قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی ذاتی اور سیاسی زندگی پر مبنی خصوصی پوڈکاسٹ، کاشف الدین سید کے
14 جولائی 2025
السلام علیکم: ناظرین پختون ڈیجیٹل کے ساتھ میں ہوں کاشف الدین سید اور آج ہمارے ساتھ مہمان ہیں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب۔
مولانا صاحب یقیناً سیاست کے میدان کے ایک ایسے شہسوار ہے کہ ہر لمحہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ سیاست پر بحث کی جائے، لیکن آج پختون ڈیجیٹل کے ساتھ مولانا صاحب کا پہلا پوڈ کاسٹ ہے، ان کی زندگی پر کافی انٹرویوز ہو چکی ہیں، لیکن آج وہ پہلی بار پوڈ کاسٹ میں بیٹھے ہیں اور ہماری خواہش ہوگی کہ ہم مولانا صاحب کی زندگی کے حالات پر بات چیت کریں۔
مولانا صاحب کی ذاتی زندگی بہت سے رازوں سے بھری پڑی ہیں اور ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ اس مقام پر ہے۔
تو مولانا صاحب شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔
کاشف الدین سید: مولانا صاحب ستائیس سالہ ایک نوجوان سیاسی میدان میں آیا ایسے حالات میں کہ ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، کیا سیاست میں آنا حادثاتی تھا یا پہلے سے کچھ پلان تھا ؟
مولانا صاحب: بہت شکریہ، آپ نے ہمیں موقع دیا اور پرانے زخم تازہ کئیں۔
ہم نے تو جی خاندانی زندگی میں ابھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایسا دن زندگی میں آئے گا کہ مفتی صاحب اس دنیا میں نہیں ہوں گے اور ہم سیاست کریں گے۔میرے والد صاحب قبلہ گاہ رحمتہ اللہ علیہ ک اپنی خواہش یہ تھی کہ میں اپنی علمی اور تدریسی قوت کو بڑھاؤں کیوں کہ اس سال میری فراغت ہوئی تھی اور قاسم العلوم ملتان میں میرے تدریس کا پہلا سال تھا۔ تو ایک سال میں نے پورا کیا اور دوسرے سال بڑی عید سے پہلے حج کے موقع پر مفتی صاحب اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ تو ظاہری بات ہے کہ بجلی کا بٹن بند کرکے تاریکی ہو جاتی ہے، بالکل اسی طرح ہر طرف تاریکی تھی اور کچھ اندازہ نہیں تھا کہ اب ہم کیا کریں گے۔
پھر دوسری بات یہ کہ ضیاء الحق کا مارشل لاء تھا اور مفتی صاحب کا ان کے ساتھ بہت بڑا اختلاف آیا ،بہت ہی اصولی باتوں پر، اسلئے کہ ابتداء میں انہوں نے جو وعدے کیے تھے کہ میں تین مہینوں کے اندر ندر عام انتخابات کراؤں گا جیسا کہ بھٹو صاحب اور مفتی صاحب کے درمیان معاہدے میں طے ہواتھا، وہ بھی نہیں کئے، ان حالات میں ہمیں جو مشکلات درپیش تھی مفتی صاحب نے ان کا لحاظ بھی رکھا اور کافی عرصے تک ان کے ساتھ تعاون بھی کیا لیکن جب انہوں نے الیکشن سے مکمل طور پر انکار کر دیا اور کہا کہ مارشل لاء مارشل لاء جیسی ہوگی اور کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔ تو مفتی صاحب نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم نے قوم سے عہد کیا ہے، ہمارے بیچ معاہدہ ہوا ہے ہم
اس کے پابند ہیں اور میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں ادھر
خرچ کروں گا کیوں کہ میں نے قوم سے وعدہ کیا ہے۔ پھر اس کے بعد پیپلز پارٹی کے ساتھ رابطے شروع ہوئے۔ پھر اس میں نصراللہ خان مرحوم کا بہت بڑا کردار تھا
اور پھر کراچی میں ان کے پرانے ساتھی تھے پی این اے
ان تمام کے ساتھ نشست ہوئی، جس میں خان عبد الولی خان، شیر باز خان مزاری، نوابزادہ نصر اللہ خان، جماعت اسلامی کے لوگ تھے، پیر پگاڑا صاحب تھے تمام کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ اب ہم آئین کی بحالی کے لیے متفقہ تحریک چلائیں گے اور جن باتوں پر ہم نے معاہدہ کیا ہے اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ہم جدوجہد کریں گے۔
