قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خصوصی انٹرویو آج نیوز کے پروگرام "روبرو" میں شوکت پراچہ کے ساتھ
17 جولائی 2025
السلام علیکم ناظرین آپ روبرو پروگرام دیکھ رہے ہیں اور میں ہوں آپ کا میزبان شوکت پراچہ، یہ بارشوں کی وجہ سے موسمی درجہ حرارت تو خاصا نیچے آیا ہے لیکن ملک میں سیاسی درجہ حرارت بہت اوپر چلا گیا ہے، بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ سیاست میں اشتعال انگیزی بڑھ رہی ہے، ملک میں کچھ عجیب عجیب سی افواہیں بھی چلتی رہی ہیں کہ شاید کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے لیکن وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب کو خود آکے کلیری فیکیشن دینا پڑی کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ جے یو آئی اور پی ٹی آئی، جمعیت علماء اسلام اور پاکستان تحریک انصاف قریب آتے آتے لگتا ہے اب پھر وہ دور ہو رہے ہیں کیونکہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی علی امین خان گنڈاپور نے جس طرح کا لب و لہجہ اختیار کیا جو الفاظ استعمال کیے مولانا فضل الرحمن صاحب کے بارے میں، اس سے تو پھر یہ ہونا بھی تھا اور آج ہمارے روبرو بھی جے یو آئی کے سربراہ، جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں، بہت شکریہ جی۔
میں سچی بات ہے گریٹ فل محسوس کرتا ہوں آپ کے پاس بیٹھ کر سیکھتے بھی ہیں ہم، سمجھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
مولانا صاحب: آپ کی بڑی مہربانی ہے آپ نے موقع دیا ہے۔
شوکت پراچہ: میں سب سے پہلے تو ذرا سیاست سے ہٹ کے جو بڑی بنیادی چیزیں ہیں میں ان پہ بات کرنا چاہ رہا ہوں یقیناً میں سیاست پہ بھی بات کروں گا ناظرین، فاٹا تھا، ٹرائیبل ایریا تھا پھر اس کو مرج کر لیا گیا اور آپ شروع سے ہی اس کے مرجر کے مخالف تھے اب جو بات چیت سنائی دے رہی ہے کہ اس کو پرانی حیثیت میں واپس کیا جائے گا، ہے یہ اس میں حقیقت ہے؟
مولانا فضل الرحمٰن: بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ و نصلي على رسولہ الکریم۔ بہت شکریہ شوکت پراچہ صاحب، آپ نے موقع عنایت فرمایا۔
موسم خوش گوار ہے اور سیاسی موسم گرم ہے، سیاسی موسم کی اپنی ہوائیاں ہوتی ہیں، اس کی اپنی ہوائیں ہوتی ہیں۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے فاٹا انضمام کے حوالے سے، پشاور میں ہمارے بڑوں نے ایک جرگہ بلایا تھا اور اس میں انہوں نے لوگوں کے رائے سنی تھی، تو جو لوگ اس زمانے میں انضمام کے حق میں تھے یعنی آٹھ سال پہلے، تو وہ بھی اب اس سے اختلاف کرتے نظر آئے اور جو ان کو وہاں پر انضمام کے بعد اور بالخصوص یہ جو آپریشنز ہو رہے ہیں اس سے جو عام شہریوں کو مشکلات پیش آ رہی ہیں اس پر لوگوں نے اپنے بھڑاس نکالی، اپنے رائے دی اور بالآخر ہمارے بڑوں نے ان کو تجویز دی کہ ہم اس ساری صورتحال پر نظر ثانی کرنے کے لئے کمیٹی تجویز کرنا چاہتے ہیں۔ اب وہ کمیٹی کانسٹیٹوٹ بھی ہو گئی ہے۔
شوکت پراچہ: یہ جو گورنمنٹ والی کمیٹی ہے جو امیر مقام صاحب نے۔۔۔
مولانا صاحب: جی اسی لئے انہوں نے بنائی ہے وہ اسی پشاور کے اجلاس کی پیداوار ہے۔ تو پرائم منسٹر صاحب نے مجھے کہا کہ آپ کی پارٹی سے بھی ایک نمائندہ ہونا چاہیے لیکن میں نے سوچا کہ جب کسی پارٹی کی نمائندگی نہیں ہے تو جے یو آئی کی نمائندگی کیوں؟ اور جو لوگ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ان میں ہیں ان کی حیثیت حکومتی ہے یعنی وہ یا منسٹر ہیں یا مشیر ہیں یا گورنر ہیں یا کوئی وزیراعلی ہے تو اس حیثیت میں تو ٹھیک ہے سٹیٹ کی نمائندگی ہے تو کسی نے تو کرنی ہے لیکن جب دوسری سیاسی پارٹیوں کے اس میں نمائندگی نہیں تو جے یو آئی کو دعوت دینے کے معنی کیا ہے؟ بجائے اس کے کہ میں اپنی پارٹی کو بلاتا اور میں ان سے اس پر رائے لیتا اور میں اپنا نام بھیجتا وہاں، میں نے فاٹا جرگہ بلایا، یہ وہ فاٹا جرگہ کے جو دو ہزار بارہ سے مربوط ہے اور تسلسل کے ساتھ اس کا انعقاد ہوتا رہا ہے اور اب ان کی مشاورت سے ہم نے نام دینے ہیں جو کہ اس جرگے کی نمائندگی کریں گے نہ کہ جے یو آئی کی، اور آپ کو میں عجیب بات بتاؤں کہ مسئلہ فاٹا کا ہے اور اس میں فاٹا کا ایک نمائندہ بھی نہیں ہے۔ تو ہم نے کہا کہ فاٹا سے ہی کچھ لوگ پھر نامزد کیے جائیں اور ان کو وہاں نمائندگی دی جائیں۔
شوکت پراچہ: مقصد اس فاٹا مرجر کو رول بیک کرنا ہے انضمام کا خاتمہ کرنا ہے پرانی حیثیت میں۔۔۔
