مولانا فضل الرحمٰن کا جے یو آئی بپنجاب کے جنرل کونسل کے اجلاس سے اہم خطاب، ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر انتہائی اہم گفتگو

مری: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا جے یو آئی پنجاب کے جنرل کونسل کے اجلاس سے اہم خطاب، ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر انتہائی اہم گفتگو۔ 

22 جون 2025

الحمدلله رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلیٰ یوم الدین۔ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ، صدق اللّٰہ العظیم

جناب صدر محترم، اکابر علماء کرام، جمعیت علماء اسلام صوبہ پنجاب کی مجلسِ عمومی کے معزز اراکین، میں اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتا ہوں کہ آپ حضرات کے اس اجتماع میں کچھ لمحوں کے لیے شریک ہو رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو مزید ترقیوں سے نوازے اور اسے اس قابل بنائے کہ وہ اس ملک کو اسلام کا عادلانہ نظام دے سکے اور اپنی بھرپور قوت کے ساتھ وطنِ عزیز کو طاقتور بنا سکے۔ لیکن قوت بننے کے لیے اللہ کی مدد اور اس کی نصرت ضروری ہے۔ اللہ کی نصرت سے اور اس کی مدد سے بے نیاز ہو کر جب ہم کوشش کریں گے، تو انسانی طاقت کی بنیاد پر محنت تو ہوگی، لیکن اس میں نہ برکت ہوگی اور نہ ہدایت ہوگی۔ اب جب انسان توانائیاں بھی صرف کرے، محنت بھی کرے، اور اس محنت میں نہ صحیح سمت معلوم ہو سکے، نہ اس میں کوئی برکت محسوس ہو سکے، تو پھر ظاہر ہے کہ تمام تر دنیوی محنتیں اور کاوشیں ہیں یہ تو اخروی کامیابیوں کے لیے ہیں اور اگر ہماری کسی کوشش اور محنت پر اخروی کامیابی کا نتیجہ مرتب نہ ہو، تو پھر تو زندگی کو ضائع کرنے والی بات ہے۔ تو سب سے اولین چیز اخلاص اور نیک نیتی ہے۔ جماعت، جماعت ہے، اور اللہ کی مدد و نصرت اس میں تب آتی ہے جب سب سے پہلے اخلاص تو ہو، اللہ کی رضا مندی مقصود ہو۔ اور جب اللہ کی رضا مندی مقصود ہوگی، تو اپنی ہزار رضا مندیاں اس کے لیے قربان کرنی پڑیں گی۔

میں یہ چاہتا ہوں، اور ہم یہ چاہتے ہیں، اور ہر قیمت پر یہ ہونا چاہیے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو اللہ کی رحمت کا راستہ روک دیتی ہیں، اس کی نصرت کا راستہ روک دیتی ہیں۔ تو یہ علماء کی جماعت ہے، اور علماء کی جماعت میں اگر وہ اقدار نہ ہوں، اور اس کی محنت کے وہ معیارات نہ ہوں، جس کی تعلیم جنابِ رسول اللہ ﷺ نے دی، تو عوام آپ کے فیصلوں پر اعتماد نہیں کریں گے۔ ویسے بھی ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جمعیت علماء برصغیر کی سب سے قدیم جماعت ہے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پر قبضہ کیا اور باقاعدہ اپنی حکومت کا اعلان کیا، تو اٹھارہ سو تین میں حضرت شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ نے برصغیر کو دار الحرب قرار دیا اور جہاد کو واجب قرار دے دیا۔ یہ سلسلہ اٹھارہ سو ستاون تک جاری رہا۔ جب انگریز کو غلبہ ہو گیا، آزادی کی تحریکیں ٹوٹ گئیں، تو انگریز نے سب سے پہلا جو حملہ کیا اور سب سے اولین چیز جو نشانے پہ رکھی وہ تعلیم کا میدان تھا۔

آپ خود سوچیں، آج کل دینی مدرسہ ایک بہت بڑا سوال ہے دنیا میں، جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں، ان سے ذرا پوچھا جائے کہ کیا اٹھارہ سو ستاون سے پہلے بھی کوئی الگ سا دینی مدرسہ تھا؟ کیا اس وقت بھی تعلیم کی یہ تقسیم (دینی اور عصری) تھی؟ اور کیا آج بھی برصغیر سے باہر اس دینی مدرسہ کا کوئی تصور ہے، یا تعلیم کی تقسیم کا یہ کوئی تصور دنیا میں ہے؟ تو پھر برصغیر کی تاریخ کے حوالے سے مدرسہ کو دیکھنا چاہیے اور اس کے بنیادی اسباب و عوامل کو جانچنا چاہیے کہ مدرسہ کیوں بنایا گیا، کہ انگریز نے سب سے پہلے علی گڑھ میں مدرسہ قائم کیا، اور اس مدرسہ کے نصاب سے قرآنی علوم، حدیث کے تمام علوم، فقہ کے سارے علوم، اور فارسی زبان (جو برصغیر کی سرکاری زبان تھی) نکال دیے گئے۔ جب یہ سارے مضامین نکال دیے گئے، تو ان علوم کو تحفظ دینے کے لیے ہمارے اکابرین نے ایک طالب علم اور ایک استاد سے مسجد کے اندر ایک درخت کے نیچے اس تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ اس سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ پورے علماء کا ایک طبقہ پیدا کیا، اور اس دارالعلوم کے پہلے طالب علم نے جس کا نام محمود حسن تھا، اس نے حضرت شیخ الہند کا خطاب حاصل کرکے تحریکِ خلافت شروع کی۔ جنگِ عظیم اول میں وہ گرفتار ہوئے، انیس سو انیس میں مالٹا سے واپس ہوئی، اور یہاں پر جمعیت علماء کی تجویز حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ نے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ، ان اکابر نے اس کی بنیاد رکھی۔

اس کی بنیاد دیوبندیت یا مسلکیت کی بنیاد پر نہیں تھی، ہندوستان کے تمام علماء کو اکٹھا کیا گیا، اور پورے ہندوستان کی جمعیتِ علماء ہند بنائی گئی۔ اور جب وہ تشریف لائے، تو یہ تجویز ان کے سامنے رکھی، آپ نے قبول فرمایا۔ لیکن اس دوران انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بیماری اور ضعیف العمری کے باوجود آپ علی گڑھ گئے اور آپ نے ان سے کہا کہ تعلیم کی تقسیم انگریز نے کی، آئیں ہم نصاب ایک کردیں۔ انگریز کی بیوروکریسی سے لے کر آج کی پاکستان کی اس وقت کی بیوروکریسی تک، ایک متفقہ نصاب کے لیے ہماری بیوروکریسی تیار نہیں ہوتی۔ نہ انگریز کی اسٹیبلشمنٹ اس کے لیے تیار ہوئی، نہ آج تک ستتر سال کے بعد پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس بات کے لیے تیار ہیں۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھی دینی مدرسوں کا خاتمہ چاہتی تھی، اور آج کی اسٹیبلشمنٹ بھی دینی مدرسوں کا خاتمہ چاہتی ہے، لیکن وہ نہ اس وقت کامیاب ہوئے، نہ آج۔

مدارس کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، اور اس میں طلبہ کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

جمعیت علماء کے قیام سے باقاعدہ ایک سیاسی تحریک جماعتی انداز میں چلی، اتنی لمبی تحریک کے حامل پاکستان میں اور کون ہے، ہر ایک آج کی سیاست کر رہا ہے اور آج کی روشنی میں کر رہا ہے، معروضی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسی بناتا ہے، اور صرف آپ ہیں جو ڈیڑھ دو سو سالہ تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا مستقبل طے کر رہے ہیں۔

تو نئی نسل کو یہ چیزیں پڑھاو، نوجوانوں کو یہ چیزیں سمجھائیں۔ آج مغرب کی تہذیب کیا ہے؟ مغرب کی تہذیب کا اولین زینہ نئی نسل کو بزرگوں کی نسل سے لا تعلق کرنا ہے۔ یہ جو بات کرتے ہیں نا موروثیت اور موروثیت، ایک عالمی دین، وہ قرآن کی علوم کا حامل ہے، حدیث کے علوم کا حامل ہے، فقہ کا ماہر ہے، افتاء کا ماہر ہے، اور وہ اپنی اولاد کو بھی قرآن و حدیث کا عالم بنا دیتا ہے، فقہ کا عالم بنا دیتا ہے، دینی علوم کا حامل بنا دیتا ہے۔ تو یہ گناہ ہو گیا، اس کو موروثیت کہیں گے آپ؟ اور پھر سیاسی موروثیت، سیاسی موروثیت کی بات وہ کرے گا جو اسلام سے بے نیاز ہے، شریعت سے بے نیاز ہے، ورنہ سیاست تو انبیاء کا وظیفہ ہے، اور انبیاء، نبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی، تو ہم پوری زندگی کے لیے رہنما اصول انبیاء کی زندگی سے لیتے ہیں، انبیاء کے سلسلے سے وہ سارے اصول لیتے ہیں۔ اگر یہ سیاست بری چیز ہے، تو پھر مغرب اور امریکہ کی تعلیمات کی روشنی میں سیاست بری چیز ہے، انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں یہ تو مستحسن چیز ہے، یہ تو شریعت ہے، یہ تو عبادت ہے۔

تو اس اعتبار سے یہ امتیاز ہمیں برقرار رکھنا ہے، ان کے پروپیگنڈے سے مرعوب نہیں ہونا، کیونکہ پروپیگنڈے کی طاقت ان کے پاس ہے۔ لیکن اس ساری کش مکش سے گزر کر آج جمعیتِ علماء اسلام پاکستان کی سطح پر ایک مسلمہ سیاسی قوت ہے، اور دنیا میں اس کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی ایک جماعت ہے جو مذہبی ہے، علماء کی ہے، داڑھی پگڑی کی ہے، لیکن وہ مسلک کے حصار میں بند نہیں ہے وہ عوام میں چلے گئی، اور اس پر اب عوام کا اعتماد آ رہا ہے۔

تو ہم نے اس حالات کو دیکھ کر آگے کے مستقبل کو مرتب کرنا ہے۔ میرے بھائیوں، ہر چند کہ مغربی دنیا ہمارے مذہب پر بھی حملہ آور ہے، ہماری تہذیب پر بھی حملہ آور ہے، ہماری معیشت پر بھی حملہ آور ہے، ہماری تعلیم پر بھی حملہ آور ہے، اور وہ مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ نام کے مسیحی ہیں، لیکن مسیحیت کوئی مذہب نہیں ہے۔ یہودیت اگر ہے تو ایک نسلی مذہب ہے جو دنیا پر مسلط ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ مغرب ایک تہذیبی قوت ہے جو دنیا پر مسلط ہونے کی کوشش کر رہا ہے، اور پھر اس سے آگے جا کر دنیا میں معاشی جنگ ہے۔ ہم نے ہر پہلو پر نظر رکھنی ہے۔

اب آپ نے خود دیکھا کہ اس پارلیمنٹ میں، کہ جس پارلیمنٹ نے خود آئین بنایا، اور اس آئین میں لکھا کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے، اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں ہوگا، جنرل مشرف کے زمانے میں قانون بنایا گیا، حقوقِ نسواں کے نام پر، اور زنا بالرضا کے لیے راستے کھولے گئے، ان کو سہولیات فراہم کی گئیں۔ اور آج ایک قانون بنا، اٹھارہ سال سے کم عمر کے نکاح پر پابندی کا، اور اگر کیا تو پھر سات سال تک قید، اب اس کو ہم کس طرح اسلامی ریاست کہہ سکتے ہیں، جس میں زنا کے لیے تو سہولیات مہیا کی جائیں، اور اٹھارہ سال سے پہلے اگر وہ دوستیاں کریں، نکاح کیے بغیر زنا کریں، تب تو اس کے لیے سہولتیں، لیکن جائز نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی گئیں؟ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ ریاست نام کی تو اسلامی ریاست ہے، لیکن عمل کے لحاظ سے جب تک یہ لوگ حکمران ہوں گے، یہ تماشہ روز آپ دیکھتے رہیں گے۔

تو اپنی قوت بڑھاو۔ میں تو دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج اکیسویں صدی ہے، اکیسویں صدی سے پہلے بیسویں صدی ہے، اور بیسویں صدی سے پہلے انیسویں صدی ہے۔ پس ان تین صدیوں میں ہم ذرا جانچ لیتے صورتحال کو، زیادہ پیچھے نہیں جاتے۔ جب انیسویں صدی میں برصغیر کی سیاست علماء کرام کے ہاتھ میں تھی، ایک فرقہ وارانہ فساد بتاؤ کہ برصغیر میں برپا ہوا ہو؟ قومیت، علاقائیت، یا لسانیت کی بنیاد پر ایک فساد بتاؤ جو برصغیر میں برپا ہوا ہو؟ لیکن جب سے برصغیر کی سیاست علماء کی بجائے وکلاء اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں گئی، ابھی خون تھم نہیں رہا، چاہے فرقہ واریت کی بنیاد پر ہو، لسانیت کی بنیاد پر ہو، قومیت یا علاقائیت کی بنیاد پر ہو، قوم کو سمجھانا ہے ہم نے، ہم قوم کے سامنے یہ باتیں نہیں کرتے۔ ہم اب بھی قوم کے سامنے جاتے ہیں تو بہت سے معمولی مسلکی قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ سو آج امن و امان کا مسئلہ ملک کو درپیش ہے۔ امن و امان کی صورتحال ہماری اسٹیبلشمنٹ کی غلط حکمتِ عملیوں کے نتیجے میں ہوئی ہے غلط حکمتِ عملی کے نتیجے میں، جن کی حکمتِ عملی سے ہم آج اس صورتحال سے دوچار ہیں، آج اس کی ذمہ داری ہم پہ ڈال رہے ہیں۔ پگڑی داڑھی والا دہشت گرد ہے۔ میں پوچھتا ہوں، افغانستان کے جہاد میں پگڑی داڑھی کو جہاد کی طرف دعوت دینے والا کون تھا۔ ہم تو سیاسی لوگ ہیں ایک نظریہ کی حمایت کریں گے، تو ہم نے افغانستان میں جہادِ افغانستان کی حمایت کی، لیکن دنیا بھر کے مجاہدین کو بلا کر اس جہاد میں شریک کرنا، اسلحے کی ان کی تربیت دینا، کروز میزائل کی ان کو تربیت دینا، یہ ساری چیزیں تم نے نہیں کی تھیں، گناہ تمہارے سزا ہمیں دی جا رہی ہے اس کی، دہشت گردی کی بنیاد تم نے ڈالی، عسکریت کی بنیاد تم نے ڈالی، اور آج سزا دینی مدارس کو دی جا رہی ہے۔

او بیٹھو ہمارے ساتھ، حساب کتاب کرتے ہیں۔ ہم آج بھی اس پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ اور یہ جو آج ہم پورے خطے میں، چین، بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، افغانستان، ایران، تمام خطوں میں، صرف پاکستان ہے جس کی معشیت گری ہوئی ہے اور گر رہی ہے ۔ جب مغرب کی خواہشات ہوں گی، اور نظامِ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہوگا، اور اقتدار ان کو ملے گا جن کو وہ چاہیں گے، اور جس کو عوام چاہیں گے، وہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے، تو پھر جب ملک کی معیشت تباہ ہوگی، تو ذمہ داری کس پر لادی جائے گی؟ یہ ساری چیزیں قابلِ اصلاح ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کی فکر ہے۔ معاشی طور پر ہم طاقتور نہیں ہوں گے، تو دنیا ہمارے ساتھ کاروبار نہیں کرے گی۔ آج اس وقت جب ہم اور آپ بیٹھے ہیں، اس حوالے سے افغانستان ہم سے بہتر ہے۔ اٹھتر افغانی ایک ڈالر ہو گیا، اور ہمارے دو سو آسی روپے ایک ڈالر ہو گئے۔ اور روس بھی وہاں سرمایہ کاری کے لیے جا رہا ہے، چین بھی وہاں جا رہا ہے، یورپی ممالک بھی وہاں جا رہے ہیں، امریکہ بھی دلچسپی لے رہا ہے، اور ہماری یہ حالت ہے۔

تو جہاں نہ امن ہوگا، جہاں نہ معاش ہوگا، لوگ کیسے سکون کی زندگی گزار سکیں گے؟

وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا قَرْيَةًۭ كَانَتْ ءَامِنَةًۭ مُّطْمَئِنَّةًۭ يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًۭا مِّن كُلِّ مَكَانٍۢ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ ٱللَّهِ فَأَذَاقَهَا ٱللَّهُ لِبَاسَ ٱلْجُوعِ وَٱلْخَوْفِ بِمَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ۔

ایسی آبادی جس میں امن بھی ہے اور اطمینان بھی، اور امن اور اطمینان دونوں کی علت اور وجہ معاشی خوشحالی ہے۔ لیکن جب قوم نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا، نا شکری کی، تو پھر اس کے بدلے میں اللہ نے سزا تو دی، اور کیا سزا دی؟ بھوک اور بدامنی کی۔

اس مسئلے کے حل کی کوئی فکر نہیں، طاقت کا استعمال، اور طاقت کا استعمال، اور ان حالات میں ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام کو شکایات اور تحفظات تھیں، لیکن جب ملک کی سلامتی کا سوال آیا، تو جمعیت علماء نے سب سے پہلے کہا کہ پاکستانی قوم ایک صف ہوگی، اور ایک فضا بنائی، گلے شکوے اپنی جگہ پر، لیکن ملک جتنا تمہارا ہے، اتنا ہمارا ہے۔ ایک جرنیل کے جیب میں جو شناختی کارڈ ہے، اور جس کی بنیاد پر وہ پاکستانی ہے، ایک غریب آدمی کے جیب میں بھی وہی شناختی کارڈ ہے، اور اس کی بنیاد پر وہ پاکستانی ہے۔ کوئی ملک میں اپنے آپ کو اتنا اونچا نہ سمجھے۔ آئیں معاملات کو مشاورت کی بنیاد پر طے کریں۔ وحی تو نہیں آئے گی اب، بند ہو گئی، لیکن مشورہ تو ہوگا، شورائی نظام تو قائم رہے گا۔ اور غزوہِ احد میں جو صورتحال بنی، فتح شکست سے بدل گئی، صفیں دربدر ہو گئی، خود رسول اللہ ﷺ زخمی ہوئے، غار میں پناہ لینی پڑی، ستر صحابہ کرام شہید ہو گئے، آپ کے چچا کو جس بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا، یہ سارے مناظر آپ نے دیکھے۔ تو متقاضی بشریت جس کرب کا اس دن آپ کو احساس ہوگا، اس کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے؟ اور شاید دل میں یہ بھی بات آئی ہو کہ پھر تو ان لوگوں سے مشورہ نہیں کروں گا، میں خود فیصلہ کرتا، یہ میرے فیصلے کے پابند تھے۔ لیکن اللہ رب العزت نے صحابہ کرام کی سفارش کی، صحابہ کرام کی سفارش اللہ کر رہا ہے۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ۔

جس جماعت سے اللہ کہتا ہے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو، کہ ان سے مشورہ کیا کرو، تو یہ صحابہ کرام کی معیارِ حق ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشورہ جو ہے، وہ اجتہاد کی بنیاد پر ہوگا۔ جس معاملے میں نص وارد ہے، وہاں تو مشورہ ہوتا ہی نہیں، مشورہ تو وہاں ہوگا جہاں آپ رائے دیں گے، جہاں نص واضح نہیں ہوگا۔

تو سب سے پہلی جماعت صحابہ اکرم کی ہے، اور اللہ کا حکم رسول اللہ ﷺ کو ہوا، وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ۔ امت کی پہلی جماعت، امت کی پہلی جماعت، صحابہ کرام کی ہے، اور اس کی خصوصیت بیان کی گئی، وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ۔ ان معاملات کو شوریٰ کے ذریعے طے کرنا۔ تو امت کے اولین مجتہد تو وہی ہوئے نا، اور سب کے سب مجتہد، لیکن وہ شوریٰ آج بھی زندہ ہے، یہ چلتا رہے گا قیامت تک شوریٰ کا دروازہ کھلا ہے۔

تو ہمارے پاس قرآن کی رہنمائی بھی ہے، جنابِ رسول اللہ ﷺ کی رہنمائی بھی ہے، اور صحابہ کرام کی رہنمائی بھی ہے۔ اور پھر جن آئمہ مجتہدین نے براہِ راست صحابہ کرام سے روایات لے کر نئے مسائل پر استنباط کیا ہے اس اجتہاد کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ تو ہمیں اسلام کی وہ جماعت بننا ہے۔ ہمیں اس کی پیروی کرنی ہے، ہم نے تو دکانیں بنا رکھی ہیں۔ ہمارے سیزن آتے ہیں ناں، کبھی ربیع الاول کا سیزن آئے گا، تو ہمارے خطیبوں کی ڈائری کا ایک ورق بھی خالی نہیں ہوگا۔ کبھی محرم بھی آئے گا، تو شیعوں کے ذاکروں کا، اور ہمارے خطیبوں کا کوئی ایک ورق بھی خالی نہیں رہتا۔ سال میں یہی دن ہوتے ہیں اور ہم معاشرے کو تقسیم کرتے ہیں۔ سب سے بڑا مجاہد وہ ہے جو نکل کر بریلوی پر تنقید کرے، اور بریلوی نکل کر دیوبندی پر تنقید کرے۔ شیعہ سُنی پہ اور سنی شیعہ پر کرے۔ یہ جو صحابہ کرام کے درمیان مشاجرات کا مسئلہ ہے، تو جہاں جہاں کچھ چھوٹا بڑا جھگڑا ہوا ہے ہمیں ان کی صرف یہی حدیثیں اور روایات یاد ہیں۔ ہم نے صرف جھگڑوں والی روایات پڑھیں اور سیکھیں ہیں۔ کیا ان کے درمیان مودت، اعتماد، باہمی تعاون، اور محبت کی روایات موجود نہیں ہیں؟ پچانوے فیصد ان کی زندگیوں کے اس پہلو کو ہم نے پردے میں چھپا لیا ہے، اور پانچ فیصد ہم اجاگر کر رہے ہیں۔ اس سے آپ نے اسٹیج اور منبر گرم کر رکھا ہے۔ اس لیے ہمیں لوگوں میں ان چیزوں کو سامنے لانا چاہیے، جس سے فتنہ و فساد تو برپا نہ ہو۔ اصلاحِ عقیدہ کا مسئلہ یہ تو دعوت کا میدان ہے۔ دعوت کے میدان میں دلیل کی طاقت سے بات کی جاتی ہے، شائستہ طریقے سے، اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ، شائستہ طریقے کے ساتھ دفاع کیا جائے۔ اُدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ، اللہ کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاؤ، دانائی کے ساتھ بلاؤ، شائستہ گفتگو کے ساتھ بلاؤ، وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ، جدال، یہ کبھی ذریعہ دعوت نہیں ہے؟ لیکن جب داعی دعوت دے رہا ہو، اور جس کو دعوت دی جا رہی ہو، اگر ان کے بیچ میں تنازعہ کھڑا ہو گیا، ان کے بیچ میں الجھن آگئی، تو ایسی الجھن کے موقع پر آپ نے لاٹھی نہیں اٹھانی، خنجر نہیں اٹھانا، بندوق نہیں اٹھانی، اس جھگڑے کو بھی شائستہ انداز کے ساتھ حل کرو، یعنی جدال، ذریعہ دعوت تو نہیں، لیکن ایسی صورتحال بن گئی، تو پھر اس جدال کو اس طرح انجام تک پہنچاؤ کہ اس کا نتیجہ اور معال وہی ہو جو حکمت اور حسن موعظت کا ہو۔ اس کو ٹھیک کرنا ہوتا ہے، لیکن ہم نے کیا حاصل کیا ہوا ہے، یہی چیزیں آج عالمی قوتیں ہمارے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔ یہی باتیں ہماری اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف استعمال کر رہی ہے، مذہب آئے گا تو یہ ہوگا، وہ ہوگا۔

