قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پشاور مفتی محمود مرکز میں میڈیا سے گفتگو
12 جولائی 2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
فاصلہ بڑھ گیا تھا پشاور آنے میں تو میں نے کہا پشاور آرہا ہوں تو آپ صحافی دوستوں سے بھائیوں سے ملاقات بھی ہو اور کچھ حال احوال بھی ہو، یہاں کی روزانہ کی تازہ خبر جو ہے وہ تو ہمیشہ بدامنی ہی ہوا کرتی ہے اور کوئی انتہائی اندوہناک واقعہ روزانہ کا خبر بنتا ہے۔ باجوڑ میں جو ہمارے ایک نوجوان شہید ہوئے ہیں میں اس پر باجوڑ کے عوام سے بھی تعزیت کرتا ہوں، ان کی پارٹی سے بھی تعزیت کرتا ہوں اور علماء سے بھی تعزیت کرتا ہوں۔ وزیرستان میں اور دوسرے علاقوں میں آئے روز انتہائی ناقابل برداشت واقعات ہوتے رہتے ہیں تو یہ صوبہ جو ہے وہ امن و امان کے لحاظ سے تو میرے خیال میں اس وقت سب سے زیادہ بدامنی کا شکار ہے۔ بلوچستان کی یہی صورتحال ہے، سندھ میں ڈاکوں کا راج ہے تین صوبے اس وقت بدامنی کے لپیٹ میں ہیں اور حکمرانوں کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی بلکہ میری رپورٹ یہ ہے کہ ہمارے حکمران مسلح گروپوں کو بھتے دیتے ہیں اور جب وہ اپنی حفاظت بھتے اور رشوتیں دے کر کریں گے اور ان کی جیبیں بھریں گے تو اس سے کیا ان کے اُوپر اثر ائے گا وہ تو ان کے اور حوصلہ افزائی ہوگی اور ہمارے اگر حکمرانوں کی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی ہوگی، علاقے کے جو مؤثر ترین شخصیات ہوتی ہیں ان کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی ہوگی تو پھر یہ د ہشت گردی کیسے ختم ہوگی۔
تو عوام ہی متاثر ہوں گے غریب ادمی ہی متاثر ہوگا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر ان کو پیسے دے دو تو پھر آپ مسلمان ہیں اور اگر آپ ان کو پیسے نہیں دیتے تو پھر آپ واجب القتل ہیں یہ کون سے شریعت کا مسئلہ ہے، یہ کہاں سے آیا ہے، ہم بہرحال مسلح گروپوں کے رٹ کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ ہر قیمت پر ایک غیر شرعی غیر اسلامی اقدامات کر رہے ہیں۔ افغا نستان کے علماء کا بھی یہی فتویٰ ہے پاکستان کے علماء کا بھی یہی فتویٰ ہے اور دونوں ممالک کے متفقہ فتووں کے خلاف اگر کوئی نوجوان اسلحہ اٹھاتا ہے اور مسلمانوں کہ زندگی کو اجیرن کرتا ہے، لیکن دوسری طرف ریاست بھی عوام کے لیے وہ کردار ادا نہیں کر رہی ہے جہاں ان کے اپنا مسئلہ پیش ہو جاتا ہے تو وہاں رد عمل بھی دیتے ہیں بھرپور طور پر دیتے ہیں لیکن عوام کے معاملے پر وہ تماشائی بنے رہتے ہیں تو اس لیے ریاست کے حوالے سے بھی لوگ مطمئن نہیں ہیں کہ یہاں پر کوئی بہتر صورتحال ہو اور لوگ مطمئن ہو سکے۔
یہ ابتدائی میری گفتگو ہے اگر آپ مزید کچھ سوالات کرنا چاہیں گے تو ان شاءاللہ میں کوشش کروں گا کہ اس کے جوابات دے سکوں۔
سوال و جواب
صحافی: مولانا صاحب سینیٹ انتخابات ہونے جا رہے ہیں، کل خیبرپختونخواہ میں ملاقاتیں بھی ہوئی ہے، اس حوالے سے کیا لائحہ عمل طے کر رہے ہیں اس حوالے سے ان کو کس بات کی دہائی کرائی گئی ہے۔ دوسری یہ بات کی جارہی ہے کہ اس وقت خیبرپختونخواہ میں اپوزیشن کہ جو اس مخصوص نشست سٹرانگ ہوتی جا رہی ہے تو کیا اگر کبھی ایسا موقع ملتا ہے کہ صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانا ہو تو کیا اپوزیشن ساتھ دے گی؟