مولانا صاحب: اس میں حضرت بہت سے چیزیں ہیں، اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑے تفصیل سے عرض کرتا ہوں۔ دیکھئے جب فاٹا انضمام ہو رہا تھا تو سب سے بڑھ کر ہم نے مخالفت کی اور ان کے مدمقابل سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے ہم نے کردار ادا کیا اور جو کچھ ہم نے کہا تھا جو خدشات ہم نے ظاہر کیے تھے وہ سب صحیح ثابت ہوئے اور جو امیدیں اور اچھی امیدیں دوسرے لوگوں نے وابستہ کی تھیں وہ سب امیدیں وہ اکثر خاکستر ہو گئی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ملک کے اندر ہو یا باہر ہو الحمدللہ ان سب کے مقابلے میں ہماری بصیرت زیادہ کام کر رہی ہے اور ایک اچھے نظریہ کے ساتھ ہم نے اس وقت یہ بات کہی تھی کہ یہ بھی نہیں تھا کہ انضمام ہو یا نہ ہو عنوان یہ تھا کہ فاٹا کے لوگوں کا سیاسی مستقبل، اب لوگوں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کریں۔ سو اس میں صوبائی اسمبلی کی قرارداد بھی تھی کہ انضمام ہو، یہ بھی کہ پرانے سٹیٹس برقرار رہے، یہ بھی کہ ان کو کوئی نیا صوبہ دیا جائے وغیرہ وغیرہ تو پھر انہوں نے ایک نہیں سنی، اور اس میں ہمارے اس وقت جو فوجی قیادت تھی باجوہ صاحب کی اس نے بڑا دباؤ ڈالنے کی ہم پر کوشش کی اور یہاں تک مجھے انہیں اعتراف کیا کہ ہم پر امریکیوں کا دباؤ ہے میرے ملک کے داخلی معاملے میں کسی عالمی قوت کو کیا حق حاصل ہے، ٹھیک ہے ایک ڈیپ سٹیٹ لیول پر تو ہم دنیا کو سمجھتے ہیں کہ کہاں کہاں پر مشورے ہوتے ہیں، کہاں کہاں سے اشارات ملتے ہیں، لیکن پبلک کے سامنے کبھی وہ صورتحال سامنے نہیں آتی یہاں تو بلکل ایکسپوز ہو گئے ہیں سارے لوگ جی، انہوں نے کر لیا، کرنے کے بعد آج نقصان ہو گیا کہ نہ تو ان کو پیسے ملے یعنی آج آٹھ سال کے بعد اس وقت آٹھ سو ارب روپے ان کو ملنے چاہیے تھے فاٹا والوں کو اور اس میں ان کی سڑکیں بن جانے چاہیے تھے، وہاں تک ہر گاؤں تک بجلی پہنچ جانی چاہیے تھی، وہاں پر سکول کالجز یونیورسٹیاں بن جانی چاہیے تھیں، وہاں پر ہاسپیٹل اور اے لیول کے ہاسپیٹل بن جانے چاہیے تھے، ایک انفراسٹرکچر وہاں پر بنتا اور پھر قبائلی لوگوں کا جو معیار زندگی ہے اس کو سیٹل ایریا کے لوگوں کے برابر میں لانا اور وہاں کے زیر تعلیم بچوں کو سیٹل ایریا کے بچوں کے ساتھ امتحانی مقابلے کے لیول پر ان کو لے آنا یہ اہداف تھے دس سال کے لیے، دس سال میں ہم نے یہی کہا تھا کہ یہ کام پورا کر کے پھر مرجر کرو نا، لیکن وہ بھی نہیں مانی انہوں نے بات، پیسے بھی اب تک نہیں دے سکے، ایک سو ارب مشکل سے اب تک ان آٹھ سال میں ملے ہوں گے باقی کب ملیں گے؟ کیسے ملیں گے؟
تو یہ ساری چیزیں یہ اچھی بات ہو گئی ہے کہ اس حکومت نے یا ہماری فوجی قیادت نے اس کا احساس کر لیا ہے کہ تجربہ جو ہے وہ شاید کامیاب نہیں رہا ہے۔
شوکت پراچہ: سو یہ احساس ہو گیا ہے؟
مولانا صاحب: جی ہو گیا ہے، اب اس پر غور کرنا ہے کہ اب کرنا کیا چاہیے۔ دیکھئے ایک کام آپ نے کر لیا آٹھ سال پہلے، یکدم اس کو واپس کرنا اس کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے پبلک پر، اس کے کیا اثرات پڑیں گے یہ ایک الگ سوال ہے۔ اگر آپ نے اس کو مستقل صوبے کی حیثیت دینی ہے تو پاکستان کے اندر کیا صوبہ صوبہ شروع نہیں ہو جائے گا، ہزارہ صوبہ، پوٹھوہار صوبہ، سرائیکی صوبہ، جناح پور صوبہ، پتہ نہیں کیا کیا چیزیں نکل آئیں گے۔ تو اس کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ایک ہے پاکستان کی ضرورت، سو ضرورت میں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ صوبے ہونے چاہیے اور میں ایک ایک صوبے کی حمایت بھی کر چکا ہوں لیکن پاکستان سیاسی لحاظ سے متحمل ہے یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے، کب کیے جائے، کس طرح کیا جائے، وہ ماحول کیسے پیدا کیا جائے، تمام قومیتوں کو علاقوں کو اس بات پر کیسے آمادہ کیا جائے کہ لسانی یا قومی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوگی بلکہ انتظامی بنیاد پر ہوگی۔ تو ہندوستان میں کامیاب ہو گیا ہے وہ نکل گئے ہیں اس چیز سے، ہم نہیں نکل سکے ہیں۔ وہاں اگر چھ صوبے تھے تو آج پچیس چھبیس یا ستائیس صوبے ہیں اور آج یہاں پر ہمارے وہی چار کے چار صوبے ہیں۔
شوکت پراچہ: افغانستان میں ہم سے زیادہ صوبے ہیں۔
مولانا صاحب: تو یہ چیزیں پوری دنیا میں چلتی ہیں.
شوکت پراچہ: اگر وہ اس کو جب فاٹا مرجر کیا گیا انضمام ہوا تو اس کو آئینی تحفظ ملا تھا امینڈمنٹ کے ذریعے، اب اگر وہ سٹیٹس تبدیل ہوتا ہے تو پھر تو وہ ستائیسویں ترمیم آئے گی۔
مولانا صاحب: اسی میں ایک گزارش کرتا ہوں اب یہ ہے کہ اگر ہم نے صوبے صوبے صوبے کرنے سے بچنا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ فوری طور پر ایسا کرنا شاید مشکلات پیدا کر سکے تو کیا ہم ان کو ایک صوبے کا سٹیٹس دے سکتے ہیں جیسے گلگت بلتستان کو ہم نے دیا ہے، ان کا اپنا کونسل ہو، اپنا ان کا وزیراعلی ہو، ان کا اپنا گورنر ہو اور اپنے کونسل اور اپنا نظام خود چلائیں اور وفاق جو ہے وہ براہ راست ان کو مدد بھی دے اور ان کے اکانومی کا بھی خیال رکھیں۔
شوکت پراچہ: یعنی وہ ایک صوبے کا سٹیٹس بنیں لیکن وفاق کے اندر یہ آپ چاہتے ہیں۔
مولانا صاحب: یہ ایک صورت ہے یعنی میں چاہتا نہیں ہوں یہ ایک شکل ہے ایک دو تین چار، تو ان سارے صورتوں میں بہرحال آئین میں ترمیم کرنی ہی ہوگی پھر صرف ایسا نہیں ہے کہ آپ وفاق میں ترمیم کریں گے اب چونکہ آپ مرج ہو چکے ہیں تو صوبے میں بھی ترمیم کرنی ہوگی، صوبے میں سے قرارداد لینی ہوگی اور شاید ٹو تھرڈ میجارٹی کی قرارداد وہاں لینی ہوگی۔
تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ آج کل کہ پاکستانی سیاسی ماحول میں کیا یہ ممکن ہوگا۔
شوکت پراچہ: ویلکم بیک، ناظرین آپ روبرو پروگرام دیکھ رہے ہیں اور آج ہمارے روبرو ہیں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ سینئر سیاستدان مولانا فضل الرحمن صاحب، اچھا آپ نے ترمیم کا ذکر فرمایا مجھے یاد ہے چھبیسویں آئینی ترمیم ہوئی تو آپ نے کہا تھا کہ سانپ کا ہم نے سر توڑ دیا ہے اب اگر پھر ترمیم ہوتی ہے ستائیسویں ترمیم یقینًا آپ درست فرما رہے ہیں کہ آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی تو وہ چیزیں جو آپ نے نکلوائیں تھیں وہ کہیں پھر تو نہیں آ جائیں گی اب تو ٹو تھرڈ میجارٹی حکمران اتحاد کے پاس آ گئی؟
مولانا صاحب: دیکھئے ٹو تھرڈ میجارٹی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، ٹو تھرڈ میجارٹی جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے پاس بھی تھی، کیا وہ اپنی میجارٹی سے آئین نہیں بنا سکتے تھے ٹو تھرڈ میجارٹی تھی ان کے پاس، لیکن انہوں نے ملک کو چلانا تھا انہوں نے وہ دو چھوٹے صوبے کہ جہاں ان کی حکومت نہیں بن سکی تھی ان کو بھی اعتماد میں لیا، آئین سازی میں جہاں میرے والد صاحب موجود تھے خان عبد الولی خان موجود تھے مرزا بزنجو موجود تھے سارے بلوچ لیڈر اور پشتون لیڈر اس میں موجود تھے اور سب کے اتفاق رائے کے ساتھ آج ہم کہتے ہیں متفقہ آئین، تو اس طرح تو کسی کو بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ چونکہ میرے پاس ٹو تھرڈ میجارٹی ہے لہذا میں نے اب جو کچھ کرنا ہے یہ دو تہائی اکثریت کے نام سے آمریت کا نام ہوا کرتا ہے، جبکہ ہم نے شوریٰ بینھم لکھا ہوا ہے یہ ایوان کے اوپر بھی اور ہم کہتے ہیں کہ ہم نے معاملات کو پارلیمنٹ کے ذریعے سے اور ہمارے آئین میں اس کو لفظ شوریٰ سے تعبیر کیا گیا ہے تو شوریٰ بڑا ایک مقدس نام ہے قرآن کریم کی اصطلاح ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک شورائی نظام کو زندہ رکھنے کا کہا ہے کہ وحی بند اور شوریٰ جاری رہی ہے۔
تو ہم یہ چیزیں عوام اور پبلک کے رضامندی کے ساتھ کریں گے۔ تب تو پھر یہ تجربے بھی کامیاب ہوں گے اور اگر اس طرح ڈھکوسلے کے ساتھ، امریکی دباؤ، فلانا دباؤ، پھر فوج کا دباؤ اور ہم پارلیمنٹ جو ہیں قانون سازیاں کرتے رہیں گے تو یہ چیزیں پھر مشکل بن جاتی ہیں۔ تو ہمیں بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان سارے موضوعات کو لینا پڑے گا۔
