اسلام اور آئین کے باغی
✍🏻 محمد اسامہ پسروری
پاکستانی 1973 ء کے آئین کی شق نمبر 277 کے مطابق "کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا"، مگر افسوس، آج آئین بنانے والے ادارے میں بیٹھے لوگوں کی اکثریت نے ہی آئین کی شق نمبر 277 کے مخالف قانون سازی کر کے نہ صرف آئین توڑنے کا جرم کیا ھے بلکہ یہ لوگ قرآن سنت کے بھی مجرم بنے ہیں۔ ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے افراد شاید یہ بھول چکے ہیں کہ اس ملک کی بنیاد "لا الہ الا اللہ" پر رکھی گئی تھی، نہ کہ سیکولر لادینیت پر۔ جب حکمران قرآن و سنت کے صریح احکامات سے متصادم قوانین بناتے ہیں، تو وہ صرف اسلام سے نہیں، بلکہ پاکستان کے آئین سے بھی بغاوت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قانونِ الٰہی پر انسانی خواہشات کو فوقیت دینا کوئی معمولی خطا نہیں، بلکہ یہ ربِّ کائنات کے احکام کے مقابل کھڑے ہونے کی جسارت ہے۔ کیا قوم نے اس دن کے لیے قربانیاں دی تھیں؟ کیا شہداء نے اس لیے اپنا خون بہایا تھا کہ ایک دن حکمران قرآن کے احکامات کا تمسخر اُڑائیں گے؟
حکومت کی حالیہ قانون سازی نے نہ صرف اہلِ علم و دانش کو مضطرب کیا ہے، بلکہ ایک عام مسلمان بھی سراپا احتجاج بن چکا ہے۔ پیش کیا جانے والا بل نہ صرف غیر شرعی ہے، بلکہ اسلامی اقدار کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں لاکھوں لوگ دین کے لیے اپنی جانیں نچھاور کر چکے ہوں، وہاں دین دشمن قانون سازی کرنا دراصل ان شہداء کے لہو کی توہین ہے۔ حکمرانوں کے اس عمل سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ اب ملک میں فیصلے قرآن و سنت کے مطابق نہیں بلکہ مغرب کی خوشنودی اور عالمی ایجنڈے کی بنیاد پر ہوں گے۔ حکومتی ایوانوں میں بیٹھی اشرافیہ شاید یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ وہ قوم کی غیرت کو نیلام کر سکتی ہے، مگر وہ یہ بات یاد رکھے کہ جس قوم نے ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے سڑکوں پر آ کر سب کچھ قربان کر دیا، وہ کسی غیر شرعی قانون کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔
یہ محض قانون سازی نہیں، بلکہ شعائرِ اسلام کا کھلا مذاق ہے۔ جب قرآن کہتا ہے کہ "لَا يُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ"، تو پھر کون ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنی ناقص عقل اور گمراہ کن خواہشات کے تحت دین کے مقابل قوانین بنائیں؟ افسوس کہ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جس کی بنیاد ہی اسلام پر رکھی گئی تھی، جہاں دستور کی ابتدائی شقوں میں ہی قرآن و سنت کی بالادستی کا عہد کیا گیا تھا، اور اب اسی آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ ملک میں پہلے ہی عدالتی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی انتشار موجود ہے، ایسے میں ایک نیا دینی محاذ کھول کر قوم کو مزید آزمائش میں ڈالنا انتہائی بے وقوفی اور سنگین غلطی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ قرآن اور شریعت کے خلاف اٹھایا گیا ہر قدم، قوم کے ایمان پر حملہ ہے، اور جو قوم اپنے دین کے خلاف چپ رہتی ہے، وہ تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو جاتی ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر یہ غیر شرعی بل واپس نہ لیا تو پھر یہ صرف ایک بل نہیں رہے گا، بلکہ ایک تحریک کی صورت میں ابھرے گا۔ ایک ایسی تحریک جو صرف قانون سازی کی مخالفت نہیں کرے گی، بلکہ اس پورے نظامِ باطل کی بنیادوں کو ہلا دے گی۔
لہٰذا حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش میں آئے، قوم کے جذبات کا احترام کرے، اور اس دینی و آئینی خیانت کا ازالہ کرے۔ بل کو فی الفور واپس لے، قوم سے معافی مانگے، اور قرآن و سنت کی بالادستی کا عملی اعلان کرے۔ اگر اس موقع پر بھی ٹال مٹول کی روش اختیار کی گئی، تو پھر آنے والے دنوں میں ایوانوں کی دیواریں لرزیں گی، اور حکمرانوں کو پناہ لینے کی جگہ نہ ملے گی۔ یہ قوم زندہ ہے، اور جب دین کی بات آتی ہے، تو یہ کوئی سمجھوتا نہیں کرتی۔
فیصلہ اب حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے یا تو وہ اپنی غلطی تسلیم کریں اور رجوع کریں، یا پھر تاریخ کے بدترین مجرم بننے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اسلام کی بالادستی اس قوم کا نصب العین ہے، اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ بنے گا، وہ خود فنا ہو جائے گا، لیکن دینِ محمدی ﷺ کا قافلہ نہیں رکے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں