مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پلندری میں آل آزاد جموں و کشمیر ورکرز کنونشن سے خطاب

قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پلندری میں آل آزاد جموں و کشمیر ورکرز کنونشن سے خطاب

20 جولائی 2025

الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم 

امت مسلمہ ہو یا پاکستانی قوم ہو، ہر طرف مشکلات میں گری ہیں۔ لیکن جو ان مشکلات کا حل ہے، ہم اسے دو نظر انداز کر رہے ہیں اور جو مشکلات کا سبب ہے، اُنہی اسباب کو مشکلات کا حل قرار دے رہے ہیں۔ جب تک امت اور ہماری قوم اس سب سے نہیں نکلے گی، مشکلات کی حل کی باتیں کرنا اور اس بھنور سے نکلنے کا سوچنا بے معنی ہوگی۔ 

میرے محترم دوستو، یہ دنیا دار الامتحان ہے، یہ دنیا آزمائشوں کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی ہمیں نعمتیں دے کر آزماتا ہے، کبھی نعمتیں چھین کر آزماتا ہے۔ کبھی ہمارے شکر کو آزماتا ہے اور کبھی ہمارے صبر کو آزماتا ہے۔ وہ مالک ہے۔ لیکن انسان کی پرسکون زندگی کے لئے اور انسان کی مطمئن زندگی کے لئے اللہ رب العزت نے انبیاء کرام بھیجے۔ ہزاروں سال یہ سلسلہ جاری رہا اور تمام انبیاء نے بندوں کا تعلق رب سے جوڑنے کا کام کیا۔ ایک خدا اور اس کے علاوہ سب کا انکار، یہ چیز دل میں ڈال لی تھی۔ اس سے قلب و ذہن کو منور کرنا تھا اور جب ہر پیغمبر نے جب تک وہ صرف عبادت کرتا رہا جب تک اپنی ذات کی حد تک وہ اللہ سے وابستہ رہا تب تک معاشرے کو ان پر اعتراض نہ تھا، کوئی حجرے میں بیٹھا ہے، کوئی گھر میں بیٹھا ہے، کوئی صحرا میں بیٹھا ہے اور اپنے رب کو یاد کر رہا ہے، سوسائٹی کا اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا، وقت کے سرداروں کا اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن جب انہوں نے آواز دی قولوا لا الہ الا اللہ، یہاں سے جنگ شروع ہو گئی۔ ان کو بھی اندازہ تھا کہ اس نعرے کے پشت پر اور اس کلمے کے پشت پر ایک انقلاب کا نظریہ وابستہ ہے۔ اب ہماری حاکمیت نہیں رہے گی، اب ہمارے خداؤں کی حاکمیت نہیں رہے گی اور یہ سلسلہ جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم پر آ کر مکمل ہوا اور اللہ رب العزت نے تین جملوں میں اس کا اعلان کیا۔ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر لیا۔ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو بطور نظام حیات کے پسند کر لیا، ہر چیز کی ایک ابتدا ہوتی ہے جہاں سے سفر کا آغاز ہوتا ہے اور ہر چیز کی ایک منزل گاہ ہوتی ہے جہاں پر سفر کا انتہا ہوتا ہے۔ تو ظاہر ہے دین اسلام کی ابتدا دیانت و امانت سے شروع ہوئی وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ میں نے انس و جِن کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں گے۔ تو دل کے اندر دین آگیا دل کے اندر ایمان آگیا ہر شخص کے اپنے دل کے اندر دین و ایمان یا دیانت و امانت بھر جائے اس سے آگے پھر سفر شروع ہوتا ہے، مشکل یہ ہے سمجھانے کیلئے مشکل یہ ہے ہمارے پاس کہ سفر کے آغاز کو سفر کے انجام سے تعبیر کر دیا گیا ہے، اسی پہ گزارہ کرو، اگر یہ کافی تھا تو کیا نبی بعثت سے پہلے یہ کام نہیں کرتا تھا؟ کیا اس کے قلب و دروں میں ایمان اور دین موجود نہیں تھا؟ اس لئے ہمارے اکابر اللہ ان کے قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، انہوں نے جو ہمیں قرآن کی تعلیم دی ہیں تو وہ فرماتے ہیں الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، تو دین کا مکمل ہونا اِکمال دین یہ بہ اعتبار تعلیمات و احکامات کے ہے اب مزید آپ کو کسی قانون کسی نظریے کسی آئین اور کسی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں، اب جو بھی چشمیں پھوٹیں گے یہ ہیں سے پھوٹیں گے، چاہے ان علوم کا تعلق فلکیات سے ہو چاہے ان علوم کا تعلق ارضیات سے ہو، چاہے ان علوم کا تعلق علویات سے ہو، چاہے ان علوم کا تعلق سفلیات سے ہو، یہ ساری چیزیں ہمیں قرآن کریم نے بتا دی الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ اور پھر فرمایا وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي اور اب ہم نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے، تو ہمارے اکابر فرماتے ہیں کہ ایک ہے اِکمال دین اور ایک ہے اِتمام نعمت، اب اللہ کی طرف سے جو نعمت ہمیں دی گئی اور بصورت تمام کے دی گئی کوئی کمی نہیں چھوٹی اس میں، تو ہمارے علماء کرام جانتے ہیں کہ جو چیز مطلق ذکر ہوگی خارج میں اس کا فرد کامل مقصود ہوگا تو کامل فرد اس نعمت کا کیا ہو سکتا ہے ہمارے اکابر فرماتے ہیں کہ پھر اِتمام نعمت یہ اس مکمل دین کی حاکمیت اور اس کی حکومت کرنا ہے، جس کو آپ حضرات کہتے ہیں یہ مولوی سیاست کی بات کرتے ہیں، شرم آنی چاہیئے ایسی بات کرنے پر، یہ تو انبیاء کی توہین ہے انبیاء کے علوم کی نفی ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبيٌّ، وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي، وسَيَكُونُ بَعدي خُلَفَاءُ۔ اب ہم ہیں ہم نے آپس میں طے کر لیا ہے خود ہی طے کر لیا ہے، ختم نبوت کا مسئلہ سیاست سے بالا تر، ختم نبوت کا سیاست سے کیا تعلق ہے، متفقہ مسئلہ ہے، بھئی ذرا حدیث کو تو پڑھو، ختم نبوت کا ذکر اللہ کہاں کرتا ہے، سیاست کے ذیل میں کرتا ہے، بنی اسرائیل کے انبیاء سیاست کیا کرتے تھے ایک پیغمبر جاتا تھا دوسرا اس کی جگہ لیتا تھا اور اب میں آخری نبی ہوں اور آخری سیاست دان ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ہاں میرے خلفاء ہوں گے، میرے نائبین آتے رہے ہیں گے، فَيَكثُرُونَ اور بڑی تعداد میں آتے رہیں گے۔ ہم نے اسلام کو اس پہلو سے کیوں نہیں سمجھا، ہم نے سیاست کو اس پہلو سے کیوں نہیں سمجھا کہ سیاست نام ہے انتظام و انصرام کا، تدبیر و تدبر کا، چاہے وہ گھر سے شروع ہو۔ چنانچہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت ابی بکر فرماتی ہے وَكَانَ لَهُ فَرَسُ كُنْتُ أَسُوسُها، میرے خاوند کا ایک گھوڑا ہوتا تھا جس کا تدبیر و انتظام اس کی چاراگری میرے ذمہ ہوتی تھی وَلَمْ يَكُنْ عَلَيَّ شَيءٌ اَشَقُ عَلَيَّ مِن سِيَاسَتِ الْفَرسِ اور گھر میں سارے کام کاج گھوڑے کی اس تدبیر و انتظام سے زیادہ کوئی مشکل میرے اوپر نہ تھی سب سے مشکل کام یہی تھا میرے لئے۔ تو گھر کے انتظام سے سیاست شروع ہوتی ہے مملکت کے انتظام تک یہ معاملہ چلتا ہے، ہم نے یہ معاملہ آپ علماء کرام ہیں ماشاءاللہ ابھی کوئی مسجد کے مصلے پہ کھڑا ہوگا کوئی اُمّی آدمی آگے کھڑا ہو جائے مصلے پہ آپ فوراً اس کو پکڑ لیتے ہیں، نہیں یہ مصلہ تو پیغمبر کی وراثت ہے یہ تو اس کے جائے نماز ہے اس کا وارث تو میں ہوں وَالْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنبِيَا تم کون ہوتے ہو اس مصلے پہ کھڑے ہونے والے، مسجد کے محراب پہ اور اس کے منبر پہ کوئی اُمّی آدمی آکر بیٹھ جائے اور تمہیں خطبہ دینے لگے تو آپ کہتے ہیں یہ منبر الرسول ہے اور اس کا وارث میں ہوں، یہاں میں نے بیٹھنا ہے، اگر مسجد کا مصلہ اور مسجد کا منبر وہ رسول اللہ کی وراثت ہے اور اس وراثت کے مستحق آپ علماء کرام ہیں تو پھر سیاست یہ کس کی وراثت ہے کہ آپ نے اس سے اپنے آپ کو لا تعلق کر دیا ہے، پھر انبیاء کا وارث نہ کہا کر اپنے آپ کو، پھر کیا حق ہے یہ بات، تو اکمال دین تعلیمات و احکامات کے اعتبار سے، اتمام نعمت اس مکمل دین کی حاکمیت کی صورت ہے، وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا اور اسلام کو میں نے تمہارے لئے بطور نظام حیات کے پسند کر دیا ہے۔ 

آج میرے اپنے ملک کا مسلمان، آج میرے اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ، آج میرے اپنے ملک کی بیوروکریسی، آج میرے اپنے ملک کا جاگیر دار، آج میرے اپنے ملک کا سرمایہ دار، آج میرے اپنے ملک کا صنعتکار اپنے اسلام سے ڈرتا ہے، اسلام آیا تو کیا ہو جائے گا، اسلام آیا تو کیا ہو جائے گا، اچھا کچھ تو وہ ڈرتے ہیں تو کچھ ہمیں بھی ڈرارہے ہوتے ہیں نا ہمیں بھی تو ڈرارہے ہوتے ہیں مولوی صاحب سٹیج پر کھڑا ہوگا اسلام کی فضیلتیں بیان کرے گا، اسلام آئے گا تو ہاتھ کٹیں گے، اسلام آئے گا تو سر کٹیں گے، اسلام آئے گا تو قصاص لیے جائیں گے، اسلام آئے گا تو دھرے لگیں گے، اسلام آئے گا تو سنسار ہوں گے، بھئی یہ نہیں کہہ سکتے کہ جب اسلام آئے گا تو اس کی برکت یہ ہوگی کہ کبھی ہاتھ کٹنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی، اس طرح بھی تو اسلام کی تعبیر کر سکتے ہو، اسلام آئے گا تو سنسار ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور اسلام آئے گا تو دو چیزیں سامنے ہوں گی پورے قرآنِ کریم کو مطالعہ کیجئے جنابِ رسول اللہ ﷺ کی تمام تعلیمات کا مطالعہ کیجئے تو مملکتی زندگی، میں مملکتی زندگی کی بات کر رہا ہوں مملکتی زندگی کی ترجیحات دو ہی چیزیں ہیں ایک امن اور ایک معیشت، یہ ہے سیاست کے ذمہ داری، امن ہے تو تمام انسانی حقوق محفوظ ہیں، انسان کی جان محفوظ، انسان کا مال محفوظ، اس کی عزت و آبرو محفوظ اور تمام حقوق ان تین چیزوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں، ایک ایسا نظام حیات کہ جو انسانی حقوق کا محافظ ہو اور امن عطا کر سکے اور خوشحال معیشت ہو، کوئی بھوکا نہ سوئے اور اللہ تعالیٰ جب دینے پہ آتا ہے تو کوئی ضابطہ نہیں بناتا لیکن جب سلب کرتا ہے تو اس کے لئے ضابطے ہیں بلاوجہ نعمت سلب نہیں کرتا کہیں پر اللہ رب العزت فرماتا ہے وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ۔ اللہ تعالیٰ ایک آبادی کی مثال دیتا ہے جس میں امن ہے جس میں اطمینان ہے اور وجہ کیا ہے کہ ہر طرف سے روزی اور رزق کِھچ کِھچ کے آرہا ہے، خوشحال معیشت ہو کبھی اللہ نے وجہ بیان کیا کہ میں نے تمہیں یہ چیزیں کیوں دی لیکن اب سلب کرنے پہ آرہا ہے فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ تو اس آبادی کے لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا ناشکری شروع کر دی، میرا انکار شروع کر دیا انہوں نے فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ پھر جو انہوں نے بدعملیاں شروع کی اس کی پاداش میں اللہ نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کر دیا، اب بھوک معاشی لحاظ سے اور خوف بدامنی کا اعتبار سے۔ یہ دو چیزیں آجاتی ہیں۔

 اللہ رب العزت نے فرمایا ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ۔ اللہ تعالی کسی قوم کو دی ہوئی نعمت اس وقت تک سلب نہیں کرتا جب تک وہ قوم اپنے اعمال کی وجہ سے نعمتوں کے سلب ہونے کا خود اپنے آپ کو مستحق نہ قرار دے۔ اللہ خود نہیں کرتا واپس، اللہ دیتا رہتا ہے دیتا رہتا ہے دیتا رہتا ہے، یہ جو ہمیں صوفیاء کرام تعلیم دیتے ہیں نا دنیا سے نفرت کرو یہ دنیا کیا چیز ہے یہ دنیا کی ظاہری رونقیں اور یہ تو کل نہیں ہوں گی ہم بھی جانتے ہیں کل نہیں ہوں گی ہمیں بھی پتہ ہیں کل نہیں ہوں گی ہمیں بھی پتہ ہیں۔ ایک صحابی اچھے لباس پہنے ہوئے گھوڑے پہ جا رہا ہے ایک کافر سامنے آیا پھٹے ہوئے کپڑے میں، غریب گھوڑے کو پکڑ لیا اور کہا کہ آپ کے نبی نے آج یہ کہا ہے کہ الدُّنيا سجنُ المؤمنِ وجنَّةُ الْكافرِ۔ کہ دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے۔ کہا اگر میرے نبی نے کہا ہے تو سچ کہا ہے، تو آپ اپنی حالت دیکھو اپنے لباس کو دیکھو اپنے گھوڑے کو دیکھو اور میری حالت دیکھو یہ تیرے لئے جنت ہے یا میرے لئے جنت ہے، میں کافر ہوں لیکن میرے لئے دوزخ ہے اور تو مسلمان ہے لیکن تیرے لئے جنت ہے تو اس نے کہا بےوقوف بات سمجھا کرو تیرے لئے یہ بھی جنت ہے یہاں سے آگے جب آپ آگے بڑھیں گے اس کے بعد میں تو ان نعمتوں کے انتظار میں ہوں یہ گھوڑا یہ اچھے کپڑے جو میں نے پہنے ہوئے ہیں اس میں مجھے دنیا قید خانہ لگ رہا ہے کہ اس سے کروڑوں درجے آگے نعمتیں میرے انتظار کر رہی ہیں جنت میرے انتظار کر رہا ہے کمبخت دوزخ تیرا انتظار کر رہا ہے یہی تیرے لئے جنت ہے اور قرآن کیا کہتا ہے۔ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ حکم دیتا ہے کہ ان کو بتاؤ کہ دنیا کی یہ ساری زینت یہ رنگینی یہ نعمتیں ہیں یہ پاک رزق کس نے تم پر حرام کیا ہے، انہیں کہہ دو کہ دنیا کی ساری رونقیں اور ساری نعمتیں اور سارے طیبات رزق یہ ایمان والوں کے لیے ہیں اس دنیوی زندگی میں لیکن آگے فرمایا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ فرق کر دیا کہ دنیا میں ان نعمتوں میں کافر بھی شمار آپ کے ساتھ ہوگا لیکن آخرت میں صرف آپ ہی کیلئے ہوگا۔  تو دنیوی زندگی لوگوں کے آسان بنانا خوشحال بنانا خوشحال معیشت کا انتظام کرنا یہ قرآن کا تقاضا ہے، ہاں اتنا بھی دل مت دینا کہ دنیا ہی معبود بن جائے اور اس کے لئے سب کچھ چھوڑ دو لیکن اس پر حق آپ کا ہے۔ اب آپ علماء کرام مجھ سے ایک سوال کریں گے کہ مشاہدہ تو اس کے خلاف ہے کہ اس دنیا میں جب نعمتوں کو ہم دیکھتے ہیں تو زیادہ تر تو نعمتیں کافروں کے پاس ہیں، ہمارے پاس تو بہت تھوڑا ہے تو ہمارے اکابر نے اس سوال کو حل کیا ہے اور فرمایا جب تمہارا ایمان کمزور ہو جائے گا اور اللہ سے تمہارا رشتہ کمزور ہو جائے گا تو پھر کفر کی دنیا ان نعمتوں پر قبضہ کرے گی اور ان کی حیثیت حاصل ہوگی اور اس وقت پھر آپ ان کے سامنے بھیک مانگتے نظر آؤگے۔ تو آج کی اگر یہ صورتحال ہے تو آپ سمجھتے ہیں کہ مشاہدہ یہ ہے تو اس مشاہدہ تک آپ نے اپنے اعمال کی وجہ سے خود کو پہنچایا ہوا ہے، تو آج کے زمانے میں بھی اگر ایمان کا وہ مقام حاصل ہو جائے تو آج بھی دنیا کی نعمتیں آپ کی ہے دنیا کی ساری جنگیں اقتصاد کی ہوتی ہیں۔ روس امریکہ کی جنگ تھی وہ بھی اقتصاد کی تھی، آج ایک نئی جنگ یورپ اور ایشیا کے درمیان شروع ہے اور آج قیادت اس سرد جنگ کی چین کر رہا ہے تو یہ بھی اقتصادی جنگ ہے، کئی صدیاں پہلے دنیا کی معیشت ایشیا کے ہاتھ میں تھی لیکن جب ڈیڑھ دو سو سال پہلے ایشیا کالونی بن گیا تو یہاں کے تمام وسائل گوروں نے ان پر قبضہ کر کے ان کو لوٹ کر اپنی یورپ میں لے گئے اور کسی نہ کسی درجہ میں آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے آج بھی میں بتاؤں گا آپ کو کہ وہ سلسلہ کیسے جاری ہے لیکن بہرحال دنیا پلٹ رہی ہے، ایک نئے انقلاب دنیا میں سامنے آ رہا ہے کہ معیشت کا پلڑا کسی اور طرف جا رہا ہے۔ میں نے پارلیمنٹ میں کہا ہے میں نے کہا آپ کو شکایت ہوتی ہے کہ عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے تو میں نے کہا یہ کوئی آج کی بات ہے، یہ ٹیکس اس وقت ادا کرنے سے لوگوں نے انکار کیا جب انگریز کی حکومت تھی اور ٹیکس دینے والے کو علم تھا کہ میرا یہ ٹیکس جائے گا تو انگریز کا خزانہ جو ہے بھرے گا اس سے اُس کی حاکمیت مضبوط ہوگی غلامی جو ہے وہ مجھے غلام رکھنے کے لیے اس سرمائے کو استعمال کرے گا تو اس قوم نے ٹیکس نہیں دیا جس کو آپ کہتے ہیں ٹیکس چوری کیا، تو میں نے کہا کہ آج ستتر سال کے بعد کیا تمہارے وطیرے بدل گئے ہیں، لوگوں کو پتا نہیں کہ آئی ایم ایف کے قرضے ایف اے ٹی ایف کے تحت قرضے یورپ کے قرضے ورلڈ بینک کے قرضے ایشین بینک کے قرضے امریکہ کے قرضے مغرب کے قرضے آپ ہم سے ٹیکس لیں گے تو آج بھی تم نے ان کو ادا کرنا ہے ان کے خزانوں کو بھرنا ہے قوم ان کے خزانوں کو اپنے ٹیکس سے بھرنے کے لئے تیار نہیں ہو رہے ہیں اور یہ جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کبھی نیب ہے ایف آئی ایہ ہے پتہ نہیں کتنے کتنے ادارے ہیں لوگوں کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں اس کا فائل نکالو، اس کا فائل نکالو، جب ملک میں کاروباری طبقہ مطمئن نہیں ہوگا اور جو آپ کے کام نہ آئے یا آپ جس سے ناراض ہوں ان کے فائلیں کھو لیں گے تو پھر پیسہ باہر جائے گا اور یہ سارے قوانین میں خود گواہ ہوں اس بات کا پارلمنٹ میں قانون آتا ہے پیچھے لکھا ہوتا ہے اس قانون کو نافذ کرنے کا پاس کرنے کی وجہ کیا ہے تو کہتے ہیں آئی ایم ایف کہتا ہے ایف اے ٹی ایف کہتا ہے جنرل اسمبلی کہتی ہے اقوام متحدہ کہتا ہے باہر کی دنیا کے دباؤ میں ہم اپنے ملک کے اندر قانون سازیاں کرتے ہیں اور ان قانون سازیوں کے تحت ہم ادارے بناتے ہیں لوگوں کو تنگ کرنے کے لئے تاکہ وہ آزادی سے کاروبار نہ کر سکے تجارت نہ کر سکے اور پھر ہمارے پیسے والا سرمایہ کار وہ اپنا پیسہ بیرون ملک لے جاتا ہے وہ پیسہ اُس کی سرمایہ کاری ان ملکوں میں ہوتی ہے، میرے ملک کے سرمایہ کار اُس کا پیسہ دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری پہ لگ جاتا ہے ان کو معاشی فائدے ہوتے ہیں اور پیسہ میرا ہوتا ہے، کیوں؟ میں نے اپنے شہری کو اتنا تنگ کر دیا، اس پہلوں کو بھی زرا نظر کرے، ہم بلاوجہ اختلاف نہیں کر رہے، ہم نے جو موقف لیا ہوتا ہے اُس کی پیچھے دلیل ہوتی ہے بلاوجہ نہیں ہوتا اور کوئی ہمیں پارلیمان میں جواب بھی دے نا کہ مولوی صاحب آپ جو بات کر رہے ہیں غلط کر رہے ہیں، ان باتوں کی وجہ یہ نہیں ہے یہ ہے، نہیں جواب بھی نہیں ہے۔