شوکت پراچہ: آپ نے اسی کونٹیکس میں جو فاٹا میں آپ نے امن و امان کی بات بھی کی آپ نے ابھی ریسینٹلی پشاور میں پریس کانفرنس کی، آپ کا ماشاءاللہ ایک جو سٹینڈ ہوتا ہے وہ فرم ہوتا ہے اور اصول پہ ہوتا ہے آپ پہلے بھی جب مدرسہ حقانیہ تشریف لے گئے تھے حامد اللہ حقانی صاحب کی شہادت پہ آپ نے اس وقت بھی مجھے یاد ہے بولا تھا ابھی بھی آپ نے فرمایا کہ مسلح جتھوں کی رٹ کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی، دہشتگردوں کی طرف آپ کا اشارہ ہے، دہشتگردی پھر کیوں بڑھ رہی ہے؟
مولانا صاحب: یہ سوال تو مجھ سے کرنے کی بجائے لاء انفورسمنٹ سے پوچھنے کا سوال ہے کہ وہ ملک کو امن کیوں نہیں دے سکے، عام آدمی کو امن کیوں نہیں دے سکے، ان کے جان و مال عزت و آبرو کو تحفظ کیوں نہیں دے سکے اور یقیناً افغانستان کے علماء کا بھی فتویٰ آ گیا ہے کہ جہاد اپنے نتائج حاصل کر چکا ہے اس کے بعد وہ ہر وہ شخص جس نے ہمارے ہاتھ پر بیعت کی تھی جہاد کی وہ افغانستان کے اندر ہو یا باہر اگر لڑے گا تو وہ جنگ کہلائے گی، جہاد نہیں کہلائے گی۔ تو پاکستان کے علماء تو پہلے سے بار بار کہہ چکے ہیں تمام مکاتب فکر بھی کہہ چکے ہیں، جمعیت علماء بھی کہہ چکی ہے، وفاق المدارس بھی کہہ چکا ہے کہ مسلح جنگ غیر شرعی ہے۔
شوکت پراچہ: اور علماء نشانہ بھی بنتے رہے ہیں۔۔
مولانا صاحب: علماء نشانہ بھی بنتے ہیں اب آپ مجھے بتائیں کہ جو مسلح جتھہ وہ علماء کرام کو شہید کرتا ہے اور اس پر کفر کے فتوے لگاتا ہے وہ خود مسلمان ہو سکتے ہیں، سوال تو یہ ہے یہ حد درجے کی گمراہی ہے اور اس کو ہم نہ جہاد سمجھتے ہیں اور یہ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں اور میں تو یہ سوچتا ہوں کہ وہ تو پتہ نہیں کس کس آیت کا کوئی حوالہ دیتے رہیں گے اس کی اپنی ایک موقع محل ہوتا ہے کہاں سے اس کی تدبیق کرتے ہیں لیکن اللہ رب العزت ایک مؤمن کی قتل پر اتنا سخت ناراض ہوتا ہے کہ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمًا خَالد فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهَ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّلَهُ عَذَابًا الیما، پانچ سزائیں اللہ تعالیٰ اتنے سخت سخت الفاظ بیک وقت استعمال کر رہا ہے ایسے لوگوں کے لئے اور قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ، یعنی اللہ تعالیٰ اللہ اس پر قادر ہے کہ وہ اوپر سے بھی تم پر عذاب مسلط کرے، نیچے سے بھی تم پر عذاب مسلط کرے، تمہیں آپس میں گروہوں میں تقسیم کر دے پھر ایک دوسرے کے طاقت سے تمہیں آزمائیں اور ایک دوسرے کے طاقت کا عذاب دلائیں، ایک دوسرے کو مزا چکھائیں۔ تو اب یہ جو کچھ ہو رہا ہے جو ہم گروہیں بن کر اور بندوقیں لے کر ایک دوسرے کو مار رہے ہیں یہ جہاد کی زمرے میں آئے گا یا سزا کے زمرے میں آئے گا۔
شوکت پراچہ: یہ بات اپنا نائب وزیراعظم وزیر خارجہ اسحاق ڈار صاحب پارلیمنٹ میں بات کر رہے تھے اسی حوالے سے، تو انہوں نے ایک بات کی بڑی امپورٹنٹ تھی کہ جو کابل کے سرینہ ہوٹل میں ایک چائے کا کپ پیا گیا اس سے بہت نقصان ہوا آپ کی کیا رائے ہیں، آپ کو معلوم ہے نا ؟
مولانا صاحب: میں ہر چیز کو کوشش کرتا ہوں کہ اس کے سیاسی عواقب اور نتائج اور ان کے لئے جو ماحول ہوتا ہے اس حوالے سے بات کروں۔ دیکھئے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں کبھی مذاکرات کا انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ سیاسی آدمی بات چیت کرتا ہے اور میں کبھی بھی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے حل کا بھی انکار نہیں کروں گا، میں ان سب کا قائل ہوں۔ یہاں پر ایک سیکورٹی اجلاس بلایا گیا سیکورٹی کمیٹی ایک اجلاس پارلیمنٹ پر بلایا گیا اور اس وقت کے جنرل باجوہ صاحب اس میں موجود تھے، جنرل فیض صاحب صوبے کے کور کمانڈر تھے ہمارے صوبے کے اور جنرل ندیم انجم صاحب آئی ایس آئی کی چیف تھے، پرائم منسٹر صاحب بیٹھے ہوئے تھے، تو وہاں انہوں نے جرگے کے ذریعے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے حل کی بات کی۔ میں نے ان سے کہا مذاکرات بھی ٹھیک ہیں مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل بھی ٹھیک ہے ٹائمنگ کو دیکھنا چاہیے آپ نے ایک ایسے وقت میں ان سے مذاکرات کا آغاز کیا ہے جب افغانستان میں امریکہ بھاگ گیا اور طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا اب وہ فتح کے اس ماحول میں جہاں ان کا مورال ہوگا وہ تو ایسے شرائط پر آپ سے بات کریں گے کہ ایک سٹیٹ ان کے سامنے عاجز آ جائے گا۔ تو ٹائمنگ کو تھوڑا دیکھ کر ہمیں بات کرنی چاہیے اس کے لیے حکمت عملی اور اسٹریٹیجی بنانی چاہیے، یہ نہیں کہ آپ کے دل میں بات اگئی اور آپ ہم پہ مسلط کریں کہ آپ ہماری بات مانو ہم نے تو بہت عجیب فلسفے کی بات کہہ دی۔ وہی ادارہ ہے فوج فوج ہے حضرت، اگر فوج فوج ہے اور اس میں مشرف اور باجوہ کیانی، حافظ جی ان سب کا کوئی فرق نہیں ہے اور ایک ہی ادارہ ہے اور ایک ادارہ فیصلہ کرتا ہے ایک فرد نہیں فیصلہ کرتا تو پھر اس ادارے کو دیکھتے ہوئے اگر باجوہ صاحب جو ہیں وہ ہر دل عزیز ہیں آپ کے لیے آپ اس کا ماتھا بھی چومتے ہیں اور فیض حمید صاحب جو ہیں وہ آپ کے رہبر و رہنما بھی ہیں اور ان کے پیار کی آپ پینگیں بھی بڑھا رہے ہیں اور ان کو نہ آپ غلامی کی علامت سمجھتے ہیں اور نہ اس وقت آپ فوج کو یہ کہتے ہیں کہ تم تو غلام فوج ہو تم سے ملک کو آزاد کرانا ہے آج وہی فوج جب وہ کہتی ہے نہیں کہ وہ اسٹریٹیجی صحیح نہیں تھی، مذاکرات کا انکار نہیں ہے اسٹریٹیجی صحیح نہیں تھی، تو سٹریٹیجی صحیح نہیں تھی کے بارے میں اب اک نئی اسٹریٹجی اس کا انتظار ہونا چاہیے، نہ یہ کہ افغانستان کے علماء کے فتویٰ کا انکار کیا جائے، پاکستان کے علماء کے فتویٰ کا بھی انکار کیا جائے، اور فوج کے ایک جنرل کے ہوتے ہوئے وہ بڑی اچھی مسلمان فوج ہے اور ایک ان کے ساتھ جب اختلاف رائے رکھتی ہے اور سٹریٹیجی تبدیل کرتی ہے تو پھر یہ غلام فوج بن جاتی ہے اور امریکہ کے غلاموں اور ہم غلام اور فلاں فلاں۔ تو یہ چیزیں جو ہیں اس میں تسلسل نہیں ہے ان کے ہاں، ایک تسلسل وہ ہوتا ہے جو ہم کرتے ہیں اور ایک اختلاف رائے ملکی نظام کے اندر تدریجی اصلاحات کے حوالے سے مذاکرات بھی چلتے ہیں اصلاحات بھی ہوتے ہیں کبھی ہم کامیاب ہو جاتے ہیں کبھی نہیں ہو جاتے ہیں۔
شوکت پراچہ: یہ صحیح فرمایا لیکن جو دہشتگردی جیسے آپ کے صوبے میں ہے اب بلوچستان میں دیکھیں نا کتنا انفارچونیٹ ہے ایک بس پہ فائرنگ کی گئی وہ قلات میں بس پہ فائر ہوئی اتنے لوگ شہید ہو گئے تو میرا سوال تو یہ ہے کہ افغانستان سے دہشتگرد آتے ہیں وہاں ان کی پناہ گزینیں ہیں یہ معاملہ کیسے ہے ؟
مولانا صاحب: حضرت تضادات ہے دیکھئے جو لوگ مذہب کی بات کرتے ہیں وہ تو پھر بھی کہتے ہیں کہ قرآن و سنت، جو اللہ کا حکم ہے جو رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے ٹھیک ہے، لیکن جو لوگ صرف قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں جو لوگ سیکولر پولیٹکس کرتے ہیں وہ کہتے ہیں مذہب نہیں انسانیت، انسانیت ہم نے یہ نہیں دیکھنا یہ کون ہے کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے کس مذہب سے، بھئی کس مذہب سے تعلق رکھے یا کس مذہب سے تعلق رکھے اگر یہ انسانیت ہے تو پھر کس قومیت سے تعلق رکھے اور کس قومیت سے تعلق رکھے یہ بھی انسانیت کا مسئلہ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اگر میری قوم سے ہو تو اس کو تو میں پیار دوں اور اس کو میں تحفظ دوں اور اگر میری قوم سے نہ ہو اس کو میں دشمن سمجھوں اور واجب القتل سمجھوں۔