دوسری بات یہ کہ میری سیاسی زندگی کا آغاز مارشل لاء کے خلاف تحریک سے ہوا، ایم آر ڈی سے، اور میرے سیاست کا آغاز اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم سے ہوا، تو بس یہی میری قسمت تھی، یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں جو ذہن بن جاتا ہے تو بہرحال اس نے مجھے یہ مواقع ہاتھ دیے کہ جتنے آزمائشیں تھی گھریلو مسائل تھے، گلی محلے کے مسائل تھے، میرے مدرسہ قاسم العلوم ملتان کے مسائل تھے، جمعیۃ علماء اسلام میں اختلاف پیدا ہوا، ضیاء الحق صاحب کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے، جلسے جلوس تھے مظاہرے تھے، ان چیزوں سے میری سیاست کا آغاز ہوا ہے۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی پرانی تاریخ کے حوالے سے کچھ زیادہ مثبت نہیں تھے اور میری سیاست کا آغاز بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف اساس پر ہوا، تو اب ان کے کتابوں میں ہمیں کیسے لکھا گیا ہے، ہمارے بارے میں کیا باتیں ہوگی لیکن ظاہری بات ہے کہ میں ستائیس سال کا تھا اور سن آسی کا زمانہ تھا جب والد رحمہ اللہ انتقال کر گئے، آج دو ہزار پچیس ہے یعنی میں نے اس محاذ پر پینتالیس سال گزار دیے تو اس میں ہم نے کیا نہیں دیکھا ہوگا اور کیا نہیں سیکھا ہوگا، اوائل میں یقیناً ہم پر جذبات کا غلبہ ہوتا تھا، سنجیدگی مغلوب تھی، رفتہ رفتہ جذبات ثانوی حیثیت اختیار کر گئے اور ایک سنجیدہ سیاست جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر ہمارے حصے میں آئی اور الحمدللہ ہم آج بھی جس مسئلے کو دیکھتے ہیں تو پرچون کی سودا کے نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ ایک بنیادی، اساسی معاملات اور حل کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی اگر ہمارا اختلاف آتا ہے تو اس میں بھی اب جذباتیت نہیں ہے، بالکل ایک جینون وجہ کے ساتھ ان سے اختلاف کرتے ہیں، وقار اور دلیل کے ساتھ اختلاف رائے کرتے ہیں اور الحمدللہ وقت نے پھر یہ ثابت بھی کیا ہے کہ ہمارا مؤقف صحیح تھا اور ان کا موقف غلط تھا۔
کاشف الدین سید: آپ نے جمعیت علماء اسلام کی بات کی اس وقت جو نام تھے بڑے بڑے شخصیات، آپ کے اساتذہ کرام وہ مخالف گروپ میں چلے گئے آپ کے ذہن میں یہ تھا کہ اتنی قبولیت عوامی سطح پراور دینی طبقے میں مل جائے گی؟ یہی آپ کا موقف ہے ؟
مولانا صاحب: حضرت میری زندگی کا سب سے کربناک دور وہی تھا اور میں جب زندگی کے ان پندرہ بیس سال پر نظر دوڑاتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے میں آگ پر سے گزر کر آیا ہوں، کیوں کہ ہر طرف مشکلات ہی مشکلات تھی، گھر سے لے کر سیاست اور جماعت تک، لیکن اللّٰہ پاک ایک آزمائش سے گزار رہے تھے اور ہمارے ایک بڑے جو تھے حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ وہ جب دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو میرے امیر تھے، مولانا عبیداللہ انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہ جب دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو میرے امیر تھے، تو ان بزرگوں کی راہنمائی مجھے آخری زندگی میں نصیب ہوئی اور کوئی ایسی یادیں اللّٰہ پاک نے نہیں چھوڑی کہ آج میں سوچوں یا ارمان کروں کہ یہ بڑا مجھ سے ناراض ہوکر کیوں گیا، اس بڑے کے ساتھ میرا اختلاف کیوں تھا اور وہ دنیا سے ایسے گئے کہ ہمارے درمیان اختلاف رائے تھا۔ اور پھر اس کے بعد اگر کسی نے ہمارے ساتھ اختلاف رائے کیا بھی ہو تو ہم نے بڑی نرمی کے ساتھ اختلاف کیا ہے، سختی کے ساتھ نہیں کی، رابطے برقرار رکھی ہے، گپ شپ برقرار رکھا ہے، انا جانا غمی خوشی سب کچھ پال رکھا ہے اور کسی کے ساتھ ہم نے ایسا اختلاف نہیں کیا ہے کہ اللّٰہ نہ کرے اس میں تلخی کا عنصر غالب ہو۔
کاشف الدین سید: ایک طرف آپ ایم آر ڈی تحریک میں تھے اور وہاں پر بڑے بڑے نام، خان عبد الولی خان صاحب کا آپ نے ذکر کیا، خواجہ خیر الدین صاحب، ملک قاسم صاحب کا ذکر آپ نے کیا، بزنجو صاحب تھے، اتنے قد آور شخصیات کے ساتھ ایک نوجوان سیاستدان بیٹھا ہے اس کا اثر کیا تھا ؟
مولانا صاحب: کاشف الدین صاحب! یہ بھی میرے لیے ایک عجیب لمحہ ہے، لمحہ فکریہ اور آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ انہوں نے میری زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے ہوں گے اور میرے احساسات کیا ہوں گے؟ کیوں کہ میں ستائیس سال کی عمر میں بڑوں کی صف میں بیٹھ گیا، مطلب میری پہلی ٹیم وہ بزرگ وہ سفید داڑھیوں والے، علماء تھے یا سیاستدان، اور آج اسی عمر میں کہ اس صف کا ایک شخص بھی زندہ نہیں، آج مجھے تنہائی کا کتنا احساس ہورہا ہوگا۔ عمر میں مجھ سے بڑے لوگ ہوں گے لیکن جماعتی ذمہ داریوں کی لیول پر ان لوگوں میں ایک بھی نہیں۔ اگر پی این اے کے رہنما تھے تو ان کے آخری علامات میں بیگم نسیم ولی خان تھی، ہمارے لیے محترم تھی اور پھر میں نے باچا خان کے خاندان کی ہمیشہ عزت و احترام کی ہے، عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ہرچند کے سیاسی اختلاف بھی آتے رہتے ہیں، کبھی کبھی اس میں شدت بھی آجاتی ہے لیکن عارضی اور وقتی، وہ جو احترام کا رشتہ ہوتا ہے وہ نہیں ٹوٹتا۔
تو یہ سارے وہ بڑے تھے جنہوں نے میرے والد صاحب کے ساتھ کام کیا تھا سردار شیر باز خان مزاری، خان عبد الولی خان، بزنجو صاحب، سردار عبد القیوم خان، پیر پگاڑا صاحب، چوہدری ظہور الٰہی مرحوم، نوابزادہ نصر اللہ خان، اور میں نے یقینا ان بڑوں سے بہت کچھ سیکھا ہوگا اس وقت جب میں نے سیاست میں قدم رکھا مطلب طفل مکتب، اس میں شک نہیں کہ الحمدللہ میں نے ان بڑوں سے بہت کچھ سیکھا ہوگا اور میرے دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں کہ ان لوگوں نے میری سرپرستی کی ہے، شفقت کی ہے اور میرے حوصلے کو بھی بلند رکھا ہے۔ میں آپ کو ایک بات مثال کے طور پر میں کیسے اس بات کو بھول سکتا ہوں، خان عبد الولی خان کے ساتھ جب میں کہیں آتا جاتا تو ان کے ہاں حاضری ضرور لگاتا، تو ایک دن مجھ سے کہنے لگا کہ بیٹے میں نے بھی سیاست آپ کی عمر میں شروع کیا تھا اور نوجوان بندہ بہت جذباتی ہوتا ہے یہ ایک ہی قدم میں منزل تک پہنچنا چاہتا ہے لیکن ایسا تو ہو نہیں سکتا، تو پھر بندے پر مایوسی آجاتی ہے تو خیال رکھنا کہیں ایسا موقع اگر اجائے تو مایوس مت ہونا، اور آپ یقین کریں کہ مجھ پر سیاسی زندگی میں کتنے وہ مراحل ہوں گے جب یہ جملہ میرے سامنے آیا ہوگا اور میں نے اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا ہوگا۔
کاشف الدین سید: جیل کے مواقع بھی بہت آئے ہیں، ضیاء الحق صاحب کے مارشل لاء میں بھی اور اس سے پہلے بھی، کیا فرق تھا ضیاء الحق دور حکومت کے جیل میں اور بھٹو صاحب کے دور میں ؟
مولانا صاحب: بھٹو صاحب کے دور میں، میں جلوس میں نہیں تھا، ہمارے کچھ ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا، میں چوں کہ چھٹیاں منانے ملتان گیا تھا، میری دو مائیں تھی ان سے ملنے ملتان گیا تھا، مجھے کسی نے کہا کہ کچھ ساتھی گرفتار ہوئے ہیں۔ پولیس چوکی ہمارے نزدیک تھی، میں اپنے دو علماء ساتھیوں کے ہمراہ اس نیت سے گیا کہ میں اپنے ساتھیوں کو رہا کروا کے لاؤں گا، دوستوں کو تو میں نے رہا نہیں کروایا الٹا میں گرفتا ہوا۔ تو پھر میں نے بھی نیو سنٹرل جیل ملتان میں ایک ہفتہ گزارا۔ مجھ سے پہلے بھی وہاں پر مختلف علاقوں کے علماء کرام موجود تھے، ان میں پیپلز پارٹی کے لوگ بھی تھے، تو میں نے پیپلز پارٹی کے ساتھیوں سے کہتا کہ آپ تو حکومت کے لوگ ہیں،
آپ کیوں جیل میں ہے ؟ تو کہنے لگے جب بات ختم نبوت کی آتی ہے اور مسئلہ ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو، پھر بھٹو اپنی جگہ لیکن اس مقصد کے لیے پھر ہم سب کچھ لیڈر بھی اور پارٹی بھی چھوڑنے کو تیار ہوتے ہیں۔ تو اس وقت لوگوں کے ایسے جذبات تھیں، اور سن چوہتر (1974)میں پہلی دفعہ تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں مجھے جیل جانا پڑا۔ پھر 1977 میں پی این اے تحریک تھی، تحریک نظام مصطفیٰ تھی اس میں میں پشاور سے گرفتار ہوا اور ہری پور جیل چلے گئے اور والد صاحب بھی ہری پور جیل میں تھے اور بی این اے پارٹیوں کے بہت سے لوگ وہاں تھے۔ قاضی حسین احمد مرحوم اور ہمارا بیرک ایک ہی تھا، تو اس وقت تقریباً چالیس دن میں نے ہری پور جیل میں گزارے تھے۔
کاشف الدین سید: والد صاحب کا رد عمل اس وقت کیا تھا جب اس نے آپ کو جیل میں دیکھا ؟
مولانا صاحب: جیل میں تو انہوں نے اپنے جذبات ظاہر نہیں کیے کہ کیوں ائے ہو، کیوں قید کیے گئے ہو، بہرحال وہ ان کی شفقت پدری تھی۔ پھر جب وہ سہالہ چلے گئے
تو میری رہائی کی باتیں ہونے لگی تو میں نے والد صاحب کو پیغام بھیجا کہ یہاں تو ہماری رہائی کی باتیں ہو رہی ہے تو میرے خیال میں اس کا اثر اچھا نہیں ہوگا کہ لوگ یہاں جیلوں میں ہیں اور میں رہا ہو جاؤں۔
تو انہوں نے پیغام میں کہا کہ آپ ضمانت پر رہا نہیں ہو رہے، حکومت نے کیس واپس لے لیا ہے، جب انہوں نے کیس ہی واپس لے لیا تو تمہیں جیل میں کس لیے رکھیں گے۔ ایک تو وہ صورت ہوتی ہے کہ آپ درخواست دیتے ہیں کہ میری ضمانت کروائے، مجھے معافی دے دے، ایسی بات نہیں تھی۔
خیر یہ تو ان قانونی پہلو پر مجھے سمجھایا گیا کہ اگر آپ کی رہائی ہوتی ہے تو کیس ویدڈرال میں ہوگی ضمانت میں نہیں، لیکن پھر اس پہلو کو بھی واضح کیا کہ میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تم تعلیم حاصل کرو اور
کہا کہ میں ممتاز عالم دین کے طور پرمیں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ تو ان الفاظ نے مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالا، مجھ پررقت طاری ہوگئی، سوچ میں بھی پڑگیا کہ میرے والد صاحب میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، مجھے کیا بنانا چاہتے ہیں، مجھ سے کیا کیا توقعات رکھتے ہیں اور میں کیوں ان کے توقعات پر پورا نہیں اتر رہا ہوں؟
تو ان باتوں نے مجھ پر گہرا اثر کیا، تو خیر اس سال ہمارا چھوٹا دورہ(درجہ سابعہ یا موقوف علیہ) تھا اکوڑہ سے فارغ ہوئے تھے تو پھر میں ملتان چلا گیا اور وہاں درس و تدریس شروع کی، اور سنجیدہ درس کا آغاز کیا حالانکہ میرا پہلا سال تھا اکثر کتب ایسی کہ میں پہلی بار کھول رہا تھا اور پڑھا رہا تھا، لیکن وہاں مجھے بڑے اساتذہ کی رہنمائی حاصل تھی، بہت ہی شفیق اساتذہ اس میں بالخصوص مولانا محمد اکبر صاحب وہ میری بڑی رہنمائی فرماتے تھے، وہ میرے استاد بھی تھے اور کتاب میں جب کوئی ایسی مشکل جگہ آتی تھی تو ان کی طرف رجوع میں میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا اور وہ بھی بڑی شفقت کے ساتھ میری رہنمائی فرماتے تھے۔
تو یہ رہنمائی ان کی طرف سے مجھے حاصل تھی لیکن بدقسمتی سے اس سال میرے والد صاحب انتقال کر گئے اور درس کا وہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
پھر بھی میں نے کوشش کی کہ میں درس و تدریس کا سلسلہ برقرار رکھ سکوں تو وہ کتابیں جو میں روزانہ نو دس پڑھاتا تھا اس سے میں دو تین کتابوں تک آگیا۔
کاشف الدین سید: ابتداء میں کس فن کے کتب آپ پڑھاتے تھے ؟
مولانا صاحب: اس میں نحو بھی تھا، اصول فقہ،معانی، ادب، فقہ اور حدیث کے کتب بھی تھے۔
کاشف الدین سید: والد صاحب کی خواہش بھی تھی، پھر ان کی شخصیت ایک وقت میں وہ سیاسی مفکر بھی تھے، پھر علم دین میں محدث، مفکر، مفتی، اتنی ایک جامع شخصیت اور پھر ان کی اولاد میں درس و تدریس کی طرف ایک بھی نہیں گیا، آپ کمی محسوس نہیں کرتے ؟
مولانا صاحب: یہ بہت اہم سوال ہے اس میں شک نہیں، درس و تدریس یقیناً ان کی خواہش بھی تھی، منشاء بھی تھا اور میرا بھی شوق تھا لیکن یہ سیاست ایسی ایک چیز ہے کہ یہ ہر چیز کو تباہ کر دیتی ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر ہو تو
ڈاکٹر نہیں رہ جاتے، زمیندار ہو تو زمیندار نہیں رہ جاتے، انجینئر ہو تو انجینئر نہیں رہ جاتے، آفسر ہو تو آفسر نہیں رہ جاتے، بس جب سیاست غالب اجائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا، تو ہمارے سارے منصوبے، ذہنی خیالات منصوبہ بندیاں کہ میں ایسے درس و تدریس کروں گا وہ سب اپنی جگہ رہ گئی اور اب تو ظاہری بات ہے کہ پینتالیس سال ہم نے گزار دیے تو اب تو یہی کہیں گے کہ یہ تقدیر میں لکھا ہوا تھا۔
کاشف الدین سید: بچے ماشاءاللہ علماء کرام ہیں، علماء دین ہیں، درس کی طرف کی طرف کسی کا رجحان ہے یا آپ کی خواہش ؟