میں ایک دفعہ اسمبلی کی کمیٹی میں بیٹھا تھا، ہر قسم کے لوگ وہاں موجود تھے، تو کچھ لبرلز نے کہا کہ آئین میں ترمیم یہ بھی ہونی چاہیے کہ ریاست کو سیاست سے آزاد کرنا چاہیے، ریاست و سیاست کا تعلق نہیں ہونا چاہیے، اور جب تک یہ ہوگا، یہ فسادات ہوں گے، یہ شیعہ سنی، دیوبندی، بریلوی، وغیرہ۔ تو میں نے کہا، جی، مجھے اس پر تبصرہ کرنا ہے آپ کی بات پہ، مجھے تبصرہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا، جی، کہیں، میں نے کہا، جی، فتنہ و فساد قوم کو آپس میں لڑانا ایک فرقہ وارانہ عنصر نہیں، ہر چند کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ فرقہ واریت فساد کا سبب ہے، لیکن ایک عنصر نہیں ہے، لسانیت بھی فساد کا عنصر ہے، علاقائیت، صوبائیت، قومیت، اس بنیاد پر بھی تو ملک میں جھگڑے ہو رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مذہبی قیادت کا کردار کیا ہے، جو مذہبی سیاسی قیادت ہے، تو سب سے پہلے قراردادِ مقاصد پیش ہوئی، پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں، اور آج بھی تمام مکاتب فکر کا اس پر اتفاق ہے، یہ ہے مذہبی تمام مکاتب فکر کے سیاسی قیادت کا کردار، اور انیس سو اکیاون میں بائیس اسلامی دفعات رہنمائی اصول کے طور پر تمام مکاتب فکر نے اتفاق رائے سے طے کیے اور آج بھی اس پر اتفاق رائے ہے۔ آئین بنا، تمام اسلامی دفعات پر اتفاق ہے، اسلامی نظریاتی کونسل بنی، اس کے تمام سفارشات متفقہ ہیں۔ ممکن ہے اکا دکا ہو، لیکن عمومی طور پر 98-99 فیصد متفقہ ہے۔

ختمِ نبوت کا مسئلہ آیا، متفقہ ہے۔ مسلمان کی تعریف کا سوال پیدا ہوا، متفقہ ہے۔ ناموسِ رسالت کا قانون آیا، متفقہ ہے۔ تو مذہبی طبقے کی سیاسی قیادت نے یہ کردار ادا کیا ہے، ایم ایم اے تک میں نے کہا، لیکن جو لسانی فسادات ہوتے ہیں، جو قومیت کی بنیاد پر فسادات ہوتے ہیں، پشتون پنجابی میں نفرت پیدا کی جاتی ہے، پنجابی سرائیکی کا سوال پیدا کیا جاتا ہے، پشتون بلوچ کا سوال پیدا کیا جاتا ہے، سندھی مہاجر کا سوال پیدا کیا جاتا ہے، میں نے کہا، اس کی رکھوالی یہ میرے سامنے آپ کی موجودہ قیادت کرتی ہے، یہ آپ حضرات یہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ تو پھر آپ کا نظریہ جو ہے، اسے آئین سے نکال دینا چاہیے ہمارا نظریہ تو بنیاد ہوگا کیوں کہ ہم تو ایک ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے معاشرے میں فرقہ وارانہ عناصر ہیں، لیکن وہ فساد تب مچاتے ہے جب ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ہماری حکومتوں کو ضرورت ہوتی ہے۔