تو یہ چیزیں جہالت کی بنیاد پر ہو رہی ہیں، یہ قوم پرستی کا یہ تصور جو آج ہے حقوق کی بات کرے تو جمعیت علماء فرنٹ پہ ہے چاہے بلوچستان کے حقوق ہو، چاہے خیبر پختونخواہ کے ہو، چاہے سندھ کے ہو، چاہے پنجاب کے ہو ہر صوبہ اپنا آئینی حیثیت رکھتا ہے اپنے وسائل کا وہ مالک ہے ان وسائل کے مالک ان کے اولاد اور بچے ہیں آنے والے اور ہم ان کے حق کی جنگ لڑیں گے، کسی کو ان کا حق مارنے کی اجازت نہیں جا سکتے، لیکن اگر میں کہتا ہوں کہ فرقہ واریت یہ جرم ہے فرق وارانہ بنیاد پر کسی کو قتل کرنا یہ جرم ہے تو پھر قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کرنا یہ بھی جرم ہے اور میں تو پھر بھی مذہب کی بات کرتا ہوں کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ اپنے مذہب کو اور اپنے مسلک کو حق سمجھتے ہیں اس کو باطل سمجھتے ہیں لیکن جو لوگ سیکولر سیاست کرتے ہیں وہ تو کہتے ہیں ہم انسانیت کی بات کر رہے ہیں تو انسانیت میں سرائیکی کو قتل کرنا جائز ہے؟ کسی پنجابی کو قتل کرنا جائز ہے؟
شوکت پراچہ: افسوس ناک بات تو یہ کہ شناختی کارڈ چیک کیے جاتے ہیں پھر ان کو شہید کر دیا جاتا ہے اس خطے کے کونٹیکس میں ہم نے افغانستان کا ذکر بھی کیا دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں پاکستان بھارت کی جنگ ہو گئی، ایران اسرائیل کی جنگ ہو گئی۔ پاکستان بھی جیت گیا ایران بھی جیت گیا تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ کیا پاکستان کا چین اور روس کی طرف زیادہ جھکاؤ ہو جائے گا؟ کیا دیکھتے ہیں آپ؟
مولانا صاحب: دیکھیں جمعیت علماء اسلام کا جو منشور ہے اور جو نظریہ ہے اس میں ایک اسلامی بلاک کا ذکر ہے، تو مسلمانوں کا اپنا ایک اسلامی بلاک ہونا چاہیے اس کے اپنے ایک دفاعی معاہدہ ہونا چاہیے اور ہم اقتصادی اور معاشی اور دفاعی لحاظ سے ایک تنظیم میں آ جائیں جی، اب ہمارے ایک ڈھیلی ڈھیلی تنظیمیں تو ہیں جی، او آئی سی ہے تو وہ صرف ایک رابطے کی حد تک ہے کوئی اس کا بڑا رول نہیں ہے جی، عرب لیگ بنا ہوا ہے وہ بھی باہمی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے یا کوئی اجلاس بلالیا تو باتیں ہو گئے اور ختم ہو گئی۔ ایشیاٹک جو ایک فیڈریشن کا تصور ہمارے اکابر کا چلا آ رہا ہے اس حوالے سے بھی سیمبالکلی آپ کے پاس سارک ہے، آسیان ہے لیکن وہ بھی اس لیول کے نہیں ہیں کہ وہ آپ کی جنگوں کا راستہ روک سکیں۔ تو اقوام متحدہ سے لے کر سلامتی کونسل سے لے کر عالمی سطح کی انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر علاقائی تنظیموں سے لے کر آپ آ جائیں سارک تک یا عرب لیگ تک کہیں پر بھی یہ قوموں کے درمیان جنگوں کی بندش اور پر امن ماحول دینے کے ضامن نہیں بن سکے اور ناکام رہے ہیں مستقل طور پر، اس لیے اسلامی دنیا کو از سر نو سوچنا چاہیے، آج میں ہندوستان سے خطرے میں ہوں اس نے مجھ پر حملہ کیا ہے یہ تو اچھی بات ہو گئی کہ ہماری فوج نے جس طرح ان کا جواب دیا اور تین چار گھنٹوں میں جناب ان کے تمام غرور خاک میں ملا دیے، ان کے ان کے دفاعی سسٹم کو لپیٹ لیا انہوں نے اور ہمیں فخر ہے اس بات پر، اسی طرح ایران نے جس طریقے سے ری ایکٹ کیا ہے اسرائیل کے خلاف، اسرائیل کو سمجھ تھی کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن ان کو ہدف بنایا اور کامیابی سے ہدف حاصل کیا۔ یہ ایک الارمنگ ہے ہمارے لیے کہ ہم سوچیں اس بات پر کہ ہم لابیز نہ بنائے، ہمارے اندر لابی نہیں ہونی چاہیئے کہ ترکی کا لابی اپنی ہے ایران کی لابی اپنی ہے القدس کے نام پر لابی اپنی بن رہی ہے حرمین شریفین کے لابی بھی اپنی بن رہی ہے، ایشیائی اسلامی ممالک کے وہ بھی تقسیم ہیں کچھ ادھر ہیں کچھ ادھر ہیں پاکستان ایک لابی کے اندر ہے تو ملائیشیا دوسری لابی کے اندر ہے۔
یہ ساری چیزیں جو ہیں ہمیں سب کو دوبارہ از سرِ نو دیکھنا چاہیئے اور ہم ایک مظبوط اسلامی اتحاد اور علاقائی اتحاد کے حوالے سے فکرمند ہیں۔
شوکت پراچہ: علاقائی اتحاد کے حوالے سے آپ نے اقتصادیات کی بھی بات کی، آج ہی کابل میں نائب وزیر اعظم اسحاق دار صاحب تشریف لے گئے، ازبکستان کے وزیر خارجہ بختیار صیدوف صاحب آگئے تو ایک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ ہے ازبکستان پاکستان افغانستان جس کے فیزیبیلی کے لیے فریم ورک ایگریمنٹ پر سائن ہوئے یہ ڈیویلپمنٹ، آپ اس کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
مولانا صاحب: حضرت بہت پرانی چیزیں ہیں یہ ریلوے لائن جو ہے یہ تو جو آپ نے ابھی بات کی ہے یہ سیکنڈ فیز ہے فرسٹ فیز جو ہے وہ ہے ترکمانستان سے گیس پائپ لائن، لیکن وہ یہ ہے کہ ترکمانستان پھر افغانستان پھر پاکستان پھر انڈیا تو جب تک جنگ نہیں تھی حالات معتدل تھے تو یہ ایک ماحول تھا کہ ہم کچھ مفادات میں ایک دوسرے کے ساتھ جکڑ جائیں، جب مفادات میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ جکڑیں گے تو ہر ایک کو اپنے مفاد کے تحفظ جو ہے عزیز ہوتا ہے تو پھر وہ زیادہ جذبات سے کام نہیں لیتے اور لڑائی کی طرف نہیں جاتے اور اب اگر دوسرا ایک فیز آ رہا ہے کہ وہ ازبکستان سے ریلوے لائن پاکستان کی طرف وہ کسی زمانے میں مشہور تھا کہ افغانستان میں وزیر ریلوے ہے اور ریلوے نہیں ہے تو اگر وہاں بھی ریلوے لائن بیچ جاتی ہے اور پھر جو سی پیک ہے اس کو بھی اگر ہم نے ایکسٹینڈ کی ہے افغانستان کی طرف تو یہ خطے میں ایک اچھا پیشرفت ہے اور یہ ہونا چاہیے، دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہو جانا چاہیے۔ میں تو اس زمانے میں ایران گیس پائپ لائن کو پاکستان کے راستے سے ہندوستان تک ایکسٹینڈ کرنا اس کے حق میں تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں ہندوستان کے مفادات اپنے ساتھ وابستہ کر لینے چاہیے اگر ہندوستان یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے راستے سے وسطی ایشیا کے لیے روڈ کی اجازت دی جائے تو وہ بھی ہو سکتا ہے اس میں بھی کوئی مشکل نہیں ہے ان کی ٹرک بھی جائیں گے ہمارے ٹرک بھی جائیں گے ہم بھی فائدہ اٹھائیں گے وہ بھی اور ہم اس کا محصول بھی حصول کرتے رہیں گے تو پاکستان کے مفاد ہی مفاد میں تھا اور اگر ہندوستان میرا پانی روکتا ہے تو میں بھی تو کوئی چیز ان کی روکوں نہ یا اس کی تجارت روکوں یا اس کا گیس روکوں یا اس کا ریلوے لائن روکوں۔ تو میرے پاس کوئی لیور نہیں ہے کہ جس میں میں اپنے ملک مفاد کا تحفظ کر سکوں، سو وہ ہمیں اکنامیکلی سوچنے چاہیے سٹریٹیجکلی تو ایک اپنا دنیا ہے وہ ہم نے ثابت کر دیا وہ اپنے جگہ پر ہے کہ سٹریٹیجکلی ہمیں ایک خطے میں دوست چاہیے بلکہ میں تو کہتا ہوں اسلامی بلاک ہی بڑا ایک سٹریٹجک اتحاد بن جانا چاہیے لیکن یہ اس وقت بہرحال جو صورتحال بن رہی ہے یہ اچھی اور مثبت ڈیولپمنٹ ہے اور جس کا خطے کے لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
