مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا مشال ریڈیو کو خصوصی انٹرویو، پشتو سے اردو ترجمہ

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا مشال ریڈیو کو خصوصی انٹرویو، پشتو سے اردو ترجمہ تحریری صورت میں 

25 جون 2025

اینکر: آج بات کرتے ہیں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ، بہت بہت شکریہ حضرت کہ آپ نے وقت دیا۔

مولانا صاحب: آپ کا بھی بہت بہت شکریہ 

اینکر: میں اپنی باتیں نہیں کروں سیدھا شروعات آپ سے کرتا ہوں، سب سے پہلے تو پاکستان کے تازہ ترین فیصلے کی طرف آتے ہیں جس میں امریکہ کے صدر کو آئندہ سال نوبل امن انعام ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وقت مناسب نہیں تھا، آوروں نے بھی تنقید کی ہے، آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

مولانا صاحب: اس بات کے پیچھے کیا حکمت ہے وہ تو یہ خود ہی بیان کر سکتے ہیں لیکن امن نوبل انعام کسی بھی قیمت پر امریکہ کے حکمرانوں سے مناسبت نہیں رکھتا، افغانستان کا خون انہوں نے بنایا ہے، ان کے ہاتھ افغانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، عراق کے لوگوں کا خون انہوں نے بہایا ہے، آج فلسطین میں فلسطینیوں کی اطلاع کے مطابق ساٹھ ہزار فلسطینی اور وہ بھی عام لوگ، خواتین، بوڑھے، مائیں بہنیں، بچے شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ہزاروں لوگوں کو جنازے نصیب نہیں ہوئیں اور بین الاقوامی سطح پر جنگ کے قواعد، اصول کو پاؤں تلے روند کر عام لوگوں کو قتل کیا، ان سب کے پشت پر امریکہ کھڑی ہے جو راکٹ دے رہے ہیں، جہاز مہیا کر رہے ہیں، بندوق، ٹینک، توپ ان کو دے رہے ہیں اور اس خون بہانے میں امریکہ کی سپورٹ ان کو حاصل ہے اور اس وقت جب یہ اسرائیل صرف فلسطین میں ہی نہیں لبنان میں کتنے لوگوں کو قتل کیا، ان پر حملے کیے، کب کب کیے سب ریکارڈ پر موجود ہے۔ اسی اسرائیل نے ابھی نزدیک دن دنوں میں شام پر، جب وہاں انقلاب آیا وہاں کے دفاعی مراکز کو نشانہ بنایا، وہاں سے گزر کر اب ایران پر حملہ کردیا، اور ان پر حملہ کرنے بعد امریکہ نے خود ایران پر حملہ کیا۔

تو امریکہ کے ہاتھوں سے تو انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے، امن نوبل انعام کی ان سے کیا مناسبت ہے اور ہم نے باقاعدہ اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی سفارش واپس لے لیں۔

اینکر: اچھا پاکستان نے رسمی اعلان کر دیا کہ ان کو یہ ملنا چاہیے، نہ تو پارلیمان میں اس پر بات ہوئی ہے نہ ہی کابینہ میں اور نہ ہی قومی سلامتی کمیٹی میں، تو کون پاکستان کے فیصلے کر رہا ہے؟

مولانا صاحب: پاکستان کے فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے پارلیمان نہیں، پارلیمنٹ اگر قانون سازی کرتی ہے تب بھی حکم اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی کنونشن ان کی کمیٹیوں اور چارٹر سے آتا ہے۔ اور عالمی ادارے فیصلے کرتی ہے اور ہم پر دباؤ ڈالتی ہے کہ آپ نے یہ یہ قانون سازی کرنی ہے تو ہمارے ملک میں ایسے لوگ ہیں جو ان کی نمائندگی کر رہے ہیں، پارلیمان میں نمائندگی کر رہے ہیں۔ اور پھر ہمارے اپنے قانون اور آئین کو غیر مؤثر کر دیتے ہیں اور ان کے فیصلے، قرار دادیں، قانون وہ ہم پر موثر ہو جاتے ہیں۔ تو یہ کھیل تو کافی عرصہ سے چلا آرہا ہے اور پاکستان حقیقی معنوں میں ایک مسلمان ملک ضرور ہے لیکن حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ملک نہیں ہے۔ اور ابھی تک ان کو یہ احساس بھی نہیں ہے کہ ہم ایک آزاد وطن، تو پھر ان کی قانون سازی اپنی ہوتی ہے، اپنے وسائل کے خود مالک ہوتے ہیں، ہم تو اپنے وسائل کے مالک بھی نہیں ہے۔ تو وہ فیصلے کرتے ہیں اور ہم اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

اینکر: آپ نے ذکر کیا کہ فیصلے سارے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے اور ایک عمومی تاثر بھی پاکستان میں یہی ہے کہ سارے فیصلے وہ کرتے ہیں، تو کیا آپ مطمئن ہے کہ ایک ایسا وقت آسکتا ہے کہ تمام سیاسی قوتیں پارلیمنٹ کو مظبوط بناکے فیصلوں کا اختیار خود لے گی یا ایسا ہی چلتا رہے گا کہ کبھی ایک پارٹی آگے آئے گی کبھی دوسری اور یہ نظام یونہی چلتا رہے گا۔

مولانا صاحب: حضرت ہم یہ اعتراف کرتے ہیں اور ہر سیاستدان کو یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ جمہوریت پر ہمیشہ سیاستدانوں نے کمپرومائز کیا ہے اور تمام سرکاری اداروں پر بالادستی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو حاصل ہے، ان کی مرضی سے نتائج بنتے ہیں، ان کی مرضی سے کوئی بندہ پاس ہوتا ہے، کوئی فیل ہوتا ہے عوام کی ووٹ کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں رکھتی، اور جب ہم ایسے اقتدار کے لیے محتاج اور مجبور ہوتے ہیں اور ان کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہ مجھے کتنا حصہ دو گے، مجھے کتنا حصہ دو گے، تو پھر جمہوریت کیسے مستحکم ہوگی۔ یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کبھی بھی تنہا حکومت نہیں کر سکتی اور اگر آج کے سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تو پاکستان کے موثر سیاسی شخصیات وہ فوج کے پشت پر نظر نہیں آرہے، غیر مؤثر لوگ اس وقت نظر آرہے ہیں، قیادتیں جو ہیں وہ بیک فٹ پر چلی گئیں، اپنے علاقے، قوم اور لوگوں میں اہمیت ہے لیکن واللہ اعلم کہ کس مصلحت کے تحت ان لوگوں کو انہوں نے بیک فٹ پر بھیج دیا اور گھر پر بٹھا دیا۔ لیکن یہ ہے کہ الحمدللہ ہم خود میدان میں ہے، چاروں صوبوں میں ہم نے ملین مارچ کیں، اور عوام کی اتنی بڑی شرکت حالانکہ ہماری سخت اور ٹف جنگ تو پچھلی حکومت میں تھی اس وقت ہمارے جلسوں میں اتنی شرکت نہیں تھی جو اب اس وقت عوام کی شرکت ان جلسوں میں موجود ہے۔ واللہ اعلم ان کے جو انٹیلیجنس ادارے جو ان کو رپورٹ پیش کرتے ہیں وہ کیا رپورٹ پیش کرتے ہیں، لیکن غالب گمان یہی ہے کہ وہ یہی تسلی دیں گے کہ نہیں جی جلسے ناکام ہے تو یہ خود کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ تو الحمدللہ عوام میں شعور ہے اور ہم اس کو مذید بیدار کریں گے۔

اینکر: اس کا مطلب کہ تبدیلی کا امکان ہے؟

مولانا صاحب: بالکل، اسی جگہ پر واپس آتے ہیں، ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں، ہم ان سے رپورٹ بھی مانگتے ہیں کہ اس مسئلے کہ حوالے سے کیا رپورٹ ہے اس کے حوالے سے کیا رپورٹ ہے، اداروں کا ایک ان فٹ نظام میں موجود ہوتا ہے لیکن یہ نہیں کہ اختیار ان کا ہوگا اور ان کے مرضی سے قانون سازی ہوگی، رائے لیں گے کیوں کہ رائے کہ بغیر ملک نہیں چلتا۔ 

اینکر: اچھا تھوڑا سیکیورٹی کی جانب بڑھتے ہیں، آپ اکثر کہتے رہتے ہیں اور ابھی چند دن پہلے بھی کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حالات خراب ہے، شام کو اسلحہ بردار گشت کرتے ہیں ان کی حکومت ہوتی ہے، تو آپ کس بنیاد پر یہ بات کر رہے ہیں؟

مولانا صاحب: زمینی حقائق کی بنیاد پر یہ کہہ رہا ہوں، ابھی جب اس وقت میں اور آپ بیٹھے ہوئے ہیں، ساڑھے آٹھ بجنے کو ہے اس وقت پولیس نہیں ہے۔

اینکر: کہاں پر، دونوں صوبوں میں یا؟

مولانا صاحب: جنوبی اضلاع میں تو نہیں ہے، بلوچ کے علاقے میں تو نہیں ہے، ان علاقوں میں شائد ہو جہاں تھوڑا بہت امن ہو، مسلح قوتوں کی موجودگی کم ہو تو ہوسکتا ہے وہاں پولیس ہو لیکن جن علاقوں میں ان کی موجودگی زیادہ ہے وہاں اس وقت روڈ، علاقے ان کے قبضے میں ہے، اردگرد یہ گھوم رہے ہیں اور ریاست کی طرف سے کوئی دفاع نہیں ہے۔

اینکر: کچھ دن پہلے ایک واقعہ ہوا تھا کہ آپ کا بیٹا اسجد محمود جو قومی اسمبلی کا امیدوار بھی تھا، ڈیرو سے لکی مروت جا رہے تھے اور اسلحہ برداروں نے راستے میں ان کو روکا اور اتارا، یہ کیا واقعہ تھا؟

مولانا صاحب: دیکھو جی یہ تو ایک واقعہ ہے جو تھوڑا ہائی لائٹ ہوا اور لوگوں نے اس پر بحث کی، مجھ پر اتنے خودکش دھماکے کس نے کیے، ہم پر تین دفعہ حملہ ہوا لیکن ہم نے ان باتوں کو ہوا نہیں دی اور خاموش رہیں، میرے بھائی کے گھر پر راکٹ برسائے گئے ہیں اور یہ ابھی اسجد کا واقعہ تو بالکل تازہ ہے جو ہوا اور ہم اسے بھی ہائی لائٹ کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن اس پر چوں کہ سینیٹ میں باتیں ہوئیں اس وجہ سے میڈیا میں تھوڑا وہ پروفائل اونچا ہوگیا، یہ ہمیں کس چیز کی سزا دے رہے ہیں، ہم تو اسلام کی بات کر رہے ہیں اور جمعیت کوئی آج کی پارٹی تو نہیں ہے، جمعیت علماء اسلام کا تو پاکستان کے قیام میں ایک اہم کردار رہا ہے، جمعیت علماء کا تو برصغیر کی آزادی میں کردار رہا ہے اور جہاد کا راستہ، اسلام اور اعلاں کلمتہ اللہ کا راستہ تو دنیا کو جمعیت علماء نے دکھایا ہے۔ یہ جو لوگ اسلام کی باتیں کرتے ہیں یہ اسلام تو انہوں نے ہم سے سیکھا ہے، اب یہ اسلام کے شارحین اور اسلام کے تعبیرات کریں گے اور ہم ان کی پیروی کریں گے اور یا یہ کہ یہ بھتہ خور لوگ ہے ٹھیکیداروں سے پیسے لیتے ہیں، خوانین سے پیسے لیتے ہیں، کاروباری طبقے سے پیسے لیتے ہیں، علماء سے پیسے لیتے ہیں اور مدارس سے مطالبے کرتے ہیں حالانکہ وہ تو اپنی زندگی چندوں پر گزارتے ہیں، فقر سے گزارتے ہیں اور علم کی خدمت کرتے ہیں ان سے مانگتے ہیں، ہم سے بھی یہی توقع کرتے ہیں کہ ہم سے بھتہ لیں گے، پھر جب میں بھتہ دوں گا تو میں مسلمان اور اگر بھتہ نہیں دیا تو پھر میں واجب القتل ہوں۔ یہ ان کا اسلام ہے، یہ ان کا دین ہے، یہ ان کا سطح ہے اور یہ ان کی حیثیت ہے۔