مولانا صاحب: دیکھیے جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے وہ تو ابھی اس پر کوئی مشورہ ہے نہ کوئی سوچ ہے اس حوالے سے اور میری ترجیح یہ ہوگی کہ تبدیلی آئے صوبے میں تبدیلی آئے لیکن اگر پی ٹی آئی اکثریت میں ہے تو پی ٹی ائی کے اکثریت کے اندر ہی ائے، وہی لوگ تبدیلی لے آئیں تو وہ زیادہ بہتر ہوگا بنسبت اس کے کہ اپوزیشن جو ہے متحرک ہو اور حکومت کی تبدیلی آئے۔ تو اگر ایک پارٹی کے اندر جو ہمارا یقین ہے ہمارا یقین ہے شک نہیں ہے، گمان نہیں ہے، دعویٰ ہے کہ ہمارے صوبے کے اکثریت جعلی ہے دھاندلی کی پیداوار ہے تاہم سیاسی کشمکش کا متحمل صوبہ شائد نہ ہو تو اگر ان کے اپنی پارٹی کے اندر تبدیلی اتی ہے تو وہ زیادہ مناسب ہوگا میرے نزدیک، باقی پارٹی جو فیصلہ کرے گی وہ انے والے وقت میں جس طرح وہ چاہیں گے لیکن جہاں تک آپ کے پہلے سوال کا تعلق ہے تو دیکھیے سب چیزیں ابھی ابتدائی مراحل میں ہے مسلم لیگ سے کچھ ہماری شکایت پیدا ہو گئی تو ہم ذرا بیٹھ گئے اس کے لیے، پیپلز پارٹی کی کوئی شکایت پیدا ہو گئی تو ہم آپس میں بیٹھ گئے تو ابھی بالکل ابتدائی مراحل کی صورتحال ہے اور کیا ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے سینٹ کے الیکشن کے لیے ابھی میں اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ یہ باتیں زیر گردش ہیں کہ عمران خان کے دو بیٹے بھی پاکستان میں آرہے ہیں کیونکہ یہاں پر موروثی سیاست ہو رہی ہے تو کیوں نہ وہ نہ کرے۔ اس پر آپ کیا کمنٹ کرتے ہیں کہ آنا چاہیے یا نہیں آنا چاہیے؟
مولانا صاحب: میرے خیال میں آپ کے والد شاید صحافی نہیں تھے اس لیے آپ موروثی موروثی کا لفظ استعمال کرتے ہیں یہ مغرب کا اصطلاح ہے اور ہم مسلمانوں نے ان کے پیروکاری میں استعمال کی ہوئی ہے۔ موروثی کیا چیز ہوتی ہے کیا انبیاء کی نبوت موروثی نہیں تھی اگر نبوت کا عظیم الشان منصب النبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی تو مسلمانوں کو اس حوالے سے اس طرح کے تحفظات کا اظہار کرنا یہ تو بالکل جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا جب تم قدم قدم بالشت بالشت پچھلی قوموں کی اس طرح پیروی کرو گے کہ اگر وہ گوہ کے غار میں گھسنے لگے تو تم بھی وہاں ان کے پیچھے گھسنے لگو، تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ یہو د و نصارٰی ہوں گے تو آپ نے کہا اور کون ہو سکتے ہیں۔
صحافی: مولانا صاحب اس وقت بڑا مسئلہ پی ٹی ائی سے زیادہ امن و امان کا قیام ہے کیا دیکھ رہے ہیں حالات پھر دوبارہ دو ہزار سات آٹھ کی طرف جا رہے ہیں یا اس سے بھی خطرناک، کیونکہ اس دفعہ تو کسی کا لحاظ نہیں ہو رہا چاہے عالم دین ہو یا کوئی سیاسی کارکن ہو یا کوئی سرکاری ملازم
مولانا صاحب: دو ہزار چھ سات میں مکمل امن و امان تھا، اس وقت ہماری حکومت تھی اور چترال سے لے کر کوہستان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، وزیرستان تک کہیں پر بھی کوئی پولیس چوکی نہیں تھی جو آپ کو رات کے وقت سفر میں پوچھ سکے کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں۔ کہیں پر بھی، گورنر ہاؤس کے سامنے آپ گزرے، چیف منسٹر ہاؤس کے سامنے آپ گزرے، سیکرٹیریئر کے سامنے آپ گزرے ہیں کسی قسم کی کوئی پولیس چوکی نہیں تھی کہ یہ پوچھے کہ آپ کدھر جا رہے ہیں یہ امن و امان کی صورتحال تھی، آج آپ اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے، نکلتے ہیں تو سو دفعہ سوچتے ہیں کہ میرا کیا بنے گا۔
تو اس وقت صورتحال بالکل ایسی ہے کہ عام آدمی کی زندگی جو ہے وہ غیر محفوظ ہے اور اگر اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں نے رابطہ کیا، بات چیت کی تو ہم اس حوالے سے ضرور بات چیت بھی کریں گے ہم یہ بھی چاہیں گے کہ صوبے میں اس حوالے سے ہم ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں تمام دوستوں کے مشورے کے ساتھ اس سارے صورتحال پہ غور کریں اور اس سارے صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی بنائیں ۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ آپ کے خلاف باتیں کرتے ہیں پھر دوسرے دن آپ کے گھر آتے ہیں پھر اسی دن آپ اعلان کرتے ہیں کہ صوبے میں اگر تبدیلی ائے گی تو ہم اس کا حصہ بنیں گے، کچھ عجیب سی الجھن ہے۔
مولانا صاحب: دیکھیے گزارش یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور جمعیت کے درمیان ایک زمانہ بہت تلخ گزرا ہے ہم اختلاف کو تو ختم نہ کر سکے شاید لیکن اختلاف کے ساتھ جو اختلاف کے رویے ہوتے ہیں اس میں نرمی لاسکیں، تو ظاہر ہے کہیں نہ کہیں کسی گوشے سے کوئی تنقید تو ہوتی رہے گی لیکن ہم تعلقات کو معمول پر لانے، پیپلز پارٹی سے بھی ہمارے اختلاف ہیں لیکن کوئی دشمنی نہیں ہے، مسلم لیگ سے بھی اختلاف رائے ہے لیکن کوئی دشمنی تو نہیں ہے، اے این پی سے بھی ہمارے اختلاف رہا ہے لیکن دشمنی تو نہیں ہے، ملتے جلتے ہیں احترام کا تعلق ہے اور پی ٹی آئی سے بھی اب تقریباً وہی صورتحال بن رہی ہے ہم مل رہے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ان کے نوجوان اتے ہیں بیٹھتے ہیں میرے ساتھ، مجھ سے سوالات کرتے ہیں پوچھتے ہیں بہت مسائل پر وہ اپنا ذہن صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو میرا خیال اس پہلو کو بھی آپ ذرا اجاگر کریں نا اگر کسی نے تنقید کی اس کو تو آپ اجاگر کر لیتے ہے لیکن وہ دوسرے پہلو کو اجاگر نہیں کر رہے۔
صحافی: مولانا صاحب پھر لوگ بھی جو ہے اس میں کہہ رہے ہیں کہ جو فاٹا مرجر ہے وہ ریورس ہو رہا ہے۔
مولانا صاحب: دیکھیے پورے آئین میں ایک آرٹیکل یا شاید دو وہ فاٹا سے متعلق تھی ان دو کو حذف کیا گیا اور پورا آئین کوئی دو سو دفعات کے قریب ان پر لاد دیا گیا اور ڈیبیٹ نہیں ہوئی، بغیر ڈیبیٹ کے آئین میں اتنی بڑی ترمیم کی گئی۔ ایک ہمارا فاٹا علاقہ ہے اور یہ صرف پاکستان میں نہیں، ا نڈیا میں کشمیر کا یہی سٹیٹس تھا تقریباً جو ہمارے ہاں فاٹا کا تھا پوری دنیا میں 80 سے زیادہ ممالک وہ ہوں گے کہ جن ملکوں کے اندر مختلف علاقوں کے سٹیٹس مختلف ہیں اور وہ گزارا کر رہے ہیں اسی سٹیٹس کے تحت وہاں نظام چل رہے ہیں۔ ہم نے کس کے اشارے پہ کیا، کس کے دباؤ پہ کیا اور ہماری سیاسی جماعتیں کس کے سامنے سرنڈر ہوئیں، مجھے شکایت ہے اپنے بھائیوں سے اور آج اس کو واپس کرنا ملکی مفاد ٹھہرا، سو غلط فیصلہ تھا، ان کو تسلیم کر لے جانا اسے چاہیے پوری تمام سیاست دانوں کو سیاسی پارٹیوں کو اور اس وقت کے حکمرانوں کو، جب ان کی کوئی سیاسی بصیرت نہیں ہے، ان کی نظر صرف ناک کے نوک تک پہنچتی ہے اس سے اگے نظر نہیں ہے۔ جمعیت علماء اسلام کی بصیرت دور اندیشی ہے ہمیں اندازہ تھا اندازہ ہی نہیں یقین تھا کہ یہ نہیں چلے گا یہ نظام، آپ مجھے بتائیں میرے ساتھ وعدہ کیا کہ مرجر سے متعلق جو دفعات ہیں جو نکات ہیں وہ ہم واپس لیں گے، آپ صرف ایک بات مان لیں کہ پشاور ہائی کورٹ کے اختیارات کو فاٹا تک توسیع دی جائے، صرف ایک بات مان لو، میں نے ان سے کہا کہ پھر پشاور ہائی کورٹ کی توسیع کا کیا مطلب ہے یہ تو مرجر ہے آپ اسلام اباد ہائی کورٹ کی توسیع کیوں نہیں کر رہے فاٹا تک، وفاق کے زیر انتظام ہے اور وفاق کی عدالت جو ہے وہ دور ہے میں نے کہا بینچ بنتے ہیں آپ لاہور اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچ بنا دے پشاور میں، فاٹا میں بنائیں اور پھر میں نے ان سے کہا کہ عدالتوں میں دو طرح کے مقدمے اتے ہیں ایک فوجداری ہوتا ہے وہ تو چلو روزمرہ کے واقعات سے متعلق ہوں گے، ایک دیوانی ہے، دیوانی مقدمات کے لیے لینڈ ریکارڈ ہونا چاہیے، 125 سال سے فاٹا میں کوئی لینڈ ریکارڈ نہیں ہے، کوئی بندوبستی نظام نہیں ہے۔ آج اٹھ سال گزر گئے ایک پٹواری نہیں جا سکتا، جائے گا تو کرے گا کیا اور عدالتیں کس لیے لے جا رہے ہو ادھر، جب دیوانی کیس ہی وہاں پیش نہیں ہو سکے گا اس وقت تک بھی وہاں پر کوئی نہ قانون گو جا سکتا ہے نہ کوئی پٹواری جا سکتا ہے نہ زمینوں کی تقسیم ہو سکتی ہے اور آپ کی دلچسپی کے لیے ذرا تھوڑا سا مزہ بھی لے لینا آپ لوگ، ایک صوبے کے بڑے آفسر نے مجھے کہا کہ لینڈ ریکارڈ ہم بنا رہے ہیں وہ زمینوں کی تقسیم ہو رہی ہے، میں نے کہا، کون کہاں، انہوں نے کہا سیٹلائٹ سے ہم تصویریں لے رہے ہیں اور سیٹلائٹ سے ہم تقسیم کر رہے ہیں تو میں نے کہا اس سیٹلائٹ سے نیچے زمین پر بھی اترنا پڑے گا یا نہیں۔
صحافی: اگر ریورس ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے تو آپ ساتھ دیں گے؟
مولانا صاحب: ابھی تک تو پوری بات سمجھ میں آ جائے نا، کمیٹی بنائی ہے اس میں پشتون کتنے ہیں، مجھے بتایا جائے اس میں صوبہ خیبرپختونخواہ کے لوگ کتنے ہیں، تمام سیاسی پارٹیوں میں صرف مجھے کہا گیا ہے کہ آپ اپنی پارٹی نمائندہ دے دیں تاکہ اس میں آپ شریک ہو کیوں کہ آپ فریق تھے اس وقت، ہمیں فریق تسلیم کیا جا رہا ہے اس وقت ہم نے اپنے نمائندہ نہیں دیا ان کو، ہم اس کو غور کر رہے ہیں مزید کی ہے کیا ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں اور آج میں اعلان کر رہا ہوں آپ کے سامنے کہ کل ان شاءاللہ العزیز جو قبائلی جرگہ ہے جس کی میٹنگ یہاں بھی ہوتی رہی ہیں، شہر میں دوسری جگہ بھی وہ گرینڈ جرگہ قبائل کا کل دوبارہ بیٹھے گا اور ان کی مشاورت سے ہم اگلا اقدام کریں گے، ہم اپنا نمائندہ بھی دیں گے تو جے یو ائی کا نمائندہ کیوں دیں، فاٹا کے نمائندے ہونی چاہیے اور ہم ان سے درخواست کریں گے کہ بھئی آپ مشاورت دیں آپ رائے دیں ہم نے پہلے بھی جو فیصلے کرنا چاہے وہ فاٹا کے عمائدین کی مشورے سے کرنا چاہے اور آج بھی ہم اگلا فیصلہ کریں گے تو فاٹا کے عمائدین کے مشورے سے کریں گے۔ تو کل ان شاءاللہ بڑا گرینڈ قسم کا بڑا جرگہ قبائل کا ہوگا اور یہ حقیقی قبائل ہیں۔ بات قبائل کی سیاسی مستقبل کی تھی، سیاسی مستقبل کی تھی تجویز آئی تھی کہ انضمام کیا جائے ہم نے کہا نہیں قبائل کو اختیار دو۔
صحافی:۔۔۔
مولانا صاحب: ہمارے صوبے کا پیسہ صرف اس لیے ہے کہ پارلیمانی سیکرٹری بنائے جائیں، کابینہ میں توسیع کی جائے، مراعات میں اضافے کیے جائیں اور عیاش زندگی گزارنے کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں اور غریب آدمی جہاں جائے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ چیزیں وہ سوالات پیدا کر رہی ہیں عام آدمی کے اندر کہ یہ حکومت نہیں ہے، یہ بھتے دینے والی حکومت ہے یہ مسلح لوگوں کو باقاعدہ ماہانہ بھتے بھیجتی ہے، اور تب جاکر ہم ڈیرہ اسماعیل خان بھی جا سکتے ہیں اور ہم پشاور بھی آسکتے ہیں۔ اور اللہ کا فضل ہے آپ کو اطمینان دلانا چاہتا ہوں، قوم کو اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ جمعیت علماء اسلام کبھی اس جرم میں شریک نہیں ہوگی۔
صحافی: مولانا صاحب اسجد محمود کے کیس کا کیا بنا جو اس کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تھی؟
مولانا صاحب: میں اس پر بات اس لیے نہیں کروں گا کہ صوبے کا ہر بچہ میرے لیے اسجد ہے، جو میرے بچوں کے ساتھ پورے ملک میں ہو رہا ہے، جو باجوڑ میں ہوا، جو مہمند میں ہوا، جو تیراہ میں ہوا، جو کرم ایجنسی میں ہو رہا ہے جو اورکزئی میں ہو رہا ہے، وزیرستان میں ہو رہا ہے، روزمرہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے ٹانک میں ہو رہا ہے، ڈی آئی خان میں ہو رہا ہے۔ جو بھی ہمارے اس صوبے کا یا اس ملک کا بچہ ظلم کا شکار ہوتا ہے یا بلوچستان میں کوئی بچہ ہمارا ظلم کا شکار ہوتا ہے وہ سب میرے لیے اسجد کی حیثیت رکھتے ہیں میری اولاد کی طرح ہیں میں اپنے بیٹے کے موضوع پہ بات نہیں کرنا چاہتا۔
صحافی: مولانا صاحب جیسے کہ آپ نے ابھی فرمایا پاکستان میں بدامنی، د ہشت گردی، بے روزگاری ہے ان حالات میں جہاں پہ ملک کے تین صوبوں کا یہ حال ہو، تو کیا آپ وفاقی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، کیا وفاقی حکومت فیصلوں میں خودمختار ہیں؟
مولانا صاحب: اگر میں وفاقی حکومت کے فیصلوں سے مطمئن ہوتا تو میں شامل نہ ہوتا پی ڈی ایم کا صدر ادھر ہے اور حکومت اُدھر ہے ۔حضرت حکومت پورے ملک میں چاہے وفاق کی ہو وہ بھی دھاندلی کی ہے چاہے صوبے کی وہ بھی دھاندلی کی ہے۔ اسمبلیاں بکی ہیں باقاعدہ، منصب بکے ہیں اب میں اس بکاؤ حکومت کا حصہ بنوں، لیکن حالات ملک کے بنتے ہیں اگر ملک پر جنگ مسلط ہوتی ہے انڈ یا حملہ کرتا ہے ہزار میرے شکوے موجود ہو لیکن وطن کی دفاع کے لیے ہمیں پھر ایک قوم بننا پڑتا ایک صف بننا پڑتا ہے۔
صحافی: مولانا صاحب قبائلی کے حوالے سے آپ نے تفصیلی بات کی ہے لیکن وہاں کی صورتحال کے متعلق نہ تو یہ ذمہ داری صوبائی حکومت اون کر رہی ہے نہ وفاقی حکومت کر رہی ہے، صوبائی حکومت قبائل کی صورتحال کی ذمہ داری وفاق پہ ڈال رہی ہے وفاق صوبے پہ ڈال رہی ہے کوئی امن کے حوالے سے بات نہیں ہو رہی
مولانا صاحب: دونوں صحیح کہہ رہے ہیں۔
صحافی: تو دوسرا گلہ مولانا صاحب آپ سے ہے باقی دنیا میں جب مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو یہاں مظاہرے ہوتے ہیں قبائلی اضلاع میں کشمیر جیسا ماحول بنا ہوا ہے غزہ جیسا ماحول ہے ڈرونز آرہے ہیں، مارٹر گولے گر رہے ہیں، عام شہری مر رہے ہیں تو کیا آپ کا لائحہ عمل ہے اس حوالے سے کیا کریں گے؟
مولانا صاحب: جمعیت علماء اسلام سے بڑھ کر ملین مارچ کس نے کیے ہیں، صوبہ بلوچستان اور سندھ میں جمعیت سے بڑھ کر ملین مارچ کس نے کیے ہیں، چاہے بین الاقوامی معاملات ہو وہ بھی مسلمان ہے وہ بھی ہمارے بھائی ہیں ان کا بھی ہمارے اوپر حق ہے اور ان کو پاکستان سے امید ہوتی ہے کہ یہ ایک واحد سرزمین ہے اسلامی دنیا کی کہ جہاں سے ہمارے حق میں اواز بلند ہو سکتی ہے سو ہم نے اگر فلسطین کی بات کی ہے تو وہ بھی بحیثیت مسلمان ہم پر حق تھا، اگر ہم نے اپنے ملک میں اپنے غریب کی بات کی ہے امن و امان کی بات کی ہے اور جس کے لیے جس طرح ہم فکر مند ہیں خدا کرے سب اس طرح فکر مند ہو جائے۔ تو ہم نے تو اپنی زندگیاں داؤ پہ لگائی ہوئی ہے اور یہ جو پشاور میں ہم نے ملین مارچ کیا تھا آپ کو نظروں میں تھا اس کی کیا عوامی پذیرائی تھی وہ آپ سب جانتے ہیں اسی لیے کہ عوام شکست نہ کھائیں، عوام کے حوصلے پست نہ ہو جائے عوام کے حوصلے بلند رہیں، تو لوگوں کے مورال کو اونچا کرنے کے لیے ان میں جرآت اور ہمت پیدا کرنے کے لیے یہ جلسے معاون ثابت ہوتے ہیں ابھی ہم نے چند دن پہلے بٹگرام میں کیا، دور دراز کا علاقہ ہے، پہاڑی علاقہ ہے لوگ جب جلسوں کے لیے اپنے گھروں سے اترتے ہیں تو کتنی مشقت کے ساتھ جلسہ گاہ میں پہنچتے ہیں لیکن پورے میدان میں اور سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
تو یہ قبولیت جو جمیعت علماء اسلام کو حاصل ہے اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو بڑے جلسے کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں جی حکومت آنے والی ہے، اگر نواز شریف بڑے جلسے کرتا ہے اور لوگوں کی پذیرائی جلسے میں ان کو حاصل ہوتی ہے تو علامات ہوتی ہیں کہ حکومت آ رہی ہے، اگر بینظیر بھٹو وہ جلسے کرتی ہے اور عوام کی پذیرائی جلسے میں ملتی ہے تو اگے انے والے حالات ہیں۔ جمعیت علماء اسلام نے تمام کی ریکارڈ توڑ دیے ہے تمام کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اجتماعات کی صورت میں عوامی پذیرائی کے حوالے سے کیوں راستہ روکا جا رہا ہے، کیا کوئی جمہوری تبدیلی کے بجائے کسی انقلابی تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیا یہ عوام اسی طرح بیٹھے رہیں گے، خاموش بیٹھے رہیں گے، جلسہ کریں گے اور بس ختم ہوگئی بات، اگر عوام کی تائید ہمارے ساتھ ہے کسی کے باپ کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ہماری حکومت کا راستہ رو سکے اور ہم لجاجت کے ساتھ، بوٹوں کے حضور بیٹھ کر اقتدار نہیں مانگیں گے، جو آئین کہتا ہے عوام کا فیصلہ عوام کا فیصلے کی انتظار میں ہیں ہم ان شاءاللہ عوام کا فیصلہ جمعیت علماء اسلام کے حق میں ہوگا۔
صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیے گا کہ ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاریاں ہو رہی ہے، میٹنگز بھی ہوئی ہے، کنونشن بھی، کیا پاکستان تحریک انصاف اپنے قائد کو رہا کرنے کے لیے آپ کیا سمجھتے ہیں اس دفعہ کامیاب ہوگی یا پہلی والی صورتحال ہوگی؟
مولانا صاحب: دیکھیے میں اس میں بڑا محتاط قسم کا تبصرہ کرنا چاہوں گا جہاں تک قائد کی رہائی کا تعلق ہے میں سب سے پہلے حمایت کر چکا ہوں کہ کوئی سیاستدان جیل میں نہیں ہونا چاہیے لیکن سیاستدان جیل جاتا ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ سیاستدان جیل نہیں جاتا ہم بھی جیلوں میں گئے ہیں، سالہا سال ہم جیلوں میں گزارے ہیں، لیکن تحریکیں رہائی کے لیے نہیں ہوا کرتی تحریک عظیم الشان مقاصد کے لیے ہوا کرتی ہے اور ملکی معیشت کو بہتر بنانا، عوام کی حالت زار کو ان سے باہر نکالنا، ان کو ماحول دینا، ان میں ایک حوصلہ بلند کرنا یہ مقاصد ہونے چاہیے۔ ہم جیلوں سے باہر اتے ہیں تو ہماری سیاست دانوں کا عام وطیرہ یہی ہیں کہ ہم کمپرومائز کر لیتے ہیں اسی وجہ سے جمہوریت کمزور ہو رہی ہے عوام کمزور ہو جاتے ہیں اسٹیبلیشمنٹ مضبوط ہو جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی فیصلہ کن قوت ہیں عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
صحافی: مولانا صاحب پاکستان کے حکمران اور پاکستان کے سیاست دان بہت زیادہ خوش ہے، بڑی اچھی زندگی گزار رہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام اور پھر خصوصاً یہ صوبے انتہائی مایوس ہیں، کیسے دیکھ رہے ہیں اس مایوسی کو، اس مستقبل کا بنے گا کیا؟
مولانا صاحب: اس مستقبل کا علاج ایک ہی ہے کہ جمعیت علماء اسلام کی حکومت قائم کرو، نہ رشوت رہے گی نہ بھتے رہیں گے، نہ بدامنی نہیں رہے گی، ملازمتوں کے دروازے کھل جائیں گے، معیشت بہتر ہو سکے گی، معیشت بہتر کرنے کے لیے ماحول چاہیے، اس کے لیے بھی بصیرت چاہیے، اس کے لیے حکمت عملی چاہیے اور جو لوگ صرف مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کرسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اور صرف اپنی کرسی کے مقاصد کے لیے جو ہے اور عیاشیوں کے لیے سیاست کرتے ہیں وہ کبھی عوام کے مرادوں کو پورا نہیں کر سکتے۔
صحافی: مولانا صاحب آپ کی حکومت آتی ہے تو صحافیوں کے لیے کچھ کریں گے؟
مولانا صاحب: صحافیوں کے لیے آپ تاریخ دیکھ لیں پشاور میں درانی صاحب کے حکومت کے دوران میں صحافیوں کے ساتھ کیا کیا گیا تھا اس سے بڑھ کر ہوگا۔
ان شاءاللہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز رائٹرز
#teamJUIswat
پشاور قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کی اہم پریس کانفرنس
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Saturday, July 12, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں