امن فراہم کرتا ہے جو تمام انسانوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتا ہے آج اگر میں سیاست کرتا ہوں ایک سیاسی جماعت ہوں میں، اس تصور کے ساتھ کہ کسی وقت ہماری حکومت بھی آسکتی ہے تو حکومت کے بعد کیا پھر ہم یہاں پاکستان میں موجود غیر مسلموں کو حقوق نہیں دیں گے، کیا ہم ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کریں گے، کیا ہم اپنے مخالف جو ہمارے مکاتب فکر ہیں فرقے ہیں ان کو حقوق نہیں دیں گے اور جب کل حکومت میں، میں نے ان کو یہ سارے حقوق دینے ہیں اور حکومت سے پہلے میرا رویہ یہ ہو کہ وہ یہ سمجھے کہ اگر ان کی حکومت آئی تو ہمیں زبح کریں گے اگر میں نے حکومت میں آنے کے بعد آئین و قانون کے تحت اور اسلامی تعلیمات کے تحت ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے تو حکومت میں آنے سے پہلی بھی میری سیاسی منہج یہی ہونا چاہیے کہ میں ان کے حقوق کی بات کروں اور ایک قوم کی بات کروں۔

جمعیت علماء کے اکابرین میں دو چیزیں ہمیں امانتاً دی ہیں ایک جمعیت علماء کا عقیدہ و نظریہ اور دوسرا اس عقیدہ و نظریہ ایک کام کرنے کا منہج اور رویہ، یہ چیزیں ہمیں سب سے ممتاز کر دیتی ہیں اور آپ کو کوئی نقصان اس سے نہیں ہوا، ایک جمعیت علماء ہے اس نے اپنی کوئی مسلکی یا مذہبی شناخت ختم نہیں کی لیکن اسلام کا وہ عالمگیر تصور وہ عالمگیریت و آفاقیت جب اس حوالے سے ہم نے کام کیا ہے تو ہمیں عوام نے قبول کیا ہے ہم پبلک میں جاتے ہیں اور عوام کہتی ہے کہ ان رویوں کے ساتھ ہمیں اسلام بھی قبول ہے اور علماء بھی قبول ہیں۔ 

تو یہ ایک منہج ہے جس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمعیت پھیل رہی ہے عوام میں اور جب آپ جلسے کرتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے اور آپ کو پتہ ہے پھر آپ کے اس بڑے بڑے جلسوں کو لوگوں میں دماغوں میں اس کی تحقیر پیدا کرنے کے لیے یہ تو مدرسوں کے طلباء ہیں اگر مدرسوں کے طلباء دس لاکھ سے زیادہ ہوں تو پھر تم کس لیے ہو تمہیں تو جانا چاہیئے پھر تو، اتنے بیوقوف ہیں یہ لوگ کہ انہوں نے اپنے اس جاہلانہ سوچ اور اس تصور کو حقیقت سمجھ لیا، یہ عجیب لوگ ہوتے ہیں ایک وہم کی بنیاد پر نظریہ قائم کر لیتے ہیں اور پھر اس کو سچ مچ حقیقت سمجھتے ہیں خود بھی اپنے اپ کو بیوقوف بناتے ہیں تو انہوں نے اپس میں مشورہ کیا کہ یہ جو ان کے مولوی صاحب کے جلسے ہوتے ہیں نا ان میں بہت زیادہ لوگ ہوتے ہیں مدرسوں کے لوگ ہوتے ہیں اور مدرسوں کو توڑتے ہیں تو ہمارے مدارس کو توڑا انہوں نے تاکہ طلباء تقسیم ہو جائیں گے مولوی تقسیم ہو جائے گا تو ان کے جلسے کمزور ہو جائیں گے اوئے کمبختوں یہ تمہارا وہم تھا اپنے وہم کی بنیاد پر تم نے عمارت کھڑی کی موہوم عمارت اور اب اس کے بعد بھی تو ہمارے جلسے اس سے بڑے بڑے ہوتے ہیں۔

تو ان چیزوں کو متنظر رکھتے ہوئے ہمیں تھوڑا سا آگے بڑھنا ہوگا دنیا کو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دنیا کدھر جا رہی ہے اس کے سمت کیا ہے اس وقت، دو سو تین سو سال قبل دنیا کی معیشت ایشیا کے ہاتھ میں تھی لیکن نو آبادیاتی نظام کے آنے کے بعد اقتصاد یورپ کے قبضے میں چلا گیا آج پھر دنیا کا اقتصاد پلٹا کھا رہا ہے، وہ روس جسے ہم خدا کا منکر کہتے تھے وہ روس جس کو ہم کیمونسٹ کہتے تھے، دہریہ کہتے تھے آج اس روس کا سربراہ مسجدوں میں جاتا ہے قرآن کریم کو سینے سے لگاتا ہے اس کو بوسہ بھی دیتا ہے اور سورت فاتحہ بھی یاد کرتا ہے، مغرب اور یورپ جس نے ساری زندگی مسلمانوں کے جذبات پر استعمال کیا آج وہ سب سے زیادہ اسلام اور مذہب کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں کہ یہ سر نہ اٹھا سکے جی، اسی لئے ہمارے اندر تفرقہ پیدا کیا یہ شدت پسند اور یہ انتہا پسند اور یہ روایت پسند اعتدال پسند اور یہ روشن خیال، روشن خیال جو ہوتا ہے نا جی وہ اپنا بندہ ہوتا ہے اور ایسے ایسے سکالرز پیدا کیے کہ جو قرآن کریم اور حدیث کی ایسی تعبیرات کرتے ہیں کہ جو مغرب کے لئے قابل قبول ہیں۔ چودہ سو سال کی سند کو نظر انداز کرتے ہیں، چودہ سو سال کی تشریحات کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنی نئی تشریحات کر کے وہ دنیا کو بتاتے ہیں کہ اسلام تو ایسا نہیں ہے اور وہ بھی ان کو پروپیگیٹ کرتے ہیں۔

