قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشاور میں قبائلی جرگہ سے خطاب

 قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشاور میں قبائلی جرگہ سے خطاب

13 جولائی 2025

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمٰن الرحیم۔ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَیْنَهُمْ۔ صدق اللہ العظیم 

اس عظیم الشان جرگہ کے عمائدین اور اس جرگہ میں شرکت کرنے والے قبائلی رہنما، بہت عرصے بعد یہ جرگہ بلایا گیا ہے، کچھ ایسے نئے حالات سامنے آگئے جس کی وجہ سے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ہم ان حالات پر ایک دفعہ پھر بیٹھک کریں، مشورہ کریں اور پھر جو یہ جرگہ طے کرے گی اس پر پھر ہم عمل درآمد کریں۔

یہاں ہمارے اس جرگہ میں قبائلی رہنما بیٹھے ہیں جن میں اکثریت کا تعلق فاٹا سے ہے اور پچھلے تیس سالوں سے فاٹا کے عوام پر جو گزر رہی ہے اور ان کی زندگیوں کو جس طرح عذاب بنایا گیا ہے اس کا کیا حل نکالیں گے یہ ہماری ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔

میرے محترم بھائیو! یہ وقت نہ تو گلے شکووں کا ہے نہ ہی ایک دوسرے کو طعنے دینے کا، نہ ہی یہ وقت اس بات کا ہے کہ آپ صحیح تھے اور میں غلطی پر تھا یا میں ٹھیک تھا اور آپ غلطی پر تھے۔ سنجیدگی کے ساتھ پوری صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن میں صرف اس جرگہ کا پس منظر آپ کے سامنے واضح کرتا ہوں کہ یہ جرگہ جب شروع ہوا، اس کی ابتدائی وجوہات کیا تھی۔ اکثر رہنما تسلسل کے ساتھ جرگوں میں شرکت کرتے ہیں لیکن بعض رہنما ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے تسلسل کے ساتھ شرکت نہیں کی ہوگی تو ہوسکتا ہے ان کو پس منظر کا علم نہ ہو۔

جب ہم بحث کرتے ہیں تو اپنے بحث میں انضمام ٹھیک ہے اور انضمام غلط ہے، یہ انضمام کے حامی ہیں اور یہ مخالف ہیں۔ پہلے تو میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ موضوع دو لفظوں میں قید نہیں ہے، دو ہزار بارہ میں یہاں صوبہ میں اے این پی کی حکومت تھی، اسمبلی میں قرارداد پاس ہوا کہ فاٹا کا خیبرپختونخواہ کے ساتھ انضمام کر دے، اس وقت میں غالباً جولائی کا مہینہ تھا اور سولہ تاریخ تھی، اس وقت نشتر حال میں ہم نے پہلا جرگہ بلایا، ہم نے اپنے دوستوں کو یہ ہدایات دی تھیں کہ فاٹا کی اپنی ایک دنیا ہے، یہ قبائل ہے، ہر قبیلے کی پہچان ہے، اس کا نسب معلوم ہے، ہر قبیلے کی مٹی معلوم ہے، ہر قبیلے کا علاقہ معلوم ہے، یہ دعوت نامہ آپ لے کر اور حقیقی معنوں میں علاقوں میں باپ دادا کے زمانے سے جو ملک، نواب آ رہے ہیں یہ ان تک پہنچانا، صرف گنتی نہیں پوری کرنی، وہ لوگ جن کو قوموں نے رہنما تسلیم کیا ہے، قبیلوں نے تسلیم کیا ہے، ہر جرگہ کی صدارت وہ کرتے ہیں، نمائندگی وہ کرتے ہیں، ان تک پہنچوں تاکہ ہم حقیقی معنوں میں قبائل کا ایک نمائندہ جرگہ تشکیل دے سکیں اور اس صورتحال پر مشورہ کر سکے۔