تو یہ ساری چیزیں ہمارے سامنے ہیں۔ بس کہتے ہیں، ہمارا نام مت لو، کریں گے ہم، لیکن ہمارا نام نہیں لینا، لیکن یہ حقائق ہیں۔ ہم فرقہ واریت کی بات نہیں کریں گے، ہم قومی یکجہتی کی بات کریں گے، ہمیں سزا ملے گی اس کی، تو سزا ہمیں ملی ہے۔ ہمیں سیاسی طور پر پیچھے دھکیلا گیا ہے۔ اور جب جذباتی ماحول پیدا ہو جاتا ہے، تو اس وقت معقول بات کرنا جرم بن جاتا ہے۔ تو ہماری معقول باتیں اس وقت جرم قرار دی گئیں۔ پھر بندوق اٹھی۔ ہم نے بندوق کی نفی کی۔ بندوق کی نفی کیا کہتی ہے جہاد کا انکار، اوئے کم بختوں جہاد جو ہے، وہ صرف بندوق کا نام نہیں۔ اور آج کی صورتحال کیا ہے میں آپ کو بتاتا ہوں، پاکستان کے علماء، تمام مکاتب فکر، جمعیت علماء اسلام کے علماء، وفاق المدارس سے وابستہ علماء کرام سب کے متفقہ فیصلے موجود ہیں کہ پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے بندوق اٹھانا غیر شرعی ہے۔ تحریر موجود ہے، دستخط موجود ہیں تمام مکاتب فکر کے، افغانستان میں علماء اکرم نے فتویٰ دیا کہ جو ہم جہاد لڑ رہے تھے، وہ تمام ہو گیا، کامیابی سے انجام تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد اگر کوئی افغانستان کے اندر یا افغانستان سے باہر بندوق اٹھا کر لڑے گا، یہ جنگ لڑے گا، یہ جہاد نہیں کہلائے گا۔ یہ فتویٰ پہلے علماء نے دیا، اب افغانستان کی امارت اسلامیہ نے رسمی طور پر اس کا اعلان کر دیا۔ تو پھر ہمیں کیوں اس کا مجرم قرار دیا جا رہا ہے؟ ہم تو پاکستان میں بھی علماء کرام کے رائے کی پیروی کر رہے ہیں، افغانستان میں بھی علماء کرام کے رائے کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس لیے جمعیت علماء کی جو سمت ہے، وہ صحیح ہے۔ ہمیں سزا بھی مل رہی ہے، کتنے ہمارے ساتھی شہید ہو گئے، ابھی تک ہو رہے ہیں، صرف اس بات پر، مولانا حسن جان شہید، میری استاد تھے، شیخ الحدیث تھے، بہت بڑے استاد تھے، حدیث کے استادوں میں مانے ہوئے استاد تھے۔ مولانا نور محمد صاحب وزیرستان میں استاد العلماء کہلاتے تھے، حضرت والد رحمہ اللہ کے متقدمین شاگردوں میں سے تھے۔ مولانا معراج الدین صاحب، ہمارے اہم تھے، انتہائی مخلص اور اپنے مقاصد کے ساتھ شہید کر دیے گئے۔ کتنے مدارس کے شیوخ الحدیث کو شہید کر دیے گئے۔ ہم پر حملے ہو رہے ہیں۔ باجوڑ میں ہم نے نوے شہداء کے جنازے اٹھائے، اسی رمضان شریف اور عید کے بعد ہم نے پندرہ بیس کے جنازے اٹھائے ہیں۔ بلوچستان میں بھی، وہاں وزیرستان میں بھی، ابھی بھی ہمارے زخمی ملتان کے اسپتال میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ساری چیزیں کس لیے، اس لیے کہ ہم ملک کو ایک صحیح نظام، صحیح نہج پر لے جانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں، اور اس میں ہمیں اکابرین کو سمجھنا ہے کہ ہمارے پاس اکابرین کی امانت ہے۔ امانت میں خیانت نہیں ہو سکتی۔ جمعیت علماء کا عقیدہ، نظریہ، اور اس نظریہ کے لیے کام کرنے کا منہج اور طریقہ، رویہ، یہ جو ہمیں اکابر سے ملا ہے، راستے کی یہ مشکلات وہ ہمیں متاثر نہیں کر سکتیں۔

اس وقت بھی خطے کی جو صورتحال ہے، وہ بہرحال باعثِ تشویش ہے۔ ڈیڑھ سال سے اسرائیل فلسطینیوں پر بمباری کر رہا ہے۔ فلسطینی مجاہدین سے نہیں لڑ رہا، عام شہروں پر بمباری کر رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شہید ہو رہے ہیں، خواتین شہید ہو رہی ہیں، بزرگ شہید ہو رہے ہیں، مائیں شہید ہو رہی ہیں، غیر مسلح ہزاروں کی تعداد میں اب بھی ملبے کے نیچے ہوں گے۔ لیکن فلسطینی استقامت کا پہاڑ بن گئے ہیں۔ اسرائیل اپنی حدود میں نہیں رہا، اس نے لبنان میں حملے کیے، شام میں حملے کیے، اور اب اس نے ایران پر حملہ کر دیا۔ کل مجھے کسی نے کہا، حضرت آپ نے بھی ایران کی حمایت کر دی۔ میں نے کہا کیا اسرائیل کی حمایت کروں؟ حد ہو گئی۔ ہم عرب ممالک سے شکایت کرتے ہیں کہ وہ کھل کر سامنے نہیں آ رہے، لیکن ایران تک تجاوز ہوا، تو سعودی عرب نے بھی کھل کر ایران کی حمایت کی۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ وہ مسٹر ٹرمپ صاحب، جس نے الیکشن لڑا اس نعرے پہ، صدارتی الیکشن لڑا اس وعدے پہ کہ میں دنیا میں امن قائم کروں گا، اور پھر جب پاکستان کی دفاعی قوت نے ہندوستان کی دفاعی سسٹم کو تین چار گھنٹوں میں سمیٹ لیا، تو بیچ میں پڑ گیا، اور کہا، میں نے جنگ بند کرادی۔ تو اس کے بعد جنگ کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ بمباریوں کی حمایت کرنا، لبنان پر اسرائیل کے حملوں کی حمایت کرنا، یہ کب امن کی علامت ہے؟ یہ کب امن کا دعویٰ ہے؟ شام پر حملے ہوئے، آپ نے حمایت کی، اور اس دوران میں انہوں نے ہمارے آرمی چیف کو دعوت دی، کھانے پر، اور پاکستان کے حکمران اس پر خوش ہوئے کہ ٹرمپ کے لیے آئیندہ سال کے نوبل ایوارڈ، امن نوبل ایوارڈ کی سفارش کرنا، جس کے ہاتھوں افغانستان کے مسلمانوں کا خون رس رہا ہے آج بھی، جن کے ہاتھوں عراق کا خون رس رہا ہے، جس کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون بہ رہا ہے، اور آج جب وہ ایران پر حملے کر رہا ہے، کیا یہ امن کے اپنے دعوے میں جھوٹا ثابت نہیں ہوا؟ اور امریکی کانگریس کی اجازت کے بغیر کسی ملک پر حملہ کرنے کی اس کو اجازت بھی نہیں، تو اس نے اپنے ملک کے قانون کی بھی خلاف ورزی کی ہے، اور بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اپنی حکومت سے دو ٹوک الفاظ میں اس بات کا مطالبہ کریں کہ ٹرمپ کے لیے امن نوبل ایوارڈ کی سفارش واپس لی جائے۔ وہ اس قابل نہیں رہا۔

میں ایک بات یہ بھی آپ کے سامنے عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ پچھلے ہفتے بھی امریکہ مذاکرات میں مصروف تھا، اور حملہ کیا۔ اس ہفتے بھی ان کے لوگ مذاکرات میں مصروف تھے، اور اس کے باوجود حملہ کیا۔ کیسے دنیا اس پر اعتماد کرے؟ جب کہ اس وقت امریکہ دنیا میں جنگ کو بھڑکا رہا ہے، اس پر تیل ڈال رہا ہے، شعلے بھڑکا رہا ہے، بارود برسا رہا ہے، امن نوبل ایوارڈ کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ اور میں امریکہ کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایران پر جو تم نے حملہ کیا ہے، درحقیقت جنگ ہے اس وقت دنیا میں معیشت کی، اور امریکہ کے مد مقابل چین اقتصادی لحاظ سے ابھر رہا ہے۔ اور مشرق وسطیٰ میں جب چین اپنی تجارت کو فروغ دے رہا ہے، ایسے وقت میں امریکہ نے اپنی طاقت خلیجی ممالک میں داخل کر دی ہے، تاکہ چین کی تجارتی فروغ کا راستہ روک سکے۔ تو ہمہ جہت ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اگر چین متاثر ہوتا ہے، تو پاکستان کتنا متاثر ہوگا، ایشیا کتنا متاثر ہوگا، اور مستقبل کی معیشت میں ایشیا کا کردار کتنا متاثر ہوگا۔ یہ بھی دیکھیں، دنیا کی معیشت ایشیا کے ہاتھ میں تھی۔ جنگ عظیم اول کے بعد پوری دنیا میں نو آبادیاتی نظام آیا، اور ایشیا پر نو آبادیاتی نظام مسلط کیا گیا، افریقہ پر مسلط کیا گیا، وہاں کے معدنی ذخائر کو اکھیڑا گیا، اور مغرب کو آباد کیا گیا۔ آج مغربی قوت معاشی طور پر مستحکم ہے، لیکن اب پلٹ رہی ہے، اب ایک دوبارہ سرد جنگ شروع ہو چکی ہے، اور پلڑا دوبارہ ایشیا کی طرف آ رہا ہے۔ تو جمعیت کے کارکنوں میں آپ کو ایک بات سنانا چاہتا ہوں، یہ تصور حضرت شیخ الہند کا تھا، اور یہ نظریہ اور یہ پروجیکٹ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی نے دیا، ایشیاٹک فیڈریشن کا، ہم ان کے نام لیوا ہیں، ان کے سیاسی وارث ہیں۔ میں تقریباً تین چار ممالک میں ایشیا کی اتحاد کے لیے کانفرنسوں میں جا چکا ہوں، براہِ راست سارک بھی ایشیا کی تنظیم ہیں، آسیان بھی ایشیا کی ایک تنظیم ہے، ڈھیلی ڈھالی صرف رابطوں کے حد تک، اب وہ معاشی طرف مستحکم ہونے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ جس میں مودی استعمال ہوا، اور میں نے اس دن پارلیمنٹ میں بھی کہا کہ میں اس کو پاک بھارت جنگ نہیں کہتا، میں اسے پاک مودی جنگ کہتا ہوں، کیونکہ مودی اُدھر سے تنہا ہے، نہ اس کی اپوزیشن اس کا ساتھ دے رہی ہے، نہ اقلیت ساتھ دے رہی ہے، نہ سکھ برادری ساتھ دے رہی ہے، نہ مسلمان ساتھ دے رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں پوری قوم ایک ساتھ ہے، اور وہ مار کھا گیا۔ آنے والے مستقبل میں مودی نہیں سوچے گا، مودی کا دور گزر گیا ہے۔ اب بھارت کو سوچنا پڑے گا، بھارت کی سیاسی قیادت کو سوچنا پڑے گا، بھارت کے عوام کو سوچنا پڑے گا۔ مودی کا وہ دور گزر چکا۔

تو یہ حالات تبدیل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جمعیت علماء ایسی جماعت نہیں کہ وہ سطحی، وقتی، چھوٹے چھوٹے معاملات میں توانائیاں محصور کر دے۔ بات کر رہے ہیں آپ، مذہب ہمارا ہے، ہم نے کوئی رائے دینی ہوگی، لیکن یاد رکھیں، جمعیت علماء کے ساتھیوں، آپ ذمہ دار لوگ ہیں پنجاب کے، اپنی طاقتوں کو معمولی اور چھوٹی باتوں میں محصور کرنا، یہ اب جمعیت علماء کا مقام نہیں رہا۔ خطے کے ممالک پہ بات کرو، عالمی مسائل پر بات کرو، ملک کے مستقبل پر بات کرو، ملک کے اقتدار تک پہنچنا ہے، عوام کو اپنے ساتھ بلانا ہے۔ اور جو عوامی قوت ہمارے اجتماعات میں آج نظر آ رہی ہے، کوئی پارٹی اتنی دنیا تو جمع کرکے دکھائے۔ تو پھر عوام کا راستہ کیوں روکا جا رہا ہے۔ اب یہ جمعیت کا راستہ نہیں، یہ عوام کا راستہ روکا جا رہا ہے۔ ہمیں عوام میں اترنا ہوگا، ہمیں عام آدمی کے مسائل کو سمجھنا ہوگا، ہمیں تھانوں میں جانا ہوگا ان کے ساتھ، ہمیں اسے یقین دلانا ہوگا کہ علاقے کا خان، جاگیر دار، نواب، اب اس کے مقابلے میں جمعیت آپ کا مقابلہ کر سکتی ہے اس کا، تھانوں میں بھی اور دفتروں میں بھی۔ اور اگر کسی خان یا جاگیردار نے غریب پر ہاتھ ڈالا، تو غریب کو یقین دلاؤ کہ آپ کا ہاتھ محفوظ نکلے گا، اس کا ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔ خود اعتمادی لازمی ہے، لیکن یہ سب چیزیں تب ہوں گی جب جماعت کا کام بھی تو کرو نا۔ ابھی تو آپ اس میں منجھے ہوئے ہو، الیکشن صحیح تھا یا غلط تھا، بھئی اس کے لیے فورم موجود ہے، وہاں پہنچو، جھگڑا ختم کرو، جماعت کے ساتھ کام کرو۔ جب تک وہ فورم کوئی فیصلہ نہیں کرتا، آپ پر اسی تنظیم کی اطاعت واجب ہے۔ صفوں میں وحدت، نبی علیہ الصلواۃ والسلام کا ارشاد ہے، الجماعة رحمة والفرقة عذاب، صحیح حدیث ہے۔