مولانا صاحب: بس گھر کے ماحول میں سب گھرے ہوئے ہیں حالانکہ میرا خیال تھا کہ اسعد (مولانا کا بڑا بیٹا مفتی اسعد محمود ) میں درس کی ایک بڑی صلاحیت موجود ہے، کچھ سال درس بھی کیا ہے، اب بھی ملتان قاسم العلوم کے مہتمم ہیں، اسجد (مولانا کا چھوٹا بیٹا مولانا اسجد محمود ) میں بھی تدریس صلاحیت موجود ہیں، لیکن گھر کے ماحول پر سیاست بہت غالب ہو چکا ہے بھائی ہو یا بیٹے سب کا رجحان ادھر ہے۔
کاشف الدین سید: ایم آر ڈی تحریک، پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف بہت سخت تحریک تھی، آپ کئی مواقع پر ایم آر ڈی کے کنوینر بھی رہ چکے ہیں، تو بہت سخت حالات تھے اس وقت آپ کو یہ احساس تھا کہ شائد اس طرف نہ آتے ؟
مولانا صاحب: کاشف الدین صاحب اللہ نے مجھے اس وقت ایسا حوصلہ دیا تھا کہ جوانی بھی تھی، سیاسی عمل میں میں نے شب و روز کا فرق ختم کیا تھا، میں ایسے سفر کیا کرتا تھا، میں نے یہ نہیں دیکھا کہ میری شام مسجد میں ہے، راستے میں کہیں ہوٹل پر ہے، نہ یہ دیکھا کہ اندھیری رات ہے اور میں پہاڑوں میں سفر پر ہوں، نہ یہ دیکھا ہے کہ اندھیری رات ہے اور میں جنگل میں سفر پر ہوں۔ تو میں نے دن رات برابر کیا تھا، اور پھر میں نے جیل اور گھر کا فرق ختم کر دیا تھا۔ میرا ایک مسقبل بسترہ تھا جیل کا بسترہ، مستقل ایک بکسہ تھا جیل کا بکسہ، برتن کا ایک بیگ تھا خالص جیل کے لیے ، بس ادھر میں گرفتار ہوتا تھا اور اگلے دن ساری چیزیں پہنچ جاتی تھی۔
کاشف الدین سید: مولانا صاحب جیل کی معمولات کیا تھیں ؟
مولانا صاحب: تو ظاہری بات ہے جیل کی اپنی معمولات ہوتی تھیں اس میں مطالعہ، تلاوت قرآن پاک، تفسیر کا مطالعہ، تاریخ کا مطالعہ، اکابر علماء کی تاریخ کا مطالعہ، تو یہ مواقع مجھے بہت اچھے ملے۔
کاشف الدین سید: کوئی ایسا موقع جو آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے باہر نہیں مل رہا تھا جو جیل میں ملا ؟
مولانا صاحب: تو ان مطالعے کا جو اکثر حصہ اب بھی میرے ذہن میں موجود ہیں تو وہ اکثر جیل کے زمانے کا ہے۔
کاشف الدین سید: ادب کے ساتھ تعلق رکھا ہے ؟
مولانا صاحب: ادب کے لحاظ سے چوں کہ حضرت میرا زیادہ تر وقت اردو میں گزرا ہے، ملتان میں اگر چہ سرائیکی تھی لیکن لوگ ہمارے ساتھ اردو میں بات کیا کرتے تھے، تو اردو ادب کے ساتھ ایک اچھا تعلق رہا ہے، سکول کے زمانے میں بھی میں اردو ادب پڑھتا تھا اور اس کے الفاظ اور جملے مجھے عجیب تاثیر دیتی تھی، میں اب بھی شاعر نہیں ہوں لیکن میرا جو ذوق ہے میرے سامنے کوئی غلط شعر نہیں پڑھ سکتا۔
کاشف الدین سید: شعراء میں کس کو پڑھا ہے ؟
مولانا صاحب: شعراء تو میں نے بہت پڑھے ہیں، اقبال، فیض، فراز، غالب، میر تقی میر، کو پڑھا ہے، لیکن زمانے کے جو بڑے شعراء ہیں جنہوں نے مجھے فن شعر میں مجھے متاثر کیا ہے تو یا فیض نے متاثر کیا ہے یا احمد فراز نے کیا ہے۔ حالانکہ نظریاتی لحاظ سے بہت بڑا فرق ہے۔
کاشف الدین سید: انیس سو اٹھاسی کے بعد آپ کی پارلیمانی زندگی شروع ہوگئی، تو پھر آپ کو پارلیمانی زندگی کے چیلنجر کیا تھیں ؟
مولانا صاحب: یہ واقعی ایک بہت اہم بات ہے ہم جب اسمبلی جا رہے تھے تو ہمارا یہ ذہن تھا کہ وہ نظریاتی جنگ جو ہم میدانوں میں لڑتے تھے اب وہ جنگ اسمبلی کے فلور پر آگیا ہے تو اب یہاں نظریات کا تصادم براہ راست ہوگا۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی بھی اسی اسمبلی میں ہوگی، مسلم لیگ بھی ہوگی، جمعیت بھی ہوگی، اے این پی بھی ہوگی، ساری پارٹیاں ایوان میں ہوں گی اور یہ مختلف نظریات کی پارٹیاں ہوں گی اور یہاں نظریاتی تصادم ہوگا تو دلیل کی بنیاد پر بات ہوگی اور پھر اصول کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے، اسی تصور اور خیال میں کھو گیا تھا اور یہ میرا ایک معیار تھا۔ لیکن جب میں نے وہ ماحول دیکھا تو سب کچھ الٹ تھا، پارلیمنٹ کے ماحول میں اصل اور فیصلہ کن قوت اسٹیبلشمنٹ تھی اور حکومتیں ان کی مرضی سے بنتی بھی اور ختم بھی ان ہی کے مرضی سے ہوتی تھی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا سوال ہے میرا، تمام سیاسی رہنماؤں پر بلکہ خود سے بھی یہ سوال پوچھتا ہوں کہ آؤ دوستوں اس پر بیٹھ کر غور کرے، ضیاء الحق کے زمانے سے میں خود تحریک میں رہا ہوں کہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کریں، قربانیاں دی اور آپ بھی ساتھ شریک تھے۔ وجہ کیا ہے تاکہ اس سوال کو حل کریں کہ اتنی قربانیوں کے باوجود آمریت مستحکم ہو رہی ہے، اسٹیبلشمنٹ طاقتور ہوگئی اور جمہوریت اور سیاسی پارٹیاں کمزور ہوگئی، اس علت پر سیاستدانوں کو چاہیے کہ غور کریں۔ اور میری نظر میں اس کی بڑی علت یہ ہے کہ جب وقت آتا ہے تو پھر ہم سمجھوتہ کر لیتے ہیں، اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرلیتےہیں، اپنی قربانیوں اور جدوجہد پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں، اپنے کارکن پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور یہ مجبوریاں ابھی تک ہیں اور شائد ایک وقت تک رہے گی۔
کاشف الدین سید: ایک دو مواقع ایسی آئی کہ آپ کی طرف سے ایسے اشارے ملے کہ نظام کی تبدیلی کے لیے ہم پارلیمانی سیاست کا راستہ چھوڑ دے، ایسی کوئی بات زیر غور ہے ؟
مولانا صاحب: حضرت اس میں تو شک نہیں کہ پارلیمانی جدوجہد ایک آئینی راستہ ہے اور اسے ہمارے اکابر نے طے کیا ہے، تمام مکاتب فکر کے علماء نے پارلیمنٹ میں اس پر ہاں کہا ہے۔ تو ایک راستہ جب آپ کے اکابر نے طے کیا ہو اور پھر آپ ملک میں آئینی اور قانونی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور وہ جمہوری اور پارلیمانی ہو، تو آپ کے سوالات اور اعتراضات دونوں پیدا ہوں گے۔ آپ کا یہ سوال سامنے آئے گا کہ آیا یہ تبدیلی آئین کے مطابق ہوئی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے؟
یہ سوال پیدا ہوگا کہ یہ فیصلہ قانون کے تابع ہوا یا طاقتور قوتوں کی مرضی سے ہوا؟
یہ سوالات اپنی جگہ ہیں لیکن اگر ہم آئینی راستہ چھوڑ دے اس وجہ سے کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا، مایوس ہو جائیں تو متبادل کیا ہوگا؟
جمعیۃ علماء اسلام ایک مذہبی جماعت ہے اس کے ساتھ مدارس بھی وابستہ ہیں، نوجوان بھی وابستہ ہیں، علماء وابستہ ہیں، اسلام پر مر مٹنے والے لوگ اس سے وابستہ ہیں۔ ان حالات میں اگر ہم آئین اور قانون اور پارلیمنٹ کا راستہ چھوڑ دے تو نوجوانوں کا ایک صف جو پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے یہ کدھر جائے گا، آیا پاکستان پھر اس کا متحمل ہوگا، اب تو شائد ہم کوشش کر رہے ہیں کہ شائد تدریجی طور پر اصلاحات لاسکیں، آج نہیں تو کل ٹھیک کر دیں گے، لیکن اس کے بعد جو حالات آج ہم اور آپ اس ملک میں دیکھ رہے ہیں بلکہ تمام اسلامی دنیا میں دیکھ رہے ہیں، افغانستان میں کیا گزرا، عراق، لیبیا،
شام میں کیا گزرا۔ یہاں پاکستان میں ان حالات کو دعوت دینا، تو الحمدللہ جمعیۃ علماء نے ملک کو ان حالات سے بچایا ہے اور وہ آئینی اور قانونی جدوجہد جس میں اکابر نے اصلاحات اور کوششوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اس سے مایوس نہیں ہوں گے۔
تو بار بار اس طرف ہماری جماعت میں بات گئی ہے کہ کیوں نہ اس کو چھوڑ دیتے ہیں اور یہ بات میڈیا میں بھی آگئی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن پھر سنبھالا گیا ہے کہ نہیں خدانخواستہ متبادل کے طور پر خیر کی جگہ کہیں شر زیادہ نہ ہو، تو ہم جذباتی ہو جائیں گے، ہم مایوس ہوں گے، ہم ناراض ہوں گے لیکن اگر ہم نے آئین اور قانون کے خلاف راستہ چنا تو پھر دوبارہ آئین اور قانون کی طرف لوٹ انا مشکل ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ملک کی سلامتی اور بقا کا سوال پیدا ہو جائے گا۔
کاشف الدین سید: پینتالیس سالہ سیاسی زندگی میں اپنے آپ کو کہاں کامیاب اور کہاں ناکام دیکھتے ہو ؟
مولانا صاحب: حضرت! لوگوں کی نظر میں کامیابی اور ناکامی یہ ہے کہ آپ منزل پر پہنچے یا نہیں؟
منزل سے مراد یہ بھی نہیں کہ آپ کے نظریے کی حکومت آگئی یا نہیں؟
ہمارے ہاں عمومی سیاست میں منزل صرف اقتدار کی کرسی تک پہنچنا، مقصد تک پہنچنا نہیں، کرسی تک پہنچ گئے بس آپ جیت گئے۔ لیکن اقتدار، حکومت، نظام یہ قوت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پہلے سیاسی قوت کو پیدا کرو گے،وہ سیاسی قوت جو آئینی نظام کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو، ہمارا آئینی نظام پارلیمانی ہے، اور پارلیمانی نظام میں الیکشن ہے اور پارلیمانی قوت حاصل کرنا ہے۔ تو پہلے عوام کی حمایت اور طاقت اس کو یکجاں کرنا، تو آپ خود جمعیۃ علماء اسلام کو دیکھ رہے ہیں اور آپ کا بہت ہی قریبی تعلق بھی ہوگا، تو آپ بھی ایسا سوچے کہ جب میں نے سیاست شروع کی تو اس وقت جمعیت کی عوامی پوزیشن کیا تھی اور آج اس وقت جمعیت علماء اسلام کی عوامی قوت کس پوزیشن میں ہے؟ تو ہم نے پارلیمانی سسٹم کی مناسبت سے پارلیمانی قوت حاصل کرنے کے لیے جس عوامی تائید کی ضرورت ہوتی ہے اس تائید میں الحمدللہ ہم نے کئی گنا اضافہ کیا ہے اور یہ ایک سفر ہے جو جاری ہے اور اس میں کوئی حادثہ نہ ہو ان شاءاللہ یہ ملک اور نظام کی تبدیلی کا ذریعہ بنے گی۔
کاشف الدین سید: سیاسی زندگی میں، ذاتی اور خاندانی زندگی میں نہیں، سیاسی زندگی میں کب مایوس ہوئے ہیں ؟
مولانا صاحب: سیاسی زندگی میں خوشی ہے کہاں؟
کاشف الدین سید: کوئی ایسا لمحہ جس نے بہت زیادہ دل دکھایا ہو ؟
مولانا صاحب: حضرت ناراضگی اس لیے آتی ہے کہ جب ایک واقعہ یا ایک ماحول سامنے اجائے اور ہم اس کے ساتھ مانوس نہ ہو، تو وہ بات بہت عجیب عجیب سی لگتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
تو جب بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئی تو اس کے بعد صدارتی الیکشن آیا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جو ایک دوسرے کے متحارب قوتیں تھے حریف قوتیں تھے انہوں نے اس پر اتفاق کیا کہ غلام اسحاق خان مشترکہ امیدوار ہوں گے تو میں بہت زیادہ خفا ہوا اور ہکا بکا رہ گیا کہ وہ پیپلز پارٹی جو دس سال مارشل لاء کے خلاف لڑی، وہ پیپلز پارٹی جس میں بھٹو کو پھانسی ہوئی، اور غلام اسحاق خان میرے لیے قابل احترام ہے لیکن میں سیاسی سوچ و فکر کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ ضیاء الحق کا ساتھی، بلکہ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بھٹو کے خلاف گواہیاں دی ہے اور بینظیر بھٹو ان کو ووٹ دے گی اور ہماری جمعیۃ علماء کی طرف سے نوابزادہ نصر اللہ خان امیدوار ہوگئے۔ تو میں نے بینظیر بھٹو کے ساتھ بات کی کہ آپ ایسا کیوں کر رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ فوج مجھ سے کہہ رہی ہے کہ ایسا کرنا ہے اور یہ میرے لیے بڑی پریشانی کی بات تھی، وہ جیلیں، مار پٹائی، کارکنوں کی بے عزتی، ساری باتیں اس لیے ختم کہ فوج مجھ سے کہہ رہی ہے۔ تو سیاستدانوں کے ان کمزوریوں پر یقیناً چوں کہ میں مانوس نہیں ہوتا تھا تو مجھے بہت برا لگتا تھا اور اب تو وہی صورتحال معمول بن گئی ہے۔
کاشف الدین سید: اس دوران آپ کے ساتھ بھی رابطے ہوئی تھی غلام اسحاق خان کی حمایت کے لیے ؟
مولانا صاحب: جی میرے ساتھ فوج کی قیادت نے رابطہ کیا تھا کہ آپ نے نصراللہ خان کو کیوں کھڑا کیا ہے، تو میں نے کہا کہ میں کیوں ان کو کھڑا نہیں کرتا، میرا حق ہے، کہنے لگے ہم نہیں چاہتے اور یہ میرے لیے ایک عجیب بات تھی۔
کاشف الدین سید: عالمی شخصیات میں، عالمی سیاسی ماحول میں بھی آپ رہ چکے ہیں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے، کشمیر افئیرز کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے، قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے، کون سی شخصیت آپ کو قابل توجہ لگا یا اس سے متاثر ہوئے ؟
مولانا صاحب: دیکھیے جی شخصیت مسئلہ نہیں ہے، کاز مسئلہ ہوتا ہے، جس موقف کے ساتھ آپ میدان میں نکلے ہوتے ہیں اس موقف میں جب آپ مقابلہ کرتے ہیں۔
ظاہری بات ہے کہ روس کے خلاف افغان لڑ رہے تھے تو ہمارے علماء نے جہاد کہا اور ہم نے تائید کی، اب اس میں عرب ہو، تاجک ہو، ازبک ہو، افریقن ہو، ایشین ہو دنیا کے
ہر طرف سے مجاہد آیا ہے اور اس جہاد میں حصہ لے رہا ہے تو ہم ان کے ساتھ ہیں ان کی تائید کرتے ہیں، لیکن اپنی پارٹی کو مسلح جنگ پر آمادہ نہیں کیا ہے جی، لیکن ایک کاز کے طور پر حمایت تھی۔ تو اس میں اسامہ بن لادن بھی تھے۔
کاشف الدین سید: ملاقات ہوئی ہے (اسامہ بن لادن کے ساتھ ؟
مولانا صاحب: ہاں، لیکن اس وقت کوئی جنگ یا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس وقت تو وہ بھی مغربی دنیا کیلیے عزیز تھے۔
پھر اس کے بعد جو واقعات ہوئے تو ظاہری بات ہے ایک سیاسی کارکن ظاہری منظر دیکھتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے بعض اوقات، جب تک وہ جو گہرے پردے ہوتے ہیں ان تک نہیں پہنچتا۔
تو اس وقت جب ملا عمر کی حکومت آئی تو پاکستان میں عمومی طور پر علماء نے اس کو قبول کیا، پھر جب اس پر حملہ ہوا اس کے بعد ہم نے طالبان کی حمایت کی اور پھر بیس سال تک انہوں نے جنگ کی امریکہ کے خلاف، پھر عراق پر حملہ ہوا تو ہم نے صدام حسین کی حمایت کا اعلان کیا کیوں کہ وہ ایک جائز بات تھی، جس حد تک کویت پر عراق کا قبضہ تھا تو ہم نے کویت قبضے کی حمایت نہیں کی، لیکن وہ بہت جلد ختم ہوگئی۔ اور بین الاقوامی دنیا نے بھی وقتی سزا اس وقت دی لیکن مستقل طور پر وہ بات ختم ہوگئی۔ اس کے بعد ایک غلط الزام پر کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور پھر امریکہ نے کہا کہ ہماری اطلاع غلط ہے، غلط اطلاع کے باوجود صدام حسین کو پھانسی دی گئی تو پھر ہم نے امریکہ کی مخالفت کی ہے۔ پھر انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوگئے بگرام ایئربیس کے تہہ خانوں میں، شبرغان میں، حیرتان میں، عراق کے ابوغریب جیل میں انسانیت کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے اور جو غلط ہوا اور انسانی حقوق جس طرح پامال ہوئے تو اس میں پھر ہم نے انسانی حقوق کی حمایت کی ہے، قوموں کی حمایت کی ہے، مظلوموں کی حمایت کی ہے اور جارح قوت کی مخالفت کی ہے۔
کاشف الدین سید: آخری سوال اور مختصر جواب دیجیے، کئی دفعہ آپ پر حملے ہوئے، آپ کی کیفیات کیا تھی ؟
مولانا صاحب: مجھ پر تو تین براہ راست خودکش حملے ہوئے ہیں، ایک راکٹ گھر پر لگا ہے،گھر بچ گیا تھا، ایک میرے بھائی عطاء الرحمن کے گھر پر، تین دفعہ میرے بیٹے پر حملے ہوئے ہیں اسعد پر، اللہ نے ان کو بچایا ہے تو ان حالات میں تو ہم قدم قدم خطروں سے گزر رہے ہیں، لمحہ لمحہ خطروں میں گزر رہا ہے لیکن اللہ پاک نے حوصلہ دیا ہے ہمت نہیں ہارتے، حوصلہ بلند ہوتا ہے اور یقیناً میرے بلند حوصلے میں میرے جماعت کے کارکنوں کا حوصلہ ہے۔ آپ یقین کرے جب باجوڑ میں اتنا بڑا حادثہ ہوا تو میں وہاں بھی تعزیت کے لیے گیا لیکن جب میں ہسپتال گیا اور مریضوں سے ملا، اب وہاں بھی میں تعزیت کے لیے گیا ہوں لیکن آپ یقین کرے کہ اتنا مجمع، اتنے شہیدوں کے ورثاء ایک ایک آکر مجھے حوصلہ دیتے تھے۔ میں یہاں جب مریضوں کے بیڈ کے پاس کھڑا ہوتا تھا وہ مجھے حوصلہ دیتے تھے کہ ہمت نہیں ہارنا ہمارے جذبے ابھی جوان ہے، کوئی بات نہیں، تو ایسے کارکن جب کسی کے پاس ہو وہ کیوں ہمت ہارے گا، اس کی کمر کیوں ٹوٹے گی۔
ان شاءاللہ جب تک جماعت ہوگی، جماعت کے ساتھ اس طرح مخلص اور قربانی والے نوجوان ہوں گے، مخلص ساتھی ہوں گے، ہر امتحان سے گزرنے کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہو تو فضل الرحمن زندہ ہے، موت کے بعد بھی زندہ رہے گا اور یہ جدوجہد اسی طرح آگے جاری و ساری رہے گا۔
کاشف الدین سید: مولانا صاحب زندگی اور جدوجہد کا قصہ اتنے مختصر وقت میں سمیٹنا مشکل ہے اور یقیناً یہ لمبی لمبی نشستوں کا تقاضا کر رہی ہے، اور آپ کا بہت شکریہ ادا کرتے ہیں آپ نے کافی وقت دیا، دل کی باتیں ہمارے ساتھ شئیر کیں۔
ناظرین! باتیں آپ نے سنی اور ہم پھر بھی موقع دیکھے گے کہ مولانا صاحب سے وقت لیں اور اس سے آگے جائیں، لیکن اب وقت چوں کہ اجازت نہیں دے رہا تو آپ بھی اجازت دے۔ اللہ حافظ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات، ممبر مرکزی کونٹنٹ جنریٹرز / رائٹرز گروپ
#teamJUIswat
MFR Podcast With Kashif Udin Sayedقائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی ذاتی اور سیاسی زندگی پر مبنی خصوصی پوڈکاسٹ، کاشف الدین سید کے ساتھ —
Posted by Maulana Fazl ur Rehman on Monday, July 14, 2025
ایک تبصرہ شائع کریں