اینکر: مولانا صاحب بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ داعش نے پہلے بھی جمعیت علماء اسلام کو نشانہ بنایا ہے، باجوڑ میں بھی حملہ ہوا، بلوچستان میں کچھ دن پہلے ایک رہنما کو ٹارگٹ کیا گیا، آپ نے دوسروں سے گلہ کیا، لیکن کیوں داعش نے جتنے بھی حملے کیے جمعیت علماء اسلام پر کیے، کیوں؟

مولانا صاحب: پہلی بات تو یہ حضرت کہ میں داعش کو نہیں جانتا کہ یہ کیا بلا ہے ایک عنقا چیز ہے، ایک زمانے میں القاعدہ کا پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ یہ کیا ہے، اب داعش آگیا جی، اب یہ تو بنایا گیا تھا شام اور عراق کے لیے، اور ساری کاروائیاں افغانستان اور پاکستان میں پختونوں کے علاقوں میں ہو رہی ہے تو اب یہ کیا ہے قاتل ہیں، سفاک ہیں اور ساری دنیا پر فتویٰ لگا رہے ہیں کہ تم کافر ہو، تم کافر ہو، مومن کے ایمان کا انکار اور اس پر کفر کا فتویٰ لگانا خود کو کافر بنانا ہے۔ ہمارے لیے یہ کوئی معتبر لوگ نہیں ہے، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، موت برحق ہے جو رات اللّٰہ پاک نے میری قبر میں لکھی ہے وہ میں دنیا میں نہیں گزار سکتا۔

اینکر: آپ کیوں؟ جماعت اسلامی بھی ہے۔

مولانا صاحب: جو اسلام کی صحیح تعبیر بتاتے ہیں اور قوم ان پر اعتماد کرتی ہے علم کے اعتبار سے، علماء کے طبقے کے اعتبار سے، سیاسی محاذ پر جمعیت علماء اسلام ہے۔

اینکر: لیکن کچھ لوگ یہ کہتے ہیں افغانستان میں داعش اور طالبان کا جھگڑا تھا وہاں پر کمزور پڑ گئے تو یہاں کاروائیاں شروع کی، کیا یہ سوچ درست ہے؟

مولانا صاحب: امکانات کے حد تک تو یہ ساری باتیں ممکن ہے کیوں کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف اگر جہاد تھا تو سب سے فرنٹ پر جمعیت علماء اسلام اس کی حمایت کر رہی تھی اور لوگ بھی تھے یہ نہیں اور لوگ نہیں تھے لیکن موثر حمایت جب اس وقت ہمارے والد صاحب رحمہ اللہ نے اعلان کیا کہ یہ جہاد ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، لیکن اس وقت تو ایک یکسوئی تھی، حکومت بھی اس طرف تھی، مذہبی جماعتیں بھی اس طرف، جہاد پر کوئی اختلاف نہیں تھا جی، مسئلہ بن گیا مشرف کے دور میں، جس نے امریکہ کی حمایت کا اعلان کر دیا اور علماء نے مخالفت کر دی، تو اس وقت سے اب تک وہ اختلاف چلا آرہا ہے۔ اور ہم نے جمعیت علماء اسلام کے سطح پر باقاعدہ علماء کو بٹھایا، افغانستان بھیجا اور یہ معلوم کیا کہ یہ لوگ عقیدہ، فکر، نیت کے لحاظ سے اسی پرانے جہاد کے تسلسل اور افغانستان میں قرآن و سنت کی بالادستی اور نظام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور اس لحاظ سے ہم آج تک اس صف میں ایک خاص مقصد کے لیے کمربستہ رہے ہیں۔

اینکر: پاکستان میں ہم نے جیسا ذکر کیا پاکستانی طالبان یا فلاں فلاں گروپ، اس سخت دلی یا شدت پسندی یا عسکریت پسندی، کیا اس کا کوئی حل ہے؟

مولانا صاحب: حضرت پہلے تو عقلی طور پر ان کی حرکتیں، پاکستان میں قتل و غارت گری،فوج کے خلاف لڑنا، علماء کے خلاف لڑنا، یہ ساری باتیں حماقتیں ہیں حماقتیں، یعنی آپ خود سوچے کہ افغانستان امارات اسلامیہ یہ افغانستان میں واحد قوت ہے جو پاکستان کے ساتھ، اس سے پہلے تمام قوتیں ہند کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی، اب جب یہ لوگ افغانستان سے آکر پاکستان میں کاروائیاں کرتے ہیں تو پاکستان گلہ کرے گا کہ نہیں، شکایت کرے گا کہ نہیں، امارت اسلامیہ اور پاکستان کے درمیان اختلافات پیدا ہوں گے کہ نہیں، یہ اسی بات کو نہیں سمجھتے اور ہم سمجھا نہیں سکتے کہ آپ کی یہ حماقتیں بیس سال کی جہاد کو ختم کر رہی ہے اور اس کی نفی کر رہی ہے اور جب ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ہو تو پھر افغانستان نہ تاجکستان پر بھروسہ کرتا ہے، نہ ترکمانستان پر، اور سب سے زیادہ اعتماد اور قوموں کی شراکت، برادری کی شراکت، زبان کی شراکت سب سے زیادہ پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔

تو یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ایسے بندھے ہوئے ہیں کہ اب ہمیں چاہیے کہ حقیقت کو تسلیم کریں کہ افغانستان کی ایک حکومت پاکستان کے ساتھ دوستی چاہتا ہے لیکن یہی شدت پسند عناصر جو ہے دونوں ممالک کو نزدیک نہیں ہونے دے رہے ہیں۔

اینکر: اپنی باتوں کو سمیٹتے ہیں اب جو مسلح جنگجو کے خلاف جنگ میں جو ڈرون کا استعمال شروع ہوا ہے جس میں زیادہ تر عام عوام متاثر ہوتے ہیں، اب کیا ہوگا کیوں کہ ڈرون کا استعمال زیادہ ہوگیا ہے اور زیادہ تر عام لوگ؟

مولانا صاحب: حضرت یہ سلسلہ جس وقت سے چلا آرہا ہے تدریجاً تدریجاً، وقت وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے وہ اسلحہ جو ایک سٹیٹ استعمال کرتا ہے یا ایک مملکت استعمال کرتی ہے اور ملک کے فوج کے ساتھ ہوتی ہے وہی اسلحہ ان شدت پسند عناصر کے ساتھ بھی ہوتی ہے تو یہ ایک بدقسمتی ہے کہ اس ٹیکنالوجی تک ان لوگوں کی رسائی ہوگئی۔

اینکر: آخری سوال طالبان اور پاکستانی حکومت کا تعلق تو تھوڑا بہتر ہوا ہے، لیکن پاکستان میں کبھی کبھی حساسیت پیدا ہو جاتی ہے جب افغانستان چاہتا ہے کہ دوسرے پڑوس ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے، ہندوستان کے ساتھ رابطے بڑھائے، تجارت کو بڑھائے۔ تو اس حساسیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں کیا واقعی افغان طالبان اور پاکستان کو چھوڑ کر ہند کے نزدیک ہو جائیں گے؟

مولانا صاحب: افغانستان پاکستان کے مقابلے میں جس بھی زمانے میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا ہے اور پاکستان اور ہندوستان کے تقابل میں ہندوستان کا ساتھ دیا ہے تو افغانستان میں اچھے دن نہیں آئے ہیں، ایک پریشانی ایک اضطراب موجود رہتا ہے۔ افغانستان میں بہت ہی ایک نظم و ضبط کے ساتھ حکومتوں کے زیر سایہ پاکستان دشمنی نئے نسل کے ذہنوں میں ڈالی گئی، اس کو نکالنے کے لیے بھی ایک تربیت کی ضرورت ہے، ایک ماحول چاہیے اور اس میں بھی وقتاً فوقتاً بدمزگی آتی ہے تو پھر وہ نئی نسل پر اثرانداز ہوگی، یہاں پر ہمارا نوجوان افغانستان کو دشمن کہے گا وہاں کا نوجوان پاکستان کو دشمن کہے گا، ان چیزوں سے نکلنے کے لیے وقت چاہیے اور اس کے دونوں ممالک کے درمیان اچھے اور بہتر تعلقات، اس وقت تعلقات کے لحاظ سے چائنہ نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے کہ سی پیک کی توسیع افغانستان تک کر دی، دونوں ممالک کے سفارت خانے اپگریڈ ہوگئے اور پھر افغانستان کے علماء کا جو فتویٰ تھا وہ امارات کی سطح پر اعلان ہوا کہ ہم سے بندھے لوگ نہ داخل میں نہ خارج میں جہاں بھی جنگ کریں گے تو اسے جہاد نہیں کہا جائے گا وہ جنگ ہوگی بس، تو اس پر پاکستان کے علماء بھی متفق ہیں اور جو یہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں وہ بھی متفق ہیں اور افغانستان کے علماء بھی متفق ہیں تو پھر یہ کس کے کہنے پر پاکستان میں اسلحہ اٹھائے گھوم رہے ہیں اور اسے جہاد کہتے ہیں۔

اینکر: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ فتویٰ عمومی ہے پاکستان کے لیے نہیں ہے؟

مولانا صاحب: تو جب عمومی ہے تو کیا عمومی میں پاکستان نہیں آتا، کیا اس میں پاکستان کا لفظ ڈالیں گے۔ ایک چیز گناہ ہوگی تو اس میں پاکستان کا لفظ ڈال کر باقی دنیا کیا کہے گی کہ یہ ہمارے لیے جائز ہے، تو عمومی کا مطلب یہی ہے کہ اگر اڑوس پڑوس کے ممالک ہے، عرب ہے، وسطی ایشیا ہے یا مشرقی وسطیٰ ہے، جنوبی ایشیا ہے، پاکستان ہے، تمام ممالک کے لیے ہے کیوں فتویٰ تو فتویٰ ہوتا ہے کیوں کہ اس میں ہمیشہ عموم ہوتا ہے کیوں کہ یہ قانون کا درجہ رکھتی ہے اور قانون کا اساس عموم ہوتا ہے خصوص نہیں ہوتی۔

اینکر: بہت بہت شکریہ، یہ تھے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب جو ہمارے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے۔

ترجمہ: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

#teamJUIswat

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا مشال ریڈیو کو خصوصی انٹرویو

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا مشال ریڈیو کو خصوصی انٹرویو

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Wednesday, June 25, 2025

0/Post a Comment/Comments