شوکت پراچہ: یہ ہماری ملکی سیاست میں کچھ تھوڑا سا لگا تھا کہ مئی جون میں ٹہراؤ آرہا ہے پھر یہ اشتعال انگیزی اگئی، سخت سخت بیانات آ گئے، کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟ مثلاً ایک افواہ یہاں یہ بھی چلتی رہی کہ جی آرمی چیف ملے وزیراعظم صاحب سے وزیراعظم صاحب ملے صدر صاحب سے ملاقات ہوئی وہ رومر ایک چلتی رہی جس کا آ کر وزیر داخلہ نقوی صاحب کو تردید کرنا پڑا۔
مولانا صاحب: شوکت صاحب معاف فرمائیے یہ آپ کے میڈیا کی ضرورت ہے کیونکہ خبر سے خبر نکال لیا نا پھر یہ لوگ ملک چلا رہے ہیں انہوں نے ملنا بھی ہے انہوں نے مشاورت بھی کرنی ہے بہت سے چیزوں کو آپس کے فورم پہ لا کر ان کو ڈسکس کرنا ہوتا ہے تو یہ تو کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے یہ تو معمول کا معاملہ ہے اور یہ چلتا ہے لیکن ہمارے ہاں اختلاف کو اُبھارنا اختلاف میں شدت پیدا کرنا وہ میڈیا کا خبر بنتا ہے، نارملائزیشن، دوستانہ تعلقات معمول کے معاملات وہ کوئی خبر نہیں ہے آپ کے نزدیک، تو اس حوالے سے ذرا ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ کوئی ایسا مجھے ایسا ارتعاش نظر نہیں آرہا ہے کہ جس پر میں کوئی تبصرہ کرسکوں۔
شوکت پراچہ: ماشاءاللہ آپ جیسے سینئر سیاستدان کے سامنے وہ سوال کی جرات کرنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے، میں پھر آپ کی بات سے یہ سمجھوں کہ یہ جو افواہیں تھی جس کی وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب نے بھی تردید کی کہ صدر آصف علی زرداری صاحب بدستور صدر مملکت رہیں گے۔
مولانا صاحب: دیکھیے ہم نے تو ابھی تک یہ سوال اٹھایا ہی نہیں ہے، اگر وہ صدر بنے ہیں تو صدر ہے، ہاں اگر وہ بیمار ہیں تو اللہ ان کو صحت دے، میرے تو ذاتی طور پر مہربان ہیں اور میں ہمیشہ ان کی خیریت کے لیے سوچوں گا، خدا کوئی ایسی صورت نہ بنائے کہ پریشانی والی بات ہو لیکن جب تک ہے تو جو آئین کا تقاضا ہے اس کے مطابق معمولات چل رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اپنی سطح پر ایک پارٹی پوزیشن ہوتی ہے کہ ہم ایک نئے الیکشن کے مطالبے والے لوگ ہیں اور اپنی اس بات پر قائم ہے۔
شوکت پراچہ: صوبائی اسمبلی کے مخصوص نشستیں، پہلے تو اجلاس نہیں ہو رہا تھا، بڑا عرصہ قانونی جنگ ہوئی، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا۔ اب خیر سنا ہے کہ بیس جولائی کو صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے اور مخصوص نشستوں پہ حلف ہو جائے گا، تو سینیٹ میں ہوگئی انڈرسٹینڈنگ آپ کی مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی، خبریں تو یہی آرہی ہیں۔
مولانا صاحب: اس وقت تک جو میری معلومات ہے کوشش ہو رہی ہے کہ تمام پارٹیوں کی جو امیدوار ہیں بلا مقابلہ پاس ہو جائے، اگر یہ مشق کامیاب ہو جاتی ہے تو اچھی بات ہے۔ تاکہ خرید و فروخت سے ایک جگہ ہم کرپشن سے تو بچ جائیں۔
شوکت پراچہ: یعنی کوشش ہو رہی ہے تو اس میں تو پھر پی ٹی آئی بھی ہوگی کہ ان کے بھی ان افوزڈ اور آپ کے بھی۔۔۔
مولانا صاحب: ہو جانے دو، کوئی مسئلہ نہیں جی
شوکت پراچہ: اور مقصد یہی ہے کہ جو، سب سے پہلے آپ کے صوبے پہ یہ الزام لگتا ہے کہ جو ادھر سے سینیٹر بن کے آتے ہیں وہ کروڑوں روپے دیتے ہیں، حتی کے افضل خان شیر مروت نے تو ایک آدھ بندے کا نام بھی لکھ دیا تھا اپنے ٹویٹ میں، میں تو نام نہیں لینا چاہتا کہ اس نے اتنے پیسے دیے، تو اب اس سے جان چھوٹ جائے گی۔
مولانا صاحب: ہاں یہ جو ہماری کریڈیبیلٹی ہے وہ متاثر ہوتی ہے وہ ذرا محفوظ ہو جائے گی۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #محمدریاض
ممبرز ٹیم جےیوآئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
ایک تبصرہ شائع کریں