تو یہ ساری چیزیں جماعت کی قوت کے ساتھ ہیں۔ عوام میں اترو، اور سیاسی جماعت ہو تم لوگ، سیاسی جماعت حکومت ملے نہ ملے، اس کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ میں نے محنت کرنی ہے، تو حکومت کا نقشہ اس کے دماغ میں ہوگا۔ حکومت میں آنے کے بعد ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے آپ کو ہندو کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا یا نہیں؟ آپ کو عیسائی کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے یا نہیں؟ آپ کو سکھ کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے یا نہیں? آپ کو شیعہ کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے یا نہیں؟ آپ کو بریلوی کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے یا نہیں؟ تو اگر آج ہمارے ہاتھ میں ان کے لیے چھرا ہے، تو یہ تو ان کے لیے پیغام ہے کہ اگر ان کی حکومت آئی، تو یہ تو ہماری اوپر چھرا ہی چلائیں گے۔ تو جو آپ نے حکومت کے بعد اپنا کردار دینا ہے، آئین اور قانون کی رو سے وہ رویہ آج سے اپناؤ، تب عوام پر آپ کا اعتماد آئے گا۔ اب اس طلسم کو اس وقت پنجاب میں توڑنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی آواز پر دنیا اکٹھی ہوتی ہے، کسی دوسری پارٹی کی آواز پر نہیں ہوتی۔ ابھی امریکہ کو بھی یہ سوچ آ گئی ہے کہ جمعیت کا کیا کرنا ہے۔ تو میں نے انہیں کہا کہ ہمارا مؤقف واضح ہے ہم امریکہ کے ساتھ دوستی کا انکار نہیں کر رہے، ہم امریکہ کی غلامی کا انکار کر رہے ہیں۔ دوست کی طرح آؤ، برابری کی بنیاد پر میرا بھی حق ہے، آپ کا بھی حق ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ہم ساتھ معاملات آپس میں طے کرتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون بھی ہے، ملکی قانون بھی ہے، اصول کی بنیاد پر اکٹھے چلنے کے لیے تیار ہیں۔ تین دفعہ میرے گھر آئے ہیں، رمضان شریف سے لے کر اب تک، پھر جا کر میں بھی ان کی یوم آزادی میں شریک ہوا ہوں۔

تو اصول کی بنیاد پر ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے، اپنے وطن کے مفادات کو سامنے رکھنا ہے۔ تو سب سے پہلے وطن کا تحفظ، وطن کی آزادی، اور اس وطن میں آئین و قانون کی بالادستی، اور آئین کی بالادستی کی رو سے عوام کی حکمرانی جو مقید ہے، آئین کی رو سے قرآن و سنت کے تابع بنائیں۔ یہ اسمبلی بھی قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کرتی۔ آپ کے ذہن میں ایک سوال ہوگا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے آگئی، پھر انہوں نے قانون منظور کیوں کیا؟ یاد رکھیں، یہاں ایک ضابطہ ہے کوئی بھی نیا مسئلہ پارلیمنٹ میں آئے، اور کوئی رکن یہ کہہ دے کہ یہ مسئلہ اسلامی نظریاتی کونسل میں جائے، تو پہلے چالیس فیصد اراکین کی تائید ضروری تھی۔ اس چھبیسویں ترمیم میں ہم نے وہ چالیس فیصد بائیس فیصد پر لا کر کھڑی کر دی۔ لیکن بائیس فیصد تائید کریں گے، تو وہاں جائے گا۔ اگر از خود انہوں نے نوٹس لے لیا، اور اس پر سفارش دے دی، وہ اسمبلی میں زیرِ بحث لانے کے پابند نہیں ہوگا۔ تو اس کا بھی اپنا ایک طریقہ کار ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم اسلامی نظریاتی کونسل کے شکر گزار بھی ہیں، اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے ان حالات میں قوم کی صحیح رہنمائی کی ہے۔

تو یہ ساری چیزیں ہمیں مدنظر رہنی چاہیے، ان شاءاللہ العزیز آنے والا مستقبل آپ کا ہوگا لیکن باہمی تنظیمیں، جھگڑے ان کو پس پشت ڈالنا ضروری ہوگا، وحدت دکھانی ہوگی اخلاص کے ساتھ، پھر اللّٰہ کی مدد ائے گی، برکتیں آئے گی اور طاقت حاصل ہوگی۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب ، #محمدریاض 

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

#teamJUIswat

Muree: Maulana Fazl ur Rehman Latest Speech

مری: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا جےیوآئی پنجاب کے جنرل کونسل کے اجلاس سے اہم خطاب، ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر انتہائی اہم گفتگو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, June 22, 2025
 

0/Post a Comment/Comments