 چنانچہ مشورے کا پہلا اجلاس ہوا، اگر آپ کو یاد نہیں تو میں آپ کو یاد دلاتا ہوں ہماری موضوع قطعاً یہ نہیں تھی کہ انضمام ہو یا نہ ہو، ہماری موضوع یہ تھی کہ اسمبلی نے یہ قرارداد پاس کیا ہے کہ انضمام ہو، تو اب یہ تو قبائل کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ تھا، ایک سو پچیس سال ان قبائل نے ایک نظام کے تحت زندگی گزاری ہے، ان کا اپنا ایک سیاسی، قبائلی، رواجی ایک نظام علاقوں پر نافذ ہے، اس میں یہ پلے بڑھے ہیں، ان کی نسلیں پلے بڑھے ہیں، ان کی زندگی کا ایک خاص بود و باش رہا ہے، اس حوالے سے ہمارے سامنے کون سے راستے ہیں؟ تو ہم نے تین راستے ڈھونڈ نکالے، پہلا یہ کہ قبائل کا پرانا سٹیٹس ایف سی آر، پولیٹیکل ایجنٹ اور ظاہری بات ہے کہ جب پاکستان بنا اور بانی پاکستان قائد اعظم خیبر تشریف لائیں اور اٹھارہ سو بیانوے میں فرنگیوں کا جو معاہدہ افغانوں کے ساتھ ہوا تھا اور فاٹا کہ اس منطقے کا تعین اور اس کی جو حیثیت مانی گئی تھی وہ واپس قبائل کو دیا اور قبائل نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا۔

تو اس صورت میں تو ڈیورنڈ لائن بھی تھا اور ہم جتنا بھی کہیں کہ یہ پاک افغان بارڈر ہے تو یہ ہماری یکطرفہ بات ہوگی یہ شائد افغانستان کو قابل قبول نہ ہو۔ ان معاہدوں کی رو سے اس منطقے میں یکطرفہ طور پر نہ پاکستان ردوبدل کر سکتا ہے اور نہ ہی افغانستان، ہم نے افغانستان کے حالات سے فایدہ اٹھایا اور یکطرفہ اقدامات اور فیصلے کیں۔ تو جب یہ صورتحال بنی تو جرگہ نے یہ تجویز پاس کی کہ اگر آپ انضمام کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ اسمبلی نے قرارداد پاس کیا ہے یا فاٹا کا پرانا سٹیٹس برقرار رکھنا چاہتے ہیں پرانے معاہدات کی روشنی میں اور یا یہ کہ آپ فاٹا کو مستقل ایک نیا صوبہ دے۔ اگر میرا حافظہ قوی ہو تو ان تین باتوں پر اس وقت ہمارا اتفاق رائے ہوا تھا، یہ نہیں کہا کہ انضمام یا ہاں یا نہیں، پرانی حیثیت برقرار رکھنا یا ہاں یا نہیں، یہ نہیں کہا، صوبہ بنانا یا ہاں یا نہیں، یہ نہیں کہا، یہ کہا ہے کہ یہ تین صورتیں ممکن ہیں اس میں فاٹا کے عوام کے ساتھ مشاورت کرو، ان کی رائے لو، فاٹا کے عوام کیا چاہتے ہیں، اگر یہ تھوڑی سی کاروائی آپ فاٹا میں کرے تو یہ عمل آپ کو کشمیر کے حوالے سے کام آئے گی اور دنیا میں ہندوستان کے مقابلے میں کشمیر کا موقف مذید مظبوط ہوگا کہ میں اپنے قبائل سے پوچھ کر ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتا ہوں تو کشمیر میں بھی ان کے رائے پر ان کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔

یہ سب باتیں میں نے کیں، لیکن ہمارے اس جرگے کی سولہ بندوں کی نمائندہ وفد تمام ایجنسیوں کو گئی، تمام ایجنسیوں میں جرگے کیے، اور ہر ایجنسی میں تین ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک بندوں نے ان جرگوں میں شرکت کی، جو رپورٹ ہمیں سولہ رکنی وفد نے دی اس کے مطابق بات کر رہا ہوں، سوائے خیبر ایجنسی کے، صبح وہاں جرگہ تھا اور رات کو دھماکے ہوئے، نقصانات ہوئے، خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگوں کی شرکت کے راستے بند ہوگئی، وہ جرگہ شائد کمزور تھا اس کے علاؤہ تو تمام ایجنسیوں میں لوگ گئے اور خود اعتمادی کے ساتھ عوام سے بات کی۔