تو یہ وہ محاذ ہیں جہاں آپ نے اسلام کی حقیقی تصور کو اس کے عالمگیر اور آفاقی تصور کو اس کے انسانی تصور کو اجاگر کرنا ہے اور جو قباحتیں باہر سے ہمارے معاشرے کے اندر لائی گئی ہیں اس سے ہمیں معاشرے کو پاک کرنا ہے، ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں لیکن غلط غلط ہے ہماری تو کردار کشی کی گئی، کیا کچھ نہیں کہا گیا میری بہتر سال عمر پوری ہو رہی ہے انگریزی حساب سے اور قمری حساب سے چوہتر سال پوری ہو رہی ہے اتنے تمام الزامات میں نے بھگت لیے کوئی ایک ایف آئی آر تو درج ہو جاتا کم از کم، تو اس قسم کی چیزیں جو ہیں یہ امتحانات ہوتی ہیں یہ مقابلہ ہوتا ہے جو آپ نے کرنا ہوتا ہے اور ان شاءاللہ ہم ان حدود سے آگے نکل چکے ہیں اب ایک ہی چیز رہ گئی ہے کہ وہ ہمیں جان سے مارنے کی سازشیں کریں، کتنے جمعیت علماء کے ساتھی شہید ہوئے، نوے جنازے ہم نے بیک وقت باجوڑ سے اٹھائے، اسی رمضان شریف کے آخری عشرے میں ہم نے بیس شہادتیں اٹھائیں کس جرم کی پاداشت میں، لیکن اگر ملک کے خلاف کوئی بات کرتا ہے ملک سے علیحدگی کی بات کرتا ہے ملک کے اندر نفرتوں کی بات کرتا ہے جبر کی بات کرتا ہے بندوق سے مسائل کو حل کرنے کی بات کرتا ہے تو اس نظریے سے ہم نے اختلاف کیا ہے اور پہلے دن سے کیا ہے اور آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہمارا اپنا نظریہ جاری رہے گا۔

تو اس پاداشت میں آپ نے مجھے قتل کرنا ہے یہ کوئی طریقہ ہے، کب انسان کی جان آپ کے لئے حلال ہو گئی، کب ایک مسلمان کا خون آپ کے لئے حلال ہو گیا، کبھی قومیت کی بنیاد پر ہم انسانوں کو قتل کرتے ہیں، کبھی مذہب کی بنیاد پر ہم انسانوں کو قتل کرتے ہیں، یہ خون خرابہ ہے اور افغانستان اور پاکستان کے تمام علماء کا اجماعی فتویٰ ہے کہ یہ جہاد نہیں ہے یہ محض جنگ ہے تو پھر ہمیں علماء کی رائے کے پیچھے جانا چاہیے، وفاق المدارس کی یہی رائے ہے، تمام مکاتب فکر کی یہی رائے ہے، ان کے اجلع علماء کی یہی رائے ہے۔

تو ہمیں اس ماحول کو آگے لے جانا چاہے جو جمہوریت کے ج سے بھی واقف نہیں ہیں وہ بھی فتوے لگاتے ہیں جمہوریت کفر ہے، یہ فتوے تو ہم پر ہر زمانے میں لگتے رہے ہیں، ہمارے اکابر بھی شہید ہوئے ہیں انہیں فتووں کے زد میں لیکن ہم تو بڑھتے جا رہے ہیں کم تو نہیں ہو رہے ہیں۔ تو ان چیزوں سے مرعوب نہیں ہونا، حالات کے ساتھ ان شاءاللہ بہتر انداز سے ہم جا رہے ہیں اور ہم سب کی بہتری چاہتے ہیں ہم نے کسی کے ساتھ دشمنی کا رویہ نہیں اپنایا، اختلاف کا رویہ ہمارا حق ہے۔ وہ اقوام متحدہ بھی ہمیں دیتا ہے، انسانی حقوق کنونشن بھی ہمیں دیتا ہے، کیا تعلیم کس نے حاصل کرنی ہے اس کا حق بھی دیتا ہے تو میرے مدرسہ کے علم کو بھی وہی حق ملنا چاہیے۔

تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں جس کو آپ حضرات نے ایڈریس کرنا ہے اور اسی کو آپ نے آگے لے جانا ہے تاکہ ہم ملک، قوم، ملت اور دنیا کے انسانیت کی خدمت کرسکیں۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض 

ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

#teamJUIswat

کراچی: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ ڈیجیٹل میڈیا تربیتی کنونشن سے خطاب فرما رہے ہیں۔

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Saturday, June 14, 2025

0/Post a Comment/Comments