 تو اس سارے صورتحال میں آج اگر ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو اسلام کی بات ایمان اور دیانت سے لے کر اسلام کی حاکمیت تک کی بات کرتے ہیں، جو ابتدا انبیاء کرام نے ہمیں بتائی جو گزرگاہ انبیاء کرام نے ہمیں بتائی جو انتہا اور منزل گاہ ہمیں اپنے انبیاء کرام نے بتائی اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا اور ہمیں عطا کیا یہ امت کے پاس امانت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام گھروں میں نہیں پیٹے، پوری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ۔ ہمارے بعض علماء فرماتے ہیں تَأْمُرُونَ اس میں امر کا لفظ ہے اور وَتَنْهَوْنَ اس میں نہی کا لفظ ہے یہ امر اور یہ نہی میری تیری نہیں ہے، اپنے سے کمزور کہتے ہیں یار یہ پانی لاؤ یہ بھی تو امر ہے نا، بھئی خیال کرو پانی ڈول نہ دو یہ بھی تو نہی ہے نا اور وہ أمر بِالْمَعْرُوفِ ہے یہ نَهِی عَنِ الْمُنكَرِ ہے لیکن یہ امر اپنے کامل معنوں میں ہے یہ مقام حکومت ہے، آپ دنیا میں نکلیں حاکمیت قائم کریں اور نیک باتوں کا حکم دیا کریں اور غلط باتوں سے قوم کو رکیں، یہ حاکمانہ قوت مراد ہے حاکمانہ قوت، کبھی اس حوالے سے بھی غور کرنا ہے لیکن ہم نے آج تک اس حوالے سے نہیں سوچا۔ برصغیر میں انگریز کی اسٹیبلشمنٹ تھی آج پاکستان میں ہماری اسٹیبلشمنٹ ہو یا بین الاقوامی امریکی یورپی اسٹیبلشمنٹ ہو اس کا اپنا ایک اثر رسوخ ہوتا ہے وہ اپنا ایک تاثر دنیا میں دیتا ہے سو اس نے ہماری عبادات کو ہمارے ذکر و اذکار کو ہمارے تبلیغ میں نکلنے کو اسلام کہ لیا ہے، جس میں سارا اسلام آ جائے وہ سب مکمل ہو جاتا ہے دنیا و آخرت کی کامیابی یہ چھے باتیں ہیں، چھے باتیں تو اچھی باتیں لیکن کیا صرف چھے باتوں کا نام دین ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ چاہے برصغیر کی تھی چاہے بین الاقوامی ہو اس نے تاثر دے دیا ہاں بھئی یہ اچھے لوگ ہیں جو جرنل ریٹائرڈ ہوتا ہے تبلیغ میں جاتا ہے وہ کہتے ہیں اصل دین تو وہ ہے اور اگر آپ اسلام کی حاکمیت کی بات کریں یہ تو سیاست کرتے ہیں، بھئی سیاست کرنا انبیاء کا ورثہ ہے میں عالم ہوں میں اس کا وارث ہوں میں نے اس کی بات کرنی ہے، تو یہ جو ہمارے مقتدرہ بین الاقوامی ہو مقامی ہو وہ جو تاثر دنیا کو دے رہے ہوتے ہیں دین اسلام کے بارے میں عام آدمی کی دل و دماغ میں یہی جاتا ہے اور پھر وہ کہتا ہے کہ مذہب کا سیاست سے تعلق نہیں ہونا چاہیے مذہب کا ریاست کے ساتھ تعلق نہیں ہونا چاہیے، وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم نے انگریز کے خلاف جنگ لڑی ہم نے آزادی کی جنگ لڑی ہم نے فرنگی سے آزادی حاصل کی وہ بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں تو میں ان سے پوچھتا ہوں یہ نظریہ تو انگریز کا تھا آج وہ نظریہ آپ کا ہے تیرے اور انگریز میں فرق کیا ہے؟ کچھ تو فرق پیدا کرو اور اسلام وہ واحد دین ہے جو آزادی کا علمبردار ہے، حریت کا علمبردار ہے، کسی انسان کی غلامی قبول نہیں کرتا۔ اللہ کے سوا کسی کو معبود نہیں ماننا، کسی کو حاکم نہیں ماننا، کسی کو آمر نہیں ماننا، وہ صرف اللہ کے ذات ہے۔  تو ان اصولوں کو اگر ہم سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں، آج ہمارے خلاف کیا پروپیگنڈے ہوتے ہیں مولوی صاحب پیپلز پارٹی میں مسلم لیگ میں پی ٹی آئی میں فلانی میں فلانی میں جمعیت میں کیا فرق ہے، وہ بھی سیاست کرتے ہیں اور تم بھی سیاست کرتے ہو، وہ بھی ووٹ مانگتے ہیں تم بھی ووٹ مانگتے ہو، وہ بھی اسمبلی میں جاتے ہیں تم بھی اسمبلی میں جاتے ہو، وہ بھی کرسی کے طلبگار ہوتے ہیں تم بھی کرسی کے طلبگار ہوتے ہو، یہی باتیں کرتے ہیں نا اور لوگوں کو کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کو ووٹ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ایک ہی بات تو ہے، باقی تو چھوڑو ہمارے تبلیغی ان کو اللہ ہدایت دے وہ یہ باتیں کرتے ہیں، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

 اب میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کی تیاری کرتے تھے تو تیاری میں تلوار پہنتے تھے، بناتے بھی تھے، نیزہ بھی بناتے تھے، نیزہ مارنے والا آلہ بھی بناتے تھے، زرہ بھی پہنتے تھے اور ابو جہل بھی یہ سارے کام کرتا تھا وہ بھی تلوار بناتا تھا لڑنے کے لئے وہ بھی زرہ پہنتا تھا وہ بھی نیزہ بناتا تھا یہ بھی گھوڑے تیار کرتے تھے وہ بھی گھوڑے تیار کرتے تھے، اب آپ کھڑے ہو کر کہیں کہ پھر نبی اور اس میں کیا فرق ہوا وہ بھی تو یہی کام کرتے تھے وہ بھی تو یہی کام کرتے ہیں، او کم بختو نبی کا کام جہاد کے لئے تھا وہ اللہ دین کے حاکمیت کے لئے تھا اور یہ اسباب ہیں یہ وسائل ہیں، وسائل میں یکسانیت ہو سکتی ہے لیکن مقاصد میں یکسانیت نہیں ہے، ہم جس مقصد کی جنگ لڑ رہے ہیں اور سیاست کو جس مقصد کا وسیلہ بنا رہے ہیں وہ سیاست کو کسی اور چیز کا وسیلہ بنا رہے ہیں، تو اس سیاست کو رسول اللہ کی تلوار بنا دو اور ابو جہل کی تلوار کو توڑو اس سے، اس سیاست کو رسول اللہ ﷺ کا نیزہ بناو اور ابو جہل کی نیزے کو توڑو اس سے، اس زرہ کو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا زرہ بناؤ اور اپنے دین کا دفاع کرو اور کفر کے وار کو توڑو اس سے، اسباب میں یکسانیت کیا یہ مقاصد میں یکسانیت کی علامت ہے؟ جمعیت میں اور ان میں کیا فرق ہے، کیا فرق ہے، کوئی بات ہے یہ۔ تو اس منہج پر جب ہم اپنا ذہن اور فکر تیار کریں گے تو ان شاءاللہ العزیز پھر آپ کا سفر انقلاب کی طرف شروع ہو جائے گا۔ یہ چیز آئی ہی نہیں ہے تو پھر کیا ہوگا۔ 

تاریخ اسلام میں سیاست کے موضوع پر پانچ سو سے زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں چاہے الموَدّی کی ہو چاہے ابن خلدون کی ہو چاہے امام غزالی کی ہو پانچ سو سے زیادہ کتابیں سیاست کے عنوان پر ان علماء نے لکھی ہے آپ اور مجھے سمجھانے کے لیے کہ سیاست کیا ہوتا ہے اور ہمیں نام بھی نہیں آتے کہ سیاست کی کتاب کہاں پر ہے، کس نے لکھی ہے، سیاست کی تعریف کیا ہے۔ آج ہم بازار میں جائیں اور آج کی سیاست دان سے پوچھیں کہ بھئی سیاست کے کیا معنی ہے اور یہ کس زبان کا لفظ ہے تو وہ کہے گا یہ اردو زبان کا لفظ ہے، یہ بھی اس کو پتا نہیں ہے کہ سیاست ہے کس زبان کا لفظ اور ہم بازار میں سیاست مسلط کرتے ہیں سیاست دان ہم ہیں، بھئی تم سیاست دان ضرور ہو لیکن تمہارا سلسلہ نسب اور ہے اور ہم بھی سیاست دان ہیں لیکن ہمارا سلسلہ نسب اور ہے۔ جو آباؤ اجداد نے سیاست کی تھی اور طاغوت کی سیاست کو شکست کی تھی آج بھی ہماری وہی سیاست ہے طاغوت کو شکست دینے کی۔ اب رہا یہ ہے کہ حالات کے ساتھ چلنا ہوتا ہے، تو حالات کے ساتھ چلتے ہوئے تو یہود مدینہ اور نصاریٰ مدینہ کے ساتھ بھی تو معاہدات ہوئے، باہر کے قوموں کے ساتھ بھی تو معاہدات ہوئے، تو کبھی جنگ کبھی صلح کبھی جنگ کبھی صلح، تو سلسلے چلتے رہتے ہیں۔ الیکشن بھی لڑیں گے الیکشن کی جو ترتیب ہوتی ہے اس کے مطابق بھی چلیں گے لیکن جب اسمبلیوں میں پہنچیں گے تو وہاں پتا چلے گا کہ میرا موقف کیا ہے اور آپ کا موقف کیا ہے، وہاں پتا چلے گا کہ میرا مقصد کیا ہے اور آپ کا مقصد کیا ہے، اسٹیبلشمنٹ کے پروپیگنڈوں پہ مت جائیں گے انہوں نے کبھی ہمارے حق میں اچھی بات نہیں کہی لیکن جو اچھے نہیں ہیں پروپیگنڈے کی طاقت ان کے ہاتھ میں ہے، اس لئے ہمیں بھی کچھ غزل سنانی پڑتی ہے۔ 

مت برا ان کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں

وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں

تو اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رخ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں اور قرآن کریم نے انبیاء کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس رخ پر ہماری رہنمائی کی ہے اس رخ پر سفر کو جاری رکھنے کی اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ 

واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض

ممبر ٹیم جےیوآئی سوات، گلف ریجن 1

#teamJUIswat

پلندری کشمیر: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا ورکرز کنونشن سے خطاب

پلندری کشمیر: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کا ورکرز کنونشن سے خطاب

Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Sunday, July 20, 2025

0/Post a Comment/Comments