پھر حکومت نے سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی، انہوں نے دورہ کیا، یہ میں کوئی غائبانہ بات نہیں کر رہا، سرتاج عزیز صاحب ہمارے بڑے ہیں، قابل احترام ہے، اللہ ان کو مذید زندگی دے، انہوں نے مجھے خود کہا کہ ہمارے لوگ گئے، قبائل سے ملے اور ہر ایجنسی میں تین سو سے لے کر پانچ سو تک لوگ موجود ہوتے تھے۔ میں نے کہا آپ کے سرکاری وفد کے ساتھ تین سو سے پانچ سو تک لوگوں نے ملاقات کی ہے اور ہمارے جرگہ کے نمائندہ وفد کے ساتھ تین ہزار سے پانچ ہزار تک لوگوں نے ملاقات کی ہے۔ پھر وہ رپورٹ انہوں نے لکھی تھی اس میں جو کمزوریاں تھیں وہ ہم نے اٹھائی اور پارلیمنٹ کے فلور پر بیان کیں۔ میں نے اس میں ایک سوال کیا کہ آپ اپنی رپورٹ میں کہہ رہے ہیں کہ ہم دس سال تک ایک ہزار ارب روپے قبائل کو دیں گے، ہر سال سو ارب، اس لیے تاکہ ہم قبائل میں انفراسٹرکچر تیار کرسکیں، سڑکیں، بجلی، ہسپتالیں، سکول کالجز یونیورسٹیاں تعمیر کر سکے اور قبائل کی زندگیوں کا معیار سیٹلڈ علاقوں کے برابر لاسکے، یہ آپ نے رپورٹ میں لکھا ہے۔ تو میں نے کہا کہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ مقاصد ہم حاصل کریں گے، سیٹلڈ کے ساتھ قبائل کو برابری دیں گے، دس سال ہمیں چاہیے ہوں گے اور دس سالوں میں ہر سال سو ارب دیں گے، تو میں نے کہا پھر جلدی کیا ہے پہلے یہ کام مکمل کر دے، دس سال پورے کریں، یہ پتہ بھی چل جائے گا کہ آیا واقعی آپ پیسے دے رہے ہیں یا نہیں، یہ پیسے صحیح جگہ خرچ ہوتے ہیں یا نہیں، قبائل آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں یا اعتراض کرتے ہی، دس سالوں میں سیاہ سفید سب سامنے آجائیں گے اور بات واضح ہو جائے گی۔

لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں، ابھی کریں گے، میرے علم کے مطابق آئین میں قبائل سے جڑی ایک یا دو دفعات ہیں، یہ ایک یا دو دفعات آپ ختم کریں گے اور تمام آئین کے ڈیڑھ سو یا دو سو دفعات ان کے کندھوں پر لاد دوگے۔

اس پر بھی بحث کی ضرورت ہے یا نہیں، تھوڑا اس پر اسمبلی میں بحث تو کرے نا تاکہ یہ باتیں واضح ہو جائے۔ بغیر بحث کے قرارداد پاس کی، نواز شریف صاحب کے وقت میں پاس ہوا، میرے ساتھ اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور میرے سامنے یہ بات کی یہ صرف آپ کے سامنے نہیں، ہر کسی کے سامنے کی ہے، وضاحت کے ساتھ مجھے کہا کہ مولوی صاحب آپ کیوں ہمارے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں، ہم پر امریکہ کا دباؤ ہے اور اسلام آباد تک ہم پر بمباریاں شروع ہو جائے گی۔

اگر ہم نے یہ بات نہیں مانی، میں حیران رہ گیا کہ ہم اتنے کمزور ہیں اور اس دباؤ کے نیچے ہم قوموں کے فیصلے کریں گے۔

ایک مجلس میں میں نے بات کی کہ قبائل سے تو پوچھو، مجھے اب بھی اس بات پر افسوس ہے کہ ان لوگوں نے کہا قبائل ہے کون جن سے ہم پوچھیں گے۔ باجوہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ تو قبائلی نمائندہ نہیں ہے، قبائلی نمائندگان تو سب ہمارے ساتھ ہیں، میں نے ان سے کہا آپ کو خبر ہے آپ کے ساتھ کتنے قبائلی ممبران ہیں تو اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، تو میں نے کہا میں آپ کو دکھاتا ہوں آپ کے پاس انیس بندے ہیں اور اس میں چار ووٹ آپ کے باقی پندرہ میرے ہیں، لیکن آپ نے ان پندرہ بندوں کے ہاتھ باندھ دیے ہیں، ان کے بغل میں آئی ایس آئی چیف بیٹھا ہے، ابھی ان کے ہاتھ کھول دو میں پندرہ منٹ میں پریس کانفرنس کرکے دکھاؤں گا اور یہ سب کہیں گے کہ یہ فیصلہ غلط ہے۔ اور پھر میری بات اس دن سچ ثابت ہوئی جس دن ووٹنگ ہو رہی تھی اور پندرہ بندوں نے ووٹ نہیں ڈالے تھے، یہ ملک صاحب ہمارے بڑے ہمارے سامنے موجود ہے اور باہر آکر بیان دیا کہ اگر ہم ووٹ دیتے تو پھر ہم واپس اپنے قبائل نہیں جاسکتے تھے۔

ان واقعات سے میں گزرا ہوں، چشم دید حالات سے گزرا ہوں، قبائل میں جو ہمارے پارلمینٹ ممبران ہیں ، ہمارے کولیگز، ہمارے دوست وہ سب میرے باتوں سے واقف ہیں۔ انضمام ہوگیا، لیکن انضمام سے پہلے جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے اور جنرل عبد القادر بلوچ سرحدات کے وزیر تھے دونوں میری رہائش گاہ تشریف لائیں اور مجھے کہا کہ یہ ہمارے فیصلے کہ پچیس نکات ہیں، ان پچیس نکات میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے وہ نکتے جن سے آپ کو اختلاف ہے وہ چار ہیں، ان چاروں میں یہ سب انضمام سے جڑی باتیں ہیں ہم اسے واپس لیتے ہیں، اور واپس لیتے ہیں لیکن آپ ایک بات ہمارے ساتھ مان لے، میں نے کہا کیا؟ کہنے لگے کہ پشاور ہائی کورٹ کے اختیارات کو فاٹا تک توسیع دیں گے۔ میں نے کہا جب پشاور ہائی کورٹ کے اختیارات کو فاٹا تک توسیع دی تو آپ نے تو انضمام کر دیا، کہنے لگے نہیں، آپ کو یہ ہمارے ساتھ ماننا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ اگر آپ خواہ مخواہ چاہتے ہیں کہ وہاں عدالت قائم ہو تو پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کو یہ اختیار دو، کیوں کہ یہ علاقے وفاق کے زیر انتظام ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ وفاق کا کورٹ ہے تو وہ زیادہ بہتر رہے گا بنسبت اس کے، تو کہنے لگے کہ وہ تو بہت دور ہے، میں نے کہا دور نہیں ہے یہاں پشاور میں ایک بنچ تشکیل دو، فاٹا میں ایک بنچ قائم کرو، اور لوگ وہاں اپنے مقامی مقدمات حل کریں گے۔

اور پھر میں نے ان سے کہا کہ یہ تو بتاؤ کہ عدالتوں میں تو دو قسم کے مقدمات ہوتے ہیں ایک فوجداری اور ایک دیوانی، فوجداری تو چلو ہم مان لیتے ہیں چھوٹے موٹے واقعات کسی نے جھگڑا کیا، کوئی ایف آئی آر درج ہوئی اور عدالت گئے لیکن دیوانی کیسز میں تو لینڈ ریکارڈ لازمی ہے اور تمام فاٹا میں لینڈ ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ یہ وطن فلاں خیل کا ہے، یہ فلاں خیل کا ہے، یہ داوڑ کا ہے، یہ وزیروں کا ہے، یہ محسود کا ہے، یہ اورکزئی کا ہے، وطن اور مٹی تقسیم ہے، کنال کی تقسیم نہیں ہے، گھر گھر کی تقسیم اس علاقے میں نہیں ہے تو کورٹ وہاں کیا کرے گی، مچھر ماریں گے۔

ابھی پچھلے سال ایک بندہ میرے پاس آیا تھا صوبے کا ایک آفسر تھا، مجھ سے کہا کہ ان شاءاللہ ہم لینڈ ریکارڈ بنائیں گے، میں نے کہا کیسے ؟ کہا کہ سیٹیلائٹ سے تصویریں لیں گے اور پھر وہاں سے قبیلے معلوم کرکے ان میں پلاٹس کی تقسیم کریں گے، تو میں نے کہا سیٹلائٹ سے زمین پر بھی اترو گے یا نہیں۔

تو یہ ان کی مجلسیں، یہ ان کی باتیں، کس نے ہم پر آپریشنز میں اور کہا کہ اپنے گھر اور علاقے چھوڑ دو، ہم نے چھوڑ دیے، بارہ گھنٹوں میں علاقہ چھوڑ دو، یہ لوگ کیسے نکلے ہیں وہ مناظر آپ لوگوں نے دیکھے ہوں گے، جو ان کے ہاتھ سامان لگا ہے بس وہی اٹھایا اور چل دیے، زیور، سونا، چاندی، پیسے، کپڑے، بستر سب کچھ چھوڑ گئے۔ ان حالات میں قبائل اپنے وطن میں مہاجر بن گئے اور صرف پختونخوا نہیں بلکہ سندھ، پنجاب تک جگہ جگہ کیمپس لگائے ہیں، اپنے خرچے پر زمینیں آباد کیے لیکن آج بھی اپنے وطن تک پورے نہیں پہنچ گئے ہیں۔ اور جب ان کی واپسی ہوئی تو وہ مناظر بھی آپ کے سامنے ہیں میں اس پر کیا کہوں گا۔

ان حالات سے ہم گزرے ہیں، قوم سے نہیں پوچھتا، آپ مجھے بتائیں کہ ان دس سالوں میں یا آٹھ سالوں میں آپ کو آٹھ سو ارب روپے ملے ہیں ؟ ایک ارب بھی مشکل سے اگر حکومت کہے کہ ہم نے قبائل کو دیے ہیں۔ کیوں اس قوم کا مذاق اڑایا گیا۔ میرے قبائل پورے پختون خواہ میں سب سے محترم قوم پکارا جاتا تھا، میرے قبائل کی اپنی معزز دستار تھی، آپ نے ان کی دستار گرا دی، آپ نے ان کی پگڑی گرا دی اور میں الحمدللہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے قبائل بھائیوں کی جو دستار، جو پگڑی آپ نے ان کے سروں سے گرائی تھی میں نے اگر اور کچھ نہیں کیا تو وہ روک رکھی ہے اور اسے زمین پر گرنے نہیں دی ہے، اگر یہ گناہ ہے تو یہ گناہ میں نے کیا ہے، اسی پر ان شاءاللہ جنت جاؤں گا۔

قومیں حق رکھتی ہیں، عزت رکھتی ہیں اور فوج سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میرے وطن کی دفاعی قوت ہے، میں نے آپ کے ہاتھ میں بندوق دیا ہے اپنے ہاتھوں سے تمہیں طاقتور بنایا ہے، اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھا ہے اور تمہیں طاقتور بنایا ہے، آج تم قبائل میں بیٹھے ہو اور مجھ پر حکومت کر رہے ہو۔ فوج کے جرنیلوں سن لو یہ آواز، میں اور آپ ایک برابر پاکستانی ہیں، میرا ایک غریب قبائلی، پاکستان کا ایک غریب شہری جیب میں جو شناختی کارڈ رکھتا ہے اور اس کی اساس پر وہ پاکستانی ہے قسم سے تم بھی اسی شناختی کارڈ کے اساس پر پاکستانی ہو، مجھے برابری کی نظر سے دیکھو گے، مجھے کمتر نہیں دیکھو گے اور کمتر دیکھو گے تو قسم سے پھر میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں گا، پختون بندہ کمتری کی زندگی نہیں گزار سکتا، ہم کمتر نہیں ہے، ہم کٹر پختون ہیں اور اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں، روشن اور قابل فخر تاریخ رکھتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرتے ہیں۔

لیکن آئیں آج مسئلے کو دیکھتے ہیں کہ ہم نے تو وہاں بھی نہیں کہا کہ انضمام کرو یا نہ کرو، پرانی حیثیت برقرار رکھو یا نہیں، صوبہ بناؤ یا نہیں، لیکن قوم سے تو پوچھو، آؤ آج پھر اسی موضوع پر مشورہ کرتے ہیں انضمام کی حمایت یا مخالفت، لیکن اتنا تو پتہ چل گیا کہ رائے کی اختلاف کا حق ہر کسی کو ہے، سوچ اور فکر کی اختلاف کا حق ہر کسی کو ہے لیکن میں اسی سوچ پر حیران ہوں اے قبائلی رہنماؤں اور وہ رہنما جو حیات ہیں اور اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں پاکستان کے تمام جماعتوں کے ساتھ اگر وہ سیاسی تھے، مذہبی تھے ہر قسم تنظیمیں، ان کے ساتھ آپ کی میٹنگ ہوئی تھی اور انہوں نے اس میٹنگ میں آپ کو ہاں کہا تھا آیا اسمبلی میں بھی اس ہاں کے حق میں ووٹ دیا یا نہیں۔

تو بات یہی ہے اگر میں نے وہاں ہاں کہا ہو اور پھر بعد میں مخالفت کی ہو میں آپ کا مجرم ہوں، جرگہ میں کہوں کہ تم مجرم ہو، اور اگر آپ نے فیصلہ کیا ہو اور میں نے ہاں کہا ہو، پھر تو سیاسی لوگوں کو چاہیے تھا کہ اس پر کھڑے رہتے۔

میں نے کہا وزیراعظم صاحب آپ نے تو میرے ساتھ مان لیا کہ یہ تین نکتے نکال دیں گے پھر جب ایک دو مہینے گزر گئے پھر لوگوں کو بلایا اور کہا کہ نہیں ہم تو مجبور تھے تو میں نے تم سے اجلاس میں کہا جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر بیٹھے تھے، ان کی موجودگی میں کہا کہ جب تم میرے پاس آئے تھے میرے ساتھ جو باتیں کیں تھے وہ کچھ میں نے نوٹ کیں ہیں، گواہ نہیں ہے لیکن دو تم تھے اور تیسرا میں آپ کے ساتھ بیٹھا تھا، آپ جو باتیں کر رہے تھے تو میں نے دو تین باتیں اپنے ساتھ نوٹ کیے وہ میرے پاس لکھ کر پڑھی ہیں، میں ان لوگوں کے سامنے وہ کہنا چاہتا ہوں اگر میں نے غلط نوٹ کیے ہیں تو سامنے کہو کہ فضل الرحمن تم نے غلط نوٹ کیے ہیں اور تم جھوٹ بول رہے ہو اور اگر میں نے آپ کی باتیں درست نوٹ کی ہے تو پھر لوگوں کے سامنے گواہی دو کہ فضل الرحمن ٹھیک کہہ رہا ہے۔ تو جب میں نے باتیں کیں کہ یہ یہ آپ نے کہا تھا تو عبد القادر بلوچ نے کہا کہ مولانا صاحب ہم یہ سب باتیں آپ کے ساتھ مانتے ہیں اور ہم نے کیے ہیں لیکن ہم مجبور تھے۔ اب اس مجبوری کی تشریح آپ خود کرے کہ وہ کیا مجبوری ہو سکتی ہے۔ تو سب نے کہا کہ اچھا آپ نے جمعیت کے ساتھ باتیں طے کیں ہیں اور پھر ہمیں جمع کیا ہے، سوال تو درست تھا، گلہ تو بجا تھا لیکن دوسری بات وہ یہ کیا کرتے تھے کہ بس آپ کو اختیار ہے جس طرح آپ چاہے، جس طرح آپ چاہے۔

ان حالات سے بات آج یہاں تک پہنچی کہ آج اسی پشاور میں آرمی چیف ایا ہوا ہے، وزیراعظم آیا ہوا ہے اور جرگے کے ساتھ بیٹھے ہیں، اس مجلس میں آپ لوگوں کی شکایتیں سنی ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ہوسکتا ہے ہم انضمام کے فیصلے پر پھر نظرثانی کرے اور اس کے لیے ہم کمیٹیاں بنائیں گے، اور اب کمیٹی بنائی ہے اور اس میں ہمارے صوبے کے کتنے بندے ہیں مجھے علم نہیں، لیکن بہرحال ایک کمیٹی بنی ہے۔ کتنے قبائل ہیں مجھے پتہ نہیں، لیکن فیصلہ آپ کا ہوگا، آپ کے مستقبل کا ہوگا، آپ کے آنے والے نسلوں کا ہوگا اور آپ کی رائے شامل نہیں ہوگی۔

اب یہ جو کمیٹی حکومت نے بنائی ہے پہلے تو ہمیں یہ سمجھا دے کہ تم چاہتے کیا ہو، پورے انضمام کا فیصلہ واپس کرنا چاہتے ہو، پرانی سٹیٹس بحال کرنا چاہتے ہو، نیا صوبہ بنانا چاہتے ہو، گلگت بلتستان کی طرح صوبہ کا سٹیٹس دینا چاہتے ہو، اپنا مقصد تو واضح کرو تاکہ میں اس حساب سے رائے دے سکوں۔ آپ نے ناخن سامنے کر دیا کہ اگر جرگہ سسٹم دوبارہ بحال ہو جائے، تو جب آپ ناخن دکھا رہے ہیں تو اس کے پیچھے بھی دکھاؤ کہ مکا بھی ہوگا یا نہیں۔

تو یہ ساری باتیں حضرت مبہم چل رہی ہے۔ ہم اندھیروں میں چل رہے ہیں، پاکستان کے ذمہ دار لوگوں نے ہمیں اندھیروں میں ڈالا ہے اور آنے والا سفر بھی ہم سے اسی اندھیرے میں کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ایک دفعہ پھر اس بات پر بیٹھتے ہیں۔ اگر کسی نے انضمام کی حمایت کی ہے یہ اس کا حق تھا، میں کسی کا حق نہیں مار سکتا، اگر کسی نے مخالفت کی ہے تو یہ اس کا حق تھا، ہم کسی کا حق نہیں مارنا چاہتے، نہ کسی کو ہم طعنہ دینا چاہتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم چیختے تھے کہ انضمام کا تجربہ ناکام ہوا ہے، اگر تجربہ کامیاب کرتے تو آج میں ہاتھ جوڑ کر کہتا کہ میری رائے غلط ہے آپ نے بہت اچھا منصوبہ بنایا تھا قبائل کو آباد کیا یا اس سے زیادہ بدامنی کی طرف دھکیلا، اور صرف یہ بات نہیں ہے کہ فاٹا کو دوبارہ بحال کرتے ہیں، بدامنی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے، آپ ہم سے کہہ رہے ہیں علاقہ چھوڑ دو، گاؤں کو خالی کرو، تو میں نے یہ گاؤں خالی کیں ہیں، چوبیس گھنٹے میں بھی اور بارہ گھنٹے میں بھی خالی کیے ہیں۔ میں آج بھی پاکستان میں جگہ جگہ پر مہاجر کی زندگی بسر کر رہا ہوں، تم نے مجھے کون سا امن دیا ہے۔ اس وقت جب بدامنی تھی تو مسلح گروہ سی پیک سے سو کلومیٹر دور تھے، آج میرے صوبے کا سی پیک مسلح گروہوں کے قبضے میں ہے۔ آپ کا فلسفہ، آپ کی حکمت عملی، آپ کی کارکردگی نے تو مجھے مذید آگ میں جھونک دیا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ پھر بھی بدامنی کا ذمہ دار مجھے ٹہراؤ گے، اس بدامنی کی سزا قبائل کو دوگے، اس کی سزا عورتوں اور بزرگوں کو دوگے۔ قبائل تو بڑے حیا دار اور عزت دار لوگ ہیں۔ اپنے باپ دادا کی غیرت کا لاج رکھا ہے، ان روایات کو زندہ رکھا ہے، اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔

تو بدامنی تو اس سے بھی زیادہ ہوگئی ہے، کم از کم آپ کو میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے علاقے میں مسلح لوگ نہیں تھے، اب ہمارے علاقے، گھر، گلی کوچوں میں یہی لوگ دندناتے پھرتے ہیں۔ عصر کے بعد سڑکیں اور راستے ان کے قبضہ میں ہوتی ہے، نہ پولیس ہے نہ ہی فوج، تو جب تم روزانہ میری پیٹ پر چھری پھیرتے ہو میرے بچوں کا پیٹ کاٹتے ہو، مطلب کیا ہے ؟

واقعات ہوتے رہتے ہیں تم اسے ماروگے جواب میں وہ آپ کو مارے گا، لیکن بات تو عوام کی ہے پبلک پر کیا گزرتی ہے، پبلک کی حفاظت تو نہیں ہے، اس کے لیے تو میں نے قربانی نہیں دیکھی۔ کل کو مجھ سے کہوگے کہ میری قربانیوں کی قدر نہیں کرتے، اگر میں بے قدری کرتا تو جب چار گھنٹوں میں انڈیا کو شکست دی تو پورے پاکستان میں سب سے پہلے میں نے آپ کے حق میں آواز بلند کی تھی اور آپ کے حمایت کا اعلان کیا تھا، میں جب قدردان ہوں تو پھر اتنا ہوں، میں لوگوں کے خون اور زندگیوں پر سیاست نہیں کرتا۔

لیکن دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہو رہی؟ یہ ختم نہیں ہوگی میرے بھائیو ناراض نہیں ہونا کیوں کہ یہی دہشت گردی کا نسبت مذہب کی طرف کیا گیا ہے، یہ داڑھی پگڑی والے مولوی، یہ مدارس کے طلبہ، یہ مدارس ان کے آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ تو یہ ایجنڈا یہ زندہ رکھیں گے۔ دہشت گردی، خوارج اور پھر یہ کون ہے، یہ تو اسی مدرسے کا طالب، ارے کالجز اور بورڈنگ ہاؤس میں بھی تو لوگ پکڑے گئے ہیں، یونیورسٹیوں میں بھی پکڑے گئے ہیں اور سب سے زیادہ گرفتاریاں وہاں ہوئی ہیں لیکن آپ کے آنکھوں میں دینی مدارس کھٹک رہے ہیں جو لوگوں کو قرآن و حدیث سکھاتے ہیں۔ اس کے علاؤہ کوئی اور ایجنڈا نہیں ہے، مجھے گمراہ مت کرو میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں اور اتنا لاعلم نہیں ہوں کہ آپ کے ایجنڈے کو پہچان نہ سکوں۔

بات اگر کرنا چاہتے ہو، سلیقے سے کرو، جھوٹ نہ بولو ہم سے اور نہ میں جھوٹ بولوں گا، حقائق بولو حقائق بیان کروں گا، میں نے مذاکرات سے انکار نہیں کیا ہے۔

تو ایسی صورتحال پر میں نے آپ کا تھوڑا زیادہ وقت لے لیا کہ ہمارا تو یہ حال ہے کہ کوئی بھی پارٹی محفوظ نہیں ہے، میں کس کس کا ذکر کروں۔ ایک زمانے میں اے این پی کے لوگ شہید ہو رہے تھے، مختلف پارٹیوں کے لوگوں کا خون بہا ہے، آج کل جمعیت ٹارگٹ پر ہے اور کہتے ہیں یہ علماء کافر ہیں، مفتی محمود سے لے کر شیخ الہند تک ان تمام اکابرین کو کافر قرار دیا ہے اور اس پر کتاب لکھی ہے، اس سے نہیں ڈرتے کہ اس لکھائی پر تو میں خود بھی کافر بن جاتا ہوں، اتنے یہ اندھے ہو چکے ہیں اور ان کے دل کی آنکھیں بھی آندھی ہو چکی ہے۔

تو ان مشکلات سے گزر کر جا رہے ہیں، یہ آپ کے اور ہمارے مشترکہ مشکلات ہیں، اس میں نہ پارٹی کا سوال ہے، نہ فرقے کا، نہ مذہب کا، ہمارے جرگے میں اگر اقلیت کے نمائندے ہیں وہ بھی شریک ہیں، اگر فرقے ہیں شیعہ سنی وہ بھی شریک ہیں، وکلاء بھی نمائندگی کر رہے ہیں، صحافیوں کی نمائندگی بھی ہوتی ہے، ہر طبقہ فکر کی اس میں نمائندگی ہے اور اس کے لیے کہ کم از کم ہم اس موضوع پر ایک مقام تک پہنچے کہ ہم حکومت کو کیا مشورہ دے اور اس وقت کیا رائے تیار کریں کہ قبائل بھی یکسوں ہو جائے اور اپنے لیے ایک راستے کا انتخاب کرے جس پر ہم سب نکل پڑے۔

یہ چند باتیں میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی تاکہ تھوڑا پس منظر واضح ہو جائے، تھوڑا ہمارے موقف کے جو جہت ہیں وہ واضح ہو جائے اور پھر قبائل کو اختیار کہ ہماری اجازت کے بغیر، حد یہ ہے کے آج یہ کہتے کہ قبائلی نمائندگان اس میں شرکت کرتے، میں آخری بات سے آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں پھر آپ کو بات واضح ہو جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف صاحب جب واپس گئے اور کمیٹی بنائی تو میری رہائش گاہ آئے اور ملاقات کی اور یہ بات میں پبلک میں پہلی بار کر رہا ہوں، مجھ سے کہا کہ ہم نے فاٹا کے بارے میں ایک کمیٹی بنائی ہے آپ بھی اپنی پارٹی کا نمائندہ دے، عجیب بات ہے کہ یہ جمعیت سے نمائندہ مانگتے ہیں اور دوسری پارٹیوں سے نہیں، تو یہ کیا معنی رکھتی ہے ؟ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی،اے این پی، محمود خان کی نمائندگی نہ ہو اور صرف جمعیت سے نمائندگی مانگنا مجھے بھی اس کا علم نہیں۔ تو میں نے کہا جمعیت اپنا نمائندہ نہیں دے گی، جمعیت اپنے قبائل کا ایک بیٹھک رکھتی ہے، ایک جرگہ رکھتی ہے ہم قبائلی جرگے سے پوچھ کر کہ اس جرگے میں کس لیول پر شرکت کرنی ہے اور کس طرح کی نمائندگی ان کو دینی ہے، ایک بندہ دینا ہے یا دو تین چار پانچ یا بالکل نہیں دینا ہے، جو فیصلہ آپ لوگوں نے کیا وہی فیصلہ ہمارا ہوگا اور اس رائے پر اگلا قدم ہم رکھیں گے۔ اللّٰہ پاک ہماری رہنمائی فرمائے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

‎پشتو سے اردو ترجمہ: #سہیل_سہراب

‎ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز 

‎#teamJUIswat


پشاور:قبائلی جرگہ سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا تفصیلی خطاب

پشاور:قبائلی جرگہ سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا تفصیلی خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, July 13, 2025

0/Post a Comment/Comments